وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی پاور ہے ، تمام اسلامی مسالک و مذاہب  کا حسین گلدستہ ہے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا ایک نمایاں اور منفرد مقام ہے۔پاکستا نیوں کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستانیوں کو حقیقی معنوں میں ملی اور اجتماعی شعور  رکھنے والے سیاستدان نصیب نہیں ہوئے۔

سرزمین پاکستان کی نظریاتی سطح کے لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے ہماری قوم مختلف تعصبات میں بٹتی گئی اور ہم اکثر اوقات، حقائق بیان کرنے کے بجائے دانستہ یا نادانستہ طور پر انہی تعصبات کے بتوں کو سجدہ کرتے ہیں۔ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم جس قدر  نظریہ پاکستان سے دور ہوکر تعصبات میں بٹتے جارہے ہیں اتنے ہی کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔

ہم میں سے بعض افرادنے اپنی کمزوریوں کا علاج تعصبات کو مزید ہوا دینے میں ڈھونڈ رکھا ہے، وہ بڑے خلوص کےساتھ  جھوٹ اور غلط اطلاعات کو پھیلاکر سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہمارا لسانی ، علاقائی یا مذہبی گروہ مضبوط اور مستحکم ہوجائے گا۔  اس مقصد کے لئے سوشل میڈیا پر بعض  افراد مسلسل جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں۔ اب اگر ان  جھوٹ پھیلانے والوں سے کوئی کہے کہ یہ خبر تو جھوٹ پر مبنی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہماری تجزیاتی خبر ہے۔ صحافت اور دیانت داری کا تقاضایہ ہے کہ اصل خبر کو تجزیے سے الگ  بالکل شفاف طریقے سےبیان ہونا چاہیے اور اس کے بعد رپورٹر اگر چاہے تو  اپنے تجزیے کو چند لائنوں میں الگ سے پیش کردے۔ تاکہ قاری کو پتہ چلے کہ اصل خبر یہاں ختم ہو گئی ہے اور اس کے بعد  یہ رپورٹر کا  اپناتجزیہ ہے۔

اگر کوئی سننے والا ایک خبر یا کسی کے انٹرویو کو سنتا یا کسی کا کیا ہوا ترجمہ پڑھتا ہے اور پھر اس کے بعد اپنے مسلکی و لسانی  یا کسی  علاقائی  یا سیاسی  پارٹی کے مفادات و نظریات  کے تنا ظر میں اس بیان یا انٹرویو میں تحریف کر کے ایک چربہ بناکر لوگوں کو غلط اطلاع دیتا ہے تو باشعور افراد کو اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

  ایک رپورٹر  کو معلوم ہونا چاہیے کہ  دنیائے صحافت کی آبرو رپورٹنگ سے قائم ہے۔تجزیے میں غلطی ہو سکتی ہے ، ممکن ہے ایک آدمی  اپنی کم علمی یا کسی اور وجہ  کی بنیاد پر تجزیہ کرنے میں غلطی کرجائے ، تجزیہ کرنے والے کو سب جانتے ہیں کہ یہ فلاں آدمی کا تجزیہ ہے۔ لیکن  رپورٹنگ اتنا حساس مسئلہ ہے کہ اس کی تلافی اور ازالہ تقریبا ناممکن ہے، خصوصا اگر رپورٹنگ کرنے والا اپنے تجزیے  اور اپنی سوجھ بوجھ کو خبر بنا کر پیش کرے تو یہ بہت ہی غلط قدم ہے۔ چونکہ ممکن ہے کہ رپورٹر جوبات سمجھ رہاہو وہ غلط سمجھ رہا ہو لہذا   اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی غلط سمجھ کو خبر کہے۔ خبر کی روح یہی ہے کہ خبرکو  شفاف طریقے سے جیسے کہ ہے اسے ویسے ہی بیان ہونا چاہیے اور رپورٹر اگر اس میں کوئی اضافہ کرنا چاہے تو  اسے الگ سے بتانا چاہیے کہ اس سے میں یہ سمجھا ہوں اوریہ میری رائے اورمیری زاتی سوچ ہے ۔

بدقسمتی سے  رپورٹنگ کی دنیا میں لغزشوں کی مثالیں پاکستان میں بکثرت ملتی ہیں۔پاکستان سے ایران و افغانستان   کی کشیدگی آج کل عروج پر ہے، یہ  کشیدگی کوئی آج کی بات نہیں،  یہ  بھی ہم جانتے ہی ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کا  ہمیشہ سے یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو ہندوستان کی ایجنسی را کی سازش قرار دے کر اپنا دامن صاف کر لیتے ہیں۔ اس موضوع پر میں نے   متعدد مرتبہ قلم اٹھایا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب کرنے میں ہماری نااہل حکومتوں کا بہت عمل دخل ہے۔

سچ بات تو یہ ہے کہ  ناہل حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی دشمن ایجنسی کی ضرورت ہی نہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے  مجھ جیسے ایک ناتجربہ کار شخص کو بھی یہ صاف دکھائی دے رہاتھا کہ افغانستان کے بعد اب  ایران سے بھی  پاکستان کے تعلقات بہت  تیزی کے ساتھ  خراب  ہو  رہے ہیں،    اس کا ایک ثبوت میرے پاس یہ تھا کہ  گزشتہ چند سالوں سے  ایران جانے والے پاکستانیوں کو کوئٹہ میں ہی  شیعہ کانفرنس نامی تنظیم کے کارندے خوب رسوا کرتے تھے۔ کوئٹہ میں موجود پولیس اور ایف سی بھی شیعہ کانفرنس کی  حمایت کرتی تھی، اب لوگ شکایت کریں تو کس سے کریں ،  لوٹتے  تو شیعہ کانفرنس والے تھے اور لوگوں کی جنگ ایف سی اور پولیس سے ہوتی تھی ، یہاں سے ہی فوج، ایف سی اور پولیس کے خلاف ایک خاص ذہنیت  بن جاتی تھی کہ  یہ ادارے تو ہمارے محافظ نہیں بلکہ ہمارے دشمن ہیں، اس کے بعد راستے میں ایف سی والے اور دیگر سرکاری اہلکار مسافروں اور بسوں والوں سے بھتہ لیتے تھے جس سے مزید منفی  تاثر پیدا ہوتا تھا، لے دے کر جب یہ مسافر تفتان  پہنچتے تھے تو سرکاری وردیوں میں ملبوس اہلکار باقاعدہ مبلغین کی طرح لوگوں کو ایران کے خلاف تبلیغ کرتے تھے کہ ایران کیوں جا رہے ہو ، ایران تو ہمارا دشمن ہے ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔اب یہ لوگ  یہ سب کچھ دیکھ کر جب ایران میں آکر  سب کو بتاتے تھے کہ پاکستان تو ایران کے شدید خلاف ہے، ایران آنے والے پاکستانیوں کو مسلسل ستایا جاتا ہے اور ایران کے خلاف لیکچرز دیے جاتے ہیں، اب اس سے یہ تاثر بھی جنم لیتا تھا کہ چونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات  بہت اچھے ہیں لہذا سعودی عرب یہ سب کچھ کروا رہا ہے۔

ظاہر ہے کہ جب پاکستانیوں کی زبانی یہ حالات ایران میں منتقل ہوتے تھے تو ایران میں مقیم پاکستانیوں کو یوں لگتا تھا کہ جیسے پورا پاکستان سعودی عرب کے قبضے میں چلا گیا ہے ، سونے پر سہاگہ  یہ کہ  اس دوران  کئی سالوں تک تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے عملے میں موجود ایک آدھ کالی بھیڑ نے لوگوں کو ایمبیسی سے مایوس کیا اور مایوس ہونے والوں میں سے اکثر نے یہی سمجھا کہ بھائی یہ سب سعودی ایجنڈا ہے اس لئے  پاکستان ایمبیسی   ہمارے کام انجام نہیں دے رہی۔

 آج کل بھی ایران میں اگر کسی پاکستانی کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو اس سے تہران ایمبیسی میں  شناختی کارڈ کی فیس وصول کرنے کے بعد  اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ وہ بے چارہ  مجبورا پاکستان سے ہی شناختی کارڈ بنواتا ہے،  اکثر لوگوں سے یہاں پر فیس کے نام پر رقم انیٹھ لی جاتی ہے لیکن انہیں یہاں سے شناختی کارڈ نہیں ملتا اور وہ پاکستان جاکر دوبارہ فیس جمع کرواتے ہیں اور شناختی کارڈ بنواتے ہیں، میں نے کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بھائی انہیں اوپر سے یوں ہی کہا جاتا ہے۔۔۔ یعنی سعودی عرب سے۔۔۔اس سے آپ اندازہ لگالیں کہ  ہمارے ہاں فائدہ تو چند کرپٹ لوگ اٹھاتے ہیں اور  غلط فہمیاں کسی اور کے بارے میں پیدا ہوتی ہیں۔

یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ پاک ایران بارڈر پر کئی مرتبہ ایرانی سرحدی گارڈز کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ہے اور تفتان میں زائرین کو بھی اپنی سفاکیت کا نشانہ بنا چکے ہیں،  گزشتہ ماہ پا کستان اور ایران کے سرحدی مقام میرجاوا میں دس ایرانی سرحدی محافظین کو پاکستانی علاقے سے دور مار بندوقوں کے ساتھ ’’جیش العدل‘‘ نامی گروہ نے  موت کے گھاٹ اتار دیا۔

 اس واقعے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے  پاکستان کا دورہ  کیا اور انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے سرحدی سکیورٹی بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ، علاوہ ازیں ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کے نام ایک پیغام میں کہا کہ بدقسمتی سے کچھ ممالک پراکسی وار کے ذریعے اسلامی ممالک کی یکجہتی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، انھیں ’’بھرتی کیے گئے دہشت گردوں‘‘ کے ہاتھوں سرحدی محافظوں کی ہلاکت پر افسوس ہے کہ جو حملے کرنے کیلئے پاکستان کی زمین استعمال کرتے ہیں۔

اس کے بعد  حالیہ دنوں میں ایرانی افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری  نے ایک بیان میں کہا  ہے کہ وہ پاک ایران سرحد پر اپنی جانب عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے بصورت دیگر تہران ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو خود نشانہ بنائے گا۔

پیر کو ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' کے مطابق مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ صورتحال کا اس طرح جاری رہنا قابل قبول نہیں ہے۔

انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستانی حکام سرحدوں پر قابو رکھیں گے اور دہشت گردوں کو گرفتار اور ان کے ٹھکانوں کو بند کریں گے۔ جنرل باقری کے بقول اگر دہشت گرد حملے جاری رہتے ہیں تو ایران عسکریت پسندوں کی آماجگاہوں کو جہاں کہیں بھی وہ ہوں گی نشانہ بنائے گا۔[1]

  یہ بیان میں نے ایران کے بدترین دشمن، امریکہ کی  معروف سائیٹ، وائس آف امریکہ سے من و عن  نقل کیا ہے۔ تاکہ قارئین  ایرانی جنرل کے اصل مدعا کو سمجھ سکیں۔

اس  بیان سےسے صاف پتہ چل رہا ہے کہ  ایرانی جنرل نے   پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کی بات کی ہے  اور یہ بات ممالک کے تعلقات میں بالکل نارمل سی بات ہے جیسا کہ پاکستان بھی کئی مرتبہ افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کر چکا ہے ، یاد رہے کہ  ہمسایہ ممالک ایک دوسرے سے تعاون کر کے دہشت گردوں کے خلاف اس طرح کے آپریشن انجام دیتے رہتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر روزنامہ ایکسپریس کا  یہ لنک  قارئین کے لئے پیش ہے:             https://www.express.pk/story/741738/

اب یہ حقیقت تو واضح ہے کہ   ایرانی جنرل کا روئے سخن تو  دہشت گردوں  کی طرف  تھا، اور انہوں نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ دہشت گردوں کے سرپرست اور حامی  ان کے بیان کو پاکستان پر حملہ کرنے کے بیان میں بدل دیں گے اور یوں رائے عامہ کو گمراہ کریں گے۔

خیر جو ہونا تھا وہ تو ہوا ،اس وقت یہ  ہمارے حکومتی اداروں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملکی معاملات پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لئے بغیر مصدقہ سورس کے خبریں لگانے ، خبروں کو بغیر کسی سورس کے  مختلف جگہوں سے کاپی پیسٹ کرکے پھر   اپنے  من پسند نظریات  کے مطابق خبریں گھڑنے ، درست خبروں کو غلط رنگ میں پیش کرنے  اور خبروں میں سچ اور جھوٹ ملاکر پیش کرنے والی سائٹوں اور رپورٹرز کے خلاف فوری ایکشن لے۔ اس عمل کو فوری طور پر انجام دیا جانا چاہیے اور جعلی خبریں بنانے والے لوگوں کے خلاف  بلا تفریق  جلد از جلد قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔

 بے شک ہماری   دیانت دار اور شفاف  صحافت ہی ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کی ضامن ہے۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

والدین کی خودکشی

وحدت نیوز(آرٹیکل) زندگی ہرجاندار کو پیاری  ہے، انسان  تو اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دیگر جانداروں کی زندگی کے تحفظ کے لئے بھی  پریشان رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انسان جنگلی حیات کی حفاظت کے لئے کانفرنسیں کرتا ہے اور آبی حیات کے تحفظ کے لئے منصوبے بناتا ہے، اسی طرح عالمی برادری کسی قوم کو دوسری قوم پر شبخون مارنے اور جارحیت کرنے کی اجازت نہیں دیتی،  بین الاقوامی برادری ، جنگی قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لئے قوانین وضع کرتی ہے اور سزائے موت کے حقدار افراد کے لئے بھی انسانی حقوق کی پاسداری کی بات کرتی ہے۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے ، جبکہ دوسرا رخ یہ ہےکہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کانفرنسیں کرنے والے  وزیر اور مشیر ہی  جنگلی جانوروں کے شوقین نظر آتے ہیں اور حکمران اپنے شوق پورے کرنے کے لئے جنگلی حیات کے قوانین سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہم ماضی کی باتیں نہیں کرتے ، ابھی  دسمبر ۲۰۱۶ کی بات ہے کہ جب میڈیا  کے مطابق کھپرو میں 50کلو میٹر دور اچھڑو تھر کے علاقے رانا ہوٹرمیں متحدہ عرب امارات کے شہزادے شیخ سلطان بن خالد النیہان، شیخ سلطان بن محمد النیہان، شیخ احمد بن سلیم اور شیخ حمدان بن محمد النیہان ذاتی عملے کے ہمراہ تلور کا شکار کرنے رینجرز اور پولیس کے سخت سیکیورٹی میں 20سے زائد خیموں کے شہر میں پہنچ گئے، علاقے میں ایک کلو میٹر سے زائد رقبے پر خیموں کا شہر آباد کرکے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ۔[1] یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ  سعودی شاہی خاندان کے  افراد بلوچستان میں نایاب پرندے تلور کے شکار کی غرض سے دالبندین کے ایئر پورٹ پہنچے،جہاں صوبائی وزراء اور سینیئر سرکاری افسران نے ان کا استقبال کیا۔ یاد رہے  کہ سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے نایاب پرندے تلور کی نسل کو معدومی سے بچانے کے لئے بلوچستان ہائی کورٹ نے نومبر 2014ء میں عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔[2] ایک نجی نیوز چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار حامد میر کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے تلور کا  فقط شکار نہیں کرتے بلکہ  یہ لوگ جن مقاصد کے لیے تلور کھاتے ہیں بعد میں ان مقاصد کی تکمیل کے لیے کچھ اور کام بھی کرتے ہیں.میں جو غیرت اور عزت کی بات کی ہے، آپ سمجھنے کی کوشش کریں میں کھلے الفاظ استعمال نہیں کرسکتا۔ یہ حامد میر  کے الفاظ ہیں کہ قطری شہزادوں کے پاکستانی میزبان صرف ان کے لیے تلور کے شکار کا بندوبست نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی عزت اور غیرت کے شکار کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔[3]

یہاں قانون سے کھیلنے والے طالبان یا داعش نہیں تھے بلکہ ہمارے   حکمران تھے، اسی طرح طالبان یا داعش کی دہشت گردی کو چھوڑیے اور اپنے تعلیم یافتہ اور روشن فکر کہلانے والوں کی دہشت گردی کی فکر کیجئے،  لاہور میں کتنے ہی عرصے تک  ڈاکٹر حضرات لوگوں کو زبردستی جعلی سٹنٹ ڈالتے رہے ہیں، یہ دکھ اپنی جگہ ابھی باقی ہے کہ  یہ بھی انکشاف ہو گیا ہے کہ  لاہور میں ڈاکٹر حضرات نے لوگوں کو اغوا کر کے ان کے گردے بھی نکال کر بیچنے شروع کر دئیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ۳۰ اپریل ۲۰۱۷ کو ایف آئی اے کی ٹیم نے چھاپہ مارا تو اس وقت دو شہریوں کے گردے نکال کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈالے جا رہے تھے ۔جن دو شہریوں کی گردے نکالے گئے انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹروں نے اغوا کرکے زبردستی گردہ نکالا ۔[4]یہ ہیں ہماری یونیورسٹیاں اور ان سے پڑھ کر نکلنے والے مسیحا۔

اس سے ہمیں اندازہ ہوجانا چاہیے کہ دینی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل کرنے کا اصلی سہرا انہی  روشن فکر لوگوں کے سر جاتا ہے جو اپنے مفادات کے لئے دینی مدارس کو بھی استعمال کرتے ہیں۔

   اس کے بعد  شبخون مارنے اور جارحیت کے حوالے سے آج ہم  فلسطین اور کشمیر کی بات نہیں کریں گے بلکہ  اپنے ہاں مردان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل کی ویڈیو ہی دیکھ لیجئے ، اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اپنے آپ کو مہذب کہنے اور سمجھنے والے دوسروں کے خلاف کس طرح طاقت کا ستعمال کرتے ہیں،  اب تک کی اطلاعات کے مطابق  مشال خان قتل کیس میں پولیس نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے لیکن اس سے پہلے با اثر لوگوں اور ان کے بچوں اور عزیزوں  کے نام کیس سے خارج ہو چکے ہیں۔مشال خان کیس میں اب زیادہ تر کرائے کے قاتل ہی رہ گئے ہیں۔

ہمارے تعلیمی ا داروں میں صرف صرف مشال خان جیسے لوگ ہی نہیں مارے جاتے  بلکہ یہ  فروری ۲۰۱۷ کی بات ہے کہ  کیڈٹ کالج لاڑکانہ کے 14 سالہ طالب علم محمد احمد کو استاد نے  اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ  مکمل ذہنی صلاحیت سے  محروم ہوگیا ۔یہ کسی عام ادارے کی بات نہیں بلکہ ایک کیڈٹ کالج کی روداد ہے۔

بات کیڈٹ کالج کی ہوئی ہے تو کچھ ذکر سولجر بورڈ کا بھی کر لیتے ہیں، اس ادارے کا ایک اہم کام ریٹائرڈ  فوجی حضرات کے بچوں کو سکالر شپ دینا بھی ہے۔ریٹائرڈ ہونے والےچھوٹی سطح کے فوجی حضرات کے بچوں کے نصیب میں سکالرشپ فارم آتے ہی نہیں۔ انہیں کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ  ابھی فارم ختم ہوگئے ہیں اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اب تو تاریخ ختم ہو گئی ہے۔خصوصا آزاد کشمیر میں تو  کسی بڑے افیسر کی سفارش کے بغیر کسی عام فوجی کے بچے کا سکالرشپ لگ ہی نہیں سکتا۔

اب جہاں تک انسانی حقوق کی پاسداری کی بات رہ گئی ہے تو  تحریک طالبان پاکستان  اور جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کے اعترافی بیان کو ہی اپنے سامنے رکھ لیں۔ احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں  کوئی نئی بات نہیں بتائی ،موصوف نے وہی کچھ کہا ہے کہ  جو سب کو پتہ ہے، ویسے بھی اس کے پاس ایسی کوئی بات نہیں جو ہمارے سیکورٹی اداروں کو پتہ نہیں۔۔۔

 احسان اللہ احسان جیسے لوگ تو نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں ۔ اصل میں تو وہ لوگ حقیقی دہشت گرد ہیں  جودہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں اور ان کے لئے اسمبلیوں اور سرکاری پوسٹوں پر بیٹھ کر سہولت کاری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں،   اس وقت ہماری حکومت، احسان اللہ احسان کو خواہ مخواہ ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے دہشت گردوں کو اسمبلیوں تک پہنچانے کے لئے زور لگا رہی ہے۔

 یہ خود ہمیں سوچنا چاہیے کہ دہشت گردوں نے آخر پاکستانیوں کی ایسی کیا خدمت کی ہے کہ جس کی وجہ سے انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہاہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ احسان اللہ احسان کو سزائے موت یا فلاں سزا  دی جائے  بلکہ میں آپ کی توجہ اس طرف دلانا چا رہاہوں کہ جو کچھ ہماری سادگی کے ساتھ ہو رہا ہے۔

راقم الحروف کے مطابق احسان اللہ احسان جیسے لوگوں کا جرم فقط دہشت گردی نہیں ہے بلکہ توہینِ اسلام اور توہین رسالت ان کا اصلی جرم ہے ، انہوں نے  مساجد میں نمازیوں کو شہید کر کے اور بے گناہ لوگوں کو دھماکوں میں اڑا کر  دنیا میں اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات کو عملی طور پر مسخ کر کے شانِ رسالت میں عظیم  گستاخی کی ہے۔ حقیقی معنوں میں توہین رسالت تو یہ ہے جو احسان اللہ خان اور ان کے  ہمنوا کرتے چلے آرہے ہیں۔

جس طرح یہاں لاکھوں روپے کے نادہندگان اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اسی طرح لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قاتلوں اور توہینِ رسالت و توہین اسلام کرنے والوں  کے لئے بھی ہماری اسمبلیوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں  اور کرپشن کرنے والوں کے سہولت کار سرکاری پوسٹوں پر بیٹھ کر بڑے آرام سے اپنا کام انجام دے دے رہے ہیں۔

اب  دوسری طرف  ہمارے ہاں پائے جانے والے دینی شعور کا اندازہ بھی لگائیے! بڑی بڑی مساجد اور دینی مدارس سے مزیّن، ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات  اور دینی شعور کا یہ عالم ہے کہ ایک فرقے یا مسلک کا آدمی اب دوسرے فرقے یا مسلک کی مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔

 عید فطر کے موقع پر صدقہ و خیرات کے ریکارڈ قائم کرنے والے ملک میں اور عید قربان کے ایام میں دل کھول کر قربانیاں دینے والے دیس میں،  صرف چند روز پہلے طارق نامی شخص، حالات سے تنگ آکر  اپنے پانچ بچوں سمیت زہر کھا کر خود کشی کر لیتا ہے۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے بچوں میں 4 بچیاں اور 1 بچہ شامل ہے جن کی عمریں 5 سے 12 سال کے درمیان ہیں۔

طارق کی بیوی صائمہ ایک سال قبل خلا لے کر اپنے میکے چلی گئی تھی اور اس نے دوسری شادی کر لی تھی،طارق خود اپنے بچوں کی کفالت کرتا تھا اور بچوں کی وجہ سے فکر مند رہتا تھا۔ طارق کی اہلیہ نے ایک سال قبل اس سے خلع لی تھی جس کی وجہ سے گھر میں ناچاقی تھی، دوسری جانب محمد طارق کا اپنے بھائی اور بھابھیوں سے بھی جھگڑا رہتا تھا جبکہ اس کے مالی حالات بھی ٹھیک نہیں تھے۔

ہر مہینے میں ہمارے معاشرے میں کئی طارق خودکشیاں کرتے ہیں، یہ خود کشیاں دینی مدارس و مساجد اور یونیورسٹیوں  کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔  ان خود کشیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیمی ادارے  خواہ مدارس ہوں یا یونیورسٹیاں، عوام میں محبت، اخوت، بھائی چارہ ، صلہ رحمی ، برداشت اور صبر و تحمل پیدا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

بدقسمتی سے بعض تعلیمی اداروں  نے لوگوں کو اچھا انسان اور مسلمان بننے کے بجائے ،  اسلحے سے مسلح کیا ،عدمِ برداشت سکھائی اور پیسہ کمانے کی مشین بنا دیا۔

جس معاشرے میں  لوگوں کے ساتھ ہر طرف فراڈ ہو رہا ہو، پارٹیوں کے انتخابی منشور فقط الفاظ تک محدود ہوں، میرٹ کے بجائے رشوت سے نوکریاں ملتی ہوں اور دھونس دھاندلی سے کام چلتا ہو، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہو، حکمران خود قانون سے کھیلتے ہوں!  پانامہ کیس کی طرح ، عدالتیں بڑے لوگوں کے خلاف فیصلے سنانے میں احتیاط سے کام لیتی ہوں، معصوم بچوں کو کرائے کے قاتلوں میں تبدیل کیا جاتا ہو اور دہشت گردوں کو پروٹوکول ملتا ہو، سفارش کے بغیر کسی کو سکالر شپ تک نہ ملتا ہو،  جہاں لوگوں  کے بچے دینی مدارس میں دینی تعلیم و تربیت کے لئے جائیں  لیکن  انہیں خودکش بمبار اور دہشت گرد بنا دیا جائے اور اگر  یونیورسٹیوں میں جائیں تو  ان کی یونیورسٹیوں کا اسٹاف ہی  کرائے کے قاتلوں سے انہیں قتل کروا دے، ، جہاں کیڈٹ کالجوں میں بھی بچوں پر وحشیانہ تشدد کیا جائے اور تعلیمی نظام بھی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو۔۔۔

  اس ملک میں  تو والدین  خود کشی  سے پہلے ہی مر جایا کرتے ہیں ، خود کشی تو صرف ان کی بے بسی کا اعلان کیا کرتی ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) ۴ ہجری میں شعبان المبارک کی تین تاریخ کو مدینۃ النبیﷺ میں تاریخ بشریّت کے ایک ایسے بچے نے جنم لیا،  جس نے  مفکرین کے افکار اور دنیا کی اقدار کو بدل دیا، اس نے فتح و شکست، اور بہادری و بزدلی کے پیمانے تبدیل کر دئیے۔اس نے  مقتول کو قاتل پر،مظلوم کوظالم پر،پیاسے کو سیراب  پر،اسیر کو آزاد پر اور محکوم کوحاکم پر غلبہ عطا کردیا۔ یہ نومولود  اس لیے بھی انوکھا تھا کہ بظاہر شہنشاہِ دو عالم ﷺ کا نواسہ تھا لیکن اس کی فضیلت فقط اسی پر ختم نہیں ہوتی، یہ مولود کعبہ کا لخت جگر تھا، خاتونِ قیامت کے دل کا ٹکڑا تھا، حسنِ مجتبی ٰ ؑ کا بھائی تھا لیکن نہیں نہیں پھر بھی اس کی فضیلت کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت رسولِ خدا ﷺ نے خود دی،  بعض روایات کے مطابق ولادت کے ساتویں روز حضرت جبرائیل ؑ نے  حضور اکرمﷺ سے فرمایا کہ اس بچے کا نام حضرت ہارونؑ کے چھوٹے بیٹے شبیر کے نام پر رکھیں جسے عربی میں حسین کہا جاتا ہے، [1]   سات سال تک یہ بچہ رحمۃ للعالمین ﷺ  کے سائے میں پروان چڑھا،  سائے میں نہیں بلکہ سینے پر پروان چڑھا، ان سات سالوں میں رسول اعظم ﷺ بار بار یہ اعلان کرتے رہے، میں حسینؑ سے ہوں اور حسین مجھ سے ہے۔

ہمارے رسول کی آغوشِ تربیت کا کمال دیکھئے کہ جو بھی اس آغوش میں پروان چڑھا وہ دنیا میں بے نظیر و بے مثال بن گیا، اگر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو پروان چڑھا یا تووہ کل ایمان ٹھہرے، اگر سیّدہ فاطمہ کو پروان چڑھا یا تو  وہ  سیّدۃ النسا العالمین ؑ قرار ، پائیں اگر امام حسن مجتبیؑ کو پروان چڑھا یا تو  سیرت و کردار میں  شبیہ پیغمبر بنے اور اگر حسین ابن علی کو اپنی آغوش میں لیا تو جنت کے سردار بنے۔

ان مذکورہ شخصیات میں سے ہر شخصیت نے  عالم بشریت کی ہدایت  کے لئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔

تعلیمات اسلام کی روشنی میں اور سیرت نبوی کے آئینے  میں یہ سب رسول گرامی ﷺ کی تربیت کا نتیجہ ہی ہے کہ ان ہستیوں کی  مادی زندگی اور معنوی زندگی میں کوئی فرق نہیں، بلکہ ان کی مادی زندگی ہی عین معنوی زندگی ہے، ان کی سیاست ہی عین دین ہے ، ان کی زندگی کے آداب، قرآن مجید کی آیات کی  عملی تفسیر ہیں اور ان کے فرمودات ، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا ہی تسلسل ہیں۔

دنیا میں اگر آج تک ان کے فضائل کا ڈنکا     بج رہاہے تو یہ در اصل رسولِ اسلام کی فضیلت کا ڈنکا ہے چونکہ ان کی تعلیمات عین تعلیمات رسالت ہیں۔

رسول اکرم ﷺ نے متعدد احادیث میں ان کے فضائل کو بیان کیا ہے اور اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، ان کا دشمن میرا دشمن ہے اور ان کا دوست میرا دوست ہے ، اللہ کے رسولﷺ نے کئی مرتبہ ان کے دشمنوں پر لعنت اور بیزاری کا اظہار کیا ہے۔

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ رسول گرامی ﷺ کی ان ہستیوں سے محبت  ، محض جذباتی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ یہ ہستیاں اپنے عمل و کردار کے اعتبار سے  اس قابل تھیں   کہ ان سے رسولِ دوعالم اسی طرح والہانہ محبت کرتے۔

کفر کی ظلمت میں رسولِ اسلام ﷺ نے توحید کے جس نور کی شمع جلائی تھی اسے رسولﷺ کے بعد انہی ہستیوں نے اپنے عمل و کردار سے فروزاں رکھا ۔ ۶۱ ھجری میں جب ان ہستیوں میں سے اس دنیا میں فقط حسین ابن علی ؑ باقی رہ گئے تو رسول اکرم ﷺ کی تریبت کا تقاضا یہی تھا کہ حسین ابن علی ؑ ، سیرت رسولﷺ اور پیغام رسالتؑ کے اجرا کے لئے ، اپنی ماں، باپ اور بھائی کی طرح میدان عمل میں کھڑے رہیں۔

 چنانچہ ۶۱ ھجری میں  جب  یزید کے سامنے  پورا عالمِ اسلام سرنگوں ہو گیا تھا ،اس وقت فقط حسین ابن علیؑ شہکار ِ رسالت کے طور پر ابھرے۔ جس طرح رسولِ خدا نے زمانہ جاہلیت کے معیاروں کو بدلا تھا اسی طرح حسین ابن علی نے بھی اسی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے  جہالت و نادانی کے خلاف قیام کیا۔ جس طرح عرب سرداروں اور دنیا کے بادشاہوں کے منصوبوں کو نبی اکرمﷺ نے خاک میں ملایا تھا اسی طرح حسین ابن علیؑ نے بھی  سرداروں اور بادشاہوں کے منصوبے ناکام کر دئیے۔ یعنی حسین ابن علی ؑ کے پیکر میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تربیت  اپنے کرشمے دکھا رہی تھی۔

حکام وقت کے منصوبے کے مطابق، معرکہ کربلا کو وہیں کربلا کے صحرا میں  دفن ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہ واقعہ، سیرت النبیﷺ کے واقعات کی طرح  دفن ہونے کے بجائے ہروز زندہ اور روشن ہوتاجارہاہے۔ یوں تو تاریخ عرب جنگوں سے بھری پڑی ہےلیکن ان جنگوں میں اور اس معرکے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں ظاہری اعدادوشماراورغلبےکو فتح کا معیار سمجھاجاتا تھاجبکہ یہاں ظاہری قلت کو حقیقی فتح کا درجہ حاصل ہے،یہاں بظاہر مرجانے والا درحقیقت فاتح ہے۔ارباب فکرکے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر وہ کونسی شئے ہے جس نے لاو لشکر کے باوجود یزید کو سرنگوں کردیا  اور تہی دست ہونے کے باوجود امام حسین  عالی مقام کو سربلند بنادیا۔

ہمارے سامنے تاریخ بشریت، دانش مندوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے اورعلم و دانش کا سلسہ اولاد آدم کے درمیان ابتداء آفرینش سے ہی چلتا آرہا ہےمگر تاریخ بشریّت شاہد ہے کہ کسی بھی دانشور یا مفکّرنے اپنے علم ودانش سے امام حسینؑ جیسا کام نہیں لیا ۔  ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ امام حسین  کا قیام ظاہری حکومت کے لیے تھا چنانچہ امام حسین  عالی مقام کی شہادت کے بعد بنو امیہ کی حکومت کو گرانے کے لئے جو تحریکیں چلیں انہوں نے خونِ حسین  کے انتقام کا نعرہ لگایا اور ان تحریکوں نے امام حسین  عالی مقام کی شکست کو فتح میں تبدیل کردیا لیکن اس ضمن میں ہم یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ کیاامامؑ عالی مقام نے جناب محمّد بن حنفیّہ کے نام وصیّت نامےمیں طلب حکومت سے انکار نہیں کیا تھا؟

 کیا امام حسین  نےمکّے میں روز عرفہ کو یہ نہں فرمایا تھا کہ میں فقط امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اپنے نانا کی امّت کی اصلاح کے لیے نکل رہاہوں؟ اسی وصیت نامے میں یہ بھی فرمایا ہے کہ میری سیرت میرے جد محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے۔

 اگر امامؑ کاقیام حکومت کےلیے تھا تو خواتین اور بچوں کو کیوں ساتھ لے گئے؟ اگرامامؑ کی کوشش فقط حکومت کےلیے تھی توجب آپؑ کوسامنے شکست نظر آرہی تھی تو صلح کیوں نہیں کی یا جنگی سازوسامان کا بندوبست کیوں نھیں کیا؟ اور جو انتقامی  تحریکیں اپنے آپ کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھ سکیں وہ امام حسین  عالی مقام کو کیا فتح عطا ء کر سکتی ہیں۔

    یہ بھی ممکن ہے کوئی شخص یہ کہےکہ یہ دوشہزادوں یادوخاندانوں یا دو قبیلوں یعنی بنی ہاشم اور بنی امیّہ کی جنگ تھی,چنانچہ بنی ہاشم کی سیاست بنو امیہ پر غالب آگئی اور یہ شکست فتح میں بدل گئی  تواس سلسلے میں ہم یہ کہیں گے کہ کسی انسان کا یہ سوچنا ہی اسلام فہمی سے دوری کی علامت ہے۔چونکہ جس شخص کوذراسی بھی اسلامی معارف سے آگاہی ہو اس پر یہ واضح ہے کہ امام حسین  محبوب رسول اور سردارِ جنّت کا درجہ رکھتے ہیں،لہٰذاحضرت امام حسین  سے بغض اور لڑائی کسی شہزادےیا قوم یا قبیلے کے ساتھ لڑائی نہیں بلکہ رسولِ خدا ﷺ کی سیرت و کردار کے  ساتھ جنگ ہے۔

 کربلا میں ظالم پر مظلوم کی فتح کے حقیقی سبب کو جاننے کے لئے ضروری  ہے کہ  ہم تحریکِ کربلا کا تحلیلی مطالعہ کریں اور جب ہم تحلیلی مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام حسین  عالی مقام نے کتابِ کربلا کے ورق ورق کو سیرت النبیﷺ کے  ساتھ مرتب کیا ہے۔

بلاشبہ کربلاکی عسکری جنگ کا نقشہ یزید اور اس کے حواریوں نے تیار کیا تھا لیکن کربلا کی فکری جنگ کا نقشہ امام عالی مقام نے تیار کیا ہے۔آپ نے مدینے میں حاکم مدینہ کی طلب بیعت سے لے کر قیام ِ مکہ تک اور قیامِ مکہ سے لے کر میدان کربلا تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کو اپنے جد رسولِ خداﷺ کی طرح ، حسنِ تدبر کے ساتھ ترتیب دیاہے۔حاکم مدینہ کے دربار میں آپ کی گفتگو اور اس کے بعد شہادت تک کے تمام تر خطبات اور واقعات کو سامنے رکھ کر تجزیہ و تحلیل کرنے سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ  وہ شئے جس نے کربلا کو ایک ابدی فتح میں تبدیل کردیا وہ  امام عالی مقام کا خدا کی ذات اور رسولِ اسلام ﷺ سے عشق اور لگاو تھا، اور    اسی عشق نےاس تحریک کو جاویداں بنا دیا ہے۔ آج اگرہم مسلمان دنیا میں ناکام ہیں تو اسکی ایک اہم وجہ سیرت النبیﷺ  سےگریز ہے۔

اپنی زندگیوں میں سیرت النبیﷺ کے  عملی نہ ہونے کے باعث آج ہم یزیدان عصر اور اسلام دشمن طاقتوں سے ٹکرانے کے بجائے آپس میں ٹکرا رہے ہیں،دین کی خاطر جان نثاری اور فدا کاری کو نہ سمجھنے کے باعث ہمارے جان نثاری کے جذبے سے، اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہم اپنے ہی ہم وطنوں کو خاک و خون میں غلطاں کررہے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ خلوص دل کے ساتھ امام حسینؑ کی طرح اپنے پیغمبرﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہو جائے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی باطل قوت مسلمانوں کو  شکست نہیں دے سکتی اور ،ہم آج بھی عددی قلت اور وسائل کی کمی کے باوجود  فاتح بن سکتے ہیں۔

حضرت امام حسین مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کے رہبر یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ  آپ اپنے نانا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی مانند  پورے عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل ہیں، آپ کی عظیم شخصیت شہکار رسالت ہے لہذا شمع رسالت ﷺ کے پروانوں کو زندگی کے تمام پہلووں میں آپ ؑ کی ذات کا طواف کرتے رہنا چاہیے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

کالم کی موت

وحدت نیوز(آرٹیکل) میری دعا ہے کہ میرا یہ  کالم  بہت جلد مر جائے،یہ اپنا مفہوم کھودے اورحالات اس کے بر عکس ہوجائیں  لیکن مجھے لگتاہے کہ یہ ابھی کئی برس تک جئے گا۔ یہ  کالم  حُسن و دلکشی کے بارے میں ہے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ حسن و دلکشی انسان کی کمزوری ہے،انسان ہر لطیف و حسین شئے کو پسند کرتاہے،خدا نے بھی  جب انسان سے کلام کرنا چاہاتوانسان کی اس کی پسند کو مدنظر رکھا،اس نےخوبصورت الفاظ کو حسین پیرائے میں دلکش بیان کے ساتھ اس طرح سے پرویا کہ بڑے بڑے فصحا بھی اس کے کلام کا جواب نہیں لاسکے۔

دشمن بھی راتوں میں چھپ چھپ کر اس کے کلام کی شیرینی سے لطف اٹھاتے تھے اور شیاطین اس کی نزاکتِ الفاظ کو جادو کہہ کر فرار کرتے تھے۔

خدا نے الفاظ کے ساتھ  نعوذباللہ بازی نہیں کی بلکہ الفاظ کو وہ معانی اور مفاہیم عطا کئے ہیں  کہ ایک طرف تو طبیعت بشر کی نفاست پسندی اس حسنِ انتخاب سے محظوظ ہوئی اور دوسری طرف انسانی علم اور تہذیب و تمدن نے ارتقاء کیا۔یہ قرآن کا ہی دلکش اندازِ بیان اور اسلوبِ رواں تھا کہ جو مدتوں تک مسلمان دانش مندوں کی تحریر و تقریر پر حاوی رہا۔

معقولات و منقولات کے جو سوتے قلب اسلام سے پھوٹے ان کی تراوت عالم بشریت کی بریدہ شاخوں میں آج بھی لمس کی جاسکتی ہے اور ان سے لبریز جام  رومی،سینا،فارابی،خوارزمی اور الکندی کی صورت میں آج بھی مغرب کے علمی میکدوں میں چھلک رہے ہیں۔

انسانیت کے بے نطق معاشرے کو قرآن  اور اسلامی مفکرین نےہی آکر نطق بخشا،یہ وہ زمانہ تھا جب قلم خریدنے کی کوشش کی جاتی تھی،چونکہ قلم وزن رکھتے تھے، دانشمندوں کےسروں کی قیمتیں لگتی تھیں چونکہ سر قیمتی ہوتے تھے،تہہ خانوں کے زندانوں میں محبوس بدن فانوس بن کر جلتے رہتے تھےچونکہ تخیل کی چاپ کوآہنی حصاروں سے اسیر کرنامحال تھا، قلم کی سریرسے ایوان بالا کے کنگرے جگمگاتے تھے،طوفان بلا میں یہی تو اک نائو تھی ،جس کے بادبان منزل کا تعین کرتے تھے، کبھی کبھی کاخِ شاہی کے ستونوں کوقلم دیمک بن کر چاٹ بھی جاتے تھے،اس کی  خاموشی لشکروں کے غلغلے کو نگل جاتی تھی اور اس کی چھنکار ظِلّ الہی کی زنجیرعدالت پر  بھی بھاری تھی۔

ہمارے ہاں بر صغیر میں تو چشم فلک نے کئی مرتبہ یہ مناظر بھی دیکھے جب کسی بادشاہ   نے کسی ہیرے میں جڑ کر قلم کو اپنے تاجِ شاہی میں سجانا چاہاتوصاحبِ قلم نےطریقِ گدائی پر چلنا شروع کردیا،اپنے سماجی سفر میں  تاج کو اپنے تمام تر رعب و دبدبے کے باوجود تاراج ہوجانے کا خطرہ لاحق رہا لیکن قلم کو شاہ ولی اللہ جیسے سرپرست ملے جنہوں نے الفاظ کے برتاو میں خیانت نہیں کی اور اس عظیم مصلح نے شاہی مصلحتوں کو خاطر میں نہیں لایا،محمد حسین آزاد جیسے شمس العما ء ملے جنہوں نے اندازِ بیان میں سستی،کمی اور لغزشوں کی بھرپور حوصلہ شکنی کی،حالی جیسے امین ملے جنہوں نے مفاہیم کی امانت کو الفاظ کی بھرپور صداقت کے ساتھ اداکیا،میر انیس اور میرزا دبیر جیسے مشّاق ملے جنہوں نے انسان کی قوت ناطقہ کو طائر تخیل کے ہمراہ پرواز کارنے کا حوصلہ بخشا لیکن اب زمانہ  اس دور میں داخل ہوچکا ہے کہ تجرید فکر کا گلا گھٹ گیاہے۔

اب جولوگ الفاظ کی  علامتی توانائی کو درک نہیں کرسکے تھے وہ اسے  خیالی کہہ کر بھاگ نکلتے ہیں اور جہاں پر قلمکار کو تجرید فکر کے بنیادی اصولوں کی ہوا نہ لگی ہو وہاں قلمکار تولید فکر کے نام پر گھسی پٹی عبارتوں،بے رنگ اندازِ بیان،پھیکی اصطلاحات اور غلط ملط جملوں کا انبار تو لگاسکتاہے لیکن کسی تمدن کی تعمیر نو اور علمی مباحث کی تعبیرِ جدید کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔

جہاں پر مفروضے کو تجربے میں ڈھالنے کے لئے فنّی اہتمام نہ ہو اور مفروضے اور تجربے کے ملاپ سے مشاہدے کی تولید کے لئے بنیادی عناصر کی خبر ہی نہ ہو اور پھر تولید شدہ مشاہدے کو نظریاتی قوانین سے گزارے بغیر  اور تجرید فکر کے اصولوں پر چانچے بغیر پیش کیاجاتاہو وہ ہاں پر پھر کہنے کو سوائے کیچڑ اچھالنے کے کیا رہ جاتاہے۔

تحریر کے ساتھ ساتھ آج کل ہمارے ہاں فن تنقید کابھی یہی حال ہے۔ جس طرح انسانی جسم کے لئے تنفس ضروری ہے اسی طرح  انسانی افکار کی بالیدگی کے لئے تنقید   بھی اہم ہےلیکن علمی تنقید کے بھی کچھ بنیادی اصول اور ضوابط ہیں۔جس معاشرے میں بیان [تحریر] اورتنقید ی جائزہ دونوں بے لگام ہوجائیں وہاں پرعوام کو دشنام دینا کسی طور بھی روا نہیں۔

آج ہمیں اس تاریکی کو محسوس کرنا چاہیے کہ نور کے نام پر ظلمت کا کاروبار ہورہاہے۔اس جدید اور ماڈرن تاریکی کے عہد میں یہ صاحبان علم و شعور کا کام ہے کہ وہ اس قوم کی آنکھ  بن کر رہنمائی کریں،دماغ بن کر اس کی فکر کریں اور عصاء بن کر اسے سہارا دیں۔

جس معاشرے میں صاحبان علم و شعور کی ہمتیں پست ،زبانیں گنگ ، قلم کُند ،افکار کہنہ،مجالس غیر علمی،محافل غیر مفید ہو جائیں وہاں پرعلمی نگارشات اور نظریاتی تولید کی جگہ الزام  و دشنام  اورغیبت و حسد کو مل جاتی ہے اور جہاں پر علمی و نظریاتی تولیدات کا حسن ماند پڑجائے وہاں ان کی طلب بھی کم ہوجاتی ہے اور جہاں پر ان کی طلب کم ہوجائے وہاں پر بدی فاتح اور نیکی مفتوح،ظالم حاکم اور عادل محکوم  ہو کررہتا ہے۔

جب تک ہمارے ہاں صاحبانِ علم و شعور کی ہمتیں پست ،زبانیں گنگ ، قلم کُند ،افکار کہنہ،مجالس غیر علمی،محافل غیر مفیدہیں تب تک ہمارے معاشرے میں بدی فاتح اور نیکی مفتوح،ظالم حاکم اور عادل محکوم   بن کر جینے پر مجبور ہے۔لہذا میری دعا ہے کہ خدا کرے حالات بدل جائیں یعنی ہمارے دانشمندوں کی ہمتیں بلند،زبانیں فصیح،قلم گویا،افکار نو،مجالس علمی اور محافل مفید ہوجائیں  اور اگر ایسا ہوجائے تو  یہ  کالم   خود بخود مر جائے گا ۔


تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کی شریف ترین میراث، تہذیب ہے، انسان، علم حاصل کرتا ہے، اخلاق سیکھتا ہے، استادوں کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتا ہے،  مشاعروں میں جاتا ہے، دانش وروں کے جوتے سیدھے کرتا ہے، یونیورسٹیوں میں وقت صرف کرتا ہے، علما کی محفلوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے،  کتابیں کھنگالتا ہے تا کہ ان سے تہذیب سیکھے اور  مہذب بنے۔

اگر انسان کے پاس علم آجائے، اخلاق کی بڑی بڑی کتا بیں پڑھ لے، فی البدیہہ اشعار کہہ لے،  دنیا میں اس کی دانش کا سکہ چلنے لگے لیکن مہذب نہ ہو، چھوٹے بڑے کا احترام نہ کرے، دستر خوان پر بیٹھنے  کے آداب نہ جانتا ہو، دوستوں سے بات کرنے کے سلیقے سے عاری ہو،   ہمسائے  کو بلانے کی تمیز نہ ہو اور  قانون کو خاطر میں نہ لاتا ہو۔۔۔

ایسےانسان کو زیادہ سے زیادہ الفاظ کا مخزن تو کہا جاسکتا ہے لیکن انسانوں کے لئے  مشعل ِ راہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے جس ہستی کو عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل اور مشعل راہ قرار دیا ہے،  اس ہستی نے  انسانوں کو فقط الفاظ نہیں سکھائے بلکہ انہیں تہذیب سکھائی ہے   اور مہذب بنایا ہے۔

یہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی سکھائی ہوئی تہذیب کا ہی نتیجہ تھا کہ  ماضی میں پانی پینے پلانے پر جھگڑنے والے ،اسلام قبول کرنے کے بعد ،  خود پیاسے رہتے تھے اور دوسروں کو پانی پلا کر فرحت اور تسکین محسوس کرتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں ہمسائیوں کو تنگ کرنے والے، اسلام قبول کرنے کے بعد  خود بھوکے رہتے تھے اور ہمسائے کے گھر میں کھانا بھیجتے تھے،  دیگر مکاتب و مذاہب اور قبائل پر شبخون مارنے والے، مسلمان بننے کے بعد سب کو مکالمے، دوستی اور بھائی چارے کی دعوت دیتے تھے، بچیوں کی ولادت کو ننگ و عار کا باعث سمجھنے والے ، کلمہ طیّبہ پڑھنے کے بعد بیٹیوں کو  رحمت کا باعث سمجھنے لگے۔ یہ تھی پیغمبرِ اسلام ﷺ کی سکھائی ہوئی تہذیب کہ جس نے کالے اور گورے، عربی اور عجمی، قریشی اور حبشی کا فرق مٹا دیا تھا،  جی ہاں!  یہ تھی وہ تہذیب جس نے قرن کے اویسؓ، حبش کے بلالؓ، یمن کے مقدادؓ اور مدینے کے ایوب انصاریؓ کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ ، آج ہمارے پاس اسلام کے نام پر فقط الفاظ باقی رہ گئے ہیں اور اسلامی تہذیب ختم ہوتی جا رہی ہے ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ  اسلام کے نام پر بنائے جانے والے اس ملک کے ایک شہر سیالکوٹ  میں لوگوں کا ہجوم ایک شخص کو بجلی کے کھمبے سے باندھ کر  اتنا مارتا ہے کہ اس کی روح پرواز کر جاتی ہے،  لیکن کوئی مسلمان اسے بچانے کے لئے آگے نہیں بڑھتا ، اور ہمارے  اسلامی ملک کی فوج اور پولیس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔۔۔

اسی طرح کچھ دن پہلے سرگودھا میں ایک پیر صاحب نے لوگوں کو ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا ۔ یعنی لوگ اسلام کی  تہذیب  کو سیکھنے کے بجائے پیری مریدی کی تہذیب پر قربان ہو گئے،  مردان یونیورسٹی میں جس درندگی کے ساتھ مشال خان کو قتل کیا گیا اس کی بھی اسلامی تہذیب میں کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔

  اس وقت خیبر پختونخواہ  کے ضلع سوات کی  صورتحال یہ ہے کہ  خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں خواتین کی خودکشیوں کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ضلع میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے خوئندو جرگہ، دی اویکننگ اورپولیس ریکارڈ کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران سوات میں 377عورتوں نے خودکشی کر کے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرديا ہے۔

خیبرٹیچنگ ہسپتال کے سائیٹکری وارڈ کے ڈاکٹراعزاز جمال سوات کی خواتین کے خودکشی کے وجوہات پر تحقیق کررہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ سوات میں جھوٹے خودکشی کے واقعات کے تو اپنی جگہ لیکن حقیقت میں بھی حالیہ چند برسوں میں یہاں پر خودکشی کے واقعات میں ڈبل اضافہ ہوا ہے اور ان کی تحقیق کے مطابق خیبرپختونخوا میں گزشتہ چند سالوں میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات سوات میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر اعزاز جمال نے میڈیا کو بتایا کہ سوات کے بعد جنوبی اضلاع بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور کوہاٹ میں خودکشی کے  زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں  اور ان واقعات میں اٹھارہ سے تیس سال عمر خواتین کی شرح زیادہ ہے۔

ابھی حالیہ دنوں میں ہی پاکستان کے دارالحکومت میں ،ایئرپورٹ پر تعینات ایف آئی اے اہلکار وں نے دو مسافر خواتین  کو مار مار کر بے حال کر دیا، ایف آئی اے اہلکاروں نے دونوں کو کمرے میں لے جا کر مبینہ طور پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ خواتین کی حالت بگڑ گئی تو انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہی  ایک اور واقعے  میں ایف آئی اے اہلکاروں نے مانچسٹر کے قریبی قصبے اولڈہم جانے والی مسعود نامی شخص کی  فیملی کی بھی خوب  مار پیٹ کی ، جس پر لڑکی کے بھائی نے احتجاج کیا تو باپ اور  بیٹے دونوں پر  وحشیانہ تشدد کیا گیا۔

آج جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں ، اس وقت  پسرور کے نواحی گاوں ننگل مرزا میں 3 بہنوں نے ملکر  13 برس بعد گستاخی مذہب کے الزام میں ایک شخص فضل عباس کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ برقعہ پوش افشاں، آمنہ اور رضیہ، ننگل مرزا میں دم کرانے کے بہانے مظہر حسین سید کے گھر میں داخل ہوئیں اور فضل عباس سے ملنے کی خواہش کی۔ جب فضل عباس سامنے آیا تو اسے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ تینوں خواتین نے الزام لگایا کہ فضل عباس نے 2004ء میں مذہب کی گستاخی کی تھی۔

یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات اور اسلامی تہذیب  سے ناآشنائی  کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس کے اصل ذمہ دار ، اسلامی تہذیب سے عاری وہ علمائے سو ہیں جنہوں نے لوگوں کو مذہبی غیرت کے نام پر قتل وغارت، سنگسار  اور خودکشیاں کرنا نیز  کافر کافر کے نعرے تو سکھائے لیکن لوگوں کو اسلامی تہذیب نہیں سکھائی۔

موجودہ صورتحال کو سنبھالنے کے لئے مخلص علمائے کرام کی اوّلین ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو کلمہ طیبہ سکھانے کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب بھی سکھائیں۔ لوگوں کو بتائیں کہ دین اسلام میں فوج اور پولیس کا اخلاق کیسا ہونا چاہیے، عوام کو حکومتی اداروں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے، خواتین کے حقوق کیا ہیں  اور اسلامی معاشرے میں ان کی اہمیت و حیثیت کیا ہے!  مذہبی اختلافات کو حل کیسے کیا جاتا ہے اور مذہبی مسائل میں بولنے کا حق کسے حاصل ہے! دین اسلام میں قانون کی بالا دستی اور قانون کا احترام نیز سرکاری اداروں کی رٹ کیسے قائم کی جانی چاہیے۔۔۔ یہ سب ایسے موضوعات ہیں جن پر علمائے کرام کی طرف سے باقاعدہ کام کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کو مزید ابتری کی طرف جانے سے روکا جائے۔

یاد رکھئے ! جس معاشرے میں انسان درندگی پر اتر آئیں یا  خود کشی پر مجبور ہو جائیں،  لوگ احترام باہمی کو بھول جائیں، افراد قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں،  معاشرہ ماورائے عدالت سزائیں دینا شروع ہو جائے، اور انسانیت اپنا احترام کھو دے ، وہ معاشرہ  اور تمدن بڑی بڑی مسجدوں اور لمبی لمبی اذانوں کے باوجود  کبھی بھی اسلامی نہیں ہو سکتا۔

آخر میں مختصرا ایک جملے میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہمارے معاشرے کو بگاڑنے میں علمائے سو کا ہاتھ ہے اور اب اسے سنوارنے کے لئے  علمائے حقہ کے حسنِ اخلاق کی ضرورت ہے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

یہ اللہ والے۔۔۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) غفلت کا علاج فقط بیداری ہے۔ بیداری کا تقاضا تجزیہ و تحلیل ہے اور تجزیہ و تحلیل کا نتیجہ سمجھداری ہے، سمجھداری بھی اسے نصیب ہوتی ہے جو تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے دوران غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ شام میں جاری جنگ کے حوالے سے روس، ایران اور قطر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، معاہدے کی رو سے پہلے مرحلے میں فوعہ اور کفریا کے علاقوں سے 5 ہزار اور دہشت گردوں کے زیر قبضہ علاقے مادایا اور زبدانی سے 2200 افراد کا انخلا کیا جانا تھا، 15 اپریل 2017ء کو جنگ سے متاثرہ علاقوں سے انخلا کے لئے ہزاروں افراد دہشت گردوں کے محاصرے والے علاقے راشدین میں جمع تھے، کچھ لوگ اس علاقے سے نکلنے کے لئے بسوں پر سوار ہوچکے تھے اور کچھ ہو رہے تھے کہ اس دوران ایک خودکش دھماکہ کرکے ایک سو چھبیس کے لگ بھگ بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا گیا اور تقریباً اتنے ہی زخمی بھی ہوئے۔

مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی دہشت گردی عرصہ دراز سے جاری ہے۔ دہشت گردی کی تربیت دینے والے اور تربیت حاصل کرنے والے دونوں ہی چونکہ بہت زیادہ اللہ، اللہ اور اسلام اسلام کرتے ہیں، اس لئے عام لوگ بھی انہیں پکا مسلمان اور مجاہد ہی سمجھتے ہیں۔ ان اللہ والوں نے چن چن کر مسلمانوں کے ڈاکٹروں، ادباء، شعراء، بیوروکریٹس، پولیس اور فوج کے جوانوں، سکول کے بچوں، حتٰی کہ قوالوں اور نعت خوانوں کا بھی قتل عام کیا۔ انہوں نے صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے مزارات، اولیائے کرام کے آستانوں اور قائد اعظم کی ریزیڈنسی کی بھی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ ان کی تاریخ شاہد ہے کہ عراق، شام، افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان سمیت جہاں ان کا بس چلا انہوں نے عام مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا اور مسلمانوں کے مقدس اور محترم مقامات پر حملے کئے۔

اسلام دشمنوں نے، ان کے اللہ اللہ کے نعروں سے  خوب فائدہ اٹھا یا انہیں منہ مانگے فنڈز فراہم کئے اور ان کے نعرہ تکبیر اور انہی کی شمشیر کے ذریعے مسلمانوں کے گلے کٹوائے۔ ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کے بعد اب انہیں ایک نئے انداز میں مسلمانوں کے قتل کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ نیا انداز پہلے سے بھی زیادہ بھیانک اور خوفناک ہے، اس کی ایک مثال افغانستان کے دارالحکومت کابل کی ملاحظہ فرمائیں، جہاں دو سال پہلے ایک ستائیس سالہ، قرآن مجید کی حافظہ کو لوگوں کے ہجوم نے قرآن مجید کی شان میں گستاخی کا الزام لگا کر اتنا زدوکوب کیا کہ وہ مر گئی، اس کے بعد اس کی لاش کو آگ لگائی گئی، پولیس نے موقع پر موجود ہونے کے باوجود بے بسی کا اظہار کیا، پھر اسے دریا میں پھینکا گیا، جہاں سے بعد میں اس کی لاش نکالی گئی، اس کے تابوت کو خواتین نے کندھا دیا اور  پھر اسے دفن کیا گیا، قانونی کارروائی اور میڈیا کی تحقیقات نے گستاخی کے الزام کی تردید کی،  تحقیقات سے یہ ثابت ہوگیا کہ لڑکی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نمازی اور نیک و باحیا خاتون تھی اور اس پر گستاخی کا الزام بالکل جھوٹا تھا، لیکن جن کا مقصد ہی اسلام کو بدنام کرنا تھا، انہوں نے اپنا کام کیا اور بس۔۔۔۔

اس کے ٹھیک دو سال بعد بالکل وہی کہانی مردان یونیورسٹی میں بھی دہرائی گئی، جہاں ایک طالب علم کو نعوذ باللہ گستاخ رسول کہہ کر اتنا پیٹا گیا کہ وہ  ہلاک ہوگیا، کابل کی کہانی کی طرح پولیس یہاں بھی موجود تھی، لیکن بے بسی کی ایکٹنگ کرتی رہی، اس کی لاش کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ساتھ یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ یہ آدمی اتنا بد کردار تھا کہ اسے یونیورسٹی نے بھی نکلنے کا حکم دیا تھا۔ اب اس طالب علم کی کونسی بدکاری، یونیورسٹی کو پسند نہیں تھی، اس کے لئے آپ اس لنک پر موجود اس کا وہ انٹرویو دیکھ لیں، جو اس نے اپنے قتل سے صرف دو دن پہلے دیا تھا۔

یہ تھی اس کی بد کرداری جس کی  سزا اسے دی گئی، آپ اس کا انٹرویو سنیں تو آپ کو احساس ہو جائے گا کہ اس طرح کے آدمی پر جیب سے چرس برآمد ہونے کا الزام تو لگ نہیں سکتا تھا، لہذا اس پر گستاخی کا الزام لگا دیا گیا۔

انٹرویو میں اس کا کہنا تھا کہ  وائس چانسلر تعینات کیوں نہیں کیا جا رہا، اس سے ہماری ڈگریاں متاثر ہو رہی ہیں اور کچھ پروفیسرز نے دو، دو اور تین تین عہدے سنبھال رکھے ہیں، ایسا کس قانون کے تحت ہو رہا ہے، اس کے علاوہ باقی سرکاری اداروں میں آٹھ دس ہزار پر سمیسٹر فیس بنتی ہے، یہاں پچیس ہزار تک کیوں لی جاتی ہے۔ اس نے ان مسائل کے حل کے لئے احتجاج کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد مجمع عام نے اسے نشانِ عبرت بنا دیا۔ وہی اللہ اکبر کے نعرے جو شام میں خودکش لگاتے ہیں اور جو کابل میں قاتلوں کے ہجوم نے لگائے، وہی مردان کا ہجوم بھی لگا رہا تھا۔ ابھی مردان یونیورسٹی میں اللہ اکبر والوں کے ہجوم کی گونج باقی ہی تھی کہ لیاقت میڈیکل ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی جامشورو میں ایم بی بی ایس سیکنڈ ایئر کی طالبہ نورین لغاری کو  لاہور سے داعش کے ساتھ ہم کاری کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ اس گرفتاری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب داعشی فکر مدارس کے بعد یونیورسٹیوں میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کر چکی ہے۔

اگر ہمارے سکیورٹی ادارے داعشی و طالبانی فکر کا مقابلہ کرنے میں مخلص ہیں تو انہیں یہ حقیقت سامنے رکھنی ہوگی کہ کسی بھی یونیورسٹی کے اسٹاف میں جب تک داعشی و طالبانی فکر موجود نہ ہو، اس وقت تک یونیورسٹی کے طلباء میں داعشی سرایت نہیں کر سکتے۔ عین اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو پنجاب یونیورسٹی لاہور بھی نعرہ تکبیر ۔۔۔ اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہی ہے۔۔۔ یعنی۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اسٹاف میں بھی اللہ والے اپنا کام کر رہے ہیں اور وہاں بھی کوئی مشعل گل ہونے کو ہے۔ اگر ہمارے حکام اور عوام، تعلیمی درسگاہوں میں ان گل ہوتی ہوئی مشعلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر یاد رکھئے! غفلت کاعلاج فقط بیداری ہے۔ بیداری کا تقاضا تجزیہ و تحلیل ہے اور تجزیہ و تحلیل کا نتیجہ سمجھداری ہے، سمجھداری بھی اسے نصیب ہوتی ہے، جو تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے دوران غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Page 11 of 21

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree