وحدت نیوز(آرٹیکل) اقوام و ممالک کی حفاظت قومی فوج کرتی ہے، جب تک کسی ملک کی قومی فوج مضبوط رہتی ہے اس وقت تک اس ملک کے دشمن ناکام و نامراد رہتے ہیں، یاد رہے کہ پاکستان کی مسلح افواج صرف پاکستانیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ جہانِ اسلام کے لئے بھی امیدکی شمع ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دشمن ہر دور میں پاکستان آرمی کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ہیں۔
اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ سیاہ چن کے برفیلے پہاڑوں سے لے کر بلوچستان کے صحراوں تک ہر طرف پاکستان آرمی کی عظمت و شجاعت کی داستانیں رقم ہیں اور دہلی سے لے کر تل ابیب تک ہر دشمن طاقت پر پاکستان آرمی کے نام سے خوف چھایا ہوا ہے۔
پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کا لفظ لفظ پاکستان آرمی کے جوانوں کے خون سے عبارت ہے، ملک کی سرحدوں پر باہر سے حملہ ہو یا اندرونِ ملک سے طالبان، القاعدہ اور لشکر جھنگوی جیسے ٹولے حملہ کریں، یہ پاکستان آرمی ہی ہے جو اِن سب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔
ملکی تاریخ میں پاکستان آرمی نے ملک دشمن عناصر کے خلاف متعدد آپریشن کئے ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ زیل ہیں:
آپریشن راہ حق سوات 2007 میں کیا گیا، آپریشن صراط مستقیم خیبر ایجنسی2008 میں آپریشن شیر دل باجوڑ 2008 میں آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم بنیر 2009میں آپریشن راہ راست سوات 2009 میں آپریشن راہ نجات جنوبی وزیرستان 2009 میں ، آپریشن ضربِ عضب ۲۰۱۴ میں اور آپریشن ردُّ الفساد میں ۲۰۱۷ فروری کے مہینے میں شروع کیا گیا۔
اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ یہ آپریشنز کن حالات میں اور کن لوگوں کے خلاف کئے گئے تو ہمیں پاکستان آرمی کے بہادر سپوت لائق حسین کی شہادت کی ویڈیو ضرور دیکھنی چاہیے ، یہ ویڈیو دیکھ کر ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان کے دشمن کس قدر وحشی اور ظالم ہیں، 14 اگست 2007ء میں طالبان نے لائق حسین کو دوران حراست جانوروں کی طرح ذبح کر کے شہید کردیا تھا۔
۱۴ اگست پاکستان کا یومِ آزادی ہے، اس روز پاکستان کے دشمنوں نے، پاکستان کی فوجی وردی میں ملبوس پاکستان کے بیٹے کو ذبح کر کے ملت پاکستان کو یہ واضح پیغام دیا تھا کہ پاکستان کے دشمنوں کے سینوں میں دل نہیں بلکہ پتھر ہیں، اگر اس کے باوجود کسی کو اطمینان نہ ہو تو وہ آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے مُنّےبچوں کی لاشیں گن کر دیکھ لے۔ سولہ دسمبر ۲۰۱۴ کو پاکستان کے ان دشمنوں نے وحشت و بربریت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے تقریبا ۱۴۴ بچوں کو شہید کردیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے خود کُش دھماکوں میں بھی ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں اور پاکستان فوج اور پولیس کے کئی مراکز پر حملے کرنے کے علاوہ کئی قیمتی افیسرز کو بھی شہید کر کے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
ملک و ملت کے ان دشمنوں نے مذہبی مقامات حتی کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر بھی حملے کئے اور غیر ملکی سیاحوں کو بھی قتل کر کے دنیا بھر میں پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی ۔
ابھی گزشتہ دنوں میں زرعی ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں9 افراد شہید 38 زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ سارے واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ پاکستان کے دشمن پاکستانیوں کے خلاف مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔
طالبان ،القاعدہ اور لشکر جھنگوی وغیرہ کے بے شمار لوگوں کی گرفتاریوں اور اُن سے ہونے والی تفتیش کے بعد اب یہ حقیقت سب پر آشکار ہوچکی ہے کہ پاکستان کے دشمن ،بانی پاکستان کو کافر اعظم ، ملت پاکستان کو کافرو مشرک اور پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں، یہ پاکستان میں بسنے والی کسی بھی قوم، قبیلے یا مسلک کے خیر خواہ نہیں ہیں۔
یہ دہشت گرد ٹولے پاکستان اور بانی پاکستان سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ انہوں نے 15 جون 2013 کو زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی کو بھی بم دھماکوں سے تباہ کردیا ،تفصیلات کے مطابق ایک سے دو منٹ کے وقفے کے ساتھ چار بم دھماکے کئے گئے۔
چنانچہ موجودہ حالات میں پاکستان آرمی مسلسل ملک دشمنوں کے مظالم کے سامنے بند باندھنے میں مصروف ہے۔ پاکستان آرمی کی کامیابی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب عوامی سطح پر بھی لوگ اپنے ملک کےدشمنوں کو پہچانیں اور اُن سے نفرت کریں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ماضی میں ہماری افغانستان پالیسی اور امریکہ و سعودی عرب کے ایجنڈے کی وجہ سے ہمارے ملک میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو مضبوط ہونے میں مدد ملی ہے تاہم اب یہ ہم سب کی ملی ذمہ داری ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں اور اس ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں اپنی فوج کا ساتھ دیں۔
جن مدارس اور مراکز میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہو اور جولوگ ملک و قوم کے خلاف نوجوانوں اور جوانوں کو تیار کرتے اور بڑھکاتے ہوں ان کی نشاندہی کرنا ہم سب کا قومی و ملی فریضہ ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو جان اور مان لینا چاہیے کہ اقوام کی حفاظت قومی فوج کرتی ہے، جب تک کسی ملک کی قومی فوج مضبوط رہتی ہے اس وقت تک اس ملت کے دشمن ناکام و نامراد رہتے ہیں،لہذا اپنے دشمنوں کو ناکام اور نامراد کرنے کے لئے ہمارے عوام کو اپنی آرمی سے ہر ممکنہ تعاون کرنا چاہیے۔
ہمیں اپنے قومی اتحاد، وسعتِ قلبی، دینی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی سے اپنے بدترین دشمنوں پر یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اس ملک کی حفاظت کے لئے ہم سب پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز( آرٹیکل) چاپلوسی کی بھی حد ہوتی ہے، جب کوئی حد سے زیادہ بگڑ جائے تو ہر عقلمند اُسے روکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن چاپلوس ہروقت صرف واہ واہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
چاپلوسوں کی واہ واہ جب شروع ہوتی ہے تو پھر کہیں ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے حکمران بھی اور نام نہاد مفکرین و دانشمند بھی اپنے مفادات کے لئے اپنے آقاوں کی خوشامد اور چاپلوسی کے لئے واہ واہ میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔
صرف ہم پر ہی کیا بس، آپ دنیائے اسلام کا مرکز کہلانے والے سعودی عرب کو ہی لے لیں، مئی ۲۰۱۷ میں ریاض میں عالم اسلام کی عظیم کانفرنس منعقد ہوئی، اس کانفرنس میں ۵۵ اسلامی ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی۔
اس کانفرنس میں ٹرمپ کی آمد پر جو جشن منایا گیا اور جو بھنگڑے ڈالے گئے وہ اپنی مثال آپ ہیں، لیکن شاباش دیجئے آپ اُن چاپلوسوں کو جنہوں نے اس کانفرنس میں ٹرمپ کی شمولیت، اس کے خطاب اور اس کے چاپلوسانہ استقبال پر بحیثیت مسلمان کوئی اعتراض کرنے کے بجائے سعودی بادشاہوں کے دفاع اور اُن کی چاپلوسی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے۔ یعنی چاپلوسی در چاپلوسی کا ریکارڈ قائم کیا گیا۔
بعض نے تو یہانتک کہہ دیا کہ حضرت شاہ سلمان اس کانفرنس میں حضرت ٹرمپ کو سنتیں سکھا رہے تھے۔ خیر مسٹر ٹرمپ نے شاہ سلمان سے سنتیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ جو بھاری بھرکم ہدایا وصول کئے وہ بھی اہلِ شعور سے مخفی نہیں ہیں۔
اگر اس روز چاپلوس حضرات چاپلوسی کے بجائے غلط کو غلط کہہ دیتے تو آج مسٹر ٹرمپ کومقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی جرات نہ ہوتی۔
اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے امریکی صدرکے فیصلے کوتاریخی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اب کسی بھی امن معاہد ے میں مقبوضہ بیت المقدس بطوراسرائیلی دارالحکومت شامل ہوگا۔
یہ اسرائیل بھی وہی ہے اور امریکہ بھی وہی ہے، ریاض کانفرنس میں خطاب کرنے کے بعد ٹرمپ نے اسرائیل کا دورہ ہی تو کیا تھا، یعنی امریکہ، سعودی عرب ، اسرائیل اور ان کے چاپلوس ۔ یہ ایک ایسا مربع ہے جس کے اندر عالمِ اسلام کے خلاف سازشوں کاہر مربّہ تیار ہوتا ہے۔
گزشتہ روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے کہاہے کہ اسرائیلی دارالحکومت کی منتقلی کے فیصلے پر عملدرآمدکو یقینی بنایاجائےگا۔
اگر کہیں پر سعودی عرب کی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت پر بات کی بھی جاتی ہے تو چاپلوس حضرات اسے سرزمینِ حرم سے دشمنی قرار دے دیتے ہیں ، یعنی چاپلوسوں کے نزدیک سرزمینِ قدس، سرزمینِ حرم نہیں ہے اور قدس کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی ان کے نزدیک فلسطینی مسلمان ہیں۔
چاپلوس صرف اور صرف آلِ سعود کے خادم ہیں ، انہیں قدس اور فلسطین کی آزادی سے کوئی غرض نہیں۔ ان چاپلوسوں نے طالبان اور داعش بن کر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جتنی تباہی مچاہی ہے اگر یہ اتنی جدوجہد اسرائیل کے خلاف کرتے تو یقیناً اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔
لیکن چونکہ ان کا ہدف ہی پاکستان و عراق و شام سمیت تمام اسلامی ممالک کی قومی فوج، عوامی مراکز اور ملکی سلامتی کو نشانہ بنانا تھا ، اس لئے انہوں نے نہتے لوگوں کے گلے تو کاٹے، عوامی مراکز پر خود کش حملے تو کئے لیکن کبھی اسرائیل کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا۔پاکستان میں ٓرمی پبلک سکول پشاور سے لے کر شام کے شہر حلب اور عراق کے موصل میں ہر طرف ان کی وحشت و بربریت کی داستانیں رقم ہیں لیکن حکومت اسرائیل کے لئے ان کے سینے میں فقط پیار ہی پیار موجزن ہے۔
انہیں آرمی پبلک سکول کے ننھے منے بچے تو مشرک نظر آتے ہیں لیکن ٹرمپ مشرک نہیں نظر آتا ، یہ کسی دوسرے فرقے کے مسلمان کی تقریر سن لیں تو ان کے نکاح ٹوٹ جاتے ہیں لیکن ٹرمپ کےارشادات عالیہ سننے سے ان کے نکاح نہیں ٹوٹتے، یہ ریاض کانفرنس میں ایران کے خلاف تقریریں تو کر سکتے ہیں اور ایک بڑی فوج تو تیار کر سکتے ہیں لیکن فلسطین کی آزادی کے لئے ریاض میں اسلامی افواج کے سربراہوں کی ایک کانفرنس نہیں بلا سکتے۔
یاد رکھئے !بات ممالک اور مسالک کی نہیں ہے، بات، جذبہ ایمانی ، غیرت دینی حق اور باطل کی ہے۔
کیا اس دنیا میں اسرائیل سے بڑھ کر بھی کوئی دہشت گرد ہ! اگر نہیں تو پھر کہاں ہے وہ بین الاقوامی سعودی فوجی اتحاد اور کیوں اس عالمی سعودی آرمی کو سانپ سونگھ گیا ہے!!!
یقین جانیے اور لکھ کر رکھ لیجئے کہ دینا چاہے اِدھر سے اُدھر ہوجائے ، طالبان اور داعش کی طرح یہ فوجی سعودی اتحاد بھی، کبھی بھی اسرائیل کے خلاف ایک گولی تک نہیں چلائے گا۔
جی ہاں بالکل ایک گولی تک نہیں چلائے گا چونکہ جب ملتوں سے غیرت اور حق پرستی ختم ہو جاتی ہے تو زبانیں حق گوئی کے بجائے خوشامد کے لئے اور تلواریں دشمنوں کے خلاف چلنے کے بجائے رقص کے لئے استعمال ہونے لگتی ہیں۔
آخر میں قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ بقولِ شاعر
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) آج ہم ایک برائے نام انسانی معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانیت فقط برائے نام ہے ، اسی طرح ہم اسلامی عقائد کے بجائے اپنے من گھڑت عقائد کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، ہمارے عقائد کے پیچھے کسی قسم کی تحقیق کے بجائے دوسروں سے سنی سنائی باتیں اور کہانیاں ہوتی ہیں۔
ہم جب کسی سے لڑتے ہیں، کسی کے خلاف یا حق میں فتوے دیتے ہیں، کسی کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں یا کسی کو گلے سے لگاتے ہیں، یا کسی کو اچھا برا کہتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی اصول ، ضابطہ ، اخلاقی جذبہ یا قانونی و آئینی پہلو نہیں ہوتا۔
درحقیقت سب کچھ ہماری نادانی اور خاندانی جہالت کے گرد گھومتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے لیکن اس کے باوجود عقلِ کل بن کر بولتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ اگر دنیا میں بے وقوف اور جاہل بولنا بند کردیں تو دنیا کے مسائل ہی حل ہو جائیں۔
اب ہم نے اپنی نادانی کے باعث کچھ اس طرح کے عقائد بنا رکھے ہیں اور دوسروں کوبھی ان کی تعلیم دینا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں:
۱۔ پاکستان کی کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی
۲۔ہمارے ارد گرد سب لوگ راشی، مرتشی اور بد دیانت ہیں
۳۔ جہاں کوئی مسئلہ ہوجائے وہیں چاپلوسی کرنی اور رشوت دینی شروع کردیں
۴۔ظلم کو ظلم اور غلط کو غلط کہنے کے بجائے سب کو اچھا کہنے یا سب کو برا کہنے کا راگ الاپیں
۵۔ یہاں کوئی کسی کی نہیں سنتا،مسنگ پرسنز جیسے مسائل پر چپ سادھ لینی چاہیے، یعنی طاقتور کے خلاف احتجاج در اصل بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے
۶۔ یہاں تو دہشت گردی کبھی رُک ہی نہیں سکتی، دیگر ممالک کا اثرو نفوز ختم نہیں ہو سکتا
۷۔ اجتماعی ناانصافی کے باعث یہاں بے روزگاری اور فقر کبھی ختم نہیں ہو سکتا
۸۔ معاشرے میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات سب کتابی باتیں ہیں
۹۔ اور ۔۔۔۔
اس طرح کے عقائد اور سوچ کا منبع خدا سے ناامیدی ہے، جب لوگ خدا کے بجائے اقوام، قبیلوں، صوبوں، زبانوں، نوکریوں، دولت اور سٹیٹس کی پرستش شروع کر دیتےہیں تو اپنی اور معاشرے کی اصلاح سے مایوس ہو جاتے ہیں اورجہاں پر لوگ مایوس ہو جائیں وہاں پر انحرافات ، برائیوں اور منکرات کے خلاف جدوجہد ختم ہو جاتی ہے۔
اگر ہم خدا کی توحید اور یکتائی پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس خدا نے ہمیں یہ ملک عطا کیا ہے اس کی مدد و نصرت سے اس کی اصلاح بھی ممکن ہے، اللہ پر ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں منکرات کے خلاف جدوجہد اور حرکت کریں ۔ حرکت اور جدوجہد زندگی کی علامت ہے۔ توحید انسانوں کو زندگی دیتی ہے اور توحید پر عدمِ ایمان انسانوں اور معاشروں کی موت ہے۔
ہم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ انسانی افکار کی زندگی اور انسانی سماج کی اصلاح کا انحصار عقیدہ توحید پر ہے۔اگر ہم اصلاح اور جدوجہدسے مایوس ہیں تو در اصل ہمارا عقیدہ توحید کمزور ہے۔
ارشادِ پروردگار ہے:
وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءًۭ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦ إِخْوَٰنًۭا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍۢ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾
ترجمعہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران،آیت 103)
کیا کبھی ہم نے سوچا کہ وہ کونسی اللہ کی رسی ہے اور وہ کونسی نعمت تھی جس نے متفرق لوگوں کو متحد کر دیا، دشمنوں کو بھائی بھائی بنا دیا، کالے اور گورے ، عربی و عجمی کے فرق مٹا دئیے ، اگر ہم تدبر کریں تو اس میں سب سے بڑی نعمت ہمیں توحید ہی نظر آئے گی۔
بقولِ اقبال:
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی!
آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہ علم کلام!
روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو!
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
میں نے اے میر سپہ تیری سپہ دیکھی ہے
قل ہو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا‘ نہ فقیہہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دورکعت کے امام
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان ، احساسات و جذبات سے عبارت ہے، بعض افراد اتنے حسّاس ہوتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں لگے پودوں اور پالتو جانوروں و پرندوں کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے ہیں۔انسان جتنااحساسات و جذبات سے عاری ہوتا ہے اتنا ہی انسانیت سے بھی دور ہوتا ہے۔
اگر کسی کا ایک جانور گم یا لا پتہ ہو جائےتو پورے گھر پر سوگ کی فضا چھا جاتی ہے، اب پوچھئے اُن بچوں سے جن کے والدکو لاپتہ ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں اور محسوس کیجئے اُن ماں باپ کا اضطراب جن کے بچے کو گم ہوئے کئی دِن ہو چکے ہیں۔
کیا آج ہزاروں سالہ پرانے فرعونوں کے دور سے بھی بدتر زمانہ آگیا ہے!!!؟؟؟ فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کروا دیتا تھا اور عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا لیکن آج عورتیں اور مرد سب لا پتہ ہو رہے ہیں۔
بات فوجی اور سول کی نہیں،پولیس اور ایجنسیوں کی نہیں، جمہوریت اور آمریت کی نہیں بلکہ اس ملک کے حال اور مستقبل کی ہے اور اس ملت کی حالت زار کی ہے۔
بھلا کوئی حکومت اپنے عوام کے ساتھ ایسا رویہ بھی اپنا سکتی ہے کہ لوگ اشکوں میں تر کر کے نوالے کھائیں، سانسوں میں سسکیاں بھریں، اور کروٹ کروٹ دکھوں میں سلگیں۔
انگریزوں کی حکومت ہوتی تو اور بات تھی، ہندووں کی سلطنت ہوتی تو الگ مسئلہ تھا، طالبان کا نظام ہوتا تو دوسری نوعیت تھی لیکن یہاں تو نہ انگریز ہیں، نہ ہندو ہیں، نہ سکھ ہیں ، نہ عیسائی ہیں ۔۔۔
عوام کتنے ہی بُرے کیوں نہ ہوں، ایک اسلامی، فلاحی ، روشن خیال اور جمہوری سلطنت میں اُن کے سینوں میں خنجر گھونپنا کسی طور بھی روا نہیں۔ کوئی بلوچ ہو، سندھی ہو، پٹھان ہو، پنجابی ہو ، شیعہ ہو یا سُنّی ہو وہ اس ملک کا بیٹا ہے اور اس دھرتی کا فرزند ہے ۔ یہ زمین، یہ دھرتی، یہ ملک، یہ وطن ، یہ دیس اُس کی ماں ہے۔ اولاد جتنی بھی نافرمان ہو ماں کبھی بھی اپنے دامن کے سائے کو اُس کے سر سے نہیں ہٹاتی۔
کل تک جس طرح کچھ مذہبی جنونی بات بات پر دوسروں کی تکفیر کرتے تھے، دوسروں کو اسلام سے خارج کرتے تھے اور دوسروں کے خون کو مباح سمجھتے تھے پھر اس جنون سے ایسی آگ بھڑکی کہ جس نے داتا دربارؒ سے لے کر آرمی پبلک سکول پشاور تک ہر خشک و تر کو جلا کر راکھ کر دیا۔
آج اُسی طرح مذہبی تکفیر کے بعد اب سیاسی تکفیر کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے،اب وطنِ عزیز میں ایسی رسم چلی ہے کہ جس سے سیاسی اختلاف ہو اُسے ملک کا دشمن کہہ دیا جاتا ہے، جو سیاسی میدان میں سر اٹھانے کی کوشش کرے اُسے غدار کہہ دیا جاتا ہے، جو عوام کے حقوق کی بات کرے اُس پر قوم پرست اور غیروں کے جاسوس کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
ہم اربابِ حل و عقد کی خدمت میں مودبانہ طور پر یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح لوگوں کو زبردستی اسلام سے خارج کرنے کا نتیجہ انتہائی بھیانک نکلا ہے اُسی طرح لوگوں کو زبردستی پاکستانیت سے خارج کرنے کا انجام بھی اچھا نہیں ہو گا ۔
لہذا بحیثیت پاکستانی ہماری گزارش ہے کہ مسائل کاحل تکفیر سے نہیں بلکہ تدبیر سے کیاجانا چاہیے، سیاسی مخالفین کو زنجیر سے نہیں اخلاق سے اسیر کیا جانا چاہیے اور مشکلات کو جبروتشدد سے نہیں صبروتحمل سے حل کیا جانا چاہیے۔
اگر سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے تکفیر کا یہ سلسلہ جاری رہا تو کل کو جب دو ہمسائے بھی جھگڑا کیا کریں گے تو ایک دوسرے پر غداری اور مُلک دشمنی کا الزام ہی لگایا کریں گے۔
یقیناً یہ امر جہاں عوام میں بے چینی کا باعث ہے وہیں مُلک کی بدنامی کا سبب بھی ہے۔ گزشتہ دنوں سیاسی ٹسل کے باعث ایڈوکیٹ ناصر شیرازی کو بھی لا پتہ کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کا اس طرح سے لا پتہ ہونا قانونی مسئلے کے ساتھ ساتھ دینی ، اخلاقی اور انسانی احساسات و جذبات کا مسئلہ بھی ہے۔ ہمارے نزدیک ملک و ملت کی مصلحت یہی ہے کہ اس سلسلے کو اب بہر طور رُک جانا چاہیے۔
کوئی مذہبی مخالف ہو یا سیاسی، تکفیر کے حربے سے اُسے راستے سے ہٹانے کے بجائے اُس کے خلاف قانونی اور آئینی جدوجہد کرنی چاہیے۔
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ انسان جتنااحساسات و جذبات سے عاری ہوتا ہے اتنا ہی انسانیت سے بھی دور ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے میں دوسروں کے مذہبی اور سیاسی احساسات و جذبات کو مجروح ہونے سے بچائیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ ایاّم تاجدارِ ولایت اور خلیفہ راشدحضرت امام علی ؑ کی شہادت کے ایام ہیں، پورا عالم اسلام سوگوار اور اداس ہے، لیکن فقط سوگواری اور اداسی ، اس زخم کا مرہم نہیں ہے۔ اگر ہمیں مقتول سے محبت ہے اور ہم شہید کے ساتھ اپنی محبت کے تقاضے کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو فقط اشک بہانے یا قاتل کو برا بھلا کہنے سے اس محبت کا حق ادا نہیں ہوجائے گا۔
محبت کے دعویداروں کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ قاتل اور مقتول کے درمیان اختلاف کیا تھا؟ یہ ٹھیک ہے کہ انیس رمضان المبارک کو قاتل نے امام مبین کے سر اقدس پر ضرب لگائی اور اکیس رمضان المبارک کو آپ شہید ہو گئے لیکن اب محبت کے دعوے داروں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا آپ کے کفن دفن کے ساتھ آپ ؑ کی سیرت اور مشن کو بھی دفن کر دیا جائے یا اسے دنیا میں باقی رکھا جائے۔
حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ قاتل سے نفرت کے ساتھ ساتھ ، امام علیؑ کے مشن اور سیرت کو بھی زندہ رکھا جائے۔ اگر ہم نے فقط قاتل کو برا بھلا کہا اور امام کے مشن اور سیرت کو نہیں بچایا تو ہم بھی قاتل کے مددگاروں میں سے ہیں۔ چونکہ قاتل نے امام مبینؑ کو اُن کے مشن اور سیرت کی وجہ سے قتل کیا ہے۔
اگرہم نے چودہ سو سال کے بعد آج بھی امامؑ کی سیرت کا احیا کر لیا تو گویا ہم نے ابن ملجم کو شکست دیدی لیکن اگر فقط ہماری زبان پر تو علیؓ علیؓ رہا اور ہم زبانوں سے تو قاتل کو برابھلا کہتے رہے لیکن اپنے اعمال کو سیرت علی ابن ابی طالب ؑ کے مطابق انجام نہ دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری محبت فقط چند آنسووں اور نعروں تک محدود ہے۔
امیرالمومنین حضرت علی ابن ابیطالبؑ کی شہادت کا واقعہ ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ محبت جو صرف زبانوں تک محدود ہو اور سیرت و عمل کی پابند نہ ہو اسی سے خوارج اور ابن ملجم جنم لیتے ہیں۔
عبدالرحمن بن ملجم مرادی یمن کا رہنے والا تھا۔ جب خلیفہ سوم کو قتل کردیا گیا اور حضرت علی ؑ مسند خلافت پر بیٹھے تو آپ نے یمن کے سابق حاکم کو اپنی جگہ برقرار رکھا اور انہیں خط لکھا کہ اپنے علاقے کے دس ایسے افراد کو میری طرف بھیجو جو فصیح ترین، عقلمندترین ، دانا اور فہیم ہوں تو ان دس آدمیوں میں سے ایک یہی ابن ملجم مرادی تھا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابن ملجم کوئی عام سا ، سادہ لوح بندہ نہیں تھا کہ جسے دھوکے کے ساتھ قتل پر آمادہ کیا گیا ہے بلکہ اس کا شمار اپنے زمانے کے سمجھدار لوگوں میں ہوتا تھا۔
یہ چھانٹے ہوئے سمجھدار لوگ جب حضرت علی ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سلام کے بعد ابن ملجم کھڑا ہوا اور کہنے لگا:
السلام علیک ایہاالامام العادل ، والبدر التمام واللّیث الہمام ، والبطل
الضرعام ، والفارس القمقام ومن فضّلہ اللّہ علی سائر الایام صلی اللہ علیک وعلی آلک الکرام اشہد أنّک امیرالمؤمنین صِدقاً وحقاً وأنّک وصیُّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم من بعدہ۔( بحارالانوار، ج ٤٢ ،ص٢٦٠۔)
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ابن ملجم بھی حضرت امام علیؑ کی خلافت و ولایت اور امامت کا اقرار کرتا تھا اور آپ کے فضائل پڑھتا تھا۔
بعد ازاں ابن ملجم کوفہ میں ساکن ہوا ۔ یہ جنگ جمل اور صفین حضرت علی ؑ کے لشکر میں تھا بعد ازاں خوارج کا ہم فکر ہوگیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ابن ملجم کو ایسا کیا ہوا کہ یہ خلیفہ راشد اور امام وقت کا جانی دشمن بن گیا!؟ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ابن ملجم کو امام کی پیروی سے نکال کر امام کی دشمنی پر آمادہ کرنے والے دو خارجی تھے۔ ایک کانام برک ابن عبد اللہ اور دوسرے کا نام عمرو بن بکر تمیمی ہے۔ یہ خارجی وہ لوگ تھے جو صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعوی کرتے تھے اوریہ جنگ صفین میں حضرت امام علی ؑ سے جدا ہوگئے تھے۔
یہ لوگ اپنے آپ کو اتنا سمجھدار سمجھتے تھے کہ قرآن سے اپنے مسائل خود حل کرنے کے درپے تھے ، اور امام علیؑ کی اطاعت کے بجائے صرف اللہ اور قرآن کی اطاعت کا نعرہ لگاتے تھے۔ یہ لوگ اول درجے کے عبادت گزار اور قاری قرآن تھے لیکن قومی، سیاسی اور اجتماعی مسائل کو نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ مکے میں ابن ملجم کو انہوں نے اس بات پر قائل کیا کہ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ نعوذ باللہ حضرت امام علیؑ ، قرآن پر عمل نہیں کر رہے اور حکم خدا پر عمل نہیں ہورہا۔ ابن ملجم ان کی دلیلوں سے قائل ہوگیا اور اس نے ان سے وعدہ کیا کہ عالم اسلام کے سیاسی مسائل کے حل کے لئے وہ امیرالمومنین ؑ کو شہید کرے گا۔ اس کے بعد جب ابن ملجم کوفے میں پہنچا تو کوفے میں ابن ملجم کو قطام نامی عورت نے بلایا ، قطام کا باپ اور دو بھائی خارجیوں میں سے تھے اور مولاؑ کے ساتھ جنگ میں مارے گئے تھے۔ اس نے بھی ابن ملجم کو امیرالمومنینؑ کو شہید کرنے کے صلے میں شادی کا لالچ دیا۔
یوں ابن ملجم جیسا سمجھدار شخص بھی قومی، ملی، اجتماعی اور سیاسی سوجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے خوارج کے ہمراہ ہو گیا اور خلیفۃ اللہ اور خلیفۃ الرسولﷺ کے قتل کا مرتکب ہوا۔
اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ اسلام فقط عبادات اور تلاوت قرآن تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان کے لئے مقامی، ملی، اجتماعی، بین الاقوامی اور سیاسی شعور بھی ضروری ہے۔ ورنہ جس آدمی کو اسلام کا حقیقی شعور نہ ہو تو خوارج کی طرح کوئی بھی اپنی مرضی کی چند آیات سنا کر اور چند احادیث کو جوڑ توڑ کر، اس کے دین سے کھیل سکتاہے، اس کی نماز و روزے کو بدل سکتا ہے، اسے خودکش بمبار بننے پر تیار کر سکتا ہے اور اسلام کی محبت کے نام پر بے گناہ انسانوں کو قتل کروا سکتا ہے۔ آج بھی یہ جتنے بھی بے گناہ انسانوں کے قاتل ، ہمارے ارد گرد موجود ہیں ، ان سب کو اسلام کے نام پر ہی تیار کیا گیا ہے۔
یہ آج جو دنیا میں قرآن و حدیث کا نام لے کر ، لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، یہ خوارج اور ابن ملجم کا طرز عمل ہے۔ اگر ہم اپنے زمانے کے خوارج اور ابن ملجم کو روکنا چاہتے ہیں ، اگر ہم امیرالمومنینؑ حضرت علی ابن بیطالب ؑ کی طرح دین کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں معاشرے میں سنی سنائی باتوں کے بجائے، دین کی حفاظت کے لئے دین کے فہمِ عمیق اور حقیقی دینی تعلیمات کی حاکمیت کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہماری زبانوں پر نام علیؑ کے ساتھ ہمارے کاموں میں بھی سیرت علیؑ کی جھلک ہونی چاہیے۔ ورنہ یاد رکھئے ! وہ محبت جو صرف زبانوں تک محدود ہو اور سیرت و عمل کی پابند نہ ہو، اسی سے گمراہیاں پھیلتی ہیں اور خوارج اور ابن ملجم جنم لیتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) اتحاد امت پر سبھی زور دیتے ہیں، جو اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں، آپ ان سے پوچھیں تو وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اتحاد امت بہت ضروری ہے۔ اس پر بہت کانفرنسیں ہو چکی ہیں اور بہت کچھ لکھا جا چکاہے۔ اب ضرورت یہ ہے کہ اتحاد امت کی خاطر جدید خطوط پر سوچا جائے اور پرانی اور تجربہ شدہ راہوں کو ترک کیا جائے۔
اب تک جو اتحاد امت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ چند مسلمان فرقوں یا ممالک کا خود مسلمان فرقوں اور ممالک کے خلاف ہی اکٹھے ہو جانا ہے۔ درحقیقت، اتحاد کسی کے خلاف اکٹھا ہونے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے ردعمل میں جمع ہوجانے کا نام اتحادہے۔ اتحاد بھی نماز کی طرح ایک دینی فریضہ اور مسلسل عمل ہے۔
تمام اسلامی فرق و مذاہب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مشکلات اور اسباب، ان رویوں اور نظریات پر نظر ثانی کریں جن کی وجہ سے امت متحد نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ہاں پاکستان میں سب سے معتدل ترین اور پیارو محبت بانٹنے والا مسلک بریلوی مسلک ہے۔ اس مسلک کو یہ خصوصیت اور خوبی حاصل ہے کہ اس نے اکثریت کے باوجود کبھی اقلیتوں پر زبردستی اپنے عقائد نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ افسوس کی بات ہے کہ کئی جگہوں پر اس مسلک کی مساجد پر قبضے کئے گئے اور اس کی کئی علمی شخصیات کو قتل کیا گیا اور اس کے نزدیک مقدس مقامات مثلا اولیائے کرام کے مزارات پر دھماکے کئے گئے لیکن اس کے باوجود اس مسلک نے نفرتوں، دشمنیوں اور زیادتیوں کا جواب ، اولیائے کرام کی تعلیمات کے مطابق پیارو محبت سے دیا ہے۔
پاکستان کا مورخ یہ لکھنے میں حق بجانب ہے کہ اس مسلک نے اکثریت میں ہونے کے باوجود، اقلیتوں کا خیال رکھا اور ان سے محبت آمیز برتاو کیا۔
پاکستان میں دوسرا نمایا ں مسلک اہل تشیع کا ہے۔ اہل تشیع سے دیگر مسالک کو عرصہ دراز سے یہ شکایت تھی کہ بعض شیعہ خطبا دیگر مسالک کو برداشت نہیں کرتے اور ان کی دل شکنی کرتے ہیں۔ مجھے چند سال پہلے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ جہان تشیع کے مرجع سید علی خامنہ ای ؒ نے جہاں یہ فتوی صادر کیا ہے وہیں اپنی مختلف تقریروں میں بھی یہ کہا ہے کہ خبردار کسی بھی دوسرے مسلک کی دل شکنی اور ان کے مقدسات کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا حرام ہے۔
اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص ایسا فعل انجام دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تعلق اہل تشیع کی پڑھی لکھی اور باشعور کمیونٹی سے نہیں ہے۔ اب بے شعور اور ان پڑھ آدمی تو کسی کے بارے میں بھی کچھ بھی کہہ سکتا ہے ، وہ تو خود اپنے ہی علما اور شخصیات کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ کہہ سکتا ہے۔ لہذا ہماری مراد پڑھے لکھے اور باشعورلوگوں کا طبقہ ہے۔
ہمارے ہاں تیسرا نمایاں مسلک ان احباب کا ہے جنہیں ہم سلفی، اہلحدیث یا دیوبندی کہتے ہیں۔جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان میں سرگرم ہونے کی وجہ سے یہ احباب کم ہونے کے باوجود زیادہ پررنگ ہیں۔ان مسالک کا عقیدتی و فکری مرکز تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ سعودی عرب کی بادشاہت و خلافت ہے۔
ان کے دینی مدارس کی تعداد اور ان کے عسکری تربیت شدہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر اس توانائی کو بھی مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ بھی پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اب انہیں بھی چاہیے کہ ملکی سلامتی اور اتحاد امت کے لئے اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ اپنے مزاج میں لچک پیدا کریں اور سعودی عرب کو امریکہ و اسرائیل کے بجائے عالم اسلام سے قریب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
دیکھیں ! اگر سعودی عرب ، چھوٹے چھوٹے اور اپنے ہی بنائے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف ، انتالیس اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد بنا سکتا ہے، تو فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے کیوں اسلامی فوجی اتحاد نہیں بناسکتا، اگر پچپن اسلامی ممالک کے سربراہوں کو ٹرمپ کے استقبال کے لئے جمع کر سکتا ہے تو فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لئے، ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس، ریاض میں کیوں منعقد نہیں ہو سکتی!؟
ویسے بھی یہ ماہ رمضان المبارک ہے ، اس کے آخری جمعہ المبارک کو مسلمان یوم القدس کے نام سے مناتے ہیں، عالمی منظر نامے کے تناظر میں اس مرتبہ پاکستان کے تمام مذاہب و مسالک کو چاہیے کہ وہ مل کر یوم القدس منائیں۔
مانا کہ سعودی عرب کی کچھ مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے وہاں سے قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند نہیں ہو سکتی لیکن پاکستان میں بسنے والے سلفی و اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کے لئے تو کوئی مجبوری نہیں ، یہ تو پاکستان میں یوم القدس کی ریلیوں میں شریک ہو سکتے ہیں۔
اگر سعودی عرب سے قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند نہیں ہو سکتی تو پاکستان سے ہی یہ آواز بلند کی جائے۔ ایک اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے پاکستان بھی کسی سے کم نہیں ، پاکستان میں ہی بھرپور طریقے سے ، مل کر یوم القدس منایا جانا چاہیے۔
ہم کب تک کشمیر اور قدس کی آزادی کے لئے دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے، اگر پاکستان کے تمام مسالک و مکاتب کے علما مل کر یوم القدس کی ریلیوں میں شرکت کریں تو وہ پیغام جو سعودی عرب سے امریکہ و اسرائیل کو نہیں مل رہا ، وہی پیغام پاکستان کی سر زمین سے انہیں مل جائے گا اور انہیں سمجھ آجائے گی کہ مسلمان، قدس کی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
nazarhaffi@ gmail.com