وحدت نیوز( آرٹیکل)تاجربہت اداس تھا، طوطا بھی پریشان ہوگیا، اس نے پنجرے میں اپنے پر پھڑ پھڑائے، پنجرے کی سلاخوں کو چونچ سے ٹھوکریں ماریں، لیکن تاجر اس کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل گیا۔ ننھا طوطا یہ سمجھ گیا کہ اس کا مالک اس سے آنکھیں چرارہا ہے، شام کو تاجر گھر لوٹا تو پھر وہی منظر تھا، تاجر کی ا داسی اور طوطے کی پھڑ پھڑاہٹ۔
بالآخر طوطے نے مالک سے اداسی کی وجہ پوچھی، مالک نے گھبراتے ہوئے طوطے کی طرف دیکھا، ماتھے سے پسینہ صاف کیا، اور لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا کہ میاں مٹھو! تمہارے لئے بہت بری خبر ہے میرے پاس۔
طوطے نے کہا وہ تو میں جان ہی چکا ہوں ، کئی دنوں سے آپ کے بدلے ہوئے تیور دیکھ رہا ہوں، اب بتا بھی دیجئے!
تاجر نے کانپتے ہوئے بدن اور لرزتی ہوئی زبان سے جواب دیا کہ تمہارے نقشے کے مطابق جب میں فلاں باغ میں پہنچا تو وہاں تو عجب منظر تھا، ہرطرف چہک مہک تھی، سبزہ ہی سبزہ اور سبزے میں رنگ برنگے طوطے، میں نے اُن طوطوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اے فطرت کی رنگینیوں اور کائنات کے حُسن سے لطف اندوز ہونے والے آزاد پرندو تمہارے لئے فلاں علاقے کے فلاں تاجر کے پنجرے میں قید ایک طوطے نے سلام بھیجا ہے۔۔۔
یہ سُن کر پنجرے میں قید طوطے نے ٹھنڈی آہ لی اور مالک سے پوچھا پھر کیا ہوا!؟
مالک نے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے کہا کہ یہ سنتے ہی سارے طوطے درختوں سے نیچے گر گئے اور ہرا بھرا باغ سنسان ہوگیا۔یہ سننا تھا کہ پرندے میں قید طوطے نے غم سے چیخیں ماریں اور پنجرے کی سلاخوں سے سر پٹخ کر وہیں مر گیا۔
تاجر کے غم اور دکھ میں مزید اضافہ ہوگیا، اس نے طوطے کو پنجرے سے نکالا اور دور پھینک دیا ، طوطے نے فوراً اڑان بھری اور درخت پر جاکر بیٹھ گیا اور اپنے آپ کو کہنے لگا آزادی مبارک۔
اس حکایت سے ان گنت نتائج لئے جاتے ہیں، ان نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ کسی کو جب قیدی اور غلامی سے نجات چاہیے ہوتو اس کے سامنے ایک رول ماڈل اور نمونہ عمل موجود ہونا چاہیے جس کے عمل کے مطابق عمل کر کے غلامی سے آزادی حاصل کی جائے۔
پنجرے میں قید طوطے کے لئے باغ کے آزاد طوطوں نے ایک عملی پیغام بھیجا تھا جس پر عمل کر کے اس نے بھی آزادی حاصل کی۔ آج ہمارا ملک ، ہماری قوم ، اقتصادی، ثقافتی،سائنسی،تعلیمی اور سیاسی غلامی میں گرفتار ہے، کیا ان طرح طرح کی غلامیوں سے ہمارے یہ سیاستدان ، ہمیں نجات دلائیں گے! کیا ہمارے یہ سیاستدان ہمارے لئے رول ماڈل اور نمونہ عمل ہیں اور اِن کے نقشِ قدم پر چل کر ہم کوئی مثبت تبدیلی حاصل کریں گے!؟
کیا آنے والے انتخابات میں یہ فرسودہ پارٹیاں، یہ روایتی نعرے اور یہ غرب زدہ لیڈر ہمارے ملک میں تبدیلی لائیں گے!؟
اتنی لاشیں اٹھانے اور اتنی غربت و فقر کاٹنے کے باوجودکیا ہم نے ابھی تک دینِ اسلام کی طرف لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا!؟ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق پیغمبرِ اسلام ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور پیغمبرِ اسلام کے اسوہ حسنہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو آزادی و خودمختاری کے ساتھ جینا ،دنیا کے ہرانسان کا بنیادی اور فطری حق ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ تبدیلی کہتے کسے ہیں؟
اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کلین شیو کی جگہ داڑھی والا اقتدار میں آجائے، پینٹ شرٹ کی جگہ شلوار قمیض والا اسمبلی میں پہنچ جائے،انگلش کی جگہ اردو بولنے والا الیکشن میں جیت جائے، سرخ رنگ کے پرچموں کی جگہ سبز رنگ والے پرچم چھا جائیں تو یہ سب ہماری سادگی اور کم فکری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تبدیلی کے مفہوم کو سمجھا ہی نہیں، یہ سب کچھ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک کمرے میں کبھی سرخ رنگ کریں، کبھی سفید کریں، کبھی سیاہ کریں اور کبھی نیلا کریں لیکن اس سے کمرہ کشادہ ، کھلا اور آپ کی ضرورت کے مطابق وسیع نہیں ہو جائے گا۔
کمرے کے رنگ بدلنے سے کمرے کی گولائی، چوڑائی اور لمبائی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔آج ہماری سیاسی پارٹیاں حقیقی معنوں میں دیانت، شرافت، صداقت اور عدالت کھو چکی ہیں، ہر طرف لوگوں کے جذبات سے کھیلنے،بے اصولی اور دوسروں کو بے وقوف بنانے کا چلن ہے۔
