وحدت نیوز (آرٹیکل) جنگ  جاری ہے، موجودہ جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی کام نہیں، کسی بھی قسم کا آتشیں اسلحہ استعمال نہیں ہورہا  بلکہ یہ جنگ قیادت و اقتدار کے بل بوتے پر لڑی جا رہی ہے۔جب تک مسلمانوں کے پاس قیادت اور اقتدار تھا، دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجتا تھا، مسلمان ہی اقوامِ عالم کی  ہر طرح کی رہنمائی کرتے تھے،

اقتصاد، سیاست، دفاع، تعلیم، صحت، اور تحقیق و تالیف   سب میں مسلمان قیادت آگے آگے تھی،لیکن جب امریکہ و یورپ نے مسلمانوں پر شب خون مارنے کے بجائے ان سے قیادت چھین لی اور مسلمان امام کے بجائے مقلد بن گئے، مسلمانوں کو اپنا مقلد بنانے کے  بعدانہوں نے تمام شعبہ جات کے لئے مسلمان  افراد کی تربیت کر

کے حکومت بھی سنبھال لی اور آج   تمام شعبوں میں ہم مسلمان  اختراعات کرنے  کے بجائے، غیر مسلموں کی نقالی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

قیادت کے ساتھ دوسری چیز حکومت ہے، جب کسی ملک میں جمہور اسلامی ہوتو وہاں حکومت بھی جمہوری ہونی چاہیے لیکن ہمارے ہاں جمہور تو اسلامی ہوتا ہے لیکن حکومتیں آمرانہ ہوتی ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور حکومتیں بھی امریکہ و غر ب کی تابعدار اور نقال  ہیں۔

حکومت یعنی جمہور کی آواز ، ایک اسلامی ملک میں جمہور کی آواز یہی ہوتی ہے کہ اللہ کی زمین پر الٰہی انسانوں کے ذریعے الٰہی نظام قائم کیا جائے لیکن ہمارے ہاں نام تو اسلام کا لیا جاتا ہے اور نظام غیر مسلموں کا لانچ کیا جاتا ہے۔

مثلا اگر ایک دیگ میں کوئی حرام چیز پکائی جائے اور پکانے والا مسلمان ہو تو وہ حرام چیز، حلال نہیں ہو جائے گی اور اگر پکانے والا وضو بھی کر لے اور قبلہ رخ بھی کھڑا ہو جائے اور منہ سے اونچی آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کہہ کر دیگ میں چمچے بھی مارنا شروع کردے تو اس سے لوگوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے لیکن پھر

بھی  حرام چیز بالکل بھی حلال نہیں ہو گی۔

یہی حال نظامِ حیات کا بھی ہے، اگر کافروں کا بنایا ہوا نظام حیات مسلمان بھی نافذ کریں گے تو وہ حلال نہیں ہو جائے گا بے شک مسلمان باوضو ہوکر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہیں۔

مسلمانوں کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا جمہور تو اسلامی تھا لیکن مسلمانوں کی قیادت اور اقتدار جمہوری کے بجائے  آمرانہ تھی ۔جب اسلامی  قیادتیں اور حکومتیں  آمرانہ ہوجاتی ہیں تو پھر وہ نظامِ حیات کے لئے اسلامی جمہور کے بجائے اغیار کی طرف جھکنے لگتی ہیں۔

آج آپ سعودی عرب کو دیکھ لیجئے، سعودی عرب کا جمہور کہنے کو اسلامی ہے لیکن عملاً وہاں آمریت ہے ، وہاں کی قیادت اور حکومت  اپنے جمہور کی آواز پر لبیک کہنے کے بجائے اغیار کی آواز پر لبیک کہتی ہے، اغیار سے نظامِ حیات لیتی لیکن نعرے اللہ اکبر کے لگاتی ہے۔

 ماضی میں جب سعودی عرب ہمارے سامنے   داعش، القاعدہ اور طالبان کی بنیادیں ڈال رہا تھا تو تب بھی سعودی عرب کے جمہور کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا اور آج جب سعودی عرب لبرل بننے جا رہا ہے تو اس میں بھی سعودی جمہور کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

 یعنی سعودی عرب میں مسلمان عوام ہونے کے باوجود، پریس آزاد نہیں، اپوزیشن کا وجود نہیں، احتجاج کی اجازت نہیں حتیٰ کہ سعودی شاہی خاندان کو بھی حکومت کی مخالفت کی اجازت نہیں تو ایسی گھٹن میں اسے ہی لبرل  اسلام کا نام دیا جا رہا ہے جو امریکہ و اسرائیل کا  پسندیدہ اور قابلِ قبول ہے۔

یعنی واضح طور پر سعودی عرب میں اسلامی جمہور اپنی قیادت و حکومت کھو چکا ہے اور صرف اس نظام کو چلانے والوں کا نام مسلمان ہے۔

اب دوسری طرف ایران کو لیجئے، ایران جسے دنیا میں اسلامی جمہوریہ ہونے کا دعویٰ ہے، ایران کے سب سے مضبوط علمی مرکز یعنی  شہرِ قم میں ایم آئی سکس کے ایجنٹ مجتہد اور فقیہ موجود ہیں، نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ وہ برطانیہ کے ایجنڈے پر  پوری طرح کام کر رہے ہیں۔ ان کا مشن مسلمانوں میں فرقہ واریت

کو ابھارنا، اتحاد امت کے بجاے شیعہ اور سنی کے درمیان فرقہ واریت کی آگ بڑھکانا، پرانے فرعی اختلافات کو روز مرہ کی بنیادوں پر اچھالنا اور شیعوں میں  داعش اور القاعدہ  کے تفکر کو پروان چڑھانا ہے۔

ایم آئی سکس کے یہ ایجنٹ شیرازی گروپ کے نام سے ایران میں فعال ہیں اور پوری دنیا میں ان کے پیروکار موجود ہیں۔دنیا میں ان کے ٹی وی  چینلز  اور ویب سائٹس چل رہی ہیں ،ایران اپنی تمام تر طاقت کے باوجود اس گروپ کو پوری طرح دبانے میں ناکام ہے۔ ایم آئی سکس کا یہ گروپ  پاکستان میں بھی گُل کھلانے میں مصروف ہے

حتی کہ اس کے ایجنٹ پاکستان کے بعض  دینی مدارس کے دورے کرتے ہیں اور دینی مدارس کی طالبات ان کے ساتھ تصاویر بھی بنواتی ہیں۔

یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے چونکہ مسلمانوں نے اپنا رہبر و رہنما مغرب کو بنا لیا ہے لہذا ہمارے ہاں، اچھائی و برائی اور عالم و غیر عالم کا معیار بھی وہی  بن گیا ہے جومغرب کہتا ہے۔

آج سے ستر سال پہلے کا  پاکستانی مسلمان یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ پاکستان میں مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹیں گے اور پاکستان کے میوزیکل چینلز پر پاکستان کی مسلمان خواتین گانے گائیں گی  لیکن مغرب کی اطاعت اور تقلید کے باعث  آج ستر سال کے بعد یہ سب  کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔

دنیا بھر کے اسلامی جمہور کو اس وقت اپنی حیثیت اور طاقت  کو جمہوری اقدار کے مطابق  منوانے کی ضرورت ہے، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے ہاں اچھائی و برائی، سکالر و غیر سکالر، اور عالم و غیر عالم کا معیار مغرب طے کرے گا اور ہم مغرب کے ہی مقلد رہیں گے یا کہ نہیں ہمیں واپس اپنی خود ی کی طرف پلٹنا ہوگا۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

nazarhaffi@gmail.com

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کو چاہیے کہ انسان ہی رہے، بطورِ انسان ہر انسان پر اصلاح کی دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، انسان ایک طرف تو  اپنی اصلاح کا ضامن ہے اور دوسری طرف  اس کے ساتھ ساتھ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی اصلاح کا بھی ضامن ہے۔جب انسان اللہ تعالی کی ذات سے غافل ہوجاتاہے تو وہ صرف خود کو ہی عقلِ کُل اور مصلحِ اعظم سمجھ کر دوسرے انسانوں  پر ظلم ڈھانے  لگتا ہے۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ نہ ہی تو یمن اور بحرین کا مسئلہ شیعہ اور دیوبندی  کا ہے ، نہ ہی شام اور عراق کا مسئلہ وہابی اور شیعہ کا ہے اور نہ ہی افغانستان و کشمیر کے مسائل بریلوی اور اہلحدیث کے جھگڑے ہیں  بلکہ  اصل مسئلہ اصلاحِ اُمت کا ہے، ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ  بطورِ مسلمان ہم اپنی اور اپنے جیسے انسانوں کی اصلاح کے ضامن ہیں۔

جب ہم اصلاح کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مقابلہ کفر اور شرک کے مبتدیوں اور مقلدین سے نہیں ہوتا بلکہ کفر اور شرک کے ائمہ سے ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں کفر و شرک کے امام ہندوستان، امریکہ اور اسرائیل و روس ہیں۔جب تک ہمارے یہ دشمن منظم، ہوشیار اور بیدار ہیں تب تک انہیں شکست دینے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ہم ان سے بھی زیادہ منظم، ہوشیار اور بیدار ہو جائیں، چونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علم و ٹیکنالوجی کو جہالت سے، نظم و ضبط کو بدنطمی سے،آگاہی اور بیداری کو غفلت سے  اور شعور و مکالمے کو تعصب سے شکست نہیں دی جا سکتی۔

عالمِ اسلام کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے ہماری تمام تر توجہ  اصلاحِ امت پر متمرکز ہونی چاہیے، ہمیں بحیثیت مسلمان ، دنیا بھر میں ایسی بیدار، دیندار اور ہوشیار سوسائٹی کی ضرورت ہے  جو دنیا کے سامنے اسلامی اصولوں، اقدار اور تعلیمات کی درست ترجمانی کرے۔

اگر اسلامی دنیا کی سربراہی اور ملت اسلامیہ کی قیادت ان بادشاہوں کے سپرد کر دی جائے کہ جو اپنا تن من دھن سب کچھ امریکہ کو راضی اور خوش  کرنے کے لئے لٹانے پر تیار ہیں تو مسلم دنیا میں طالبان اور داعش سے بچے کچھے ممالک بھی جلد اس دہشت گردی کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔

اگر ہمارے حکمران اسی طرح امریکہ و اسرائیل کے مفادات کی جنگوں میں اپنے جوانوں کو لقمہ اجل بناتے رہے تو دہشت گردی کی یہ وبا اب ممالک کے ممالک کو چاٹ جائے گی۔ اس وقت تک بھی امریکہ کی خوشامد ، چاپلوسی اور غلامی کا جو ہولناک نتیجہ نکلا ہے  وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

اگر ہم خداوندِ عالم کی وحدانیت اور رسولِ اسلام کی ختمِ نبوت پر قطعی عقیدہ رکھتے ہیں تو پھر ہمیں  امریکہ و اسرائیل  کے قدموں پر ڈھیر نہیں ہونا چاہیے اور ممالک و مسالک کے بجائے اسلامی اصولوں اور معیارات کا ساتھ دینا چاہیے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اذان تو توحید کی دیں اور گردنیں اہلِ قبلہ کی کاٹیں، نعرے تو اللہ اکبر کے لگائیں اور مسلمانوں کے سروں سے فٹبال بھی کھیلیں، باتیں تو اسلامی خلافت کی کریں اور آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے بچوں کو گولیوں سے بھی بھون دیں۔

