وحدت نیوز(آرٹیکل) استاد نے بچے کو کلاس سےنکال دیا، والدین پریشان ہوئے، استاد سے استفسار کیا تو استاد نے کہا کہ آپ کا بچہ مزید تعلیم کے قابل نہیں رہا، وجہ یہ بتائی گئی کہ اس کے دماغ کی سوئی ایک جگہ اٹک گئی ہے۔استاد نے سوئی اٹکنے کی دلیل یہ دی کہ یہ ہر موضوع پر ایک ہی طرح کا مضمون لکھتا ہے۔ مثلا میں نے اسے آم پر مضمون لکھنے کو کہا تو اس نے اس طرح سے لکھا کہ آم پھلوں کا بادشاہ ہے، لیکن یہ عرب میں نہیں پایا جاتا ، یہ عرب کے بدو کیا جانیں کہ آم کیا ہوتا ہے ۔ یہ غیر مہذب عرب آج بھی۔۔۔
پھر میں نے اسے اونٹ پر مضمون لکھنے کو کہا تو اس نے لکھا کہ اونٹ عرب میں پائے جاتے ہیں، عرب کے بدو اونٹوں پر سواری کرتے ہیں اور اونٹوں کی طرح کینہ رکھتے ہیں، یہ غیر مہذب عرب آج بھی۔۔۔
پھر میں نے اسے قلم پر مضمون لکھنے کو کہا تو اس نے لکھا کہ قلم میں بڑی طاقت ہے لیکن عرب اس طاقت سے غافل ہیں، یہ غیر مہذب عرب آج بھی۔۔۔
پھر میں نے اسے علم پر مضمون لکھنے کو دیا تو اس نے اس طرح سے مضمون باندھا کہ علم نور ہے، علم روشنی ہے لیکن عرب اس روشنی کے بجائے عیاشی کے پیچھے لگے ہیں، یہ غیر مہذب عرب آج بھی۔۔۔یہ بچہ ہر مسئلے کو موڑ کر اپنے من پسند موضوع میں ڈھال دیتا ہے۔
یاد رہے کہ سوئی کے اٹک جانے کا باعث اندھے تعصب کے علاوہ معلومات کی کمی بھی ہے۔اگر آپ توجہ فرمائیں تو ہمارے ہاں اکثر لوگوں کی سوئی اٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ آپ حکمرانوں کی کرپشن کی بات کریں تو وہ فوراً کہیں گے کہ لوگ بھی تو چور ہیں، آپ کرایوں میں اضافے کی بات کریں تو وہ آگے سے پھر کہیں گے لوگ بھی تو چور ہیں، آپ مہنگائی کی بات کریں تو پھر یہی جواب ملے گا کہ لوگ بھی تو چور ہیں۔۔۔یہ مسائل کو گھما کر لوگوں کی طرف لے جائیں گے۔
اسی طرح بعض لوگوں کی سوئی شیعہ سنی فساد پر اٹکی ہوتی ہے، آپ میانمار کی بات کریں یہ شیعہ سنی مسائل کو ابھارنا شروع کر دیں گے ، آپ ملک میں اسلامی اقدار کی بات کریں انہیں شیعہ سنی جھگڑے یاد آجائیں گے، آپ جہان اسلام میں اتحاد کی بات کریں یہ شیعہ سنی مناظروں پر اتر آئیں گے۔۔۔یہ ہر مسئلے کو گھسیٹ کر شیعہ سنی جھگڑوں کے ساتھ جوڑیں گے۔
اسی طرح کچھ لوگوں کی سوئی اپنے علاقائی مسائل پر اٹک جاتی ہے، آپ کہیں اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کر رہا ہے یہ بغیر کسی موازنے اور تجزیے کے کہیں گے کہ ہم بلوچی بھی تو مظلوم ہیں، انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اسرائیل کے مظالم کی نوعیت کیا ہے اور فلسطینیوں کی مظلومیت کی انتہا کیا ہے۔یہ سارے مسائل کو بلوچستان کے مسائل کے ساتھ منسلک کریں گے۔
اسی طرح اگر آپ کہیں کہ کشمیر میں ہندوستان ظلم کر رہا ہے تو یہ کہیں گے کہ ہم سندھی بھی تو مظلوم ہیں، یہ کشمیر میں ہندوستان کے مظالم سے یا تو بے خبر ہوتے ہیں اور یا پھر علاقائی تعصب میں اندھے۔یہ کشمیر کےمسائل کو بھی سندھ کے گرد گھمائیں گے۔
اگر آپ کہیں کہ یمن میں ظلم ہو رہا ہے تو یہ کہیں گے ہمارے خیبر پختونخواہ میں بھی ظلم ہو رہا ہے، کیا آپ بھول گئے کہ اے پی ایف میں کیا ہوا تھا! یہ لوگ یمن پر ہونے والے ظلم کو یا تو جانتے نہیں اور یا پھر علاقائی تعصب نے انہیں اندھا کر رکھا ہوتا ہے۔یہ سارے مسائل کی جڑیں خیبر پختونخواہ میں ڈھونڈتے ہیں۔
اگر آپ کہیں کہ سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور مسلمانوں کو لڑواکر کمزور کرنے میں غیر مسلم طاقتوں کا ہاتھ ہے تو یہ لوگ مختلف فرقہ پرست مولویوں کی اشتعال انگیز تقریریں اکھٹی کر کے لے آئیں گے کہ غیر مسلموں کا کوئی ہاتھ نہیں بس یہ مولوی ہی کرتا دھرتا ہیں۔
حتی کہ اگر آپ یہ دعویٰ کریں کہ دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان سائنسدانوں کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے قتل کیا ہے تو یہ چونک کر کہتے ہیں نہیں یہ ممکن ہی نہیں مسلمانوں کو تو فقط تکفیری قتل کرتے ہیں۔۔۔
آپ لاکھ کہیں کہ تکفیری عناصر کی فکری تربیت اور مالی اعانت را اور موساد جیسی ایجنسیاں کرتی ہیں لیکن ان کے نزدیک تکفیریت کی نشونما میں را اور موساد کا کوئی ہاتھ ہی نہیں۔
اگر آپ یہ کہیں کہ موساد کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی ایک مختصر رپورٹ یہ ہے کہ 21 اپریل 2018 کو کوالامپور میں فلسطینی راکٹ انجنیئر کو قتل کیا گیا۔ 13 فروری کو حسن علی خیرالدین نامی پی ایچ ڈی انجنئر کو کینیڈا میں قتل کیا گیا۔ 28 فروری کو لبنان سے تعلق رکھنے والے فزکس کے طالب علم کو فرانس میں قتل کیا گیا۔ 25 مارچ کو فلسطینی نوجوان سائنسدان کو اسرائیلی فوجیوں نے قتل کیا۔ موساد کی جانب سے مسلمان سائنسدانوں کے قتل کا سلسلہ پرانا ہے۔ ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں۔ حسن رمال فزکس کے میدان کے مانے ہوئے سائنسدان جنہیں 1991میں قتل کیا گیا۔
سعید بدیر میزائل ٹیکنالوجی میں ماہر تھے انہیں 1989 میں قتل کیا گیا۔ سمیر نجیب نامی مصری سائنسدان ایٹمی ٹیکنالوجی میں معروف تھے انہیں 1967 میں قتل کیا گیا۔ سلوی حبیب نامی محققہ جو کہ صہیونی سازشوں کو بے نقاب کرتی تھیں، انہیں اپنے ہی فلیٹ میں بیدردی سے ذبح کیا گیا۔ حسن کامل الصباح لبنانی سائنسدان جنہیں عرب کا ایڈیسن کہا گیا انہیں امریکہ میں قتل کیا گیا۔ مصطفیٰ مشرفہ نامی ماہر فزکس کو زہر دیکر فرانس میں قتل کیا گیا۔
ڈاکٹر نبیل القلینی نامی سائنسدان جن کا تعلق مصر سے انہیں 1975 میں اس طرح جبری لاپتہ کیا گیا کہ آج تک ان کا سراغ نہ مل سکا۔ ڈاکٹر سامعیہ میمنی نامی ڈاکٹر کہ جن کی تحقیق نے دل کے آپریشن کے زاویے ہی بدل دیئے، انہیں 2005 میں قتل کرکے ان کے ایجاد کردہ آلے اور علمی تحقیقاتی مسودات کو بھی چرالیا گیا۔ یحییٰ المشدنامی جوہری سائنسدان کو فرانس میں قتل کیا گیا۔ سمیرہ موسیٰ نامی سائنسدان کہ جنہوں نے ایٹمی توانائی کے طبی مقاصد میں استعمال سے متعلق ایجادات اور تحقیق کی، انہیں بھی قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایران کے متعدد سائنسدان بالخصوص دفاعی ٹیکنالوجی سے وابستہ افراد کو موساد کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہوگا لیکن اس کے باوجود وہ کوشش کریں گے کہ یہ ملبہ بھی کسی نہ کسی طرح تکفیریوں پر ہی ڈال دیا جائے۔
جب تک ہم فرقوں کی منافرت، مقامی مسائل، گلی محلے کی لڑائیوں اور انتقامی سوچ سے باہر نہیں نکلتے ، تب تک ہم استشراق، دشمن کے جاسوسی اداروں اور استعمار و استکبار کی سازشوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ عصر حاضر میں امت مسلمہ کا دشمن کون ہے!اس کی تاریخ کیا ہے؟ اس کے اہداف کیا ہیں، اس کا طریقہ واردات کیا ہے؟دشمن کس طرف مورچہ زن ہے ؟ اور دشمن کی سپلائی لائن کہاں ہے؟ ان سب باتوں کو سمجھے بغیر دشمن کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
تحریر:نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) آپ سکول کھولئے، اچھا کاروبار ہے،ساتھ یہ مشہور کر دیجئے کہ آپ کے سکول میں امریکن و انگلش نظام تعلیم ہے، یہ مشہور کرنے سے آپ کے سکول کی اوقات بڑھ جائے گی،طلبا کارش زیادہ ہوجائےگا اور والدین کی واہ واہ بھی سننے کوملے گی۔
بلاشبہ امریکہ و مغرب کے تعلیمی نظام کا تصور ہمارے ہاں بہت مقبول ہے،لیکن کیا کبھی ہم نےاس نظام تعلیم کے نتائج پر بھی غور کیا ہے ، بعنوان مثال غصے میں آکر انسان کا انسان کو قتل کردینا، یا مشتعل ہوکر کسی کو زدوکوب کردینا ایک افسوس ناک امر ہے لیکن مغربی اور امریکی دنیا میں انسان کے انسان کو قتل کرنے یا زدوکوب کرنے کے لئے غصے میں آنے یا مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔امریکی و مغربی نظام تعلیم کا اثر یہ ہے کہ وہ غصے یا اشتعال کے بجائے قہقہے لگاتے ہوئے انسانوں کا قتل ِ عام کرتے ہیں۔
امریکہ و مغرب میں انسان کو جو تعلیم دی جاتی ہے اس کا تجربہ آپ اس وقت کیجئے جب وہ آپ کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم نے فلاں ملک پر اپنے مفادات کی خاطر حملہ کرنا ہے، آپ یا تو ہمارے ساتھ اس ظلم کو انجام دینے میں شریک ہوجائیں اور یا پھرآپ بھی ظلم سہنے کے لئے تیار ہوجائیں۔اگر آپ کو یاد ہو تو یہی وہ پیغام تھا جواسی مفہوم مگر مختلف عبارت کےساتھ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرتےہوئے پاکستان کو بھی دیا تھا۔
دوسری طرف اسلام کا پیغامِ تعلیم یہ ہے کہ جو ظلم کرے وہ بھی قابلِ مذمت ہےاورجو ظالم کا مدد کرنے والا ہے وہ بھی مذموم ہے اور ظلم کو سہنا بھی ایک قبیح فعل ہے۔ یعنی اسلامی تعلیمات کی رو سے ظلم کرنا ، ظالم کی مدد کرنا اور ظلم سہنا یہ تینوں قابلِ مذمت افعال ہیں۔
اگر آپ مزید امریکہ ومغرب کے نظام تعلیم کے کرشموں کو باریک بینی سے دیکھنا چاہیں تو ابوغریب اور گوانتامو کی جیلوں میں مقیدقیدیوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں کہ جہاں کوئی شخص ،مشتعل ہوکر اور غصےمیں آکر کسی انسان کے بدن میں ڈرل مشین سے سوراخ نہیں کرتا بلکہ ایک پڑھا لکھا انسان، استری شدہ پینٹ اور کوٹ میں ملبوس، بہترین پرفیوم لگائے ہوئے، قہقہے لگاتے ہوئے اورمسکراتے ہوئے بے چارے قیدیوں کو پکڑ کر ان کے جسم کا قیمہ بناتاہے اور انہیں برہنہ کر کے ان پر بدترین تشدد کرتا ہے۔
امریکی و مغربی نظام تعلیم و تربیت سے گزرے ہوئے لوگوں کو کسی پر ظلم کرنے کے لئے قطعا مشتعل ہونے یا غصے میں ا ٓنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ظلم اور تشدد ان کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے۔ جہاں ان کا مفادپورا نہیں ہوتا وہاں ان کی تعلیم و تربیت اپنا اثر دکھا تی ہے۔
آپ ایک طرف ان کے انسانی حقوق کے نعرے دیکھئے اوردوسری طرف کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو ہی لیجئے ،یہ دونوں مسئلے یورپ اور امریکہ کے پیدا کردہ ہیں اور اگر کہیں ایک اسرائیلی فوجی مارا جائے تو سارا یورپ اور امریکہ غمزدہ ہوجاتا ہے لیکن فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کیے جانے پر یورپ و امریکہ کے ایوانوں میں کسی قسم کا زلزلہ نہیں آتا، ان کے ہاں ایک سلمان رشدی کی جان کی اتنی اہمیت ہے کہ سارے کشمیریوں کی اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں۔
امریکہ و یورپ کے نظامِ تعلیم و تربیت کو سمجھنے کے لئے اس بات کو سمجھئے کہ دنیا میں جہان بھی کوئی مسئلہ ہے وہاں امریکہ و یورپ کی مداخلت ہےاور جہان بھی قتل وغارت اور خون ریزی ہے وہاں انہوں نے داعش، القاعدہ، طالبان اورلشکر جھنگوی جیسے مزدور پال رکھے ہیں۔الغرضیکہ ہمارے تھانوں اور کچہریوں کا نظام بھی اسی استعمار کا دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہاں بھی لوگو ں کو انصاف مہیا کرنے کے بجائے رقم بٹوری جاتی ہے۔
یہ مغرب اور امریکہ کی مفاد پرستی ہی ہے جو مغربی و امریکی نظام تعلیم کی بنیادیں فراہم کرتی ہے اور جس کے بعد پیسہ کمانے کے لئے بڑے بڑے شاندار ہسپتال تو تعمیر کئے جاتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کی فیسیں اتنی بھاری ہوتی ہیں کہ لوگ علاج کے بغیر ہی مر جاتے ہیں۔بلکہ بعض مقامات پر پیسے کے پجاری لوگوں کے گردے تک نکال کر بیچ دیتے ہیں۔
امریکہ و مغربی تعلیم یافتہ لوگ غلطی سے ایک آدمی کو بھی قتل نہیں کرتے بلکہ اپنے مفادات کے لئے مکمل پلاننگ اور منصوبہ بندی سے ممالک میں داخل ہوتے ہیں، حکومتوں میں نفوز کرتے ہیں، اداروں کو استعمال کرتے ہیں اور انسانی جانوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔آپ کے سامنے شام ، عراق ، افغانستان اور یمن کی صورتحال ہے، آپ خود دیکھ لیجئے کہ یہ جہاں داخل ہوئے انہوں نے وہاں کے بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو کس حال میں پہنچا دیا ہے۔
ان کے سامنے کوئی اصول، کوئی ضابطہ اور کوئی قاعدہ نہیں، حتی کہ ان کے ہاں جمہوریت بھی ایک ایسی لونڈی کی حیثیت رکھتی ہے کہ جو ان کے مفادات کے لئے کام کرتی ہے ورنہ یہ بادشاہت و آمریت کے سرپر ہی دستِ شفقت رکھ دیتے ہیں، جیساکہ انہوں نے عرصہ دراز تک صدام کے سرپر دستِ شفقت رکھا اور آج کل عرب ریاستوں کے سروں پر ان کا دستِ شفقت ہے۔ان کی آشیر باد سے سفارتخانوں میں صحافی قتل ہوتے ہیں اور یمن میں ایک گھنٹے کے اندرایک بچہ بھوک سے مرجاتا ہے۔
کشمیر و فلسطین کو تو اب رہنےہی دیجئےاور امریکہ ومغرب کے بارے میں اپنی معلومات کو وسعت دینے کے لئے ان گزشتہ چند سالوں میں یوگوسلاویہ، بوسنیا، فلوجہ، یمن اور کوفہ میں امریکیوں و مغربیوں کے ہاتھوں بلواسطہ یا بلاوسطہ مسلمانوں کے قتلِ عام کی تاریخ کی تحلیل کیجئے اور دیکھئے کہ کس بے دردی سے انہوں نے ان چند سالوں کے اندر اپنے مفادات کے حصول کے لئے انسانی جانوں کو قربان کیا ہے۔
ہم آپ کو فقط اتنا یاد دلاتے ہیں کہ جنگ ِعراق کے دوران عراق کے شہر فلوجہ پر ریاستہائے متحدہ امریکا نے 2003ء کومحاصرہ کر کے قبضہ کر لیا تھا۔ اس حملے میں غیر قانونی ہتھیاروں کے استعمال سے امریکی فوجیوں نے عام شہریوں کو نشانہ بنایا جس کے طبی اثرات وہاں پیدا ہونے والے بچوں میں آج بھی موجود ہیں۔
امریکی و مغربی ثقافت ا ور تعلیمی نظام سے متاثر ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی صرف پیسہ ہی لوگوں کی زندگیوں کا ہدف بن گیا ہے۔پولیس اور ایف سی جن کا فلسفہ وجودی ہی قانون کی حفاظت ہے وہ بھی رشوت لیتے ہیں ، اسی طرح دیگر اداروں میں بھی عوام کی خدمت کے بجائے عوام کو لوٹنے کا رجحان پایا جاتا ہے اور ادارے لوگوں کو ماورائے قانون اغوا کر لیتے ہیں۔یہ سب ناقابلِ اصلاح نہیں بلکہ قابلِ اصلاح ہے۔
اگر ہم اصلاحِ احوال چاہتے ہیں تو نظامِ تعلیم کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے ،نہ صرف یہ کہ امریکہ و مغرب کا نظام تعلیم انسانیت کے لئے زہرِ مہلک ہے بلکہ ایسا نظام تعلیم بھی جس میں امریکہ و یورپ کی تاریخی و ثقافتی منافقت اور دوغلے پن کو اسلامیات کے ساتھ مخلوط کر کے بچوں کو پڑھایاجاتا ہے وہ بھی انسانیت کے لئے سمِ قاتل ہے۔ ہمیں ایک ایسے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے کہ جس میں اسلامی متون کے اندراجتہاد کر کے ایک مکمل نظامِ تعلیم کی بنیادڈالی جائے تاکہ ہمارے طالب علم، دینِ اسلام کو ایک فطری اور معقول دین سمجھ کر قبول کریں اور مال و مفاد نیز پیسے کی دوڑ میں لگنے کے بجائے علم اور ٹیکنالوجی کے ذریعے سے مظلوم انسانیت، مٹتی ہوئی عدالت، دم توڑتے ہوئےانصاف اور مضطرب سماج کی خدمت کرسکیں۔
انسان معاشرے میں اور معاشرہ تاریخ میں رشد کرتا ہے۔ آپ تاریخی تجربے کی روشنی میں آج اپنے جدیدنظام تعلیم کو اسلامی اجتہاد کی بنیادوں پر اسوار کیجئے ، اگلے چند سالوں میں آپ کا معاشرہ تبدیل ہوجائے گا۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) کمزور اپنے اوپر ہی غصہ نکالتا ہے،اگر کوئی علمی و فکری طور پرکمزور ہو تو وہ اپنے گلی محلےوالوں کی غیبت میں ہی سارا دن صرف کردیتا ہے، جیسے جیسے انسان کی سوچ کاافق وسیع ہوتا جاتا ہے ،اسکے دوستوں اور دشمنوں کی سطح بھی مختلف ہوجاتی ہے، ہم عموماًاپنے ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال میں پھنسے رہتے ہیں اور یا پھر دوسرے ممالک کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کے بیانات تک محدود رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے دشمن کی دشمنی ہماری حکومتوں یاسرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ دشمن تمام اسلامی ممالک، اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب و تمدن سے بر سر پیکار ہے۔
بدقسمتی سے ہم انتہائی محدود سوچ اور کمزور اطلاعات کی بنیاد پر تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں جبکہ ہمارے مخالفین تاریخی تناظر کے ساتھ تجزیہ اور پلاننگ کرتے ہیں۔۱۱ستمبر ۲۰۰۱ کے واقعات کے بعد دنیا ابھی حالات کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہی تھی تو ۱۶ ستمبر ۲۰۰۱کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نےوائٹ ہاوس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس صلیبی جنگ (crusade)، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجنے جا رہا ہے۔ اور امریکی عوام کو صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میں بھی صبر کا مظاہرہ کروں گا۔ لیکن میں امریکی عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ثابت قدم ہوں، اور پیٹھ نہیں دکھاؤں گا۔
اس دور میں ہم جب وقتی حالات کے تحت قومی فیصلے کر رہے تھے تو اس وقت مغربی و امریکی اقوام، تاریخی پسِ منظر کے ساتھ ، ہمیں مسلمان سمجھ کربحیثیت مسلمان ہمارا تعاقب کر رہی تھیں۔مذہبی و دینی بنیادوں پر ہمارا تعاقب اس بات کی دلیل ہےکہ دشمن صلیبی جنگوں کو تسلسل کے ساتھ لڑ رہاتھا، یہ لڑائی کسی اسلامی حکومت تک محدود نہیں تھی بلکہ اس لڑائی میں ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کیا گیا، قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا گیا،نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنایا گیا،تعلیمی ا داروں کوتباہ کیا گیا ، سول شہریوں کو یرغمال بنایا گیا ۔اب تک صرف افغانستان میں سول شہریوں پر ٹنوں کے حساب سے بارودی مواد گرایا گیا۔شام و عراق میں انفرااسٹریکچر کو تباہ کرنے کے بعد آثار قدیمہ تک کو منہدم کر دیا گیا ، صلیبی جنگوںمیں اس سے پہلے دشمن نے ہم پر ہر طرح کاحربہ ازمایا تھا ، حتی کہ ایک صلیبی جنگ صرف بچوں کے ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف لڑی گئی تھی۔
"بچوں
تاریخی اسناد کے مطابق 1212ء میں مسلمانوں خلاف کی صلیبی جنگ" لڑی گئی۔ مسیحی راہبوں کا کہنا تھا کہ بڑی عمر کے افراد گنہگار ہوتے ہیں اس لئے ہمیں مسلمانوں پر فتح نصیب نہیں ہورہی ، جبکہ بچے معصوم ہوتے ہیں ،انہوں نے معصوم بچوں پر مشتمل 37 ہزار کا ایک لشکر بنایا جو فرانس سے روانہ ہوا۔ یہ لشکر بیت المقدس پہنچنے سے پہلے ہی نیست و نابود ہوگیا۔
اس طرح کے تجربے کرنے کے بعد اب دشمن ہمارے خلاف اپنے بچوں کے لشکر ترتیب نہیں دیتا بلکہ اب تو ہمارے ہی بچوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ دے کر ہمارے اوپر خود کش حملےکرواتا ہے اور اب مسلمانوں کے خلاف جو لشکر ترتیب دئیے جاتے ہیں ان کے ہاتھوں میں صلیب نہیں بلکہ ایسا پرچم ہوتا ہے جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔
دشمن قدیمی صلیبی جنگوں کے ذریعے تو ہم سے بیت المقدس کو نہیں لے سکا تھا لیکن بعد ازاں نئی حکمت عملی کے ساتھ بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین چکا ہے۔ اس وقت اسرائیل کاوجود صلیبی ممالک کی حمایت کا ہی مرہون منت ہے۔
مسلمان ایک طرف طالبان ، القائدہ،داعش اور لشکر جھنگوی سے نبرد ازما ہیں اوردوسری طرف، اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک سے پنجہ ازمائی کر رہے ہیں جبکہ صلیبی طاقتیں دونوں محازوں پر مسلمانوں کے خلاف کھل کر اسلام دشمن ممالک اور تنظیموں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ حتی کہ اگر یمن میں ایک گھنٹے میں ایک بچہ بھوک سے مر جاتا ہے تو یہ سب بھی صلیبی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
اس وقت مشرقی ممالک کا اقتصاد،کرنسی، سیاست، معدنی ذخائر، فوجی نقل و حرکت اور آبی وسائل ان سب پر امریکہ و مغرب کاکنٹرول ہے، اور یہ مکمل کنٹرول انہوں نے صلیبی جنگوں کے تجربات کے بعد حاصل کیاہے۔لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی آج مکمل طور پر اسلامی دنیا پر حاکم ہے اورافسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہاہے کہ مسلمان دانشمند اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔
امریکہ ومغرب کا انداز تفکر یہ ہے کہ وہ ساری دنیاکے مالک ہیں، اور ساری دنیاانکی غلام ہے،لہذا غلاموں کے لئے وہ کسی احترام یا اخلاق کے قائل نہیں ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کے پھینکے گئے بم اس کی واضح دلیل ہیں اور اس کے علاوہ انہوں نے کس بے دردی سے فلسطینیوں کو بے گھر کیا ہے، شام کو کھندرات میں تبدیل کیاہے، عراق کو تہس نہس کیا ہے اور افغانستان کو برباد کیا ہے یہ سب کسی سے ڈھکاچھپا نہیں۔
امریکہ و مغرب کا کینہ حکومتوں تک محدود نہیں بلکہ ملتوں تک پھیلاہوا ہے،یہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو صرف اس کی حکومت کو ختم نہیں کرتے بلکہ اس کی ملت کو بھی تباہ کرتے ہیں اور ملتوں کی تباہی کے لئے ، فرقہ واریت، باہمی نفرت، علاقائی تعصب ،فحش فلموں، اخلاقی فساد، جنسی بے راہروی ، کلاشنکوف کلچر، اغوا برائے تاوان ، اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ نیز منشیات تک کے حربے استعمال کرتے ہیں۔
امریکہ ومغرب کے حالیہ کنٹرول سے نجات کے لئے مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ گلی کوچے کی دوستی و دشمنی سے باہر آئیں اور عالمی اسلامی برادری کے تصور کےمطابق اپنے نفع و نقصان کا تعین کریں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم مسجد سےمسجدکے خلاف فتوے، مسلک سے مسلک کے خلاف کتابیں لکھنے اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگانے کے بجائے باہمی فاصلوں کو مٹانے، مشترکہ دشمنوں کو پہچاننے، اور آپس میں اخوت و رواداری کے فروغ کا خلوص دل سے قصد کریں۔
ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہم بین الاقوامی آمریت کے دور میں جی رہے ہیں، ایسی آمریت جس میں واضح طور پر یہ پیغام دیاجاتا ہے کہ ہماری اطاعت کرو، ہمارا ساتھ دو نہیں تو ہم تمہیں کھنڈرات میں تبدیل کر دیں گے۔اس زمانےکا آمر جدیدتعلیم اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور وہ کمزور اقوام کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت کرنے پر آمادہ نہیں،ایسے میں اگر ہمارے دانشمند صرف اپنے اوپر ہی غصہ نکالتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو کوستے رہیں گے تو دشمن مزید طاقتور ہوتا جائے گا۔ہمیں دشمن کی علمی و فکری طاقت کو سامنے رکھتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق مقابلے کی تیاری کرنی چاہیے۔
ہماری تمام مسلمانوں خصوصاً علمائے اسلام سے اپیل ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ کو پہچانیے،مسلمانوں کے تاریخی دشمنوں پر ایک نگاہ ڈالئے،دشمنوں کی سازشوں پر لبیک کہنے کے بجائے ، تجزیہ و تحلیل کےذریعے سازشوں کو بے نقاب کیجئے، عالم اسلام کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کیجئے، اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو ابھارنے کے بجائے وحدتِ اسلامی کے سورج کو طلوع ہونے دیجئے ، اسی میں پورے عالم بشریت کی بھلائی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزور اپنے اوپر ہی غصہ نکالتا ہے،اگر کوئی علمی و فکری طور پرکمزور ہو تو وہ اپنے گلی محلےوالوں کی غیبت میں ہی سارا دن صرف کردیتا ہے،ہمیں اب گلی محلے کی سطح سے اوپر آنے کی ضرورت ہے۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) دسمبر کی سردی، کینٹین کی مسحور کن فضا، اور اس میں ہر میز پر گرم چائے، چائے سے اٹھتا ہوا دھواں اور پھر گرما گرم بحث، لیکن نجانے کیوں یہاں ہر شخص اپنی بات ادھوری چھوڑ دیتا ہے، ایک صاحب کے بقول یمن کی خانہ جنگی میں 85 ہزار بچے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں جبکہ عالمی برادری چپ سادھے ہوئے ہے ، ایک سروے کے مطابق یمن میں ہر گھنٹے میں ایک بچہ بھوک سے دم توڑ دیتا ہے ۔
اتنے میں کسی نے بی بی سی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ خبر اپنے گھر کی بھی لیں،کراچی میں بچوں کی گمشدگی پر پولیس ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی۔[1] اس سال کراچی سے 146 بچے لاپتہ ہو چکے ہیں، جبکہ 2013ء میں 2,736 بچے لاپتہ ہوئے تھے۔[2] گفتگو میں پاکستان سے بچوں کو اغوا کرکے اعضا فروخت کرنے کیلئے تھائی لینڈ سمگل کرنے کا انکشاف بھی کیا گیا۔[3]
اتنے میں کسی نے کہا کہ ممکن ہے اس دھندے میں کچھ اوپر کی سطح کے لوگ بھی شامل ہوں جیسا کہ دوسال پہلے سابق سیکشن افسرعمر شہاب کو گرفتار کیا گیا تھا جو بچوں کے گردے، جگر اور دیگر اعضاء نکال کر بھارت فروخت کرتا تھا اوروہ کویت میں پاکستانی سفارتخانے میں تعینات رہ چکا تھا۔[4]
ابھی بات آدھی ہی تھی کہ کسی نے پاکستان میں قائم میڈیا کے حقوق کے لیے سرگرم ایک ایوارڈ یافتہ تنظیم فریڈم نیٹ ورک کا ذکر چھیڑ دیا، فریڈم نیٹ ورک (ایف این) نے میڈیا کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پریس آزادی بیرومیٹر 2018 کے تحت یکم مئی، 2017 سے یکم اپریل 2018 کی نگرانی کی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق میڈیا کے خلاف کم از کم 157حملوں اور خلاف ورزیوں کے واقعات چاروں صوبوں، اسلام آباد اور قبائلی علاقوں میں ریکارڈ کیے گئے۔ “یہ ایک ماہ میں اوسط خلاف ورزیوں کے تقریبا 15 واقعات ہیں۔یعنی ہر دوسرے دن ایک حملہ۔
اسلام آباد کے بعد صحافیوں کے لیے دیگر خطرناک علاقوں میں دوسرے نمبر پر پنجاب رہا جہاں سترہ فیصد حملے، سندھ میں سولہ فیصد، بلوچستان میں چودہ فیصد اور خیبرپختونخوا میں دس فیصد ریکارڈ کئے گئے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سب سے کم حملے یعنی آٹھ فیصد ریکارڈ کئے گئے۔ یہاں مجموعی 157 میں سے محض تیرہ واقعات ریکارڈ ہوئے۔[5]
یہ سوچا جانا چاہیے کہ وہ یمن میں بچوں کی شہادتیں ہوں یا کراچی میں بچوں کی سمگلنگ ہو یا اسلام آباد میں صحافیوں کا قتل، اس کے پیچھے عالمی برادری کی خاموشی کا کیا کردار ہے لیکن درد کی یہ زنجیر یہیں نہیں ٹوٹتی بلکہ اگست ۲۰۱۸ کی یہ خبر بھی پڑھ لیجئے کہ لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ارکان پارلیمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک لاپتا افراد کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی۔[6]یعنی ابھی تک مسنگ پرسنز کے حوالے سے قانون سازی کا پہلو تشنہ ہے۔
کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ لاپتہ ہونے والوں میں سکول ٹیچر، ریڑھی بان، دکاندار، ادیب ، صحافی ، پروفیسرالغرض ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں، اب کس کے پاس وقت ہےکہ وہ جائے اور گنتی کرے کہ کس طبقے کے کتنے لوگ لاپتہ ہیں،اس کے لئے بھی باقاعدہ ایک ایسےقومی سطح کے ادارے کی ضرورت ہے جوہر طرح کے دباو سے آزاد ہو، اور اگر کوئی یہ سارا ڈیٹا جمع کربھی لے تو اسےخاطر میں کون لائے گا!؟ اور پھر اس ساری محنت کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
اتنے میں ایک صاحب نے مشتاق احمد کاملانی کا قصہ چھیڑا اور بولے ۱۹۸۰ میں مشتاق کاملانی کاشمار معروف کہانی نویسوں اور ادبا میں ہوتا تھا، مشتاق کاملانی کو سندھی ، پنجابی، اردو اور انگلش پر عبور تھا، انہوں نے بہت سی کہانیاں لکھیں جو حیدرآباد ریڈیو کے ساتھ ساتھ بھارت کی ریڈیو سروس ’آکاش وانی‘ سے بھی نشر ہوئیں ، انہوں نے ضیاالحق کے دور میں "گھٹی ہوئی فضا" کے عنوان سے ایک کہانی لکھی ،کہانی چھپ گئی جبکہ ان کا ناول ابھی پریس ہی میں تھا، جب انہیں اپنی کہانی کے لیے حیدرآباد میں ادبی دوستوں نے بلایا اور انہیں ایک ریڈیو انعام میں دیا۔ابھی کاملانی صاحب حیدرآباد سے لوٹ ہی رہے رہے تھے کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ دوسرے دن اس پریس پر چھاپہ پڑا، جہاں سے ان کا نیم چھپا ہوا ناول “رولو” ضبط کیا گیا اور اس پریس کو بھی بند کروادیا گیا….!!اس کے بعد لوگوں نے جب کاملانی کودیکھا تو مسٹر کاملانی پاگل ہوچکے تھے۔
چائے کی میز پر مختلف باتیں ہو رہی تھیں، ان سب باتوں میں انسان کی بے بسی اور سماج کی بےحسی قدرِ مشترک تھی، اور باتوں کے بیچ میں جو بات بار بار اٹھائی جارہی تھی وہ یہ تھی کہ دنیا کے نقشے پرمظلوم بکھرے ہوئے ہیں اور ظالم متحد ہیں، ملک کوئی سا بھی ہو مظلوم جتنا بے بس ہوتا جاتا ہے مقتدر ادارے اتنے ہی بے لگام اور بے حس ہوتے جاتے ہیں۔مظلوموں کی موثر ترجمانی کے لئے کون کیا کردار ادا کر سکتا ہے!؟ اور ہماری کوششوں کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
اتنے میں ایک صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ آپ بھی کچھ بولئے، میں نے کہا دوستو! ہم مانیں یانہ مانیں، یمن کا المیہ،مسنگ پرسنز،گمشدہ افراد، لاپتہ بچے اور صحافیوں پر تشدد ہمارے معاشرے کا حقیقی حصہ ہے ۔ایک محقق، کالم نگار، ادیب یا صحافی کبھی بھی اس کرب سے آنکھیں نہیں چرا سکتا جو کرب شہید یا لاپتہ ہونے والے بچوں، قتل ہونے والے صحافیوں یا مسنگ پرسنز کے لواحقین کو لاحق ہوتا ہے۔
اگر آپ ادیب ہیں اور معاشرے کی نبض کو دیکھنے کے ماہر ہیں، اگر آپ محقق ہیں اور سماج کے اتار چڑھاو کو سمجھتے ہیں، اگر آپ قلمکار ہیں اور درد کو الفاظ میں ڈھالنے کاہنرجانتے ہیں،اگرآپ کی بات میں دم ہے اور آپ کے نکات میں وزن ہے تو پھر کوئی آمر ، کوئی ڈکٹیٹر اور کوئی دشمن آپ کی تحریر کو اشاعت سے نہیں روک سکتا اور اگرمعاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر کسی کی سفارش یا رشوت آپ کو محقق یا ادیب نہیں بنا سکتی۔
ادیب اور محقق کا قلم معاشرے کی نبض ہوتا ہے، ہمارے ارد گرد اس وقت بے بسی اور بے حسی کے درمیان لڑائی جاری ہے،ایک طرف بے بس عوام ہیں اور دوسری طرف بے حس حکمران، اگر ادیب اور محقق بے حسی سے آنکھیں چرائے اور بے بسی کو بیان کرنے سے کترائے تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا۔ بے بسی اور بے حسی کی اس لڑائی میں آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کیجئے اور نتیجہ خدا پر چھوڑ یے۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) آپ کوئی چھوٹا سا کام فرض کر لیجئے، فرض کریں آپ کا شناختی کارڈ گم ہوگیا ہے، آپ رپورٹ درج کرانے تھانے چلے گئے ، ڈیوٹی پر مامور پولیس والا آپ کو ایک لکھی لکھائی درخواست تھما دے گا۔ اس میں خالی جگہ پر آپ نے اپنا نام ، اپنے والد کا نام ، گمشدہ شناختی کارڈ کا نمبر اور گم ہونے کی تاریخ لکھنی ہے۔
اس کے بعد جب آپ واپس درخواست جمع کروانا چاہیں گے تو پولیس والا کہے گا کہ درخواست تو آپ کی جمع ہوجائے گی بس آپ تھوڑا سا تعاون کر دیجئے۔
پاکستان کے سرکاری دفاتر میں ایک معمولی سا کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔بعض دفاتر میں جب سائل رجوع کرتا ہے تو افیسر صاحب اس کا مسئلہ سننے کے بعد اسے کہتے ہیں کہ جی نہیں آپ کا مسئلہ بہت سنگین ہے اور آپ کا کام نہیں ہو سکتا مثلا فلاں فلاں وجوہات کی بنا پر آپ کا پاسپورٹ نہیں بن سکتا۔ جب بندہ مایوس ہوجاتا ہے تو پھر اسے کہتے ہیں کہ ساتھ والے کمرے میں جائیں، وہاں فلاں صاحب آپ کو مسئلے کا کوئی حل بتائیں گے۔ جب وہاں جاتے ہیں تو آگے موجود شخص منہ مانگی رشوت وصول کر کے وہ کام کر دیتا ہے۔
بالکل اسی طرح زائرین کو تفتان روٹ پر لوٹا جاتا ہے، زائرین سے تعاون مانگا جاتا ہے، جو بروقت تعاون کردیتے ہیں ان کے قافلے گزر جاتے ہیں اور جو تعاون کرنے کا مطلب نہیں سمجھتے یا بروقت منہ مانگا تعاون نہیں کرپاتے انہیں سیکورٹی اور این او سی کے نام پر اتنا تنگ کیاجاتا ہے کہ بالآخر ان سے کچھ نہ کچھ نچوڑ کر نکالا جائے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق زائرین کا ایک قافلہ منگل سولہ اکتوبر ۲۰۱۸کو جب سندھ اور بلوچستان کے بارڈر جیکب آبادپہنچا تو پولیس نے روک کر چائے پانی اور کچھ تعاون مانگا۔ ذرائع کے مطابق سالار کاررواں سے پولیس نے بطور رشوت دس ہزار روپے مانگے جو سالار نے مسافروں سے جمع کر کے دینے تھے اس پر مسافروں نے احتجاج کیا۔ اب احتجاج تو پولیس کو ناگوار گزرنا ہی تھا۔
احتجاج پر پولیس طیش میں آئی اور ایس ایچ او نے ایک خاتون پر گاڑی چڑھا دی۔جس سے محترمہ موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اب کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو ۲۰۱۷ میں اسلام آباد ایئرپورٹ میں خواتین پر تشدد کرنے والے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ہوا تھا، محض کچھ دن اخبار میں سرخیاں لگیں اور بعد ازاں کسی ایک معمولی اہلکار کو ذمہ دار قرار دیکر سارا ملبہ وقتی طور پر اس پر ڈال دیا گیا۔اسی طرح یہاں بھی کچھ نہیں ہوگا ، دودن خبریں چلیں گی ایک آدھ دن کوئی احتجاج وغیرہ ہوگا اور ایک آدھ پولیس والے کو ذمہ دار قرار دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا جائے گا۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اصل مسئلہ ہمارے اس رشوت خور کلچر کا ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے واجبات، مستحبات اور عبادات کی انجام دہی کے لئے بھی سرکاری اہلکاروں کو رشوت دینی پڑتی ہے۔
ہمیں سنجیدگی سے اس رشوت خور کلچر کے خاتمے کے لئے سوچنا چاہیے جو اب عوام کی جانیں لینے کے درپے ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ سمجھدار لوگ سرکاری اہلکاروں کی اس رشوت خوری اور حرام خوری کی وجہ سے تھانے کچہریوں میں جانے سے کتراتے ہیں۔یہ سمجھداری ہے لیکن نصف سمجھداری ہے پوری سمجھداری یہ ہے کہ کترانے کے بجائے اداروں کی اصلاح کے لئے زور لگایا جائے اور رشوت خور مافیا کا مقابلہ کیا جائے۔
اب پاکستان میں یہ دن بھی آنے تھے کہ مقدس مقامات کی زیارت کے لئے جانے والے لوگوں سے بھی راستے میں رشوت مانگی جاتی ہے۔اگر اب بھی ہم بیدار نہ ہوئے تو پھر وہ دن دور نہیں جب رشوت لینے والا مسجد کے دروازے پر بھی کھڑا ہوگا۔
آخر کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔۔۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان ہمیشہ سے ایک بہترین نظام حکومت کی تلاش میں ہے، کبھی اس نے آمریت کو بہترین نظامِ حکومت جانا اور اس پر عمل پیرا ہوا، پھر اس نے بادشاہت کو منتخب کیا اور ایک بڑے عرصے تک اسے ہی بہترین نظام ِ حکومت سمجھتا رہا پھر اس نے جمہوریت کو اختیار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ تو end of the history ہے، یعنی اس سے بہترین نظام ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے لئے دینِ اسلام نے کس نظامِ حکومت کو مثالی قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں ارشادِ مبارک ہے :
وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أنَّ الارضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ
اور البتہ تحقیق ہم ذکر (تورات)کے بعد زبور میں لکھ چکے ہیں کہ بے شک زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید سے پہلے والی کتابوں میں بھی خدا نے بنی نوعِ انسان سے وعدہ کیا ہے کہ زمین کے وارث اس کے نیک بندے ہی ہونگے۔مقامِ فکر یہ ہے کہ ان نیک بندوں کو آیا خود بخود حکومت مل جائے گی یا انہیں کچھ کرنا بھی پڑے گا۔
چنانچہ دینِ اسلام کی معتبر کتابوں میں آیا ہے کہ اگر دنیا کی عمر ایک دن سے زیادہ نہ رہ جائے تو بھی خدا وندِ عالم اس ایک دن کو اتنا طولانی کرے گا کہ حضورﷺ کے اہل بیت سے ایک شخص مبعوث ہوگا کہ جس کا اسم گرامی نبی آخرالزماں ﷺ کا اسم ہی ہوگا اوروہ شخص زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پر کردے گا جیسا کہ وہ اس سے پہلے ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی۔
مندرجہ بالا سطور سے پتہ چلتا ہے کہ دینِ اسلام انسانوں کو ایک ایسے انسان کا سراغ بتا رہا ہے ، جس کی حکومت قائم ہو کر رہے گی اور اس کی حکومت میں ہر طرف عدل ہی عدل ہوگا۔
یقیناً ایک خوشحال اور عادل حکومت ہی ہر انسان کو پسند ہے اور وہی حکومت انسان کے لئے بہترین حکومت ہے جس میں کسی پر کسی بھی قسم کا ظلم نہ ہو اور ہر طرف عدل و انصاف کی حاکمیت ہو ۔
سنن ترمذی میں ارشادِ نبوی ہے کہ یہ دنیا اپنے اختتام کو نہیں پہنچے گی مگر یہ کہ ایک مرد میرے اہلِ بیت سے عرب پر حکومت کرے گا، وہ میرا ہم نام ہو گا۔
سنن ابی داود میں ہے کہ المهديّ من عترتي من ولد فاطمه ، مہدی ؑمیری آل میں سے اور فاطمہؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ اسی طرح سنن ابن ماجہ میں ہے کہ امام مہدیؑ ، اہلِ بیت رسولﷺ سے ہونگے۔
مفہومِ مہدویت
اس زمین پر حضور نبی اکرم ﷺ کی آل میں سے امام مہدی ؑ نامی ایک شخص کی عادلانہ اور مثالی حکومت کا قیام
مہدوی حکومت کے خدو خال
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کی ایسی خصوصیات کیا ہونگی کہ جن کی وجہ سے لوگ اس کے شیدائی ہونگے اور عوام میں مقبولیت کے باعث وہ حکومت ایک مثالی حکومت کہلائے گی۔اس حکومت کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہوگا کہ دیگر حکومتیں اس میں ضم ہوتی چلی جائیں گی۔
۱۔ اسلامی تعزیرات کا نفاذ
اس حکومت کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہوگی کہ اس حکومت میں مکمل طور پر اسلامی تعزیرات نافذ ہونگی اور کسی کو نہ ہی تو چھوٹ دی جائے گی اور نہ ہی کسی پر ظلم کیا جائے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ قوانین کا بھرپور طریقے سے اجرا کیا جائے گا اور امام مہدیؑ لوگوں کو اپنے جد نبی اکرم ﷺ کی مانند دینِ اسلام کی طرف شفاف دعوت دیں گے اور دینِ اسلام کا نفاز کریں گے۔
۲۔ہر دلعزیز حکومت
یہ حکومت مال و دولت والوں اور ثروت و طاقت والوں کے بجائے اسلامی اخلاق و اطوار والوں کی حکومت ہو گی ، اس حکومت میں جو جتنا دیندار ہوگا وہ اتنا ہی عزت دار اور محترم شمار ہوگا۔ لوگوں میں عزت و وقار کا پیمانہ دینداری اور اخلاق ہو گا۔پیغمبر اسلامﷺ کا ارشاد ہے کہ تم لوگوں کو قریش کے ایک فرد مہدیؑ کی بشارت دیتا ہوں کہ جس کی خلافت سے زمین و آسمان والے راضی ہونگے۔ ہمارے نبی اکرم ﷺ کی ہی حدیث ہے کہ حضرت امام مہدیؑ کے قیام سے تمام اہلِ زمین و آسمان ، پرندے ، درندے اور سمندر کی مچھلیاں شاد و خوشحال ہونگی۔ اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک اور حدیث ہے کہ میری امت کا ایک شخص قیام کرے گا جسے زمین و آسمان والے دوست رکھیں گے۔
۳۔علم و آگاہی کا دور دورہ
اس دور میں طبقاتی نظامِ تعلیم نہیں ہوگا اور نہ ہی تعلیم پر چند خاندانوں کا قبضہ نہیں ہوگا بلکہ تعلیم و شعور کی دولت عام ہو گی ، عام انسانوں حتیٰ کہ گھریلو خواتین کے فہم و شعور کی سطح بھی بہت بلند ہوگی اور لوگ اپنے علم و شعور کی بنیاد پر نظام زندگی اور معاشرتی تعلقات کو استوار کریں گے۔ ہر طرف علم و حکمت کے چشمے جاری ہو نگے اور مکار اور شعبدہ باز افراد لوگوں کی جہالت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ۔
۴۔زمین کے خزانوں سے انسانیت کی خدمت
آج کل کے دور کی طرح زمین کے خزانوں پر استعمار اور طاغوت کا قبضہ نہیں ہوگا اور استعماری طاقتیں مختلف بہانوں سے دیگر اقوام کے معدنی وسائل پر ہاتھ صاف نہیں کر سکیں گی۔ یعنی اس زمانے میں معدنی وسائل اور معیشت پر محدود لوگوں کا قبضہ نہیں ہو گا بلکہ زمین کے خزانوں کے منہ عام انسانوں کے لئے کھلے ہوئے ہونگے اور عام لوگ اپنی صلاحیت ، استعداد اور ضرورت کے مطابق زمین کے ذخائر سے بھرپور اور عادلانہ استفادہ کریں گے۔
رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت سے مہدیؑ ظہور کریں گے ، خدا انہیں انسانوں کا ملجا بنا کربھیجے گا اور اس زمانے میں لوگ نعمت و آسائش میں زندگی گزاریں گے۔
۵۔اختراعات و ایجادات کا دور
علم و شعور کے عام ہونے کے باعث یہ اختراعات و ایجادات کا دور ہو گا، انسان نت نئی ایجادات کے ذریعے انسانی معاشرے کی خدمت کریں گے اور پورا انسانی معاشرہ امن و سکون اور خوشحالی کی نعمت سے مالا مال ہوگا۔علم اور ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہونگے اور انسان علوم و فنون سے انسانی معاشرے کی تعمیر کریں گے۔
حضرت امام جعفر صادقؑ کی حدیث ہے کہ علم و دانش کے ۲۷ حروف ہیں، اور اب تک جو کچھ پیغمبروں نے پیش کیا ہے وہ دو حروف ہیں اور باقی پچیس حروف سے لوگ آشنا نہیں ہیں، لیکن جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو باقی پچیس حروف کو بھی لے آئیں گے اور پھر پورے ستائیس حروف لوگوں کے درمیان رائج ہوں گے۔
رسول خدا ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ تمہارے بعد ایسی اقوام آئیں گی جن کے پاس طی الارض یعنی قدموں تلے زمین سمٹنے کی صلاحیت ہوگی اور دنیا کے دروازے ان کے لئے کھل جائیں گے، زمین کی مسافت ایک پلک جھپکنے سے پہلے طے ہو جائے گی، اس طرح سے کہ اگر کوئی مشرق کی سیر کرنا چاہے تو ایک گھنٹے میں ایسا ممکن ہو جائے گا۔
۶۔ظلم و جور کا خاتمہ
ظلم چاہے اقتصادی ہو، معاشی ہو، عسکری ہو یا جارحیت اور شب خون کی صورت میں ہو ، اس کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ چونکہ ظلم ہمیشہ جہالت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، جب جہالت ختم ہو جائے گی تو ظلم خود بخود ختم ہو جائے گا اور دوسری طرف نظام ِ عدل بھی پوری طرح فعال ہوگا لہذا دنیا ہر طرح کے ظلم سے پاک ہو جائے گی۔ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور مجرم پیشہ افراد کے ساتھ سخت قانونی برتاو کیا جائے گا۔ کسی بھی قسم کی رشوت یا سفارش کسی بھی ظالم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔
حدیث میں ہے کہ جب امام مہدیؑ ظہور کریں گے تو کوئی ایسا مسلمان غلام نہیں رہ جائے گا جسے امام خرید کر راہِ خدا میں آزاد نہ کر دیں نیز کوئی مقروض ایسا نہیں بچے گا جس کے قرض کو امام ؑ ادا نہ کر دیں۔
رسولِ خداﷺ فرماتے ہیں کہ جب عیسیٰ ابن مریم ؑ آسمان سے زمین پر آئیں گے تو چرواہے اپنے مویشیوں سے کہیں گے کہ فلاں جگہ چرنے کے لئے جاو اور اس وقت لوٹ آو، گوسفندوں کے گلے دو کھیتوں کے درمیان ہونگے لیکن ایک خوشے کو بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے اور ایک شاخ تک اپنے پیروں سے نہیں روندیں گے۔
۷۔انسان کی قدر دانی
وہ انسانیت کی معراج کا دور ہوگا۔ اس دور میں علم و شعور اور آگاہی کے باعث ایک انسان دوسرے انسان کی خدمت کرنے کو عبادت اور شرف سمجھے گا اور کوئی بھی انسان دوسرے کے حقوق کو پائمال نہیں کرے گا بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور دوسرے انسانوں کی خوشحالی کے لئے کام کرنے کو اللہ سے قرب کا وسیلہ سمجھا جائے گا اور ایک مومن دوسرے مومن کی مدد کرنے کو واجب سمجھے گا۔
اس طرح معاشرے میں انسانوں کی درمیان کسی قسم کی کوئی طبقاتی ، جغرافیائی ، لسانی یا ذات پات کی کوئی تفریق اورفاصلہ نہیں ہوگا۔ سب آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں گے۔پیغمبرِ اسلام ﷺ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگوں کے دلوں سے کینہ اور دشمنی ختم ہو جائے گی۔
۸۔ میرٹ کی حاکمیت
انسان اس دور میں بھی اپنا کام کاج کریں گے اور ہر انسان کو میرٹ کے مطابق اس کا حصہ ملے گا، ہر طرح کی رشوت اور سفارش ختم ہو جائیگی اور بغیر کسی رشوت اور سفارش کے لوگ اپنی استعداد کے مطابق اپنے لئے کام کاج کا انتخاب کریں گے۔تمام تر اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر افارد کا انتخاب ہوگا اور تمام تر فیصلے بھی میرٹ کی بنیاد پر ہونگے۔
میرٹ کی حاکمیت کے باعث، برادری ازم، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ، دھونس دھاندلی اور مکر و فریب کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حدیث میں ہے کہ آپ اس طرح مال تقسیم کریں گے کہ آپ سے پہلے کسی نے اس طرح تقسیم نہیں کیا ہو گا۔
۹۔غربت و افلاس کا خاتمہ
عدالت ، علم اور میرٹ کے باعث دنیا میں کوئی شخص فقیر اور نادار نہیں رہے گا حتیٰ کہ لوگ ذکواۃ دینے کے لئے فقرا اور نادار حضرات کو ڈھونڈتے پھریں گے لیکن انہیں کوئی فقیر یا نادار شخص نہیں ملے گا۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ فرماتے ہیں کہ ناامیدی اور فتنوں کے زمانے میں مہدیؑ نامی شخص ظہور کرے گاجس کی بخشش اور عطا لوگوں کی خوشحالی کا باعث ہوگی۔
ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ ، ملاوٹ اور بخل و کنجوسی جیسی برائیوں کا قلع قمع کر دیا جائے گا جس کی وجہ سے معاشرے کے عام لوگ بھی مطمئن اور ثروت مندانہ زندگی بسر کریں گے۔
پیغمبر ﷺ کی حدیث ہے کہ مہدی ؑ میری امت میں ہونگے ، ان کی حکومت میں مال و دولت کا ڈھیر لگ جائے گا۔
۱۰۔ نبی آخرالزماںﷺ کی سنتوں کا احیا
اس زمانے میں ہر طرف حضور نبی کریم ﷺ کی سنتوں کا دور دورہ ہوگا اور لوگ اپنے شب و روز کو سرکارِ دوعالم کی سنتوں سے مزین کریں گے۔پورا انسانی معاشرہ صدر اسلام کے مسلمانوں کی طرح محبت ، اخوت اور رواداری کی مثال بن جائے گا۔اگر کسی کو کوئی نعمت میسر ہوگی تو وہ سب سے پہلے اپنے ہمسایوں اور عزیزو اقارب میں اسے تقسیم کرنے کو سعادت سمجھے گا، اسی طرح ایک ہمسایہ دوسرے ہمسائے کے لئے دعا اور طلبِ مغفرت کے ساتھ ساتھ اس کی عملی مدد بھی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ گویا پوری عالمی برادری ایک بڑے خاندان میں تبدیل ہو جائیگی۔
حضورﷺ فرماتے ہیں کہ قریش سے ایک شخص ظاہر ہوگا جو لوگوں کے درمیان مال تقسیم کرے گا اور اپنے نبیﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوگا۔
۱۱۔ صحت و علاج
مہدوی حکومت میں سب کے لئے یکساں طور پر صحت اور علاج کی سہولتیں میسر ہونگی۔ ایسا نہیں ہو گا کہ امیر لوگ اچھے اہسپتالوں میں جائیں یا بیرون ملک علاج کے لئے جائیں اور غریب ایڑیاں رگڑتے رہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے معیاری علاج کی سہولتیں عام ہونگی جس کی وجہ سے اس زمانے کے لوگوں کی عمریں بھی طویل ہونگی۔یہانتک کہ بعض عام افراد کی عمریں ہزار سال تک بھی پہنچ جائیں گی۔
۱۲۔ امام مہدیؑ کا اپنے سپاہیوں کے ساتھ عہد وپیمان
۱۔میدان جنگ سے فرار نہیں کرو گے
۲۔ چوری نہیں کرو گے
۳۔ناجائز کام نہیں کرو گے
۴۔حرام کام نہیں کرو گے
۵۔برے اور قبیح اعمال انجام نہیں دو گئے
۶۔سونا چاندی ذخیرہ نہیں کرو گے
۷۔کسی کو ناحق نہیں مارو گے
۸۔جو اور گیہوں ذخیرہ نہیں کرو گے
۹۔کسی مسجد کو خراب نہیں کرو گے
۱۰۔ناحق گواہی نہیں دو گے
۱۱۔کسی مومن کو ذلیل و خوار نہیں کرو گے
۱۲۔سود نہیں کھاو گے
۱۳۔سختی و مشکلات میں ثابت قدم رہو گے
۱۴۔خداپرست و یکتا پرست انسان پر لعنت نہیں کر وگے
۱۵۔ شراب نہیں پیو گے
۱۶۔ سونے کے تاروں سے بنا لباس نہیں پہنو گے
۱۷۔ حریر و ریشم کا لباس نہیں پہنو گے
۱۸۔بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کرو گے
۱۹۔ محترم خون نہیں بہاو گے
۲۰۔کافر و منافق پر انفاق نہیں کرو گے
۲۱۔ خز کا لباس نہیں پہنو گے
۲۲۔ مٹی کو اپنا تکیہ بناو گے
۲۳۔ ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرو گے
۲۴۔نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے
اس وقت آپ کے اصحاب کہیں گے کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہم اس پر راضی ہیں اور آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں، اس وقت امامؑ بیعت کے طور پر ہر ایک سے مصافحہ کریں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کا انسان ایسی مثالی حکومت کے قیام سے لا تعلق اور محروم کیوں ہے!؟
بات یہ ہے کہ در اصل اسلامی معاشرے نے ہی مہدویت کے تصور کو دنیا بھر میں متعارف کروانا تھا لیکن مہدویت کے حوالے سے خود یہی معاشرہ مختلف غلط فہمیوں کا شکار ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مہدوی حکومت کی تشکیل کا خواب پورا نہیں ہو پا رہا اور دنیا مہدویت کو بطورِ حکومت ابھی تک نہیں سمجھ سکی۔
اسلامی معاشرے میں مہدویت کے حوالے سےغلط تصورات
مسلمانوں کے ہاں مہدویت کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کا ذکر اور ازالہ ضروری ہے:
۱۔ صرف انتظار
مسلمانوں کے ہاں عام طور پر ایک بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حضرت امام مہدیؑ کا انتظار کیاجائے۔ حالانکہ جب بھی کسی حکومت کے قیام کے لئے انتظار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا جاتا بلکہ اس حکومت کے لئے باقاعدہ کمپین اور مہم چلائی جاتی ہے تب جاکر وہ حکومت قائم ہوتی ہے۔
۲۔ اپنی ذمہ داریوں سے نا آشنائی
مسلمانوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ اسے ایک مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے کیاکرنا چاہیے، یعنی عام مسلمان اس حوالے سے یہ نہیں جانتا کہ اس کی کیا زمہ داری بنتی ہے؟!
۳۔ مہدویت کے بارے میں عدم شعور
بہت سارے مسلمان مہدویت کے بارے میں تفصیلی طور پر کچھ بھی نہیں جانتے ، بلکہ یوں تو جمہوریت و آمریت اور بادشاہت کے بارے میں تو ہماری معلومات بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کی نسبت مہدویت کے بارے میں ہم سطحی سے معلومات بھی نہیں رکھتے ، جس کی وجہ سے مہدویت کی حکومت کی تشکیل میں مشکلات حائل ہیں۔
۴۔ مہدویت بغیر نصاب کے
ہمارے ہاں مسلمان ہونے کے باوجود مہدویت ہمارے نظامِ تعلیم میں شامل نہیں ، جس کی وجہ سے ہم نسل در نسل مہدویت سے نا آشنا ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت محض ایک یا کچھ معجزات سے قائم ہو جائیگی۔ ضرورت اس ا مر کی ہے کہ مہدویت کو تمام تر تفصیلات کے ساتھ نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے تا کہ لوگ مہدویت کو اچھی طرح سمجھیں اور امام مہدیؑ ہونے کے جھوٹے دعویداروں کو بھی پہچانیں۔
۵۔ مہدویت بدونِ نظامِ حکومت
ہمارے ہاں اگر مہدویت پر بات کی بھی جاتی ہے تو بطورِ نظامِ حکومت نہیں کی جاتی، بلکہ مہدویت کو قیامت کی نشانیوں اور آخرت کی علامات سے جوڑ کر اس بحث کو ختم کر دیا جاتا ہے۔
مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے درست لائحہ عمل
۱۔ جمہوریت سے مہدویت کی خدمت
سب سے پہلے جمہور کو مہدویت سے آشنا کیا جائے اور عوام النّاس میں ایک مہدوی حکومت کے قیام کی تڑپ پیدا کی جائے، لوگوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ سمجھایا جائے کہ ان کے تمام تر مسائل کا حل مہدوی حکومت کی تشکیل میں پو شیدہ ہے تاکہ لوگ کسی تشنہ شخص کی طرح مہدویت کی تشنگی کو محسوس کریں۔
۲۔ مہدویت شناسی کے لئے اداروں کا قیام
ہر عمر، ہر مذہب اور ہر دین کے شخص کو مہدوی حکومت سے آشنا کرنے کے لئے مخصوص اداروں اور ریسرچ سنٹرز کی ضرورت ہے۔ ایسے سنٹرز میں محقیقین مخاطب شناسی کر کے مخاطبین کی زہنی سطح کے مطابق مہدویت کو تبیین کریں۔
۳۔اپنی ذمہ داریوں کا تعین
اس دنیا کو بدبختی، فقر، جہالت اور ظلم سے نجات دلانے کے لئے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے، مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ مہدوی حکومت کی خصوصیات کیا ہیں!؟ مثلا ً مہدوی حکومت کی ایک خصوصیت علم و ااگاہی کا دور دورہ ہے تو ہمیں دنیا میں علم و ااگاہی کو عام کرنے کے لئے کمربستہ ہو جانا چاہیے ، اسی طرح اگر مہدوی حکومت کی ایک اور خصوصیت ظلم و جور کا خا تمہ ہے تو ہمیں جہاں بھی ہوں ظلم و جور کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، ہم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ جس حال میں ہے وہاں سے کس مہدوی خصوصیت کو عملی کر سکتا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی بساط کے مطابق مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کا کام شروع کر دے تو یہ معاشرہ خود بخود مہدوی حکومت کی طرف بڑھنے لگے گا۔
۴۔ انتظار کا درست مفہوم
عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کا بس انتظار کیا جائے اور یوں خود بخود وہ حکومت قائم ہو جائے گی۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری یہ دنیا اسباب اور مسبب کی دنیا ہے، اگر ہم خود مہدوی حکومت کے اسباب فراہم نہیں کریں گے تو اسی طرح مختلف انواع و اقسام کی حکومتیں ہمارا استحصال کرتی رہیں گی۔ لہذا جس طرح ہم دیگر حکومتوں کے قیام کے لئے کمپین اور مہم چلاتے ہیں اسی طرح ہمیں مہدوی حکومت کے لئے بھی کمپین اور مہم چلانی چاہیے، ہماری تحاریر و تقاریر میں جابجا مہدویت کا ذکر ملنا چاہیے اور لوگوں کو مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کی تلقین کی جانی چاہیے۔
۵۔ مہدوی حکومت اور انقلاب
ظاہر ہے دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی کہ ظلم کی جگہ عدل لے لے، تاریکی کی جگہ نور لے لے، کفر کی جگہ اسلام آجائے، شر کی جگہ خیر سنبھال لے، رشوت کی جگہ میرٹ کا بول بالا ہو یہ سب کچھ بیٹھے بٹھائے ہونے والا نہیں ہے ، اس کے لئے ایک بہت بڑی انقلاب اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ انقلاب اور تبدیلی لوگوں کے سرکاٹنے سے ممکن نہیں بلکہ اس نقلاب اور تبدیلی کے لئے لوگوں کے افکار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر لوگوں کا باطن تبدیل ہوجائے اور لوگ عقلی طور پر ظلم و ستم، کرپشن اور دھاندلی ، فقر اور ناداری نیز جبر و استحصال سے نفرت کرنے لگیں تو باہر کی دنیا خود بخود تبدیل ہو جائے گی۔
ہمارے عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دور کا انسان ابھی تک اچھائی اور برائی کو تشخیص دینے میں گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے، یہ بے چارہ یہ تو چاہتا ہے کہ دوسرے غلط کام نہ کریں لیکن اگر اسے موقع مل جائےتو یہ خود وہی کام کرنے لگتا ہے جن سے دورسوں کو منع کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے دور کے انسان کی تربیت ابھی اس سطح کی نہیں ہوئی کہ وہ اپنے لئے بھی وہی پسند کرے جو دوسروں کے لئے پسند کرتا ہے۔
تربیت پر توجہ کی ضرورت
کسی بھی انقلاب کے لئے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے، حضرت امام مہدیؑ کے انقلاب کے لئے بھی تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے، وہ ایسے افراد ہونے چاہیے کہ جو سب سے پہلےخود مہدویت کی خصوصیات سے مزین ہوں اور دوسرے لوگ ان کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر مہدوی بننے کی تمنّا کریں۔ اگر ایسے اخلاق و کردار کے حامل افارد کی تربیت نہیں کی جاتی تو ظاہر ہے کہ پھر مہدوی حکومت کے قیام میں بھی بہت تاخیر ہو سکتی ہے۔یہ تربیت بھی دوطرح کی ہونی چاہیے:
تربیت عمومی اور تربیت خصوصی: تربیت عمومی کے طور پر تمام انسانوں کو خیرو بھلائی اور دین اسلام پر عمل کرنے کے دعوت دی جانی چاہیے اور تربیت خصوصی کے طور پر ایسے افراد کی خصوصی تربیت کی جائے جو مہدویت کے عمیق مسائل کو قرآن و سنت سے بطریقِ احسن استخراج کر کے لوگوں تک مہدویت کا پیغام عملی طور پر پہنچائیں۔
جس نظریے کے پاس تربیت یافتہ افراد نہ ہوں وہ نظریہ کوئی انقلاب یا تبدیلی نہیں لا سکتا لہذا ایک مہدوی انقلاب کے لئے افراد کی نظریاتی و عملی تربیت ضروری ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام مہدیؑ کے حکومتی اہلکاروں میں حضرت عیسیٰؑ، اصحاب کہف، مومن آل فرعون جیسی عظیم ہستیوں کے نام بھی آتے ہیں۔
نتیجہ:۔
دینِ اسلام اللہ کا آخری دین ہے، یہی دین انسانوں کی سعادت و خوشبختی کا بھی ضامن ہے، اس دین میں فقط انسانوں کے لئے اخلاق و طہارت اور عبادات کے احکام نہیں بیان کئے گئے بلکہ انسانوں کی خوش بختی کے لئے ایک مکمل نظام حکومت کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اس دینی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کریں جس کا کتاب و سنت میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔
جب تک مسلمان ایک الٰہی اور عالمی حکومت کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کریں گے تب تک خود بخود مسلمانوں کی عالمی حکومت قائم نہیں ہو جائے گی۔اس عالمی اور عادل حکومت کا نام مہدویت ہے ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں ، مہدویت کے حوالے سے تحقیق کریں اور مہدوی حکومت کے قیام کے لئے ممکنہ راہ حل سوچیں اور دنیا کو اس کی طرف دعوت دیں۔
فہرست منابع
1. قرآن مجید
2. احقاق الحق مكتبة المرعشي النجفي. مكان چھاپ: قم
3. ارشاد مفید كنگره شيخ مفيد قم
4. سنن ابي داود دارالرائد العربی، بیروت
5. سنن ترمذي دارالرائد العربی، بیروت
6. عقدالدرر دارالکتب الاسلامیه قم
7. غیبہ النعمانی دارالرائد العربی، بیروت
8. کمال الدین دارالکتب الاسلامیه قم
9. مستدرک حاکم انتشارات دار الکتب العلمیه، چھاپ بیروت
10. مصنف عبد الرزاق انتشارات دار الکتب العلمیه، چاپ بیروت
11. معجم رجال الحدیث وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چھاپ اول، تهران
12. ینابیع المودّۃ دار العراقیۃ الکاظمیۃ، و انتشارات محمّدی، قم، چھاپ ہشتم
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.