وحدت نیوز(آرٹیکل)’’ریاض اب بھی اس سوچ میں پڑا ہے کہ عسکری حوالے سے نہ سہی کم ازکم سیاسی حوالے سے ہی یمن ایشو پر کچھ کامیابی حاصل ہو ،یا کم ازکم دن بدن آکٹوپس کی طرح لپٹتے اس مسئلے سے کچھ اس طرح جان چھڑ ائی جائے کہ دنیا کے سامنےفاتح ثابت نہ ہوں توکم ازکم شکست خوردہ تونہ کہلائیں ‘‘
یہ خلاصہ ہے ان خبروں اور تبصروں کا جو مسلسل عربی زبان کے اہم اخبارات اورعالمی میڈیا کے ایک حصے کی زینت بنتی چلی آرہی ہیں ۔
مارچ دوہزار پندرہ میں سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد اور اس وقت وزیر دفاع محمد بن سلمان نے سیاسی عدم استحکام اور معاشی طور پر انتہائی بدحال ملک یمن پر چڑھائی کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
بن سلمان کی جانب سے اس وقت یمن پر چڑھائی کے بارے انتہائی اطمنان اور یقین کے ساتھ کہا گیا تھا کہ یہ عمل ’’فوری اور سرجیکل‘‘(Quick and surgical)ہوگا ۔
ناتجربہ کار جذباتی شہزادے کو اس وقت بڑے بڑوں نے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یمن ایک دلدل ہے یہاں جو بھی گھسنے کی کوشش کرتا ہے اسے نہ صرف واپسی کا راستہ نہیں ملتا بلکہ وہ اس طرح پھنستاجاتا ہے جیسےکوئی چیز آکٹوپس کے پنچوں میں پھنستی ہے ،جس قدر بچاو کی کوشش کرتا ہے آکٹوپس کے حصار میں مزید پھنستا چلا جاتا ہے ۔
اس وقت مصرجیسا ملک مضبوط فوجی طاقت کے باوجود عملی طور پراس پورے عمل سے دامن بچاتا رہا ،مصر یقینا اس وقت کو نہیں بھولا تھا کہ جب اسے ماضی میں یمن سے اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے تک کا موقع نہیں ملا تھا اور فرار ہونا پڑا تھا ۔
ناتجربہ کار اور گھمنڈ میں مبتلا شہزادے کو اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ یمن پر چڑھائی کا نتیجہ عوامی انتفاضہ کی شکل میں نکل سکتا ہے جہاں مرد تو مرد خواتین بھی اس جارحیت کے آگے مقابلے کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوسکتیں ہیں ۔
یمن میں بنیادی طور پر چار اہم قوتیں موجود ہیں جن میں سب سے مضبوط ترین سیاسی انتظامی اور عسکری قوت انصار اللہ پارٹی کی ہے کہ جس میں یمن کے انتہائی اہم اور موثر قبائل شامل ہیں جن میں نمایاں طور پر حوثی قبیلہ ہے جس کے افراد انتہائی پڑھے لکھے ،ملکی نظم ونسق چلانے کی مہارت کے ساتھ ساتھ عسکری حوالے سے بھی انتہائی مضبوط قوت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔
سن 1962میں یمن میں بادشاہی نظام کے خاتمے کے بعد حوثی قبائل نے تیزی کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں انتہائی آرگنائز انداز سے خود کو منوایا ہے ایک طرف جہاں اس قبیلے میں خود اندرونی طور پر زبردست قسم کا انسجام اور مرکزیت پائی جاتی ہے تو دوسری جانب یہ قبیلہ دوسرے قبائل اور مکاتب فکر کے لئے بھی کھلی گنجائش رکھتا ہے ۔
ماضی میں حوثی قبیلے کے ساتھ تسلسل کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور زیادتیوں نے اس قبیلے کوایسے تجربات سے گذارا ہے کہ وہ ہرقسم کے دباو کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ مدمقابل کی چالوں اور ہتھکنڈوں کا بروقت تدارک بھی کرسکتے ہیں ۔
بنیادی طور پر حوثی قبیلہ کے افراد تمام قبائل میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہونے کے سبب جمہوریت اور مشترکہ عمل پر یقین رکھتے ہیں وہ یمن میں ایک شفاف جمہوریت کی ہمیشہ سے خواہش کرتے آئے ہیں ۔
