وحدت نیوز (آرٹیکل) انسان اداس ہے دوستو! انسانوں کو مختلف زاویوں سے تقسیم کیا جا سکتا ہے بلکہ کیا جاتا ہے۔رنگ ، مذہب، نسل، فرقے، زبان اور علاقے کے علاوہ سہولیات کے اعتبار سے بھی انسان تقسیم ہیں۔ یہ خبر آپ تک پہنچ چکی ہوگی کہ  ایون فیلڈ ریفرنس میں جیل جانے والےمیاں نواز شریف کو خرابی طبیعت کے باعث اڈیالہ جیل سے پمز اسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا  گیا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکے ڈاکٹرمشہود،ڈاکٹرذوالفقارغوری ،ڈاکٹرملک نعیم اورڈاکٹراعجازاختراور ایک سٹاف نرس پرمشتمل ٹیم نے ہفتہ کو سینٹرل جیل اڈیالہ میں میاں نوازشریف کاطبی معائنہ کیا تھا اورتقریباً سواگھنٹے تک جاری رہنے والے چیک اپ کے دوران ڈاکٹروں نے سابق وزیراعظم کی ای سی جی کی ان کی شوگرچیک کی اوربعض ٹیسٹ کیے۔

کسی بھی قومی سطح کے مجرم کے ساتھ اس سے زیادہ محبت و شفقت کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں جیلوں میں موجود قید انسانوں کی تعداد اصل گنجائش سے 57 فیصد زائد ہے،اس زائد تعداد کی وجہ سے قیدی مختلف بیماریوں کے شکار ہیں اور انہیں بدن کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مناسب مقدار میں پانی تک نہیں ملتا۔  ڈاکٹر اور دوائی کی سہولت تو چھوڑیں انہیں سونے کے لئے جگہ تک میسر نہیں ، اس کے علاوہ قیدیوں پر تشدد،کم عمر قیدیوں کو پیشہ ور مجرموں نیز بچوں کو منشیات کے عادی لوگوں کے ساتھ  رکھنا، اسی طرح  خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، لوڈشیڈنگ اور خوراک کی ناگفتہ بہ صورتحال اپنی جگہ  ایک مستقل مسئلہ ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 98 جیلیں ہیں۔ جیلوں میں 56 ہزار سے زائد قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ 78 ہزار 1 سو 60 قیدی جیلوں میں موجود ہیں۔

یہ ایسے لوگ ہیں جن کے کوئی انسانی یا جمہوری حقو ق نہیں ہیں، ان پر لکھنے یا بولنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں، کوئی انسانی حقوق کی تنظیم نہیں جو انہیں پینے کے پانی کی سہولت کے لئےہی آواز اٹھا دے ، جو  رکے ہوئے مقدمات اور منجمد فائلوں کو کھلوا دے جو سالوں سے محبوس انسانوں کے مقدمات کی پیروی کرے ۔ ان جیلوں میں بہت سارے جھوٹے مقدمات میں پھنے ہوئے ہیں اور بہت سے اتفاقی حادثات کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔

یہ اس صدی کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کے اس جمہوری دور میں بھی باہر کی آزاد فضا کی شکایتیں اپنی جگہ لیکن جیلوں میں بھی انسانوں کے ساتھ عادلانہ اور منصفانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔جیلوں کی سہولیات پر بھی ایک خاص مافیا قابض ہے ،جوان سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے کارندوں کو جیلوں میں بھی گرم ہوا  تک نہیں لگنے دیتا۔

سنا ہے کہ نیا پاکستان جنم لے چکا ہے، تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آچکی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جیلوں کے اندر اور باہر بسنے والے انسانوں کے معیارِ زندگی پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ کسی جہاندیدہ دوست کا تجزیہ ہے کہ عمران خان جو کچھ کہہ رہے ہیں اگر اس کے پچاس فیصد پر بھی عمل ہو جائے تو اس سے بہت بڑی تبدیلی آجائے گی اور ہماری خواہش ہے کہ اس پچاس فی صد میں جیلوں کی اصلاحات بھی اگر شامل ہوجائیں تو یہ آج کے دور کے انسان کا بنی نوعِ انسان پر بہت بڑا احسان ہوگا۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) ریاض ، سعودی عرب کا دارلحکومت ہے، جی ہاں یہ وہی مقام ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے مسٹر ٹرمپ اور شاہ سلمان نے ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص کیا تھا،گزشتہ روز  انصاراللہ یمن نے ریاض پر متعدد بیلسٹک میزائل داغے،انصار اللہ کے مطابق  تمام میزائل ہدف پر لگے جبکہ سعودی ذرائع کے مطابق حملہ ناکام بنا دیا گیا، ہم جانتے ہیں کہ حالتِ جنگ میں اس طرح کی متضاد اطلاعات معمول کی بات ہیں۔

 انصاراللہ  کے زیرکنٹرول المثیرہ ٹی وی کے مطابق میزائلوں نے اپنے اہداف کودرستگی کے ساتھ نشانہ بنایا ہے ۔ اسی طرح برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق ریاض کے اوپر فضامیں  زبردست روشنی کے ساتھ چھ زوردار دھماکے ہوئےاور متعدد مقامات سے دھواں بھی اٹھتے ہوئے دکھائی دیا۔یاد رہے کہ یہ دسمبر ۲۰۱۷سے اب تک  ریاض پرہونے والا چھٹا  میزائل حملہ ہے۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہ  میزائل حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب  یمن کی مغربی بندرگاہ الحدیدہ پر متحدہ  عرب امارات کی قیادت میں سعودی اتحاد کا ایک بڑا حملہ جاری ہے اور اس حملے کو سنہری فتح کا نام دیا گیا ہے۔ تیرہ جون ۲۰۱۸سےالحدیدہ پر جاری  اس حملے میں ابھی تک سعودی اتحاد سوائے انسانی جانوں کے زیاں کے اور کوئی  ہدف پورا نہیں کر سکا لیکن دوسری طرف انصاراللہ کے میزائل ریاض کی فضاوں میں پھٹ چکے ہیں، عرب ٹی وی کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیرمملکت برائے خارجہ امور انور قرقاش  نے حوثیوں کے اسلحہ اور ان کے ماہر نشانہ بازوں کے بارے میں سامنے آنے والی رپورٹس کے بعد ٹوئٹر پر جو متعدد ٹویٹس کئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت سعودی اتحاد کے اوسان خطا ہو چکے ہیں۔

سعودی عرب نے اب تک شام، عراق، بحرین اور یمن میں جہاں بھی مداخلت کی ہے وہاں عمارتوں کے  کھنڈرات اور انسانی  لاشوں کے سوا کسی مقصد کو  حاصل نہیں  کیا ہے یا بنی نوعِ انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں سعودی عرب کے تیار شدہ القاعدہ ، طالبان  اور داعشی ٹولے بری طرح ناکام اور پسپا ہو چکے ہیں۔

سعودی اتحاد اپنی سابقہ شکستوں کی روشنی میں یہ بخوبی جانتا ہے کہ وہ یمن پر اپنا تسلط کسی صورت بھی قائم نہیں کر سکتا تاہم مغرب اور خصوصاً امریکہ کو مطمئن کرنے کے لئے   اس نے اس  وقت یمن کو تختہ مشق بنا رکھا ہے۔

دوسری طرف اب امریکہ و مغرب کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ سعودی اتحاد کی کارروائیوں سےکوئی کامیابی حاصل ہونے والی نہیں۔چنانچہ یمن پر حملے کے حوالے سے خود امریکہ و مغرب پر بھی مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔

سعودی عرب کے سامنے مندرجہ زیل اہم اہداف ہیں جو جنگ کے ذریعے کسی طور بھی پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے:

۱۔ یمن کو سعودی عرب کا بغل بچہ بنا کر یمن کی سرز مین کو دہشت گردوں کی جنت کے طور پر استعمال کیا جائے

۲۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں کو امریکہ کی قیادت میں متحد کیا جائے

۳۔خطے سے ایران اور حزب اللہ کا رعب ختم کیا جائے

۴۔یمن کے معدنی ذخائر پر سعودی عرب کا مکمل تسلط قائم کیا جائے

اربابِ دانش جانتے ہیں کہ جنگ مزید تباہی و بربادی تو پھیلا سکتی ہے لیکن اس سے سعودی اتحاد کو کوئی کامیابی ملنے والی نہیں، اب سعودی عرب ایک ایسی مشکل میں گرفتار ہے کہ  وہ نہ ہی تو یمن میں آسانی کے ساتھ ٹھہر سکتا ہے اور نہ ہی یمن سے باعزت طور پر نکل سکتا ہے، سعودی عرب اگر دیگر ممالک کی طرح یمن سے بھی شکست خوردہ ہو کر نکلتا ہے تو ساری دنیا خصوصاً امریکہ و مغرب کی نگاہوں میں اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی اور دوسرا مسئلہ جو کہ اس سے بھی بڑا ہے ، وہ یہ ہے کہ اب  سعودی عرب کے پیچھے ہٹنے سے انصاراللہ رسماً پورے یمن کی مالک بن جائیگی اور سعودی اتحاد کے مقاصد کے بر عکس منطقے میں ایران اور حزب اللہ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔

ریاض کی فضاوں میں پھٹتے ہوئے میزائل جہاں سعودی عرب کی شکست پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں وہیں اقوامِ عالم کو بھی اپنا فریضہ انجام دینے کی یاد دہانی کراتے ہیں۔

سعودی اتحاد کی اس رسوائی اور پسپائی کے عالم میں عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یمن میں بسنے والے دوکروڑ  سے زائد انسانوں کی حفاظت کے لئے آواز بلند کرے۔یمن میں اس وقت جو انسانیت سوز حالات ہیں ان کے پیشِ نظر عالمی برادری کو  یا تو بھرپور احتجاج کرنا چاہیے  اور یا پھر یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ یمن میں کوئی انسان نہیں رہتا۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  پاکستان مسلسل امتحانات سے گزر رہا ہے، اس سے پہلے2012 سے2015تک کے عرصے میں بھی پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں موجود تھا۔ اس لسٹ میں شامل ہونے سے پاکستان کو عالمی امداد کے حصول، قرضوں اور پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے سلسلے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایف اے ٹی ایف سےمراد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ہے۔ اس ٹاسک فورس میں خلیج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن سمیت137راکین شامل ہیں۔  پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی معیشت پر  اس ٹاسک فورس کی پابندیوں سے سخت منفی اثر پڑتا ہے۔

پاکستان کا جرم دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنا بتایا جاتا ہے،فروری  2018میں پاکستان کو موثر اقدامات کرنے کے لئے تین ماہ کی مہلت دی گئی تھی تاہم پاکستان اس سلسلے میں ٹاسک فورس کو مطمئن نہیں کر سکا اور بالاخر اس کا نام گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا جس کے بعد بلیک لسٹ میں شامل کئے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کو واچ لسٹ پر ڈالنے سے جب بھی کوئی پاکستانی بینک، دنیا میں کسی پاکستانی کے لئے کوئی رقم منتقل کرنا چاہے گا تو   تمام مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کے باوجود اس سےکسی تھانے یا  ایئر پورٹ پر پوچھے جانے والے سوالات اب بینکوں میں بھی پوچھے جائیں گے۔

اسی طرح  اب  پاکستان کے لئے عالمی مارکیٹ تک  رسائی  اور تجارت کئی گنا زیادہ مشکل ہو جائے گی اس کے ساتھ ساتھ  ایل سی ،، جو کہ  لیٹر آف کریڈٹ ہے اس کا   اوپن کروانا بھی آسان نہیں رہے گا ،باہر سے مال منگوانا یا باہر کو مال بھیجنا یہ سب نیز کہیں سےبھی  قرضہ لینا اب جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ یعنی ہمارے ساتھ بھی  ایتھوپیا ،ایران ، عراق ،شمالی کوریا ،  شام  اور یمن  جیسا برتاو کیا جائے گا۔ اے ٹی ایف کا یہ اجلاس پیرس میں ہوا ، اگرچہ اس میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اپنی ٹیم کے ذریعے عالمی برادری کو منی لانڈرنگ، دہشت گرد تنظیموں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے اقدام سے آگاہ تو کیا لیکن شایدنا تجربہ کار ٹیم کے باعث وہ کسی کو بھی مطمئن نہ کر سکیں۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں امریکہ، سعودی عرب ،برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی کوششوں، حمایت اور ووٹوں سے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالا گیا۔گرے لسٹ میں پاکستان کا نام ڈالے جانے کی ایک اہم وجہ حافظ سعید کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کا نہ ہونا بھی ہے۔ پاکستان نے حافظ سعید کی تنظیم کو نام بدل کر ایک اور نام سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازات بھی دے رکھی ہے، ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس ستمبر۲۰۱۸ میں ہوگا ، اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا پاکستان اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں پر آہنی ہاتھ ڈالے گا اور ان سے سختی کے ساتھ نمٹے گا یا پھر پاکستان ایسا کرنے میں ناکام رہے گا اور اس کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ اس وقت پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کو رکوانے کے لئے دباو ڈالنے والے ممالک خود ہی دہشت گرد ٹولوں کے اصلی موجد ہیں اوران کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے خود پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کو فروغ دینے والے اصلی ممالک اب  اپنی نئی حکمت عملی کے تحت  اور بھارت سے تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لئے  پاکستان پر خواہ مخواہ کا دباو ڈال رہے ہیں۔ اس وقت بھارتی میڈیا پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالنے پر بغلیں بجا رہا ہے۔ لہذا پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ عالمی برادری کے مطالبات کو سنجیدگی سے لے اور بین الاقوامی فورمز پر  لائق ، سنجیدہ اور تجربہ کار افراد کے ساتھ اپنی  ترجمانی کرے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  محل وقوع کے اعتبار سے یمن سعودی عرب کے جنوب میں،عمان کے مغرب میں، بحیرہ احمر کے مشرق میں اور خلیج عدن کے شمال میں واقع ہے۔یہ مغربی ایشیا میں مشرقِ وسطیٰ کا  دو کروڑ آبادی پر مشتمل انتہائی اہم ملک ہے۔

موجودہ صدی میں  مصر کے جمال عبدالناصر نے  بھی ۱۹۶۲ میں یمن پرحملہ کرکے وسیع پیمانے پر انسانی قتلِ عام کیا تھا لیکن وہ تو ہمارا ہیرو ٹھہرا لہذا ہم کیوں اس کے خلاف بولتے، اسی طرح ۱۹۹۴ میں شمالی اور جنوبی یمن  کے درمیان زبردست کشت و کشتار ہوئی لیکن عالمی برادری کو اس سے کیا غرض ہو سکتی ہے۔

یمن کے رہنے والوں کا قصور یہ ہے کہ یمن کی پٹرول اور گیس سے لبریز ۱۸۰۰ کلو میٹر سرحد سعودی عرب کے ساتھ ملتی ہے۔اس کے علاوہ باب المندب  کا دریائی  علاقہ  جنوب کی طرف سے دریائے احمر کو  خلیج عدن اور اوقیانوس ہند سے جوڑتا ہے یوں سعودی عرب، افریقا اور مصر کی شہ رگ اس کے کنٹرول میں ہے۔

یہ کوئی وہابی و شیعہ یا دیوبندی و زیدی یا نجدی و حوثی کا مسئلہ نہیں بلکہ معدنی ذخائر کی خاطر  مضبوط ممالک کی ایک کمزور ملک پر جارحیت ہے۔یمن میں آبادی کے لحاظ سے ۵۰فی صد شافعی اہل سنت ہیں جبکہ ۴۰ فی صد شیعہ ہیں اور اس کے علاوہ  اسماعیلی اور صوفی مسلک کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔

حوثیوں کی تحریک کا آغاز ۱۹۹۰ میں سید حسین الحوثی کے ہاتھوں سے ہوا۔۲۰۰۵ میں حکومت یمن نے اس تحریک  پر کاری ضرب لگائی اور اس کے بانی کو شہید کردیا، اس کے بعد سید حسین الحوثی کے والد بدرالدین حوثی نے اپنے بیٹے کے راستے پر سفر جاری رکھا اور اپنی وفات تک اس پر کاربند رہے، ان کی وفات کے بعد سید حسین کے بھائی سید عبدالمالک حوثی نے اس زمہ داری کو سنبھالا ۔

یاد رہے کہ ماضی میں سعودی عرب یمن کو  قطر کی طرح اپنی بغل بچہ بادشاہت  کےطور پر دیکھتا  تھا ۔سعودی عرب کا منصوبہ تھا  کہ داعش اور القاعدہ کے اسٹریکچر کو یمن میں مضبوط کیا جائے، جیسے ماضی میں افغانستان و روس کی جنگ  میں پاکستان کی سرزمین اور لوگوں کو استعمال کیا گیا تھا۔بالکل اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں یمن کو بھی استعمال کرنے کا ارادہ تھا،  سعودی عرب کے اس منصوبے کو  یمنی حکومت نے تو قبول کر لیا لیکن حوثیوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی اور اپنے ملک کو غیروں کے لئے استعمال نہ ہونے دینے پر اصرار کیا۔

یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے  سعودی عرب کا دورہ کیا اور ملک عبداللہ کو درپیش مشکلات سے آگاہ کیا چنانچہ حوثیوں کو کچلنے کے لئے سعودی عرب نے القاعدہ کے لشکر یمن بھیجے اور یوں یمن میں ایک خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

 بعد ازاں اس خانہ جنگی سے سعودی عرب کو اپنے مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آئے تو سعودی عرب مستقیماً اس جنگ میں کود پڑا ۔یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح  ۱۹۹۷۸میں یمن کے صدر بنے ، انہوں نے ایسے وقت میں یمن کی صدارت سنبھالی کہ جب ان سے پہلے یمن کے دو صدور ایک سال سے بھی کم عرصے میں دہشت گردی کے شکار ہو گئے تھے۔

 علی عبداللہ صالح نے تمام تر مشکلات کے باوجود ۲۳ سال تک  یمن پر حکومت کی۔۱۹۹۰سے پہلے وہ صرف شمالی یمن کے صدرتھے ،تاہم انہوں نےشمالی اور جنوبی یمن کو متحد کرنے میں کامیابی حاصل کی اور ۱۹۹۴میں یمن کی داخلی جنگ کو آسانی سے نمٹانے میں بھی  کامیاب ہو گئے،  اس کے بعد ۱۹۹۹ کے انتخابات میں  متحدہ یمن کے پہلے  صدر منتخب ہوئے۔۲۰۱۱ میں عوامی جلسوں اور احتجاجات  کے پیشِ نظر انہوں نے اپنی صدارت سے استعفیٰ دے دیا،   انہوں نے کچھ عرصہ اپنے تعلقات حوثیوں کے ساتھ بھی اچھے رکھےلیکن  ۱۹۹۰ کے بعد انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے شروع کر دئیے۔

۔ موصوف نے  ایک سیاسی چال کے طور پر عبدربه منصور هادی کے مقابلے میں کچھ عرصہ  انقلابیوں کی زبانی حمایت بھی  کی لیکن پھر کھلم کھلا  سعودی عرب کو ہی  اپنا سیاسی قبلہ بنا لیا  اور انقلابیوں کی مخالفت شروع کر دی۔بعد ازاں ۴ دسمبر ۲۰۱۷ کو انہیں قتل کردیا گیا۔

اس وقت یمن پر سعودی حملے کے مندرجہ زیل اہداف ہیں:

۱۔ یمن کو سعودی عرب کا بغل بچہ بنا کر یمن کی سرز مین کو دہشت گردوں کی جنت کے طور پر استعمال کیا جائے

۲۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں کو امریکہ کی قیادت میں متحد کیا جائے

۳۔خطے سے ایران اور حزب اللہ کا رعب ختم کیا جائے

۴۔یمن کے معدنی ذخائر پر سعودی عرب کا مکمل تسلط قائم کیا جائے

یہ جنگ کسی طور پر بھی دینی و مذہبی نہیں ہے بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف استعماری  مفادات کی تکمیل کے لئے  ننگی جارحیت ہے۔ جب تک دنیا ، استعمار کے خلاف رد عمل نہیں دکھاتی یہ جنگ جاری رہے گی۔ جو اقوام آج خاموشی کے ساتھ یمن کا تماشا دیکھ رہی ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ  استعمار کا پیٹ کسی ایک ملک کو ہڑپ کرنے سے نہیں بھرتا ، آج اگر یمن پر بارود کی بارش ہو رہی ہے تو کل کو کسی اور کی باری آئے گی۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  انسان کی دو فطری کمزوریاں ہیں، کچھ جاننے کی تمنا اور کچھ کرنے کی امنگ۔ ہر حال میں  انسان اپنی معلومات میں افزائش اور  کچھ کرنے کی اپنی استعداد میں اضافے کا متمنی ہے۔ایک عاقل ، ہوشیار اور بیدار انسان کبھی بھی اپنی ان دو خواہشوں سے دستبردار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چاہے کسی بھی دین و مذہب اور نظریے سے تعلق رکھتے ہوں باقی دنیا کے بارے میں جاننا اور اس دنیا میں کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھنا ہی ہماری سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ یہی خواہش ہے جو انسان کو خلاوں میں لے کر گھوم رہی ہے ، فضاوں میں اڑا رہی ہے اور سمندروں کی تہوں میں اتار رہی ہے۔ اگر انسان سے یہ دو خواہشیں چھین لی جائیں تو انسان کا انسان ہونا خطرے میں پر جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ذمہ دار اور سرکردہ افراد ہمیشہ کچھ جاننے اور کچھ کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔انسانی معاشرے میں انسان جدید معلومات اور نئے حالات سے لاتعلق ہو کر نہیں رہ سکتا۔اس وقت ہمارے ارد گرد کی دنیا میں  بڑی تیزی سے سائنسی، سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بڑی طاقتیں نت نئی تھیوریز اور ایجادات کے ساتھ کمزور اقوام پر جدید تجربات کر رہی ہیں۔  یعنی ہماری دنیا میں طاقتور اقوام ، کمزور اقوام کو اپنے تجربات کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں۔

ایک نئے مشرق وسطیٰ کا تجربہ امریکہ کو مہنگا تو پڑا لیکن اس کے نتیجے میں چاندہ چہرہ ممالک کھنڈر بن گئے، ممالک کو کھنڈرات بنانے کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور اس وقت   امریکی ایما پر سعودی عرب کی سربراہی میں قائم ’عرب اتحاد‘  نے یمن کی مرکزی بندرگاہ الحدیدہ  پر دھاوا بول رکھا ہے۔ یہ اتنی مصروف اور اہم بندرگاہ ہے کہ یمن کی ستر فی صد در آمدات اسی کے ذریعے ہوتی ہیں۔ ۲۰۱۵ سے جاری اس جنگ میں یہ اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔اس حملے کو سنہری فتح کا نام دیا گیا ہے اور اس کی ابتدا میں ہی   انصار اللہ نے امارات کے  فرسٹ نیول سارجنٹ خلیفہ سیف سعید الخاطری، علی محمد راشد الحسانی، سارجنٹ خمیس عبداللہ خمیس الزیودی اور العریف حمدان سعید العبدولی جیسے متعدد افراد  کو موت کے گھاٹ اتار کر حملہ آوروں کے دانت کھٹے  کر دیے ہیں۔

اس سنہری فتح  نامی حملے کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ  کچھ دن پہلے  اقوام متحدہ نے برملا اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر الحدیدہ پر دھاوا بولا گیا توانسانی جانوں کی  خوفناک تباہی ہوگی۔بہر حال ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اقوامِ متحدہ  کے واویلے پر کسی نے کان نہیں دھرے اور حملہ کرنے والوں نے حملہ کر کے ایک مرتبہ پھر اقوامِ عالم کو یہ پیغام دیا ہے کہ  طاقتور اقوام کے سامنے انسانی حقوق، اقوامِ متحدہ اور انسانی زندگیوں کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہے۔

یہاں پر لمحہ فکریہ ہے ہمارے لئے کہ وہ میڈیا جو  شام کے کسی علاقے میں داعش کے درندوں کے محصور ہونے پر تو انسانی ہلاکتوں کا واویلا کرتا ہے لیکن  اس وقت الحدیدہ میں ہونے والے انسانی المیے پر چپ سادھے ہوئے ہے۔

یعنی  میڈیا کے نزدیک یمن میں مارے جانے والے انسان گویا انسان ہی نہیں ہیں۔

  عالمی برادری کو اس حقیقت سے نظریں نہیں چرانی چاہیے کہ الحدیدہ اس جنگ کا آخری مرحلہ نہیں ہے، امریکہ اور سعودی عرب ایک طولانی ایجنڈے کے تحت پوری دنیا میں سرگرمِ عمل ہیں اور دنیا بھر میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں کے پیچھے ان دونوں ممالک کا ہی ہاتھ ہے۔  

انسانی ہمدردی کے ناتے ہی یہ ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم الحدیدہ میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں پر غم کا اظہار کریں اور  جارحین کی مذمت کریں۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر مناطق کی طرح الحدیدہ سے بھی جارحین زلیل و رسوا ہو کر نکلیں گے لیکن اس جارحیت کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر انسانی و مالی نقصان کا احتمال ہے جس کے تدارک کے لئے عالمی برادری کو سامنے آنا چاہیے۔

انسان کی دو فطری کمزوریاں ہیں، کچھ جاننے کی تمنا اور کچھ کرنے کی امنگ۔الحدیدہ کے حوالے سے ہمیں زیادہ سے زیادہ  حقائق کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور الحدیدہ پر ہونے والی جارحیت کی مذمت  کرنے کی جرات کرنی چاہیے۔

 اگر ہم الحدیدہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور کچھ نہیں کرتے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ حق و باطل کے معرکے میں غیر جانبدار ہوجانا یا خاموش ہوجانا در اصل باطل کی ہی مدد ہے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) رات کا وقت تھا، محل میں مکمل سنّاٹا تھا، بادشاہ کے کمرے میں ایک وزیر بادشاہ کے ساتھ محو گفتگو تھا، اتنے میں محل کی چھت سے دھڑام کے ساتھ کوئی چیز زور سے نیچے گری اور پورے محل میں شور شرابا مچ گیا، لوگ ڈر کے مارے ادھر ادھر بھاگنے اور چھپنے لگے، بادشاہ بھی سراسیما ہوگیا، کچھ دیر بعد شور ختم ہوگیا تو پتہ چلا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں تھی بلکہ چھت سے کسی نے ایک بہت بڑا برتن نیچے پھینکا تھا۔

بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ سب لوگ ڈرے اور بھاگے لیکن تم کیوں نہیں ڈرے!؟ وزیر نے کہا جناب عالی میں نے ہی  آج رات کے اس وقت پر یہ برتن گرانےکا حکم دیا تھا، اور میرا مقصد آپ کو یہ سمجھانا تھا کہ اگر انسان کو پہلے سے ہی واقعے کا پتہ ہو تو انسان وقت آنے پر گھبراتا نہیں ہے، اگرچہ برتن گرنے کی یہ آواز میرے لئے بھی خوفناک تھی لیکن چونکہ میں اس کی منصوبہ بندی سے پہلے ہی آگاہ تھا سو میں اس  کی آواز سے نہیں ڈرا۔

اس وقت پاکستان کے عوام انتخابات پر نظریں لگائے ہوئے ہیں، جبکہ پاکستان کے مسائل  پاکستانی انتخابات سے  ہٹ کر بھی بہت زیادہ ہیں،خصوصا جب سے عراق میں امریکہ و سعودی عرب کی پالیسیوں کا جنازہ نکلا ہے اور شام میں داعش اور اس کے سرپرستوں  کو دندان شکن شکست ہوئی ہے تو اب امریکہ و سعودی عرب کے لئے اپنے وجود کی بقا کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

اگرچہ سعودی عرب اپنا غصہ یمن پر بمباری کر کے نکال رہا ہے لیکن اسوقت امریکہ اور سعودی عرب پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ ممالک کوآپس میں  لڑوا کر اور دہشت گرد گروپوں کے ساتھ الجھا کر اپنا تسلط قائم رکھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

شام میں حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل نواز داعشیوں کی شکست نے  امریکہ و سعودی عرب کی بوکھلاہٹ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ظاہر ہے اگر شام میں داعش کا مکمل صفایا ہوجاتا ہے تو امریکی و سعودی پالیسیوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ چنانچہ امریکہ و سعودی عرب کے لئے اب داعش کو بچانا اور محفوظ بنانا ضروری ہے لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ کی طرح داعش پر بھی شکست کی مہر ثبت ہو چکی ہے لہذا اب داعش کی جگہ دہشت گردوں کا کوئی نیا نام رکھ کر  پرانے دہشت گرد ٹولوں کو  نئے سرے سے منظم کیا جانے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل اور ہندوستان کی ایما پر نئے دہشت گردوں کو افغانستان کے شمال میں منظم کیا جا رہا ہے۔چونکہ اسرائیل اور ہندوستان کو دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کھٹکتا ہے لہذا وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے۔

چنانچہ وہی لوگ جو اسلام آباد کی لال مسجد میں جمع ہو کر پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بنے تھے اب انہیں افغانستان کے شمال میں جمع کیا جارہا ہے۔ اس مقصد کے لئے سعودی عرب نے پہلی فرصت میں  80 ملین ڈالرز کی رقم فراہم کی ہے۔

ہندوستان اور اسرائیل کے لئے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ عنقریب افغانستان سے نئے نام اور نئی توانائی کے ساتھ دہشت گرد گروپ پاکستان پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ان نئے دہشت گردوں کے فعال ہونے سے سعودی عرب اور امریکہ کو بھی  یہ فائدہ ہوگا کہ افغانستان سے ایران کو بھی کنٹرول کیا جا سکے گا اور روس اور چین کو بھی نکیل ڈالی جا سکے گی۔

ایسے میں ہماری ساری توجہ انتخابات پر مرکوز ہے جبکہ ہمارے ہمسائے میں پاکستان کے لئے  نئی منصوبہ بندی کے ساتھ نئے دشمن  ٹولےتراشے جا رہے ہیں،  یعنی اگلے چند ماہ میں عراق اور شام کے بعد دہشت گرد ٹولے پاکستان کو اپنی وحشت و بربریت کا نشانہ بنائیں گے۔

افغانستان کو مزید جنگوں میں جھونکنے کے لئے جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے اور اس کی پسماندگی میں طالبان اور القائدہ و داعش کی مدد سےمزید اضافہ کیا جا رہاہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف اور یو ایس ایڈ کی طرف سے جاری شدہ حالیہ اعدادو شمار کے مطابق افغانستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں  2002 کے بعد پہلی مرتبہ  تیزی  سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سات سے 17 سال عمر کے 37 لاکھ یعنی تقریباً 44 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔وزیرِ تعلیم میر واعظ بالغی نے بتایا کہ سکول نہ جانے والے 37 لاکھ میں سے 27 لاکھ لڑکیاں ہیں۔

اس وقت ایک طرف تو ہم سی پیک کے خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک ناخواندہ اور پسماندہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف  بھرپور طریقے سے منظم کیا جارہا ہے۔

پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ادارے آنکھیں بند کر کے انتخابات ، انتخابات کی رٹ لگانے کے بجائے بدلتے ہوئے حالات اور شمالی افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی گہری نگاہ رکھیں۔اگر انسان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے تیار ہو تو وہ بڑی سے بڑی مشکل کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے۔اگر ہم اپنے دشمنوں کی پلاننگ سے پہلے ہی باخبر ہونگے تو وقت آنے پر گھبرانے کے بجائے انہیں بہترین جواب دے پائیں گے۔

پاکستان کے خلاف امریکہ، سعودی عرب، افغانستان ، اسرائیل اور ہندوستان کیا نئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ، اس کو جاننے کے لئے بین الاقوامی میڈیا سے مربوط رہیے خصوصاً اس لنک پر بھی بہت کچھ پڑھنے کو مل سکتا ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Page 4 of 21

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree