وحدت نیوز(آرٹیکل) ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2018 کا پہلا ٹوئٹ ہی پاکستان سے متعلق کیا جس میں انہوں نے ایک بار پھر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا،ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ امریکا نے پاکستان کو گزشتہ 15 سالوں کے درمیان 33 ارب ڈالر امداد دیکر بے وقوفی کی جبکہ بدلے میں پاکستان نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا، اور ہمارے رہنماؤں کو بے وقوف سمجھا ٹرمپ نے اپنےسوشل میڈیا پیغام میں مزید کہا کہ ہم افغانستان میں جن دہشت گردوں کو تلاش کرتے ہیں پاکستان انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے، لیکن اب مزید ایسا نہیں چلے گا۔[1]

پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان پر الزامات کے بعد امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا اور احتجاجی مراسلہ حوالے کیا ، دفتر خارجہ میں امریکی سفیر پر واضح کیا گیا کہ امریکی صدر کا اربوں ڈالر کا بیان بالکل غلط ہے ، امریکی صدر کے بیان کی وضاحت پیش کی جائے ۔

 علاوہ ازیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ملاقات کی جس میں ٹرمپ کے بیان پر غور کیا گیا جبکہ وفاقی کابینہ کا اجلاس منگل کواور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بدھ کو طلب کیاگیا جس میں ، امریکی صدر کے بیان ، سفارتی اور سیکورٹی پالیسی پر غور کیاگیا ،اس سے قبل فوجی ترجمان میجرجنرل آصف غفور نے 2017ء کی اپنی آخری پریس کانفرنس میں ایسی دھمکیوں کاذکر کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہمیں دھمکیا ں مل رہی ہیں ہمیں ایک قومی بیانیے پر متحد ہونا ہوگا، پاکستان کے معاملے پر ہم سب ایک  ہیں ہم نے 2؍ مسلط کی گئی جنگیں لڑیں ، نومور کا کہہ چکے اور اب کسی کیلئے مزید ڈو مور نہیں ہوگا۔[2]

امریکی صدر کا ٹویٹ اور پاکستان کا شدید ردعمل اپنی جگہ جبکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ایسے دینی مدارس موجود ہیں یا نہیں جو ماضی میں طالبان کی نرسری تھے اور آج بھی حسبِ سابق فعال ہیں۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ پاکستان کے بعض دینی مدارس دہشت گردی کے بیس کیمپ ہیں اور بعض شخصیات بابائے طالبان کہلوانے میں فخر محسوس کرتی ہیں، اس وقت کہ جب پوری دنیا دہشت گردی کے خلاف متحد ہو چکی ہے  تو ہمارے لئے بھی ایک مناسب موقع ہے کہ ہم بھی اپنی ملکی سلامتی کے حوالے سے سابقہ شدت پسندانہ رویوں کو ترک کر کے حقیقت پسندانہ راستہ اختیار کریں۔

ابھی طالبان کو مختلف گروپوں میں تبدیل کرنے کا کھیل بھی دم توڑ چکا ہے، پنجابی طالبان، سندھی طالبان، نیلے طالبان، سرخ طالبان، الغرض یہ کہ ہمیں اپنے وطن کو ہر طرح کے طالبان  اور شدت پسندوں سے پاک کرنا چاہیے۔

شنید ہے کہ امریکہ اسامہ بن لادن کی طرز پر پاکستان میں حافظ سعید کے خلاف بھی کارروائی کرنے کا متقاضی ہے، امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران حافظ سعید کے انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ترجمان محکمہ خارجہ ہیتھر نیورٹ کا کہنا تھا کہ حافظ سعید لشکر طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جسے امریکہ ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتا ہے اور ان کی گرفتاری میں معلومات کے لیے ایک کروڑ ڈالر کے انعام کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔[3]

یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ بیس برس میں ہندوستان میں ہونے والے شدت پسندی کے تقریبا تمام بڑے واقعات میں حافظ محمد سعید کو مورد الزام قرار دیا گیا ہے،[4]

اب صورتحال یہ ہے کہ حافظ سعید صرف امریکہ کو ہی نہیں بلکہ بھارت کو بھی  مطلوب ہیں جبکہ دوسری طرف سوچنے اور سمجھنے کا مقام یہ ہے کہ کیا امریکہ حافظ سعید کی خاطر بھارت کو خوش کرنے کے لئے اپنے پاکستان جیسے قدیمی حلیف کے ساتھ روابط خراب کر لے گا اور یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ  کیا پاکستان کی حکومت  حافظ سعید اور پاکستان میں بعض دینی مدارس کی صورت میں دہشت گردی کے  موجود مراکز کو بچانے کے لئے  پوری ملکی سلامتی کو داو پر لگا دے گی۔

بہر حال یہ وقت پاکستان اور امریکہ دونوں کے لئے ایک کڑے امتحان کا وقت ہے۔

تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) کسی بھی ریاست کا سربراہ ، اس کا ترجمان ہوتا ہے، اس وقت مسٹر ٹرمپ فردِ واحد کا نام نہیں بلکہ امریکی صدر کا نام ہے، وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور کر رہے ہیں اس کے پیچھے مکمل پلاننگ اور نقشہ ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ  دنیا میں ہونے والی پے درپے تبدیلیوں نے در اصل سعودی و  امریکی مفکرین اور اسٹیٹجک اداروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

