وحدت نیوز (آرٹیکل) بعض خبریں منحوس ہوتی ہیں،آزادی کا غلامی میں تبدیل ہوجانا بھی ایک منحوس خبر ہے،  کئی سال پہلے میں منحوس خبریں پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر تھک چکا تھا، ہر روز ایک خبر آتی تھی کہ فلاں جگہ کسی مخصوص فرقے کا  کوئی ڈاکٹر، پروفیسر یا عالم دین ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گیا ہے یا فلاں شہر میں مجلس عزا پر حملہ ہوگیا ہے، پھر یہ سلسلہ  ایک مخصوص فرقے کےڈاکٹر، پروفیسر، وکیل ،عالم دین اور مجلس و امام بارگاہ سے بڑھ کر ان کی مساجد تک پھیل گیا ، اس وقت بھی مجھے تعجب ہوتا تھا ان لوگوں پر جو مساجد میں خود کش دھماکوں یا ٹارگٹ کلنگ کی مذمت نہیں کرتے تھے بلکہ دبے لفظوں میں کبھی کبھی خوشی کا اظہار بھی کر دیتے تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چالیس پچاس لاشوں کے سرہانے ہمارے حکمران فقط یہ کہہ کر لوگوں کو تسلی دیا کرتے تھےکہ اس واقعے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔

دہشت گردوں کا ٹارگٹ کلنگ کرنا ، عبادت گاہوں  میں لوگوں کا مارے جانا اور اس خون خرابے پر بڑی بڑی اسلامی تنظیموںکا خاموش رہنا۔۔۔ یہ سب  دیکھ کر مجھے بہت اداسی ہوتی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے ملک میں اسلامی اخوت کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔

رفتہ رفتہ ہماری آزادی غلامی میں بدلتی گئی  اور لوگ دہشت گردی کی زنجیروں میں جھکڑتے گئے، جہادی کیمپوں سے نکل کر دہشت گردہماری پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے گئے اور اسمبلیوں تک پہنچ گئے،  ہمارے حکمران دہشت گردوں سے مذاکرات کے بہانے انہیں مزید مضبوط کرتے رہے اورپھر دہشت گردی کا دائرہ  آگ کے شعلوں کی طرح مزید پھیلا اور عوام النّاس  کی طرف بڑھنے لگا،  اہم قومی و ملکی شخصیات نیز اولیائے کرام کے مزارات بھی اس کی زد میں آنے لگے ساتھ ساتھ فوج اور پولیس کے جوانوں کوبھی مارا جانے لگا اور ان کے گلے کاٹے جانے لگے۔۔۔  تو اس وقت آہستہ آہستہ لوگوں نے بھارت کے بجائے اپنے میٹھے میٹھے مجاہد بھائیوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا  اورتب لوگوں کو یہ بات بخوبی سمجھ آ گئی کہ ہمیں بھارت سرکار نہیں بلکہ اپنے ہی غدار مار رہے ہیں۔اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی، دہشت گردی کا دائرہ مزید   پھیلتا گیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ سیہون شریف میں  ایک دھماکے میں ۸۸ افراد مارے گئے ہیں۔

مارے جانے والوں اور زخمیوں کے لواحقین مسلسل پولیس اور حکومت پر عدم اعتماد کا اعلان کئے ہوئے ہیں اور مظاہر ے کر رہے ہیں۔  گزشتہ روز جب ہمارے وزیراعظم صاحب زخمیوں کو پھول تھما رہے تھے تو باہر مظاہرین پر پولیس ڈنڈے برسا رہی تھی۔ دوسری طرف مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر کے سیکرٹری جنرل علامہ تصور جوادی پر قاتلانہ حملے کے بعد آزاد کشمیر میں بھی لوگوں میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔

دہشت گردی کا وہ  سلسلہ جو ایک مخصوص فرقے کے قتل سے شروع ہوا تھا آج قتلِ عام کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ لیکن اب صورتحال بہت بدل چکی ہے، جب پہلے لوگ مارے جاتے تھے تو انہیں ہلاک کہا جاتا تھا  لیکن اب مارے جانے والوں کو شہید کہا جاتاہے، اُس وقت کہا جاتا تھا کہ بھارت مروا رہا ہے لیکن اب بے چارے افغانستان کو کوسا جاتا ہے، اس وقت ہمارے حکمران کہتے تھے کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور اب کہتے ہیں کہ ہم خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے، کل تک کہتے تھے کہ  جلد دہشت گردی پر قابو پالیا جائے گا اب کہتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے، کل تک ہمارے ہاں کی مذہبی تنطیمیں ان واقعات کی مذمت نہیں کرتی تھیں لیکن اب مذمت کرنا ان کی مجبوری بن چکی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس مسئلے کاحل یہ نہیں کہ ہمارے حکمران  دہشت گردی کا ذمہ دار کبھی بھارت کو قراردیں  اور کبھی افغانستان کو،  کبھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا اعلان کریں  اور کبھی ان کی ٹوٹی ہوئی کمر کا مساج کریں، کبھی مذہبی تنظیموں سےان کی سرپرستی کروائیں اور کبھی ان کی  مذمت کروائیں ،  کبھی دہشت گردوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی باتیں کریں اور کبھی ان کے خلاف آپریشن کا ڈھونگ رچائیں۔

اس مسئلےکا حل یہ ہے کہ  جس طرح بعض دہشت گردوں کو اسٹریٹجک سرمایہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح  فوج ، پولیس اور عوام کو بھی قومی اور ملی سرمایہ سمجھا جائے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔  اس کے علاوہ ہمیں بھارت یا ہندوستان کو کوسنے کے بجائے یہ تسلیم کرنا  چاہیے کہ ہم جن سانپوں کو دودھ پلاتے رہے  ہیں اب انہوں نے ہی ہماری ملت کا خون پینا شروع کر دیا ہے۔ لہذا ہمیں  جہاں بھارت اور افغانستان سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے وہیں  اپنے ملک میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں  اور دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کو سیاسی ،حکومتی اور سرکاری پوسٹوں سے ہٹانے کی بھی ضرورت ہے۔

آج ہماری آزادی دہشت گردوں کی غلامی میں بدل چکی ہے، ہماری اسمبلیوں، مدارس اور جہادی کیمپوں میں دہشت گردوں  اور ان کے سہولت کاروں کی  بھر مار ہے۔ ہماری قوم اپنے قومی و مذہبی تہوار بھی آزادی سے نہیں منا سکتی، لوگ آزادانہ مساجد اور مزارات پر بھی نہیں جا سکتے، قوم کے نونہالوں کو سکولوں میں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، یوم القدس کی ریلیاں اور عید میلاد النبی ؐ سمیت حتی کہ نماز پنجگانہ بھی ادا نہیں کر سکتے۔ جن مشکلات سے نجات کے لئے ہماری ملت نے انگریزوں اور ہندووں کے خلاف قیام کیا تھا آج وہی مشکلات  ہماری ملت کو نام نہاد مجاہدین  کی طرف سے درپیش ہیں۔اس مسئلے کا مختصر اور آسان حل یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف گلی کوچوں سے شروع ہونے والے ہر آپریشن کا دائرہ اسمبلیوں اور سرکاری ملازمین تک پھیلایا جائے اور ہر سطح پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ہمیں بحیثیت قوم مل کر ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) چوروں کو گھروں میں پناہ نہیں دی جاتی، اگر کہیں چور گھس آئیں تو فورا انہیں پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے،لیکن اگر کسی حویلی میں چور گھس آئیں اور چور چور کا شور مچ جائے لیکن حویلی کے چوکیدار اور بعض مکین بلند آواز سے یہ کہیں کہ یہاں تو  کوئی چور نہیں گھسا تو پھر چوروں کو پکڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ پھراس کے بعد ہر دوسرے تیسرے دن حویلی میں چوری کی وارداتیں ہونی شروع ہوجائیں جس پر کچھ لوگ تو واویلا کریں لیکن کچھ لوگ مسلسل یہی کہیں کہ کچھ چوری نہیں ہوا اور کوئی چور نہیں گھسا تو اس کا کیا مطلب ہے!؟

اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ حویلی کے اندر کچھ لوگ چوروں سے ملے ہوئے ہیں، جب تک اس طرح کے لوگوں کی بات سنی جاتی رہے گی اس وقت تک چوریاں ہوتی رہیں گی۔

آج عراق میں  داعش کمانڈرز کے اجلاس پر حملے میں 13کمانڈرز مارے گئے ہیں جبکہ دیگر3ٹھکانوں پر بمباری میں 64جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔یعنی عراق میں دہشت گردوں کو مزید دھچکا لگا ہے، جب سے شام اور عراق میں دہشت گردوں کو شکست ہورہی ہے تب سے ذرائع ابلاغ نے شور مچایا ہوا ہے کہ دہشت گرد بھاگ بھاگ کر پاکستان میں جا رہے ہیں لیکن پاکستان کی بعض اہم شخصیات کا کہنا ہے کہ نہیں یہاں تو کوئی دہشت گرد نہیں آیا۔

جی ہاں جس ملک میں کوئی دہشت گرد نہیں آیا اسی  ملک میں  آج سے چار دن پہلے  نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کی جانب سے محکمہ داخلہ پنجاب کو اطلاع دی گئی تھی کہ لاہور میں دہشت گردی کا خطرہ ہے ، چونکہ اس ملک میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے لہذا ٹوٹی ہوئی کمر  کے ساتھ  دہشت گردوں نے  آج  پھرلاہور میں  دھماکہ کر کے ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کیپٹن (ر) سید احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت  چودہ افراد شہید کر دئیے ہیں۔

دوسری طرف کوئٹہ میں بھی  سریاب پل پر بھی دھماکہ ہوا ہے جس میں دو  افراد شہیداور گیارہ زخمی ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود بعض لوگ بضد ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور مزید دہشت گرد پاکستان میں نہیں آرہے، بعض تو یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ شام اور عراق سے بھاگے ہوئے دہشت گرد پاکستان میں بھی داعش کے نام سے ہی کارروائیاں کریں، وہ  پاکستان میں آکر دہشت گردوں کے  پہلے سے موجود کسی بھی  نیٹ ورک سے مل سکتے ہیں یا کسی نئے نام سے کام  شروع کر سکتے ہیں۔