ایک طرف جماعتوں کے سربراہ مشال خان کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف جماعت کے سرکردہ لوگ اور کارکنان قاتلوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں، ایک طرف تعلیمی اداروں میں اسلامی کلچر کے نعرے لگائے جاتے ہیں اور دوسری طرف نعرے لگانے والوں کے ہاسٹلوں کے کمروں سے دہشت گرد برآمد ہوتے ہیں، ایک طرف تبدیلی اور غیر موروثی سیاست کی باتیں کی جاتی ہیں تو دوسری طرف ایک دوسرے کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے ۔
بحیثیتِ قوم یہ لوگ ہمارے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں اور ہمیں بے وقوف بناتے ہیں۔ اگر ہم اس ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں بلاتفریق تعصب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اسلامی تعلیمات میں تبدیلی کے تین بنیادی عناصر ہیں:
۱۔ تمام بیت المال، زمینی، معدنی اور آبی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھا جائے
۲۔ تمام انسانوں کو بلا تفریق اللہ کے بندے اور غلام سمجھا جائے
۳۔ تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق ہر طرح کی دینی و مذہبی آزادی دی جائے اور کسی کی دل آزاری نہ کی جائے
جب ہمارا سیاسی و مذہبی طبقہ تمام بیت المال اور زمینی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھے گا تو پھر امریکہ کے مفاد کے لئے بیت المال سے پیسہ دے کر لوگوں کے بچوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ نہیں دے گا۔
جب معدنی اور آبی زخائر کو اللہ کی ملکیت سمجھا جائے گا تو کسی صوبے کا حق نہیں مارا جائے گا، جب تمام انسانوں کو بلا تفریق اللہ کے بندے اور غلام سمجھا جائے گا تو پھر موروثی سیاست کا تصور ہی ختم ہوجائے گا اور کوئی وڈیرہ ، کوئی بدمعاش اور کوئی لٹیرا لوگوں پر زبردستی حکومت نہیں کر سکے گا ، اسی طرح جب تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق آزادی دی جائے گی تو کوئی مذہبی پنڈت کسی کی تکفیر نہیں کرے گا اور کوئی کسی کی عبادت گاہ کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔
آج ہمارے ہاں بنیادی مسائل ہی یہ تین ہیں، بیت المال اور زمینی ذخائر کو اللہ کی امانت سمجھنے کے بجائے ہمارے سیاستدان امریکہ اور یورپ کی امانت سمجھتے ہیں، اور ان قومی وسائل اور ذخائر سے اسلام کے دشمنوں کی خدمت کرتے ہیں جیسا کہ ٹرمپ نے صرف سعودی عرب کے ایک دورے میں اربوں کے تحائف حاصل کئے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کا بندہ سمجھنے کے بجائے اپنے اپنے خاندان ، شخصیات، پارٹیوں اور تنظیموں کا بندہ، غلام اور نوکر سمجھا جاتا ہے اور مختلف قسم کے پروپیگنڈوں کے ذریعے لوگوں کو باقاعدہ ذہنی غلام بنایا جاتا ہے۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تمام ادیان و مسالک کو دینِ اسلام کے مطابق آزادی دینے کے بجائے اپنے فرقے یا پارٹی کو مسلط کرنے کے لئے ساری حدود پھلانگ دی جاتی ہیں ۔ جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سانحہ راولپنڈی میں ایک فرقے کے لیڈروں نے ایک دوسرے فرقے کو دبانے کے لئے خود اپنے مدرسے کو آگ لگا دی اور اپنے لوگوں کو قتل کردیا۔
جب اس طرح کے مذہبی اور سیاسی لیڈر ہم پر حاکم ہیں تو اس وقت اس قوم کے سمجھدار اور باشعور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو بیدار اور خبردار کریں۔
جوخوددوسروں کولوٹ کر کھاتے ہیں، جن کی زبان پر گالیاں ہیں ، جن کے دامن پتھروں سے بھرے ہوئے ہیں، جن کے دماغوں میں سازشیں اور فتنے ہیں،جن کی سوچوں میں تعصب ہے، جو فرقے اور صوبے کے نام پر بھائی کو بھائی سے لڑوا کر اور ایک دوسرے کو گالیاں دے کر نیز عوامی جذبات کو بھڑکا کر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ، اُن سے کسی تبدیلی کی امید رکھنا حماقت ہے۔
ہمیں ابھی سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ا ٓنے والے انتخابات میں یہ فرسودہ پارٹیاں، یہ روایتی نعرے اور یہ غرب زدہ سیاسی و مذہبی لیڈر ہمارے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے، ہم سب کو ان سب کا متبادل سوچنا ہوگا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) سب کو جدید نظام چاہیے، سب تبدیلی کے خواہش مند ہیں، تبدیلی اور نئے نظام سے پہلے ہم پرانے نظام کو تو سمجھیں، جب ہم پرانے نظام کو سمجھ سکیں گے تو پھر اس کی جگہ جدید نظام لا سکیں گے۔
پرانا نظام کیا ہے،!؟کسی طاقتور فرد، قوم ، قبیلےیا گروہ کی کمزور پر حکومت کو پرانا نظام کہتے ہیں، اسے چاہے آپ آمریت کہیں یا جمہوریت ۔اگر انسان ، انسان کو غلام بنا لیتا ہے، ایک قوم دوسری قوم کو دبا کر رکھتی ہے ، ایک قبیلہ دوسرے حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، ایک لیڈر دوسرے لیڈر کی اہانت کرنے اور گالیاں دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا تو یقین جانئے یہی فرسودہ اور پرانا نظام ہے۔
جدید نظام وہ ہے جو خدا نے انسانوں کے لئے بھیجا ہے، جس میں کوئی طبقاتی فرق، لسانی تفریق، علاقائی تقسیم اور گروہی جھگڑا نہیں ہے ، اس جدید نظام میں کالے اور گورے، عربی اور عجمی، قریشی اور حبشی، مشرقی اور مغربی کی کوئی تقسیم نہیں ہے، سب کے حقوق مساوی ہیں اور سب کے فرائض مشخص ہیں۔
اس جدید نظام میں اگر بھوک کے مارے لوگوں نے اپنے پیٹ پر ایک ایک پتھر باندھ رکھا ہے تو ان کے امیر و سردارنے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے ہیں، اس جدید نظام میں ریاست کا امیر نمک کے ساتھ کھانا کھاتا ہے اور ریاست کے سب سے غریب شخص کے معیارِ زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے ، اس جدید نظام میں ملک کا سربراہ اپنی سرکاری ڈیوٹی انجام دینے کے بعد کسی یہودی کے باغ میں مزدوری کر کے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔
اس جدید نظام میں پارٹی کا سربراہ کسی کو گالیاں نہیں دیتا بلکہ اس کا حسنِ اخلاق اور کرادر دیکھ کر لوگ اس کے نام کا کلمہ پڑھنے لگتے ہیں۔
جی ہاں یہ ہے فرعونوں، شدادوں، نمرودوں، سامریوں ، بادشاہوں اور لٹیروں کے مقابلے میں جدید نظام ۔
اسی نظام کی خاطر خدا نے انبیا بھیجے اور کتابیں نازل کیں ، اسی نظام کی خاطر انبیا نے جیلیں برداشت کیں، صعوبتیں کاٹیں اور شہادتوں کو گلے لگایا، اسی نظام کی خاطر سرورِ کونینﷺ نے ہجرت کی، پتھر کھائے اور اپنے دانت شہید کروائے۔
یہ ہے انسانی اقداراور الٰہی عدل پراستوا دنیا کا جدید ترین نظام ،جسے ہم اسلام کہتے ہیں۔
آج ہمارے ہاں اسلام کے بجائے فراعین، ملوکیت اور نام نہاد جمہوریت کا قدیمی چربہ حکومت کر رہاہے۔ چنانچہ جب زینب کے والدین بیت اللہ کی زیارت کے لئے جاتے ہیں تو پیچھے ایک پانچ وقت کا نمازی اور نعت خوان ننھی زینب کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنا تا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ ملزم نے مزید پانچ بچیوں سے زیادتی کا اعتراف بھی کیا ہے ۔
قارئین کرام! جس سوسائٹی میں امیرِ شریعت اور پیر طریقت کہلانے والے لوگ دوسروں کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوں وہاں پر کسی نعت خوان سے بدکرداری کا کیا گلہ کیا جائے!!!
ہمارے معاشرے میں سب لوگ محبت، امن ، اخوت اور رواداری سے رہتے تھے، پاکستان بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ اس میں سب مسلمان آزادانہ زندگی بسر کریں گے لیکن چند اللہ والے اٹھے انہوں نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنایا، دوسروں کی تکفیر شروع کی اور ملک میں جی بھر کر قتلِ عام کیا اور آج نوسو چوہے کھا کر بلی پیغامِ پاکستان کے نام سے حج کرنے چلی گئی ہے۔
قارئین کرام ! جس ملک میں ایک ایس ایس پی اڑھائی سو لوگوں کو آن دی ریکارڈ موت کے گھاٹ اتار دے اس ملک کے حافظوں اور قاریوں سے قانون کی پابندی کا کیا تقاضا کیا جائے!!!
پرانی بات نہیں، ابھی چند دن پہلے کی ہی بات ہے ،علی ٹاﺅن کا رہائشی 15 سالہ زین کام کی غرض سے علاقہ کے مدرسہ میں قاری نوید کے پاس گیا تو قاری اسے بہلا پھسلا کر اپنے حجرے میں لے گیا اور اس کے ساتھ بدفعلی کر ڈالی.[1] تھانہ رضا آباد کے اے ایس آئی علی جواد کا کہنا تھا کہ واقعہ کا مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ مگر دونوں کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔
قارئین کرام جہاں پر والدین درندوں کے ساتھ صلح کر لیتے ہوں وہاں پر بچوں کے حقوق کے درس کسے دئے جائیں!!!
اب یہ صلح بھی اللہ کے نام پر کی جاتی ہے ، جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ کراچی کے بن قاسم ٹاؤن کے علاقے میں 8 سالہ طالب علم کو تشدد کرکے ہلاک کرنے والے مدرسے کے استاد کو بچے کے والدین نے معاف کردیا۔ تفصیلات کے مطابق طالب علم محمد حسین کو مدرسے کے قاری نجم الدین نے ماضی میں مبینہ طور پر جسمانی سزا دی تھی، جس کے بعد طالب علم مدرسے سے بھاگ گیا تھا۔
تاہم جمعہ کے روز محمد حسین کے والدین اسے دوبارہ مدرسے لے آئے تھے۔
محمد حسین سے جب مدرسے سے دوبارہ فرار ہونے کی کوشش کی تو قاری نجم الدین نے اسے پکڑ کر شدید تشدد کیا، جس سے طالب علم کی موت واقع ہوگئی۔[2]
یہ اس بچے کے ساتھ ہوا ہے جو بچہ حافظ قرآن بننے آیا تھا، کیا کہنے اُن ولدین کے جو اپنے بچے کے درندہ صفت قاتل کو بھی فی سبیل اللہ معاف کر چکے ہیں، اب جو والدین بچوں کو مدرسوں میں بھیجتے ہی خود کُش بننے کے لئے ہیں اُن سے کیا گلہ اور کیا شکوہ کیا جائے!!!
صرف یہی نہیں ہو رہا بلکہ چاولوں اور آٹے میں بھی پلاسٹک ملا کر لوگوں کو کھلایا جا رہا ہے ، جعلی دوائیاں بک رہی ہیں لوگوں کو جعلی سٹنٹ ڈالے جارہے ہیں اور مریضوں کے گردے نکال کر بیچے جا رہے ہیں ۔۔۔
یہ سب کچھ اس لئے ہورہا ہے چونکہ ہم نے جدید نظام کے طور پر قدیم جاہلیت ،پرانے مذہبی پنڈتوں، گالی گلوچ اور غنڈہ گردی کی سیاست کو اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام حاکم ہو اور اللہ کے بندے سکھ کا سانس لیں تو ہمیں قدیم فرعونی رسومات، خاندانی سیاست ، پارٹیوں کی غلامی ، قبیلوں کی سیاست اور وڈیروں کی چودھراہٹ سے ہٹ کر اللہ کی رضا کے لئے اللہ کے نیک بندوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔
جدید نظام یعنی اللہ کے بندوں پر اللہ کی حکومت
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) سچائی فتووں کی محتاج نہیں ہوتی، البتہ سچائی کی خاطر زبان کھولنے کے لئے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے،۱۶ جنوری ۲۰۱۸ کو منگل کے روز ایوان صدر اسلام آباد میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی ، جس میں سینکڑوں علما اور دانشوروں کے دستخطوں سے یہ فتویٰ جاری کیا گیا کہ دہشت گردی کی ترغیب دینے والے، خودکش حملوں کی تربیت، اوردہشت گردی کا حکم دینے والےاور ان کے حکم پر عمل کرنے والے یہ سب لوگ اسلامی تعلیمات کے باغی ہیں، فتوے کے متن کے مطابق متحارب جہاد کا حکم صرف ریاست کا اختیار ہے اور اپنے طور پر یہ عمل کرنے والے باغی تصور کیے جائیں گے۔
اس فتوے میں دہشت گردی کو اسلام کے منافی اور طاقت کے زور پر اپنے نظریات مسلط کرنے والوں کو اسلامی تعلیمات کا باغی قرار دیا گیا۔
اس فتوے میں جوکچھ بیان کیاگیا ہے ، اس میں کوئی بھی نئی بات نہیں ہے، یہ اسلام کی چودہ سو سالہ تعلیمات ہیں جن کا اعادہ کیا گیا ہے ، البتہ اس فتوے کا صدور اس حقیقت کی غمازی ضرورکرتا ہے کہ عصر حاضر میں کچھ لوگ خوارج کی طرح دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے منحرف ہو گئے ہیں اور انہیں راہِ راست پر لانے کے لئے اس فتوے کا سہارا لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس فتوے پر 1829 علمائے کرام کے دستخط لیے گئے ہیں اور صدرِ پاکستان سمیت ، پاکستان کی کئی اہم شخصیات نے اس فتوے کی تائید کی اور اسے مثبت پیشرفت کا نام دیا۔
یہاں پر یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ یہ فتویٰ ایسے وقت میں دیا گیا ہے کہ جب دہشت گردوں کے حقیقی سرپرستوں یعنی امریکہ، ہندوستان اور افغانستان کی طرف سے بار بار پاکستان پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
دوسری طرف سعودی عرب نے بھی بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے تناظر میں تکفیر یت، تحریک طالبان و مولوی صوفی محمد کی کالعدم نفاذ شریعتِ محمدی، لشکر جھنگوی ، القاعدہ او رداعش وغیرہ کی سرپرستی سے تقریباً ہاتھ کھینچ لیا ہے۔
چنانچہ ان سارے گروہوں کو بھی اب ایک پناہ گاہ کی ضرورت ہے ۔ایسے میں ریاستِ پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بننے دے اور اس بیانیے کی روشنی میں دہشت گردوں کے خلاف قانونی اور عسکری کارروائیاں جاری رکھی جائیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اس سے پہلے بھی مختلف علمائے کرام فتوے دیتے رہے ہیں اور دہشت گردی کرنے والے لوگ بھی دہشت گردی کے حق میں فتوے جاری کرتے رہے ہیں۔جہاں تک فتووں کی بات ہے تو دونوں طرف دہشت گردی کے حق میں بھی اور دہشت گردی کے خلاف بھی فتووں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں فقط کاغذی طور پر فتویٰ فتویٰ کھیلنے سے ریاست اور عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔
اس فتوے پر اٹھارہ سو کے بجائے اگر ۱۸ ہزار علما بھی دستخط کر دیں لیکن اگر حکومت ریاست کے دشمنوں کو دار پر نہ لٹکائے، مقتولین کا قصاص نہ لئے، فتنہ گروں کی سرکوبی نہ کرے اور تکفیر کرنے والوں کو لگام نہ دے تو اس فتوے کی حیثیت ردّی کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔
اس فتوے کے باوجود اگر نفرت انگیز تقریریں اور نعرے بند نہیں ہوتے، دہشت گردی کی تربیت دینے والے مدارس سیل نہیں ہوتے ، مغرضانہ اور باغیانہ لٹریچر چھپتا رہتا ہے ،ریاستی اداروں کی رٹ کو چیلنج کیا جاتا ہے تو پھر دہشت گردوں کی از سرِ نو حوصلہ افزائی ہوگی اور دہشت گرد اپنی بکھری ہوئی طاقت کو سمیٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونگے۔
ہماری ریاست کو چاہیے کہ ریاستی اداروں کے ذریعے اس فتوے کی طاقت اور اہمیت کا اظہار کرے۔ اگر ریاستی ادارے اس فتوے کی اہمیت کے قائل نہیں ہوتے اور اس فتوے کی طاقت کا لوہا نہیں منواتے تو پھر اس فتوے کی ناکامی بھی ریاست کی ہی ناکامی تصور ہوگی۔
اب بات فتوے سے آگے بڑھ چکی ہے، بین الاقوامی پسِ منظر میں پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں، ایسے میں ریاستِ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کے تحفظ اور عالمی برادری کے دباو کا بھی یہی تقاضا ہے کہ پاکستان اپنے دفاعی اتحادیوں اور اسٹریٹیجک اثاثہ جات پر نظرِ ثانی کرے۔
حالات تیزی سے تبدیل ہو چکے ہیں ایسے میں پیغامِ پاکستان جہاں ساری دنیا کے لئے ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے وہیں خود پاکستان کی انا اور بقا کا مسئلہ بھی ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) مبارک ہو!پیغامِ پاکستان فتویٰ صادر ہوگیا۔ اب اس فتوے کی قانونی حیثیت کیا ہے اس کی کسی کو خبرنہیں لیکن تعریفوں کے ڈونگے برسائے جا رہے ہیں دوسری طرف یہ بھی مبارک ہو کہ کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد بھی ان دنوں پاکستان کے آئین پر ایمان لے آئے ہیں اور اُن کے ایمان کی قانونی حیثیت کا بھی ابھی تک کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
اب جن کی قانونی حیثیت سب پر عیاں ہے ان کی کارکردگی بھی کچھ تسلی بخش نہیں، اس طرف سے بھی بعض چونکا دینے والی خبریں گردش کر رہی ہیں جیسے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں کراچی میں دوجعلی پولیس مقابلے ہوئے، بغیر کسی کریمنل ریکارڈ کے پولیس نے جعلی مقابلوں میں دو نوجوان ٹھکانے لگا دیے۔انیس سالہ انتظار احمد کو ڈیفنس میں صرف گاڑی نہ روکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا اور نقیب اللہ محسود کو سچل گوٹھ کے قریب پولیس نے پار کر دیا۔
دونوں کے کیس میں لواحقین اور عوام نے پولیس پر عدم اعتماد ظاہر کیاہے اور اسے کھلی پولیس گردی سے تعبیر کیا ہے۔مبینہ طور پر صرف ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اب تک پولیس مقابلوں میں ڈھائی سو سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے. میڈیا کے مطابق نقیب اللہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسے گھر سے حراست میں لینے کے بعد ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
واضح رہے کہ راؤ انوار پر اس سے پہلے بھی جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ نوجوانوں کو ہلاک کرنے اور زمینوں پر قبضے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ انہیں 2016ء میں بھی معطل کیا گیا تھا تاہم بعدازاں اعلیٰ سطح سے آنے والے دباؤ کے بعد کچھ ہی عرصے میں بحال کردیا گیا۔ 2016 میں ایک انٹرویو میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ وہ اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ پولیس مقابلے اور ان میں درجنوں مبینہ ملزمان کو ہلاک کرچکے ہیں۔
جہاں تک پولیس کے لگے ناکوں کو دیکھ کر لوگوں کے فرار ہونے کا تعلق ہے تو اس میں ایک عنصر یہ بھی ہے کہ بعض متاثرین کے مطابق پولیس والے ناکے لگا کر ڈاکووں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں اور جو کچھ لوگوں کی جیب میں ہو وہ ابھی انیٹھ لیتے ہیں اور اس کے علاوہ گھڑیاں اور موبائل تک ہتھیا لیے جاتے ہیں۔
یہ سارے الزامات اپنی جگہ قابلِ تحقیق ہیں البتہ ایک فوری کام یہ بھی ہے کہ پولیس والوں کی اخلاقی تربیت کرنے نیز حرام خوری اور رشوت خوری کے خلاف بھی ایک مشترکہ فتویٰ اور قومی بیانیہ منظرِ عام پر آنا چاہیے ۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام سے ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے کہ جو پولیس کی مسلسل نگرانی کرے اور موصولہ شکایات پر نوٹس لے۔
عوام میں ظلم، استحصال، حرام خوری اور رشوت کے خلاف آگاہی اور شعور کی مہم چلانا بھی علمائے دین کا اوّلین فریضہ ہے، اگر ٹرمپ کے ڈالر رکنے پر پیغامِ پاکستان صادر ہو سکتا ہے تو ملک میں حرام خوری اور رشوت خوری کے خلاف نیز مختلف اداروں کے جبر و استحصال کے خلاف کوئی مشترکہ فتویٰ یا بیانیہ کیوں صادر نہیں ہو سکتا۔
بہرحال آئین پاکستان سے صوفی محمد جیسے لوگ کھیلیں یا پولیس وردی میں ملبوس حضرات یہ ارباب حلو عقد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اصلاحِ احوال پر توجہ دیں۔ اگر ٹرمپ کے دباو پر سارے مسالک کے علام حضرات کو ایک میز پر بٹھایا جاسکتا ہے تو عوامی شعور اور یکجہتی کے ساتھ پولیس کو بھی راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی و عوامی اکابرین لعن طعن اور گالی گلوچ کی سیاست سے ہٹ کر عوامی سطح پر آکر مسائل کو درک کریں اور مسائل کے حل کے لئے عملی کوشش کریں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) صورتحال کشیدہ ہے، بارڈر لائن پر فائرنگ جاری ہے ، اندرون ملک سیاسی ہنگامہ آرائی بدستور قائم ہے اور ایسے میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو چھے روزہ دورے پر اتوار کو بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچ چکے ہیں۔
قارئین کو ایک مرتبہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے وقت مسٹر مودی ہی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس وقت وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس دورے میں نیتن یاہو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور صدر رام ناتھ کوِند سے الگ الگ ملاقات کریں گے۔اس کے علاوہ وہ بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ سی ای او فورم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
بھارت اس سے پہلے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو بھی مکمل اپنی گرفت میں لے چکا ہے،بھارت اور سعودی عرب کے درمیان ۲۰۰۶ء کا ’’معاہدہ دلّی‘‘ اور ۲۰۱۰ء میں طے پانے والا ’’ریاض معاہدہ‘‘ اس قدر اساسی اہمیت کا حامل ہے کہ تجارت کے علاوہ سیکورٹی کے معاملات اور اسلحے کے لین دین کے سلسلے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم معاملات طے پا چکے ہیں۔
بعد ازاں نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو مودی کو سعودی عرب کا سب سے اعلیٰ سول اعزاز ’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘ دیا گیا ہے۔
اس وقت نیتن یاھو کے ہمراہ 130 تاجروں ، 100 مختلف کمپنیوں کے سربراہوں اورجنگی طیارے بنانے والی کمپنی ایروناٹکس کے عہدیدار بھی اس عزم کے ساتھ دہلی پہنچے ہیں کہ اس دورے میں چار سے 10 ارب ڈالر کے سالانہ تجارتی معاہدوں کی منظوری دی جائے گی۔
قارئین کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اس دورے کے علاوہ بھی اس وقت بھارت اسرائیلی اسلحے کا دنیا میں دوسر ا بڑا خریدار ملک ہے۔
اسلحے کی اس خریدو فروخت سے عالمِ بشریت کو کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔نیتن یاھو کا یہ دورہ جہاں پاکستان اور کشمیریوں کے لئے حساسیت کا باعث ہے وہیں ہندوستان میں مقیم مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے بھی خطرے کا الارم ہے۔
سب سے بڑھ کر اس وقت کی ضرورت یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کو اِن لمحات میں ہندوستان و پاکستان کے عوام کی طرف سے ہم آہنگی اور محبت کا پیغام جانا چاہیے۔ ہندوستانی و پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ انسانی اور جمہوری بنیادوں پر فلسطینی عوام کے حق میں اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کریں اور ہندو پاک کے عوام کی طرف سے ، فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں ۔ اس کے علاوہ اسرائیلی و امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لئے بھی عوام میں آگاہی اور شعور کی تحریک چلائی جانی چاہیے۔
ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر دنیا بھر کے عوام فکری اور شعوری طور پر ایک ہوجائیں تو ظالم و جابر حکمران اُن کے سامنے بے بس ہو جائیں گے اور اپنی جارحانہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
ہنداورپاکستان۔۔۔ کھول آنکھ زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فضا دیکھ
وحدت نیوز(آرٹیکل)صورتحال کشیدہ ہے، بارڈر لائن پر فائرنگ جاری ہے ، اندرون ملک سیاسی ہنگامہ آرائی بدستور قائم ہے اور ایسے میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو چھے روزہ دورے پر اتوار کو بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچ چکے ہیں۔
قارئین کو ایک مرتبہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے وقت مسٹر مودی ہی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس وقت وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، اس دورے میں نیتن یاہو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور صدر رام ناتھ کوِند سے الگ الگ ملاقات کریں گے۔اس کے علاوہ وہ بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ سی ای او فورم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
بھارت اس سے پہلے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو بھی مکمل اپنی گرفت میں لے چکا ہے،بھارت اور سعودی عرب کے درمیان ۲۰۰۶ء کا ’’معاہدہ دلّی‘‘ اور ۲۰۱۰ء میں طے پانے والا ’’ریاض معاہدہ‘‘ اس قدر اساسی اہمیت کا حامل ہے کہ تجارت کے علاوہ سیکورٹی کے معاملات اور اسلحے کے لین دین کے سلسلے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم معاملات طے پا چکے ہیں۔
بعد ازاں نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو مودی کو سعودی عرب کا سب سے اعلیٰ سول اعزاز ’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘ دیا گیا ہے۔
اس وقت نیتن یاھو کے ہمراہ 130 تاجروں ، 100 مختلف کمپنیوں کے سربراہوں اورجنگی طیارے بنانے والی کمپنی ایروناٹکس کے عہدیدار بھی اس عزم کے ساتھ دہلی پہنچے ہیں کہ اس دورے میں چار سے 10 ارب ڈالر کے سالانہ تجارتی معاہدوں کی منظوری دی جائے گی۔
قارئین کو یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اس دورے کے علاوہ بھی اس وقت بھارت اسرائیلی اسلحے کا دنیا میں دوسر ا بڑا خریدار ملک ہے۔
اسلحے کی اس خریدو فروخت سے عالمِ بشریت کو کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔نیتن یاھو کا یہ دورہ جہاں پاکستان اور کشمیریوں کے لئے حساسیت کا باعث ہے وہیں ہندوستان میں مقیم مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے بھی خطرے کا الارم ہے۔
سب سے بڑھ کر اس وقت کی ضرورت یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کو اِن لمحات میں ہندوستان و پاکستان کے عوام کی طرف سے ہم آہنگی اور محبت کا پیغام جانا چاہیے۔ ہندوستانی و پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ انسانی اور جمہوری بنیادوں پر فلسطینی عوام کے حق میں اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کریں اور ہندو پاک کے عوام کی طرف سے ، فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں ۔ اس کے علاوہ اسرائیلی و امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لئے بھی عوام میں آگاہی اور شعور کی تحریک چلائی جانی چاہیے۔
ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر دنیا بھر کے عوام فکری اور شعوری طور پر ایک ہوجائیں تو ظالم و جابر حکمران اُن کے سامنے بے بس ہو جائیں گے اور اپنی جارحانہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان ایک گنجان آباد ملک ہے، دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی انسانوں کے روپ میں درندے بھی رہتے ہیں، ایسے میں انسانیت سوز واقعات کا رونماہو نا ایک فطری عمل ہے البتہ بعض واقعات کا تسلسل کے ساتھ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان واقعات کے پیچھے جہاں دشمن کی منصوبہ بندی ہے وہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی بھی شامل ہے۔
قصور کے علاقے روڈ کوٹ کی رہائشی 7 سالہ بچی 5 جنوری کو ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا ہوئی اور 4 دن بعد اس کی نعش کشمیر چوک کے قریب واقع ایک کچرہ کنڈی سے برآمد ہوئی۔ڈی پی او قصور ذوالفقار احمدکا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر زیادتی کے بعد قتل ہونے والی یہ آٹھویں بچی ہے اور زیادتی کی شکار بچیوں کے ڈی این اے سے ایک ہی نمونہ ملا ہے۔[1]
ایک ہی نمونے کا ملنا سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر زبردست سوالیہ نشان ہے۔ لوگوں نے پولیس کے خلاف جگہ جگہ مظاہرے کئے، سڑکیں بلاک اور مارکیٹیں بند کرکے پولیس کی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑے اور قصور میں ڈی سی آفس کا گیٹ توڑ کر اندر بھی گھس گئے، پولیس نے بھی حسبِ عادت ،مظاہرین پر فائرنگ کر کے تین افراد زخمی کئے۔
مظاہرین کا واویلا یہ تھا کہ قصور میں ایک سال کے دوران 11کمسن بچیوں کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا ہے، لیکن پولیس ابھی تک ایک بھی ملزم کو بھی گرفتار نہیں کر سکی۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس بچی کی نعش جس جگہ سے ملی ہے اس سے پہلے بھی ریپ ہونے والی بچیوں کی لاشیں یہیں سے ملتی رہی ہیں۔
حیف ہے کہ اس سے قبل 2015میں بھی قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی اور زیادتی کے بعد ان کی ویڈیوز بنانے کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔
اس طرح کے جرائم اپنی جگہ پر جاری ہیں اور اب ملکی حالات کا صفحہ الٹ کر دیکھئے، سال ۲۰۱۷ میں بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں دہشت گردوں نے نوسے زائد حملے کئے، ان حملوں میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ابھی بھی جنوری ۲۰۱۸ میں ایک مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے قریب خود کش دھماکہ کر کے سترہ افراد کو زخمی اور پانچ کو شہید کر دیا گیا ہے۔
دہشت گردی کے ان واقعات کا تسلسل کے ساتھ کوئٹہ میں ہوانا اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئٹہ مسلسل دشمن کے نشانے پر ہے۔ دشمن کے سہولت کار اور اصلی مددگار وہ لوگ ہیں جو دہشت گردی کے واقعات کو ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار کہہ کر دہشت گردوں کے چہروں پر نقاب چڑھاتے ہیں۔
کیا دہشت گردی کو ایران و سعودی عرب کی پراکسی وار کہنے والے یہ بتا سکتے ہیں کہ سال ۲۰۱۷ میں کوئٹہ میں دہشت گردی کا جو پہلا واقعہ 23 جون کو آئی جی پولیس کے دفتر کے باہر شہدا چوک پر پیش آیا تو اس میں شہید ہونے والے 13 افراد اور زخمی ہونے والے ۲۱ افراد میں سے کتنے ایرانی تھے!؟
کیا جو دوسرا واقعہ 13 جولائی ۲۰۱۷کو کلی دیبا کے علاقے میں پیش آیا جہاں نامعلوم مسلح افراد نے پولیس موبائل پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایس پی قائد آباد مبارک سمیت چار اہلکار شہید ہوئے۔ان میں سے کتنے ایرانی تھے!؟
کیا تیسرا واقعہ جو 12 اگست ۲۰۱۷ کی رات کو جب سیکیورٹی فورسز کے ٹرک کو دھماکے کا نشانہ بنایا گیا، تو 8 جوانوں سمیت 15 شہری شہید ہوگئے تھے ، اُن میں سے کتنے ایرانی تھے!؟
کیا دہشت گردی کا جو چوتھا واقعہ تیرہ اکتوبر۲۰۱۷ کو فقیر محمد روڈ پر پیش آیا جب نامعلوم مسلح افراد نے گشت کرنے والی پولیس موبائل پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 1 اہلکار شہید ہوا تھا۔کیا وہ اہلکار ایرانی تھا!؟
کیا دہشت گردی کا جو پانچواں واقعہ اٹھارہ اکتوبرکی صبح پیش آیا جب خودکش حملہ آور بارود سے بھری گاڑی کو پولیس ٹرک سے ٹکرا یا گیا اور 7 اہلکاروں سمیت آٹھ افراد شہید ہوئے۔ان شہدا میں سے کوئی ایک بھی ایرانی تھا!؟
کیا دہشت گردی کا چھٹا واقعہ جو پندرہ نومبرکی دوپہر کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں پیش آیا جہاں فائرنگ سے ایس پی سٹی انویسٹی گیشن محمد الیاس، ان کی اہلیہ، بیٹا اور پوتا شہید ہو گئے تھے۔اس سے ایران کا کچھ نقصان ہوا!؟
کیا دہشت گردی کے ساتویں حملے میں۹ نومبرکو کوئٹہ میں فائرنگ سے ڈی آئی جی بلوچستان سمیت تین پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ اور آٹھویں حملے میں 25 نومبر کو کوئٹہ کے سریاب روڈ پر دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے، بتائیے ان شہادتوں سے ایران کا کچھ بگڑا یا پاکستان کا نقصان ہوا!؟
دہشت گردی کے نویں حملے میں زرغون روڑ پر گرجا گھر میں خود کش دھماکہ کر کے 8 افراد کی جان لے لی ، کیا اس سے پاکستان کی بدنامی ہوئی یا ایران کی!؟
ہم سب کو ہماری قومی سلامتی کے اداروں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں کسی طرح کی پراکسی وار نہیں ہو رہی بلکہ یکطرفہ طور پر قتلِ عام اور ظلم ہو رہا ہے۔ خصوصاً بلوچستان کے اندر جتنے بھی دینی مدارس قائم ہیں ان سب کو حکومتی نظارت کے تحت ہونا چاہیے۔
کیا کل کو قصور میں ریپ کرنے والے شخص کوبھی یہ کہہ کر چھوٹ دی جاسکتی ہے کہ یہ بھی پراکسی وار ہے،لاقانونیت چاہے ریپ اور زنا کی صورت میں ہو یا خود کش دھماکوں اور قتل وغارت کی شکل میں، انسانیت دشمن قصور میں ظلم کریں یا کوئٹہ میں، ہم سب کو بحیثیت قوم ظالموں کے خلاف قیام کرنا چاہیے۔اس لئے کہ یہ ملک ہم سب کا ہے اور اس کو ظالموں اور ان کے سہولت کاروں سے پاک کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
آخر میں اس ہفتے میں صوفی محمد اور اُن جیسے چند دیگر افراد کی ضمانت اور بلوچستان اسمبلی کے قریب خودکش دھماکہ ہونے پر اعلیٰ اداروں کی خدمت میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ مائی لارڈ یہ ملک میں یکطرفہ قتل و غارت ہے کوئی پراکسی وار نہیں۔
تحریر۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.