دوسری قوت یمن کے سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح ہیں کہ جن کا پس منظر فوج سے تعلق رکھتا ہے اور سن باسٹھ کے انقلاب میں اس کے کردار نے اسے شہرت دی اور یوں سن انیس سو نوے سے لیکر دوہزار گیارہ تک اس نے یمن پر حکمرانی۔
علی عبداللہ صالح اور ان کی پارٹی پاپولر کانفرنس کو عرب عوامی تحریک کی لہر سے متاثرہ یمنی عوامی احتجاجی تحریک کے سبب اقتدار چھوڑنا پڑا ۔
ہمسائیہ ملک سعودی عرب جو کہ عرب دنیا میں ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کیخلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں سے پہلے سے ہی سخت ہراساں تھا اور وہ قطعی طور پر نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ہمسائے میں کم ازکم کسی قسم کی تبدیلی واقعہ ہو،لہذا شروع میں اس نے علی صالح کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن عوامی مقبولیت کے فقدان اور زمین میں بدلتے حالات نے سعودی اس کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں دیا ۔
اس کے بعد سعودی عرب کی کوشش تھی کہ یمن کی عبوری حکومت کے دورانیے کو ہی طول دے اور عبوری صدر منصور ہادی کو ہی قانونی مستقل صدر بنائے رکھے لیکن عوامی احتجاج کے بعد منصور ہادی کو اقتدار چھوڑکر سعودی عرب جانا پڑا اور یہی سے سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا آغاز ہوا ۔
صدر منصورہادی کی عبوری حکومت کی بحالی کے نام پر سعودی عسکری حملوں کو یمن کی اکثریت نے جارحیت سے تعبیر کی اور یہ وہ نکتہ تھا کہ جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں نے باہمی رسہ کشی کو ترک کرکے اس جارحیت کے مقابلے کے لئے خود کو تیار کیا یوں انصار اللہ اورسابق صدر علی صالح کے درمیان بھی اتحاد وجود میں آیا ۔
گرچہ علی صالح اور انصاراللہ کے درمیان موجود اس اتحاد کے بارے میں بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے کہ جس کی بنیاد صرف اور صرف بیرونی جارحیت کے سبب پیدا ہونے والی صورتحال ہے ۔
واضح رہے کہ علی صالح کا بیٹا احمد صالح گذشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے جبکہ بعض زرائع ان کی نظر بندی کے بارے میں خبریں نشر کرتے رہے ہیں ،کہا جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارات یہ امید رکھتا ہے کہ وہ علی صالح کو ان کے بیٹے احمد کے توسط سے اس بات پر مجبور کرے گا کہ انصار اللہ سے اتحاد ختم کردے اور اس کے ایجنڈے پر عمل کرے ۔
دوسری جانب یمن پر چڑھائی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بڑھتی نزدیکیوں میں بھی مزید اضافہ کردیا جو عرب ممالک میں عوامی تحریکوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے لئے جدوجہد کی صورت میں پہلے سے قائم ہوچکیں تھیں ۔
واضح رہے کہ لیبیا میں کرنل قذافی کو ہٹانے اور مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے تک بن سلمان اور بن زائد کےہی پلان تھے جو کامیابی کے ساتھ کام کرگئے ۔
یمن کی تیسری بڑی قوت اخوان المسلون کی اصلاح پارٹی ہے اصلاح پارٹی بھی قدرے آرگنائز اور نسبی عوامی پذایرائی رکھنے والی پارٹی ہے کہ جس نے سن دوہزار گیارہ میں یمنی عوامی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔
اصلاح پارٹی کے اخوانی نظریے(دینی سیاسی سوچ) نے اسے بھی سعودی عرب اور متحدہ امارات کے مد مقابل لاکر کھڑا کردیا ہے ،عرب تجزیہ کار کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ انصار اللہ کے ساتھ سیاسی و سماجی مقابلے کی ایک حدتک اصلاح پارٹی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کے اخوانی بیگ گرونڈ کے سبب بادشاہی نظام پر چلنے والے سعودی عرب اور امارات اسے اپنا پہلا دشمن سمجھتے ہیں جیسا کہ مصر میں وہ اخوانی حکومت کو بالکل بھی برداشت نہ کرسکے ۔
چوتھی بڑی قوت جنوبیون کی ہے در حقیقت جنوبی یمن کی علیحدگی پسند تحریک ہے جو انیس نوے میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے وجود میں آئی ہے جن کا مرکزی حکومت پر ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کے حوالے سےامتیازی رویہ رکھتی ہے اس تحریک میں کچھ قبائل اور سابق فوجی افراد کی موجودگی نیز جنوبی یمن میں شدت پسنداور دہشتگرد تنظیموں کی موجودگی جیسے القاعدہ اور انصار شریعیت،نے اسے کافی اہمیت دی ہے ۔
عرب تجزیہ کاروں کے مطابق متحدہ عرب امارات کے یمن میں مخصوص اور کنفیوژ کردینے والے ایجنڈوں نے اس تحریک کی عوامی پذیرائی کو انتہائی کم کردیا ہے ۔
گذشتہ دو سالوں میں اس تحریک سے وابستہ شخصیات اور اس کے عسکری ونگ کو کبھی اماراتی ایجنڈوں پر عمل کرتے دیکھا گیا ہے تو کبھی مخالفت کرتے ،یوں عملی طور پر یہ تحریک اور اس سے وابستہ عوام شدید کنفوژن کا شکار ہے ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات جنوبی یمن میں ہر اس جماعت اور گروہ کا پیچھا کررہا ہے جو مذہبی سیاسی نظریے کا حامل ہو ،ایک طرف جہاں امارات پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کی اس تحریک کی حمایت کررہا ہے تاکہ یمن کے پھر سے دو حصے ہوں ،وہیں پر عملی طور پےیہ بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اب تک کوئی بھی ایسا قابل عمل ایجنڈہ سامنے نہیں آیا کہ جس سے یمن کی تقسیم واضح ہو۔
گرچہ اس کنفیوژن نے یمن کے جنوبی حصے میں بدترین قسم کی بے چینی پھیلائی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے قبائل اب بھی جنوبی یمن کی علحیدگی کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی یمن کے دیگر حصے اس قسم کی علحیدگی کو برداشت کرینگے ۔
عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت یمن کی مضبوط قوت انصار اللہ ہی ہے کہ جس نے علی صالح کی پاپولر پارٹی کے ساتھ اتحاد بنانے کے بعد مزید مضبوطی حاصل کرلی ہے۔
سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا ایک اہم مقصد انصاراللہ کی قوت کوختم کرنا تھا لیکن اب قریب ڈھائی سال بعد ہر گذرتا دن سعودی عرب کو یقین دلا رہا ہے کہ اس کا فوری سرجیکل آپریشن نہ صرف بری طرح ناکام ہوا بلکہ وہ یمن کے آکٹوپس کی گرفت میں اس بری طرح پھنس چکا ہے کہ اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ صرف اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے ۔
عرب میڈیا میں نشر ہونے والی لیکس کے مطابق مسند شاہی پر براجمان ہونے کے خواب دیکھنے والا جوان شہزادہ بن سلمان اب یمن جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے خواہ اس کے لئے اسے یمن کی شرائط کو ہی کیوں نہ ماننا پڑے ۔
بن سلمان اچھی طرح جان چکا ہے کہ یمن جنگ کو مزید طول دینے کا نتیجہ اندرونی مسائل کو بڑھاوا دینا ہے ،پہلے سے ہی یمن پر چڑھائی کے فیصلے سے نالاں خاندان کے بڑے بن سلمان کی ولی عہدی سے سخت چراغ پاہیں جبکہ قطر کے ساتھ جاری کشیدگی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ۔
عالمی سطح پر یمن کی تباہ حال صورتحال اور پھیلتے وبائی امراض کے سبب دباو بڑھتا جارہا ہے اور اب حال ہی میں امریکہ میں تعینات اماراتی سفیر کی لیک ہونے والی ایمیلز نے بن سلمان سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ متحدہ عرب امارات اس کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے کہ اس نے یمن میں سویلین کے قتل عام کی تمام تر ذمہ داری سعودی عرب پر ڈالی دی ہے ۔
تحریر۔۔۔عابد حسین
وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں پڑھےلکھے نوجوانوں کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں داعش سے منسلک تنظیموں سے بہت زیادہ محتاط رہیں۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، پاک فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں پڑھےلکھے نوجوانوں کو اپنی طرف جذب کرنا چاہتی ہیں نوجوانوں کو چاہئے کہ داعش سے منسلک تنظیموں سے بہت زیادہ محتاط رہیں۔
پاک فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ملک کا مستقبل نوجوانوں سے وابستہ ہے اور اللہ نے پاکستان کو ذہین اور متحرک نوجوانوں سے نوازا ہے۔
انہوں نے کہا مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیوں کا ادراک ہے اور نوجوان ملک کو امن و خوشحالی کی طرف لے جائیں گے۔
(آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج کے سربراہ قمر جاوید نے آئی ایس پی آر ڈائریکٹوریٹ کا دورہ کیا جہاں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ان کا استقبال کیا۔
پاک فوج کے سربراہ نے آئی ایس پی آر میں انٹرن شپ کرنے والے نوجوانوں سے ملاقات کی اور کامیابی سے انٹرنشپ مکمل کرنے والے نوجوانوں کو مبارک باد دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو تشدد اور دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے فوج نے عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
پاک فوج کے سربراہ قمر جاوید نے پاکستانی نوجوانوں سے کہا کہ کامیابی کے لیے شارٹ کٹس کی طرف نہ جائیں بلکہ میرٹ اور قانون کی حکمرانی پر عمل کریں
انہوں نے نوجوانوں کو ہدایت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کامیابی و ترقی کے لیے اللہ پر ایمان، والدین کا احترام ، سخت محنت پرانحصار کریں۔
آرمی چیف نے نوجوانوں کو یقین دلایا کہ پاک فوج انہیں محفوظ اور مستحکم پاکستان فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے اور فوج اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے پشین اسٹاپ کوئٹہ میں ایف سی اہلکاروں پر خودکش حملے میں فوجیوں اور شہریوں کی قیمتی جانوں کے نقصان پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وطن عزیز کہ جشن آزادی سے ۲ روز قبل بم دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ناقابل تلافی نقصان ہے،انسانی جانوں سے کھیلنے والے درندے ہیں جو کسی رعایت کے مستحق نہیں،دہشت گرد طاقتیں بلوچستان کو عدم استحکام کا نشانہ بنا کر سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، قوم و ملک کے دشمن کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
انہوں نے کہاکہ کوئٹہ میں کالعدم مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں، جوکبھی ہزارہ شیعہ شہریوں اور کبھی سکیورٹی فورسز کو اپنی بربریت کا نشانہ بناتی ہیں،بھارت اور ملک دشمن قوتوں پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کے لیے کالعدم جماعتوں کو استعمال کر رہے ہیں،سیکورٹی فورسز پر حملے کی یہ بزدلانہ کاروائی ہمارے عزم و حوصلے کو پست نہیں کر سکتی،داعش اور کالعدم تنظیموں کہ خلاف اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں،کوئٹہ میں سانحہ کےوقت وزیراعلی بلوچستان کی لاہور میں نااہل وزیراعظم کے استقبالیہ میں موجودگی افسوسناک ہے،حکمران جماعتی وفاداریاں نبھانے کے بجائے قومی سلامتی واستحکام پر توجہ دیں ۔
