وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کے دشمن متحد ہیں، ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، ہندوستان اور افغانستان نے بھی اپنا منہ کھول رکھا ہے، اسرائیل پر تول رہا ہے لیکن اس وقت اصلی جنگ معاشی جنگ ہے۔ معاشی جنگ کو جاری رکھنے کے لئے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کا احترام نہ کرنے والے ممالک کو امداد نہیں ملے گی ،قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کی بے انتہا قربانیوں کے باوجود امریکہ پاکستان کو اپنا تابعدار ملک نہیں سمجھتا۔ انہوں نے تقریر میں یہ بھی کہا کہ چین سے تجارت میں عدم توازن برداشت نہیں کریں گے، انہوں نے کھلے لفظوں میں اسرائیل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جرائم کی عالمی عدالت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
یاد رکھیئے کہ امریکا کسی بھی عالمی عدالت کی حیثیت کا قائل نہیں ۔ امریکی تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں صرف دو مرتبہ ایٹم بم داغا گیا ہے اور وہ بھی امریکہ نے ہی داغا ہے ، ایک مرتبہ ہیرو شیما پر اور دوسری دفعہ ناگا ساکی پر۔
ہولوکاسٹ پر واویلا مچانے والے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں لاکھوں انسانوں کے بھسم ہوجانے پر خاموش ہیں چونکہ ان کی رگِ اقتصاد امریکہ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کے علاوہ ۱۹۵۵ سے ۱۹۷۵ تک امریکہ نے ویتنام میں قتلِ عام کیا، اس قتلِ عام میں تیس لاکھ سے زیادہ سول لوگ مارےگئے اور ان سول لوگوں کومارنے کے لئے کیمیائی ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا جس کی کسی عدالت میں باز پرس نہیں ہوئی۔ امریکہ نے سالانہ پچاس ہزار بمب ویتنام میں گرائے لیکن کسی عالمی ادارے نے امریکہ کا راستہ نہیں روکا۔
امریکہ نے ستمبر ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۴ تک افغانستان پر جنگ مسلط کئے رکھی، اس جنگ میں لاکھوں افغانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، انہیں ہجرت پر مجبور کیا گیا اور ان کی خواتین کی عصمت دری کی گئی۔نہتے افغانیوں کے خلاف امریکہ نے جدید ترین ہتھیار استعمال کئے لیکن عالمی برادری نے امریکی جارحیت کو رکوانے کے لئےکوئی کردار ادا نہیں کیا۔وجہ پھر یہ تھی کہ دنیا کا اقتصاد ڈالر کے گرد گھوم رہا تھا۔
۲۰ مارچ ۲۰۰۳ سے ۲۰۱۰ تک امریکہ نے عراق پر حملہ کیا، ان سات سالوں میں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں متاثر ہوئی اور عراق کی سڑکیں اور پل کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے لیکن ایک مرتبہ پھر عالمی برادری امریکی ڈالر کی بھیک ملنے کی وجہ سے چپ سادھے رہی۔
امریکی مزاج کو سمجھنے کے لئے یہ چند تاریخی نمونے ہم نے آپ کے سامنے رکھے ہیں۔امریکی مزاج کو سمجھئے، امریکہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور کسی قانون یا عدالت کا پابند نہیں۔
امریکہ نے پاکستان پر جو معاشی جنگ مسلط کر رکھی ہے ،اس کی وجہ سے سی پیک امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بہاتا اور پاکستان کو عسکری دباو میں رکھنے کے لئے جہاں ایک طرف سے بھارت اور افغانستان سے دھمکیاں دلوائی جارہی ہیں وہیں دوسری طرف سےافغانستان میں داعش کو بھی لاکر آباد کیا جا رہا ہے۔نیز اب معاشی طور پر پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی دھمکی بھی دی جارہی ہے۔
اس سلسلے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) کا اعلیٰ سطح کا وفد اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کرے گا، عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی ، مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوگا نیز ملکی معیشت پر شدیدمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اب جبکہ پاکستان شدید معاشی جنگ سے گزر رہا ہے تو پاکستان کی تاجر برادری کو چاہیے کہ وہ میدان میں آئے اور اس معاشی جنگ کا جواب دے۔ ہر محاز پر اس محاز کے مجاہد ہی لڑا کرتے ہیں۔ معاشی محاز پر ہمارے ماہرین معاشیات، تاجروں، ٹریڈ یونینز ، تجارت سے مربوط انجمنوں اور تنظیموں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقتصادی میدان میں امریکی جنگ اور جارحیت کا دندان شکن جواب دیں۔