اس وقت اصلاحِ اُمت کی کوشش صرف اس لئے ضروری نہیں کہ دنیا کو اس کی ضرورت ہے بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ شدت پسندی کی یہ آگ ہمارے ملک میں بھی  گھس چکی ہے۔

ظاہر ہے جب ہم نےاسلامی دنیا کا  حکومتی نظام ہی امریکہ و اسرائیل کے پٹھو حکمرانوں کے حوالے کیا ہوا ہے تو پھر ہم امن، صلح اور انسانی حقوق کی اپیلیں کس سے کر رہے ہیں!؟

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ شام کی ملت نے اپنے ملک میں غیر ملکی غنڈوں کے خلاف ایک بڑی جنگ بہت کامیابی سے لڑی ہے اور اب غوطہ میں جاری اپریشن دہشت گردوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے جا رہا ہے۔

یہ پتھر پر لکیر ہے کہ شام میں دہشت گردوں کے خلاف جاری اپریشن اپنے منطقی نتیجے کو پہنچ کر رہے گا چونکہ اس اپریشن کی قیادت کوئی ایسا چیف آف آرمی اسٹاف نہیں کر رہا جس نے  اپریشن کے بعد جا کر سعودی عرب کے ہاں نوکری بھی کرنی ہو۔ لہذا  شام سے دہشت گردوں کے انخلا کے لئے اس آپریشن کا جاری رہنا ضروری اور حتمی ہے۔

بے شک آخری فتح اہلِ شام کی ہی ہوگی اور آخری شکست غیرملکی غنڈوں کو ملے گی ۔چونکہ جو اصولوں اور اقدار  کی  خاطراپنے وطن کی سرزمین پر جان دے  دیتا ہے وہ مر کر بھی زندہ رہتا ہے اور جو دوسروں کے گھر میں گھس کر لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے وہ مار کر بھی شکست خوردہ اور زلیل ہوتا ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

nazarhaffi@gmail.com

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان فطرتاً فساد کو پسند نہیں کرتا، فساد صرف یہ نہیں کہ گھروں میں لڑائی جھگڑا عام ہو،بازاروں میں ملاوٹ شدہ اشیا بکتی ہوں، دفتروں میں رشوت اور سفارش کا دور دورہ ہو، منبر و محراب سے بھائی کو بھائی سے لڑایا جائے بلکہ حقیقی فساد یہ ہے کہ معاشرے میں برائی اچھائی پر حاکم ہوجائے، کمینہ ، شریف پر حکومت کرے، رشوت خور لوگوں کے مسائل نمٹائے اور  خائن شخص امین لوگوں کا سربراہ ہو۔حقیقی معنوں میں برائی اور برے لوگوں کی حکومت، فساد کی کامل ترین مصداق ہے۔

فساد کے علاج کو اصلاح کہا جاتا ہے اور جو اصلاح کرتا ہے اُسے مصلح کہتے ہیں۔جب کہیں پر یعنی کسی معاشرے میں فساد اس عروج پر پہنچ جائے کہ شرفا ، کمینوں کے ماتحت ہوں،ادارے رشوت خوروں کے ہاتھوں میں ہوں، بھرتیاں سفارش اور پرچی سے ہوتی ہوں، فیصلے دھونس اور دھاندلی سے ہوتے ہوں،سفر، صحت اور تعلیم کی سہولیات امیر و غریب کے لئے الگ الگ ہوں تو اس وقت اس معاشرے کی اصلاح اشیائے خوردونوش کی قیمتیں سستا کرنے سے نہیں ہو سکتی، اس وقت اصلاح چینی اور آٹے کے بہاو میں کمی سےنہیں ہو سکتی  بلکہ اس وقت اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ کرپٹ اور خائن لوگوں کو اقتدار سے الگ کیا جائے۔

اللہ نے انبیائے کرام کو مصلح قرار دیا ہے، اگر انبیائے کرام لوگوں کو صرف نمازیں پڑھنا اور اللہ ھو کی ضربیں لگانا سکھاتے رہتے تو  دنیا کے بادشاہ اُن کی مخالفت کیوں کرتے!؟

انبیائے کرام سے بادشاہوں کی مخالفت اسی وجہ سے تھی کہ انبیائے کرام معاشرے پر ظالموں، رشوت خوروں اور خائن لوگوں کی حکومت کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔

اپنے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے منافقین بھی اپنے آپ کو مصلحین کہتے ہیں، قرآن مجید کے بقول جب انہیں کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والوں میں سے ہیں۔

منافقین بھی ، عوامی حقوق، انسانی مساوات، عادلانہ حکومت اور اس طرح کے بڑے بڑے نعرے لگا کر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔معاشرے سے اس وقت تک فساد ختم نہیں ہو سکتا اور منافقین کے چنگل سے لوگوں کو نجات نہیں دلائی جا سکتی جب تک لوگوں کو  حقیقی معنوں میں سیاسی شعور نہ دیا جائے۔

لوگوں کو بیدار کئے بغیر آپ ہزار تقریریں کریں ، لاکھوں ریلیاں نکالیں اور انواع و اقسام کے جھنڈے تقسیم کریں لوگ پھر بھی آٹے کی ایک بوری اور مزدوری کی ایک دیہاڑی کے عوض ووٹ ڈال کر آجائیں گے۔

ملی بیداری اور شعور کے لئے ہم میں سے ہر شخص کو اپنی سیاسی فعالیت پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے ، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم سیاسی طور پر معاشرے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہماری ذات سے ہمارے ارد گرد رہنے والوں کو کیا سیاسی شعور مل رہاہے!؟

یاد رکھئے معاشرے میں بڑے بڑے نیک لوگ اور خدمتگار موجود ہوتے ہیں لیکن انہیں سیاسی شعور نہیں ہوتا، لوگوں کی خدمت کرنا ایک الگ بات ہے اور لوگوں کی سیاسی رہنمائی کرنا ایک دوسری چیز ہے۔

مثلا  ایک حجام، نائی ، موچی ، ترکھان، ٹیچر یہ سب مقدس لوگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ معاشرے کی خدمت کرتے ہیں، لوگوں کے لئے سڑکیں پکی کروا دینا، سٹریٹ لائٹس لگوا دینا ، ہسپتال بنوا دینا یہ سب قومی خدمت ہے اور جو بھی یہ خدمات انجام دیتا ہے وہ قومی خادم تو ہے لیکن مصلح نہیں۔

مصلح وہ ہے جو قوم کو بدترین حکمرانوں، اذیت ناک زندانوں، رشوت خور افیسروں اور کرپٹ لیڈروں سے نجات دلائے۔

گزشتہ سو سالوں میں مسلمانوں میں جومصلحین گزرے ہیں اُن میں ایک بڑا نام سید جمال الدین افغانی کا بھی ہے۔سید نے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے کئی ممالک کے سفر کئے اور و ہ عالمِ اسلام کی اصلاح کے لئے اس زمانے میں متعدد اسلامی ممالک کے گروہوں سے رابطے میں بھی تھے۔

سید جمال الدین افغانی کی تعلیمات و افکار کو اگر خلاصہ کیا جائے تو سید کے نزدیک مسلمانوں کو چار بڑے مسائل کا سامنا تھا:

۱۔ داخلی استبداد

۲۔ بیرونی استعمار

۳۔مسلمانوں کی بے خبری

۴۔ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت

داخلی استبداد سے مراد ملک کے اندر ظالم لوگوں کا حکمران بن جانا ہے، بیرونی استعمار کا مطلب بیرونی ممالک کا آبادکاری کے بہانے سے آکر وسائل و ذخائر پر قبضہ کر لینا ہے اور مسلمانوں کی بے خبری سے مراد مسلمانوں کو پتہ ہی نہ ہونا کہ ہم کس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور ہمارے ووٹ کی کیا قدر و قیمت ہے جبکہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت  یہ ہے کہ دوسرے کی سچی اور اچھی بات کو بھی اس لئے نظر انداز کردیا کہ اس کا تعلق ایک دوسرے فرقے سے ہے۔

یہ چاروں مسائل گزشتہ کئی سو سالوں سے عالم اسلام کو لاحق ہیں۔ تئیس مارچ ۱۹۴۰ تک  برصغیر کے مسلمان ان مسائل کو درک تو کر چکے تھے لیکن ان کے حل کے حوالے سے ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں تھا،تئیس مارچ ۱۹۴۰ کو پہلی مرتبہ مسلمانوں نے داخلی استبداد، بیرونی استعمار، باہمی بے خبری  اور آپس کی فرقہ واریت سے بالا تر ہوکر ایک آزاد وطن کا مطالبہ کیا تھا۔

آج خدا کا شکر ہے کہ وہ آزاد وطن حاصل کئے ہوئے ہمیں ستر سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ہم بدستور داخلی استبداد، بیرونی استعمار،باہمی  بے خبری اور فرقہ واریت میں جکڑے ہوئے ہیں۔

ہمیں سب سے پہلے داخلی استبداد کا مقابلہ کرنا ہوگا، جب امین اور دیانتدار لوگ منتخب ہونگے تو وہ خارجہ پالیسی بھی آزاد انہ طور پر تشکیل دیں گے ۔ لیکن ایسے لوگوں کا انتخاب تبھی ہو سکتا ہے جب ہم خود بھی بے خبری اور فرقہ واریت کی لعنت سے چھٹکارا پائیں اور دوسروں کو بھی اس کا شعور دیں ۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

nazarhaffi@gmail.com

وحدت نیوز(آرٹیکل) انحرافات آتے رہتے ہیں، یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں، عوام منحرف ہوجائیں تو خواص ان کی اصلاح کرتے ہیں، عوام کے منحرف ہونے سے نظریات اپنی جگہ  مستحکم رہتے ہیں، لیکن اگر خواص منحرف اور آلودہ ہو جائیں تو وہ نظریات کو بھی اپنی جگہ سے ہلانے اور بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے سامنے  پاکستان کی تاریخ موجود ہے، نظریاتی طور پر یہ ملک اس لئے بنایا گیا تھا کہ سارے مسلمان اس میں ملکر رہیں گے لیکن کچھ خواص نے  اپنے سے بلند منصب پر بیٹھے ہوئے خواص کی اطاعت کرنے کے لئے اس  ملک میں دیگر مکاتب کی تکفیر شروع کردی جس سے  بڑے پیمانے پر  بگاڑ پیدا ہوا اور عوامی  سطح پر خون خرابہ ہوا۔

معاشرے میں ظاہری طور پر حکمرانوں اور سرکاری شخصیات  کو سب سے بلند مقام حاصل ہوتا ہے، جب معاشرے میں کسی بلند منصب پر بیٹھے ہوئے افراد کثیف، آلودہ اور غلیظ ہو جاتے ہیں تو ان سے ٹپکنے والی غلاظت ، نشیب اور اطراف کو بھی غلیظ کرتی ہے۔ اس لئے خواص کا نحراف ، عوام کے انحراف کی نسبت بدترین اور   زیادہ نقصان دہ ہے۔

پاکستان میں نظریہ پاکستان کے ساتھ جتنا بھی ظلم ہوا، اور پاکستانیوں کو جس قدر بھی خاک و خون میں غلطاں کیا گیا اس کی ایک اہم وجہ پاکستان کے سیاسی و سرکاری  خواص کا  خود نظریہ پاکستان سے منحرف ہوجانا ہے۔

جب معاشرے کی بڑی سطح کے خواص امریکہ  کے مفادات کے لئے پاکستان کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئےتو اس کے اثرات نیچے عوام تک دیکھنے کو ملے اور  بعض دینی و مذہبی  درسگاہیں  اور سکول وکالج بھی اس در آمد شدہ نام نہاد جہاد اور شدت پسندی  کی لپیٹ میں آئے۔

جس طرح ایک انسان میں حواس خمسہ  ہوتے ہیں اور اُس کی متفاوت  حِسیں ہوتی ہیں، اگر انسان کے حواس خمسہ کام کرنا چھوڑ دیں تو اس کے لئے  یہ خوبصورت اور دلکش زندگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے گی۔بالکل اسی طرح ایک معاشرے کی بھی مختلف حِسیں  ہوتی ہیں،جیسے فنون لطیفہ، شعرو شاعری، مصوّری، موسیقی ۔۔۔ ان حِسوں میں سے ایک حِس ہے برائی کے خلاف ردِّ عمل دکھانا۔

جب کسی معاشرے کے خواص کثیف اور آلود ہوجاتے ہیں تو وہ معاشرہ مریض ہو جاتا ہے اور اس وقت اُسے برائی کے خلاف بے حسی کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔  جب برائی کے خلاف ردّعمل ختم ہوجاتا ہے تو لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں رہتی کہ معاشرے کے سب سے بلند منصب پر کیسا شخص بیٹھا ہوا ہے!؟

لوگ فقط کھاتے پیتے ہیں، افزائش نسل کرتے ہیں اور مرجاتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کی گردن میں کس کی غلامی کی زنجیر پڑی ہوئی ہے، ان کی محنت کا ثمر کون کھا رہا ہے، وہ کس کی دست بوسی کر رہے ہیں اور کس کے ساتھ تصاویر بنوا کر فخر محسوس کر رہے ہیں، ان کی آئندہ نسلیں کس کی غلامی میں جئیں گی اور ان کے ملک کا مستقبل کیا ہوگا!؟

جب معاشرہ برائی کے مقابلے میں بے حس ہوجاتا ہے، سچ اور جھوٹ کے معرکے میں غیرجانبدار ہوجاتا ہے، اچھے اور برے کی تمیز نہیں کرتا ، کھرے اور کھوٹے میں فرق نہیں کرتا تو پھر وہ آٹے کی ایک بوری اور چند ڈالروں کے گرد گھومنے لگتا ہے، پیٹ بھرنے کے لئے بھائی بھائی کا گلا کاٹتا ہے، مسلمان مسلمان کی تکفیر کرتا ہے اور اسلامی ریاست میں پر امن غیر مسلموں کی عبادت گاہیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں۔

یہ معاشرتی انحطاط، اخلاقی زوال، باہمی نفرتیں اور انسانوں کے درمیان فاصلے در اصل معاشرے کے سب سے بلند منصب پر غیر صالح اور مفسد لوگوں کے بیٹھنے کی وجہ سے ہیں۔

ہر دفعہ الیکشن  آتا ہے، ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، یہ لوگوں کو  برائیوں کے خلاف بیدار کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے،اس موقع پر عوام میں برائیوں کے خلاف ردّعمل کی حس کو بیدار کیا جانا چاہیے، لوگوں کو یہ راستہ نہ دکھایاجائے کہ دو بروں میں سے کم برے کا انتخاب کریں بلکہ لوگوں کے سامنے اچھے ، متقی اور صالح افراد کو   انتخاب کے لئے  پیش کیاجانا چاہیے۔

یہ ہمارے دانشمندوں خصوصاً، وکلا، اساتذہ اور میڈیا پرسنز کی اوّلین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ  درپیش سیاسی انتخابات میں عوام کی درست رہنمائی کریں اور اہلیانِ پاکستان کو نظریہ پاکستان کے مطابق امیدواروں کے انتخاب کا شعور دیں۔

جب ہم عوام کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد مرد و خواتین دونوں ہوتے ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں ایک خاتون کسی بھی طور پر  معاشرتی امور سے  غافل یا لا تعلق نہیں رہ سکتی۔خواتین کے لئے دینِ اسلام میں حضرت فاطمہ الزہراؑ اور حضرت زینبؑ بنت علیؑ نمونہ عمل ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ معاشرے میں فتنہ و فساد عروج پر ہو اور مسلمان خواتین اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہ کریں اور معاشرے کے اعلی ترین منصب پر بے اصول اور بے دین لوگ براجمان ہوں اور مسلمان خواتین اُن کے خلاف جدوجہد نہ کریں۔

لہذا پاکستان میں  انتخابات  کے موقع پر برائیوں کے خلاف  ردّ عمل دکھانے میں اور کرپٹ خواص کو دیوار کے ساتھ لگانے میں  خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

معاشرہ اس وقت برائیوں کے خلاف بے حس ہوجاتا ہے جب کرپٹ خواص  مختلف بہانوں  سےلوگوں کو بے وقوف  بنا لیتے ہیں،  اور اپنے کالے کرتوتوں پر لوگوں کو خاموش اور بے حِس  رہنے پر قانع کر لیتے ہیں۔

ہم کب تک بے وقوف بنتے رہیں گے!اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیاہم اپنی آئندہ نسلوں کو انہی کرپٹ خواص کی غلامی میں دیں گے  یا پھر ان کے خلاف جدجہد میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

nazarhaffi@gmail.com

وحدت نیوز (آرٹیکل) بیداری ایک مسلسل عمل کا نام ہے، افراد کی بیداری سے اقوام بیدار ہوتی ہیں، اور اقوام کی بیداری ممالک و معاشروں کی بیداری کا باعث بنتی ہے، جس طرح نیند اور غفلت میں ایک نشہ اور مستی ہے اسی طرح بیداری میں بھی ایک لذّت، طراوت اور شگفتگی ہے۔

اگر ہم انتخابات کے ذریعے اپنے ملک میں بیداری اور تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں گام بہ گام تمام شعبہ ہای زندگی میں بیداری کے ساتھ درست انتخاب کی عادت ڈالنی ہوگی۔ہمیں عملی طور پر اپنا آئیڈیل، رول ماڈل اور نمونہ عمل رسولِ اعظمﷺ کی ذاتِ گرامی کو بنانا ہوگا۔

پیغمبرِ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں کی طرح سیاسی زندگی میں بھی بطورِ رہبر ہماری رہنمائی کی ہے۔ آپ نے مسلمانوں کے درمیان ایک مکمل اور بھرپور سیاسی زندگی گزار کر ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے سیاستدانوں کو کیسا ہونا چاہیے۔

مدینے سے ہجرت کے دوران جب آپ ﷺ قبا کے مقام پر کچھ دن کے لئے ٹھہرے تو یثرب سے لوگ جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے آتے تھے، آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر اور مسلمان ہوکر پلٹتے تھے، بلاشبہ تلواریں توفقط  شر سے دفاع اور احتمالی ضرر سے بچاو کے لئے تھیں چونکہ لوگ تو آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر  دیوانہ وار کلمہ پڑھتے جارہے تھے۔

مورخ کو یہ لکھنے میں قطعا کسی قسم کی تردید نہیں کہ مدینہ پیغمبرِ اسلام کے اخلاق کی وجہ سے مفتوح ہوا، آج جب ہم کسی کو اپنا سیاسی لیڈر یا رہنما  منتخب کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے اخلاق اور عادات و اطورا کے بارے میں بھی جانیں۔

مدینے میں جب رسولِ گرامی ﷺ کی سواری داخل ہوئی تو ہر طرف ایک جشن کا سماں تھا، کبھی کسی قبیلے کا رئیس آپ کی اونٹنی کی لگام تھام لیتا تھا کہ ہمارے ہاں تشریف رکھئے ، کبھی کسی گروہ کا کوئی معزز فرد آپؐ کی اونٹنی کی باگ تھام کر اپنے گھر میں ٹھہرنے کی التجا کرتا تھا، کبھی کوئی بڑا تاجر آگے بڑھ کر دستِ ادب دراز کر کے شرفِ میزبانی حاصل کرنے کی اپیل کرتا تھا اور کبھی کسی محلے کا کوئی بزرگ آپ کے نعلین مقدس کو چوم کر اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دیتا تھا،  لیکن آپ نے سب سے یہی کہا کہ میری اونٹنی کو چلنے دیجئے یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ، یہ جہاں خود ٹھہرے گی میں وہیں قیام کروں گا۔

دیکھتے ہی دیکھتے یہ اونٹنی نہ کسی سردار کے گھر ٹھہری، نہ کسی وڈیرےکےہاں اس نے ڈیرہ ڈالا ، نہ کسی بزرگ کے ہاں اس نے زانو ٹیکے بلکہ مدینے کے ایک عام شخص حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔

حضرت ابوایوب انصاری کے گھر میں قیام میں اہلِ اسلام کے لئے یہ پیغام تھا کہ رسولِ اسلام کے تعلقات کسی کے ساتھ کسی کی خاندانی  شرافت و منزلت، قبائلی جاہ و حشمت اور خاندانی مال و ثروت کی بناپر نہیں ہونگے بلکہ ایک عام مسلمان بھی رسولِ اکرم کے نزدیک اتناہی محترم تھا جتنے کہ قبائل کے  امرا و سردار تھے۔

یہ اسوہ حسنہ ہے آج پاکستان کی ملتِ اسلامیہ کے لئے کہ ہم اپنے ملک میں سیاسی رہبر ی و قیادت کے لئے ایسے لوگوں کو منتخب کریں کہ  جن کے نزدیک امرا اوفقرا کی کوئی تمیز نہ ہو۔

اور ہاں! سیرت النبیﷺ اس بات پر شاہد ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ ، غربا، فقرا اور مساکین پر زیادہ توجہ دیتے تھے تاکہ زمانہ جاہلیت میں  ان کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئی ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکے۔

حضرت ابو ایوب انصاری ؓکے گھر کے سامنے  کچھ زمین خالی پڑی ہوئی تھی، اس کے مالک دو یتیم بچے تھے، نبی اکرمﷺ نے مسجد کے لئے وہ زمین اپنی جیب سے خریدی اور اس پر مسجد تعمیر کرنے کے کام میں صحابہ کرام کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا اور اپنا پسینہ بہایا۔

آج کل ہمارے ہاں ہمارے لیڈر شجر کاری مہم کے افتتاح کے لئے زمین پر ایک ضرب لگاکر لاکھوں تصویریں بنواتے ہیں اور اگر کسی غریب فقیر کی مدد کر دیں تو اخبارات و جرائد ان کے بیانات سے بھر جاتے ہیں۔ جبکہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کی زمین اپنی جیب سے خرید کر اور مسجد کی تعمیر میں مزدوروں کی طرح کام کر کے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اسلامی معاشرے کا لیڈر وہ ہو جو دینی امور کے نام پر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنی جیب سے خرچ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور دین کے کاموں میں عملاً مشقت میں کوئی عار محسوس نہ کرتا ہو۔

جب تک ہمارے لیڈر بیت المال کو چوسنے کے بجائے اپنی جیب سے خرچ کرنے اور عوام کے ساتھ برابر مشقت اٹھانے  کی عادت نہیں اپنائیں گے اس وقت تک معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔

جب مسجد کے لئے موذن کے انتخاب کا وقت آیا تو سروروعالمﷺ نے بڑے بڑے رئیس زادوں، آقا زادوں، تاجروں، مالداروں، مہاجروں، انصار اور نامی و گرامی شخصیات کے ہوتے ہوئےحبش کے ایک سیاہ رنگ کے شخص کا انتخاب کیا جس کی زبان میں بھی لکنت تھی۔

حضرت بلال حبشیؓ کو بطور موذن منتخب کر کے آپ نے ہمارے لئے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ دینِ اسلام میں کسی کی ظاہری خوبصورتی، رنگ و نسل، قوم و قبیلے، برادری اور علاقے نیز ملک و خطے کی کوئی اہمیت نہیں دینِ اسلام میں ایمان، تقویٰ اور اسلام پر عمل ہی اصل میزان ہے۔

پاکستان میں حقیقی تبدیلی کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ ہم سیرت النبیﷺ سے انتخاب کا طریقہ سیکھیں اور انتخابات میں عشقِ رسولﷺ کا مظاہر کریں۔

اگر ہم نعرے تو عشقِ رسولﷺ کے لگاتے رہیں اور ووٹ بدمعاشوں اور شرابیوں کو دیتے رہیں تو اس سےہمارا اعمال نامہ بھی اور  ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا۔

کتنے بدقسمت ہیں ہم لوگ کہ جو سیرت النبیﷺ کے ہوتے ہوئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

nazarhaffi@gmail.com

وحدت نیوز (آرٹیکل) لوگ ہنستے رہتے ہیں، بعض تالیاں بھی بجاتے ہیں اور بعض واہ واہ اور سبحان اللہ بھی کہتے ہیں، شیخ رشید جب بلاول بھٹو کو ایک فلمی اداکارہ سے تشبیہ دیتے ہیں تو لوگ  ہنستے ہیں، عمران خان جب آزاد کشمیر کے  وزیراعظم  کو زلیل اور گھٹیا انسان کہتے ہیں  تو لوگ تالیاں بجاتے ہیں اور پیر طریقت  خادم رضوی جب  ڈاکٹر طاہرالقادری سمیت دوسروں کے بارے میں  نازیبا  زبان استعمال کرتے ہیں تو  مجمع واہ واہ اور سبحان اللہ کہتا ہے،مسلمانوں کے دینی  مدرسوں میں دہشت گردوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے  تو لوگ آنکھیں موندھ لیتے ہیں، مشال خان کو یونیورسٹی میں قتل کیا جاتا ہے تو عوام قاتلوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ایک فرقے کے اجتماع میں دوسرے فرقے کے خلاف  کافر کافر کے نعرے لگائے جاتے ہیں تو   لوگ اچھل اچھل کر نعروں کے جواب دیتے ہیں، یہ سب کچھ ظاہر کر رہا ہے کہ  ہمارے  اجتماعی اورسماجی و  سیاسی کلچر کو اب  اسی سمت لے جایا جارہا ہے۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ دشمن طاقتیں ایکدم تو پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کو دینِ اسلام سے بیزار اور متنفر نہیں کر سکتیں لہذا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے لوگوں سے غیر ت ایمانی کے خاتمے اور حرام کاموں سے نفرت کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے۔

لوگ جب اپنے سیاستدانوں کی زبان سے نازیبا الفاظ سنتے ہیں تو انہیں اپنی روزمرّہ زندگی میں بھی نازیبا الفاظ کے استعمال میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی اور اسی طرح جب ٹیلی ویژن پر فحاشی دیکھتے ہیں تو عام زندگی حتیٰ کہ اپنے گھرانوں اور شادی بیاہ کی محفلوں میں بھی بے حجابی اور عریانیت سے کراہت محسوس نہیں کرتے۔

آج ایک دم سے لوگوں کا فر نہیں کیا جا سکتا اور حرام کو حلال نہیں کہاجاسکتا لہذا بتدریج لوگوں کے دلوں سے کفر اور حرام کی نفرت کو کم کیا جارہا ہے۔

آج لوگوں کو جہاد سے بیزار کرنے کے لئے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما دئیے گئے ہیں  اور کفر جیسے لفظ کے وزن کو ختم کرنے کے لئے مشال جیسے بے گناہ طالب علم کو قتل کروا دیا گیا ہے۔

اسلامی تعلیمات کےمطابق بے حیائی صرف  ٹیلی ویژن پر گانے بجنے اور بے حجاب عورتوں کو دیکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ گالیاں دینے والے،  بداخلاق، شرابی اور بدمعاشوں کا مسلمانوں سے اقتدار کے لئے ووٹ مانگنا بھی سراسر بے حیائی اور فحاشی ہی ہے۔

ہمارے معاشرے کو بداخلاق، بدزبان اور بے حیا لیڈروں کے بجائے شریف ، نیک اور متقی سیاستدانوں کی ضرورت ہے، آج معاشرے میں تو ہر طرف، ظلم، فساد ، بے عدالتی، ذخیرہ اندوزی ، گراں فروشی  اور ملاوٹ کا دور دورہ ہے ایسے میں اگر ہم لوگ دبک کر گھروں میں بیٹھ جائیں اور یہ کہیں کہ ہم تو شرفا کی زندگی گزار رہے ہیں تو در اصل یہ شرفا کی زندگی نہیں بلکہ بزدلوں کا جینا ہے۔

شرفا کی زندگی یہ ہے کہ معاشرے میں شرافت کا اقتدار ہو ، ہر کسی کے ساتھ عدل و انصاف ہو ، لوگوں کو مفت تعلیم ، انصاف اور صحت کی سہولیات نصیب ہوں، بیت المال سے غربا کی کفالت کی جائے، ملک سے بے روزگاری اور ملاوٹ کا خاتمہ ہو ، نوکریوں میں سفارش اور رشوت کے بجائے میرٹ کا بول بالا ہو۔۔۔

یہ سب آج بھی ممکن ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم لوگ تہِ دل سے پیغمبراسلامﷺ  کو اپنے لئے سیاست میں بھی نمونہ عمل تسلیم کریں اور ہمارے دانشور اور مفکرین ، دیندار اور متقی لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

پیغمبرِ اسلام ﷺ کی زندگی اور سیرت اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے پتھر کھا کر، توہین اور اہانت برداشت کر کے، ہجرت کر کے، اپنے جلیل القدر اصحاب کی قربانیاں دے کر ، اپنے مقدس دانت شہید کروا کر، اپنے زمانے کے مظلومین، دبے ہوئے اور کمتر سمجھے جانے والے لوگوں کو پستی سے نکال کر شریکِ اقتدار کیا۔

آپ نے مظلومین اور محکومین اور غلاموں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کر کے انہیں اتنا مضبوط کیا کہ آپ نے ان مظلوموں کے ذریعے معاشرے پر حاکم وڈیروں، قبائلی سرداروں اور گناہ و زنا کے رسیا لوگوں کی طاقت کا طلسم توڑ ڈالا۔

جب سرورِ دوعالمﷺ نے سیاسی تبدیلی کی جدوجہد شروع کی تو آپ کے مقابلے میں جہاں عرب کے متکبر، عیاش اور اوباش بادشاہ اور سردار تھے وہیں ایران اور روم کے بدمعاش بادشاہ بھی تھے۔

آپ نے گالیوں کا جواب گالیوں اور پتھروں کا جواب پتھروں سے نہیں دیا بلکہ اپنے حسنِ اخلاق سے ، بد زبانی، بدکرداری اور بد اخلاقی پر خطِ بطلان کھینچ دیا۔

خودپیغمبر اسلام کا ارشاد ہے :  إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق

مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا ہے، اسی طرح قرآن مجید نے آپ ﷺ کے بارےمیں فرمایا ہے :

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ. ''اور بے شک آپ عظیم الشان خلق کے مرتبے  پر قائم ہیں،

یہ کیسے ممکن ہے کہ جس پیغمبرﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے اعلی ترین مقصد مکارم اخلاق کی تعمیل ہو اور جس پیغمبرﷺ کو خود قرآن خلق عظیم پر فائز قرار دے ، اس پیغمبر کی امت سے اقتدار کے لئے بدزبان، بدترین، اور بدمعاش لوگ منتخب کئے جائیں۔

آج ہمیں اپنی تمام تر عبادی و سیاسی و اقتصادی زندگی میں  اپنے نبی ﷺ کو نمونہ عمل بنانے کی ضرورت ہے، جب پیغمر اسلام نے جہالت قدیم کے عہد میں مستضعفین ، مظلومین اور محکومین کی نجات کے لئے اسلام کا پرچم بلند کیا تھا تو ہر طرف سے فتنوں نے لوگوں کو گھیر رکھا تھا، مادہ پرستی، شراب و کباب، راگ و موسیقی، شہوت رانی، دست درازی اور زنا جیسی سماجی و اخلاقی برائیاں لوگوں میں رچ بس چکی تھیں، بلا روک و ٹوک  قبائلی سرداروں اور مالداروں کے ہاتھ غریبوں کی عزت و آبرو پر پڑتے تھے، شعرو شاعری میں عورتوں کو بطور جنس استعمال کیا جاتا تھا اور یہ صورتحال صرف عرب دنیا تک محدود نہیں تھی بلکہ  روم و ایران جیسی متمدن اور مہذب کہلاوانے والی اقوام میں بھی یہی کچھ ہو رہا تھا، ایسے میں  معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے ہمارے نبیؐ نے  جن مشکلات   کا سامنا کیا ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

 آپ نے اس معاشرے میں جہاں جاہلانہ رسوم و رواج کو بہادری اور عقلمندی کہا جاتاتھا ، آپ نے وہاں پر اپنے آپ کو صادق اور امین کہلوایا، آپ نے کفر اور ضلالت اور ظلم و جہالت کے درمیان اسلامی سیاست و حکومت ، اسلامی اقتصاد ، اسلامی نظام عدل اور اسلامی  فوج کو قائم کیا ، آپ نے مشرق و مغرب  کی مخالفت مول لے کر بڑے بڑے بادشاہوں کو اسلام کے قبول  کرنے کی دعوت دی ۔آج جہالت جدید کے عہد میں بھی ہمارے ہاں پاکستان میں بھی  اور پوری دنیا میں ایک مرتبہ پھر وہی کچھ دہرا یا جا رہا ہے ۔

اس سماجی ابتری، معاشی ناانصافی، قبائلی مظالم، دینی اجارہ داری اور موروثی سیاست کے مقابلے کے لئے ہمارے پاس صرف ایک ہی راہ ِ حل ہے کہ ہم ان بدترین حالات میں صرف اور صرف  اپنی نبیﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں اور صرف انہیں لوگوں کو ووٹ دیں جن کا کردار اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ وہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے نقشِ قدم  اور اسوہ حسنہ پر چلنے اور عمل کرنے والے ہیں۔

متوقع الیکشن میں سیاسی بیداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ووٹ کے ساتھ یہ ثابت کریں کہ  ختم النبیین ﷺ ہی ہمارے لئے  اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل ہیں۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

nazarhaffi@gmail.com

Page 7 of 21

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree