وحدت نیوز(اسلام آباد) بلوچستان ایک مرتبہ پھر بے گناہوں کی مقتل گاہ بناہے، کوئٹہ میں ایس پی انویسٹی گیشن محمد الیاس کو ان کی اہلیہ اور معصوم بچوں سمیت قتل اور تربیت میں 15نہتے مزدوروں کا قتل عام بربریت کی بدترین مثال ہے،دشمن ممالک کوبلوچستا ن کا امن کسی صورت نہیں بھاتا، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ان کی آنکھ کا کانٹا ہےجو انہیں بہت چبھتاہے، ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے بلوچستان کے شہر کوئٹہ اور تربت میں ہونے والے دہشت گردی کے دواندھوناک سانحات پر اپنے تعزیتی بیان میں کیا ۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں ایس پی محمد الیاس کو ان کے اہلیہ اور بچوں اور تربیت میں روز گار کی تلاش میں سرگرداں نہتے مزدوروں کو شناخت کرے بس سے اتار کرمارنے کا دکھ، افسوس اور غم ہم بہترمحسوس کرسکتے ہیں ،گذشتہ تین دھائیوں سے پاکستان کی گلی کوچوں، بازاروں اور درباروں میں محب وطن شیعہ سنی عوام کو چن چن کر نشانہ بنایاگیا، اسی بلوچستان میں ہمارے ہزارہ شیعہ بھائی بہنوں کو بسوں سے شناختی کارڈ دیکھ کر اتارا گیا اور گولیوں سے بھونا گیا، ہم نے اس وقت بھی شور مچایا اور قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن صاحبان اقتدار اور ریاستی اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تھی،اگر کل ہمارے احتجاج پر کان دھر لیئے جاتے توآج نوبت یہاں تک نا آتی۔
ان کامذید کہناتھاکہ پاک فوج نے کافی حد تک بلوچستان میں امن وامان کے قیام کیلئےکوششیں کیں، آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے مطابق کالعدم جماعتوں کے خطرناک دہشت گرد ماضی قریب میں قاصل جہنم ہوئے ، دہشت گردوں کی بعد کمین گاہیں بھی تباہ کی گئیں لیکن پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بھارت ، اسرائیل ، امریکہ اور خلیجی ممالک کی آنکھ کا کانٹا ہےجو انہیں بہت تکلیف دیتا ہے، بلوچستان میں ہونے ماضی میں ہونے والی شیعہ نسل کشی اور اب سکیورٹی افسران اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کا قتل عام ایک ہی سازش کی کڑی ہے، علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کوئٹہ میں ایس پی محمد الیاس ،ان کے اہل وعیال اور تربیت میں میں شہید ہونے والے15 بے گناہ مزدوروں کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے ، ان کاکہناتھاکہ مجلس وحدت مسلمین دکھ کی اس گھڑی میں شہداءکے خانوادگان کے غم میں برابر کی شریک ہے ، انہوں نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی وہ تمام شہداءکو اپنے جوار میں محشور فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عنایت فرمائے۔
وحدت نیوز(انٹرویوبشکریہ روزنامہ اوصاف) باشعور لوگ جانتے ہیں کہ ہر وہ ملک جس میں قانون کی عمل داری نہ ہواور قوانین بھی جو بنتے ہیںان بنیادی اصول کے مطابق بنتے ہیں۔جو آئین کے اند ر ایک سوشل کنٹریکٹ کے تحت اس ملک کے تمام عوام اس کو قبول کرتے ہیں۔انہیں آرٹیکل کے تحت ہی تمام قانونی سازی کی جاتی ہے۔ادارے بنتے ہیں،سسٹمDevelop ہوتے ہیںاور دنیا میںجوایک سسٹم رائج ہے وہاںپر قوئہ مقننہ ،قوئہ عدلیہ ، قوئہ مجریہ ہوتی ہے۔ان تینوں قوئہ کا استدلال بہت اہم ہے۔کہ ایک دوسرے سے تصادم نہ کریں۔بلکہ اپنے دائرہ کارمیں رہتے ہوئے اپنے کار پر عمل کرے۔پھر انہیں کے ذیل میں بعض ایسے ریاستی ادارے بھی وجود میں آتے ہیں۔جن کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت بھی ہے اور بعض انتظامی ادارے ہیں۔جن کاکام ملک کےاندر لوگوں کی جان ، مال، اور عزت کی حفاظت اور قانون کی عمل داری کرنا ہوتا ہے۔اب جب قانون کی عمل داری ہواور جتنے بھی ادارے ہیںوہ اپنے قانونی اور آئینی دائرے میں رہتے ہوئےاپنی ذمہ داریوں کو انجام دیںتو میرے خیال میں مشکلا ت وجود میں نہیںآتی مسائل وہی جنم لیتے ہیںجہاں قانون شکنی شروع ہوتی ہے اور آئین اور قانون کو پائوں تلے روند دیا جاتا ہے،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاںکبھی آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں قانون کو بنانے والے اور نافذ کرنے والے ہی قانون کو پائوں تلے روند دیتے ہیں۔اس کی تحقیر اور مذمت کرتے ہیں۔اس کی حرمت اور تقدس کو پامال کرتے ہیںتو یہیں سے لوگوں کے اندر بھی جرأت اور حوصلہ پیدا ہوتا ہےاور پھر یہاں سے کرپشن ، فساد اور قانون شکنی کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میںامن و امان ہوں کرپشن نہ ہو،فساد نہ ہو ،ترقی ہو پیش رفت ہو۔ہم civilizedہوں ہم Culturalہو جائیں ہم مہذب ہو جائیںتو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم قانون کی عمل داری اور آئین کی تعین کردہ حدود کے اندر رہ کر اقدامات کریں۔اگر ہم کوئی ایسا اقدام کریں گے جو آئین کی حدود سے بالاتر ہو گا جو کوئی بھی ہوگا مشکلات کو پیدا کرے گا۔مشکلا ت کو حل نہیں کرے گا۔وہ بحران کو اور زیادہ بڑھائے گا بحران کو حل نہیں کرے گا۔چاہئے وہ technocratہوں۔چاہئے کوئی بھی ہو۔ کوئی بھی عمل جو قانون اور آئین کے دائرہ کار سے باہر ہو گا۔ وہ درست نہیں ہے،وہ ہمارے ملک کے اندر نہیں ہونا چاہیے ۔ہم کئی تجربے گذشتہ 70 سال کے اندرچکے ہیں۔ ہم نے کتنی بار قانون اور آئین کو پائوں تلے روندا ہے۔ نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ آئیں ہیں۔کہ ہم یہ کر دیں گے ، ہم سب ٹھیک کر دیں گے۔بالآخر خرابی اور بربادی کے سوا ہمیںکچھ نہیں ملا۔
پس جو بھی قد م اُٹھایا جائے وہ قانون اور آئین کے دائرے کے اندر رہتے اُٹھایا جائےقانون اور آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے بحرانوں کے حل کے لئے ضروری ہے۔
1۔ ایک ایسا الیکشن کمیشن بنایا جائے جو بااختیار ہویعنی اس کے اندر کرپٹ اشخاص نہیں ہوں،بائیومیٹرک الیکشن ہونے چاہیں،بائیو میٹرک سسٹم لانا چاہیے۔
2۔ آئین کی عمل داری ہونی چاہئے
اگر ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کا اثر رسوخ افغانستان کے اندر کم کریں اور انڈیا کوCondemn کریں تو پاکستان ،چین روس،ایران،ترکی ان پر مشتمل ایک الائنس بن جائے۔جس کے نتیجے میں افغانستان میں امریکن اثر رسوخ کم ہو جائے گا اور انڈیا Condemnہوجائے گا اور پاکستان کا چائنا پر انحصار کرنا بھی کم ہو جائے گا۔ اب دنیا unipolar worldنہیں رہی بلکہ پاور کے اعتبار سےRe-shape ہو رہی ہے۔امریکن گلف میں آئے تھے۔دنیا کو Re-shape کرنے کیلئے وہاں یہ شکست کھا گے ہیںوہاں ان سے شام نہیں ٹوٹا، اگر شام ٹوٹتاتو شام ایشیاء کی بلڈنگ کی وہ اینٹ ہےجو اگر نکل جاتی توعراق ، ترکی ، ایران ، افغانستان، چائنا اور پاکستان نے بھی ٹوٹنا تھایعنی سنٹرل ایشیا ءپورے کا پورا تباہ و برباد ہو جاتاامریکن کو Western Asia میںResistance کے بلاک روس اور چائنا نے ملکر کائونٹر کیا۔UNO میںآٹھ ویٹو ہوئے ہیں جن میں سے چھ میں روس اور چائنہ اکٹھے ہیں ،اگر روس اکیلا بھی ویٹو کرتا تو بھی کافی تھا ۔لیکن چین بھی ساتھ ویٹو کر رہا تھا۔۔۔۔کیوں؟؟؟
چین کے سوریاکے اندر Economic Interests نہیں تھے۔Strategic Interestتھے۔چین کو پتہ تھا اگر سوریا ٹوٹا تو پھر بات چائنہ تک آئی گی۔لہذا چین بھی وہاں کھڑا ہو گیا اوUNOمیں ویٹو کرنا شروع ہو گیاجس کے نتیجے میں امریکن اور اسرائیل کو شکست ہو گی۔شکست کیسے کھائی ؟؟؟ ان کا خیال تھا کہ شام کی حکومت کو گرا کر ان ممالک کو توڑیں گے،سعودی عرب کو بھی توڑیں گےاور ان تمام اسلامی ممالک کو توڑ کر چھوٹے چھوٹے قطر اور کویت بنائیں گےجن میں اپنی مرضی کے حکمران لائیں گے۔ اور ان ممالک میں آپس میں اختلافات پیدا کریں گےکیونکہ مسلم ممالک کی پاور امریکہ اور اسرائیل کیلئے ایک بہت بڑاخطر ہ ہےجیسے کہ انہوں نے روس کوتوڑا او ر وہ روس کو اور مزیدتوڑنا چاہتے تھے،اسرائیل پر پہلے ہی بہت پریشر ہے۔وہ غزہ کے اندر فلسطینیوں کو کائونٹر نہیں کرپا رہاوہ حز ب اللہ کو کنٹرول نہیں کر پا رہا۔
امریکہ اور اسرائیل نے جو داعش بنائی تھی سوریا کیلئے وہ اب منتقل کر رہے ہیں لیبیااور افغانستان میں تا کہ لیبیامیں افریقی ممالک مصر، الجزائر ،تیونس اوریمن کوDisturb کرے اور افغانستان میں داعشوں کے ذریعے افغانستان، چین، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کوDisturbکریں۔انہی داعشوں کے ذریعے یہ سی پیک کو بھی Disturbکرنا چاہ رہے ہیں۔
Weldonal نے اپنی تاریخ تمدن میں لکھا ہےکہ پاور ہمیشہ یورپ اور ایشیاء میںمنتقل ہوتی رہی ہےاور امریکہ میں Extention ہے یورپ کی جبکہ اب پاور ایشیاء کی طرف منتقل ہورہی ہے، ایشیاء میں جو پاور کا منتقل ہونا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ
1۔ آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا براعظم
2۔ ری سورسس (ذرائع)کے لحاظ سے بہت ریچ ہے۔
3۔ منڈی بہت بڑی ہے۔
4۔ سکیل مین پاوردنیا کی بیسٹ پاور ہے۔
5۔ لیبر سستی ہے۔
6۔ دنیا کے جتنے بھی بڑے مذاہب ہیں ان کی پیدائش کی جگہ ایشیاء ہے( مسیحیت،یہودیت،اسلام،بدھ مت،ہندو مت)
اب امریکی یہ چاہتے ہیں کہ کائونٹر کریںایشیاء کی طرفShift of Power کو، پہلے مرحلے میں اسکو (Slow) آہستہ کریںپھر روک دیں ۔۔۔کیسے ؟؟؟ ایشیاء کو عدم استحکام کا شکار کریںایشیاHeart Point کو ڈسٹرب کیا جائے۔جس طرح انسان کے جسم میںHeart Point ہوتے ہیں یعنی دل ڈسٹرب ہوجائے تو سارا جسم ڈسٹرب ہو جاتا ہے۔ایشیاء کے Heart Point کون سے ہونگے؟جہاں ذرا سی بھی ہل چل ہوگی تو ساری دنیا متاثرہو گی،ایکHeart Point ایشیاء کا ویسٹرن ایشیاء تھاجہاں آئل ہے، جہاں ساری دنیا آئی ہےوہاں ڈسٹرب کیا جائے،جنوبی ایشیاءHeart Point ہے۔جہاں ساری دنیا آئی گی ، امریکہ،چائنا ،روس آئے گا۔ افغانستا ن اور شمالی کوریا ، مغربی کوریا بھی ایسا ہی ہے۔اس کو بھی ڈسٹرب کیا جائے۔کیسے؟؟؟ بعض جگہ پر تکفیریت کے ذریعے مذہبی انتہا پسندی کے ذریعے جہاں ممکن ہے،ویسٹرن ایشیا ء میں ممکن ہے اور جہاں یہ ممکن نہیں ہے وہاں نسلی فساد پیدا کریں اور آزادی کی تحریکیں چلیںاور اس کے علاوہ ممالک کے آپس کے اختلافات پیدا کرناجیسے پاکستان انڈیا، چائناانڈیا، پاکستان ایران،ایران ترکی، ترکی عراق، سوریاایران، سعودیہ ایران،چائنا فلپائن، نارتھ کوریا سائوتھ کوریا،کے اختلافات کو ہوا دی جائے۔تاکہ ایشیا ء کو ڈسٹرب کیا جائے،اتنا ڈسٹرب کیا جائے کہ یہ اس قابل نہ ہو کہ یہ دنیا کو لیڈ کر سکے۔
اب اس سارے منصوبے کو کیسے کائونٹر کیا جا سکتا ہے جیسا کہ میں نے ذکر کیااب پاکستان ، چین ، روس ، ایران، ترکی اور عراق ملکر کر ایک الائنس بنالیں تو یہ کائونٹر ہو سکتا ہے۔ان ممالک کے فورم بننے چاہیں۔Asian Nation کے فورم بننے چاہئیں۔دانشوروں کے فورم بننے چائیں۔صحافیوںکے فورم بننے چائیں۔پارلیمنٹرینز کے فورم بننے چائیں۔ادیبوں کے فورم بننے چائیں۔شعراء کے فورم بننے چائیں۔ایشیاء لیول پر کوششیں ہونی چایئے، پاکستان ایشیاء کے اندر ہے پاکستان زبر دست جگہ پر ہے۔اللہ نے پاکستان کوGeo Political location دی ہے۔یہ وہ ملک ہے جو پانچ ارب انسانوں کو آپس میں ملاتا ہے۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کےEast اور North میں دنیا کی 40% فیصد آبادی ہے اور یہاں سے ہی روس اور ترکی کے راستے نکلتے ہیںجہاں پر آئل کے ذخائر موجود ہیں وغیرہ اب آپ خود ہی سوچیں جب یہ خطہ اتنا اہم ہے ۔تو آپ کو یاد ہو گاکہ برصغیر جب تقسیم نہیں تھا تو سکندر اعظم اُٹھتا ہے اور مکدونیہ سے یہاں آتا ہے۔مغل وہاں سے آئے،برطانیہ سے انگریز یہاں آئے۔ کیوں؟؟؟؟
برصغیر بہتRich تھا،دنیا کے بلند و بالا پہاڑ یہاں،عظیم دریا یہاں،سرسبز و شاداب زمینیں یہاںیہ خطہ بہتRich تھا لوگ یہاں آ کرقبضہ کرتے تھے لوٹتے تھے ۔انگریز کیو ں یہاں آئے تھے،اسی طرح پاکستان بہت اہم جگہ پر واقع ہے، اب اگر پاکستان مضبوط ہوتا ہے اور امریکن بلاک سے نکلتا ہے تو اس پورے ایشیا ء کو فائدہ ہےاور اگر پاکستان کمزور ہوتا ہے تو امریکہ کا National Interest اسی کامتقاضی ہے،جسطر ح روس کی ex-worldگوادراینڈHot Waterمیںا مریکن اورEuropean National Interest کوThreatsکرتی تھی،اسطرح چائنا کی ریچ ورلڈ گوادریہ بھی امریکن اورEuropean National Interest کوThreatsکر تی ہے،اس کو کائونٹر کرنا چاہتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کمزور ہو وہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیںتاکہ پورا ایشیاء ہلتا رہے ڈاواں ڈول رہےیہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی فیصلہ ہو تا ہے چاہئے غلط ہو یا ٹھیک ہو اس میں امریکہ کا عمل دخل ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے سیاستدانوں، بیوروکریٹ اور ٹیکنو کریٹس میں اتنا زیادہ امریکن اثر رسوخ ہے کہ جسکو کائونٹر کرنے کے لئے ہماری قوم کےاندر کوئی یک سوئی نہیں کہ ہم اس کو کائونٹر کر سکیں۔اب تو دشمن کی بھی شناخت اور پہچان ہمارے ملک کے اند ر نہیں ہے۔کوئی کہتا ہے انڈیا ہمارا دشمن ہے کوئی کہتا ہے انڈیا دشمن نہیں ہے مودی دشمن ہے،جو قوم اپنے دشمن کے مقابلے میں کنفیوژہو وہ اس کا کیسے مقابلہ کر سکتی ہےوہ تو شکست کھاتی ہےوہ تو سائے سے لڑتی رہتی ہے،کون دشمن ہے ہمارا انڈین اسٹیبلشمنٹ دشمن ہے یا مودی دشمن ہے؟ امریکہ دشمن ہے یا اسرائیل دشمن ہے،کون دشمن ہے ہمارا؟؟؟ اتنا زیادہ امریکن اثر رسوخ پایا جاتا ہے کہ اپنے دشمن کی پہچان کرنا مشکل ہے۔
سوال:سوریامیں امریکہ و اسرائیل کیسے ناکام ہوا؟
علامہ راجہ ناصرعباس: اصل ناکامی اس کو کہتے ہیں کہ جو وہ اہداف لے کر آیا تھا اس میں وہ اس میں ناکام ہواآپ دیکھ لیں پاکستان میں مسلکی لڑائی نہیں ہے،افغانستان میں مسلکی لڑائی نہیں ہےاگر یہاں مسلکی لڑائی ہوتی تو گلی گلی ، کوچہ کوچہ لڑائی ہوتی،امریکن نے اس پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی لیکن وہ ناکام ہوئے ہیں۔
سوال:آئندہ الیکشن میں آپ کی جماعت کا کیا رول ہوگا ؟
علامہ راجہ ناصرعباس :میں پاکستان کے آئین پر یقین رکھتا ہوںاور پاکستان کے آئین کی روشنی میں جو جمہوری جدوجہد ہے وہ ہمارے لئے ایک درست راستہ ہے۔لہذا ہم الیکشن سے تو کبھی بھی ہم اپنے آپ کو باہر نہیں کریں گے،اب الیکشن کے اندر اب جو بہترین صورت حال ہے وہ الائنس ہے۔عموماً پارٹیاں الائنس کرتی ہیں اگر الائنس نہ بھی ہوتا تو پھر بھی ہم الیکشن میں جائیں گے۔ہمارا مقصد ہے کہ پاکستان علامہ اقبال اور قائد اعظم والا پاکستان ہو،جہاں آئین اور قانون کی عملداری ہو، Discrimination کے خلاف اسٹینڈ لینے والے ہوںDiscrimination کو سپورٹ نہ کریں،پاکستان کو ایک مسلم پاکستان بنائیںاس کو انتہا پسند پاکستان نہ بنائیںجہاں تعلیم ،صحت اور ترقی کی راہیں کھلتی ہوںپاکستان میں مسلک کے نام پر کبھی بھی جماعتیں نہیں بننی چاہیں تھیں ہم مجبور ہوئے ہیں جماعت بنانے پرجب بسوں سے اُتار کر شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کیا گیامساجد اور امام بارگاہوں میں بم بلاسٹ کیے گئےہمارے لوگوں کو پاراچنار میں محصور کیا گیااس وقت ہماری بات کوئی سننے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتا تھامیڈیا میں کوئی ہماری خبر تک نہیں دیتا تھاکاش ریاست اپنی ذمہ داری ادا کرتی تو آج اس ملک میں مسلکی بنیادوں پر جماعتیں کبھی نہیں بنتی۔
جیسے پاکستان مسلم لیگ کوئی مسلکی جماعت نہیں تھی اور جو مسلک کی بنیادوں پر جماعتیں تھی وہ پاکستان بننے کے خلاف تھیں،پاکستان مسلم لیگ برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کر رہی تھی، اس میں تمام مسلمان شریک تھے حتیٰ غیرمسلم بھی اس میں شامل تھےاور جو جماعتیں برصغیر میں مسلکی بنیادوں پر بنی تھیں وہ تو پاکستان بننے کی مخالفت کر رہی تھیں، کاش ایسا نہ ہوتا ہمارے ملک کے اندر اور ہم نے جیسے پاکستان بنایا تھا ویسے ہی اسے آگے بڑھانے کی سیاسی جدوجہد کرتے ، ہم نے اس ملک کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے، قومی ، مذہبی، لسانی بنیادوں پر ہم نے جماعتیں بنا کر پاکستان کو تقسیم کر دیا ، ریاست کہاں گئی، اس طرح کی جماعتوں اور گروہوں نے وہ جذبہ ختم کر دیا، کاش ہم دوبارہ وہ جذبہ اور ولولہ حاصل کر لیں جس کے تحت پاکستان بنا تھا، موجود ہ مسلم لیگ اس نہج پر نہیں ہے، اس کے سربراہ کو سپریم کورٹ نااہل قرار دیتی ہےاور پانچ ججز نے اتفاق رائے سے فیصلہ دیا اور آپ ان پر چڑھ دوڑے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ قانون جدوجہد کرتے، بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس کی بیٹی نے سیاسی جدوجہد کی، جن کا قانون پر ایمان ہوتا ہے وہ سختیاں جھیلتے ہیں، وہ قانون کو پاوں تلے نہیں روندتے ، مثال کے طور پر امام حسین علیہ السلام جب مکہ سے کربلا کی طرف جارہے تھے تو راستے میں انہیں حر کا لشکر ملا، امام حسین علیہ السلام نے انہیں پانی دیا، ان کے جانوروں کو بھی سیراب کیا، جینے کا حق ہر کسی کو ہے یہ ہے بنیادی انسانی حقوق پر عمل ،لیڈرشپ کارویہ یہ ہوتا ہے، یہ لوگ معاشرے کو لیکر آگے بڑھتے ہیں، اب ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان آنا ہی نہیں ہے، یہ کیسے حکمران ہیں، باپ حکمرانی کرنے آئے گا، بیٹے آتے ہی نہیں ہیں، ہمارے عوام سادہ لوح ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ مالدار ہو گئے ہیں۔ حکومتی اسٹیل مل کمزور ہو گئی ہے ان کی طاقتو ر ہو گئی ہے۔ کتنا ظلم ہے کہ ستر سالوں میں ہمیں قوم نہیں بننے دیا گیا، حالانکہ ہم میں اس کی صلاحیت موجود ہے، کشمیر میں زلزلہ آیا تو لوگ کیسے نکل کھڑے ہوئے تھے ، لیکن ہمیں فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے قوم نہیں بننے دیا۔
ہم مسلکی بنیادوں پر سیاست کے مخالف ہیں، ہم نے اہل سنت کے ساتھ قربتیں پیدا کیں، شیعہ سنی جھگڑے کو ختم کیا، ہم سیاست بھی ایسی نہیں کریں گے جو مسلکی ہو، کاش قائداعظم کی مسلم لیگ دوبارہ بن جائے۔ جب سے مجلس وحدت مسلمین بنی ہے ہم نے دھرنا دیا ہے، پتھر نہیں مارا۔ جب ہمارے لوگ زیادہ مر رہے تھے تو ایک امکان تھا کہ ملک میں عسکریت پسندی جنم لے گی، ایم ڈبلیو ایم جب بنی تو ہم نے پہلے کہا کہ ہم نے ملک کے اندر اسلحہ نہیں اٹھانا اور اہم نے اس کی قیمت دی ہے، آئین اور قانون کی حکمرانی میں رہتے ہوئے کام کیا ہےاسلحہ اٹھانے سے بربادی ہوتی ہے۔
ہم اگر انتہا پسند ہوتے تو صاحبزادہ حامد رضا اور ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ نہ دیتے، ضیاءاللہ بخاری شاہ صاحب اچھے دوستوںمیں سے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ۔۔۔
وطن سے محبت کی انتہا نہیں بھول سکتا ، جس دن پاکستان دو لخت ہوا، میرے والد ریڈیو کمنٹری سنتے تھے، اٹھتے تھے بیٹھتے تھے، دکھ کا اظہار کیا اور انہیں ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ میں تو اس دن یتیم ہو گیا تھا، جس دن پاکستان ٹوٹا۔
مسلک دین سمجھنے کا ذریعہ ہے نہ کہ انسان دین کے نام پر دوسروں کے گلے کاٹے۔
امام خمینی اسلحہ کے زور پر نہیں بلکہ عوامی طاقت کے بل بوتے پر انقلاب لیکر آئے۔
پارا چنار چار سال محاصرے میںرہا، چاروں طرف سے حملہ کیا جاتا تھا، ان کی ناموس محاصرے میں تھی، یہ مجلس وحدت مسلمین وہیں سے بنی، اس تمام معاملے پر اخبار میں خبر نہیں چھپتی تھی اور صوبائی حکومت بھی بات نہیں سنتی تھی، وہ کہتے تھے پارا چنار چھوڑ دو کہیں اور پناہ لے لو،اب ایسی صورتحال میں کہ جب چار اطراف سے حملہ ہوگا آپ دفاع نہیں کریں گے،پاراچنار کے لوگ محب وطن اور پڑھے لکھے ہیں، پارا چنار کا لٹریسی ریٹ اسلام آباد کے برابر ہے، وہاں ہیروئن کی فیکٹریاں نہیں ہیں، یہ ایک ایسی ایجنسی ہے جہاں پاکستان کا جھنڈا لہراتا ہے، پاکستان کے خلاف کوئی کام نہیں ہوتا۔ فوج پر حملہ نہیں ہوتا، تذویراتی حوالوں سے بھی بہت اہم ہے تین اطراف میں افغانستا ن ہے، یہ علاقہ افغانستان کے اندر گھسا ہوا ہے،اس لئے طالبان اس علاقے کے باسیوں کو مار رہے تھے۔ اس علاقے کے لوگوں کا 1500 بندہ مارا گیا ہے۔
آج کی فرقہ واریت ضیاالحق کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جمہوریت کے خلاف اقدام اٹھایا گیا، ایک خاص سوچ کے لوگوں کو پروان چڑھایا گیا۔ امریکہ نے پیسہ لگایا اور پاکستان کو تختہ مشق بنایا گیا۔ ملک میں علمائے کرام کو بے گناہ قتل کیا گیا ، یہ عالمی سازش اور ان کی Investmentہے۔
ٓٓٓانگریز نے مسلمانوں کی طاقت توڑنے کے لئے انہیں تقسیم کیا مسلم لیگ میں سنی اور شیعہ اکٹھے تھے توپاکستان بن گیا اسی وجہ سے انہیں آپس میں لڑوا دیا گیا تاکہ یہ طاقت نہ بن جائیں۔
پاکستان مسلم امہ میں ایک فعال ملک ہوا کرتا تھالیکن اسے اب مسائل میں الجھا دیا گیا ہے۔
سعودیہ کے ساتھ اگر ہمارے تعلقات اچھے ہوں گے تو ا س ریجن کافائدہ ہے، پاکستان اکیس کروڑ عوام کا ایک ایٹمی ملک ہے، اس کے تعلقات کسی بھی ملک کے ساتھ خراب نہیں ہونے چائیں ۔
سوال:کالعدم جماعتوں کا بڑا شوشا ہے ان کو الیکشن میں آنا چاہے یا نہیں؟
جواب: میں کہتا ہوں پاکستان کے آئین اور دستور پر عمل ہونا چاہے مثال کے طور پر ایک آدمی کو قتل کر دیا جاتا ہے جو شادی شدہ نہیں تھا
جس نے قتل کیا وہ شادی شدہ تھا اب اسلام نے کیا کہا اسکو سزا دو پھانسی کی اب قاتل کے بیوی بچے بھی ہیںاگر اسکو پھانسی دی جائے تو اس کے بچے یتم ہو جائیں گے اور گھر اجڑ جائے گا اب اسلام جزوی چیزوں کو نہیں دیکھتا اسلام As a whole دیکھتا ہے اسلام ہر بات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتا ہے اور قانون بنتا ہے ممکن ہے کسی ایک کو نقصا ن ہو لیکن As a whole پوری سوسائٹی کو فائدہ ہے قانون اور آئین کے مطابق عمل ہونا چاہئے نہ انصافیاں جرائم کو جنم دیتی ہیں۔
سوال: یہ فرقہ وارنہ جنگ کیوں ہوئی پاکستان میں اور دونوں طرف سے لٹریچر چھپا؟
علامہ راجہ ناصرعباس: پاکستان میںکبھی فرقہ ورانہ جنگ نہیں ہوئی البتہ فرقہ وارت ہوئی ہے اور اس کی بنیادضیاءالحق نے رکھی یہ پاکستان کی ڈیموکریسی کے خلاف ہوئی یہ افغان پالیسی کا رزلٹ ہے، انہوں نے مخصوص لوگوں کو انتہا پسندی کی طرف راغب کیا ان کے لشکر بنائے پلان امریکہ کا تھا پیسہ دوسرے ملکوں کا تھا اور اجرا پاکستان نے کیا بر صغیر میں جب بر طانیہ آیا توحکومت مسلمانوںسے چھینی تھی جو مسلمانوں کا حق ہے اور مسلمانوں کو تقسیم کیا گیا اور یہ لٹریچربھی اس وقت چھپنا شروع ہوا ایک طرف کہتے تھے کہ فلاں کتاب لکھو ابھی کتاب پرنٹ نہیں ہوتی تھی اس کا مسودہ شیعہ دے دیا جاتا تھا کہ یہ آپکے خلاف لکھا جا رہا ہے جیسے ہی کتاب پرنٹ ہوتی تھی اس کا جواب بھی آجاتا تھا اہلسنت اور شیعہ کو تقسیم کر کے توڑا گیا مسلم لیگ میں شیعہ سنی ایک ساتھ تھے اسی وجہ سے مسلمانوں کو توڑا گیا اور فرقہ وانہ کتابیں برطانیہ کے آنے کے بعد پرنٹ ہوئی اورمجیب الرحمٰن شامی صاحب نے اپنے ایک پرگرام میں کہا یہ کتابیں انڈیا سے پرنٹ ہوتی ہیں اور ان پر ایڈریس کسی اور ملک کا ہوتا ہے ، پاکستان کے سعودیہ کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہے اس سے خطے کو فائدہ ہو گا اگر کہیں حالت خراب بھی ہوئے تو پاکستان ٹھیک کر سکتا ہے پس پاکستان اکیس کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایٹمی ملک ہے اس کا کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کسی دوسرے ملک کے تعلقات کے ساتھ کمپرومیز نہیں ہونا چاہیے ایک سمجھ دار حکومت کی طرح سلوک کرنا چاہیے اور ان کو سیکھنا چاہے کون سی چیز میڈیا پر لانی ہے اور کون سی نہیں ہزاروںمسائل ہوتے ہیں آپس میں حکومتوں کے۔
انٹرویو بشکریہ روزنامہ اوصاف اسلام آباد
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے شعبہ تنظیم سازی کےزیر اہتمام شعبہ تنظیم سازی کی مرکزی کور کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے کی ۔اس اجلاس میں مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔مرکزی معاون سیکرٹری تنظیم سازی علامہ اصغر عسکری نے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اتنےمختصروقت میں اس اجلاس کو کامیاب بنانےمیں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی حاضری کو یقینی بنایا ۔ انہوں نے کہاکہ اس اقدام سے برادران کی ذاتی دلچسپی اور ذمہ داری ظاہر ہوتی ہے ۔اللہ تعالیٰ برادران کے اس جذبے کو قائم و دائم رکھے اور اپنی الہی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اجلاس سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں نے ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر مقدم کر رکھا ہے اور وہ قومی سیکٹر کی سرگرمیوں کو کامیاب بنانے کے بجائے نجی کارخانوں اور فیکٹریوں کو بڑھاوا دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ آ ج خطے کے حالات کیسے ہیں اور ہمارے حکمران کہاں کھڑے ہیں ۔ ملک میں کرپشن ۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔ ہر ایک کو اپنی فکر لگی ہے ۔ ملک کو کیا خطرات لاحق ہیں کسی کو فکر نہیں ۔ آج حکمران طبقہ ملک میں انارکی چاہتا ہے ۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ حکمران کوشش کرتے ملک کے حالات بہتر کرتے مگر حکمران ادارون کو آپس میں لڑا کر ملک میں جمہوریت کے خلاف سازش میں مصروف ہیں ۔ ہر وزیر اپنی بولی بول رہا ہے ۔کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ داعش سرحدی علاقوں میں قدم جما رہی ہے ۔ اب وقت ہے ہم سب کو ایک ہو کر اس وطن عزیز کو سنبھالادینا ہے ۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اختلافات کو ہوا دی جارہی ہے ۔ اب ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد اور وحدت کو عملی شکل میں لانا ہو گا ۔ ریاست کو اب سب کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا ۔ ہم نےہمیشہ جمہوریت کاساتھ دیا ہے اور آئندہ بھی جمہوریت کا ہی ساتھ دیں گے ۔ ہم اس ملک میں ہر قسم کے غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کرتے ۔ غیر آئینی اقدام سے ملک کا وقار اور اعتبار دائو پر لگ جاتا ہے ۔ ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ ہمیں علامہ محمد اقبال ؒ اور قائد اعظم ؒ کا پاکستان چاہیئے ۔ ہم اقبال ؒ اور قائد اعظم کے وفادار بیٹے ہیں ۔ہم نے اس وطن عزیز پر خون دیا ہے اور ہم ہی اس کا دفاع کریں گے ۔ آخر میں تمام شہدائے ملت خصوصاً پارا چنار میں حالیہ شہید ہوالے پاک فوج کے جوانون کے لئے دعائے مغفرت کرائی گئی۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی وزیر دفاع و خارجہ کے ذریعے مستقبل میں پاکستان کو سخت پیغام پہچانے کے بارے میں میڈیا میں جو اطلاعات آ رہی ہیں ان پر کسی کو قطعی کوئی تشویش نہیں،امریکہ کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف ہرزہ سرائی اس کی بھارت نوازی اور چین وپاکستان دشمنی کی واضح دلیل ہے، پاکستانی ریاست کی جانب سے جہادی گروپوں کی حمایت کے الزامات کی قلعی افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے یہ کہہ کر کھول دی ہے کہ داعش کو امریکہ سپورٹ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے قومی وقار کا تقاضہ ہے کہ امریکہ کے کسی بھی پیغام کا جواب اسی لب و لہجے میں دیا جائے، ارض پاک سپر پاور کے زعم میں مبتلا کسی ملک کی کالونی نہیں بلکہ ایک خودمختار ریاست ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں دہشت گردوں کا سب سے بڑا حمایتی ہمیشہ امریکہ رہا ہے۔ امریکہ کا ہدف دہشت گردی کا خاتمہ نہیں بلکہ ان ممالک پر لشکر کشی کرنا ہے جہاں امریکہ مفادات کے مخالفین موجود ہیں۔
علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ اسامہ کی تلاش اور کیمائی ہتھیاروں کے بہانے افغانستان اور عراق پر حملے کے پس پردہ امریکی عزائم اب کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ امریکہ عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ امت مسلمہ کا اتحاد امریکہ کی موت ثابت ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے استعماری و طاغوتی طاقتوں کے خلاف کھل کر میدان میں نکلنا ہو گا۔ انہوں نے کہا افغانستان پاکستان کا پڑوسی اور مسلم برادر ملک ہے۔ افغانستان کے ساتھ بااعتماد دوستانہ تعلقات باہمی مفادمیں ہیں، جو قوتوں ہمارے درمیان اختلافات پیدا کرنا چاہتیں ہیں وہ خطے کے اجتماعی مفادات کی دشمن ہیں۔ کروڑوں مسلمانوں کا قاتل امریکہ دوستی کے لبادے میں چھپا ہوا امت مسلمہ کا کھلم کھلا دشمن ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھ اکہ امریکی بلاک سے کنارہ کشی مسلمانوں کی بقا کی شرط ہے۔ اگر امریکی اہداف کا بروقت ادارک نہ کیا گیا تو پھر تنزلی و بربادی کے سوا ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) مجلس وحدت مسلمین پاکستان ر اولپنڈی و اسلام آباد میں مقیم تمام مرکزی صوبائی و ضلعی عہدیداران و کارکنان کی خواہش پر قائدوحدت علامہ ناصر عباس جعفری نےمرکزی سیکریٹریٹ میں حالات حاضرہ ــ’’ پاکستان کا سیاسی کلچر اور ہمارا کردار‘‘کےعنوان سے 15 روزہ دوسرا خصوصی لیکچرسے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دنیا میں حق بھی ہے اور باطل بھی لیکن آخرت (جنت) میں صرف حق ہو باطل اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اس کائنات میں ایک ولایت حقیقی ہے اور اس کے مقابلے میں طاغوت کی ولایت ہے ۔ولایت حقیقی جس کاآغازاللہ تعالیٰ سے ہوا انبیاٗ ء اوصیاء اور ائمہ ھدیٰ سے ہوتی ہوولی امر مسلمین حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای تک پہنچی ہے ۔اور یہ تسلسل جاری ہے تا ظہور امام مھدیؑ ،اس ولایت کا کیا فائدہ ہے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے : اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ قال اللہ تبارک و تعالیٰ و قولہ الحق۔ اللہ ولیُّ الذین آمنوا یخرجہم من الظلمٰات الی النور۔ والذین کفروا اولیآئھم الطاغوت یخرجونہم من النور الی الظلمٰات اولآئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون۔ جو صاحب ایمان ہیں ، جو مؤمن ہیں اُن کا ولی اللہ ہے کیونکہ اُنہوں نے اللہ کی ولایت کو قبول کرلیا ہے اب اُس کے مقابلہ میں کافر ہے ، والَّذین کفروا، اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے ، اولیآئھم الطاغوت، اُن کا سرپرست اور ولی طاغوت ہے ۔ یعنی مراد یہ ہے کہ مؤمنین نے اللہ کو اپنا سرپرست بنایا ہے اور کفار نے طاغوت کو اپنا سرپرست بنایا ہے ۔ اب اللہ کے مقابلے میں طاغوت ہے ، نظامِ خدا کے مقابلے میں نظامِ طاغوت ہے ، خدا کی سرپرستی کے مقابلے میں طاغوت کی سرپرستی ہے ، رحمٰن کی سرپرستی کے مقابلے میں شیطان کی سرپرستی ہے ،مجموعی طور پر دو ولایتوں کا تذکرہ ہے ، ایک ولایتِ اللہ ، اور ایک ولایتِ طاغوت۔ جو مؤمن ہے اللہ ولیُّ الذین آمنوا، صاحبانِ ایمان کا ولی و سرپرست اللہ ہے ۔
وہ لوگ جنہوں نے اللہ کو اپنا ولی قرار دیا ہے تو اللہ کا کام کیا ہے، اُس عظیم ولی کا کام کیا ہے ، اللہ ولی الذین آمنوا یخرجھم من الظلمٰات الی النور۔ اس کا کام مؤمنین کو ظلمات سے ، تاریکی سے ، گمراہی سے نکال کر ہدایت اور نور کے شاہراہ پر گامزن کرنا ہے۔ جو گمراہی میں ہیں اُنہیں ہدایت دینا ہے، جو ظلمات میں ہیں اُنہیں روشنی دیتا ہے ، جو بدبختی میں ہیں اُنھیں نیک بخت بنا دیتا ہے ، جو فسق و فجور میں غلطاں ہیں اُنہیں بندگی، عبادت، تقویٰ اور عبودیت کی منزل تک پہچاتا ہے۔ لیکن جنہوں نے شیطان کو ، طاغوت کو ، نظام فسق و فجور کو اپنا سرپرست بنایا ہے ، والَّذین کفروا اولیآئھم الطاغوت، جو لوگ کافر ہوچکے ہیں ، خدا کےمنکر ہوچکے ہیں اُن کے اولیاء طاغوت ہیں۔ یخرجھم من النور الی الظلمٰات۔ جو اُنھیں نور سے نکال کر ظلمات اور گمراہی کے راستے پر ڈال دیتے ہیں ، ہدایت سے نکال کر گمراہی کے راستے پر ڈال دیتے ہیں ۔
جبکہ طاغوت کی ولایت شیطان سے چلتے چلتے ڈونلڈ ٹرمپ تک آپہنچی ہے ۔آج کا شیطان اکبر ڈونلڈ ترمپ ہے اور جو اس کا ساتھ دے وہ ایسا جیسے نور(ایمان ) سے نکل کر طاغوت سےجا ملا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں طاغوتی نظام کے خلاف ڈٹ جانے کا حکم دیا ہے قرآن نے الہی نظام قائم کرنے کا حکم دیا ہے ۔ یا داؤد انا جعلنٰک خلیفۃً فی الارض فاحکم بین الناس بالعدل۔ اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین پر خدا کا خلیفہ بنادیا ہے پس آپ لوگوں کے درمیان عدالت کے ساتھ حکم کریں۔لوگوں کے درمیان عدالت کے ساتھ حکم کون کر سکتا ہے ؟ جس کے ہاتھ میں حکومت ہو۔ جس کے ہاتھ میں حکومت ہی نہ ہوتو کیا وہ لوگوں کے درمیان عدالت کے ساتھ حکم کرسکتا ہے ؟ بھائی جب حکومت ہی نہ ہو تو بات مانے گاکون ؟ و لقد بعثنا فی کل امۃٍ و رسولاًانِ اعبدوا اللہ واجتبوا الطاغوت۔ ہر امت میں خدا نے کوئی نہ کوئی پیغمبر بھیجا ہے ، انبیاء کا کام کیا ہے ؟ انِ اعبدوا اللہ ، لوگوں کو خدا کی عبادت کی جانب دعوت دیں ، واجتنبوا الطاغوت، اور لوگوں کو طاغوت سے دور رکھیں ۔ لوگوں کو طاغوت سے دور رکھنے سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو طاغوت کے مقابلے میں کھڑا کریں۔ لوگ طاغوت کےمقابلے میں ڈٹ جائیں ، لوگ طاغوتی نظام کے خلاف بغاوت کریں ، لوگ طاغوتی نظام کو ٹھکرائیں ، طاغوتی نظام کو ٹھکرانا کافی نہیں ہے بلکہ طاغوتی نظام کو سرنگون کرکے ، طاغوتی نظام کو نابود کرکے طاغوتی نظام کو برباد کرکے پھر اس کے مقابلے میں ایک الٰہی نظام کا کنسپٹ جب تک نہ ہو تب تک جد و جہد کرتے رہیں ۔ تو خدا یہ چاہتا ہے کہ طاغوتی نظام کو گرا کر آپ پھر بیٹھ جائیں ؟ اسی نظام کو بدلنے کا اسی نظام کو گرانے کا کسی سسٹم کو ختم کرنے کا مفہوم و معنیٰ یہ ہے کہ اس نظام کے مقابلے میں کوئی بہترین نظام لے کر آئیں ۔ جب طاغوتی نظام کو توڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے ، جب طاغوتی نظام کے ساتھ مقابلہ کرنے کا خدا نے حکم دیا ہےجب طاغوتی نظام کے ساتھ لڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طاغوتی نظام کے ساتھ ساتھ ایک الٰہی نظام ایک خدائی نظام قائم ہو۔اور ایک ایسا خدائی نظام کا کنسپٹ اسلام میں پایا جاتا ہے ۔
طاغوتی نظام ، فاسق نظام، فاجر نظام ، جابر نظام ، شیطانی نظام غیرِ الٰہی نظام کے مقابلے میں جس نظامِ حکومت اور جس نظام سیاست کا اسلام نے نظریہ پیش کیا ہے وہ عصرِ غیبت کبریٰ میں نظام ولایتِ فقیہ ہے ، فقیہ کی حکومت۔ اب فقیہ کی حکومت کیوں نہ ہو ؟ ایک عادل وکیل کی حکومت کیوں نہ ہو؟ ایک عادل سیاستمدار کی حکومت کیوں نہ ہو؟ ایک عادل جج کی حکومت کیوں نہ ہو ؟
فقیہ کی حکومت، اگر چہ وہ امام معصومؑ تو نہیں ہیں لیکن ہم اس شخص کی حکومت کو مانتے ہیں جو دوسروں کی بہ نسبت امام معصومؑ سے زیادہ قریب ہیں ، کس چیز میں قریب ؟ علم میں ، تقویٰ میں ، بصیرت میں ، آگاہی میں ، پس فقیہ کی حکومت یا فقہاء کی حکومت وہی اسلامی نظام ہے ۔ قرآن نے کلیات کو بیان کیا ہے کہ طاغوتی نظام کے مقابلے میں اسلامی نظام کو قائم کرنا ہمارے اوپر واجب ہے ۔ اب عقل کی رو سے آیات کی رو سے روایات کی رو سے سیرت کی رو سے اور انسانی بصیرت کی رو سے اگر ہم اس مصداق کو تلاش کرنا چاہیں اور ڈھونڈنا چاہیں کہ جب تک امام عصر ؑ ظہور نہیں فرمائیں گے اسلام کےلئے جس نظام کا اعلان کیا ہے اور جس سسٹم کا اعلان کیا ہے اُس نظام اور سسٹم کا نام ہے ولایتِ فقیہ۔
اگر آپ روایات میں جائیں تو ایک کلی مسئلہ آپ حضرات کی خدمت میں ہم پیش کرتے ہیں کہ ائمہ معصومینؑ کے حضور میں اُ ن کی موجودگی میں اس ظاہری دنیا میں امام معصومؑ ہر جگہ نہیں جاسکتے تھے تو کیا مختلف شہروں میں اور مختلف ملکوں میں امام اپنے نمائندئے نہیں بھیجتے تھے ؟ آپ قم جائیں حضرت معصومہ کے حرم کے اس طرف ایک مسجد ہے جس کا نام مسجدِ امام حسن عسکریؑ ہے، اور جناب اسحق قمی کے فرمان کے مطابق اس مسجد کو تعمیر کرایا گیا تھا۔ اُس زمانے میں جناب اسحاق قمی قم کی سرزمین پر امام حسن عسکریؑ کا نمائندہ ہوا کرتے تھے ۔ کیا امیر المؤمنین ؑ نے اپنے دور حکومت میں مختلف شہروں اور ملکوں میں آپنے نمائیدہ نہیں بھیجتے تھے ؟ کیا امام صادقؑ کے نمائیدے مختلف ملکوں اور شہروں میں نہیں تھے ؟ کیا امام رضاؑ کے دور میں دنیا کے مختلف شہروں میں جہاں شیعہ رہتے تھے کیا وہاں پہ امام ؑ کے نمائیدہ نہیں تھے ؟ جب امام صادق ایک جگہ پر جناب زرازہ کو بھیجا ؑ نے ۔تو کیا لوگوں سے نہیں کہا کہ آپ لوگ زرارہ کی طرف رجوع کریں ، جو زرارہ کہے گا وہی ہمارا حکم ہے ،جو محمد ابن مسلم کہے گاوہی ہمارا حکم ہے ، جو ابوحمزہ ثمالی کہے گا وہ ہمارا حکم ہے ۔
امام معصومؑ اپنی زندگی میں اپنی حیات میں جہاں پر امامؑ خود بنفس نفیس نہیں جاسکتے تھے وہاں پرکیا اپنا نمائندہ نہیں بھیجتے تھے ؟ کیا اُن کو امام معصومؑ کی طرف سے ولایت حاصل نہیں تھی ؟ اگر کوئی امامؑ کے نمائیدے کی مخالفت کرے تو کیا اسے امام معصومؑ کی مخالفت نہیں سمجھا جائے گا ؟ اب عقل سے پوچھے جب امامؑ کےہوتے ہوئے جن شہروں میں امامؑ تشریف نہیں لے جا سکتے تھے وہاں پر امامؑ کے نمائندے کی ضرورت ہے تو اس زمانے میں امام ؑ غیبت میں ہیں ، امامؑ ہمارے درمیان (ظاہری طور پر)موجود نہیں ہیں ، تو کیا ہمارے درمیان امامؑ کا نمائندہ نہیں ہونا چاہئے ؟ جو امامؑ کی نیابت میں حکومت کرے ، جو امامؑ کی نیابت میں اس نظام کو چلائے ، جو امامؑ کی نیابت میں اس سسٹم کو آگے لے جائے جو امامؑ کی نیابت میں اسلامی معاشرے کی مدیریت کرے ، اب عقل سے پوچھے کہ امام معصومؑ کے ہوتے ہوئے جہاں امامؑ جن مقامات میں جن ملکوں میں جن شہروں میں نہیں جاسکتے تھے وہاں پر امامؑ کے نائب کی ضرورت ہے تو کیا عصر غیبت میں امامؑ تک جب ہماری رسائی نہیں ہے ،امامؑ کو ہم دیکھ نہیں سکتے ہیں امامؑ کے پاس ہم جا نہیں سکتے ہیں تو اس دور میں جہاں پر ہماری رسائی امامؑ تک نہیں ہیں وہاں پر امامؑ کی نیابت میں امامؑ کا ایک نمائندہ نہیں ہونا چاہئے ؟ ہونا چاہئے ! اسی کا نام ہے نظامِ ولایت فقیہ ۔
فلسفئہ اسلام، حکومت ہے امام خمینیؒ نے فرمایا: کہ اگر ہم حکومتِ اسلامی کا نعرہ بلند نہ کریں ،اگر ہم ولایتِ فقیہ کا نعرہ بلند نہ کریں اگر ہم طاغوتی نظام کے خلاف اپنا احتجاج بلند نہ کریں تو سمجھ لیجئے کہ ہم نے اسلام کو نہیں سمجھا ہے ۔ ایسا انسان فلسفئہ حقیقت اسلام سے آگاہ نہیں ہے ۔ہمیں اگر کوئی یہ کہے کہ آپ ولایتِ فقیہ کو قرآن سے ثابت کریں اسی لفظ کے ساتھ تو آپ اُن سے سوال کریں کہ بارہ امامؑ کےنام ہمیں قرآن میں دکھا دیں ۔ ایک بھی امام کا نام قرآن میں نہیں ہے۔ ائمہؑ کا نام قرآن میں آنا ضروری نہیں ہے؛ قرآن مجید میں اگر صرف ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے نام ہی آجائیں تو اس قرآن کے دس برابر ہوجائے ۔ قرآن میں کلیات بیان ہوئے ہے ۔ اب تمام مسلمانوں کا ایمان ہے یا نہیں ہے ۔ ہم اور اہل سنت برادران آپس میں بھائی بھائی کی طرح ہیں ہمیں اس دور میں اس ماحول میں جہاں طاغوتی نظام اسلام کو شکست دینے کے درپےہیں ہمیں شیعہ سنی برادران کو ملاکر طاغوتی نظام کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے؛ انتہائی محبت کے ساتھ اور دشمن یہی چاہتا ہے کہ شیعہ سنی آپس میں لڑیں۔پاکستان میں ہم کیوں کہتے ہیں ہمیں قائداعظم ؒ کا پاکستان چاہیئے اب تو آرمی چیف نے بھی ہمارے موقف کی تائید کرت ہوئے کہا ہے کہ قائد اعظم ؒ کا پاکستان ہی وطن عزیز کی نجات کا ذریعہ ہے ۔
ہم ہمیشہ سے کہہ رہے ہیں کہ امریکی بلاک سے باہر آئو! امریکہ آپ کا نجات دہندہ نہیں ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ آپ کوبحرانوں سے نہیں نکالے گا بلکہ اس کی کوشش ہو گی کہ آپ اقتصادی ،معاشی اور ثقافتی طور پر بحرانوں میں گھیرے رہیں ۔آپ کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی ۔ آپ چین ،روس ،ترکی اورایران سے ملکر ان سارے بحرانوں سے باہر آسکتے ہیں ۔ آپ کو دہشت گردی ،انتہا پسندی ، فرقہ واریت،کرپشن اور ناامنی میںامریکہ نے پہنچایا ہے ۔آپ نے آج تک امریکہ کاساتھ دیا اور آپ یہاں تک آ پہنچے ہیں ۔ اب اسے سے کنارہ کر دیکھ لیں ۔ جن ممالک نے امریکہ سے دوری اختیار کی ہے وہ خوشحال ہیں ۔آزاد ہیں ۔ ہم سب کو وطن عزیز سے محبت ہے اور ہم میںسے ایک ایک اس پا ک سرزمین کا نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا سپاہی ہے ۔جب بھی وطن عزیز کو ہماری ضرورت پیش آئی ہم بلاتردد اس وطن پر جان بھی قربان کردیں گے ۔ مگر اس کو تکفیریت جیسی دشمن قوت ہاتھ نہیں جانے دیں گے ۔ ان شاءاللہ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نےمجلس عزاسے خطاب کرتے ہوئےکہاہے کہ محرم الحرام ہمیں حسینیت کا درس دیتا ہے۔ حسینت باطل قوتوں کے سامنے دلیری سے ڈٹ جانے کا نام ہے۔چودہ سو سال بعد آج پھر یزیدیت تکفیریت کی شکل میں سر اٹھا رہی ہے۔شیعہ سنی وحدت کے ہتھیار سے دور عصر کے یزیدی ارادوں کو پسپا کیا جا سکتا ہے۔یزید محض ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک فکر کا نام ہے۔اس باطل فکر کی راہ میں وہ افراد رکاوٹ ہیں جو حق شناس ہیں۔اسلام دشمن طاقتوں کی پیروی سے انکار ہی حقیقی حسینیت ہے ۔انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت رکھنے والا ہر شخص نواسہ رسول ﷺ کے ایام عزا میں سوگوار ہے۔عزاداری سید الشہدا امام عالی مقام سے تجدید عہد اور مودت کے اظہار کی عملی شکل ہے۔اسلامی تعلیمات کی حقیقی معنوں میں پیروی اور رضا ئےربی پر بلا چوں چراں لبیک کہنے کا نام حسینیت ہے۔دنیاوی منفعت کو اسلامی قدروں سے مقدم رکھنا یزیدیت ہے۔ حسینی کردار دین حق کی سربلندی کے لیے ہمیشہ میدان عمل میں موجود نظر آئیں گے۔باطل قوتوں کے لیے میدان کو کبھی خالی نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ کربلا محض ایک درد ناک سانحہ نہیں بلکہ باوقار زندگی کے لیے ایک بہترین درس ہے۔