ہمارے وزیرِ خزانہ، تاجروں اور عوام کو مشترکہ اور انفرادی طور پر امریکی مصنوعات اور ڈالر کا بائیکاٹ کرنا چاہیے ۔ تاجر برادری کو یقین کرنا چاہیے کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے اور ہر غیرت مند پاکستانی اس میدان میں اپنی تاجر برادری کے ہم قدم ہے۔
اگر ہم تجارت کے میدان میں امریکہ کا بائیکاٹ کردیں تو بھارت ، افغانستان اور داعش سمیت تمام خطرات خود بخود ٹل جائیں گے چونکہ یہ سب امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔
تجارت کا محاز ایک اہم محاز ہے، ہمیں اسے خالی نہیں چھوڑنا چاہیے، ہماری میڈیا، خطبا، علمائے کرام ، کالم نگار وں اور دیگر دانشمند طبقات سے گزارش ہے کہ وہ تاجر برادری سے رابطے کریں اور اپنی زبان و قلم کے ذریعے تاجر برادری کو امریکہ کے خلاف صف آرا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر ہم سب امریکہ کے مقابلے میں ایک ہو جائیں تو جہاں امریکی ڈالر کی کمر ٹوٹے گی وہیں اقتصاد اور خوشحالی کے نئے دروازے بھی کھلیں گے۔
ہم اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں، پاکستان کے دشمن متحد ہیں، ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، ہندوستان اور افغانستان نے بھی اپنا منہ کھول رکھا ہے، اسرائیل بھی پر تول رہا ہے لیکن اس وقت اصلی جنگ معاشی جنگ ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
وحدت نیوز(آرٹیکل) نبوت ختم ہوگئی، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں، آپ عالمین کے آخری نبی اور اسلام تمام زمانوں کے لئے آخری دین ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ کے وصال کے بعد دینِ اسلام کی حفاظت اور تبلیغ کے لئے مسلمانوں کے ہاں بارہ اماموں کا نظریہ پایا جاتا ہے۔ صحیح بخاری،صحیح تر مذی،صحیح مسلم ،صحیح ابی داؤد اور مسند احمد وغیرہ میں ایسی احادیث موجود ہیں جو نبوت کے بعد خلافت و امامت کے وجود پر دلالت کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر،اہل سنت کی مشہور ترین کتاب صحیح بخاری میں اس سلسلے میں یوں آیا ہے کہ ”جابر بن سمرة“کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فر مایا:
”یکون اثنا عشرامیراً۔فقال کلمة لم اسمعھا فقال ابی انہ قال۔کلھم من قریش۔“ (صحیح بخاری ،ج۹،کتاب الامقام،ص۱۰۰)
”میرے بعد بارہ امیر ہوں گے۔اس کے بعد ایک جملہ فر مایا کہ میں سن نہ سکا ۔میرے والدنے مجھے کہا کہ پیغمبر نے فر مایا تھا :”وہ سب قریش میں سے ہیں “
نبوت کے بعد امامت کا تصور ختمِ نبوت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے اور یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ کذاب اور جھوٹا ہے۔
نظریہ امامت پر سارا جہانِ اسلام متفق ہے اور یہ امامت کی تفصیل ہے کہ امام کو کیسا ہونا چاہیے؟ امام کا انتخاب کیسے ہوگا؟ امام معصوم ہوگا یا غیر معصوم وغیرہ وغیرہ۔۔۔
جہانِ اسلام کے معروف ترین اور مقبول ترین آئمہؑ میں سے ایک حسین ابن علیؑ ہیں۔ آپ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی آپ سے عشق و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ سے عشق و عقیدت رکھنے والے جانتے ہیں کہ ۶۱ ھ میں دینِ اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر عائد ہوئی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام ، دینِ ملوکیت بن چکا تھا، دینِ بادشاہت بن چکا تھا، ملوکیت و بادشاہت کسے کہتے ہیں عصرِ حاضر میں اس کا نپا تلا جواب آپ کو خصوصی طور پر مولانا مودودی ؒ اور یاپھر شیخ الحدیث ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملے گا۔
حسین ابن علیؑ نے اکسٹھ ھجری میں دینِ اسلام کی اصلی تعلیمات کی حفاظت کے لئے اپنی ذمہ داری کو اداکیا، اگر اس وقت حضرت امام حسینؑ کی جگہ خود پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ بھی ہوتے تو وہ وہی کچھ کرتے جو حسینؑ ابن علی نے کیا ہے اور یزید ابن معاویہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ بھی وہی کچھ کرتا جو اس نے حسین ابن علیؑ کے ساتھ کیا ہے۔ چونکہ نبی اکرم ﷺ بھی اگر چہ تنِ تنہا رہ جاتے لیکن وہ ہر گز کسی کو یہ اجازت نہ دیتے کہ وہ دینِ اسلام کو ملوکیت و بادشاہت میں تبدیل کرےاور یزید کبھی دینِ اسلام کو ملوکیت میں تبدیل کئے بغیر چین سے نہ بیٹھتا۔
حضرت امام حسینؑ نے ملوکیت سے ہیبت زدہ ایک ایسی فضا میں قیام کیا کہ جہاں لوگ ملوکیت کو باطل سمجھتے ہوئے بھی اس کے خلاف آواز بلند کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔
دوسری طرف امام حسینؑ یہ جانتے تھے کہ اگر اس وقت دینِ اسلام کی حقیقی شکل اور تعلیمات کی حفاظت نہ کی گئی تو عالمِ بشریت ظہورِ اسلام سے پہلے والے زمانے یعنی زمانہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائے گا، اسلامی قوانین لغو ہوجائیں گے اور اولاد آدم بھٹکتی پھرے گی ۔ چنانچہ آپ نے ہر قیمت پر دینِ اسلام کو بچانے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کی وجہ سے آپ کو اور آپ کے اعوان و انصار کو تہہ تیغ ہونا پڑا لیکن اسلام کی تعلیمات ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئیں۔ جب آپ کی شہادت اور قربانی کی خبر جہانِ اسلام میں پھیلی تو لوگ نفسیاتی طور پر اس سے شدید متاثر ہوئے ۔ آپ کے قیام کی سب سے پہلی تاثیر یہ سامنے آئی کہ لوگوں کے اندر سے موت کا خوف ختم ہوگیا اور لوگ باطل کو باطل اور غلط کو غلط کہنا شروع ہوگئے جس کی وجہ سے جہانِ اسلام کے اطراف و کنار میں مختلف قیام سامنے آئے۔
اس قیام ، قربانی اور شہادت کی دوسری تاثیر یہ سامنے آئی کہ لوگوں نے اہلبیت ؑ سے عشق و محبت کا اظہار دوبارہ سے شروع کردیا اور یوں جگہ جگہ جہاں پر امام حسینؑ کی قربانی کا ذکر ہوتا وہیں دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی تبلیغ بھی ہوتی اور یزید نے دینِ اسلام میں جوانحرافات ایجاد کئے تھے ان کا بھی ذکر ہوتا۔
ہم ناصبیوں کی بات نہیں کرتے ، ناصبیوں کے علاوہ مجموعی طور پرمسلمانوں نے دو طرح سے اس قربانی کو دیکھا ، کچھ نے اس قربانی سے ہمدردی ، عشق اور درد کا رشتہ قائم کیا اور کچھ نے اس سے ہمدردی ، عشق اور درد کے ساتھ ساتھ تعلیم اور درس کا ناطہ بھی جوڑا۔
بالکل ایسے ہی جیسے اگر پانچ بچوں کا باپ فوت ہوجائے تو ان میں سے ہر ایک کا رد عمل مختلف ہوتا ہے، کوئی مہمانوں اور تعزیت کے لئے آنے والوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، فاتحہ پڑھتا ہے، اپنے باپ کی باتیں دہراتا اور مہمانوں کو سناتا ہے، دوسرا صرف روتا اور پیٹتا ہے، تیسرا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے، چوتھے کی نیند ختم ہوجاتی ہے اور پانچواں قبرستان میں جا کر قرآن خوانی کرتا رہتا ہے۔ یہ پانچوں اپنی اپنی طرز پر اور اپنی اپنی نفسیات کے مطابق اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلا ں مرحوم کا زیادہ سگا بیٹا ہے اور فلاں کو زیادہ غم ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سبھی کو غم ہے اور سبھی مرحوم کے حقیقی بیٹے ہیں۔
اسی طرح امام حسینؑ بھی تمام علام اسلام کے رہبر و رہنما اور محسن ہیں اور سارے مسلمان ، آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ کی شہادت کے موقع پر اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، جذبات کا یہ اظہار مختلف نوعیت کا ہوتا ہے ، کسی کی مظلومانہ شہادت پر جذبات کا اظہار ایک فطری امر ہے۔