افغانستان میں  سعودی عرب اور امریکہ طالبان کے بعد دوبارہ طالبان نما حکومت بنانےمیں ناکام ہوچکے ہیں، پاکستان میں شیعہ و سُنّی کا محاز گرم کرکے ایران کے خلاف ماحول بنانے میں بھی  انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے، عرب دنیا میں قطر  پہلے ہی امریکہ نواز اتحاد سے فرار ہو چکا ہے، عراق میں شیعہ  و سنّی و مسیحی اور یزدی مختلف اقوام و ملل نے مل کر داعش و طالبان جیسے دہشت گرد ٹولوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کیا ہے ، اور ادھر شام میں بشار الاسد نے امریکہ اور اس کے حامی عربوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے ہیں ،لبنان کی سیاست سے حزب اللہ کو باہر کرنے کے لئے سعد حریری کو سعودی عرب بلاکر زبردستی  وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ   دلوانے کی چال چلی گئی جو ناکام ہوئی اور  سعد حریری نے واپس لبنان آکر اپنا استعفیٰ واپس لے لیا اور یوں امریکہ و سعودی عرب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے،  جون ۲۰۱۷ میں ایران کے دارالحکومت تہران میں  داعش سے ایران کی  پارلیمنٹ کی عمارت اور امام خمینی کے مزار حملہ کروایا گیا ،اِن  حملوں میں 12افراد جاں بحق جبکہ 42زخمی ہوگئے ، حملہ کروانے کا مقصد ملک میں انارکی اور خوف پھیلانا تھا اور ایران سے غیرمنطقی  بیانات  داغنےکی امید تھی جو کہ خاک میں مل گئی، اس کے بعد حالیہ دنوں میں ایران میں  ریالوں اور ڈالروں کی مدد سے ننھے مُنّے جلسے جلوسوں کے ذریعے  ایرانی عوام کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی گئی لیکن  وہ بھی بری طرح ناکام ہوئی۔اب رہی بات  یمن اور بحرین  میں سعودی مداخلت کی  تو ساری دنیا ان ممالک میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں  کی مداخلت اور حملوں  کی بھرپور  مذمت کررہی ہے۔

اس وقت امریکی و سعودی حکومتیں مکمل طور پر بوکھلاہٹ کی شکار ہیں،  گزشتہ دنوں امریکی قومی سلامتی کے ترجمان نے  بوکھلاہٹ کے مارے پاکستان سے بھی تعلقات کشیدہ کر لئے ہیں، امریکی ترجمان کے مطابق  پاکستان کو 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی فوجی امداد جاری نہیں کی جائے گی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں موجود دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، جس کی روشنی میں ہی دونوں ممالک کے تعلقات بشمول فوجی امداد کا فیصلہ کیا جائے گا۔

یاد  رہے کہ  ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست سے ہی ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان کی 255 ملین ڈالر کی امداد روکی ہوئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق   امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو15 سال میں33 ارب ڈالر کی امداد دے کر بے وقوفی کی،پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا وہ سمجھتے ہیں ہمارے لیڈرز بے وقوف ہیں۔

ٹرمپ نے ایک بار پھر الزام لگایا کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں  فراہم کرتا ہے ، جس سے افغانستان میں دہشتگردوں کو نشانہ بنانے میں غیر معمولی مدد ملتی ہے لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔[1]

اگر قارئین کو یاد ہوتو کچھ عرصہ پہلے  اسی طرح    سعودی وزیر دفاع   محمد بن سلمان آل سعود نے بھی پاکستانیوں کو دھوکہ باز کہاتھا۔[2]

قابلِ ذکر ہے کہ  اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بعد فلسطین کو بھی امداد روکنے کی دھمکی دے دی ہے۔امریکی صدر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا  ہےکہ امریکا پاکستان و دیگر ممالک کو اربوں ڈالر دیتا ہے مگر یہ کچھ نہیں کرتے۔ انہوں نے فلسطین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین ہر سال ہم سے اربوں ڈالر لیتا ہے مگر یہ ہمارا احترام نہیں کرتا جب کہ فلسطین اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کیلئے بھی تیار نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں لکھا کہ ہم نے نئے امن مذاکرات کے تحت یروشلم جیسے متنازعہ شہر کا مسئلہ اٹھایا جس پر بحث کرنا ایک بہت مشکل عمل تھا لیکن اسرائیل کو بھی اس کے لیے مزید کام کرنا ہوگا تاہم اگر فلسطین امن کے لیے تیار نہیں تو ہم مستقبل میں اس کی امداد کیوں جاری رکھیں۔[3]

اس وقت امریکہ اور سعودی عرب دنیا میں اپنی واضح شکست اور غلط پالیسیوں کے عیاں ہوجانے کے بعد کسی نہ کسی طرح کسی دوسرے ملک کی پُشت کے پیچھے اپنا منہ چھپانا چاپتے ہیں، اس حوالے سےانہیں پاکستان اور فلسطین ہی نظر آئے ہیں لیکن اب یہ پالیسی بھی چلنے والی نہیں چونکہ پاکستان بالآخر ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے اور پاکستانی عوام پہلے سے ہی امریکہ و سعودی عرب کے اثر و نفوز سے نالاں ہیں دوسری طرف فلسطینی عوام  بھی امریکہ و سعودی عرب کی حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں۔

اگر صورتحال یونہی چلتی رہی اور امریکی و سعودی پالیسی ساز اداروں نے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی نہ کی تو  مستقبل میں اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھی امریکہ و سعودی عرب کو ہی بھگتنا پڑے گا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) دوست شناسی سے پہلے دشمن شناسی ضروری ہے،  کسی  خالی پلاٹ پر پڑے ہوےکچرے کے ڈھیر  کواٹھائے بغیر وہاں پر دلکش عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔دشمنوں کی شناخت کے بغیر دوستوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اگر دشمنوں کی شناخت نہیں ہوگی تو دوستوں کی صفوں میں جا بجا دشمن گھس جائیں گے۔

ہم بے شک سارے بلوچوں کو ملک دشمن کہہ کر جیلوں میں ڈال دیں، سارے پختونوں کو غدار کہہ کر پابندِ سلاسل کر دیں، سارے سندھیوں کو علیحدگی پسند کہہ کر ٹارچر سیلوں میں جھونک دیں، سارے  پنجابیوں پر عدمِ اعتماد کر کے  اُنہیں پانچوں دریاوں میں دریا بُرد کر دیں تو اس کے باوجود اس مُلک میں دہشت گردی اور شدت پسندی ختم نہیں ہو گی۔

اگر ہم واقعتاً اس ملک سے شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سنجیدگی سے یہ سوچنا پڑے گاکہ آخر ہماری نئی نسل شدت پسندوں کی باتوں میں کیسے آجاتی ہے!؟، ہمارے دینی مدارس اور کالجز کے طالب علم طالبان، القاعدہ اور داعش کے نظریات سے کیسے متاثر ہوجاتےہیں!؟

ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ    اس وقت  مسلک وہابیت اور مکتب سلفی کے مرکز سعودی عرب  میں کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود کُش بمباروں  کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے لئے یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں دیوبندی مکتب   کا مرکز دارالعلوم دیوبند موجود ہے، پورے ہندوستان میں بھی  کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود کُش بمباروں  کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ سعودی عرب یا ہندوستان میں  دیوبندی اور وہابی  مسالک کے لوگ  کبھی بھی اسلحہ نہیں اٹھاتے ! کیوں آخر کیوں!؟  اسلحہ نہ اٹھانے کی صرف یہی وجہ ہے کہ ان کی سعودی عرب اور ہندوستان کے ساتھ ایک ہم آہنگی اور انڈر سٹینڈنگ ہے جو پاکستان  اور پاکستانی عوام کے ساتھ بالکل نہیں۔

پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ مکاتب اور تنظیمیں پاکستان بننے کے ہی خلاف تھے، سو پاکستان بن تو گیا لیکن ان کی مخالفت اپنی جگہ ایک نئے روپ میں ظاہر ہوگئی ہے۔

اب یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جیسا بیج بویا جاتا ہے ویسی ہی فصل تیار ہوتی ہے، اگر ہم اپنی نوجوان نسل کی فصل سے نالاں ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم اپنی نوجوان نسل کے ذہنوں میں کیا ایسا کیا بیج بو رہے ہیں  جس کی وجہ سے شدت پسندوں کی فصل تیار ہو رہی ہے!اور ہماری نوجوان نسل پاکستان کے دشمنوں کہ آلہ کار بن رہی ہے۔

اس کے لئے ہمیں اپنی درسی کتابوں پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ہم نے اپنی نئی نسل کو قیامِ پاکستان کے دشمنو اور مخالفین  سے آگاہ ہی نہیں کیا۔ چنانچہ ہمارا نوجوان بڑی آسانی کے ساتھ پاکستان کے دشمنوں کے لشکروں میں شامل ہوجاتا ہے اور اپنے ہم وطن پاکستانیوں پر شبخون مارنے لگتا ہے۔

ہمیں سب سے پہلے اس حقیقت سے پردہ اٹھانا ہوگا کہ  قیامِ پاکستان سے پہلے  سلفی و دیوبندی  تنظیمیں اور مکاتب قیامِ پاکستان کے خلاف تھیں، صرف خلاف ہی نہیں تھیں بلکہ کانگرس کے ہم قدم  اور ہم خیال تھیں، صرف کانگرس کے ہم قدم اور ہم خیال ہی  نہیں تھیں بلکہ انہوں نے قائداعظم کو کافراعظم کہا اور پاکستان کو کافرستان کہا!

اِن کانگرس نواز تنظیموں اور مکاتب کو ماضی کی طرح آج بھی سعودی عرب اور  ہندوستان کے ساتھ کوئی مشکل نہیں ہے، اُنہیں اگر کوئی  مشکل ہے تو آج بھی  صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ہے۔

جولوگ  جس طرح قیامِ پاکستان سے پہلے قائداعظم کو کافراعظم کہتے تھے اور پاکستان کو کافرستان یہ اسی طرح  پاکستان بننے کے بعد بھی اپنے موقف پر قائم ہیں ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قائداعظم کی ریذیڈنسی کو دھماکوں سے اڑایا جاتا ہے ، آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا جاتا ہے اور پاک فوج کو ناپاک اور پلید فوج کہاجاتا ہے۔

آج ضروری ہے کہ پاکستان کے نصابِ تعلیم میں خصوصاً تاریخِ پاکستان اور مطالعہ پاکستان میں نئی نسل کو اُن شخصیات، مدارس، مکاتب اور تنظیموں سے آگاہ کیا جائے جو روزِ اوّل سے ہی قیامِ پاکستان کے مخالف ہیں اور آج بھی پاکستان کے جوانوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے میں مصروف ہیں۔

یہ لوگ ماضی میں بھی کانگرس اور ہندوستان کے دوست اور خیرخواہ تھے اور آج بھی ہندوستان میں یہ ایک اینٹ تک نہیں اکھاڑتے جبکہ آئے روز پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔ٹی ٹی پی کے متعدد دہشت گردوں اور کلبھوشن یادو کے اعترافات اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ پاکستان کے دشمن در اصل ہندوستان نواز مکاتب اور تنظیموں کے ہی لوگ ہیں۔

 چنانچہ یہ ہمارے پالسی میکرز اور تھنک ٹینکس کی ذمہ داری ہے کہ وہ  پاکستان کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں ان مکاتب اور تنظیموں اور شخصیات کا تعارف کروائیں جو  نظریاتی طور پرپاکستان کے دشمن  ہیں۔ ہمارے پالیسی میکرز اور تھنک ٹینکس کو  اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ  دہشت گردی کی شکل میں پاکستان کے خلاف مکتبی اور نظریاتی جنگ لڑی جا رہی ہے۔

اگر ہم اپنی نئی نسل کو  قائداعظم اور پاکستان کے دشمن مکاتب اور شخصیات سے آگاہ نہیں کریں گے  تو وہ  مسلسل پاکستان کے دشمنوں کے آلہ کار  بنتے رہیں گے۔

سی ٹی ڈی صوبہ سندھ کے مطابق اس وقت مدارس کے شدت پسند طلبہ کی جگہ جامعات کے اعلی تعلیم یافتہ طالبعلم لے رہے ہیں۔

ایس پی راجہ عمر خطاب کے مطابق  پہلے جو مدارس سے پڑھتے تھے وہ افغانستان یا وزیرستان جا کر جہاد کرتے تھے لیکن اب یہ نئی کھیپ جامعات سے تعلیم یافتہ ہے اور انھوں نے یہ جنگ لڑنی ہے۔انہوں نے کراچی میں داعش کی موجود گی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفنس، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور ناظم آباد میں داعش سے متاثر لوگ موجود ہیں اور شدت پسندی اب مدرسے سے یونیورسٹی تک آگئی ہے۔

کراچی میں سیاسی جرائم اور جہاد پر ناول کے مصنف اور محکم انسدادِ دہشت گردی کے ایس ایس پی عمر شاہد حامد کا کہنا تھا جامعات کا طالبعلم مدارس کی جگہ لے رہا ہے۔ یہ جو آن لائن نسل ہے اس کے پاس نظریات و دلائل ہیں یہ قبائلی علاقے کے مدرسے کے بچے نہیں جو کہیں جاکر خودکش بم حملے کردیں۔

ایس ایس پی راجہ عمر خطاب نے بتایا  ایک لڑکے سعد عزیز کی ایک لڑکی سے دوستی تھی وہ اس کے مطالبے پر پورا نہیں اترا اور اس نے مذہب کا رخ کر لیا، اسکی خواہش پر والدین نے عمرے پر بھیج دیا۔ واپسی پر اس نے قرآن کی ترجمے کیساتھ کلاس لینا شروع کی لیکن اس کو تسلی نہیں ہوئی،اس کے بعد اسکی ایک جگہ انٹرن شپ ہوئی جہاں اسے ایک لڑکا ملا جو اسے القاعدہ کی ایک شخصیت کے پاس لے گیا اور اس کے دماغ میں یہ بیٹھ گیا کہ اسوقت تک خلافت نہیں آئے گی جب تک عسکریت نہیں آئے گی۔

انکا کہنا تھا ایک جامعہ کا استاد نیپا چورنگی کے قریب گھریلو ساختہ بم بناتا تھا اور اس نے یہ تربیت اپنے بیٹے اور بھتیجے کو بھی دی تھی اس وقت وہ تینوں مفرور اور انتہائی مطلوب ہیں، اسی طرح ایک استاد یونیورسٹی کی پارکنگ میں القاعدہ کو فنڈ دیتا تھا جس کو گرفتار کیا گیا۔

ایس پی مظہر مشوانی نے بتایا انھوں نے کلفٹن سے ایک یونیورسٹی کے استاد کو گرفتار کیا جو کمپیوٹر سائنس کا مضمون پڑھاتا تھا، اسکا تعلق حزب التحریر سے تھا اور لیکچر کیساتھ ساتھ وہ دس منٹ اپنی تبلیغ کرتا، اس کے علاوہ نمازِ جمعہ کے بعد مساجد کے باہر پمفلٹ تقسیم کیا کرتا تھا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا ۔[1]

اسی طرح باوثوق ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ٹاپ رینکنگ میں موجود اسلام آباد کی تین اہم یونیورسٹیوں میں داعش کے منظم نیٹ ورک کا انکشاف ہوا ہے، غیر ملکی طلبہ یونیورسٹیوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور رہائشی علاقوں میں بنائے گئے ہاسٹلز میں رہائش پذیر ہیں۔[2]

یونیورسٹیوں میں دہشت گردوں کے تبلیغی نیٹ ورکس کے یہ چند نمونے ہیں ، اگر ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے  تو پھر ہمیں اپنے نصابِ تعلیم پر فوری توجہ دینا ہوگی۔

ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان ہم سب کا خواب ہے ، لیکن  کسی  خالی پلاٹ پر پڑے ہوےکچرے کے ڈھیر  کواٹھائے بغیر وہاں پر دلکش عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ جب تک ہماری نوجوان نسل دشمن شناس نہیں بن جاتی تب تک پاکستان سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ محکمہ تعلیم کے  پالیسی میکرز کو چاہیے کہ وہ ملک دشمن عناصر کی شناخت کے سلسلے میں  نصابِ تعلیم  کے ذریعے طالب علموں کی درست سمت میں رہنمائی کریں۔

نصابِ تعلیم کے علاوہ دوسرا اہم پہلو پاکستان کے سیکورٹی ا داروں  اور اہم پوسٹوں پر پاکستان دشمن مکاتب اور تنظیموں کے ہم فکر اور سہولت کار افراد کا موجود ہونا ہے۔

جب بھی کہیں کوئی ملک دشمن کارروائی ہوتی ہے تو یقینی طور پر اہم سرکاری پوسٹوں پر براجمان افراد ملک دشمنوں کے ساتھ ہمکاری کرتے ہیں، ہمیں بغیر کسی تعصب کے اپنے ملک کو بچانے کی خاطر اور اسے محفوظ کرنے کی خاطر تمام ملکی کلیدی پوسٹوں سے پاکستان بنانے کے مخالف یعنی وجودِ پاکستان کے مخالفین کو  ہٹانا چاہیے۔

ضرورت اس امر  کی ہے کہ نئے سال میں ان دونوں مسئلوں کو ترجیحی بنیادوں پرحل کیا جائے۔جب تک ہمارے پالیسی ساز ادارے ان دو مسائل پر توجہ نہیں دیتے یعنی نصاب تعلیم میں پاکستان کے مخالفین کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے اور پاکستان کی اہم پوسٹوں سے اُن مخالفین کو ہٹاتے نہیں ، تب تک مسائل کی دلدل سے پاکستان نہیں نکل سکتا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) لکھنے والے بہت کچھ لکھ چکے ہیں، اس منطقے کی جغرافیائی اہمیت، معدنی کانیں، آبی ذخائر اور قدرتی حسن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، رہی بات پاکستان سے محبت کی تو عوامِ علاقہ کی تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے ضیاالحق جیسے آمر کے مظالم تو سہے لیکن ملکی محبت پر کبھی بھی  آنچ نہیں آنے دی۔

آئے روز یہ جو گلگت بلتستان میں ہڑتالیں جاری رہتی ہیں ، ان کے حقیقی  اسباب اور اصلی مسئلے کو جاننے کی ضرورت ہے،  بعض لوگ اسے آٹے اور چینی کے مہنگے اور سستے ہونے کا جھگڑا سمجھتے ہیں جبکہ دوسری طرف  صورتحال یہ ہے کہ عوامِ علاقہ حکومتِ پاکستان سے اپنی قومی شناخت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ہم نے جس طرح بنگالیوں کی ہڑتالوں اور اُن کےجذبات کو اہمیت نہیں دی تھی اُسی طرح ہم گلگت و بلتستان کے عوام  کے حقیقی مطالبات سے بھی  آنکھیں چرا رہے ہیں۔

یہ ہمارے سیاسی و قومی اکابرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ  اس منطقے کے عوامی کی قومی حیثیت کو مشخص کریں۔ اگر مسئلہ کشمیر کی وجہ سے انہیں گلگت و بلتستان کو  صوبے کا درجہ دینے میں مشکلات درپیش ہیں تو پھر عوامِ علاقہ کو اعتماد میں لے کر اُن کے لئے کسی موزوں اور متناسب نیز متبادل سیٹ اپ پر غور کیا جائے۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں شمولیت کی خواہش ایک آئینی و جمہوری خواہش ہے  اور ہمارے  سیاسی زعما کو اس کا مثبت جواب دینا چاہیے۔

گلگت بلتستان میں  اس وقت کتنے ہی دنوں سے ٹیکسز کے نفاذ کے خلاف غذر سمیت مختلف علاقوں میں پہیہ جام ہڑتال جاری ہے۔ سخت سردی میں لوگ  اپنے حقوق کی خاطر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ تمام چھوٹی بڑی دکانیں، کاروباری مراکز، نجی ادارے   اور پبلک ٹرانسپورٹبند ہیں، عوام کا مطالبہ ہے کہ جب تک گلگت بلتستان کو قومی سطح پر نمائندگی نہیں دی جاتی اس وقت تک کسی بھی طرح کے ٹیکسز کا نفاذ ناقابل قبول ہے۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ  اگر وقتی طور پر حکومت ٹیکسز کے مسئلے سے عقب نشینی کر بھی لے تو پھر بھی یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ، چونکہ اصل مسئلہ  عوامی و انسانی حقوق اور گلگت بلتستان کی ملی شناخت کا ہے۔

ایسے میں ہم سب پاکستانیوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارا بھی گلگت و بلتستان سے کوئی دینی و نظریاتی رشتہ ہے یا نہیں!؟ اگر ہم اہلیانِ گلگت و بلتستان کو  دینی بھائی سمجھتے ہیں اور پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔لاالہ الااللہ  کی حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں بھی اس ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں اہلیانِ گلگت و بلتستان سے اظہار یکجہتی کے لئے  اپنے ایمان کی حرارت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

اب یہ بات پاکستانی دانشوروں اور اربابِ حل و عقد کو اپنے پلے باندھ لینی چاہیے کہ   جاری ہڑتال جس نتیجے پر بھی منتہج ہو ہمیں بہر حال گلگت و بلتستان کی ملی شناخت اور علاقائی سیٹ اپ کے حوالے سے دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔روز روز کی ہڑتالوں سے جہاں ملکی اقتصاد اور ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے وہیں اس سلسلے میں ہماری سرد مہری  سے ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی  مسلسل فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اپنے ملک کو اقتصادی نقصانات اور بھارت کی چالوں سے بچانے کے لئے  ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ  اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا کریں اور  پاکستان کے دیگر علاقوں کے عوام بھی  اہلیان گلگت و  بلتستان کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے اُن سے اظہار یکجہتی کریں ۔

اگر ہم سب جی بی کے اصل مسئلے یعنی ان کی ملی شناخت اور قومی سیٹ اپ کے حل میں سنجیدہ ہو جائیں تو درپیش مشکلات پر  قابوبھی پا سکتے ہیں اور اپنے دشمن کو مایوس اور ناکام  بھی کر سکتے ہیں۔

لہذا یہ ہم سب کی دینی و ملی ذمہ داری ہے کہ ہم جی بی کے مسئلے کو ملی تناظر میں دیکھیں اور اس کے حل کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) سوچتی ہوئی عقل سے ہر فریب کار کو خطرہ ہے، اگرکسی کا  دماغ فعال ہے اور اُس کی عقل کام کر رہی ہے تو پھراُسے فریب دینا آسان کام نہیں۔کسی بھی ملت کا دماغ اس کے دانشور ہوتےہیں، اگر کسی ملت کے دانشور اپنا کام نہ کریں تو وہ ملت فہم و فراست اور شعور سے عاری ہو جاتی ہے یعنی پسماندہ رہ جارتی ہے۔

دانشوروں کا کام اچھائی اور برائی کی تمیز اور حق و باطل کا فرق کر کے اچھے کو اچھا اور برے کو برا اسی طرح حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا ہوتا ہے۔  چنانچہ فریب کار جب کسی معاشرے میں   برائیوں کی ترویج اور باطل کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس معاشرے، قوم اور ملک کے دانشوروں کو اچھائی اور برائی نیز حق اور باطل کی نسبت غیر فعال کرتے ہیں۔آج کے دور میں دانشوروں کو اُن کا کام کرنے سے روکنے کے لئے انہیں غیر جانبداری کے درس دئیے جاتے ہیں۔

حالانکہ  غیر جانبداری کے یہ درس دینے والے خود بھی غیر جانبدار نہیں ہوتے،  یہ فریب کار  اپنے مدِّ مقابل کو نرم کرنے کے لئے اُسے کہتے ہیں کہ   سارے گروہوں ، سارے ادیان ، ہر طرح کے حق و باطل سے بالاتر ہو جاو۔ بالاتر ہو جاو یعنی حق کا ساتھ نہ دو اور ہمارے ساتھ مل جاو۔ یہ در اصل کسی کو حق کی حمایت سے ہٹانے کاایک حربہ ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ   خداواندِ عالم جو سارے انسانوں کا خالق ہے وہ بھی سارے گروہوں کی نسبت غیر جانبدار نہیں ہے بلکہ وہ حزب الشیطان کا سخت ترین دشمن ہے اور سارے ادیان میں سے صرف اسلام کو ہی دین قرار دیتا ہے اور باقی ادیان کی نفی کرتا ہے اسی طرح اس کے نزدیک حق و باطل سے بالاتر یا ان کے درمیان کچھ نہیں ہے جو کوئی بھی  ہے وہ یا حق  پر ہے اور یا باطل پر۔

اگر کوئی حزب اللہ اور حزب الشیطان سے بالاتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اورمیدانِ حرب میں زبان و قلم کے ساتھ حزب اللہ کا ساتھ نہیں دیتا تو وہ در اصل حزب الشیطان کے پلڑےمیں اپنا ووٹ ڈالتا ہے،اسی طرح اگر کوئی مقامِ ضرورت پر دینِ اسلام کی مدد و نصرت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور دینِ اسلام کی نصرت نہیں کرتا تو در اصل اسلام کے دشمنوں کی کمر مضبوط کرتا ہے اور یونہی اگر کوئی حق و باطل کے معرکے میں یہ کہتا ہے کہ میرے لئے تو سب  برابر ہیں تو ایسا شخص در اصل حق والوں کی حمایت نہ کر کے باطل کو مضبوط کرتا ہے۔

آج ضروری ہے کہ دانشورحضرات غیر جانبدار ہونے کے دلکش اور پُر فریب نعرے سے دھوکہ نہ کھائیں بلکہ یہ جان لیں کہ ایک اصول پرست انسان کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا کہ حق والے اُسے پھولوں کے ہار پہنائیں اور باطل والے اس کے پاوں دھوکر پئیں۔

بلکہ  وہ ایک گروہ کے نزدیک بہترین اور دوسرے کے نزدیک بدترین کہلائے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اگر حق کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبدار بن کر   حق  پر پردہ ڈالا جائے اور حق کو عقب نشینی پر راضی کیا جائے اور اس طرح دنیا میں جنگ و جدال میں کمی واقع ہو جائے گی تو یا تو ایسے شخص کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے اور یاپھر وہ دوسروں کی عقل پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔

دنیا میں  نفرت، جنگ  و جدال اور خون خرابہ ہے ہی باطل کی وجہ سے،  اگر باطل کے مقابلے میں  کسی بھی محاز پرایک قدم عقب نشینی کی جائے  تو باطل دو قدم آگے بڑھتا ہے، یہ باطل ہی ہے جو ظلم کرتا ہے، جو جارحیت کرتا ہے، جو شب خون مارتا ہے جو لوگوں سے ان کے پیدائشی و جمہوری  اور فطری حقوق چھینتا ہے۔

باطل کے مقابلے میں پیچھے ہٹ کر کسی فساد، کسی ایٹمی جنگ یا خون خرابے کو نہیں روکا جا سکتا،  بلکہ باطل کے مقابلے میں آگے بڑھ کراور سینہ سپر ہو کر ہی  خونریزجنگوں ، مظالم اور ناانصافیوں کو روکا جاسکتا ہے۔

اپنے سامنے تاریخِ پاکستان کا تجربہ رکھئے اور دیکھ لیجئے کہ ہم جس قدر باطل لشکروں اور ٹولوں  کے مقابلے میں عقب نشینی  اور نرمی کرتے گئے  اُسی قدر  یہ باطل لشکر آگے بڑھتے گئے ، پہلے ایک ایک کر کے ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے، پھر امام بارگاہوں میں، پھر مسجدوں میں، پھر مزارات پر، پھر مسافروں پر، پھر عوامی مراکز پر ، پھر فوج و پولیس پر ، پھر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حتی کہ  پھر تو سکولوں کے بچوں کو بھی قتل کرنا شروع ہو گئے۔

پاکستان آج غیر محفوظ نہیں ہوا بلکہ سچ اور حق بات یہ ہے کہ پاکستان اُسی روز غیر محفوظ ہوگیا تھا جس روزپہلی مرتبہ  کسی بے گناہ کے قتل پر ہم سب نے بحیثیت قوم غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا تھا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) کوئٹہ میں چرچ پر حملہ ہوا، یہ حملہ عیسائیوں کے مذہبی پیشواپوپ فرانسس کی 81ویں سالگرہ کے موقع پر  کیا گیا، بحیثیت مسلمان ہم مسیحی برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ظالم ہمیشہ رسوا ہوتے ہیں، خدا ظالموں کو ڈھیل ضرور دیتا ہے لیکن چھوٹ نہیں دیتا،  اور ان سے بڑا ظالم کون ہوگا جوپاکستان کو بدنام اور کمزور کرنے  کے لئے  مصروف عمل ہیں۔

اتوار کو کوئٹہ میں زرغون روڈ پر واقع بیتھل میتھوڈسٹ میموریل چرچ میں دعائیہ تقریب کے دوران  دوپہر 12بجے کے قریب چار دہشت گردوں نے چرچ پر حملہ کرکے 9افراد کو  جاں بحق اور 56افراد کو زخمی کر دیا ہے۔

ہم غم اور دکھ کے اس موقع پر مسیحی برادری کو تجزیہ و تحلیل اور غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والی مسیحی برادری  بھی تحقیق اور جستجو کے ساتھ پاکستان کے حقیقی دشمنوں کو پہچانے۔یہ مسیحی برادری کے اکابرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ  غوروفکر اور تحقیق کے ساتھ  قاتلوں کی صحیح نشاندہی کریں اور اُن کے خلاف آواز اٹھائیں۔

ہماری یہ خواہش ہے کہ مسیحی برادری اس غلطی کا ارتکاب نہ کرے جو پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں سے ہوئی۔ ایک عرصے تک جب پاکستان کے دشمن کہیں پر بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے تھے تو  عوامی حلقے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کر لیتے تھے تھے کہ یہ تو فرقہ واریت کا  مسئلہ ہے۔ اگر ملت پاکستان اس وقت غوروفکر سے کام لیتی اور ظالم کو ظالم کہتی تو  ظالموں کو اس قدر مضبوط ہونے کا موقع نہ ملتا۔

ہم یہاں پر اپنے مسیحی بھائیوں کو یہ بھی یاد دلانا چاہیں گے کہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات، ایک مخصوص گروہ کی طرف سے تمام ادیان و مسالک کے خلاف ہوتے رہتے ہیں،اس گروہ کے ہاتھوں شیعہ، سنی، عیسائی، یہودی اور ہندو الغرض کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں ہونے والی اس ساری قتل و غارت کی جڑیں عرب بادشاہتوں کے خمیر میں ہیں۔  در اصل ایران میں انقلاب کے آنے کے بعد عرب  ریاستیں عوامی بیداری سے ڈر گئیں۔  عرب بادشاہوں نے دنیا بھر میں  مذہبی و دینی بنیادوں پر ایک خوفناک جنگ کا آغاز کیا  اور عرب بادشاہوں کے ٹکڑوں پر پلنے اور چلنے  والے مدارس اور مولویوں نے بھی  اس منافرت کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔

عرب بادشاہوں کو خطرہ تھا کہ اہلِ تشیع کی طرح اہلِ سنت بھی بیدار ہو کر کہیں بادشاہوں کے خلاف انقلاب برپا نہ کرنے لگ جائیں  چنانچہ دنیا کے اہلِ سنت مسلمانوں کو ابتدا میں  اہلِ تشیع سے ٹکرانے کی  دانستہ کوشش کی گئی،  اس کوشش کے نتیجے میں وقتی طور پر عربوں کی بادشاہتیں تو بچ گئیں لیکن  دہشت گردی کی وجہ سے دنیا بھر میں دینِ اسلام کی بہت بدنامی ہوئی اور  جہانِ اسلام مزید چالیس سال تک اوباش بادشاہوں کے بوجھ تلے دبا رہا۔

دیر آید درست آید، لوگوں کو حقائق سمجھنے میں دیر ضرور ہوئی لیکن اب لوگ اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ  پاکستان میں کہیں پر بھی شیعہ اور سُنّی کا جھگڑا نہیں تھا بلکہ یہ سب بادشاہتوں کو بچانے کا کھیل تھا۔ اس کھیل میں پاکستان کے بے شمار دانشور، صحافی، شعرا اور فوج و پولیس کے اعلی افیسران نے جامِ شہادت نوش کیا۔

گزشتہ چار دہائیوں میں بادشاہوں کے نوکر نعرہ تکبیر لگا کر ہماری قیمتی شخصیات کو قتل کرتے رہے ، ہمارے ملک میں اقلیتوں پر شب خون مارتے رہے ، سکولوں اور کالجوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے رہے اور خود عرب بادشاہ حضرات  عیاشیاں کرتے رہے ۔

آج ان بادشاہوں کی عیاشیوں کا یہ عالم ہے  کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے روسی ٹائیکون کی ملکیت 440 فٹ طویل لگژری بحری جہاز جوکہ ایک محل ہے اسے  45 کروڑ پاؤنڈ میں خریدا جب کہ لیونارڈو ڈاؤنچی کی ایک معروف پینٹنگ 450 ملین ڈالر میں خریدی، اس کے علاوہ  اس وقت دنیا میں سب سے مہنگا اور قیمتی گھر بھی انہی کا ہے  جو انہوں نے 30 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم سے فرانس میں خریدا ہے۔اس قیمتی گھر میں ۵۷ ایکڑ رقبے پر محیط ایک پارک بھی شامل ہے۔یاد رہے کہ اس گھر میں وسیع رقبے کا فش ایکوائریم، سنیما گھر اور زیر زمین نائٹ کلب بھی موجود ہے۔

مجھے ایسے میں وہ مولوی حضرات بہت یاد آرہے ہیں جو یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جو بھی ہو جائے آل سعود ہم سے بہتر ہیں۔

آلِ سعود کے نمک خواروں اور وفاداروں کے پاس سب سے آسان اور موثر ہتھیار یہ ہے کہ جو بھی  امن، محبت، بیداری ، شعور، سوچ و بچار کی بات کرتا ہے وہ اسے کافر اور واجب القتل قرار دے دیتے ہیں،  جیسا کہ ایران کے انقلاب کے ساتھ بھی کیا گیا، اس انقلاب کا قصور یہ تھا کہ اس نے عوام کو بیدار کیا تھا چنانچہ اس انقلاب کو بھی شیعہ انقلاب کہہ کر قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔

 یہ سچائی اب سب پر آشکار ہوچکی ہے کہ پاکستان میں قتل وغارت کرنے والے کسی ایک مسلک ، اقلیت یا ایران  کے دشمن نہیں ہیں بلکہ انہوں  نے جس طرح اہلِ تشیع  کا خون بہایا ہے ، اسی طرح   داتا دربار اور بری امام سمیت ہر طرف اہل سنت کے خون سے بھی ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں اور اسی طرح عیسائی حضرات اور دیگر اقلیتوں کے خون کے دھبے بھی ان کے دامن پر ہیں۔

ان کا پاکستان میں بسنے والی  اقلیتوں، پاک فوج اور پاکستان کے عوامی مراکز پر شب خون مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ  یہ ٹولے  اس وقت پوری ملت پاکستان کے خلاف حالت جنگ میں ہیں۔

یہ کس قدر بھیانک حقیقت ہے کہ اگر  آپ ان انسان کش ٹولوں پر تحقیق کریں  تو آپ ان  سب کو  میڈ  اِن سعودی عرب پائیں گےوہ طالبان ہوں، القاعدہ ہو ، سپاہ صحابہ و  داعش و لشکر جھنگوی، سب کو وہیں سے کنٹرول اور فیڈ کیا جاتا ہے۔

ہم اس وقت  بحیثیت مسلمان،  مسیحی برادری کے دکھ اور غم میں برابر کے شریک ہیں اور  واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ بادشاہوں سے ہے اور دہشت گردوں کی تربیت اسلام نہیں بلکہ بادشاہ کرتے ہیں نیز دہشت گردوں کی جنت پاکستان نہیں بلکہ عربستان کے بنائے ہوئے دینی مدارس ہیں۔

یہ حکومت پاکستان کی  اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ کرائے کے قاتلوں کے بجائے ان کے تربیتی دینی مدارس کے خلاف آپریشن کرے ۔ان نام نہاد دینی مراکز کے خلاف بھرپور کاروائی کی جائے جو دہشت گردوں کی تربیت کرتے ہیں اور دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔

اس نازک وقت میں ہم سب کو پاکستان کے پرچم تلے متحد ہو کر، تحقیق و جستجو، غور و فکر اور تجزیہ و تحلیل کے ساتھ  اس ملک کی حفاظت کرنی ہے۔یہ ایک روشن سچائی ہے کہ  ہم پاکستانی اس حملے کو صرف  ایک چرچ پر حملہ نہیں سمجھتے  بلکہ اسے پورے پاکستان پر حملہ سمجھتے ہیں اور اس حملے سے پورا پاکستان  رنجیدہ ہے ۔


تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Page 9 of 21

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree