وحدت نیوز (ٹنڈو جام) ٹنڈو جام ضلع حیدر آباد میں جشن میلاد صادقین ؑ سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ سیدالانبیاء ﷺ نے انقلابی جدوجہد کے ذریعے عصر جاہلیت کے طاغوتی نظام کو بدلا، آپ ﷺنے قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں جو نظام قائم کیا وہ ہر دور کی انسانیت کے لئے اسوہ اور آئیڈیل ہے۔ اسلام کی انقلابی تعلیمات آج بھی عالم انسانیت کے جملہ مسائل کا حل ہیں ۔ امت مسلمہ، اسلامی تعلیمات سے دوری کے باعث زوال کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ عصر حاضر کا فرعون ہے، امریکہ اور اس کے حواری عالم انسانیت کے مجرم ہیں، جنہوں نے داعش سمیت تمام دھشت گرد گروہوں کو تشکیل دیا اور ان کی سرپرستی کی۔ پاکستان گذشتہ کئی دہائیوں سے عالمی سامراج اور ان کے ایجنٹوں کی لگائی گئی دھشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے، ہزاروں شہری، بہادر سپاہی اورپاک فوج کے جوان دھشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہورہے ہیں۔ امریکہ کے حالیہ فیصلے سے امریکہ کا اسلام دشمن کردارایک دفعہ پھر انتہائی کھل کر سامنے آگیا۔ پاکستان کے عوام نے ہمیشہ فلسطین اور بیت المقدس کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے، کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر جاری مظالم ناقابل برداشت ہیں۔ تقریب جشن میں ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکریٹری نشرواشاعت آغا ندیم جعفری، ضلعی سیکریٹری جنرل حیدر آباد رحمان رضا ایڈوکیٹ، ضلعی رہنما غلام رسول لاشاری، مولانا ادیب علی ، برادر رضی حیدرو دیگر شریک ہوئے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کالعدم تکفیری جماعتوں کے ساتھ کسی صورت اتحاد نہیں کرے گی، مجلس وحدت مسلمین کا کوئی رہنما یاکارکن کالعدم جماعت کے رہنماوں سے ملاقات میں شامل نہیں تھا،مجلس وحدت مسلمین اتحاد بین المسلمین پر کامل ایمان رکھتی ہے اور اور اپنے قیام سے آج تک اسی کیلئے سرگرداں ہےان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختاراحمد امامی نے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے ایک تردیدی بیان میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ کالعدم جماعتوں اور ملت جعفریہ کی سرکردہ شخصیات کی ایک مشترکہ میٹنگ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرتے ایک بیان میں علامہ امجد عباس نامی ایک شخص کو مجلس وحدت مسلمین کے ایک رہنما قرار دیا گیا ہے جوکہ اس اجلاس میں دیگر شیعہ قائدین کے ہمراہ شریک تھا، جوکہ صریحاً غلط ہے، ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کے مجلس وحدت مسلمین کا کوئی رہنما یا کارکن کالعدم جماعتوں کے ساتھ ہونے والے اس مشترکہ اجلاس میں شریک نہیں ہوا، علامہ امجدعباس نامی کوئی شخص ایم ڈبلیوایم کے مرکز سے ضلع تک کسی ذمہ داری پر فائض نہیں، لہذٰا کالعدم جماعت سے ایم ڈبلیوایم کی ملاقات کی خبر بے بنیاد اور من گھڑت ہے، جبکہ مجلس وحدت مسلمین اپنے قیام سے لیکر آج تک وطن عزیز میں شیعہ سنی اتحاد کیلئے کوشاں رہی ہے اور قومی سطح پر مختلف فورمز پر اہل سنت جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور سانحہ ماڈل ٹاون سمیت دیگر ایشوز پراہل سنت جماعتوں کی حمایت شیعہ سنی اتحاد کی پالیسی کا بین ثبوت بھی ہے ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے سعودی عرب میں 39ملکی امریکی سرپرستی میں سعودی اتحاد کے اجلاس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ 39رکنی امریکی زیر سایہ مسلکی فوجی اتحاد میں پاکستان کا شامل ہونا ملک کو ایک اور دلدل میں دھکیلنے کی سازش کا حصہ ہے،اس عمل سے ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ملک میں خارجہ پالیسی بنانے والے ماضی کے اقدامات سے سبق سیکھے،قوم تا حال افغان وار کا قرض اتار رہی ہے،ملک کے سیاسی مذہبی جماعتیں اس متنازعہ اتحاد سے پاکستان کو باہر نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہم پاکستان میں مشرق وسطی کے پراکسی وار کو ایمپورٹ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دینگے،یمن کے مظلوم عرب مسلمان بچوں عورتوں اور بے گناہوں کے قاتل سعودی اتحاد سے مسلم امہ کو خیر کی توقع رکھنے والے افغان وار کے نتائج کو سامنے رکھیں،امریکہ اور اسرائیل اسی مسلکی اتحاد کے ذریعے مسلم امہ کو تقسیم کرنے میں مصروف ہے،مشرق وسطی میں داعش کے خالق امریکی اتحادیوں کے شکست کے بعد 39 رکنی مسلکی اتحاد شیطانی قوتوں کا دوسرا حربہ ہے،پاکستان کی بقا و سلامتی کا تقاضہ ہے وہ ایسے فرقہ وارانہ اتحاد سے دور رہے۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نےپشاور حیات آباد دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل آئی جی کے پی کے شہید محمد اشرف نور اور ان کے محافظ کی شہادت پر پوری قوم سوگوار ہے،وطن عزیز کی سلامتی کے لئے گلگت بلتستان کا ایک اور سپوت اپنی جان نچھاور کر گیا،اس المناک سانحے پر خانوادہ شہید اور گلگت بلتستان کے غیور عوام کو تعزیت پیش کرتے ہیں،انسانیت دشمن تکفیری دہشتگردوں کیخلاف قوم کو متحد ہونا ہوگا،دہشتگردی کے اصل مراکز تکفیری مداس ہیں،اس کیخلاف حکومت مصلحت پسندی کا شکار ہے،جب تک دہشتگردوں کے سیاسی سرپرستوں کیخلاف گھیرا تنگ نہیں کیا جاتا یہ سلسلہ جاری رہیگا،کنفیوژ اور نااہل حکمرانوں کی سرپرستی میں دہشتگردی پر قابو پانا ممکن نہیں۔
وحدت نیوز(آٹیکل) حزب اللہ کے گناہوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ پہلی بات یہ کہ اُس کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ یہ امر بھی قابلِ معافی ہوتا اگر یہ لبنانی تنظیم اتنی جنگجو (militant) نہ ہوتی۔ حزب اللہ نے لیکن اپنا لوہا میدانِ حرب میں منوایا ہے۔ دیگر عرب فوجوں کے برعکس‘ جنہیں ہر معرکے میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست اُٹھانی پڑی‘ حزب اللہ مشرقِ وسطیٰ میں وہ واحد فوجی قوت ہے‘ جس نے اسرائیل سے نہ صرف برابر کی لڑائی لڑی بلکہ اُسے پسپائی پہ مجبور بھی کیا۔ یہ اعزاز کسی اور عرب فوج کو حاصل نہیں۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ ایران کے قریب ہے۔ ایران اس کی مدد کرتا ہے۔ یہ قدر تو دونوں میں مشترک ہے کہ اِن کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کے وجہِ اشتراک ان کی اسرائیل اور امریکہ دشمنی ہے۔ بیشتر عرب ممالک نہ صرف امریکہ کے قریب ہیں بلکہ امریکہ ان کا گاڈ فادر اور محافظ ہے۔ بیشتر عرب ممالک کی اسرائیل سے دشمنی الفاظ کی حد تک ہے۔ عملاً وہ اس سے سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ وہ اسرائیل یا امریکہ کے خلاف کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات‘ الفاظ کی حد تک بھی کچھ نہیں کہتے۔ حزب اللہ اور ایران البتہ کئی لحاظ سے اسرائیل اور امریکہ سے برسر پیکار ہیں۔ہم نے دیکھا کہ شام میں کیا صورتحال بنی۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں بشارالاسد کو گرانا چاہتی تھیں‘ لیکن حزب اللہ بشارالاسد کی مدد کو پہنچی اوراس کے فوجی دستوں نے مملکتِ شام میں جا کے لڑائی میں حصہ لیا اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہی کچھ ایران نے کیا‘ اور روس بھی اپنی فوجی طاقت کے ساتھ بشارالاسد کے ساتھ کھڑا ہوا۔ شام میں مکمل طور پہ امن قائم نہیں ہوا‘ لیکن جو خانہ جنگی 2011ء سے شروع ہوئی‘ اس میں اب بشارالاسد کا پلڑا بھاری ہے اور انہیں ہٹانے کی تمام تر تدبیریں ناکام ہو چکیں۔
اگر روس، ایران اور حزب اللہ ایک طرف تھے تو دوسری طرف امریکہ، سعودی عرب، قطر اور کچھ حد تک ترکی‘ تھے‘ گو ترکی حالات کے جبر کے پیش نظر اپنی پالیسی میں تبدیلی لایا ہے اور صدر طیب اردوان اب وہ نہیں کہتے‘ جو وہ پہلے کہتے تھے یعنی‘ بشارالاسد کو جانا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس تمام صورتحال سے سعودی عرب سخت پریشان ہے۔ شام میں بشارالاسد کی کامیابی کو وہ بجا طور پہ ایران اورحزب اللہ کی کامیابی سمجھتا ہے۔ عراق میں کئی حوالوں سے ایران کا اثر و رسوخ موجود ہے۔ آخر ایرانی فوجی دستوں نے داعش کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی نے عراق اور شام‘ دونوں میں فوجی کارروائیوں کی رہنمائی کی ہے۔ یمن میں دو سال پہلے سعودی عرب نے اپنے چند عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر حملہ اس لئے کیا تھا کہ حوثیوں (Houthi) کا قبضہ ملک کے شمال سے چھڑایا جائے۔ لیکن جلد نتائج کی بجائے سعودی فوجی مداخلت الٹا کارگر ہی ثابت نہ ہوئی اور سعودی عرب یمن میں تقریباً پھنسا ہوا ہے۔بجائے کسی ایک محاذ پہ توجہ دینے کے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کئی محاذ کھول لئے ہیں۔ یمن میں مداخلت کے وہی روح رواں تھے۔ پھر اُنہوں نے قطر کو تائب کرنے کی کوشش کی۔ مصر اور عرب امارات اُن کی اس کاوش میں معاون تھے۔ قطر سے مخالفت اس بنا پہ کی گئی کہ اس کے تعلقات ایران سے ہیں اور وہ ایسی تنظیموں کی مالی معاونت کرتا ہے جن سے مصر وغیرہ کو شکوہ ہے۔ یہ بیرونی محاذ ابھی گرم تھے کہ شہزادہ محمد نے ایک اندرونی محاذ بھی کھول ڈالا۔ جواز کرپشن کو بنایا گیا حالانکہ عام تاثر یہی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان اندرونی اقدامات کی بازگشت ابھی سنائی دے رہی تھی کہ پرنس محمد نے ایک اور کارنامہ کر دکھایا۔ لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کو ریاض بلایا گیا‘ اور مبینہ طور پہ دباؤ کے تحت اُن سے استعفیٰ کا اعلان کروایا گیا۔ فرانسیسی صدر ایمونیل میکرون اُن کی مدد کو آئے اور اب سعد حریری فرانس جا چکے ہیں۔ یہ ڈرامہ کیوں رچایا گیا؟ کیونکہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ لبنان میں ایسی سیاسی تبدیلی آئے جس سے حزب اللہ کا اثر کم ہو اور لبنانی حکومت میںحزب اللہ کے نمائندے اپنی وزارتیں چھوڑ دیں۔ یہ بچگانہ خواہش ہے کیونکہ حزب اللہ لبنان میں نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ سب سے مؤثر فوجی قوت بھی اُسی کی ہے۔ سعد حریری تو بے بس تھا۔ وہ بیک وقت لبنان اور سعودی عرب کی شہریت رکھتے ہیں۔ اُن کی تعمیراتی کمپنی 'اوجر‘ (Oger) مالی مشکلات میں پھنسی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے ملازمین کی تنخواہیں نہیں دے پا رہی۔
سعد حریری کو تو وہ کرنا تھا جو سعودی اسے کہتے۔ حزب اللہ البتہ سعد حریری نہیں۔ اُس نے وہ کرنا ہے جو اُس کے مفاد میں ہو۔ جب وہ امریکہ اور اسرائیل کی نہیں مانتی تو سعودی شہزادوں کی اس نے کہاں سُننی ہے۔یاد رہے کہ اسرائیل جنوبی لبنان کے ایک ٹکڑے پہ قابض تھا اور اُس نے وہ علاقہ کبھی نہ چھوڑنا تھا‘ لیکن حزب اللہ نے ایسی مزاحمتی تحریک چلائی کہ اسرائیل وہ علاقہ خالی کرنے پہ مجبور ہو گیا۔ پھر 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جنگ رہی اور اسرائیل‘ جو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے‘ نے جو کچھ اُس کے پاس تھا اس جنگ میں جھونک دیا۔ بیروت اور دیگر شہروں پہ بے پناہ ہوائی بمباری ہوئی۔ 1200 کے لگ بھگ لبنانی سویلین اُس بمباری میں ہلاک ہوئے۔ لیکن میدان میں حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو مزہ چکھا دیا۔ جنگ میں تقریباً ڈیڑھ سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے جو کہ اسرائیل کے لئے بہت بھاری نقصان تھا۔ جیسا ہمارا ٹینک الخالد ہے‘ ویسا اسرائیل کا بھاری ٹینک 'مرکاوا‘ ہے۔ ایسے کئی معرکے ہوئے جس میں 'مرکاوا‘ آتے تھے اور حزب اللہ کے مجاہدین نزدیک جا کر ٹینک شکن میزائلوں سے انہیں نشانہ بناتے تھے۔
ایک قصہ اسرائیلی اخبار Haaretz میں جنگ کے کچھ دن بعد رپورٹ ہوا۔ ایک اسرائیلی جرنیل نوجوان فوجی افسروں سے مخاطب تھا۔ اُس نے حزب اللہ کو برا بھلا کہا۔ نوجوان فوجی افسروں نے کہا: ہم حزب اللہ سے لڑے ہیں اور وہ بہادر سپاہی ہیں۔ یہ تب کی بات تھی۔ اب سرزمینِ شام میں کامیاب فوجی حکمتِ عملی کے بعد حزب اللہ کی حیثیت کو مزید تقویت ملی ہے۔ہماری فوج کے افسران بڑے شوق سے امریکہ اور برطانیہ میں کورس کرنے جاتے ہیں۔ انہوں نے وہاں سے کیا سیکھنا ہے؟ ہمیں تو سبق حزب اللہ کی تاریخ سے سیکھنا چاہیے، کیسے وہ منظم ہوئی، اُس کی قیادت کا کیا کردار رہا ہے اور وہ اسرائیل اور امریکہ کے سامنے کیسے ڈٹی ہوئی ہے۔ ایک بات بھول رہا تھا، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کا بیٹا بھی ایک معرکے میں مارا گیا۔ معرکے میں اور ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ حسن نصراللہ جب ہلاکتیں دیکھنے گئے تو اپنے بیٹے کا چہرہ اتنی دیر ہی دیکھا جتنا کہ دوسرے مجاہدین کے چہروں کو۔ روئے ہوں گے تو اکیلے میں، سامنے آنسو نہ بہائے۔چیئرمین ماؤ کا ایک بیٹا کوریا کی جنگ میں مارا گیا‘ کیونکہ جنگ جاری تھی۔یہ خبر چیئرمین ماؤ سے چھپائی رکھی گئی۔ کچھ عرصے بعد کوریا میں چینی افواج کا کمانڈر چیئرمین ماؤ سے ملنے آیا اور بغیر سوچے کہہ بیٹھا: مجھے افسوس ہے کہ آپ کے بیٹے کی حفاظت نہ کر سکا۔اس سے چیئرمین ماؤ کو اپنے بیٹے کی ہلاکت کا پتہ چلا۔ چہرے کا رنگ اڑ گیا، سکتے میں آئے لیکن جلد ہی اپنے آپ پہ قابو پا لیا اور گفتگو جاری رکھی۔ پھر بیٹے کا ذکر تک نہ کیا۔ ہمیں نصیب ہوئی ہیں اقاموں کی ماری قیادتیں۔لیکن ہمارے عرب مہربانوں کو بھی دیکھیے۔ غارت میں پڑی ہوئی ہے دنیائے اسلام‘ لیکن کوئی ڈھنگ اور ہمت کے لوگ اُبھرتے ہیں تو وہ اُنہیں برداشت نہیں کر سکتے۔
تحریر۔۔۔۔ایاز میر( دنیا نیوز)
وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین صوبہ خیبر پختونخواکے سیکریٹری جنرل علامہ محمد اقبال بہشتی نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ہفتے کے دوران دو شیعہ جوانوں کے بہیمانہ قتل کی سخت الفاظ میں کرتے ہوئے سانحات کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو قرار دیاہے، انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں گذشتہ ایک ہفتے میں ثمر عباس اور عقیل حسین کو محض شیعہ ہونے کے جرم میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا، صوبائی حکومت ڈیرہ اسماعیل خان میں موجود تکفیری دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کیلئے سنجیدہ اقدامات کیوں نہیں کرتی، گذشتہ دن سالوں میں ڈی آئی خان کے سینکڑوں شیعہ جوان بربریت کا نشانہ بنائے گئے، ایک شیعہ مقتول کابھی قاتل آج انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکا،انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک اور آئی جی پولیس خیبرپختونخواسے مطالبہ کیا کے ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے شیعہ جوانوں کے قاتل تکفیری دہشت گردوں کو فلفورکیفرکردار تک پہنچایا جائے۔