علامہ راجہ ناصرعباس نے سانحہ میں شہید ہونے والوں کے غم زدہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہاکہ مجلس وحدت مسلمین دکھ کی اس گھڑی میں آپ کے غم میں برابر کی شریک ہے، اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم ملت تشیع سے زیادہ بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا جس نے بیک وقت سو سو عزیزوں کے جنازے اٹھائے لیکن کبھی وطن عزیز کی سلامتی اور استحکام کا سودا نہیں کیا، انہوں نے شہداء کی بلندی درجات اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی ہے ۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے افغانستان اور سعودی عرب میں شیعہ نسل کشی کے دل دھلادینے والے سانحات پر شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں داعش اور العوامیہ میں سعودی افواج کے ہاتھوں شیعہ نسل کشی پر عالمی قوتوں کی خاموشی قابل مذمت ہے،افغانستان کے علاقے میرزا اولنگ میں داعشیوں کے ہاتھوں شیعہ ہزارہ شہریوں کا بہیمانہ قتل عام انسانیت کی تذلیل ہے، نہتے شیعہ شہریوں کو گولیوں سے بھونا گیا، انہیں دروں سے نیچے پھینکا گیا ان کی خواتین کو اغواء کیا گیا ، انہوں نے کہا کہ افغانستان اور سعودیہ میں جاری انسانیت سوز مظالم نا قابل بیان ہیں ، کیایہ سب ظالمانہ اقدامات عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی نہیں، افغانستان میں جاری شیعہ نسل کے اصل ذمہ دار وہاں کی حکومت، انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور دہشت گردی کے نام نہاد مخالف امریکہ اور اس کے حواری ہیں۔ میرزا اولنگ کے والی نے مرکزی حکومت کو پیشگی آگاہ کیا تھا کہ یہاں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہ پنپ رہے ہیں فوری اقدامات کیئے جائیں لیکن کابل حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی اور ایک انسانی المیئے نےجنم لیا ۔
علامہ راجہ ناصرعباس نے العوامیہ میں آل سعود کی جارح افواج کے ہاتھوں بے گناہ شیعہ شہریوں کے قتل اورمساجد وامام بارگاہوں کی توہین کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی اور انہوں نے کہا کہ آل سعود مظلوم عوام کا کشت وخون کرکےقہر الہیٰ کو دعوت دے رہے ہیں ، انہوں نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی جانب سے افغانستان ، سعودیہ، یمن، بحرین ، کشمیر اور دیگر علاقوں میں انسانیت سوز مظالم پر مجرمانہ خاموشی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان تمام ملکوں کے مظلوم عوام کے ساتھ ہیں اور ان پر ہونے والے مظالم کی بھرپور مذمت کرتے ہیں ۔وہ وقت دو رنہیں کے جب ان بے گناہ شہداءکو پاکیزہ لہو رنگ لائے گا اور آل سعود کے ناپاک اقتدار کے زوال کا باعث بنے گا اور یہ ظالم خدا کے قہر اور انتقام کا شکار ہوں گے ۔
وحدت نیوز(کراچی) وطنِ عزیز پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے ملک دشمن، کرپٹ حکمرانوں کو نشانِ عبرت بنا کر وطنِ عزیز پاکستان اور اس کی عدلیہ کو ایک بار پھر زندگی عطا کی ہے۔ پاکستان کی عوام اب وطنِ عزیز میں خون کی ہولی کھیلنے والے تکفیری درندوں اور انکے سہولت کاروں کے ہولناک انجام کی منتظر ہے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع وسطی کے ترجمان و سیکریٹری اطلاعات عرفان حیدر نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے "پانامہ کیس" کا تاریخی فیصلہ سنائے جانے کے بعد مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے دفتر سے جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں کیا۔ عرفان حیدر کا کہنا تھا شریف خاندان پاکستان میں کرپشن کی اعلیٰ ترین اور منفی خصوصیات کا حامل خاندان ہے، اس خاندان کے بڑے، بچے بوڑھے جوان حتٰی کہ شریف خاندان کی خواتین بھی کرپشن میں اپنی مثال آپ ہیں، جس کی زندہ مثال اس خاندان کی چشم و چراغ مریم نواز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے خلاف تمام الزامات اپنی جگہ ایک حقیقت رکھتے ہیں جو کہ قوم کے سامنے روزِ روشن کی طرح سے عیاں ہیں لیکن نہ جانے کیا وجہ ہے کہ چند مخصوص سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ ان کرپٹ حکمرانوں کے خلاف اس تندہی سے آواز بلند نا کی گئی کہ جس طرح اس سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ملک و ملت کا پیسہ لوٹ کر عیاشی کرنے والے حکمرانوں کے خلاف اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تھا، تاکہ یہ بدبخت کرپٹ حکمران پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچتے اور نوبت یہاں تک نا آتی۔
عرفان حیدر نے اعلیٰ عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وطنِ عزیز کو دیمک کیطرح کھا جانے والے شریفوں کو فقط نا اہل قرار نا دیا جائے بلکہ ان شرفاء کی جانب سے لوٹے گئے قوم و ملت کے پیسے کو وطن واپس لانے کا عملی اقدام کیا جائے تاکہ ملک میں خوشحالی آئے، بیروزگاری کا خاتمہ ہو،اور ان حکمرانوں کو سرِ عام تختہ دار پر لٹکا کر نشانِ عبرت بنایا جائے تاکہ پھر سے کوئی پانامہ کیس معرضِ وجود میں نا آئے۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع وسطی کے ترجمان و سیکریٹری اطلاعات عرفان حیدر کا کہنا تھا کہ پانامہ کیس کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے سامنے اب سب سے بڑا چیلنج وطنِ عزیز پاکستان میں معصوم لوگوں کے پاک لہو سے ہولی کھیلنے والے تکفیری دہشتگردوں اور ان کے سیاسی، سماجی، مذہبی، روحانی اور نظریاتی سہولت کاروں کا جلد اور فوری خاتمہ ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کو کرپٹ حکمرانوں اور تکفیری دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں نے ہر دن ناصرف خون کے آنسو رلایا ہے بلکہ ان آنسوؤں سے کہیں زیادہ خون بہایا ہے جس کا حساب ہونا ابھی باقی ہے، اور ملک و ملت کے مظلوم شھداء باالخصوص سانحہ آرمی پبلک اسکول، سانحہ پارا چنار، کوئٹہ و مستونگ کے سانحات اور کراچی سمیت ملک بھر میں شھید ہونے والے پاک افواج کے افسروں، جوانوں اور عام عوام کے قاتل سفاک تکفیری دہشتگردوں اور انکے سہولت کاروں کے بھیانک انجام کے منتظر ہیں۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) صدام حسین نے چوبیس سال عراق پرحکومت کی، اس نے کس طرح حکومت کی یہ ساری دنیا جانتی ہے۔ عراقیوں پر ابھی صدام کے مظالم کم نہیں ہوئے تھے کہ امریکیوں نے نئے مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے ، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ اپنے منصوبے کے تحت داعش کے قیام کو بھی عمل میں لائے تاکہ عراق سمیت عالم اسلام کو اس کے ذریعے نقصان پہنچایا جا سکے لیکن انسان ناتواں سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ امریکی اور اس کے اتحادیوں کے حملے اور دہشت گردی سے اب تک لاکھوں افراد اس دنیا سے رخصت اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں ۔خصوصا داعش یا دولت اسلامیہ کی جانب سے خلافت کے اعلان کے بعد ان تکفیری دہشت گردوں نے عراقی عوام کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ جس کو بیان کرتے ہوئے ہماری روح تک لزر جاتی ہے ۔ لیکن ظالم کا قصر مظلوم کی آہو فغا ں کے سامنے زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا اور عراق میں بھی ایسا ہی ہوا، عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہونے کے باوجود کچھ دنوں پہلے عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے باقاعدہ موصل کی فتح کا اعلان کیا۔ یاد رہے موصل کو داعش کا گڑھ سمجھا جاتاتھا اور ان کے نام و نہاد خلیفہ ابو بکر ا بغدادی نے اسی علاقہ کی قدیم ترین مسجد" جامع النوری" سے اپنی خلافت کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔جس طرح داعش میں ابو بکر البغدادی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ا سی طرح موصل میں داعش کے کنٹرول کا دارو مدار مسجد النوری سے جڑا تھا۔ اس پر تین سال سے دہشت گردوں نے قبضہ کیا ہوا تھا اور اس کا 45 میٹر بلند مینار" الحدبا" اہم ترین مورچہ تھا جہاں سے وہ دور دور تک عراقی فوجیوں کو نشانہ بناتے تھے۔داعش کے پے درپے شکست کے بعد عراقی زرائع کے مطابق بالا آخر داعش نے یہ علاقہ چھوڑنے سے پہلے اس مینار کو بم دھماکے کے ذریعے زمین بوس کرادیایوں وہ اپنے ساتھ اپنی نشانی بھی خود ہی مٹا کر گئے۔
اس کے کچھ دنوں بعد عراقی حکومت نے فوجی پریڈ کے ذریعے فتح کا اعلان کیا جو کہ نہ صر ف عراقیوں کے لئے بلکہ دنیا کے ہر کونے میں موجود مسلمانوں کے لئے خوش خبری تھی ۔دوسری جانب شام میں بھی دولت اسلامیہ کو پے درپے شکست کا سامنا ہے اور وہ دن دور نہیں کہ شامی حکومت بھی داعش کے خاتمے کا اعلان کرے گی۔ اس وقت ایک اہم مسئلہ عراق و شام سے پسپا ہونے والے دہشت گردوں کا ہے جو اپنی پسپائی کے بعد اب اپنے اپنے ملکوں کو لوٹنا چاہتے ہیں ان دہشت گردوں میں بڑی تعدادمیں یورپی بھی ہے جس سے یورپ سمیت دیگر ممالک بھی سخت پریشان ہیں۔ دہشت گردوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے اب کسی نئے شکار کی تلاش میں ہیں تاکہ وہ اپنے ان کرایے کے قاتلوں کو مصروف رکھ سکیں اس سے ان کو دو فائدے ہونگے اول یہ دہشت گرد اپنے ملکوں کو لوٹنے کے بجائے نئے معرکہ میں کود پڑیں گے اور دوم سی آئی اے ، موساد اور ر ا اپنے لے خطرہ سمجھنے والے ملک کو ان دہشت گردوں کے ذریعے نشانہ بنائیں گے۔وطن عزیز بھی کئی دہائیوں سے دہشت گردی سے متاثر ہے اور آئے روز ملک میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور بد قسمتی سے القاعدہ ، طالبان سے لیکر داعش تک ہر دہشت گرد گروہ کی کوئی نہ کوئی جڑ پاکستان میں بھی موجود ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے 9/11 کے بعد سے ہم بھی ایک طرح سے حالت جنگ میں ہیں اور اس وقت آپریشن ردالفساد کا دور چل رہا ہے جس نے دشمنوں کی کمر توڑ دی ہے۔
پاک فوج اور سیکورٹی اداروں نے اس لعنت کے خلاف بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں ، دہشت گردی پر کسی حد تک قابو پالیا ہے مگر ہمارے دشمنوں کو کبھی بھی یہ برداشت نہیں ہے کہ پاکستان پھر سے امن کا گہوارہ بنے ۔ لیکن پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن ردلفساد کے زریعے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا رہے ہیں ۔ اسی حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ" داعش نے ہمارے نوجوانوں کو نشانہ بنایا اس تنازع کی نوعیت اور کردار اب تبدیل ہوئی ہے جس کے بعد آپریشن ردالفساد کے تحت کاروائی کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔پاک فوج نے وادی راجگال میں خیبر ۴ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے جس کا مقصد سر حد پار موجود جنگجوں تنظیم داعش کی پاکستانی علاقوں میں کاروائی کو روکنا ہے"۔دو دن پہلے پاک فوج نے"آپریشن خیبر 4 کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کا اعلان کیا ہے" اس اعلان کا ہونا تھاکہ پھر سے دہشت گردوں نے بے گناہوں کا قتل عام شروع کردیا ہے، کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ ہو یا کل لاہور میں ارفع کریم ٹاور کے قریب ہونے والا خودکش دھماکہ جس میں تقریبا پولیس اہلکاروں سمیت 26 افراد ہلاک اور تقریبا 50 زخمی ہوئے ہیں اور حسب معمول تحریک طالبان نے فوری حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاک فوج کی جانب سے آپریشن نے دہشت گردوں کو پسپائی کی طرف دھکیل دیا ہے اور وہ بے بس ہو کر عام شہریوں اور سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔لیکن اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف سرحدوں کی حٖفاظت سے نہیں ہوگا، ہمیں اپنی صفوں میں موجود ددہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں اور ان کے نظریہ کا پر چار کرنے والوں پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
ان دہشت گردوں کے اہداف میں سے ایک اصل ہدف تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ، تکفیری سوچ کے پرچار کرنے والے مختلف سر کاری ، نجی کالجزز، یونیورسٹیز، اسکولز اور مختلف اکیڈمیز کے ذریعے ہمارے نوجوان نسلوں کو گمراہ کرنے پر منظم طریقے سے کام کر رہے ہیں ۔ ہمارے تعلمی ادارے ان کااولین ہدف ہیں اس کی بہت سی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ سانحہ صفوراکے ملزمان اور ان کے سہولت کار سب تعلیم یافتہ اور ہمارے نامور یونیورسٹیز کے طالب علم تھے۔ لہذا دہشت گردی سے ہم سب متاثر ہیں پاک فوج اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے حصے کا کام انجام دیں خصوصا والدین اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں ، کوچنگ، کالج اور یونیورسٹی جا رہے ہیں کہہ کر ہمیں مطمئن نہیں ہونا چاہیے ۔بلکہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ واقعی ہمارے بچے پڑھنے جارہے ہیں؟
دوست کون لوگ ہیں؟ تعلیمی اداروں اور باہر ان کا کیا کردار ہے؟سوشل میڈا پر ان کی کیا ایکٹویٹیز ہیں؟ یہ والدین پر فرض ہیں کی کم سے کم ان چیزوں پر سخت نظر رکھیں تاکہ آپ کے اپنے لخت جگر بھی محفوظ رہیں اور اس ملک میں بسنے والے بھی خوش حال رہ سکیں۔ یقین جانے اگر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دیا تو ہم ہر میدان میں کامیاب ہوں گے۔ عراق غریب اور جنگ زدہ ملک ہونے کے باجود دہشت گردوں کو شکست دے سکتا ہے تو ہمیں ان مٹھی بھر دہشت گردوں کو سفایا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا بشر طہ کہ ہم سب مخلص ہوں اور اپنی ذمہ داریوں سے غافل نا ہوں۔ دوسری جانب ایک اہم سوال بھی اٹھتا ہے کہ جب بھی پاکستان کے اندورونی مسائل کسی اہم موڑ پر ہوتے ہیں، پاک افغان یا پاک بھارت سرحدوں پر کشید گی بڑھ جاتی ہیں یا ایک دم دہشت گردی کی نئی لہر شروع ہوجاتی ہے ۔آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ ؟سوچئے!