وحدت نیوز (آرٹیکل) گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں، غلطی جس کی بھی تھی، دونوں کے ڈرائیور آپس میں الجھے، ڈرائیور بھی کوئی ان پڑھ نہیں تھے، پڑھے لکھے تھے، دونوں نے ایک دوسرے کو زدوکوب کیا، لوگوں نے آکر چھڑوایا، لیکن پھر بھی دونوں ایک دوسرے کو مارنے کیلئے اچھل رہے تھے، ایسے واقعات ہم میں سے کون ہے جس نے نہ دیکھے ہونگے، مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بچپن سے یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ اگر کو ئی حادثہ ہو جائے تو اس کے بعد فریقِ مخالف کے ساتھ کیسے برتاو کرنا چاہیے!؟
ہم بحیثیت قوم حادثہ ہوجانے کی صورت میں اتنا صبر نہیں کرسکتے کہ متعلقہ ادارے اس معاملے کو حل کریں، حادثے صرف سڑکوں پر نہیں ہوتے، بلکہ گھروں، تنظیموں اور پارٹیوں میں بھی ہوجاتے ہیں، اتفاق سے وہ حادثے جو ہمارے گھروں، ، تنظیموں اور پارٹیوں میں ہوتے ہیں وہ ٹریفک حادثات سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہوتے ہیں، اگر گھروں، تنظیموں اور پارٹیوں کے لوگ غیر متوقع واقعات اور حادثات سے نمٹنا نہ جانتے ہوں تو بعض اوقات کسی کی ایک غلطی سے گھر، تنظیم یا پارٹی کا شیرازہ ہی بکھر جاتا ہے۔
اسی طرح دی کی دنیا میں بھی حادثات رونما ہوتے ہیں، بعض اوقات ایک اچھا خاصا معتبر انسان بھی دین کے اساسی اور بنیادی عقائد کے بارے میں ایسی بات کرجاتا ہے کہ جس سے عوام النّاس گمراہ ہو جاتے ہیں۔ گمراہی کو معاشرہ نہیں روک سکتا، چونکہ ہمارا معاشرہ ابھی تک ہمیں گاڑی کی ٹکر کے بعد جو کرنا چاہیے وہ بھی نہیں سکھا سکا وہ ہمیں عقائد کیا سکھا ئے گا۔
لوگوں کو گمراہی سے بچانا اور انہیں درست عقائد سمجھانا یہ معاشرے کا نہیں بلکہ خواص یعنی متخصصین کا کام ہے۔ ایک آدمی جس نے علمِ کلام اور عقائد کو تخصص کے ساتھ حاصل نہیں کیا تو یہ واضح ہے کہ وہ عقیدے کی دنیا میں ایک غیر ماہر شخص ہےاور غیر ماہر ہونے کے لحاظ سے ایک نومولود اور ستر سال کے آدمی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔دونوں غیرماہر ہونے کے اعتبار سے ایک جیسے ہوتے ہیں، بلکہ عقائد کے سلسلے میں بالکل کورے جاہل کی نسبت ایک نیم حکیم زیادہ مضر اور مہلک ہوتا ہے۔
جب ہم عقیدے کی منبر پر کسی غیر متخصص اور غیر ماہر کو بٹھا دیں گے تو وہ اپنی عدم مہارت کے باعث اپنی محبوب شخصیات کو ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا کہ غلو، شرک اور کفر کا مرتکب ہوگا اور اپنی ناپسندیدہ شخصیات کے بارے میں ایسی گالی گلوچ اور لعن طعن سے کام لے گا کہ دین کے ساسی حکم وحدتِ اسلامی کو ہی پامال کر دے گا۔
ایسا شخص چونکہ مطلوبہ علم میں مہارت نہیں رکھتا ، اس لئے وہ غلو اورشرک کی حدوں کو نہیں پہچانتا اور اسی وجہ سے وہ اکتلافاتی ابحاث میں بھی کسی حدومرز کی شناخت اور منطقی و کلامی استدلال سے عاری ہوتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اب علوم اس حد تک زیادہ ہو چکے ہیں کہ کسی بھی علم میں متخصص کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔اس دور میں قرآن مجید کی یہ آیہ مجیدہ ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ شدت کے ساتھ ہمیں جھنجوڑ رہی ہے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں۔[1]
البتہ یہ ایک عقلی مسئلہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک باشعور اور عقلمند انسان اپنے دل کے آپریشن کیلئے کسی ان پڑھ یا نیم حکیم کے پاس نہیں جاتا چونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی زندگی ختم ہو جائے گی۔جسمانی زندگی کے حوالے سے ہمارا معاشرہ اتنا بالغ ہوچکا ہے کہ وہ کسی غیر متخصص یا نیم حکیم سے علاج کروانے کو قبیح سمجھتا ہے۔لیکن ابھی تک ہمارا معاشرہ اس بات کو نہیں سمجھا کہ ایک مسلمان کیلئے جسم کی زندگی کی طرح اس کے عقیدے کی زندگی بھی ضروری ہے۔
جس طرح انسان کے دل کے ساتھ اگر کوئی نالائق آدمی چھیڑ چھاڑ کرے تو اس سے بدن کی موت واقع ہو جاتی ہے اسی طرح اگر مسلمان کے عقیدے کے ساتھ کوئی ان پڑھ چھیڑخانی کرے تو اس سے عقیدے کی موت واقع ہو جاتی ہے جس سے انسان مشرک اور کافر ہوجاتا ہے۔
آج اسلامی معاشرے میں کو غلو، کفر، شرک ،مقصریت اور ناصبیت کا سکہ چل رہا ہے ، اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ منبر پر ان پڑھ اور نیم حکیم حضرات کا غلبہ ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ زر اپنی ہوا و ہوس کی تسکین کیلئے جید اور ماہر علمائے کرام کو نہیں خرید سکتے بلکہ وہ غیرمتخصص اور نیم حکیم افراد کو خرید لیتے ہیں۔ اورجب بِکے ہوئے، نیم حکیم منبر پر بیٹھتے ہیں تو وہ غلو اور شرک کوغلط سمجھتے ہوئے بھی اس کا ظاہری طور پر دفاع کرتے ہیں چونکہ یہ ان کی مجبوری ہے۔
یہی تو تاریخ کے وہ مجبور کردار ہیں، جن کے بارے میں امیرالمومنین ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے (زبردستى ) اپنا نام عالم ركھ ليا ہے حالانكہ وہ عالم نہيں ہے، اس نے جاہلوں اور گمراہوں سے جہالتوں اور گمراہيوں كو بٹور ليا ہے ،اس نے لوگوں كے لئے مكر و فريب كے پھندے اور غلط سلط باتوں كے جال بچھا ركھے ہيں، قرآن كو اپنى رائے اورحق كو اپنى خواہشوں کے مطابق بیان کرتا ہے ۔
یہ بڑے سے بڑے جرائم كا خوف لوگوں كے دلوں سے نكال ديتا ہے اور كبيرہ گناہوں كى اہميت كو كم كرتا ہے ۔كہتا تو يہ ہے كہ ميں شبہات ميں توقف كرتا ہوں حالانكہ انہيں ميں پڑا ہوا ہے۔
اس كا کہنايہ ہے كہ ميں بدعتوں سے الگ تھلگ رہتا ہوں حالانكہ انہى ميں اس كا اٹھنا بيٹھنا ہے ۔صورت تو اس كى انسانوں كى سى ہے اور دل حيوانوں كا سا ۔نہ اسے ہدايت كا دروازہ معلوم ہے كہ وہاں تک آسكے اور نہ گمراہى كا دروازہ پہچانتا ہے كہ اس سے اپنا رخ موڑ سكے۔يہ تو زندوں ميں (چلتى پھرتى ) لاش ہے۔[2]
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
[1] هَلْ یسْتَوی الذینَ یعْلَمُونَ والذینَ لَا یعْلَمُونَ۔زمر ۹
[2] نهج البلاغه ، خطبه نمبر ۸۵ ، ص:
وحدت نیوز(آرٹیکل) میں اپنے اس دوست کو نہیں بھول سکتا، جو آج سے تقریبا دس سال پہلے ہمارا کلاس فیلو تھا، ہم سب کو پرنسپل صاحب کے کمرے میں لے گیا، مطالبہ یہ تھا کہ ہمیں محرم الحرام کے دس دن مکمل چھٹی ہونی چاہیے، مدیر صاحب نے ہماری بات سنی، ہمیں اپنے کمرے میں بٹھایا اور انتہائی دھیمے لہجے میں کہا کہ آپ کی دس دن کی چھٹی کا امام حسینؑ سے کیا تعلق؟
انہوں نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوتی کہ اگر آپ لوگ یہ مطالبہ کرتے کہ ان دس دنوں میں اس بین الاقوامی یونیورسٹی میں امام حسینؑ کے حوالے سے خصوصی سیمینارز اور محافل و مجالس کا اہتمام کیا جائے، میں آپ لوگوں کو شاباش دیتا کہ اگر آپ لوگ میرے پاس کچھ ایسی کتابوں کے تعارف کیلئے آتے جن کے مطالعے سے آپ امام حسینؑ کے اہداف اور مقاصد کو بہتر طور پر سمجھ سکتے، بہترین مقالہ جات لکھ سکتے، اور لیکچرز میں ان علمی کتابوں سے استفاد کرتے، انہوں نے کہا کہ میں کتنا خوش ہوتا کہ اگر آپ لوگ سیرت امام حسینؑ کو سمجھنے کیلئے مقالہ نویسی کے کسی مقابلے کے سلسلے میں مجھ سے رہنمائی لینے آتے۔۔۔
قارئین یقیناً سمجھ گئے ہونگے کہ پرنسپل صاحب نے پورے دس دن کی چھٹی نہیں دی اور طبق قاعدہ نو اور دس محرم کو ہی چھٹی کی گئی۔ ان بقیہ آٹھ دنوں میں ہمارا وہ دوست یا تو کلاس میں آتا نہیں تھا اور اگر آئے بھی تو یہی گلہ کرتا تھاکہ میں ان لوگوں کی امام حسینؑ سے شکایت کروں گا، یہ پکے وہابی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
پندرہ محرم الحرام سے ہمارے ٹرم کے امتحان شروع ہوئے تو اُن صاحب کا اعلان تھا کہ امتحان جانے اور امامؑ جانے، بہر حال حسبِ امید وہ صاحب ساری کتابوں میں فیل ہوگئے، اسی ربیع الاول میں انہوں نے عمامہ اور عبا قبا پہن لی اور تقریباً چند ہی مہینوں بعد ملت کی ہدایت کیلئے واپس پاکستان تشریف لے گئے۔۔۔۔آج کل مشہور علامہ ہیں۔
میں اپنے اس کلوس فیلو کو بھی فراموش نہیں کر سکتا جو انہی دنوں ہر کلاس میں آتے تو تاخیر سے لیکن کلاس سے نکلنے کی انہیں بہت جلدی ہوتی۔ ایک دن علم کلام کی کلاس میں ان سے استاد نے کچھ سوال پوچھے جن کے جوابات سُن کر ساری کلاس کشتِ زعفران بن گئی۔
کلاس کے بعد میں نے عرض کیا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں علمِ کلام میں مانے ہوئے استاد نصیب ہوئے ہیں، اس پر وہ زور زور سے ہنسے اور کہنے لگے کہ ہمارے عقائد کتابوں اور استادوں کے محتاج نہیں ہیں، ہمارے عقائد ہماری ماوں نے دودھ میں ملا کر ہمیں پلا دئیے ہیں۔ہم عقیدے اور معرفت کی اس منزل پر پیدا ہوتے ہیں کہ کتاب پڑھنے یا کلاس میں جانے سے ہمارے علم، عقیدے یا معرفت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے بالکل صحیح فرمایا تھا وہ اس کے بعد سات آٹھ سال تک ہمارے ساتھ رہے اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ اس دوران واقعتاً ان کے علم، عقیدے اور معرفت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ آج کل وہ بھی پاکستان میں ہیں اور خیر سے وہ بھی علامہ ہیں۔
اس وقت اس ہستی کا ذکر کیسے نہ کروں کہ جس کے دعوے کے مطابق اس نے اجتھاد و عرفان کے خانوادے میں آنکھ کھولی تھی، وہ جب اپنا شجرہ نسب بیان کرتے تھے تو اکثر نئے اور پرانے مراجعِ عظام اور مجتھد ین کرام سے ان کی خونی رشتے داریاں ثابت ہو جاتی تھیں اور جب عرفا کا ذکر کرتے تھے تو وہ خود ہی عرفا کے خانوادے کے چشم و چراغ تھے لہذا انہیں شعرا کے اشعار کی طرح عرفا کی سینکڑوں کرامات ازبر تھیں۔ ان کا یہ بھی ادعا تھا کہ ان کے دادا نے دیوار پر بیٹھ کر گھوڑی کی طرح سے سواری کی تھی اور ایک درخت پر بیٹھ کر کشمیر کی سیر کی تھی۔
عرفان کی کلاس میں وہ اکثر استاد کو روک کر عرفانی قصہ سنانے کی اجازت مانگتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ علم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے، وہ فرماتے تھے کہ یہ جو یہاں پر عرفان پڑھا ، سمجھا اور بتا رہے ہیں یہ سب ان کے اپنے ڈھکوسلے ہیں۔
البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ عرفان کے علاوہ دیگر کلاسوں میں بھی ان کی حالت قبلِ رحم ہوتی تھی، کئی مرتبہ انہیں استادوں سے نمبروں کی بھیک مانگتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔۔۔ کچھ سال انہوں نے بھی رگڑا کھایا، آج کل وہ بھی پاکستان میں دین کی سربلندی کیلئے کوشاں ہیں اور علامہ صاحب ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان کی دینی مدارس سے بھی نکلے ہوئے ایسے بے شمار علامہ حضرات موجود ہیں جو تین چارسال فقط ادبیات اورایک حد تک اصول اورفقہ پڑھنے کے بعد قوم کو دن رات دین سکھانے میں مشغول ہیں۔ اس کے علاوہ جو ایک دو سال میں ہی علامہ بن جاتے ہیں، ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔
ہر سال نجانے کتنے ہی اس طرح کے علامے پاکستان کے معاشرے میں منبر پرجلوہ افروز ہوتے ہیں اور محراب میں جگمگاتے ہیں۔ چنانچہ اب آپ پاکستان میں دیکھ لیں کہ پہلے کسی زمانے میں ذاکرین حضرات کے القابات پر علمائے کرام اور عام لوگ بھی اعتراض کرتے تھے لیکن اب علمائے کرام کہلوانے والوں کے القابات، ذاکرین سے بھی زیادہ لمبے چوڑے ہو گئے ہیں اور اب یہ رونقِ منبر بننے والے سب کے سب علامہ صاحب ہیں۔ بہت سارے ایسے بھی ہیں جو ان القابات سے بچنا چاہتے ہیں لیکن فرشِ عزا بچھانے والے اگر علامہ سے کم کسی کو بلائیں تو محلے، علاقے اور شہر میں ان کی مجلس کا معیار گر جاتا ہے لہذا جو منع کرے اسے بھی زبرستی علامہ بنا دیا دیا جاتا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ان علامہ حضرات کی مجالس سنیں، آپ دیکھیں گے کہ ان کی علمی و تحقیقی سطح ایک ذاکر کے برابر ہی ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بے چارہ ذاکر اتنے چھل بل نہیں جانتا جتنے یہ جانتے ہیں، ذاکر اگر غلو کرے تو بے چارہ سیدھا سادھا غلو اور شرک کرتا ہے اور انہیں چونکہ تھوڑی بہت مدرسے کی ہوا لگی ہوتی ہے ، اس لئے یہ تھوڑا بہت چھپا کر اور بات کو گھما پھرا کر غلو اور شرک کرتے ہیں، بس جو بات ایک ذاکر کرتا ہے، اس نے بھی کسی مدرسے کی تعلیمی نصاب سے حاصل نہیں کی ہوتی بلکہ وہ غریب کی اپنی محنت ہوتی ہے اور جو کچھ یہ علامہ حضرات بیان کرتے ہیں وہ انہوں نے بھی مدرسے سے بطورِ نصاب تعلیم نہیں سیکھا ہوتا، لہذا یہاں بھی غریب کی اپنی ہی محنت ہوتی ہے۔ لہذا دونوں طرف کے غریبوں کی گفتگو کی صرف لفاظی مختلف ہوتی ہے لیکن عملا اور نتیجے میں ان کی محنت کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔
مثلا!، ایک آدمی منبر سے عرفانی مسائل بیان کرتا ہے ، حالانکہ وہ حوزہ علمیہ میں عرفان کا طالب علم ہی نہیں رہا، معاشرے ، اقتصاد اور عمرانیات جیسے حساس موضوعات پر لب کشائی کرتا ہے لیکن بے چارے کی ساری اپنی محنت ہوتی ہے، وہ کسی موسسے یا مدرسے میں ان علوم کا طالب علم ہی نہیں رہا ہوتا، ایک علامہ صاحب آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں لیکن وہ علمِ تفسیر کے شعبے میں کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں ہوتے، ایک علامہ دہر عقائد کی گتھیاں سلجھا رہے ہوتے ہیں لیکن انہوں نے علم کلام کے شعبے میں کسی مدرسے میں حصولِ علم کا شرف ہی حاصل نہیں کیا ہوتا تو پھر ہمیں خود سوچنا چاہیے کہ جب غریب نے اپنی ہی محنت کرنی ہے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ عمامہ پہنے یا جناح کیپ، وہ داڑھی بڑی رکھے یا چھوٹی، وہ سر کو ڈھانپ کر منبر پر بیٹھے یا ننگے سر کھڑا ہو جائے۔۔۔اس نے قوم کی خدمت کیلئے سارا خرچہ تو اپنی جیب سے ہی کرنا ہے۔
اس وقت رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای کے اس فرمان پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں کہ جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ آج تحقیق کا مسئلہ صرف دوسروں کو دکھانے (تجمل گرائی) کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہماری بقا اور زندگی کا مسئلہ ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اربابِ اختیار کلمہ تحقیق سے کتنی گہری واقفیت رکھتے ہیں، لیکن میرا اس پر ٹھوس یقین ہے کہ آج ہمیں اپنی شناخت، اپنے وجود ، اپنے استقلال اور اپنے مستقبل کیلئے جو دو تین اہم کام کرنے چاہیے ان میں سے ایک علمی تحقیق ہے۔[1]
اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جہاد کا مطلب میدان میں ہدف و ایمان کی خاطر مجاہدت کے ساتھ موجود رہنا ہے، لہذا یہ جو جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کا حکم ہے، اس میں جہاد بالنفس کیا ہے؟ کیا صرف یہ کہ میدان جنگ میں جا کر اپنی جان قربان کر دیں یہی جہاد بالنفس ہے!؟ نہیں جہاد بالنفس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ رات سے صبح تک اپنے وقت کو ایک تحقیقی کام پر صرف کریں، آپ کو وقت گزرنے کا احساس نہ ہو، جہاد بالنفس یہ ہے کہ تحقیق کیلئے اپنی تفریح کو چھوڑ دیں، اپنے بدن کے آرام کو بھول جائیں، بہت سارے ایسے کاموں کو کہ جن سے آپ بہت ساری دولت کما سکتے ہیں ، انہیں چھوڑ دیں اور اپنے آپ اور اپنے وقت کو تحقیق میں صرف کریں۔[2]
اس کے بعد ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اب یہ ہماری دنیا بہت بدل چکی ہے، یہ عہد دادی اماں اور نانی اماں کی کہانیوں کے بجائے تحقیق اور تخصص کا ہے، آج ایک طرف تو تعلیمی اداروں اور علمی محافل میں تحقیق کے بغیر کسی کا ایک لفظ قبول نہیں کیا جاتا اور لیکن دوسری طرف ہم علم کے نام پر اپنی مجالس و محافل میں کیا تقسیم کر رہے ہیں۔
ہم آخر میں یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ ایک علمی تحقیق وہ نہیں ہوتی کہ کسی ڈائجسٹ یا اخبار کے مطالعے کی طرح اِدھر اُدھر سے چند باتوں کو اکٹھا کر کے لوگوں کے سامنے بیان کر دیا جائے، بلکہ ایک علمی تحقیق وہ ہوتی ہے، جس کے منابع کے درجات کا تعین ہوتا ہے، جس کا محقق علمی و تحقیقی معیارات کے مطابق تربیت یافتہ ہو تا ہے اور جس کے مفروضا ت کو پہلے ماہرین کی محفل میں نقد و بررسی کیلئے پیش کیا جاتا ہے اور پھر اگر علمی ماہرین یعنی علما اس کی تصدیق کر دیں تو تب جا کر اس بات کو انسانیت کی خدمت اور ہدایت کیلئے منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔یہ ہے وہ تحقیق جو اقوام کی شناخت ، وجود ، استقلال اور مستقبل کی بقا کے لئےمطلوب ہے۔ لیکن جہاں تخصص اور تحقیق کے بغیر ہی لوگ علامہ بن جاتے ہوں وہاں اقوام کا وہی حال ہوجاتا ہے جو آج ہمارا ہو چکا ہے۔
تحریر:نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک خاتون سہمی ہوئی ہے، ویڈیوکلپ میں وہ کہہ رہی ہے کہ میں ڈر رہی ہوں، وہ ڈرتے ہوئے اربعین واک کی طرف جاتی ہے،اس کا کہنا ہے کہ مجھے محتاط ہوکر ریکارڈنگ کرنا پڑ رہی ہے۔ہم یہاں ان الزامات کی حقیقت جاننے آئے ہیں کہ چند مذہبی شخصیات مذہب کی آڑ میں عورتوں کو جسم فروشی کیلئے تیار کر رہے ہیں،حتّی کہ چند پر دلالی کا بھی الزام ہے، اس کے بعد پسِ منظر میں کربلا میں لوگوں کے ہجوم کامنظر اور سکرین پر یہ عبارت لکھی ہوئی نظر آتی ہے کہ “شیعہ اسلام کے سب سے مقدس مقامات پر ہم نے کچھ علما کو اختیارات کا ناجائز استعمال اور قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے پایا۔ وہ کم عمر لڑکیوں سے نکاحِ متعہ کرانے کے پیسے لیتے رہے، یہاں پر شادی کے نام پر سیکس پر سخت پابندی سے بچنے کیلئے نکاح متعہ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پسِ منظر میں کربلا کے مختلف گلی کوچوں میں لوگوں کو چلتے پھرتے دکھایاجاتا ہے اور ایک شخص مدہم سی آواز میں کسی سے عربی میں بات چیت کرتا ہے جسے سکرین پر ان الفاظ میں لکھا ہوا دکھایاجاتا ہے،اس عالم سے ایک ۱۳ سالہ لڑکی سے نکاحِ متعہ کے بارے میں پوچھا گیا،بہتر ہے ایک دن کیلئے کر لیں، اگرآپ بھٹک جائیں ۔۔۔۔
مذکورہ ویڈیو کے علاوہ بھی استعماری نشریاتی داروں کی کارستانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔یہ انسانوں کے درمیان تخریب کا کام تعمیر کے نام پر، گمراہی کا کام آگاہی کے نام پر، اختلافات کا کام تحقیق کے نام پرانجام دیتے ہیں۔مذکورہ بالا ویڈیو میں خاتون کو اسلامی حجاب میں دکھایا گیا ہے، یعنی جیسا دیس ویسا بھیس جوکہ مستشرقین کا طریقہ واردات ہے، اس کے بعد جو کچھ وہاں لوگوں سے پوچھا گیا اور سکرین پرلکھا ہوا دکھایا گیا اس کا اربعین واک سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ نکاحِ متعہ کو اس کی شرائط کے ساتھ فقہ جعفری میں جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے اس کو آپ چاہے کسی شیعہ عالمِ دین سے سے پاکستان میں پوچھیں یا امریکہ میں، سعودی عرب میں پوچھیں یا عراق میں وہ اس کا ایک ہی جواب دے گا کہ ہاں متعہ کرنا جائز ہے۔اب ان سوالات کو چہلمِ امام حسینؑ کے موقع پر کربلا میں پکچرائز کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ چہلم کے موقع پر لوگ جنسی تسکین کیلئے کربلا میں جمع ہوتے ہیں، ساتھ ہی اس جھوٹ کو گاڑھا کرنے کیلئےا یک لڑکی کے کردار کوبھی فلمایا گیا کہ وہ کہہ رہی ہے کہ عقدِ متعہ سے اس کے خلاف سوئے استفاد کیاجاتا ہے۔
عقل و فہم رکھنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ نکاح چاہے دائمی ہو یا عقدِ متعہ دونوں سے سوئے استفادہ ممکن ہے، اور اس سوئے استفادے کو کسی بھی لحاظ سے بھی امام حسینؑ کے چہلم کے ساتھ ایک خاموش ربط دینا استعمار کی ایک مکارانہ چال کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔
بی بی سی کی اس چال کو ہم مندرجہ زیل مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً حج کے تقدس کو پامال کرنے کیلئے، کوئی مستشرق سعودی عرب جائے، وہاں کے نائٹ کلبوں، عیاشی کے مراکز اور وہاں ہونے والی جنسی بے راہروی کے بارے میں چند شاکی افراد سے بات چیت کر کے ایسا کلپ تیار کرے جس کی بیک گراونڈ میں مکے اور مدینے کی سڑکیں، خانہ کعبہ، مسجد نبوی، حاجی لباسِ احرام میں طواف کرتے ہوئےاور وہاں کے باشندےشکایات کرتےدکھائی دیں۔جس سے غیر محسوس انداز میں انسان کے لاشعورمیں یہ پیغام پہنچ رہا ہو کہ نعوذباللہ حج کے موقع پر یہ سب کچھ ہوتا ہے، حالانکہ حقیقت میں ان نائٹ کلبوں، عیاشی کے مراکز اور جنسی بے راہروی کا حاجیوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔
چہلمِ امام حسینؑ کے موقعے پر بی بی سی کا یہ پروپیگنڈہ بالکل ویسا ہی ہے کہ جیساکہ ہمارے بچپن میں مائیں اپنے بچوں کو دس محرم کو بازار نہیں جانے دیتی تھیں، ان کا کہنا تھا کہ اس دن شیعہ حضرات لوگوں کا خون نکال کر پیتے ہیں، لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں، تھوڑے بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ شیعوں کا جلوس دیکھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے، پھر پتہ چلا کہ شیعہ نمازِ جنازہ کی پانچویں تکبیر میں میت پر لعنت بھیجتے ہیں، پھر پتہ چلا کہ شیعوں کے گھروں میں چالیس پاروں کا قرآن ہے اور ان کا قرآن اہلِ سنت کے قرآن کے علاوہ ہے، صرف یہی نہیں بلکہ بعض لوگ بی بی سی کی طرح کہتے تھے کہ ہم نے خود امام بارگاہوں میں جاکر دیکھا ہے کہ شامِ غریباں کو شیعہ مردوخواتین باہم مخلوط ہوکر جنسی اختلاط کرتے ہیں۔شامِ غریباں سے اربعینِ امام حسینؑ تک ہر طرف وہی پست فکر اور غلیظ پروپیگنڈہ ہے ۔یہ پروپیگنڈہ اس لئے کیا جا رہا ہے چونکہ اس وقت امریکہ و یورپ کے تھنک ٹینکس ایرانی حکومت کی بصیرت اور مقاومت سے خوفزدہ ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کی سیاسی و مذہبی طاقت شیعت کا علمی و دینی مرکز ہونے کی وجہ سے ہےاور وہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ شیعیت کی طاقت کااظہار چہلم امام حسینؑ کے موقع پر کربلا میں ہوتا ہے۔چونکہ ساری دنیا کے لوگ حضرت امام خمینیؒ، شیعہ مراجع کرام، ولی فقیہ سید علی خامنہ ای اور حزب اللہ لبنان کی برجستہ شخصیات خصوصا سید حسن نصراللہ کی وجہ سے شیعہ علما کی بصیرت، پرہیزگاری اور دوراندیشی سے بھی متاثر ہیں لہذا ایسے کلپس میں شیعہ علما کے چہرے کو بھی منفی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
استعمار یہ بھی جانتا ہے کہ چہلمِ امام حسینؑ صرف شیعیت کی طاقت کا مظہر نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی وحدت کا مظہر ہے اور اس وقت شیعہ علما صرف اہل تشیع کے دفاع کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ پورے عالمِ انسانیت اور خصوصا مظلوم اہل سنت کی بقا اور حقوق کی جنگ لڑنے میں مشغول ہیں، آج بھی وہ کشمیر ہو یا فلسطین یہ ایران کے شیعہ علما ہی ہیں جنہوں نے آج تک ان مظلوموں کا ساتھ دینے کا حق ادا کیا ہے اور سید حسن نصراللہ نے دنیا میں صرف شیعوں کی ہی نہیں بلکہ سارے عالمِ اسلام کی خاص کر عربوں کی آبرو قائم رکھی ہوئی ہے۔
بہر حال جو استعماری آلہ کاروں کا کام ہے اسے تو ہم نہیں روک سکتے البتہ ہمیں اپنے طور پر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسےچہلمِ امام حسینؑ کے موقع پر ہونے والے اس عظیم اجتماع کو عالمِ اسلام کیلئے مفید بنا سکتے ہیں!؟ ہم کیسے اس اجتماع میں شریک ہونے والے لاکھوں مسلمانوں کو کشمیر اور فلسطین جیسے اہم مسائل کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں!؟ ہم کیسے اس اجتماع سےتمام اسلامی ممالک پاکستان، ایران، سعودی عرب، افغانستان، عرب امارات۔۔۔ کے درمیان وحدت اور بھائی چارے کیلئے استفادہ کر سکتے ہیں اور ہم کیسے اس اجتماع کی وساطت سے تمام اسلامی مذاہب مالکی، حنفی، شافعی، جعفری حتّی کہ سلفی ، دیوبندی، اہلحدیث کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو ختم کر سکتے ہیں!؟
جب استعمار ہمارے اہم ایّام کے موقع پر ہمارے مذہبی و فقہی اختلافات کو ہمارے ہی خلاف بطورِ ہتھیار استعمال کرتا ہے تو ہمیں بھی ان ایّام میں اپنے مذہبی و فقہی مشترکات کو استعمارکے خلاف بطورِ ہتھیار استعمال کرنا چاہیے۔
آخر میں ہم اپنے قارئین کی اطلاع کیلئے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ چہلمِ امام حسینؑ کے خلاف صرف استعماری نشریاتی اداروں نے ہی ان ایّام میں مہم نہیں چلائی بلکہ انہی دنوں میں عراق میں مرجع عالیقدر آیت اللہ سیستانی اور ایران میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے منصوبے کو بھی عملی کرنے کی کوشش کی گئی اس کے علاوہ ان ایّام میں عراق میں عوامی تصادم اور خونریز فسادات کی کوشش بھی کی گئی ، اگرچہ عراق میں ہونے والے مظاہروں کا سبب اقتصادی ناہمواری اور سیاسی خلفشار ہی ہے لیکن انہی ایّام میں ان فسادات کا شدت سے رونما ہونا ، اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کیلئے ان فسادات کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر کوریج دینا، یہ سب چیزیں پسِ پردہ استعماری محرکین کا پتہ دیتی ہیں۔
اگلی قسط میں ہم ان شااللہ ان وجوہات کو بیان کریں گے جن کی وجہ سے بی بی سی سمیت استعمار کے تمام نشریاتی اور جاسوسی ادارے اربعین واک سے خوفزدہ ہیں۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان اور اختلافات لازم و ملزوم ہیں، ہر انسان دوسروں سے مختلف ہوتا ہے، یہ اختلاف سوچ، عقیدے اور نظریے سے لے کر رنگ، نسل، قبیلے، زبان،آداب، اخلاق ،تجارت، سیاست اور ہر طرح کے علمی و عملی شعبوں میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ہر انسان مختلف بنیادوں پر دوسروں سے اور دوسرے بھی اس سے اختلاف کرتے ہیں۔یہ اختلاف ہی ہے کہ جس سے دوسروں کے درمیان انسان کی انفرادیت قائم رہتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ صرف اپنی انفرادیت کو قائم رکھنے کیلئے بھی اختلاف کرنے کا پیشہ اپنا لیتے ہیں۔ یوں انسانی معاشرے میں اختلاف کے وجود سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ جن مفاد پرست لوگوں نے اختلاف کی طاقت اور توانائی کو سمجھا ہے انہوں نے ہر دور میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے اختلاف کو بطورِ ہتھیار استعمال بھی کیا ہے۔
مثلاً اگر کوئی ناعاقبت اندیش مسلمان ، غیر مسلم طاقتوں کی ایما پر مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہے تو اس کیلئے سب سے آسان اور سستا نسخہ یہ ہے کہ وہ اسلامی عقائد سے کھل کر انکار تو نہ کرے لیکن ڈٹ کر اسلامی عقائد کی مخالفت کرنی شروع کردے۔ چونکہ کھل کر انکار کرنے سے لوگ اسے کافر اور مشرک کہنا شروع کردیں گے لہذا انکار کے بجائے اقرار بھی کرے اور اقرار کے ساتھ ساتھ اسلامی عقائد کو رد بھی کرے۔جیساکہ اسلام کا بنیادی اور اساسی عقیدہ توحید ہے۔ اسلامی معاشرے میں جو شخص کھل کر توحید کا انکار کرے گا وہ مشرک کہلائے گا، لہذا مغرض افراد کھل کر توحید کا انکار نہیں کرتے بلکہ مختلف الفاظ، کلمات ،آیات، روایات اوراصطلاحات کے ساتھ توحید کو عوام النّاس کیلئے مشتبہ بنا دیتے ہیں۔تلبیسِ حق کا یہ عمل جس قدر اسلامی لبادے میں ہوتا ہے اسی قدر لوگ زیادہ دھوکہ کھاتے ہیں۔
یوں سمجھئے کہ اگر کوئی شخص اسلام کے منبر سے توحید کے خلاف ہرزہ سرائی کرے گا تو اس کیلئےکسی دوسرےپلیٹ فارم کی نسبت اسلام کے منبر سے لوگوں کے ساتھ فراڈ کرنا آسان ہوگا، پھر اگر یہی شخص اپنے نام کے ساتھ نعوذباللہ مداح و ثناخوان رسولﷺ، نعت خوا ن ،ذاکرِ اہلبیتؑ، مبلغِ اسلام، ڈاکٹر اورعلامہ ۔۔۔وغیرہ بھی لگا ئے گا تو لوگ اور بھی دھوکہ کھائیں گے اور پھر اگر ایسا شخص عمامہ اور عبا قبا بھی پہن لے تو پھر تو اس کا شر اور بھی زیادہ بڑھ جائے گا۔پس تلبیسِ حق کا عمل حق کے لبادے میں ہی آسانی سے انجام پاتا ہے۔
استعماری طاقتیں جیسے مسلمانوں کے عقائد پر حملہ آور ہیں اسی طرح مسلمانوں کے احساسات و جذبات، معیشت و اقتصاد، سیاست و اخلاق، وحدت و بھائی چارے، علم و ٹیکنالوجی، بیان و ہنر نیز ہر شعبہ زندگی پر اپنا تسلط قائم کئے ہوئے ہیں۔استعماری طاقتوں کے کچھ ایجنٹ منبر و محراب کے ذریعے واردِ عمل ہیں اور کچھ قلم، ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی ذمہ داری کونبھا رہے ہیں۔منبر ومحراب والوں کی بات ہوچکی اب ذرا قلم اور ذرائع ابلاغ والوں کی بھی خبر لیجئے۔ یہ ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کیلئے متحرک اور فعال رہتے ہیں۔ یہ کبھی بھی سی آئی اے، ایم آئی سکس ۔۔۔ یا مستشرقین کی سازشوں کی کوئی بات میڈیا پر آنے ہی نہیں دیتے اور نہ ہی اس سلسلے میں مستقل طور پر تجزیہ و تحلیل کے کسی سلسلے کو چلنے دیتے ہیں بلکہ یہ ہمارے ہاں کے مسلمانوں کو یہ باور کرواتے ہیں کہ آپ کے دشمن ہندوستان ، امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل نہیں بلکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبدالعزیز،امام احمد رضا خان بریلوی ، امام خمینی اور سید علی خامنہ ای ۔۔۔وغیرہ ہیں۔ چنانچہ یہ مختلف کتابوں میں لکھے ہوئے پرانے اختلافات، کہنہ غلط فہمیوں، ناخوشگوار واقعات اور قدیمی فتووں کو ہر دور میں زندہ کرتے ہیں، اور لوگوں میں ان کی تکرار کرتے ہیں تاکہ مسلمان کبھی بھی آپس میں متحد نہ ہو سکیں۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عصرِ حاضرمیں استعماری طاقتوں کی چالوں کو ایران میں اسلامی انقلاب کے رہنماوں نے خود بھی اچھی طرح سمجھا ہے اور عوام النّاس کو بھی احسن طریقےسے سمجھایا ہے۔استعمار کی سازشوں کا توڑ کرنے کیلئے ایران کے اسلامی انقلاب کے رہنماوں نے علمی اور عملی طور پر اہل تشیع اور اہل سنّت کے درمیان اتحاد اور وحدت کیلئے ہر قربانی دی ہے اور ہر قدم اٹھایا ہے۔یہانتک کہ ایران میں شیعہ اکثریت ہونے کے باوجود کبھی کسی شیعہ فقیہ نے اہل سنت یا وہابی و دیوبندی مسلمانوں کے خلاف کفر یا واجب القتل ہونے کا فتویٰ نہیں دیا، صرف یہی نہیں بلکہ کبھی اہل سنت کے کسی بھی فرقے کے خلاف کوئی ایسا جلوس نہیں نکالا گیا کہ جس میں کافر کافر فلاں فرقہ کافر کے نعرے لگائے گئے ہوں۔ اس کے علاوہ ایران کے سپریم لیڈر اور ولی فقیہ نے باقاعدہ یہ فتوی دیا ہے کہ اہل سنت کے مقدسات و اکابرین کی توہین اور ان کی دل آزاری حرام ہے۔صاحبانِ علم و فکر بخوبی جانتے ہیں کہ بلاشبہ مسلمانوں میں بصیرت پیدا کرنے، استعمار کو پہچاننے اور آپس میں اتحاد و وحدت کے حوالے سے ایران کے مذہبی رہنماوں کی کوششیں آبِ ِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
مسلمانوں کے درمیان ، دشمن شناسی، بصیرت، استعمار کے مقابلے اور باہمی اتحاد و وحدت کی فضا استعمار ی طاقتوں کو ہر گز گوارا نہیں چنانچہ وہ ایک طرف تو مسلمانوں کے عقائد پر حملہ آور ہیں، ان کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کو بار بار زندہ کرتے ہیں اوردوسری طرف وہ مسلمانوں کو ہر اس مرکزو محور سے بد ظن کرنے میں مصروف ہیں جو مسلمانوں کو متحد کرنے کا باعث بنے۔
ایسا ہی کچھ حالیہ دنوں میں عروج پر ہے۔ ان دنوں امام حسینؑ کے چہلم کی تقریبات کے خلاف بھی استعماری طاقتیں سرگرمِ عمل ہیں۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایام حضرت امام حسین عالی مقام کے چہلم کے ایّام ہیں۔ان ایّام میں صرف اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل اسنت بھی جوق در جوق کربلا جانے کیلئے عراق کا رخ کرتے ہیں۔بلکہ غیرمسلم بھی عراق آتے ہیں، یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد، بے مثل اور انوکھا عظیم الشّان اجتماع ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شیعہ اور سنی نہیں ہوتا، کوئی عربی و عجمی نہیں ہوتا، کوئی کالا اور گورا نہیں ہوتا، المختصر یہ کہ اگر عصرِ حاضر میں کسی نےمسلمانوں کے درمیان اخوّت، بھائی چارے، فداکاری، جانثاری، رواداری اور دینداری کی زندہ مثال کو دیکھنا ہوتو وہ ایک مرتبہ ضرور اس اجتماع کو قریب سے دیکھے۔مسلمانوں کے درمیان یہ اخوّت،یہ بھائی چارہ، یہ محبت ، یہ فداکاری،یہ جانثاری، یہ رواداری اوریہ دینداری کسی بھی صورت میں استعماری طاقتوں کو نہیں بھاتی۔ خصوصاً یہی عراق کہ جو گزشتہ چند سالوں تک استعمار کی ایک کالونی تھا اب اس میں مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد نے استعمار کی نیندیں اڑا رکھی ہیں اور اب اسی عراق میں فرزندانِ اسلام کا یہ سالانہ عظیم الشّان اجتماع امریکہ و برطانیہ کیلئے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔
چنانچہ امسال اس اجتماع کے موقع پر مسلمانوں کو ہراساں اور بدظن کرنے کیلئے ذرائع ابلاغ خصوصاً بی بی سی لندن پیش پیش ہے۔ ایک تو لوگوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کی جا رہی ہے تاکہ لوگ اس اجتماع میں شرکت کرنے کیلئے گھروں سے نہ نکلیں اور دوسرے اس اجتماع کے تقدس کو پامال کرنے کیلئےایسی تحریریں اور ڈاکومنٹریز وائرل ہو رہی ہیں کہ جن سے عام لوگوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اس اجتماع میں جنسی بے راہروی اورخواتین کی خرید و فروش کا عمل انجام دیا جاتا ہے۔
مقصد صرف یہی ہے کہ مسلمان اس اجتماع میں شرکت نہ کریں خواہ وہ بدامنی اور جنگ سے ڈریں اور خواہ وہ اس اجتماع کو غیر مقدس سمجھ کر اسے اہمیت نہ دیں ۔ قابل ذکر ہے کہ راقم الحروف کو خود بھی اس اجتماع میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ہے البتہ اس مرتبہ ویزہ نہ مل سکنے کے باعث شامل نہیں ہوسکا ورنہ بی بی سی کا مکمل طور پر پول کھولنے میں مجھے بہت آسانی ہوتی۔اس کے باوجود آئندہ قسط میں اربعین امام حسینؑ کے موقع پر استعمار ی ذرائع ابلاغ خصوصابی بی سی کی کارستانیوں کے حوالے سے مزید کھل کر بات کی جائے گی۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) زندہ رہنے کیلئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، مچھلی خشکی پر نہیں جی سکتی، مچھلی کو جینے کیلئے پانی کی ضرورت ہے، انسان پانی میں نہیں زندہ رہ سکتا، انسان کو زندہ رہنے کیلئے خشکی چاہیے، اب آپ سمجھ ہی چکے ہونگے کہ ہمارے ہاں غریب کے بچے ہی جبری طور پر لاپتہ کیوں ہو جاتے ہیں!؟ بات بہت آسان اور واضح ہے، فرعونوں،امیروں ، رئیسوں اور نوابوں کے معاشرے میں ایک غریب آدمی زندگی نہیں گزار سکتا، ایک سفید پوش آدمی چاہے جتنی مرضی ہےمحنت کر لے، پہلے تو اس معاشرتی سسٹم میں اس کے بچے اسی کی طرح محنت کش اور فاقہ کش ہی رہیں گے اور اگر کہیں استاد، صحافی،ڈاکٹر،وکیل یا مولوی وغیرہ بن بھی گئے تو انہیں نامعلوم ٹارگٹ کلر ماردیں گے اور یاپھر غداری کے جرم میں انہیں اٹھا لیا جائے گا۔
گزشتہ روز بھی لاہور اور راولپنڈی میں مسنگ پرسنز کیلئے احتجاج کیا گیا، آپ ان مسنگ پرسنز کے خاندانوں کا سروے کر لیں، آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ان کا اصلی جرم یہ ہے کہ یہ سفید پوش خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، یہ سیلف میڈ لوگ ہیں ، یہ محنت اور زحمت کے ساتھ امرا کے معاشرے میں جینے والے ہیں۔ان میں سے کئی تو ایسے بھی ہیں جو اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں اور کچھ تو دو دو اور تین تین خاندانوں کے سرپرست ہیں۔ان کا قصور یہ ہے کہ ان کے خاندانی پسِ منظر میں نامی گرامی سمگلر، بلیک میلر اور ارب پتی افراد نہیں ہیں۔ورنہ جائیے اور دیکھئے ہمارے ہاں ارب پتی بلوچ، لکھ پتی پٹھان ،کروڑ پتی پنجابی، دولت مندسندھی یا مالدارشیعہ ہونا کوئی جرم نہیں ہے بلکہ اگر بلوچ ہے اور غریب ہے، پٹھان ہے اور نادار ہے، پنجابی ہے اور مفلس ہے، سندھی ہے اور تہی دست ہے، شیعہ ہے اور مسکین ہے تو پھر وہ غدار بھی ہے اور ملک و قوم کیلئے خطرہ بھی۔ لمحہ فکریہ ہے کہ جس سے اپنا پیٹ نہیں پلتا وہ اس ایٹمی ملک کیلئے خطرہ ہے اور جو دوسروں کا پیٹ کاٹ کر کھاتا ہے اس سے کسی کو خطرہ نہیں۔
جو بلوچ ہے اور ارب پتی ٹرانسپورٹر ہے وہ چاہے تو مسافر گاڑیوں کو مال بردار گاڑیوں کے طور پر استعمال کرے، لوگوں سے بڑھا چڑھا کر کرایہ وصول کرے، غیرقانونی لوگوں کوملکی سرحد عبور کروائے، اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں، اس کے بارے میں کوئی ادارہ حساس نہیں اور ریاست کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ لیکن اگر کسی غریب بلوچ کے بچے نے اونچی آواز میں بات کر دی یا کوئی نعرہ لگا دیا تو پھر اس کی خیر نہیں۔
پٹھان اس وقت تک محفوظ ہے جب تک اس کے پاس دھونس اور پیسہ ہے، وہ چاہے سرحدی گاندھی کہلائے یا پاکستان کو گالیاں ہی دے لیکن اگر وہ غریب ہے تو پھر ملک کیلئے خطرہ ہے اور پھر وہ غدار بھی ہے۔پنجابی کی پشت پر بھی اگر پیسہ اور تھپکی ہے تو وہ جو چاہے کرے، اس سے کسی کو کیا خطرہ ہے، لیکن اگر اس کی پشت خالی ہے تو پھر اس کی ملک دشمنی کی بدبو دور دور تک سونگھی جائے گی۔ یہی حال سندھی کا بھی ہے، اگر وہ پیسے، زمینوں اور جائیداد کے اعتبار سے واقعی بھٹو ہے تو پھرمر کر بھی زندہ رہے گا اور اگر پیسے ، زمینیں اور جائیداد نہیں ہے تو پھر وہ ملک و قوم کیلئے شدید خطرہ ہے۔اسی طرح وہ شیعہ جو سرِ عام دوسروں کے مقدسات کی توہین کرتا ہے، گالیاں دیتا ہے اور ہر وقت مرنے و مارنے پر تُلا رہتا ہے ، اس سے ہمارے ہاں ملک و قوم کو کوئی خطرہ نہیں چونکہ اس کی جیب میں ڈالر ہیں لیکن ایسا شیعہ جس کی جیب ڈالروں سے خالی ہے اس کا خطرہ فوراً محسوس کیا جاتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ غربت فرعونوں کیلئے خطرہ ہے، اس خطرے سے نمٹنے کا آسان نسخہ یہی ہے کہ غریبوں کا خاتمہ کردیاجائے، غریبوں کے خاتمے کیلئے ہمارے ہاں جہاں جگہ جگہ جعلی ادویات، جعلی ڈاکٹرز، بجلی کے شارٹ کھمبے، خستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ، ٹوٹی ہوئی سڑکیں، خود کش حملہ آوروں اور ٹارگٹ کلرز کی سہولت موجود ہے، وہیں جبری اغوا کرنے والے لوگوں کی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
جبری گمشدگیوں کے حوالے سےہمارا مشورہ یہ ہے کہ اب عوام کواچھی طرح سےیہ سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح مچھلی خشکی پر نہیں جی سکتی، اسی طرح طاقتوروں، دولت مندوں، بلیک میلروں ، سمگلروں، اورامرا کے اس معاشرے میں کمزور اور غریب لوگ نہیں جی سکتے۔ کمزور اورغریب لوگ واقعتاًخطرہ ہیں اس فرعونی معاشرے کیلئے، لہذا ہمارے معاشرتی فرعونوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ یہاں ہر قیمت پر غریب اور کمزور کو دبا کر رکھا جائے گا۔
اگر ہم غریب اور کمزور ہیں اور ہمیں یہ گھمنڈ ہے کہ ہم اس ملک کے شریف شہری ہیں تو پھر ہمیں کسی تھانے میں کسی ظالم وڈیرے، کسی سمگلر ٹرانسپورٹر، کسی کرپٹ ایم این اے یا کسی ستمگر جنرل کے خلاف ایف آئی آر درج کروا نے کا تجربہ کر کے دیکھنا چاہیے ، جہاں کمزور اور غریب کو تھانے، کچہری، عدالتوں، اسمبلیوں اور قانون سے انصاف نہیں ملتا ، جہاں غریبوں کے پینے کیلئے صاف پانی اور سانس لینے کیلئے صاف ہوا تک میسر نہیں، وہاں کسی غریب کے بچوں کو جینے کا کیاحق ہے!؟اورجنہیں جینے کاکوئی حق نہ ہو انہیں جعلی دوائیاں کھلاکر مار دیا جائے یا جبری طور پر لاپتہ کردیا جائے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
تحریر:نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) مسلمان بالکل تہی دست تھے، 1936ء و 1937ء کے عام انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو مکمل طور پر شکست ہو چکی تھی، ۱۱ صوبوں میں سے کسی ایک صوبے میں بھی مسلم لیگ کو حکومت بنانے کا موقع نہیں ملاتھا، اس شکست سے مسلم لیگ کا یہ دعوی بھی خطرے میں پڑ گیا تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب آج کل کی طرح انفارمیشن اور رابطے کے وسائل بھی نہیں تھے، مسلمانوں کی سیاسی تربیت ،اجتماعی شعور اور نظریاتی سدھار کے سامنے ہزار طرح کی رکاوٹیں تھیں۔
سیاست ،وطن، جمہوریت، آزادی، خودمختاری اور ملت کی ایک تعریف ہندو حضرات اور کانگرسی علما اور دوسری تعریف مسلم لیگ کے رہنما کر رہے تھے۔اگر بظاہر دیکھا جائے تو انتخابات میں شکست کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماوں کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا چاہیے تھا، اپنے موقف سے عقب نشینی کر لینی چاہیے تھی اور اپنے نظریے سے دستبردار ہوجانا چاہیے تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
بلکہ اس کے برعکس کانگرس کو دو سال اور چند ماہ کے بعد مستعفی ہونا پڑا اور مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر 22 دسمبر 1939ء کو یوم نجات منایا۔اس کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس تین دن کے لئے 22 مارچ۱۹۴۰ کو لاہور میں شروع ہوا۔اجلاس کے ابتدائی سیشن سے قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی خطاب کیا، 23 مارچ کو مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی جس کے بعد اس قرار داد کے حق میں تقاریر جاری رہیں اور 24 مارچ 1940ء کو رات کے ساڑھے 11 بجے یہ قرارداد منظور کی گئی۔ قرارداد لاہور کو اس وقت کے میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے قراردادِ پاکستان کا نام دیا اور یوں یہی قراردادِ پاکستان ہی حصولِ پاکستان کے لئے مشعلِ راہ بن گئی۔
۱۹۴۰ سے ۱۹۴۷ تک کے سات سالوں کے اندر مسلم لیگ نے مسلمانوں میں مطلوبہ سیاسی بیداری بھی پیدا کی اور انہیں اس قرارداد کے مطابق ایک آزاد وطن بھی حاصل کر کے دیا۔ قائداعظم کی وفات کے چھے ماہ بعد 12 مارچ 1949 کو دستور کے مقدمے کے طورپر قراردادِ مقاصد منظور کی گئی اس قرارداد کےمطابق پاکستان نے ایک اسلامی جمہوریہ بننا تھا اور پہلا پاکستانی آئین 29 فروری 1956 کو منظور اور 23 مارچ 1956 کو اسے نافذ العمل ہوا۔چنانچہ ۱۹۵۶ سے تئیس مارچ کو سرکاری سطح پر منانے کا سلسلہ شروع ہوا اوراس روز کوآج تک کبھی ہم نے یومِ جمہوریہ اور کبھی یوم پاکستان کے نام سے منایا تاہم اس دن کے ساتھ ہم آج تک انصاف نہیں کرپائے، ہم نے نہ ہی تو اسلامی جمہوری اقدار کی پابندی کی اور نہ ہی پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی آبیاری کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم پاکستان کی کسی بھی سیاسی تنظیم کو پاکستانی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم نہیں کہہ سکتے، اور آج ہم پاکستان بننے کے ۷۲ سالوں کے بعد بھی ایک قومی سطح کی قیادت کے حوالے سے بحران کے شکار ہیں۔
قراردارِ پاکستان کی روشنی میں پاکستان بنانے کا مقصد مسلمانوں کو غیرِ خدا کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پناہ اور امان میں لانا اور مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست کا قیام تھا اور یہی قراردادِ مقاصد کا بھی لبِ لباب ہے لیکن آج ہمارے پاس ایک ایسا پاکستان ہے ،جس میں آج بھی قائداعظم کے مخالف کانگرسی علما کا قبضہ ہے،سیاسی پارٹیاں انگریزوں اور یورپ کی کاسہ لیس ہیں اور سیاسی لیڈر یوٹرن لینے پر عمل پیرا ہیں۔آج کا پاکستان ، اسلام اور مسلمانوں کا پاکستان نہیں بلکہ فرقوں، شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا پاکستان ہے، ہم بحیثیت قوم، قراردادِ پاکستان سے منحرف ہو چکے ہیں۔یہ انحراف اس قدر زیادہ ہے کہ ہم اب مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو نظریاتی مسئلہ سمجھنے کے بجائے علاقائی مسئلے کے طور پر پیش کرتے ہیں، ہم اب یہ سوچتے بھی نہیں کہ ہم کس منزل کی تلاش میں نکلے تھے اور کس کوچے میں کھڑے ہیں۔ہم اب تک اپنے ریاستی و نظریاتی دوستوں اور دشمنوں میں بھی فرق نہیں کر سکے، کہنے کو تو ہم نے ریاست ِمدینہ اور مدینہ فاضلہ کا خواب دیکھا تھا لیکن یقیناً ہم نے اپنی منزل کھو دی ہے۔
منزل کھونے کا احساس بہت اہم ہے ،اس احساسِ زیاں کی حفاظت ضروری ہےلیکن فقط حالات کا نوحہ لکھنے، ماضی کا ماتم کرنے، کانگرس نواز مولویوں پر تنقید کرنے اور حکمرانوں کو کوسنے سے تاریخ بدل نہیں سکتی اور مستقبل سنور نہیں سکتا۔اگر ہم نے تاریخ کے دھارے کو بدلنا اور قومی مستقبل کو سنورنا ہے تو ہمیں اپنے حال کو قراردادِ پاکستان کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ہماری قومی ، سیاسی اور دینی تنظیموں کو قرارداد پاکستان کو سامنے رکھ کر پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا بصورت دیگر اس کھوئی ہوئی منزل کو تلاش کرنا اور بھی دشوار ہو جائے گا۔جس طرح بیماری کے علاج کے لئے بیماری کا احساس ضروری ہے اسی طرح کسی بھی طرح کے زیاں کے جبران اور تلافی کے لئے اس زیاں کا احساس بھی ضروری ہے۔ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ جو قراردادِ پاکستان ہمارے اجداد نے پیش کی تھی ہم عملاً اس کو کھو چکے ہیں اب اس زیاں کی تلافی کا وقت ہے،قراردادِپاکستان سے لئے گئے ہر یو ٹرن نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
مختصر بات یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں خزانوں کا خالی ہونا، تہی دست ہونا اور انفارمیشن و رابطے کی سہولتوں کا فقدان اتنا ضرررساں نہیں جتنا سیاسی رہنماوں کا اصولوں اور نظریات سے یو ٹرن لینا ہے، خصوصا ایسا یوٹرن جس کے بعد احساسِ زیاں بھی نہ رہے۔
تحریر:نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.