وحدت نیوز(آرٹیکل) طرفداری اور حمایت کے بھی اصول ہوتے ہیں۔اصولوں کے بغیر کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔خصوصا کسی بھی تحریک یا تنظیم کی حمایت کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ عوامی ہے یا نہیں،دوسری بات یہ کہ مقامی بھی ہے یا نہیں اور تیسری بات یہ کہ آزادی اور استقلال کی خاطر ہے یا نہیں۔
عوامی ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس تنظیم یا تحریک کو عوام میں مقبولیت حاصل ہونے چاہیے ،وہ تشدد اور دھونس دھاندلی کے بجائے عوامی جدوجہد پر یقین رکھتی ہو،جبکہ مقامی ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ تنظیم یا تحریک باہر سے نہ چلائی جارہی ہو بلکہ مقامی لوگ ہی اس کے چلانے والے ہوں اور آزادی و استقلال سے مراد یہ ہے کہ وہ تحریک یا تنظیم اپنی ملت کو ہر طرح کی غلامی سے آزاد کروانے اور استقلال کی خاطر ہو۔
ہم پاکستانیوں کے بھی کیا کہنے!کسی کی حمایت یا مخالفت کا ہمارے ہاں کوئی اصول نہیں،ہمیں اپنے ملک کے علاوہ باقی سب کی فکر ہے۔سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ہم آنکھیں بند کرکے دوسروں کے جھگڑوں میں کودنے کے عادی ہیں۔جب سے شام میں باغیوں نے سر اٹھایا ہے ہم بھی حالتِ جنگ میں ہیں۔باغی کون ہیں اور وہ بشارالاسد سے کیوں جھگڑ رہے ہیں!؟ ہمیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں۔باغیوں کو اسلحہ اور ٹریننگ کون دے رہاہے !؟ہمیں اس سے بھی کوئی مطلب نہیں ،ہم نے تو صرف کسی کی مخالفت یا حمایت کرنی ہوتی ہے سو اپنی اپنی جگہ کررہے ہیں۔
چنانچہ چند سالوں سے مسلسل ہماری مسجدوں ،منبروں اور میڈیاسے شام کی جنگ لڑی گئی۔مسلسل باغیوں کو مجاہدین اسلام اوربشارالاسد کو ڈکٹیٹر کہاگیا،ہماری حمایت اور دنیا کی بے حسی کانتیجہ یہ نکلا کہ شام کا سب سے بڑا تجارتی مرکز حلب چھ سال تک باغیوں کے قبضے میں رہا۔
اللہ کی لاٹھی بھی بے آواز ہے،شامی حکومت نے اپنی توانائیوں کو جمع کیا اور ۲۰۱۶کے آخر میں حلب کو حملہ آوروں سے آزاد کروالیا۔شامی حکومت کی سرپرستی میں مندرجہ زیل گروہ باغیوں سے ٹکرائے۔
۱۔شام کی سرکاری فوج۲۔حزب اللہ لبنان،۳۔لشکر فاطمیون(افغانستان)،۴ ۔لوالقدس(فلسطین)،۶۔ جیش دفاع الوطنی،۷۔ گروه مقاومت اسلامی نُجَباء۔۔۔وغیرہ
شام کو اس جنگ میں نمایاں فتح ہوئی اورحملہ آور پسپا ہوکر آجکل صحراوں کی خاک چھان رہے ہیں۔اس وقت ان کی ایک بڑی تعداد موصل میں عراقی حکومت سے دوبدو ہے۔
موصل بھی حلب کی طرح انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ یہ عراق کے شمال میں واقع ہے اوردارالحکومت بغداد کے بعد آبادی اور تجارت کے لحاظ سےدوسرا اہم مرکز ہے۔یاد رہے کہ اب ۲۰۱۴ سے اس پر داعش کا قبضہ ہے۔داعش میں امریکہ، یورپ،ترکی،سعودی عرب،افغانستان اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کے لوگ بھرتی ہیں۔حلب کی آزادی کے بعد جہاں داعشی مفرورین پناہ کے لئے موصل کی طرف بھاگ کر آئے ہیں وہیں عراقی حکومت نے بھی اپنی تمام تر توجہ موصل پر مرکوز کررکھی ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب موصل میں بھی باغیوں کی شکست یقینی ہے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ شام اور عراق میں ہونے والی پے در پے شکستوں کے بعد باغی اپنے اپنے ملکوں کو واپس بھی لوٹ سکتے ہیں۔یہ وہ خطرہ ہے کہ جس کا اظہاران دنوں برطانیہ کے سیکورٹی وزیر بین وولیس نے بھی کیا ہے۔ان کے بقول شام اور عراق میں مسلسل پسپائی پر مجبور شدست پسند تنظیم داعش میں شامل برطانوی شدت پسندوں کی واپسی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اورداعش واپس لوٹنے والے اپنے تربیت یافتہ جنگجووں کو استعمال کر کے وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کی پلاننگ کر سکتی ہے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر برائے سیکورٹی کا کہنا ہے کہ شدت پسندتنظیم برطانیہ میں کیمیائی حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ داعش کے پاس ان حملوں کی صلاحیت موجود ہے جو اس سے قبل مشرق وسطی میں استعمال بھی کرچکی ہے ۔
ہم یہاں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ خطرہ فقط برطانیہ کو درپیش نہیں بلکہ ہر اس ملک کو لاحق ہے جس کے افراد داعش میں بھرتی ہوئے ہیں اور جس میں پائی جانے والی تنظیموں کے ڈانڈے داعش سے ملتے ہیں۔ایسے میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو بھی انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ہم نے افغانستان میں دہشت گردی کے جو بیج بوئے تھے اس کی فصل ابھی تک کاٹ رہے ہیں اب شام اور عراق کا ثمر بھی ملنے والا ہے۔
پاکستان میں جہاں عام حالات میں دہشت گرد ایک حملہ کرکے سکول کے ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کو شہید کردیتے ہیں،جہاں جی ایچ کیو اور پولیس کے مراکز اور ائیرپورٹس کو پہلے سے ہی نشانہ بنایاجاتاہے وہاں داعش کے مقابلے کے لئے خصوصی حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہے۔دہشت گردٹولوں اور شدت پسندوں سے کسی بھی طرح کی نرمی یا غفلت ہمیں کسی بھی بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) حلب میں کیا ہوا؟مجھے ایک مرتبہ پھر حلب کو سمجھانا پڑرہاہے،اس کی ضرورت بعض لوگوں کو دھاڑیں مار مارکر روتے ہوئے دیکھ کر محسوس ہوئی۔رونے والوں کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ اگرکسی نے حلب کو سمجھنا ہے تو کراچی کو سمجھے،یوں فرض کیجئے کہ شام کا کراچی، شہرِحلب ہے۔ یعنی شام کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور روشنیوں کا شہر حلب ہے۔جس طرح پاکستان کے مختلف مناطق میں طالبان اور داعش نے پاکستان سے بغاوت کررکھی ہے ،اسی طرح انہوں نے شام میں بھی بغاوت کی ہوئی ہے۔یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ باغی چاہے کتنے ہی مضبوط ہوں وہ ایک قومی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔لیکن شام میں چونکہ باغیوں کو امریکہ اور سعودی عرب کی کھلی حمایت حاصل تھی،چنانچہ انہوں نے شام کے صحراوں سے سر نکالا اور شام کے تجارتی دارالحکومت حلب پر قابض ہوگئے۔
یہ ایک پر امن اور بارونق شہر پر صحرائی ڈاکووں کا حملہ تھا،چنانچہ انا ًفاناً دکانیں لوٹ لی گئیں،مارکیٹوں سے سب کچھ چرا لیا گیا،مقامی لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو قیدیوں کی طرح محبوس کردیاگیا۔
امریکہ اور سعودی عرب نے ڈاکووں کو یہ یقین دلایا کہ عنقریب یہ شہر دنیا میں ان کا دارلحکومت بنے گا اور اس کے بعد ہر جگہ ان کی خلافت کا سکہ چلے گا۔چنانچہ سعودی عرب اور امریکہ کا نمک خوار میڈیا باغیوں کے مظالم اور سفاکیت پر خاموش رہا۔
حلب شہر پر ڈاکووں اور باغیوں کے غاصبانہ اور غیرقانونی قبضے کو داعش کی ایک بڑی کامیابی قراردیاگیا۔حلب تقریبا چھ سال تک سعودی عرب اور امریکہ کی جارحیت کا نشانہ بنا رہا۔
آپ فرض کریں کہ پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی پر خدا نخواستہ طالبان یا داعش اپنا قبضہ جما لیں تو غیرت مند پاکستانیوں پر کیا بیتے گی؟
چھ سال تک اہلِ شام اپنے سب سے بڑے تجارتی مرکز کے چھن جانے کے غم میں جلتے رہے،سعودی عرب کے جہاز اور امریکہ کے پالتودرندے نہتے عوام پر شب خون مارتے رہے۔جیسے جیسے ۲۰۱۷ کا سال نزدیک آتا جارہاتھا،امریکہ اور سعودی عرب، داعش اور طالبان کو حلب میں ایک خود مختار ریاست کا یقین دلاتے جاتے تھے۔
اب آپ تصور کریں کہ اللہ نہ کرے کہ اگر کراچی پر امریکہ اور سعودی عرب کے پالتو درندے قبضہ کرلیں تو پھر ہماری فوج کے کیا جذبات ہونگے۔۔۔!؟
جیسا کہ۸ جون ۲۰۱۴ میں طالبان نے کراچی پر قبضے کی کوشش کی بھی تھی۔اگر آپ کو یاد ہوتو اتوار کی رات کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر طالبان نے حملہ کیا تھا جس میں ۲۹ افراد مارے گئے تھے،تاہم اس حملے کو پاک فوج کے جوانوں نے ناکام بنا دیاتھا۔اس حملے کی ذمہ داری پیر کے روز کالعدم تحریک ِ طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے قبول کی تھی، ڈی جی رینجرز رضوان اختر نے پیر کی صبح ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملنے والے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ دہشت گرد غیر ملکی تھے۔
اسی طرح طالبان کی طرف سےمئی 2011میں کراچی ائیرپورٹ سے چند کلومیٹر کےفاصلے پر واقع بحریہ کی مہران ایئر بیس پر اور دسمبر 2012میں پشاور کے باچا خان ائیرپورٹ پرنیز کامرہ ایئر بیس پر اور 2009میں جی ایچ کیو پر حملہ کر کے قبضے کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔
خوش قسمتی سے پاکستان کی غیور فوج نے ان سارے حملوں کو ناکام بنادیا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کہیں پر سعودی عرب اور امریکہ کے کرائے دار حملہ کرتے ہیں تو کیا پاکستانی خوش ہوتے ہیں یا غمگین!؟اسی طرح جب کہیں پر باغیوں کے مقابلے میں پاکستانی فوج کو کامیابی حاصل ہوتی ہے تو ملت پاکستان جشن بناتی ہے یا سوگ!؟
اگر کو ئی پاکستانی فوج کی کامیابی پر جشن بنانے کئ بجائے باغیوں کی شکست پر آنسو بہائے تو اسے آپ وفادار کہیں گے یا غدار!؟
بالکل ایسا ہی شام میں بھی ہوا۔باغیوں نے شام کے ایک تجاری مرکز پر قبضہ کرلیا تھا،شام کی غیرت مند فوج نے چھ سال بعد اس مرکز کو باغیوں سے چھڑوا لیا،اب آپ فیصلہ خود کیجئے کہ اہل شام کو اس فتح پر جشن بنانا چاہیے یا گریہ کرنا چاہیے۔
یہاں پر ہم پاک فوج کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ جولوگ شام میں قومی فوج کے خلاف ہیں اورباغیوں کے ہمدرد ہیں وہی پاکستان میں بھی باغیوں کے سرپرست اور پاکستانی فوج کے لئے خطرہ ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) ہر دینی دارہ اللہ کا گھر ہے۔وہ مسجد ہویا مدرسہ، اہل ایمان کے لئے مقدس اور محترم ہے۔کچھ عرصہ پہلےایک مدرسے کے مدیر صاحب انتقال کرگئے،عوامِ علاقہ کو مدرسے کی دیکھ بھال کی سوجھی،قوم کے ہمدرد جمع ہوئے،مولانا مرحوم کی خدمات کو سراہاگیا،مدرسے کی آمدن کا اندازہ لگایاگیا اور پھر مدرسے کو از سرِ نو فعال کرنے کے لئے سوچ بچار کی گئی۔مدرسے کو فعال کرنے کے لئے مدیر کی ضرورت تھی۔مسئلہ بن گیا کہ اب مدرسے کا مدیر اور وارث کسے بنایاجائے۔!؟
اتفاق سے مولانا مرحوم کی کوئی اولاد نہیں تھی ،چنانچہ مولانا مرحوم کے ایک دور کے رشتے دار کو ڈھونڈا گیا ،پھر انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے راضی کیا گیا ،جب وہ راضی ہوگئے تو انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک دینی مرکز میں داخل کروادیاگیا۔
اب جب تک کچھ لکھ پڑھ نہیں جاتے اس وقت تک اس مدرسے کو چلانے کے لئے حوزہ علمیہ قم کی ایک فاضل شخصیت کو عارضی طور پر مدرسہ چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
اس واقعے سے جہاں ہمارے ہاں عوام کے دلوں میں علما کےاحترام کا پتہ چلتاہے وہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ دینی اداروں کو موروثی سمجھتے ہیں ۔لوگوں کے نزدیک ایک دینی مدرسہ ،مولانا صاحب کی ذاتی پراپرٹی ہوتا ہے لہذا اسے نسل در نسل مولانا صاحب کی نسل میں آگے منتقل ہونا چاہیے۔
اسی طرح بہت سارے لوگ سھم امام اور مال امام سے ادارے بناتے ہیں اور یاپھر خمس و صدقات جمع کرکے دینی اداروں کی بنیاد رکھتے ہیں اور ساتھ ہی قانونی کاروائی کے دوران خود ہی ان اداروں کے تاحیات سرپرست اور متولی بنتے ہیں اور بعض اوقات قانونی کاغذوں میں اپنی آئندہ نسلوں کو بھی ہمیشہ کے لئےمتولی درج کرواتے ہیں۔
بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ بہت ساری مساجد کے کلین شیو اور بے نمازی متولی بھی دیکھنے کو ملتے ہیں،ایسے متولی جو پیش نماز کو ایک ملازم سے زیادہ اور مسجد کواپنی پراپرٹی سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتے۔اگر کہیں مسجد کا متولی خود پرہیزگار بھی ہو اور وہ مسجد کو اپنی پراپرٹی نہ بھی بنانا چاہے تو اس کے باوجود بھی لوگوں کی شعوری حالت یہ ہے کہ لوگ اس کے بعد اس کے بیٹے کوہی مسجد کا متولی بنانے میں اپنی نمازوں کی قبولیت سمجھتے ہیں۔
آپ تھوڑا سا آگے بڑھیں اور اپنے ہاں منعقد ہونے والی دینی محافل و مجالس کے بانیان پر ایک نگاہ ڈالیں،ان میں سے بھی بہت سارے آپ کو براہ نام دیندار ،کلین شیو اور مجالس و محافل کو اپنے سٹیٹس کے لئے منعقد کروانے والے ملیں گے۔
بات آگے ہی بڑھ رہی ہے تو ذرا ان لوگوں کی بات بھی ہوجائے جن کا کوئی ذریعہ آمدن مشخص نہیں ہے اور انہوں نے اپنا ذریعہ معاش ہی دینی اداروں کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنا بنا رکھا ہے۔انہوں نے برائے نام ٹرسٹ بھی بنا رکھے ہوتے ہیں تاکہ کوئی آڈٹ اور چیک اینڈ بیلنس کی بات نہ کرے،چنانچہ کتنی ہی مساجد،مدارس اورامام بارگاہوں کے چندے سالہاسال اکٹھے ہوتے رہتے ہیں اور وہ ادارےہمیشہ زیر تعمیر ہی رہتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے لوگ بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور جدید تعلیمی ادارے بنانے کی باتیں بھی کرتے ہیں حالانکہ خود انہیں جدید تعلیم کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی اوراگر یونیورسٹی یا کالج بنوانے کا حربہ کارگر نہ ہوتو پھر مساجد و مدارس کی تعمیر کے لئے ڈونرز کی تلاش میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔
بعض دینی اداروں اور ٹرسٹ وغیرہ کی تو یہ صورتحال ہے کہ وہ پہلے سے ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ ہمیں عادل سمجھیں اور آنکھیں بند کرکے ہماری مددکریں اور اس کے بعد یہ نہ پوچھیں کہ ہم خرچ کہاں پرکرتے ہیں۔ان کے بقول آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ ہم عین عدالت کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔چنانچہ ہمیں اپنے ملک میں جس مقدار میں فطرانہ،قربانی کی کھالیں اور دیگر صدقات و خیرات جمع کرنے والے ادارے نظر آتے ہیں ،اس طرح غربا میں صدقات تقسیم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اور اگر کہیں پر غربا کی مدد ہوبھی تو چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا کہ جمع آوری کتنی ہوئی اور تقسیم کتنی ۔۔۔
بلکہ غربا کی مدد کرنے والے اداروں میں کلیدی شخصیات جس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں اکثر بجٹ بھی اسی علاقے میں انہی کے عزیزوں،دوستوں اور رشتے داروں پر ہی صرف ہوجاتاہے۔آج کے دور میں اکثر اوقات مسجد کی تعمیر سے لے کر سکالر شپ کے حصول تک عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں رہی ، چنانچہ اب اسی کے علاقے میں شاندار مسجد بنتی ہے اور اسی کو دینی داروں کی طرف سے سکالرشپ ملتا ہے جس کے کہیں نہ کہیں تعلقات ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ ایسے میں ہمارے ہاں ایسے مخلصین کی بھی کمی نہیں جو ہر طرح کی منفعت سے بالاتر ہوکر خدمت دین کررہے ہیں۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں جائیداد،آمدن اور موروثیت سے بالاتر ہوکر کام کرنے والے مخلص اداروں،ٹرسٹیز اور بانیان کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ موروثیت اور بیت المال کے غلط استعمال کے خلاف سر جوڑ کر بیٹھیں،اسی طرح عوام اور خصوصا ڈونرز حضرات کی بھی شعوری سطح کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہر دینی ادارہ مقدس اور محترم ہے لیکن ڈونرز حضرات کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ کوئی بھی ادارہ کسی شخص یا خاندان کا ذریعہ آمدن ہے یا پھر ملک و ملت پر خرچ کرنے اور دین کی خدمت کرنے کا وسیلہ ہے۔
ملک و ملت کی ہدایت اور فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنے والوں کو یہ بھی سوچناچاہیے کہ بنجر زمینوں پر بارش برسنے سے سبزہ نہیں اگا کرتا۔اگر ہم اپنی ملت کی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو پھر تحقیق کرکے اور آنکھیں کھول کر ہی صدقات و عطیات جمع کروانے چاہیے۔
آخر میں مخیر اور ڈونرز حضرات سے دست بستہ یہ عرض کرتا چلوں کہ بیت المال اگر صحیح ہاتھوں تک پہنچے گا تو اس کا استعمال بھی صحیح ہوگا اور جب بیت المال کا استعمال صحیح ہوگا تو ہماری ملی حالت بھی سدھرے گی۔
تحریری۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) مجرم پروری بھی ایک ہنر ہے۔مجرم لوگ ہی مجرموں کی سرپرستی کرتے ہیں،انہیں پناہ دیتے ہیں،خطرات میں محفوظ راستہ فراہم کرتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں۔
مجرمانہ زہنیت رکھنے والے افراد کو کسی سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی،وہ کسی بھی مذہب ،مکتب یا نظریے کے ہمدرد نہیں ہوتے بلکہ وہ مذہب اور نظریے کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کررہے ہوتے ہیں۔
۱۴ اگست ۱۹۴۷میں جب پاکستان بنا تو سولہ سو کلومیٹر فاصلے کے باوجود مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے پاکستان میں شامل ہو کر اقوام عالم کو یہ پیغام دیا کہ جنہیں نظریہ آپ میں ملا دے انہیں زمینی فاصلے ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔
اس کے بعد ہمارے حکمرانوں کی بے حسی،بیوروکریسی کی من مانی اور ہمارے مسئولین کے رویوں نے بنگالیوں کو فکری طور پر اتنا تبدیل کیا کہ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کو مشرقی پاکستان کے باسی ہم سے جدا ہوگئے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی،بیوروکریسی کی من مانی اور ہمارے مسئولین کے رویوں کی وجہ سے ہمارے ہاں عوام ہمیشہ پریشان حال اور مختلف اداروں کےمسئولین مست رہتے ہیں۔
۱۶دسمبر ۲۰۱۴ کو ہی طالبان نے حملہ کرکےپشاور کے آرمی پبلک سکول میں تقریبا ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچوں کو شہید کیاتھا۔یہ بدترین سانحہ بھی کبھی پیش نہ آتا اگر ہمارے ہاں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو حقیقی معنوں میں ختم کیاجاتا اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں اور انہیں تحفظ فراہم کرنے والوں کاصفایاکیاجاتا۔
حکمرانوں کی بے حسی ،بیوروکریٹوں کی من مانی اور مسئولین کے منفی رویے ہی مجرموں کو پلنے اور پھلنے پھولنے کا موقع دیتے ہیں۔
ابھی مسئلہ تفتان ہم سب کے سامنے ہے۔لوگ سخت سردی میں ننگے آسمان تلے ٹھٹھرتے ہیں،ان کے ساتھ بدتمیزی ہوتی ہے اور ان سے رشوت لی جاتی ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں کوئی حکومت اور کوئی ادارہ ہی نہیں جو ان کے مسائل کو حل کرے۔
اب آئیے تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کی طرف چلتے ہیں،جہاں پاسپورٹ کا عملہ تو ماشاللہ اچھی طرح اپنی ذمہ داری انجام دے رہاہے لیکن شناختی کارڈ بنوانے والے لوگوں کو خون کے آنسو رلایا جاتاہے۔
لوگوں سے فیس وصول کرکے کہاجاتاہے کہ پاکستان سے نادرا والے آپ کا شناختی کارڈ نہیں بھیج رہے ۔لوگ چکر پر چکر لگاتے ہیں،فون کرتے ہیں،درخواستیں لکھتے ہیں لیکن بے حسی کی انتہا ہے کہ آگے سےصرف ایک ہی جواب دیا جاتاہے کہ ہم کیا کریں یہ تو پاکستان سے نادرا والے نہیں بھیج رہے۔
بطور ثبوت اس وقت صرف دو رسید نمبر پیش کررہاہوں کہ جنہیں ایک سال ہوگیا ہے اور ابھی تک وہ شناختی کارڈ وصول کرنے کے لئےدھکے کھا رہے ہیں۔ایک رسید نمبر ۱۴۴۴۸۷۳ہے اس کی فیس ۱۳جولائی ۲۰۱۵ کو جمع کروائی گئی اور دوسری رسیدکا نمبر ۱۴۴۹۴۳ہے اور اس کی فیس ۲۸ جنوری ۲۰۱۶ کو جمع کروائی گئی ہے۔
بے حسی،من مانی اور منفی رویوں نے ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ شریف آدمی قانون اور انصاف کے نام سے ہی ڈرتا ہے۔ہر جگہ عام آدمی کو یہ یقین ہوگیاہے کہ کسی بھی ادارے کے کرپٹ اہلکاروں کے خلاف اس کے درخواست دینے اور واویلا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ابھی گزشتہ روز ہی چترال ائیرپورٹ سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہونے والا ایک طیارہ حادثے کا شکارہوگیا جس میں سینتالیس کے لگ بھگ قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔
یہ حادثہ کیوں پیش آیا !؟اس کے بارے میں مصدقہ اطلاعات یہی ہیں کہ یہ یہ طیارہ اڑنے کے قابل ہی نہیں تھا۔۔۔
جب یہ طیارہ اڑنے کے قابل ہی نہیں تھا توپھر کس کی بے حسی اور من مانی نے اس طیارے کو اڑنے کی جازت دی۔
جب تک ہمارے ملک کے اداروں میں من مانی کرنے والے،بے حس اور منفی رویہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں اس وقت تک عوام سکھ کا سانس نہیں لے سکتے۔
عوامی بھلائی،فلاح وبہبود اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ حکومت بے حسی کو ترک کرے،من مانی کرنے والے اہلکاروں کو نشان عبرت بنایاجائے اور کسی بھی ادارے کے اہلکاروں کے منفی رویوں کے خلاف عوامی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔
تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) افواج ،ممالک کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں۔باشعوراقوام اپنے بہادر جرنیلوں کے کارناموں پر فخر کرتی ہیں،استعمار جب بھی کسی ملک کو توڑنا چاہتاہے تو سب سے پہلے اس کی فوج کو کمزور کرتاہے،چونکہ صرف کمزور فوج ہی استعمار کی آلہ کار بنتی ہے۔جب تک کسی ملک کی ملی فوج مضبوط رہتی ہے ،اس ملک کا پرچم سربلند رہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک و اقوام کی طرح ملت پاکستان بھی اپنی فوج سے والہانہ عشق اور لگاو رکھتی ہے۔
ہمارے ہاں چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا تقرر بنیادی طور پرجی ایچ کیو کی جانب سے ہی کیا جاتاہے۔ابتدائی طور پر جی ایچ کیو کی طرف سے سینئر ترین فوجی افیسرز کی فہرست وزارت دفاع کے ذریعے وزیر اعظم کو بھیجی جاتی ہے۔فہرست کا مطالعہ کرنے اور جائزہ لینے کے بعد وزیراعظم ریٹائرمنٹ کے دہانے پر کھڑے آرمی چیف سے اس بارے میں مشورہ کرتے ہیں۔
جب وزیرا عظم کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں تو صدر مملکت کو اعلان کرنے کے لئے مجوزہ نام بھیج دیتے ہیں۔یوں وزیر اعظم کی تجویز پر صدر مملکت نئے آرمی چیف کا تقرر کرتے ہیں۔چنانچہ صدر مملکت کو کمانڈر انچیف بھی کہاجاتاہے۔
مذکورہ مرحلے سے گزرنے کے بعد پاکستان کے صدر مملکت ممنون حسین نے وزیراعظم نواز شریف کی تجویز پرلیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیا آرمی چیف مقررکردیاہے۔یہ دونوں جنرل 29 نومبر بروز منگل سے اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھا لیں گے اور اسی دن موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ریٹائرڈ ہوں گے۔
جنرل قمر باجوہ کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج (ٹورنٹو)، نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی مونٹیری (کیلی فورنیا)، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے گریجویشن کے علاوہ کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں بطور بریگیڈ کمانڈر کام کرنے کے علاوہ انفینٹری اسکول کوئٹہ میں کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موصوف کو کشمیر اور شمالی علاقوں میں تعیناتی کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے۔
اسی طرح لیفٹننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو بھی پروفیشنل اعتبار سے ایک مثالی افیسر سمجھا جاتاہے۔ وہ فورٹ سل اوکلوہوما (امریکا)، کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کیمبرلے (برطانیہ) اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے گریجویٹ ہونے کے ساتھ ساتھ حاضر سروس چیف آف جنرل اسٹاف ہیں، تھری اسٹار جنرل کی حیثیت سے ماضی میں وہ اسٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) کے ڈائریکٹر جنرل اور بہاولپور کے کور کمانڈر بھی رہ چکے ہیں ۔
یہاں پر ہم یہ نکتہ بیان کرتے چلییں کہ کوئی بھی شخص جتنا باصلاحیت اور لائق ہوتا ہے ،اس سے توقعات بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں۔ مملکت پاکستان ہمارے پاس ایک الٰہی نعمت ہے اورہمارے مسئولین کے پاس اس کی اہم پوسٹیں ایک خدائی امانت ہیں۔چنانچہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں مملکت خداداد میں دین اور ملک و قوم کی خدمت کا شرف حاصل ہوتاہے۔
اس وقت ہمارا ملک جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان کے حل کی اصلی کلید پاکستان آرمی کے پاس ہی ہے۔لہذا ملت پاکستان اپنے سپہ سالاروں سے یہ امید رکھتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئےاس ملت کو مسائل سے نجات دلائیں۔
اس وقت ہمارے اہم مسائل کی فہرست ہم پیش کئے دیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارے نئے سپہ سالار ،ان مسائل کو حل کرنے میں اپنی پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کریں گے۔
۱۔مسئلہ کشمیر اور پاکستانی فوج کا کردار
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے،مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی فوج کبھی بھی غیرجانبدار نہیں رہ سکتی لیکن اس مسئلے کو کشمیری عوام کی منشا اور رضایت کے بغیر حل بھی نہیں کیاجاسکتا۔دشمنوں کی چالوں اور اپنوں کی نااہلی کے باعث گزشتہ چند سالوں سے اس مسئلے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اس وقت کنٹرول لائن پر پائی جانے والی کشیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اس کے باوجود یہ جان لیجئے کہ موجودہ کشیدگی کسی مسئلے کا حل نہیں۔پاکستان کی مسلح افواج کو اس حقیقت کو درک کرنا چاہیے کہ پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ قتل و غارت کا براہِ راست اثر اہلیانِ کشمیر پر پڑا ہے۔کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کو اپنا جزوِایمان سمجھنے والے کشمیری اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر وہ پاکستان میں شامل ہوتے ہیں تو کسی ہندو کی گولی کے بجائے کسی تکفیری کے فتوے کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔
پاکستان کو اپنی آخری اور اصلی منزل سمجھنے والے کشمیریوں کی نئی نسل اپنے ابا و اجداد کے فیصلے پر نظر ثانی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اس وقت پاکستان میں پائے جانے والے تکفیری عناصر کے حوالے سے پاکستانی فوج کو فیصل کن کردار ادا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے مرحلے میں مسئلہ کشمیر کے سلسلےمیں پاکستان سے تکفیریت کا خاتمہ ضروری ہے۔
دشمن پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ قتل و غارت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہاہے،لہذا پاکستانی فوج کو بھی تکفیریت کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
۲۔جہادی گروہ ضرورت یا مصیبت
بلاشبہ پاکستان نے کسی دور میں روس اور ہندوستان سے نمٹنے کے لئے جہادی گروپوں کو تشکیل دیا تھا۔اب یہ گروپس اپنے اصلی خطوط سے منحرف ہوچکے ہیں اور اپنے اصلی محازوں کو چھوڑ کر گلی کوچوں میں نہتے عوام کا خون بہارہے ہیں۔
اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ جو گروپس آئین پاکستان اور افواج پاکستان کی تابعداری کرتے ہیں اور اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہیں انہیں باقی رہنا چاہیے لیکن جو قائد اعظم کو کافر اعظم ،پاکستان کو کافرستان، ملت پاکستان کو کافر و مشرک ،آئین پاکستان کو شرک اور پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں ،ایسے گروپوں کا فوری طور پر خاتمہ ہونا چاہیے۔
ایسے گروپ، ہماری نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان کے خلاف ابھارتے ہیں،اپنے ہی ملک کے خلاف اکساتے ہیں اور خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نہتے اور بے گناہ لوگوں کا خون بہاتے ہیں۔
ایسے گروہوں کو فعالیت کی اجازت دینا در اصل پاکستان کی جڑوں کو کاٹنا ہے۔لہذا افواج پاکستان کو سب سے پہلے اپنے ان اندرونی دشمنوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
۳۔ملکی اثاثوں کی حفاظت
ملکی اثاثوں میں صرف ایٹمی اثاثہ جات نہیں آتے بلکہ ہمارے ملک کے اصلی اثاثہ جات وہ دانشور ،پولیس آفیسر اور آرمی کے جوان ہیں جو اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے ملک میں شعرا،ادبا،دانشمندوں اور پولیس و فوج کی قیمتی شخصیات اس کے علاوہ سکول کے بچوں کو شہید کیا جارہاہے۔
موجودہ صورتحال پاکستان آرمی کے سامنے ہے،اب فوج کو چاہیے کہ ایٹمی اثاثوں کی طرح اہم شخصیات اور مراکز کی حفاظت کو بھی اپنی اولین ترجیح قرار دے۔
۴۔دوسرے ممالک کے نفوز کا خاتمہ
پاکستان میں دہشت گردوں کی مدد اور سرپرستی کے حوالے سے،افغانستان ،ہندوستان اور سعودی عرب کا نفوز کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔دہشت گرد گروہ جہاں اندرونی طور پر ہمیں کمزور کرتے ہیں وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو دھچکا لگتاہے۔پاکستان کی سالمیت کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں پاکستان کے مفاد کے خلاف دیگر ممالک کے اشاروں پر چلنے والے تمام نیٹ ورکس کو توڑا جائے اور ایسے اداروں کو سیل کیاجائے۔ یہ کام پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارت کو بروئے کار لائے بغیر نہیں ہوسکتا۔
۵۔پاکستان آرمی سے فرقہ واریت کا خاتمہ
اگرچہ پاکستان آرمی بظاہر ہرقسم کی فرقہ واریت سے پاک ادارہ ہے لیکن یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ایک مخصوص فرقے کی تبلیغ کو آرمی میں رائج کیاگیا۔اس کے اثرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا،لہذا پاکستان آرمی سے فرقہ وارانہ سوچ کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ختم کرنے کی ضرورت ہے اور فرقہ واریت کی جگہ بھائی چارے،اخوت اور مواخات کی عملی ٹریننگ کے لحاظ سے اقدامات کئے جانے چاہیے۔
۶۔کرپشن کا خاتمہ
پاکستان ایک اسلامی و نظریاتی ملک ہے۔جولوگ اس ملک میں کرپشن کرتے ہیں وہ در اصل ملک و قوم کے غدار ہیں۔ان غداروں سے نمٹنے کے لئے پاکستان آرمی کے پاس شفاف اور بااختیار مانیٹرنگ سیل ہونا چاہیے۔
یاد رکھئے !کرپشن صرف بڑی سطح پر نہیں ہوتی بلکہ میڈیسن کمپنیوں،پلاٹوں کی خریدوفروخت، تھانے، کچہری ،نادرا ،برقیات اور دیگر اداروں میں میں چپراسی اور اردلی کی سطح سے شروع ہوتی ہے اور اوپر کی سطح تک جاتی ہے۔
لوگ پریشان حال ہیں،کہیں میرٹ نہیں کہیں شنوائی نہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔برقیات والے بغیر میٹر ریڈنگ کے بل دیتے ہیں،واٹر سپلائی والے کئی ہفتوں تک پانی ہی نہیں دیتے،دہشت گرد دندناتے ہیں،عدل بکتا ہے،انصاف سسکتاہے،مخلوق خدا بے بس ہے۔
آرمی کے ایسے شکایات سیل ہونے چاہیے جہاں لوگ اپنی چھوٹی موٹی شکایات سے لے کر بڑے بڑےمسائل تک سب کچھ لے کر جائیں اور آرمی کے دیانتدار ادارے کی زیر نگرانی عوامی مسائل حل کئے جائیں۔اس طرح سے ریاست پر عوام کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوگا اور جذبہ حب الوطنی میں بھی اضافہ ہوگا۔
۷۔قبائلی علاقہ جات
قبائلی علاقہ جات کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔جب تک قبائلی علاقہ جات قومی ٓارمی کے وجود کے قائل نہیں ہوتے اس وقت تک ملکی سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔اس کے لئے ضروری ہے کہ قبائلی علاقوںمیں نصاب تعلیم اور میڈیا کے ذریعے اجتماعی اور قومی شعور کو پروان چڑھایاجائے۔اس کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقہ جات کی تعمیروترقی میں بھی مسلح افواج کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور وہاں کےعوام کے ساتھ مکالمے کی فضا کو بہتر بنانا چاہیے۔
۸۔شمالی علاقہ جات کے آئینی حقوق
پورے ملک خصوصا شمالی علاقہ جات کے عوام اور پاک فوج یک جان دو قالب ہیں۔پاک فوج کو شمالی علاقہ جات کے عوام کے آئینی حقوق کے حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور چونکہ جنرل باجوہ کو کشمیر اور شمالی علاقوں میں تعیناتی کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے لہذا شمالی علاقہ جات کے لوگ اپنے آئینی حقوق کے حوالے سے ان سے امیدیں لگانے میں حق بجانب بھی ہیں۔
۹۔نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد
نیشنل ایکشن پلان کو اس کے حقیقی اہداف کی طرف پلٹانے کی ضرورت ہے۔اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ملکی تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں۔فوج کی سب سے اہم ذمہ داری ملکی تحفظ ہے اور یہ تحفظ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بغیر ممکن نہیں۔
یاد رہے کہ افواج ،ممالک کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں۔جو جرنیل اس امتحان میں پورے اترتے ہیں آئندہ نسلیں ان کی عظمت کے گن گاتی ہیں اور جو اس امتحان میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ ہمیشہ کے لئے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان مسلسل سیکھتا ہے،اپنے استادوں،ماں باپ،کتابوں،معاشرے اور دوستوں حتیٰ کہ جانوروں سے بھی سیکھتاہے۔جانوروں میں سے ایک شہد کی مکھی بھی ہے۔شہد کی مکھیاں سارا دن پھولوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔ایک پھول سے دوسرے پھول کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہیں۔لیکن اگر ان کے چھتے پر حملہ ہوجائے تو سب متحد ہوکر دفاع کرتی ہیں۔شہد کی مکھیوں میں بھی اتنا شعور ہے کہ وہ دفاع کے وقت متحد ہوجاتی ہیں لیکن ہم انسان ہونے کے باوجود یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ دفاع کے وقت متحد ہوجانا چاہیے۔
جب ہمارے مقدسات پر حملہ ہوتا ہے،ہماری محترم شخصیات کی آبرو خاک میں ملائی جاتی ہے،ہمارے ہاں زائرین امام حسینؑ کی اہانت کی جاتی ہے تو ہم متحد ہوکر دفاع کرنے کے بجائے گروہوں اور پارٹیوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں،خصوصاً زائرین کے مسائل کو پارٹیوں کی عینک لگاکر دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ایسے میں زائرین بے چارے اپنی مشکلات کے حل کے لئے کبھی ایک پارٹی اور ایک شخصیت سے امیدیں باندھتے ہیں اور کبھی دوسری پارٹی اوردوسری شخصیت سے۔
اس وقت مجھے یہ فرضی واقعہ یاد آتا ہے کہ ایک صاحب عمرہ ادا کرنے گئے ،جب طوافِ کعبہ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے گھر والوں کو فون کیا کہ فلاں پیر صاحب کی قبرپر جاکر میرے لئے دعا کریں۔
ہمارے ہاں زائرین امام حسینؑ کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہے کہ وہ جاتو امام حسینؑ کی زیارت کے لئے رہے ہیں جبکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے پارٹیوں اور شخصیات کی قبروں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔
زائرین کو چاہیے کہ اس سفر زیارت میں جہاں اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے دعاکریں وہیں حضرت امام حسینؑ سےخصوصی طور پر یہ دعا بھی کریں کہ زائرین کوستانے والے لوگ اگر قابل ہدایت ہیں تو خدا انہیں ہدایت عطاکرے اور قابل ہدایت نہیں ہیں تو خدا جلد از جلد انہیں ہلاک کرے اور ان کے شر سے زائرین کو نجات عطاکرے۔
زائرین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر زائرین مسلسل یہ دعا کریں تو میرا ایمان ہے کہ واپسی پر مطلع صاف ہوگا۔میں یہاں پرزائرین کے لئے یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ چہلم امام حسینؑ کا ایک عملی پہلو ہے اور دوسرا نظریاتی پہلو ہے۔
عملی اعتبار سے چہلم امام حسینؑ میں شرکت ایک سنت ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی جارہی ہے اور نظریاتی اعتبار سے یہ چہلم کی سنت ایک نظریاتی جنگ ہے جسے نظریاتی محازوں پر لڑے جانے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی نظریے کے دفع اور پرچار کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں:
۱۔عمق ۲۔تحلیل ۳۔استدلال
چہلم امام حسینؑ کے حوالے سے نظریاتی طورپر ہمارا مطالعہ عمیق ہونا چاہیے۔ہمیں اس سلسلے میں اٹھنے والے سوالات اور شبھات کاعلم ہونا چاہیے اور ان کے جوابات علماکرام اور مستند کتابوں سے معلوم کرنے چاہیے،دوسرے مرحلے میں ہمیں ان عمیق معلومات کی روشنی میں تجزیہ و تحلیل کرنا آنا چاہیے۔چہلم امام حسینؑ کے سفر میں ہماری معلومات میں جو اضافہ ہو اور ہماری آنکھیں جو کچھ دیکھیں ،ہمیں اس کی صحیح تحلیل کرنی چاہیے۔تیسرے مرحلے میں ہمیں واپسی کے وقت عمیق مطالعے اور تحلیل کے ہمراہ استدلال بھی کرنا آنا چاہیے۔
یعنی ہم اس سفر کے معنوی و رواحانی مشاہدات و تجربات اور اپنے عملی مطالعات کو احسن استدلال کے ذریعے دوسروں تک پہنچائیں بھی۔
یاد رکھنے کے قابل بات یہ ہے کہ فقط چہلم کے سفر میں پیادل شرکت کرلینے سے یہ سنت ادانہیں ہوجاتی بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ واپسی کے دوران ہم اس سفر کے ثمرات اپنے ہم وطنوں تک پہنچائیں۔تاکہ جو کسی بھی وجہ سے اس سفر میں شریک نہیں ہوسکے وہ بھی اس سفر کی معنوی لذت کو چکھیں۔
واپسی کے دوران بھی جہاں دعا و مناجات کرتے رہنے کی ضرورت ہے وہیں زائرین ِ امام حسین ؑ کو ستانے والوں کے لئے بھی ہدایت یا ہلاکت کی دعا کرتے رہیں۔
اس ملک کو سدھارنے کے لئے جہاں اور بہت ساری محنت اور کاوش کی ضرورت ہے وہیں ہماری دعاوں کی بھی ضرورت ہے اور دعا ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جس کا وار کبھی خطا نہیں جاتا۔
نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.