ابھی اس لاہور والے  دھماکے کی ذمہ داری کالعدم جماعت الاحرار کے ترجمان نے قبول کر لی ہے، شام اور عراق سے بھاگے ہوئے دہشت گرد اسی جماعت الاحرار میں بھی ہو سکتے ہیں لہذا ناموں پر جھگڑنے کے بجائے دہشت گردوں کو پکڑا جائے۔

البتہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو آئین پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے، جو پاکستان کو کافرستان کہتے ہیں جو قائداعظم کو کافراعظم کہتے ہیں اور جو خود کش حملوں کی زمہ داری بخوشی قبول کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو  آئین پاکستان کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے ہیں، جو وطن سے محبت کو ایمان کی علامت قرار دیتے ہیں، جو قائداعظم کو بابائے قوم کہتے ہیں۔۔۔

ہمارے ملک میں دونوں طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، وہ لوگ جو آرمی اور پولیس کے جوانوں اور آفیسرز کو شہید کرنے کو ثواب کہتے ہیں ،ہمارے ملک میں ان کی سرگرمیوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور کہاجاتا ہے کہ نہیں نہیں ہمارے ہاں تو کوئی دہشت گرد نہیں لیکن جو لوگ شہید ہوتے ہیں اور ملک و ملت سے محبت کرتے ہیں جو دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں اور جن کے اہلخانہ بھی پریس کانفرنسوں میں روتے ہیں کہ ان کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں، انہیں دہشت گرد کہہ کر لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔

یعنی اس ملک میں جو دہشت گرد ہے وہ دہشت گرد نہیں ہے اور جو دہشت گرد نہیں ہے وہ دہشت گرد ہے۔  

ایک طرف ہمارے ہاں جو دہشت گرد نہیں ہیں انہیں زبردستی ٹارچر کر کے ملک سے بیزار کرنے کا کام کیا جارہاہے جبکہ دوسری طرف امریکی  جنرل جان نکلسن کا کہنا ہے کہ پاکستان، روس اور ایران افغانستان میں امریکی و نیٹو مفادات کے خلاف کام کررہے ہیں۔ امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے دئیے گئے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا ”افغان سکیورٹی کے لئے سب سے بڑا خطرہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک ہیں ۔ جن کے سینئر رہنما پاکستان کی محفوظ پناہ گاہوں میں مکمل  آزادی سے لطف اندوزہورہے ہیں۔

یعنی اس وقت ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ عالمی برادری بھی ہم پر اعتماد نہیں کررہی اور امریکہ جیسا دوست ملک بھی ہمیں اپنا دشمن سمجھتا ہے، دوسرامسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے اندر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں ہماری فوج ، پولیس اور عوام سب  کے گرد دہشت گردی کا حصار ہے اور  تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جولوگ دہشت گرد نہیں ہیں انہیں بعض سرکاری اداروں نے لاپتہ کررکھا ہے جو کہ ملکی سلامتی کے لئے کسی طور بھی  درست قدم نہیں۔

ہمیں ملی طور پر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ چوروں کو گھروں میں پناہ نہیں دی جاتی،اس لئے جو دہشت گرد ہیں وہ سب کے سامنے ہیں ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی نرمی نہیں کی جانی چاہیے لیکن جو دہشت گرد نہیں ہیں انہیں خواہ مخواہ میں دہشت گرد کہہ کر  ہراساں نہیں کرنا چاہیے۔

ہمیں زمینی حقائق کے مطابق جو دہشت گرد ہے اسے ہی دہشت گرد کہنا چاہیے اور جو نہیں ہے اسے نہیں کہنا چاہیے۔

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا کے ہر جاندار کی طرح انسان بھی تحفظ کا متلاشی ہے،قانون انسان کو تحفظ فراہم کرتا ہے،  قانون پر اعتماد بڑی نعمت ہے، جوقانون کو پامال کر کے انسان سے تحفظ چھین لے اور انسان کو خوف و خطرے اور دہشت و وحشت میں مبتلا کر دے اسے دہشت گرد کہتے ہیں۔جو بھی  لوگوں کو عدم تحفظ کا احساس دلائے وہی دہشت گرد ہے، کل تک کہا جاتاتھا کہ مذہبی پارٹیاں اور قبائلی تنظیمیں دہشت گردی کرتی ہیں  لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مجھ جیسے کئی لوگوں کو یہ حقیقت سمجھ میں آئی کہ دہشت گردی کا لفظ ایک مہر کی طرح ہے جسے ہمارے ہاں مخصوص مشینری جسے چاہے اس پر لگا دیتی ہے۔

اگر کوئی مذہبی تنظیم ہتھیار اٹھا ئے تو دہشت گردی ہے لیکن اگر  ہارون آباد میں مسلم لیگ (ضیاء) کے کارکن پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر فائرنگ کر کے لوگوں کو  ہلاک  اور زخمی کردیں تو یہ دہشت گردی نہیں بلکہ  سیاسی پارٹیوں کے درمیان فرینڈلی فائرنگ ہے۔

اسی طرح اگر طالبان کہیں پر لوگوں کو ڈرا کر بھتہ لیں تو یہ سراسر دہشت گردی ہے لیکن  اگر اسلام آباد میں  ایک سب انسپکٹر اور دو کانسٹیبل ایک شہری کو زیر حراست رکھ کر تشدد کا نشانہ بنائیں اور ماہانہ بیس ہزار بھتہ وصول کرتے رہیں ، بلاخروہ شہری  ،ایس پی صدر کے ہاں شکایت کر کے اپنی جان چھڑوائے تو یہ دہشت گردی نہیں بلکہ قانون کے رکھوالوں کی والہانہ ادا ہے۔

اگر  فیس بک پر کچھ لوگ اغوا اور لاپتہ ہو جانے والے افراد کی تلاش کے لئے شور شرابہ کریں تو وہ بھی دہشت گرد ہیں لیکن اگر کچھ لوگ ڈنکے کی چوٹ پر  طالبان اور دیگر دہشت گردوں کی سرپرستی کا اعلان کریں تو وہ  دہشت گرد نہیں بلکہ شریف شہری ہیں۔

اگر امریکہ اور بھارت چاہیں تو عشرہ کشمیر کا اعلان کرنے والے حافظ سعید بھی دہشت گرد ہیں اور اگر امریکہ اور بھارت نہ چاہیں تو جہاد کشمیر اور افغانستان میں فرقہ پرست ٹولوں اور لوگوں کو گھسانے والے  بھی دہشت گرد نہیں۔

یہاں پر عجیب صورتحال ہے! بلوچ اگر شعور کی بات کرے، سندھی اگر تفکر کی بات کرے ، پختون اگر غیرت کی بات کرے اور پنجابی اگر اپنے تمدن کی بات کرے تو وہ دہشت گرد ہے ، لیکن  اگر بلوچ کو فیس بک کی میز سے، سندھی کو گھر کی دہلیز سے، پختون کو ایجنسی سے اور پنجابی کو بازار سے لاپتہ کردیا جائے تو یہ دہشت گردی نہیں۔

لوگوں کو لاپتہ کرنے سے مجھے وہ پریس کانفرنس بھی یاد آرہی ہے جو چند روز پہلے لاپتہ ہونے والے افراد کی ماوں، بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں نے اسلام آباد پریس کلب میں کی ہے۔  یہ ہزاروں سال پرانے کسی فرعون کے محل میں لگی ہو کچہری کی داستان نہیں بلکہ  یہ  اکیسویں صدی کی ایک جمہوری حکومت کے دارلحکومت میں کی جانے والی پریس کانفرنس  کی رودادہے۔یہ ہماری قوم کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں ہیں،جن سے تحفظ کا احساس چھین لیا گیا ہے، جو اپنے پیاروں کی تلاش میں اخباروں کی سرخیوں کی زینت بن رہی ہیں۔۔۔

جویہ کہہ رہی ہیں کہ  رات کے اندھیرے میں اُن کے پیاروں کو کیوں گرفتار کیا گیا اور انہیں اب تک کس جرم میں گرفتار رکھا ہوا ہے؟

جو یہ پوچھ رہی ہیں کہ  ہمارے گھروں کا تقدس کیوں پامال کیا گیا اور قانون کے رکھوالوں نے ہماری چار دیواری کے اندر زبان درازی کیوں کی!؟

جو یہ پوچھ رہی ہیں کہ  قانون انہیں تحفظ دینے میں شرمندہ کیوں ہے!؟

جب سے  ہمارے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان  نے یہ کہا ہے کہ لوگوں کو غائب کرنا حکومت کی پالیسی نہیں  تب سے یہ سوال اور بھی شدت سے ابھر رہا ہے کہ پھر وہ کون ہے  جو حکومت اور قانون کو خاطر میں ہی نہیں لاتا!؟

پھر وہ کون ہے جو پنجابی ، سندھی، بلوچی اور پٹھان کوزبردستی  حکومت اور قانون کے خلاف  اٹھا رہا ہے !؟

پھر وہ کون ہے جو شیعہ اور سنی کے تعصب کو خواہ مخواہ زندہ کررہا ہے!؟

پھر وہ کون ہے جو آج پھر ۱۹۷۱ جیسے حالات پیدا کرکے بنگلہ دیش کی طرح لوگوں کو  ملک و قانون  سے بیزار کر رہاہے!؟

پھروہ کون ہے جو لوگوں کو جگتو فرنٹ کی طرز پر دھکیل کر لے جارہاہے!؟

پھر وہ کون ہے جو اپنے آپ کو ملک اور قانون سے بالاتر سمجھتا ہے ، جو عوام کو گھاس نہیں ڈالتا اور جس کے سامنے سیاستدان اور وزرا سب بے بس نظر آتے ہیں!!!؟

آخر میں ارباب اقتدار سے ہماری یہی عرض ہے کہ دنیا کے ہر جاندار کی طرح انسان بھی تحفظ کا متلاشی ہے،قانون انسان کو تحفظ فراہم کرتا ہے،  قانون پر اعتماد بڑی نعمت ہے،  اگر آپ اس ملک کے باسیوں کو دہشت گردوں سے نجات نہیں دلا سکتے تو خدا را اس ملک کے باسیوں کا قانون سے اعتماد نہ چھینئے۔۔۔ قانون پر اعتماد بڑی نعمت ہے۔

 

تحریر۔۔۔۔۔۔نذرحافی

وحدت نیوز (آرٹیکل) جرم جیسا بھی ہو،مجرم کو سزا ملنی چاہیے۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ مجرم قرار دینے کا اختیار کس کے پاس ہے۔ کیا مولوی حضرات کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں مذہب کا دشمن قرار دے کر قتل کروا دیں!؟  کیا  سیکولر اور لبرل حضرات کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ جسے چاہیں  مذہبی شدت پسند کہہ کر تنگ نظر اور بیک ورڈ قرار دے دیں!؟  کیا فوج اور پولیس کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ جسے چاہیں اسے غدار اور ملک دشمن قرار دے  کر ٹھکانے لگا دیں!؟

دنیاکے ہر مہذب ملک میں مجرم اور سزا کا تعین عدالتیں کرتی ہیں۔ اگر کہیں  ماورای عدالت لوگوں کو مارا جانے لگے یا پھر عدالتوں سے من پسند فیصلے کروائے جانے لگیں تو پھر ایسی عدالتیں  اپنا اعتماد کھو دیتی ہیں۔ جس ملک میں عدالتوں کا اعتماد نہ رہے وہاں دیگر ادارے بھی اپنا احترام کھو دیتے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے وطن عزیز میں لوگوں کے  لاپتہ اور گم ہونے کا سلسلہ ایک فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔اس میں کوئی  مذہبی اور غیر مذہبی  کی تفریق نہیں، کچھ لوگوں کو مذہبی شدت پسند اور کچھ کو مذہب دشمن قرار دے کر لاپتہ کردیا جاتاہے۔ کسی کو تقریر کرنے کے جرم میں اور کسی کو فیس بک پیجز چلانے کی آڑ میں دھر لیا جاتاہے۔

انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ لاپتہ ہونے والے افراد چاہے جتنے بھی بڑے گنہگار ہوں انہیں باقاعدہ طور پر عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اور ان کے گھر والوں کو ہراساں  کرنے کے بجائے انہیں اپنے عزیزوں سےملاقات کرنےکا حق دیا جانا چاہیے۔

یاد رکھئے!جب سرکاری ادارے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر تصور کرتے ہیں، عوام کے مشوروں کو نہیں سنتے ، عوامی  مخالفت اور تنقید کو برداشت نہیں کرتے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں تو پھر سانحہ پارا چنار جیسے حادثات پیش آتے ہیں۔

سانحہ پارا چنار اتنا دلخراش سانحہ ہے کہ اس پر ترکی کے صدر اور وزیراعظم سے بھی خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے بھی اس سانحے کی مذمت کی ہے۔ اس سانحے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ اپنی جگہ ضروری ہے البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کوئی غیر متوقع سانحہ نہیں تھا۔

گزشتہ روز  پارا چنار  میں ہونے والا خود کش دھماکہ ایک متوقع حادثہ تھا۔ در اصل حلب اور موصل میں شدت پسندوں کی پسپائی کے بعد یہ امکان موجود تھا کہ شدت پسند پاراچنار کا رخ کریں گے۔ مقام افسوس ہے کہ اس دوران حکومتی اہلکاروں نے شدت پسندوں کا راستہ روکنے کے بجائے مقامی لوگوں کو غیر مسلح کرنے کے لئے زور لگانا شروع کردیا۔  اگر سرکاری ادارے  مقامی لوگوں سے الجھنے کے بجائے ان سے مل کر حفاظتی مسائل کو آگے بڑھاتے تو ایسی صورتحال کبھی بھی پیش نہ آتی۔

عوام سے محبت، عوامی امیدوں کا لحاظ، عوامی تنقید کا احترام ، عوام سے روابط یہ ساری چیزیں خود حکومتی اداروں کے مفاد میں ہوتی ہیں۔ سانحہ پارا چنار کے بعد  پاکستانی آرمی چیف نے فورا پاراچنار کا دورہ کر کے اپنی عوام دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ ان کے اس دورے سے جہاں انہیں صورتحال کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے وہیں پاراچنار کے مقامی لوگوں کو بھی یہ پیغام ملا ہے کہ پاکستان آرمی کے دل میں ہماری محبت اور ہمدردی موجود ہے۔

یہ دورہ اپنی جگہ قابل ستائش ضرور ہے تا ہم اس کا حقیقی فائدہ تبھی ہوگا جب آرمی چیف کے ماتحت ادارے بھی عوامی احترام کو یقینی بنائیں گے۔

کسی بھی منطقے کے حقیقی محافظ اس کے مقامی لوگ ہی ہوتے ہیں لہذا پارا چنار کے مسائل میں وہاں کے مقامی لوگوں کی رائے، رسوم و رواج ، اور حقوق کو ہر حال میں مقدم رکھنا چاہیے۔

اگر ہمارےسرکاری ادارے عوم سے اپنے فاصلے کم کردیں ، عوامی مسائل اور آرا کو اہمیت دیں، اختلاف رائے کو برداشت کریں  تو انہیں  کہیں پر بھی عوام سے الجھنے اورفیس بک پیجز چلانے والوں کو گم اور لاپتہ کرنے کی ضرورت  پیش نہیں آئے گی۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ہوتا ہے جب کچھ سرکاری اہلکار اپنے آپ کو قانون اور عدالت سے برتر تصور کرلیتے ہیں۔


نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) زوال کسی کا مقدر نہیں، لیکن زوال ہر کسی کو آسکتا ہے، کوئی بھی  شخص یا ادارہ جب حالات اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پلاننگ میں ضروری تبدیلیاں نہیں لاتا تو زوال اس کا مقدر بن جاتاہے۔ اسی ہفتے کی بات ہے،افغان پارلیمنٹ کے سامنے خود کش حملہ ہوا، حملے میں ۴۰ کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہوئے،مرنے والوں میں فغانستان کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے مقامی سربراہ بھی شام تھے۔  ذرائع ابلاغ نے  اس دھماکے کو کابل میں ہونے والے  بدترین دھماکوں میں سے ایک قرار دیا۔  دھماکے کی زمہ داری طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بخوشی قبول کرلی، اگلے روز  دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اپنے بیان میں کہا کہ  بھارت افغانستان کی سیکیورٹی صورت حال کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، اس کے  بعد اگلے روز ہی  افغانستان میں پاکستان ایمبیسی کے سامنے افغانیوں نے مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے پاکستان اور پاکستان آرمی  کے خلاف نعرے بازی کی،جس کے بعد مظاہرین  نےایمبیسی میں گھس کر توڑ پھوڑ بھی کی۔

اس واقعے سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں بھارتی سفارتکاری کامیابی کی طرف جارہی ہے وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی سفارتکاری روبہ زوال ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی روز اول سے ہی بڑی طاقتوں کے دباو کی شکار ہے۔بڑی طاقتیں ہماری خارجہ پالیسی سے اپنے مفادات حاصل کرتی ہیں اور پھر کنارہ کش ہوجاتی ہیں۔ طالبان کے مسئلے میں بھی ہمارےساتھ ایسا ہی ہوا۔ ہم نے امریکی پلاننگ کے تحت دینی مدارس میں طالبان کی فصل بوئی ،امریکہ نے اس سے فائدہ اٹھایا اور پھر طالبان کو دہشت گرد کہہ کر الگ ہوگیا۔ اب طالبان کے وجود کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔

افغانی عوام جہاں ہمیں طالبان کا سرپرست سمجھتے ہیں وہیں افغانستان میں بد امنی کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔ ہمارے پالیسی ساز اداروں نے حالات کے ساتھ پلاننگ نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  طالبان کی بھی ایک بھاری  اکثریت ہمارے خلاف ہوگئی اور افغانی عوام بھی ہم سے بد ظن ہوگئے۔

طالبان کی طرف سے پاک فوج کو ناپاک فوج کہنا،پاکستان آرمی کے جوانوں کے گلے کاٹنا اور پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرنا ہماری ناکام  خارجہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ ہماری داخلہ پالیسی بھی اس حوالے سے مکمل طور پر ناکام ہے۔ہمارے ہاں طالبان کے ساتھ نمٹنے کا کوئی منصوبہ ہی نہیں۔نیشنل ایکشن پلان فقط کاغذی کاروائی تک محدود ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ حکومت نے 94 مشکوک مدارس پر پابندی کیلئے وفاق کو خط لکھا تھا لیکن ہماری  وفاقی وزارت داخلہ نے سندھ حکومت کی یہ درخواست مسترد کردی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سندھ حکومت نے جن مدارس کی فہرست وفاقی حکومت کو دی تھی وہ صرف سندھ  میں ہی نہیں بلکہ فاٹا اور دیگر صوبوں میں بھی واقع تھے۔ سندھ حکومت کا موقف یہ ہے کہ مشکوک مدارس جس صوبے میں بھی ہیں ان پر پابندی لگنی چاہیے چونکہ یہ آپس میں مضبوط نیٹ ورکنگ کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت فقط اپنی حدود تک محدود رہے۔

یعنی داخلی طور پر مشکوک مدارس اپنا کام کررہے ہیں اور خارجی طور پر افغان عوام ہم سے بد ظن ہو ہے ہیں۔ افغانستان جیسے برادر ہمسایہ ملک کے لوگوں  کا ہم سے نالاں ہو جانا کسی طور بھی ہمارے حق میں نہیں۔

افغانستان کے لوگوں کے دلوں میں پاکستانیوں کا کیا مقام ہے اور آئندہ  وقتوں میں پاک افغان تعلقات کس طرف جارہے ہیں،  اس کا اندازہ پاکستان ایمبیسی پر افغانیوں کے حملے سے ہمیں ہوجانا چاہیے۔

ہمیں ہر قیمت پر اٖفغان عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے اور اپنی طالبان پالیسی پر فوری نظر ثانی کرنی چاہیے۔   جو حال ہماری وزارتِ خارجہ کا ہے وہی وزارت داخلہ کا بھی ہے۔

ملک میں ایک عرصے سے لوگ لاپتہ ہورہے ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی گمشدگی  وزارت داخلہ کی پالیسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔بعنوان نمونہ عرض کروں کہ ذرائع ابلاغ کے مطابق  گزشتہ برسوں میں عدالت  نے محترم  خواجہ آصف کو 35 لاپتہ افراد کو ڈھونڈ کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا  تھاجو مبینہ طور پر خفیہ اداروں کی غیر قانونی تحویل میں تھے۔ وزارت دفاع نے ٹال مٹول کرکے 7 دسمبر 2013ء کو 14 افراد کو پیش کیا  تھاجن میں سے صرف 6 کی شناخت ہو سکی  تھی۔

ابھی صرف اس مہینے میں کئی ایسے بلاگرز بھی لاپتہ ہوگئے ہیں جو انسانی حقوق کی بات کرتے تھے۔ ایک اسلامی اور جمہوری ملک میں لوگوں کی اس طرح سے گمشدگی بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن پروفیسر سلمان حیدر چھ جنوری سے اسلام آباد سے لاپتہ ہیں، کراچی سے تعلق رکھنے والے ثمر عباس  ثمر عباس سات جنوری بروز ہفتہ اسلام آباد سے لاپتہ ہیں، سوشل میڈیا پر فعال شخصیت  احمد وقاص گورایہ اور عاصم سعید چار جنوری سے لاپتہ ہیں،  احمد رضا نصیر سات جنوری سے لاپتہ ہیں۔

یہ ہماری وزارت داخلہ اور خارجہ کی کارکردگی ہے ، ہم کئی سالوں سے مسلسل دشمن تراشی اور دشمن سازی میں مصروف ہیں، ہم نے اپنے ہی جوانوں کو طالبان بنا کر اپنا دشمن بنایا، اب ہم اپنے ہی جوانوں کو اغوا اور لاپتہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمارے  سینکڑوں جوان ملکی و غیر ملکی جیلوں میں سڑ رہے ہیں، بہت سارے ایسے ہیں کہ جو جرم کرنے سے انکاری ہیں لیکن انہیں پھانسی دے دی جاتی ہے اور بہت سارے ایسے ہیں کہ جو طالبان  ہونےپر فخر کرتے ہیں اور وہ سر عام دندناتے پھرتے ہیں،  ہماری وہ توانائیاں جو بد عنوان اور کرپٹ عناصر کے خلاف استعمال ہونی چاہیے تھیں اپنے ہی جوانوں کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں ۔

اگر اس ملک کو بچانا ہے تو اس کے جوانوں کو بچائیے ، اس ملک کے جوانوں  کے لئے منصوبہ بندی کیجئے ، اس ملک کے تعلیمی اداروں سے منشیات اور کلاشنکوف کلچر کا خاتمہ کیجئے، اس ملک کے ہسپتالوں میں لوگوں کو زبردستی سٹنٹ ڈالنے والوں کے خلاف کاروائی کیجئے۔

ہمارے اعلی حکام کو اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے  حالات کے مطابق اپنی پالیسیاں تشکیل دینی  چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے جوان ہمارا سرمایہ ہیں ہمارے دشمن نہیں ہیں۔  اگر ہمیں انہیں طالبان کی انڈسٹری میں ڈال کر دہشت گرد بنائیں گے تو ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی  کامیاب نہیں ہوگی اور اگر ہمیں انہیں اغوا اور لاپتہ کرتے رہیں گے تو ہم داخلی طور پر کبھی بھی مضبوط نہیں ہوسکتے۔

ہمارا عروج و زوال ہمارے  پروردگار اور ہمارے ملک کے جوانوں کے ہاتھ میں ہے،  بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں نہیں۔

 

 

 


تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) کرپشن تہذیب کی دشمن ہے۔ہر مہذب انسان کرپشن سے نفرت کرتا ہے۔پاکستان میں کرپشن کرنے والے اور کرپشن سے نفرت کرنے والے دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں۔چنانچہ پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے نیب کے نام سے ایک ادارہ بھی موجود ہے۔اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود نیب کا ادارہ ہمارے لئے ایک غنیمت ہے۔تاہم دیگر اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی نوابوں،جاگیرداروں اور زرداروں کے سامنے بے بس نظر آتاہے۔

پاکستان میں جہاں ہر طرف طاقتور کی حکمرانی ہے  اور غریب و کمزور ہونا جرم بن گیا ہے وہاں نیب جیسے ادارے کا نام کسی نہ کسی حد تک امید کی کرن دکھا ہی دیتا ہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب غریب اور کمزور لوگ بے شعور بھی ہوں تو پھر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا اور بھی آسان ہوجاتاہے۔ہمارے ہاں عوام کی بے شعوری کا یہ عالم ہے کہ اگر 12 ارب سے زیادہ کا فراڈ کرنے والے ڈبل شاہ کی طرح کا کوئی کرپٹ شخص نیب کے ذریعے جیل میں چلا بھی جائے تو رہائی کے موقع پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کا استقبال کرتی ہے اور ایک جلوس کی صورت میں اسے رہائش گاہ تک لایا جاتاہے۔

اس ملک میں ہزاروں  چور دروازے ہیں اور ہر چور دروازے پر ایک نواب بیٹھا ہوا ہے  اور ہر نواب کے پیچھے لاکھوں بے شعور لوگوں کا جم غفیر موجود ہے۔

ابھی کل کی خبر ہے  کہ پاکستان میں سینکڑوں پاسپورٹوں میں غلطیاں ہیں جن کی وجہ سے عمرے پر جانے والےلوگوں کے ویزے نہیں لگ سکے،لوگوں نے پاسپورٹ آفس میں رابطہ کیا تو انہیں کہا گیا کہ دوبارہ فیس جمع کروا کر نئے پاسپورٹ بنوا لیں،اسی طرح ایک صاحب نے بتایا ہے کہ وہ تہران  میں قائم پاکستان ایمبیسی میں  بچے کا پاسپورٹ بنوانے کی فیس جمع کروانے کے بعد چار سال تک چکر لگاتے رہے ،چار سال کے بعد جب پاکستان گئے اور وہاں پاسپورٹ آفس میں رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں چار ہزار روپے دیں اور پاسپورٹ لے لیں۔اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔لوگ پریشان حال مارے مارے پھرتے ہیں لیکن کوئی پرسانِ حال نہیں۔

ایک پاسپورٹ آفس میں تو اس طرح ہوتا تھا کہ  سائل کے فارم کو دیکھتے ہی بڑے صاحب  ایک دوغلطیاں نکال کرکہتے تھے کہ آپ کا تو پاسپورٹ بن ہی نہیں سکتا،یہ سنتے ہی خصوصا وہ سائل  جسے پاسپورٹ بنوانے کی جلدی ہو، پریشان ہوکرفوراً منتیں ترلے کرنے  شروع کردیتاتھا، کچھ دیر بعد بڑے صاحب اسے کہتے تھے کہ اچھا آپ نہیں چھوڑتے تو چلیں جائیں یہ ساتھ والے کمرے میں جو صاحب بیٹھے ہیں ان سے بات کریں وہ آپ کو کوئی راہِ حل بتائیں گے۔

جب چند لوگوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تو ایک دم میرے کان کھڑے ہوگئے کہ یہ ساتھ والے کمرے میں آخر کونسا مشکل کشا بیٹھا ہوا ہے!؟

جب میں ساتھ والے کمرے میں گیا تو وہاں موجود صاحب ہر شخص کا فارم دیکھ کر افسوس کرتے تھے کہ آپ کا کام تو بہت مشکل ہے اور پھر انتہائی رازدارانہ لہجے میں کہتے تھے کہ میرے پاس فقط ایک راہ حل ہے شاید اس سے کچھ ہوجائے۔سائل فورا اچھل پڑتا تھا جی بتائیے !میں ضرور اس پر عمل کروں گا۔

وہ صاحب سائل کو ایک اکاونٹ نمبر دیتے تھے کہ جاو یہ ساتھ والے بینک میں اتنے ہزار ڈال کر آجاواور رسید مجھے دے دو۔وہ شخص خوشی کے مارے دوڑ کرجاتاتھا اور اس اکاونٹ میں پیسے ڈال کر اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ میرا مسئلہ حل ہونے والا ہے۔اس کے بعد اس کا فارم جمع ہوجاتا تھا اور پھر وہ پاسپورٹ فیس جاکر دوسرے اکاونٹ میں جمع کرواتا تھا۔

ابھی آئیے  لودھراں میں ٹرین حادثے کی بات کرتے ہیں  جہاں  ٹرینوں کے ڈرائیوروں نے احتجاجا استعفے دے دئیے ہیں۔ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی حادثہ پیش آتاہے تو اصلی ذمہ داروں کو پکڑنے کے بجائے نچلے طبقے کے کسی شخص کو قربانی کا بکرا بنایا جاتاہے۔انہوں نے کہا کہ ریل کی پٹڑی پر چلانے کے لئے جو پٹاخوں کی رقم ملتی ہے وہ اعلی ٰ حکام خود ہی ہڑپ کرجاتے ہیں۔

اب چلئے ذرا کوئٹہ کی بھی بات کرتے ہیں جہاں کتنے ہی عرصے سے مسافروں کی چیخیں نکل رہی ہیں،کچھ مخصوص لوگ ہیں جو مسافروں کو کانوائے کے نام پر محصور کرکے رکھتے ہیں اورسفر زیارت کی غرض سے جانے والے مسافروں کو  اپنے ہوٹلوں اور مسافر خانوں کے  علاوہ کہیں اور ٹھہرنے بھی نہیں دیتے اور نہ ہی اپنی گاڑیوں کے علاوہ دوسروں کی گاڑیوں میں سفر کرنے دیتے ہیں۔

کوئٹہ سے آگے نکلیں تو جگہ جگہ چیک پوسٹوں پر ایف سی والے لوگوں کی توہین کرتے اور رشوت وصول کرتے نظر آتے ہیں۔کسی کو پوچھ گچھ کا  کوئی خطرہ نہیں،ہر کسی نے لوٹنے کے لئے چند بہانے تیار کررکھے ہیں۔جب تک یہ بہانے چلتے رہیں گے کرپشن چلتی رہے گی۔

ضرورت اس مر کی ہے کہ نیب کا ادارہ عوام کے درد کو محسوس کرے اور عوام کے ذریعے کرپٹ عناصر کا سراغ لگائے۔

جہاں پر عوام کے ذریعے کرپٹ لوگوں کا سراغ لگانا ضروری ہے وہاں عوام کو کرپشن سے آگاہی  اور کرپشن کے خلاف بولنے کا شعور دینا بھی ضروری ہے۔

آخر میں ہماری دعا ہے کہ خدا ہماری ملت کے حال پر رحم کرے اور ہمارے اداروں میں دیانتدار اور امین لوگ ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے نظر آئیں۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Page 13 of 21

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree