وحدت نیوز (آرٹیکل) ۱۹۴۷میں ہمارے ہاں سے برطانیہ تو چلاگیا لیکن غلامی نہیں گئی۔ہماری ملت مسلسل فوجی غلامی میں یا پولیس اسٹیٹ میں زندگی گزارتی چلی آرہی ہے۔آزادی کے بعد سے ہمارے ہاں پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔پولیس اسٹیٹ یامارشل لا کا سلسلہ چل رہاہے۔
آج اس وقت نیشنل ایکشن پلان ڈی ٹریک ہوچکا ہے،علامہ شیخ محسن نجفی اورمولانا امین شہیدی جیسی شخصیات کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے جاچکے ہیں،گلگت بلتستان میں یوم حسینؑ پر پابندی عائد ہوچکی ہے،تفتان روٹ پر ایف سی کی لوٹ مار جوں کی توں ہے ،کتنے ہی نوجوانوں کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام میں بغیر کسی قانونی چارہ جوئی کے اٹھا لیا گیا ہے،ایسے میں یہ خبر آپ تک یقینا پہنچ چکی ہے کہ ۲۵ اکتوبر بروز منگل کو کوئٹے میں پولیس ٹریننگ کالج پر دہشتگردوں نے حملہ کرکے 60 اہلکار شہید اور 117 زخمی کردئیے ہیں۔
اس حملے کے بارے میں آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل شیرافگن کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا تعلق لشکر جھنگوی سے تھا، جنہیں افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ جب پاکستان میں افغانستان کی مداخلت کی بات کی گئی ہے۔پاکستان میں افغانستان ،ہندوستان ،امریکہ اور سعودی عرب کی مداخلت پاکستانی حالات حاضرہ کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہے۔
یہ ہے ملک کی بگڑی ہوئی صورتحال کا نقشہ۔
اب اگر آپ اس نقشے کو درست کرنے کی کوشش کریں اور نیشنل ایکشن پلان کو اس کے اصلی مقاصد کی طرف لوٹانے کی کوشش کریں،فورتھ شیڈول سے محب وطن اور پر امن شخصیات کے نام کے اخراج کی بات کریں،گلگت بلتستان میں یومِ حسینؑ سے پابندی ہٹانے کے لئے آواز اٹھائیں،تفتان روٹ پررشوت خور ایف سی کو لگام دینے کی ضرورت پر زور دیں،بے گناہ نوجوانوں کو بغیر کسی ثبوت کے اٹھائے جانے پر احتجاج کریں،پاکستان میں امریکہ ،سعودی عرب،افغانستان اور ہندوستان کی مداخلت کو چیلنج کریں تو آپ کو ایف سی ،پولیس اور فوج کے جوانوں کے آمنے سامنے لاکر کھڑا کردیا جائے گا۔پھر لاٹھی چارج ہوگا،پرچے کٹیں گے،آنسو گیس کی شیلنگ ہوگی،گرفتاریاں ہونگی اور اصل مسائل دب جائیں گے۔
ہمارے ملک کی کلیدی پوسٹوں پر کئی سالوں سے ایسا مافیا قابض ہےجو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سرکاری مشینری کو استعمال کرتا چلا آرہاہے۔
یہ مافیا عوامی قیادت،جمہوری رہنماوں اور سیاسی افراد کے سامنے فوج ،پولیس،ایف سی اور دہشت گرد ٹولوں کو لاکر کھڑا کردیتا ہے۔حالانکہ افغانستان اور ہندوستان کے حمایت یافتہ اور سعودی عرب کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ہاتھوں کتنے ہی فوج،پولیس اور ایف سی کے جوان شہید ہوچکے ہیں۔
جو مافیا عوام کو دہشت گردوں سے قتل کرواتا ہے وہی اصل میں فوج،پولیس اور ایف سی کے قاتلوں کی پشت پناہی بھی کررہا ہے۔
جوسرکاری ٹولہ رشوت اور لوٹ مار کے لئے ایف سی اور رینجرز جیسے اداروں کو چھوٹ دیتا ہے وہی دہشت گردوں کو بھی ایف سی اور رینجرز نیز فوج کے خلاف محفوظ راستہ فراہم کرتا ہے۔
آج مختلف حکومتی پوسٹوں پر بیٹھے ہوئے استعماری آلہ کار آرام سے اپنے آقاوں کے ایجنڈے پر مسلسل کام کررہے ہیں اورہر جگہ عوام کو فوج،ایف سی اور رینجرز کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔جبکہ خود فوج،ایف سی اور رینجرز کو دباو میں رکھنے کے لئے دہشت گرد گروہوں کے خلاف آپریشن کو ڈی ٹریک کردیا گیاہے۔
ملک عملا ایک پولیس اسٹیٹ میں بدل چکا ہے ،چند لوگ حکومتی پوسٹوں پر بیٹھ کر انتظامی اداروں کے ذریعے پوری قوم کو دائیں مُڑ۔۔۔با ئیں پھر۔۔۔ہوشیار۔۔۔آسان باش کی پریڈ کروا رہے ہیں۔
جب تک ہم پریڈ کرتے رہیں گے ہمارے نام فورتھ شیڈول میں جاتے رہیں گے،ہمیں بلاجواز گرفتار کیا جاتا رہے گا،یوم حسینؑ پر پابندیاں لگتی رہیں گی،ملک میں امریکہ ،سعودی عرب ،افغانستان اور ہندوستان کی مداخلت نہیں رکے گی اورہمارے ہاں فوج، پولیس، رینجر، ایف سی اور عوام پر دہشت گردوں کے حملے جاری رہیں گے۔
ہمیں اس پریڈ کی صورتحال سے باہر نکلنا ہوگا۔اپنے ملکی اور قومی مسائل کے حل کے لئے ایک گرینڈ الائنس تشکیل دینا ہوگا،ملک کی جمہوری اور سیاسی تنظیموں اور شخصیات کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔
ملک کا پولیس اسٹیٹ میں بدل جانا صرف ایک مذہب ،فرقے،مکتب یا پارٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت پاکستان کا مسئلہ ہے۔جب تک باشعور اور مخلص لوگ آپس میں مل کر نہیں بیٹھیں گے اس وقت تک یہ ملک مسلسل فوجی اسٹیٹ سے پولیس اسٹیٹ میں بدلتا رہے گا۔دائیں مڑ اور بائیں پھر کا سلسلہ چلتا رہے گا۔اس سلسلے کو روکنے کے لئے ہم سب کو پریڈ کی صورتحال سے نکلنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔
ہم پہلے اس پریڈ سے تو جان چھڑائیں،آپس میں تمام فرقوں اور پارٹیوں سے بالاتر ہوکر مشترکات کی خاطر مل بیٹھیں،اتحاد اور بھائی چارے کے لئےتھنک ٹینکس تشکیل دیں،محب وطن شخصیات،تنظیموں اور اداروں کے درمیان رابطوں کو بڑھائیں اور مشترکات پر ایک ہوجائیں پھر دیکھا جائے گا کہ جمہوری اصول کیا ہوتے ہیں اور عوامی مینیڈیٹ کسے کہتے ہیں!؟پھر الیکشن کی طاقت اور انسانی حقوق کی بات موثر ہوگی۔پھر احتجاج رنگ دکھائیں گے اور نعرے درویوار میں شگاف ڈالیں گے،پھر قانون کی بالادستی اور حب الوطنی کا بول بالا ہوگا،پھر پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔لاالہ الاللہ کی طرف سفر شروع ہوگا۔
ہمیں اب بحیثیت قوم مل کر سب سے پہلے اپنے ملکی اداروں کی کلیدی پوسٹوں پر بیٹھے ہوئے افراد کا جائزہ لینا ہوگا ،عوام کے خلاف سرکاری اور انتظامی مشینری استعمال کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ہوگا اورفوج ،ایف سی،پولیس اور رینجر پر دہشت گردانہ حملے کروانے والوں کو پہچاننا ہوگا۔
جب ہم ان لوگوں کو اچھی طرح پہچان کر اپنے قومی،سیاسی و ملکی فیصلے کریں گے تو تب ہمارے ہاں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی ورنہ ہمارے ہاں تو مسلسل پاکستان کا مطلب کیا،پولیس اسٹیٹ یا مارشل لا کا سلسلہ ہی چل رہاہے اور یہی چلتا رہے گا۔
ہمیں کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج میں شہید ہونے والے جوانوں کی لاشوں کو دفناتے ہوئے اتنا تو سوچنا چاہیے کہ جو لوگ بابائے طالبان کے مدرسے کو صرف ایک قسط میں تیس کروڑ کی گرانٹ دیتے ہیں وہ فوج ،ایف سی اور رینجرز کے کیسے مخلص ہوسکتے ہیں!؟
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) موت کی حقیقت مومن کے لئے بڑی دلکش ہے۔خصوصاًاگرمرنے والا راہِ حق پر ہوتو موت کا ذائقہ شہد سے بھی زیادہ شیرین ہے۔موت کافر کے لئے مفید ہے چونکہ اسے دنیا کے فریب سے نجات دیتی ہے اور مومن کے لئے سودمند ہے چونکہ اسے کمالِ مطلق سے وصل کرتی ہے۔آج ہی مجھے قبلہ مولانا عبدالحسین ناطق کی وفات کی خبر ملی۔مولانا کسی زمانے میں جامعۃ الرضا اسلام آباد میں تدریس کرتے تھے اور میں نورالھدیٰ کارسپانڈس کورس کے پروجیکٹ پر کام کررہاتھا۔وہیں سے ان سے میری سلام دعا ہوئی،درس و تدریس ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا،ہفتہ بھر جامعۃ الرضاؑ میں تدریس کرتے تھے اورجمعرات کو ان کا خصوصی درس اخلاق ہواکرتاتھا ، ایک فاضل شخصیت ہونے کے ناطے ان کے دروس اور مجالس بھی لوگوں میں مقبول تھیں۔
مولانا موصوف کاشمار یقینا ایسے لوگوں میں ہوتا ہے کہ ان سے عالم ِ باعمل ہونے کی مہک آتی تھی،ان کی طبیعت میں صاف گوئی،لباس میں سادگی،باتوں میں گہرائی گفتگو میں عمق ہواکرتاتھا۔انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں کئی شاگردوں کی تربیت کی اور کئی لوگوں کے افکارو عقائد کی اصلاح کی۔
آج وہ ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی قدردانی ہم سب پر واجب ہے۔علما کی قدردانی کی ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ معاشرے میں علما کی اہمیت کو اجتماعی طور پر محسوس کیاجائے۔ہمارے ہاں کسی ایسے مصدقہ ادارے کا وجود انتہائی ضروری ہے جو عالمِ دین کے عنوان کا معیار طے کرے اور پھر اس معیار کے اوپر جولوگ پورے اتریں ان کی تمام تر رفاہی و فلاحی ضروریات کو بطریق احسن پورا کیاجائے۔
مثلا ایک مرکز جب کسی کو عالمِ دین کا عنوان دیدے تو اس عالم دین کے بچوں کے تعلیمی اخراجات،بیمار ہونے کی صورت میں بیمہ پالیسی،فوتگی یا حادثے کی صورت میں خصوصی امداد،بچوں اور بچیوں کی شادی کے لئے سپورٹ،حج و زیارات کے لئے کوٹہ،ریٹائر منٹ کی عمر میں باعزت مدد،بلاجواز گرفتاری کی صورت میں قانونی چارہ جوئی ،شر پسند عناصر کی طرف سے تحفظ،کسی عالم دین کی فوتگی کی صورت میں اس کی علمی میراث کو منظر عام پر لانا۔۔۔وغیرہ وغیرہ
ان سارے مسائل کےحل کے لئے ایک قومی سطح کے ادارے کی ضرورت ہے۔ایک ایسا ادارہ جو دین و ملت کی خدمت کرنے والے علمائے کرام کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اپنے فریضے کو انجام دے۔
جس طرح دینی مدارس اور اداروں کو چلانا ایک بڑی ذمہ داری ہے اسی طرح دینی مدارس اور اداروں کو چلانے والے علما کی مشکلات کو سمجھنا اور حل کرنا بھی ایک شرعی فریضہ ہے۔
ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ علمائے کرام بھی ہماری طرح کے انسان ہیں،وہ بھی بیمار ہوتے ہیں،حادثات کے شکار ہوتےہیں،انہیں بھی اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں،انہوں نے بھی بچوں کی شادیاں کروانی ہوتی ہیں۔۔۔اُن کی یہ ساری ضروریات بھی ایک منظم سسٹم کے تحت باعزت طریقے سے پوری ہونی چاہیے۔
جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ سب کچھ انتہائی احسن انداز میں انجام دیاجارہاہے۔ایران کی طرح اس وقت ہمارے ہاں کے تمام دیندار اور فعال حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر اس سلسلے میں بھی سوچیں اور علمائے کرام سے مشورہ کرکے کسی ایسے ادارے کی بنیاد رکھیں جو علمائے کرام کی سرپرستی میں ہی علمائے کرام کی مشکلات کو حل کرنے کی ذمہ داری انجام دے۔
ہمارے معاشرے میں انسانیت اور دینداری کی جوشمع بھی ٹمٹما رہی ہے وہ علمائے کرام کی جدوجہد اور خلوص کا نتیجہ ہے۔علمائے کرام نے اپنی زندگیاں صرف کرکے ہمیں انسان اور دیندار بنایاہے اب یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم لفظی تعزیت اور ظاہری اظہار ہمدردی کے بجائے حقیقی معنوں میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی سوچیں۔
یاد رکھئے !علماکرام ہمارے محسن ہیں اور سمجھدار لوگ اپنے محسنوں کو بھلایا نہیں کرتے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) گندگی تو گندگی ہے۔ہمارے ہاں گندگی کے ساتھ جینے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ اگر کسی شہر میں ہر طرف گندی نالیاں ہوں، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوں اور بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی ہو تو لوگ ہرروزاپنی ناک اور منہ لپیٹ کرخاموشی کے ساتھ وہاں سے گزر جائیں گے۔اکثر اسے اللہ کی مرضی سمجھتے ہوئے تھوکیں گے بھی نہیں۔
بے شک کئی سال گزرجائیں ،کوئی بات نہیں لوگ اسی طرح ناک اور منہ لپیٹ اور پائنچے اوپر اٹھا کر گزرتے رہیں گے۔ایسے میں اگر کوئی شخص اس گندگی کو صاف کرنے کے لئے کمر ہمت کسے اور متعلقہ اداروں کو جھنجھوڑ کر صفائی کروانا چاہے تو لوگوں کا ایک طبقہ فورا اپنی ناک سے رومال ہٹاکر کہے گا کہ یہ سب تو ایجنسیوں کو خوش کرنے ،میڈیا کو دکھانے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے ہورہاہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا عرصہ آپ جو ناک اور منہ پر رومال لپیٹ کر اس گندگی میں سانس لیتے رہے ۔آپ نے کس وجہ سے گندگی کے ساتھ کمپرومائز کئے رکھا!؟
ہمارے ہاں ماحول کی آلودگی کے ساتھ ساتھ اخلاقی آلودگی اور لاقانونیت کی بھی بھرمار ہے۔لوگوں کی ایک اکثریت اخلاقی اور قانونی مسائل کو مسائل ہی نہیں سمجھتی ،لوگوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مسائل کو قانونی اور اخلاقی طریقے سے کیسے حل کیاجاتاہے۔
اکثریت بس ناک منہ لپیٹ کر وقت گزارنے والوں کی ہے۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد کئی سالوں سے ناک منہ لپیٹ کر کوئٹہ سے تفتان کا سفر کرتی رہی۔
اس دوران قم کے ایک عالم دین نے اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیرقانونی آلودگی کے خلاف آواز بلند کی۔بعد ازاں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے خود تفتان روٹ پر سفر کیا،لوگوں کی مشکلات سنیں اور اعلی سطح پر یہاں کے مسائل کوحل کروانے کے لئے مہم چلائی۔
ابھی ان کا دورہ جاری ہی تھا کہ طرح طرح کی باتیں کی جانے لگیں،میرا مقصد کسی کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کیا ہم گندگی کے ساتھ کمپرومائز کرنے والے لوگوں میں سے ہوجائیں،کیا ناک اور منہ لپیٹ کراور پائنچے اوپر اٹھا کرنسل در نسل اسی طرح گزرتے رہیں یا پھر اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیرقانونی آلودگی کے خلاف سعی اور کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افائی کریں۔
لوگ دو طرح کے ہی ہیں کچھ گندگی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے جیتے ہیں اور کچھ گندگی کو ختم کر کے پاکیزہ فضا میں سانس لینے کی جدوجہد کرتے ہیں۔
اب دوسروں کو برا بھلا کہنے کی ضرورت نہیں ،یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے کہ ہم کس طرح کے لوگوں میں شمارہونا پسند کرتے ہیں۔ناک منہ لپیٹ کر جینے والوں کے ساتھ یا پاکیزہ فضاکی خاطرجدوجہد کرنے والوں کے ساتھ۔
تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) کمروں میں ہر طرف گندگی کی سڑاند تھی،اے کاش میں پاکستان ہاوس کے گندے کمروں اور بستروں کی تصاویر بنا کرلاتایہ کہہ کر زائر نے میری طرف دیکھا اور بولا جو جتنا مجبور ہوتا ہے اس سے اتنے زیادہ رشوت وصول کی جاتی ہے۔لوگوں کو کانوائے کے نام پر محصور کیاجاتاہے تاکہ ان کے ویزے کی مدت کم ہوتی جائے اور وہ مٹھی گرم کرنے کے بارے میں سوچیں ،راستے میں گھنٹوں چیک پوسٹوں پر لوگوں کو بیوی بچوں سمیت بٹھایاجاتاہے تاکہ مجبور ہوکر کچھ نہ کچھ دیں،پاکستان ہاوس کے تعفن میں حبسِ بے جا میں رکھاجاتاہے تاکہ ان سے جو رقم نچوڑی جاسکتی ہی نچوڑی جائے،کرایہ جتنا زیادہ کوئی وصول کرسکتا ہے وہ کرلیتا ہے کہ یہ موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے،علاقے کے ڈی سی کا لیٹر مانگا جاتا ہے تاکہ ہراسان کرکے پانچ سو یا ہزار روپیہ کمایاجائے۔۔۔
انسان کہیں شکایت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا،اُف کرے توڈانٹ پڑتی ہے،ہائے دہائی کرے تو بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے،جولوگ کانوائے کے بغیر آتے ہیں ،ان سے پوچھیں کہ ایف سی والوں کا کیا رویہ ہے؟ وہ سیکورٹی ریکارڈ کے نام پر اپنے شخصی موبائل سے مستورات کی تصاویر بناتے ہیں۔۔۔
پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جولوگ اس روٹ پر کبھی زمینی سفر ہی نہیں کرتے وہ ان مسائل کی تردید کرنے لگ جاتے ہیں۔
بعض لوریاں سنانے لگتے ہیں اور بعض “مٹی پاو اور جہاز سے آو “کا نسخہ بتاتے ہیں۔
ایک زائر کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا میں ہر جگہ طبقاتی کشمکش چل رہی ہے ،ہر مذہب ،مسلک ،مکتب اور پارٹی میں ایک اشرافی طبقہ موجود ہے ،وہ طبقہ نچلے طبقے کے مسائل کو لمس ہی نہیں کرتا،وہ زمینی سفر کی صعوبتوں،غربت میں زیارت کی لذّت اور خالی ہاتھ حج و عمرے کے ذائقے کو چکھتا ہی نہیں ۔۔۔
اسے پتہ ہی نہیں کہ کانوائے کے نام پر محصور ہو جانا یعنی کیا۔۔۔؟ اسے معلوم ہی نہیں کہ کرایوں کا بڑھ جانا یعنی کیا؟ وہ اس کرب سے گزرا ہی نہیں کہ بیوی بچوں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر میجر صاحب کا انتظار کرنا یعنی کیا؟اسے یہ زخم لگا ہی نہیں کہ ایف سی کے اہلکاروں کا شخصی موبائلوں سے تصاویر بنانا یعنی کیا؟
قارئین کرام !بات شیعہ کانفرنس کی نہیں بات چیک اینڈ بلینس کی ہے ،بات ایف سی اہلکاروں کی نہیں بات شہریوں کے حقوق کی ہے ،بات پاکستان ہاوس کی نہیں بات آئین کی بالادستی کی ہے بات ہزارہ برادری کی نہیں بات اصولوں کی ہے۔
جوقانون شہریوں کو تحفظ نہ دے سکے،جوفوج بھتہ خوروں پر ہاتھ نہ دال سکے ،جو پولیس شہریوں کی شکایات کا نوٹس نہ لے اورجو خفیہ ادارے کرپٹ عناصر کی لوٹ مار سے بروقت باخبر نہ ہوسکیں ۔۔۔وہ کس درد کی دوا ہیں؟؟؟
اس مسئلے کا فوری حل یہی ہے کہ آرمی کی زیرِ نگرانی شکایت سیل قائم کیاجائے اور خفیہ اداروں کے اہلکار زائرین کے روپ میں بھتہ خوروں اور رشوت خوروں کا تعاقب کریں۔
پاکستان کی آرمی اور خفیہ ایجنسیوں کا لوہا دنیا مانتی ہے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ ادارے کوئٹہ و تفتان کے مسئلے میں اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور یہ مسئلہ حل نہ ہو۔
ابھی محرم و صفر کی وجہ سے زائرین کی تعداد میں کئی گنا زیادہ اضافہ یقینی ہے لہذا مذکورہ اداروں کو بھی اپنی فعالیت کو یقینی بناتے ہوئے کرپٹ عناصر کے خلاف کاروائی کا آغاز کرنا چاہیے۔
آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہر شخص اپنے ملک و ملت سے فطری طور پرمحبت کرتا ہے ،ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان کو سنوارنا،اہل پاکستان کی مشکلات کا احساس کرنا اور مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھانا ایک فطری امر ہے۔آئیے پاکستان کو بدنما بنانے والوں،پاکستان کا امیج خراب کرنے والوں اور پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا عہد کرتے ہیں۔
ایک خوبصورت ،باامن اور خوشحال پاکستان ہی ہم سب کا خواب ہے۔ہمارے اجداد نے پاکستان بنایاتھا اسے سنوارنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔پاکستان کے نام سے ہمارے اجداد کی آنکھوں میں جو نور چمکتا تھا اس نور کو ہمیشہ سلامت رہنا چاہیے۔
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی،
میری آنکھ میں ابھی نُور ہے
میرے بازؤں پہ نگاہ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو غرور تھا وہ غرور ہے
ابھی رزمگاہ کے درمیاں،
ہے میرا نشان کُھلا ہُوا
ابھی تازہ دم ہے میرا فرس،
نئے معرکوں پہ تُلا ہُوا
مجھے دیکھ قبضہِ تیغ پر،
ابھی میرے کف کی گرفت ہے
بڑا منتقم ہے میرا لہو ۔۔۔
یہ میرے نسب کی سرشت ہے
میں اسی قبیلے کا فرد ہُوں،
جو حریفِ سیلِ بلا رہا
اُسے مرگزار کا خوف کیا،
جو کفن بدوش سدا رہا
وہ جو دشتِ جاں کو چمن کرے،
یہ شرف تو میرے لہو کا ہے
مجھے زندگی سے عزیز تر ہے،
یہ جو کھیل تیغ و گُلو کا ہے
سو میرے غنیم نہ بُھول تُو ،
کہ ستم کی شب کو زوال ہے
تيرا جور و ظلم بلا سہی ۔۔۔۔۔۔۔
میرا حوصلہ بھی کمال ہے
تجھے مان جوش و گُرز پر،
مجھے ناز زخمِ بدن پہ ہے
یہی نامہ بر ہے بہار کا ۔۔۔۔
جو گلاب میرے کفن پہ ہے
تحریر۔۔۔۔۔نذرحافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) سب کو اچھا کہنا یہ برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے اور سب کو برا کہنا یہ اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے اور برے میں ،کھرے اور کھوٹے میں،مخلص اور ریاکار میں فرق کرنا عقل کا تقاضا ہے۔دنیا میں وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جو کھرے کو کھوٹے سے الگ کرتی ہیں اور اپنے علمی و معنوی ارث کو ہاتھوں ہاتھ وصول کرتی ہیں۔۲۹ اگست ۱۹۸۳ئ کو قبلہ مفتی جعفر حسین نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم قومیات اور تنظیمی معاملات میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کریں اور درست راستے کا انتخاب کریں تا کہ ہم مفتی صاحب سے اپنے معنوی ارث کو وصول کر سکیں۔
یوں تو مفتی صاحب کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے لیکن میں اس وقت ان کی زندگی کے صرف ایک ورق کو کھول کر آپ کے سامنے رکھ رہاہوں۔زیادہ پرانی بات نہیں ۱۹۸۰کی دہائی تھی، ملک پر مارشل لاء کا بھوت سوار تھا۔ حکومتی اداروں پر قابض دیو جمہوری قدروں کو اپنے بوٹوں تلے روندنے کے بعد کسی اگلے شکار کی تلاش میں تھے کہ ۲۰جنوری۱۹۸۰ء کو اسلام آباد کی لال مسجد سے حاکم وقت نے زکوٰۃ آرڈیننس کے نام پر ایک شریعت شکن حکم نامہ جاری کیا۔ جس سے اسلامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ۲۰جنوری سے لیکر ۵جولائی۱۹۸۰ء تک علماء کے وفود آمرِ وقت سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ دانشور مشورے بھیجتے رہے، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے قصرِ شاہی کی طرف تار اور پیغامات ارسال کرتے رہے لیکن طاغوت کی شہ پر آمرِوقت اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں، میڈیا اس کی گرفت میں ہے، لوٹے اور لٹیرے اس کے ساتھ ہیں، درباری مولوی اور سرکاری مفتی اس کے سامنے دم ہلا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہیہ گردش کر رہا ہے۔
بالآخر ۴جولائی ۱۹۸۰ءکا سویرا طلوع ہوا۔ اس روز وطن کی مٹی کے رنگ کی وردی پہن کر شریعت اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ اسلام آباد سے لیکر وائٹ ہاوس تک ہر چمچہ دھک سے رہ گیا۔ سرکاری اور درباری دبک کر سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے اور پہیہ جام ہو گیا۔ اس روز ملک بھر سے علامہ مفتی جعفر حسین (رح) کی آواز پر ہزاروں فرزندان اسلام، اسلام آباد میں جمع ہو گئے تھے اور کیونکر جمع نہ ہوتے یہ جوان آمریت کے خلاف بوڑھے مجاہد اسلام کی آواز تھی۔ یہ ایک متشدد آمر کے خلاف مخلص عالم دین کی آواز تھی۔ یہ ایک مکار حاکم کے خلاف مظلوم اسلام کی آواز تھی۔ یہ طاقت کے کالے قانون کے خلاف اسلام کے اجالے کی آواز تھی۔ یہ یورپ کی مستیوں میں مست جرنیلوں کے خلاف خشک نان جویں کھانے والے درویش کی آواز تھی۔ اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ فدائیان اسلام نے اپنے رہنما کے گرد جمع ہوکر زکوٰۃ وعشر کے نفاذ کے اعلان کو آمر کے منہ پر دے مارا۔ ۵ جولائی کی شام کو کنونشن جب تمام ہوا تو احساسِ کمتری میں مبتلا انتظامی اداروں کے کہنے پر پولیس کے روپ میں کرائے کے قاتلوں نے ہزاروں فرزندانِ اسلام پر گولی چلا دی۔
۵جولائی کو شام ۵ بجے کے قریب ضلع سرگودھا کا ایک نوجوان "محمد حسین شاد" سر پر گولی لگنے سے شہید ہو گیا۔ اس شہید کے خون کی برکت نے لوگوں کے سینوں کو سنگینوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا۔ یہ بظاہر ایک شخص کا قتل تھا لیکن یہ پوری ملت کی وحدت اور یکجہتی کا باعث بن گیا۔ محمد حسین شاد کی لاش کے گرنے کے بعدگھنٹوں آنسوگیس، پتھر لاٹھیاں اور گولیاں چلتی رہیں، متعدد افراد زخمی ہو گئے، خون کی موجوں نے پولیس اور فوج کے طوفان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بالاخرطاغوتی حکومت کی تنخواہ دار عسکری طاقت نے خالی ہاتھ اور تہی دست لوگوں کے حوصلے کےسامنے سر خم کر دیا اور نظام مصطفی کے حقیقی داعی نے بےسروسامانی کے عالم میں سیکریٹریٹ پر قبضہ کر کے فراعنۂ وقت پر یہ ثابت کردیا کہ تم طاقت سے فقط بدنوں پر حکومت کرتے ہو اور ہم صبر سے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔
محترم قارئین! محمد حسین شاد اگرچہ ایک عام شخص تھا لیکن اس کے رہبر کے نزدیک اس کا خون اتنا محترم اور مقدس تھا کہ محمد حسین شاد کو پاکستان میں ملت جعفریہ کا پہلا شہید تسلیم کیاگیا نیزمحمد حسین شاد کی شہادت کے بعد کئی سالوں تک جب عزاداری کے جلوس محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس سے گزرتے تھے تو وہاں پر کچھ دیر جلوس کو روک کر محمد حسین شاد کے لئے فاتحہ پڑھی جاتی تھی اور ماتم داری کی جاتی تھی۔ راقم الحروف خود بھی اس امرکاگواہ ہے کہ محرم الحرام میں امام بارگاہ جی سکس ٹو اسلام آباد کے نزدیک محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس موصوف کی یاد منانا مومنین کے درمیان مرسوم تھا اور نئی نسل کو وہیں پر محمد حسین شاد کی آگاہی حاصل ہوا کرتی تھی لیکن اب محمد حسین شاد کا نام بھی کہیں نہیں لیا جاتا۔
پاکستان کے سیکرٹریٹ پر ملت جعفریہ کے قبضے کا ورق محمد حسین شاد کے خون سے تربتر ہے۔ قبضہ ہونے کے بعد ۵جولائی کی یہ شب پہلے سے کئی گنا زیادہ گھمبیرمسائل لے کر فلک پر نمودار ہوئی۔ مظاہرین کے گرد لشکر یزید نے خاردار تاروں کا حصار کر کے ان کا پانی تک بند کر دیا۔
یہ شب ایک مرتبہ پھر شب عاشور کے زخم تازہ کر گئی۔ آج پھر محبان حسین (ع) یزید وقت کی فوجوں کے حصار میں تھے۔ جیسے جیسے رات ڈھل رہی تھی گویا روزِعاشور قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ یزید کے لشکری، مظاہرین پر رائفلیں تانے فائر کھولنے کے حکم کے منتظر بیٹھے تھے اور دوسری طرف جی سکس ٹو کی امام بارگاہ میں"شاد" کی لاش ایک نئے احتجاج کا مقدمہ فراہم کر رہی تھی۔ بظاہر "شاد" کی شہادت ایک عام شخص کی شہادت تھی لیکن اس کے تصور سے ہی حکمرانوں کے بدن میں خوف کے مارے چیونٹیاں دوڑ رہی تھیں، چنانچہ ایک طرف تو مظاہرین کی ناکہ بندی کی گئی اور دوسری طرف اس لاش کو دفنانے کی فکر حکمرانوں کو کھائے جارہی تھی۔ حکومت کی طرف سےلاش کو دفنانے کے حوالے سے جی سکس ٹو میں آئی ایس او کے مسئول سے بات کی جس نے انہیں جواب دیا کہ میں مفتی جعفر حسین صاحب سے پوچھتا ہوں۔ اگر انہوں نے اجازت دی تو ہم اس برادر کی لاش کو دفنائیں گے چنانچہ مفتی صاحب نے اجازت دے دی۔
۶جولائی کو تین بجے صبح "شاد" کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ حکومت نے جنازہ لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا اور میت کے ہمراہ ۲۰ ہزار روپے بھی شہید کے ورثاء کے لیے بھیجے لیکن شہید کے وارثوں نے روپے سرکاری چمچوں کو واپس تھما دئیے۔ اب دوسری طرف سیکریڑیٹ میں ۶جولائی کو کاروبار حکومت بند رہا۔ ہزاروں بھوکے، پیاسے اور نہتے مظاہرین کے گرد پولیس اور فوج موت کے بادلوں کی طرح منڈلا رہی تھی لیکن حکومت جانتی تھی کہ ہزاروں کا یہ مجمع بھوکا اور پیاسا ہے تو ان کا رہبر بھی بھوکا اور پیاسا ہے۔ اگر یہ لوگ فوج اور پولیس کے گھیراو میں ہیں تو ان کا قائد بھی پولیس اور فوج کے حصار میں موجود ہے۔ چنانچہ بدمست حکمرانوں کے دماغ سے طاقت کا نشہ اُتر گیا۔
مطلق العنان اختیارات کے مالک حکمران نے ـ کہ جس کا حکم پاکستان کے چپے چپے پر چلتا تھا ـ اس ڈکٹیٹر نے پرانے کپڑے پہننے والے، روکھی سوکھی روٹی کھانے والے اور انتہائی سادہ مزاج عالم دین کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
مفتی جعفر حسین (رح) نے مذاکرات کی میز پر وقت کے خون آشام آمر کو اپنے سامنے بٹھا کر طاغوت عالم کو یہ بتا دیا کہ آج بھی مجھ جیسا اُس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جب یہ بوڑھا مجاہد ایوانِ اقتدار میں ایک معاہدے پر دستخط کر کے باہر نکلا توسیرتِ امام حسن (ع) پر کاربند ، خلوص و وفا کے اس پیکر کے چہرے پر کامیابی کا نور جلوہ گر تھا جبکہ امیر شام کے چیلوں کے چہروں پر شکست کی تاریکی سیاہی بن کر پھیلی ہوئی تھی۔
ادھر مظاہرین کو مولانا مفتی جعفر حسین (رح) نے منتشر ہونے کا حکم دیا ادھر امریکہ سے ضیاءالحق کو تارآگیا کہ مبارک ہو کہ آپ کی حکومت بچ گئی۔ اگر اس مبارکباد کا یقین نہ آئے تو بریگیڈئر {ر}احمد ارشاد کی کتاب "حساس ادارے" کا مطالعہ کر لیجئے۔
آج بھی جب سرکاری ادارے ،زائرین کو لوٹتے ہیں،دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں،ملک کے اائین کو پامال کرتے ہیں، تو مفتی جعفرحسین قبلہ کی اقدار کے وارثوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کڑے وقت میں مفتی صاحب والا کردار ادا کریں۔
یاد رہے کہ سب کو اچھا کہنا یہ برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے اور سب کو برا کہنا یہ اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے اور برے میں ،کھرے اور کھوٹے میں،مخلص اور ریاکار میں فرق کرنا عقل کا تقاضا ہے۔ ۲۹ اگست ۱۹۸۳ئ کو قبلہ مفتی جعفر حسین اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا قومی و تنظیمی راستہ آج بھی ہمارے سامنے ہے۔اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم قومیات اور تنظیمی معاملات میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کریں اور درست راستے کا انتخاب کریں تا کہ ہم اپنے معنوی ارث کو وصول کر سکیں۔
نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل)ننھا سا بچہ گرم ریت میں جھلس رہاہے،ماں سرکاری اہلکاروں کے سامنے ہاتھ باندہ کر دو بوند پانی مانگ رہی ہے۔۔۔
سورج دہک رہا ہے،آسمان سے آگ برس رہی ہے،ہر طرف لق و دق صحرا ہے،قیامت کی پیاس اورغضب کی گرمی ہے۔ایک ماں اپنے نومولود بچے کے ہمراہ جان کنی کی حالت میں ہے ،باپ تنگ ہو کر احتجاجاً اپنے گلی پر چھری چلا دیتا ہے۔۔۔
تاریک بیابان ہے ،آدھی رات کو مسافروں کے قافلے شاہراہِ عام پر لوٹ لئے جاتے ہیں۔۔۔
دن دیہاڑے ،وسطِ بیابان میں چالیس کے لگ بھگ مسافروں کو گولیوں سے بھون دیا جاتاہے۔۔۔
کوئی سننے والا نہیں،کوئی پوچھنے والا نہیں،لوگوں کو جانوروں کی طرح ہانک کر کانوائی کے نام پر محاصرہ کر کے کئی کئی ہفتوں تک لوٹا جاتا ہے۔
ایک ہزار کے بجائے پانچ ،پانچ ہزار کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔۔۔۔
یہ سینکڑوں سال پرانے کسی صحرا کی داستان نہیں بلکہ یہ کوئٹہ سے تفتان کی روداد ہے،یہ کسی یہودی عورت کی پازیب چھننے کا غم نہیں بلکہ دخترِ اسلام کی حالت زار ہے۔یہ مغرب کے عشرت کدوں میں رقص کرنے والی کسی لیڈی کا غم نہیں بلکہ دخترِ مشرق کی بے حرمتی ہے۔
جی ہاں ! یوں اگرکسی سرمایہ دار ،سیاستدان ، قومی و ملی لیڈر یا کسی ویسٹرن فیملی کا بچہ پیاس سے تڑپتا تو میڈیا چیخ اٹھتا،انسانی حقوق کی تنطیمیں سینہ کوبی کرتیں،عالمی برادری اشک بہاتی،لیڈر چیختے اور چلاتے ۔۔۔
جی ہاں ! یوں اگر سرکاری اہلکاروں کے مظالم سے تنگ آکر یورپ کا کوئی شہری احتجاجا خود کشی کی کوشش کرتا تو ہمارے صدر مملکت اور وزیراعظم صاحب کی طرف سے بھی افسوس کا پیغام بھیجاجاتا۔۔۔
جی ہاں! اگر اس طرح کسی دوسرے مکتب کے زائرین کو گولیوں سے بھونا جاتا تو اُن کی یادگار بنائی جاتی،بین الاقوامی برادری کی طرف سے تعزیتی وفود آتے،تفتیشی ٹیمیں آتیں اور مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیاجاتا۔۔۔
جی ہاں!یوں اگر اس طرح کسی اور فرقے کے افراد کو کانوائے کے نام پر محاصرہ کرکے لوٹاجاتا،پانچ گنا زیادہ کرایہ وصول کیاجاتا،لوگوں کو گھنٹوں لائنوں میں کھڑا کیاجاتا،بیوی بچوں کے سامنے مردوں کو بے عزت کیاجاتا تو اینٹی کرپشن کی فائلیں کھل جاتیں،مختلف شخصیات کی طرف سے از خود نوٹس لئے جاتے،عدالتیں حرکت میں آجاتیں۔۔۔
سرکاری اہلکاروں کی طرف سےشہریوں کی بے عزتی کرنا یہ نظریہ پاکستان،آئین پاکستان اور انسانی اقدار کی توہین ہے۔قوم کی ماوں ،بہنوں ،بیٹیوں اور بچوں کی توہین اور اہانت کرنا یہ سراسر ہماری ملکی اور معاشرتی روایات کے خلاف ہے۔لیکن اس کے باوجود کوئی بھی اس درد کو محسوس نہیں کررہا،کوئی بھی اس ظلم کا نوٹس نہیں لے رہا،کوئی ادارہ بھی حرکت میں نہیں آرہا۔۔۔
شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو قوم ظلم سہنے اور انصاف کی بھیک مانگنے کی عادی ہوجائے،دوسرے بھی اس پر رحم کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
تاریخ کے کسی موڑ پر عالمِ بشریت کے سب سے بڑے بہادر نے ہم جیسوں کو ہی پکار کر کہاتھا کہ اے مردوں کی شکلوں میں نامردو تمہاری آبادیوں اور عزت و ناموس پرحملے ہو رہے ہیں اور تم۔۔۔
نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.