فطری امر ہونے کی وجہ سے غیر مسلم بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں اور یوں پوری دنیا مل کر حسین ابن علی ؑ کو سلام پیش کرتی ہے۔دنیا کا ہر منصف مزاج انسان یہ سمجھتا ہے کہ آج اگر دنیا میں اسلام کی تعلیمات اور نام و نشان باقی ہے تو یہ امام حسینؑ کی قربانی کا نتیجہ ہے۔
بقول شاعر
ڈوب کر پار اتر گیا اسلام
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے
(یگانہ)
تحریر:نذر حافی
وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مدتوں بعد تحریک انصاف کو پاکستان کی تقدیر سنوارنے کا موقع ملا ہے، ہمسایہ ممالک کے علاوہ عالمی برادری بھی پاکستان کے بدلتے حالات پر نظریں لگائے ہوئے ہے۔گویا پاکستان دنیا میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور آج اس وقت امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ، امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ کے ہمراہ پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
امریکی وزیرخارجہ کے دورہ پاکستان سے پہلے امریکہ نے پاکستان پر اپنا سفارتی اور اقتصادی دباو بہت زیادہ بڑھا دیا تھا، شاید اس دباو کے بڑھانے کا مقصد اس دورے کو کامیاب کروانا تھا۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی دورے کی کامیابی کا انحصار ایجنڈے پر عملدرآمد پر ہوتا ہے، یوں تو پاکستان کئی دہائیوں سے امریکی ایجنڈے پر عملدرآمد کرتا چلا آرہا ہے لیکن اس مرتبہ شاید امریکہ ہمیشہ کی طرح اپنے مقاصد مکمل سو فیصد حاصل نہ کرپائے۔
امریکی ایجنڈے کی عدم تکمیل کی ایک وجہ عوام میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت کا پایا جانا بھی ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی لوگ امریکہ سے نفرت کرتے تھے لیکن اس مرتبہ عوام کے اندر خاصا اعتماد پایا جاتا ہے، اس اعتماد کی ایک وجہ پاکستان میں موروثی سیاست کا خاتمہ اور ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کی بندش بھی ہے۔ عوام کو اب یہ احساس ہورہا ہے کہ ہم بھی بحیثیت قوم ایک وزن اور حیثیت رکھتے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ کا تندوتیز لہجہ اور بھارت کی طرف نمایاں جھکاو بھی اس مرتبہ تعلقات کو سنوارنے اور آگے بڑھانے میں آڑے آئے گا۔
امریکہ نے اس منطقے میں بھارت کو پاکستان پر ترجیح دینے کے لئے گزشتہ چند سالوں میں طالبان کا کنٹرول بھارت کے ہاتھوں میں دیدیا ہے۔اب طالبان یعنی مجاہد بھائی جان بھارتی ایجنڈے کے مطابق پاکستانی و افغانی عوام کو کشت و خون میں غلطاں کرتے ہیں اور اس کا ملبہ حکومت پاکستان پر گرادیا جاتا ہے۔
پاکستان جو ایک عرصے سے اس منطقے میں امریکی و سعودی اتحادی تھا اور طالبان کے بنانے کے عمل میں برابر کا شریک تھا اس کے لئے یہ سب کچھ ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے افغانستان کے حساس مقامات پر طالبان سے حملے کروا کر امریکہ و افغانستان کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اب بھی طالبان کے بعض دھڑے پاکستان کے کنٹرول میں ہیں اور وہ یہ سب کارروائیاں ، پاکستان کی ایما پر کر رہے ہیں۔
ان دنوں افغانستان میں داعش کو بھی آباد کیا جا چکا ہے جو کبھی بھی پاکستان کی سیکورٹی اور سلامتی کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔اس وقت پاکستان امریکہ کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کے بجائے طالبان و داعش نیز بھارتی بالا دستی کے مسائل میں ہی الجھا رہے گا۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو مسئلہ کشمیر اور پاکستان کی سلامتی سے کوئی دلچسبی نہیں ، لہذا امریکی ہمیشہ کی طرح محض احکامات صادر کریں گے اور کوشش کریں گے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح ان حکمرانوں کے سامنے بھی پیسہ پھینکیں اور تماشا دیکھیں۔
پاکستان اگرچہ اقتصادی دباو اور مشکلات کا شکار ہے تاہم اس مرتبہ صرف پیسے کی خاطر امریکیوں کی ہاں میں ہاں ملانا آسان نہیں ہوگا اور اگر امریکیوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی گئی تو پاکستان کو مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکہ فقط یہ چاہے گا کہ پاکستان اپنی افغان پالیسی کو بھارتی احکام کے تابع انجام دے۔یہ پاکستان کے حکمرانوں کے لئے کڑے امتحان کا وقت ہے کہ وہ پیسہ لے کر بھارتی بالادستی کو تسلیم کر تے ہیں اور یا پھر انکار کر کے اپنے لئے مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔
انکار کی صورت میں پوری ملت پاکستان کو ایک صبر آزما دور سے گزرنا پڑے گا ، البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قومیں مشکلات سے گزر کر ہی کندن بنتی ہیں۔
یہاں پر یہ بھی قابل ذکر نکتہ ہے کہ طالبان کے گوریلا کمانڈر جلال الدین حقانی کی موت کی خبر گزشتہ پانچ سالوں میں کئی مرتبہ چلائی گئی ہے لیکن اس مرتبہ امریکی وزیرخارجہ کے دورہ پاکستان سے صرف ایک دن پہلے افغا ن طالبان کی طرف سے حقانی کی ہلاکت کا باضابطہ اعلان بھی کسی اہم راز کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
المختصر یہ کہ امریکی وزیر خارجہ کا یہ دورہ پاکستان اور امریکہ دونوں کے لئے ایک کڑوا گھونٹ ہے،اس گھونٹ کے بعد اس کے نتائج ناقابلِ یقین حد تک مثبت یا منفی ہو سکتے ہیں۔
امکان ہے کہ اس مرتبہ پیسہ پھینکو اور تماشا دیکھو کا منصوبہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوگا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
وحدت نیوز (آرٹیکل) جہالت ہر درد کی ماں ہے،پسماندگی کی جڑ ہے، شیاطین اور طاغوت کا ہتھیار ہے، انسان دشمنوں کا اوزار ہے اور انسان کی بدبختیوں کا سرچشمہ ہے۔ دینِ اسلام کسی طور بھی انسانوں کو جاہل رکھنے کے خلاف ہے۔ انسانوں کو دوطرح سے جاہل رکھا جاتا ہے، ایک یہ کہ تعلیمی داروں کو بند کر دیا جائے اور یا پھر انہیں غیر معیاری کر دیا جائے جبکہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تعلیمی ادارے تو کھلے رہیں لیکن وہ علمی معیارات کے بجائےتعصب ، ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم اپنے نظریات لوگوں کے سامنے پیش کریں۔
ظہورِ اسلام سے پہلے لوگوں میں یہ وہم عام تھا کہ چاند گہن اور سورج گہن اس وقت لگتا ہے کہ جب زمین پر کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آتا ہے چنانچہ جب نبی اکرمﷺ کی زندگی میں ایک مرتبہ سورج گہن لگا تو اسی روز اتفاق سے آپ کے فرزند حضرت ابراہیمؑ کا انتقال بھی ہوا اور لوگوں نے یہ چہ مہ گوئیاں شروع کر دیں کہ یہ سورج گہن جنابِ ابراہیم کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔
اس وقت نبی اکرمﷺ نے لوگوں کی جہالت کو دور کرتے ہوئے فرمایا:
سورج اور چاند خدا کی دو نشانیاں ہیں انہیں کسی کی موت کی وجہ سے گہن نہیں لگتا ہے۔[1]
اپنے آپ کو نبی اکرم ﷺ کا جانشن اور وارث کہنے والوں کی یہ اولین زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ببانگِ دہل عوامی جہالت کے خلاف آواز اٹھائیں اور جہالت کے مقابلے میں اپنا علمی نظریہ پیش کریں۔
عصرِ حاضر میں عوام اس مسئلے میں سرگرداں ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے بعد وہ کونسا نظامِ حکومت ہے جس کے نفاذ کے لئے تگ و دو اور کوشش کی جائے۔
میں نے اسلامی نظامِ حکومت کا پرچار کرنے والے بہت سارے لوگوں سے پوچھا کہ بھائی دنیا تشنہ ہے، لوگ جاننا چاہتے ہیں، آپ بتائیں کہ عصرِ حاضر کے لئے اسلام کا مجوزہ نظامِ حکومت کیا ہے!؟ بعض نے کہا کہ بھائی ولایت و امامت ہی عصرِ حاضر کا مطلوبہ نظام ہے۔ میں نے خوش ہوتے ہوئے عرض کیا اچھا تو یہ بتائیں کہ ولایت کی واو پر فتحہ ہوتو اس کا کیا مطلب ہے اور کسرہ ہوتو س کا کیا مطلب ہے!؟ بہت سارے دانشور تو یہیں پر پھسل گئے ، اب جو رہ گئے ان سے ہم نے پوچھا کہ یہ جو نظام ولایت و امامت ہے آپ نص خاص کے ذریعے اس کے معتقد ہیں یا نص عام کے ذریعے ۔۔۔
کہنے لگے جب آمر ہوگا تو نظام آمریت ہوگا، بادشاہ ہوگا تو نظامِ بادشاہت ہوگا، جمہور ہونگے تو نظام جمہوریت ہوگا اسی طرح جب امام ہونگے تو نظامِ امامت ہوگا۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ کیا اس وقت امام ؑ موجود ہیں!!!؟
کہنے لگے نہیں اس وقت عصر غیبت ہے اور ہمیں نص عام کے ذریعے نظام مرجعیت کی طرف دعوت دی گئی ہے۔
امام مہدی علیہ السلام نے سنہ260ہجری قمری میں اپنی امامت کے آغاز ہی سے شیعیان آل رسول(ص) سے اپنا تعلق نمائندگان خاص کے ذریعے محدود کیا ہوا تھا۔ آپ(عج) کے آخری نائب علی بن محمد سمری تھے جو 15 شعبان سنہ 329 ہجری قمری / 9 مئی 941 عیسوی کو وفات پاگئے۔
ان کی وفات سے صرف ایک ہفتہ قبل امام زمانہ(عج) کی جانب سے ان کی طرف ایک توقیع جاری ہوئی جس میں امام(عج) نے انہیں لکھا تھا:
علی بن محمد سمری! خداوند متعال تمہارے بھائیوں کو تمہارے حوالے سے [یعنی تمہاری وفات کے حوالے سے] اجر عطا فرمائے؛ کیونکہ تم 6 دن بعد وفات پاو گے؛ اپنے آپ کو تیار کرو اور کسی کو بھی اپنی موت کے بعد اپنا جانشین نہ بناؤ۔ کیونکہ ابھی سے غیبت کبری کا آغاز ہوچکا ہے، اور کسی قسم کا ظہور نہ ہوگا اس وقت تک جب خداوند متعال اذن عطا کرے گا۔ اور وہ [اذن] طویل مدت کے بعد ہوگا، جب لوگوں کے دل پتھروں جیسے ہوچکے ہونگے اور دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ اور اس عرصے میں بعض لوگ میرے حامیوں (پیروکاروں) کی طرف آئیں گے اور دعوی کریں گے کہ انھوں نے مجھ سے ملاقات کی ہے؛ لیکن آگار رہو کہ جس نے بھی سفیانی کے خروج اور آسمانی چیخ سے قبل میرے دیدار کا دعوی کیا وہ الزام لگانے والا اور جھوٹا ہے۔[2]
امام مہدی(عج) نے سنہ 329ہجری قمری میں چوتھے نائب خاص کی وفات کے بعد کسی نائب کا تعین نہیں کیا اور یوں عوام کے ساتھ آپ(عج) کا براہ راست تعلق بھی اور آپ(عج) کی وکالت خاصہ کا دور بھی اختتام پذیر ہوا۔ دوران غیبت کے بارے میں منقولہ روایات ـ منجملہ امام مہدی(عج) سے منقولہ ایک روایت ـ میں شیعیان اہل بیت کو دین و دنیا کے امور میں فقہاء سے رجوع کرنے پر مامور کیا ہے، غیبت کے دور میں امام مہدی(عج) کی نیابت عامہ کا منصب فقہاء نے سنبھالا۔
"عام" ’’عام ‘‘کی قید "خاص" کے مقابلے میں آئی ہے اور مراد یہ ہے کہ اس دور میں کوئی بھی امام مہدی(عج) کی طرف سے خاص اور متعینہ نیابت کا عہدیدار نہیں ہے بلکہ جامع الشرائط فقہاء ـ جن کی شرطیں روایت میں منقول ہیں؛ امام عسکری(ع) نے فرمایا:
"فَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَى هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ یُقَلِّدُوهُ۔ [3]
ترجمہ: پس جو فقیہ اپنے نفس پر قابو رکھنے والا اور اپنے دین کا نگہبان ہو اور اپنی نفسانی خواہشات کا کی مخالفت کرے اور اپنے مولا کے فرمان کا مطیع و فرمانبردار ہو، تو عوا پر واجب ہے کہ اس کی تقلید کرے۔ اور ان شرائط پر پورے اترنے والے فقہاء عام طور پر نیابت امام زمانہ(عج) کے حامل ہیں۔
نتیجہ:۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عصرِ حاضر میں ہمارے پاس ہماری نجات کے لئے نظامِ مرجعیت موجود ہے۔ اگر کوئی نظام مرجعیت کی رعایت نہیں کرتا تو وہ در اصل نظامِ امامت سے ہی کٹ جاتا ہے۔ اس دور میں یہ مراجع عظام ہی ہیں جو یہ بتا سکتے ہیں کہ دنیا کے کس خطے میں کونسا نظامِ حکومت مناسب ہے اور لوگوں کو ووٹ دینا چاہیے یا نہیں، نظام مرجعیت کو نظرانداز کر کے اور پس پشت ڈال کر یا پھر مسترد کر کے ہم نظامِ امامت تک نہیں پہنچ سکتے۔
عصر غیبت میں یہ مراجع کرام ہی ہیں جو دین کے چراغ، ہدایت کے ستون اور تحریکوں کے قطب ہیں۔ لہذا ہمیں اپنے تمام تر مسائل میں مراجع عظام کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے۔
جب تک ہم نظام مرجعیت کے اتنظام و احترام پر پورےنہیں اترتے تب تک نظام امامت کی باتیں کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے پہلی کلاس کے بچے کو پی ایچ ڈی میں داخل کرانے کی ضد کی جائے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
وحدت نیوز (آرٹیکل) خوشیاں منانے کا روز تھا، عید کا دن تھا، بازار بند تھے، مارکیٹیں سنسان تھیں، ہر طرف ہو کا عالم تھا، سکوت تھا، سناٹا تھا، خاموشی تھی اور اس خاموشی اور سکوت کے درمیان میں کچھ لوگ سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے، میری طرح یقینا آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ یہ عید کے دن غم کیسا! یہ جشن کے روز ماتم کیوں اور یہ خوشی کے دن سیاہ پٹیاں کیوں! یہ لوگ بازار میں نکلے تھے احتجاج کرنے، ظلم کے خلاف، بربریت کے خلاف ، دھاندلی کے خلاف، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف اور ارباب اقتدار کی موج مستی کے خلاف ۔
عین اس وقت جب مقبوضہ کشمیر میں سری نگر کے مقام پر قابض فوج نے نماز عید کے دوران نمازیوں پرآنسو گیس شیلنگ اور پیلٹ گنز سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور اس کے بعد وادی بھر میں بھارتی فوج اور نہتے کشمیریوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوا اور بھارتی فوج کی بربریت کے خلاف کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے تو تو دوسری طرف کوٹلی آزاد کشمیر کے شہید چوک میں بھی کچھ لوگ محکمہ لائیو اسٹاک کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے، یہ ان کے احتجاج کا تیسرا دن تھا۔ یوں تو ہر طرف ہی ظلم و زیادتی کا راج ہے لیکن ظلم کے خلاف بولنے والے اور آواز اٹھانے والے کہیں کہیں ہی نظر آتے ہیں ۔ ان چند لوگوں میں انجمن تحفظ حقوق عامہ کوٹلی آزاد کشمیر کے ممبران بھی شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق علاقے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور پانی کے قطع ہونے کے علاوہ متعدد مسائل اپنے عروج پر ہیں جس کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں بھی لوٹ کھسوٹ اور دھونس دھاندلی عام ہے۔
اس احتجاج کے پیشِ نظر فوری مسئلہ یہ تھا کہ محکمہ لائیو اسٹاک کوٹلی کے دفتر میں خالی ہونیوالی چوکیدار کی آسامی پر ڈسٹرکٹ لائیو اسٹاک آفیسر سردار فرید نے آسامی کومشتہر کئے بغیر اپنے کسی عزیز کو تعینات کیا ہے۔ قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس آسامی سے ریٹائرڈ ہونے والی شخصیت سید شہپال حسین شاہ کے دو جوان بیٹے میرٹ پر پورے اترتے ہیں اور قانونی طور پر یہ ان کا حق بنتا تھا جسے نظر انداز کیا گیا اور اس پر عوام ِ علاقہ نے اخوت باہمی کے تحت احتجاج شروع کردیا جو آج چوتھے روز میں داخل ہو گیا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آزادکشمیر ایک طرف تو گڈ گورننس کے دعوے کرتے ہیں اور دوسری طرف سرکاری اداروں میں ڈنکے کی چوٹ پر میرٹ کو پامال کیا جاتا ہے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ عوامی احتجاج کے باوجود اشرافیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور متعلقہ محکمے شکایات کا نوٹس تک نہیں لیتے ۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ محکمہ لائیو اسٹاک کے ریٹائر ہونے والی جس شخصیت کے بیٹوں کو نظر انداز کیا گیا ہے ، ان کا ایک بیٹا کشمیرکی آزادی کی خاطر ہندوستان میں پچیس سال جیل کاٹ کر واپس آزاد کشمیر آیا ہے۔ اس طرح اس ستم دیدہ فیملی کے ساتھ ہمدردی کے بجائے مزید ظلم یہ کیا گیا کہ بے روزگاری اور مہنگائی کے اس دور میں اس خاندان کے میرٹ کو پامال کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرین کے مطابق آزاد کشمیر میں اس طرح کی بے ضابطگیاں عام ہیں، جن پر کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی اور عام عوام خاموشی سے ان مظالم کو برداشت کرتی چلی آرہی ہے لیکن اب کی بار عوام نے احتجاج کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے جسے جاری رکھا جائے گا اورتمام مطالبات پورے ہونے تک عوامی و قانونی جدوجہد کے ساتھ عوامِ علاقہ کے حقوق کا دفاع کیا جائے گا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر نہ بنایا جائے اور عوامی حقوق کا احترام کیا جائے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
وحدت نیوز (آرٹیکل) ہمارادشمن کون ہے ؟ کیا چاہتا ہے؟ اس کے مراکز کہاں ہیں؟ اس کے سرپرست کون ہیں؟ اس کی سہولتکاری کا کام کون انجام دے رہا ہے؟اس کی مدد کون کر رہاہے؟
آج دشمن مخفی نہیں آشکار ہے اور اس کے مراکز و سہولت کار سب عیاں ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے سرکاری ادارے ملک و قوم کے دشمنوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے سے ہچکچا رہے ہیں، اس ہچکچاہٹ کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ خود ہمارے اداروں کے اندر دشمنوں کے سہولتکار براجمان ہیں۔
بحیثیت پاکستانی ہمارے دشمن وہی لوگ ہیں جو قیامِ پاکستان کے دشمن ہیں جو آئین ِ پاکستان کے باغی اور قائداعظم محمد علی جناح کے دشمن ہیں ، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کوچہ و بازار میں ہمارا قتلِ عام کیا اور جنہوں نے آرمی پبلک سکول پشاور میں ننھے منھے طالب علموں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا اورکئی اساتذہ کو زندہ آگ لگا دی ، جس کے بعد اب آئے دن یہ لوگ پاکستان میں تعلیمی اداروں کو نذرِ آتش کرنے میں مصروف ہیں۔
گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں دہشتگردوں نے 12 تعلیمی اداروں پر حملہ کر کے انہیں آگ لگادی۔نجی ٹی وی کے مطابق دیامر میں چلاس کے علاقے داریل اور تنگی میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے 10 تعلیمی اداروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کے بعد انہیں آگ لگادی جب کہ 2 کو تباہ کرنے کے لیے بارودی مواد بھی استعمال کیا۔
اس کے علاوہ بلوچستان کے علاقے پشین میں پاکستان کے دشمنوں نے لڑکیوں کے دو سکولوں کو آگ لگا دی یہ واقعہ چھٹی کے بعد پیش آیا۔اسی طرح بنوں میں بھی ایک پرائمری سکول کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی جسے بم ڈسپوزل سکواڈ نے ناکام بنا دیا۔
شدت پسندوں کے لئے کارروائیوں اور فرار کی راہیں فراہم کرنے والے ہی ان واقعات کے اصل ذمہ دار ہیں۔ ابھی پاکستان میں جو حالیہ انتخابات ہوئے ان میں بھی دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو سیاسی میدان میں کودنے کی کھلی چھٹی دی گئی جس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کو نذرِ آتش کرنے کی لہر بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ برسوں میں پاکستان کے تعلیمی اداروں پر ۸۶۷ حملے ہو چکے ہیں۔اس وقت پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 67 لاکھ سے زائد ہے، پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس میںسکولوں میں غیر معیاری نصاب تعلیم اور اسٹاف کی کمی سمیت دیگر شکایات عام ہیں، ایسے میں تعلیمی اداروں پر حملے مزید کسی بڑے تعلیمی بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔
تعلیم قوموں کا زیور، انسانیت کاحسن، ترقی کی شاہراہ اور افراد کی طاقت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم زمینی حقائق کے مطابق شدت پسندوں کے ساتھ آہنی و قانونی ہاتھوں کے ساتھ نمٹیں۔
جو لوگ طالب علموں کو خاک و خوں میں غلطاں کرتے ہیں، تعلیمی اداروں پر حملہ ا ٓور ہوتے ہیں، اور اساتذہ کونذرِ آتش کر تے ہیں، ایسے وحشی افراد کسی رعایت اور نرمی کے مستحق نہیں ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے اصلی دشمن ہیں۔
شدت پسندی ، پاکستان کے لئے ایک پرانا چیلنج ہے، اس کی جڑیں ہمارے سرکاری اداروں کے اندر سرطان کی طرح پھیلی ہوئی ہیں، ہمارے کسی بھی نئے وزیراعظم کے لئے سب سے کڑاچیلنج بابائے طالبان اور شدت پسند سوچ کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔جب تک پاک سر زمین پر بابائے طالبان اور ان کے گماشتے آزاد گھومتے رہیں گے تب تک یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
تحریر۔۔نذر حافی