وحدت نیوز (آرٹیکل) موت بھی ایک وزن رکھتی ہے۔موت کو بھی تولا جاسکتاہے۔موت کا وزن مرحوم کی شخصیت کے مساوی ہوتاہے۔کسی کی موت سے صرف اس کی گھر والے،عزیز اور رشتے دار متاثر ہوتے ہیں،کسی کی موت سے ایک پورے شہر کا دل درد سے بھر جاتا ہے،کسی کی موت کئی شہروں کو اداس کردیتی ہے ،کسی کی موت سے پورا ملک ہل جاتا ہے اور کسی کی موت پوری دنیا کو ہلا دیتی ہے۔
بلاشبہ گزشتہ دنوں میں افریقہ کے شیخ زکزاکی پر حملے اور شیخ باقرالنمر کی سزائے موت نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیاہے۔بات صرف سعودی عرب اور ایران کی نہیں ،بات عالمی برادری کے رد عمل کی ہے۔سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ شدید تناو آیا ہے اور اس سے زیادہ بھی حالات سنگین ہوئے ہیں لیکن بین الاقوامی برادری نے اس سے پہلے کبھی اس طرح سعودی عرب کو شدید تنقید کا نشانہ نہیں بنایاتھا۔
بین الاقوامی برادری خصوصا اسلامی دنیا نے اس دفعہ سعودی عرب کی شدید مذمت کی ہے۔اس مذمت کی خاص وجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معلومات کا عام ہونا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ سعودی عرب کے بادشاہوں کو خلیفۃ اللہ اور خادم الحرمین شریفین کہہ کر ان کی پرستش کرتے تھے اور بعض اب بھی ان کی پوجا کرتے ہیں لیکن ایک عام اور غیر متعصب مسلمان اب سعودی عرب کی حکومت،آل سعود کے عقائد اور سعودی حکمرانوں کے ہاں پائے جانے والے اسلام کو اچھی طرح سمجھ چکاہے۔
حتّی کہ سعودی حکومت کو اچھی طرح سمجھنے والے اور آلِ سعود کی پشت پناہی سے وجود میں آنے والے طالبان اور داعشی گروہوں میں بھی ایسے گروہ موجود ہیں جو کہ آلِ سعود کو خالصتاً امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔
دنیا بھر میں شدت پسندوں کو ٹریننگ دینے،خود کش دھماکے کروانے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے اور اسلام کا لیبل استعمال کرنے کے باعث ، خصوصاً سانحہ منیٰ کے بعد سے لوگوں کے سامنے آل سعود کا اصل چہرہ بے نقاب ہوچکاہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فلسطین اور غزہ کے مسلمان آلِ سعود کے صیہونی ہونے کا تجربہ کرچکے ہیں،بحرین میں سعودی افواج کے سینگ پھنسے ہوئے ہیں،یمن میں سعودی عرب کا بھرکس بن رہاہے،شام میں آل سعود کی دُم پر پاوں آیا ہوا ہے ،عراق میں سعودی عرب کے دانت کھٹے ہوچکے ہیں،پاکستان میں ہرباشعور پاکستانی ،سعودی عرب کے دہشت گردی کے کیمپوں میں جانے سے گریزاں ہے،کشمیر میں لوگ سعودی جہاد کا مزہ چکھ چکے ہیں۔افغانستان میں آل سعود کو خنّاس سمجھا جاتاہے۔۔۔
ایسے میں سعودی عرب کی طرف سے ۳۴ ممالک کے اتحا د کا من گھڑت اعلان کرنا دراصل گرتی ہوئی سعودی بادشاہت کو بچانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔یہ کوشش بھی اس وقت ناکام ہوگئی جب اکثراسلامی ممالک کے سربراہوں نے اس اتحاد سے لاتعلقی کااظہار کردیا۔
سعودی اتحاد سے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے انکار نے سعودی حکمرانوں پر واضح کردیا ہے کہ اب اسلامی دنیا،اسلام کے نام پر بے وقوف بننے کے لئے تیار نہیں ہے۔
اس وقت امریکہ و اسرائیل کی چاکری اور اپنے وہابی عقائد کے باعث سعودی عرب عالمِ اسلام کو اپنے پرچم تلے جمع کرنے میں ناکام ہوچکاہے۔
اب سعودی عرب کے پاس دوسرا راستہ صرف اور صرف یہی ہے کہ دنیا کو “ایران دشمنی “پر جمع کیاجائے۔دنیا کو ایران دشمنی پر جمع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دیگر ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کو ایران سے ڈرایاجائے۔” ایران سے ڈرانا” در اصل امریکہ اور اسرائیل کا ایک کاروباری ہتھکنڈہ ہے،مغربی قوتیں اور امریکہ عرب ریاستوں کو ایران سے ڈرا کر ایک لمبے عرصے سے معدنیات اور تیل کے ذخائر کولوٹ رہے ہیں۔چنانچہ ایران سے ڈرانے کا نسخہ امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب تینوں کے لئے فائدہ مند ہے۔
اس نسخے کے تحت شیخ باقرالنّمر کی سزائے موت پر ہونے والے ردّعمل کے بعد سعودی عرب نے ایران کے خلاف اعلانیہ سفارتی جنگ شروع کردی ہے۔ایسے لگتاہے کہ جیسے ایک دم ایران اور سعودی عرب کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں،حالانکہ ۳۴ممالک کے اتحاد کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد یہ ماحول جان بوجھ کربنایاگیاہے۔
“ایران دشمنی” پر لوگوں کو جمع کرنے کی گیم بھی اب زیادہ عرصے تک چلنے والی نہیں چونکہ وہ زمانہ گزرگیاکہ جب مداری ڈگڈگی بجاکر لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرلیتے تھے اور چٹکلے سنا کر ان سے پیسے لیتے تھے۔اب دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی ہے اور لوگ خبری چٹکلوں اور سیاسی بیانات کے بجائے،تحقیق اور تجزیہ و تحلیل سے کام لیتے ہیں۔
ہمارے خیال میں اس وقت سعودی عرب کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ بن کر ایران دشمنی کی فضا بنانے کے بجائے اپنی اصلاح ِ احوال پر توجہ دے۔دنیا بھر میں شدت پسند ٹولوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لے اوراپنی ریاستی عوام کے انسانی اور سیاسی حقوق کااحترام کرے۔
سعودی حکومت کو اس وقت حقیقی خطرہ ایران کے بجائے ان مظلوم سعودی عوام سے ہے جن کے مقدس ملک کو امریکہ اور اسرائیل کی کالونی بنادیاگیاہے،جن کی غیرتِ دینی کو مذاق بنادیاگیاہے،جن کے جذبہ جہاد کو نیلام کیاگیاہے،جن کے معدنی زخائر کو کفار اور یہود پر لٹایاجارہاہے ،جن کی مقدس دھرتی پرپائے جانے والے مقدس مقامات کو مسمار کردیاگیاہےاورجن کے سیاسی و جمہوری حقوق کو نظرانداز کیاجارہاہے ۔ایسے مظلوم لوگ صرف شیعہ نہیں بلکہ سنّی بھی ہیں ۔یہ سب مظلوم ہیں اور یہ سب سعودی حکومت کے لئے خطرہ ہیں۔
تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی
وحدت نیوز (آرٹیکل) نائجیریا کا دارلحکومت ابوجا ہے،اس کے پڑوسی ممالک میں چاڈ،کیلیفورنیا،کیمرون،وینزیلا اورتنزانیہ شامل ہیں،یہ بر اعظم افریقہ کاایک انتہائی اہم اسلامی ملک ہے،اس کا رقبہ 923768مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً ۱۸ کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔آٹھویں صدی میں شمالی افریقہ کے مراکش، الجزائر، لیبیا، تیونس، مصر اور مشرق سے سوڈان، صومالیہ، یمن اور سعودی عرب جیسے مسلمان ممالک کے ذریعے اس ملک میں اسلام داخل ہوا اور بعد ازاں یہاں مسلمانوں کی حکومت تشکیل پائی، بیسویں صدی کا سورج اس ملک پر برطانوی تسلط کا پیغام لے کر طلوع ہوا،۱۹۶۰ تک نائیجریا برطانیہ کی غلامی میں ایک نوآبادی بن کررہا،اس دور میں عیسائیت کو نائیجیریا میں خوب پھیلایا گیا،تعلیمی اداروں میں بائبل اور عیسائیت کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور مشرقی علاقوں کے قبائل نے اسی عہد میں عیسائیت اختیار کی۔
نائیجیریا میں اسلام عیسائیت کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے،شروع سے ہی تبلیغِ دین میں عیسائیت کو براہِ راست مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا،مسلمان آبادی کے لحاظ سے آج بھی وہاں ایک بڑی اکثریت ہیں،۱۹۶۰ عیسوی میں نائیجریا کی آزادی ایک عیسائی جنرل برونسی کے خونی انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئی،اسلامی لیڈر شپ کا قتلِ عام کیا گیا،اس قتلِ عام سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مزید نفرتیں پیدا ہوئیں۔
بعد ازاں عیسائیوں اور مسلمانوں کی نسبتاً مخلوط حکومت وجود میں آگئی،۱۹۶۷ میں ایک عیسائی فوجی کرنل اجوکو نے مرکزی حکومت سے بغاوت کرکے مشرقی نائیجریا میں بیافرا کے نام سے نئی حکومت بنا لی،پٹرول سے مالا مال یہ منطقہ چونکہ عیسائی آبادی پر مشتمل تھا ،چنانچہ مغربی حکومتوں نے اس کا خیرمقدم کیا،کرنل اجوکو کی بغاوت کو مرکزی حکومت نے جلد ہی کچل دیا ،البتہ اس کچلنے میں ۱۰ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔
اس عیسائی کرنل کی بغاوت کے صرف چند سالوں کے بعدیعنی ۱۹۷۰ کے عشرے میں عالمی عیسائیت کے ادارے نےبرّ اعظم افریقہ کو ایک عیسائی برِّ اعظم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا،ڈالروں کی بارش کی گئی اور عیسائی مبلغین کی ایک بڑی کھیپ مختلف شکلوں میں مغرب اور امریکہ سے برِّ اعظم افریقہ میں داخل ہوئی۔
ٹھیک اسی عشرے میں یعنی ۱۹۷۸ کو نائیجیریا میں انجمن اسلامی سورہ نائیجیریا کا سیکرٹری جنرل شیخ ابراہیم زکزاکی کو منتخب کیا گیا ۔شیخ ابراہیم زکزاکی مالکی مسلک سے تعلق رکھتے تھے،وہ ۱۹۸۰ میں ایران میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر ایران آئے،ایران میں ان کی ملاقات دوسری مرتبہ امام خمینیؒ سے ہوئی،اس سے پہلے وہ پیرس میں بھی امام ؒ سے ملاقات کرچکے تھے،اس دوسری ملاقات سے ان کی زندگی اور افکارو نظریات میں بھی ایک انقلاب برپاہوا، واپسی پر۸۰ کی دہائی میں ہی انہوں نے ایک اور تنظیم انجمن اسلامی کی بنیاد رکھی،انجمنِ اسلامی کی بنیاد کا مقصد مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنا اور دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ کرنا تھا۔مسلمانوں کی وحدت اور دشمن شناسی کے پرچار کے باعث ،عیسائیت ،وہابیت اور صہیونیت کی مثلث ان کی تاک میں لگ گئی۔
مسلمانوں میں بیداری اور وحدت کی تبلیغ،خصوصاً مسئلہ فلسطین پر آواز اٹھانےکے باعث انگلش،ہسپانوی،عربی ،فارسی اور ہداسائی جیسی زبانوں پر مسلط اس مسلمان لیڈر کو اب تک ۹ مرتبہ جیل میں ڈالا گیا ہے،آخری مرتبہ شیخ کو۱۹۹۶ میں گرفتار کرکے ۱۹۹۸ میں رہاکیاگیا۔
لوگوں کو اسلام سے متنفر کرکے عیسائی بنانے کے لئے ۲۰۰۲میں بوکوحرام کی بنیاد ڈالی گئی۔شیخ نے تمامتر مشکلات کے باوجودشعور و بیداری کا سفر جاری رکھا ,وقت کے ساتھ ساتھ بوکوحرام جیسے ٹولے عوام النّاس میں متنفر ہوتے گئے اور شیخ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔”شیطانی مثلث” کے ایجنڈے کے مطابق بوکوحرام نے بچوں کو قتل کر کے،عورتوں کو اغوا کرکے اور بے گناہ انسانوں کا خون بہاکر اسلام کو بدنام کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ شیخ کی شخصیت کے باعث ناکام ہوگیا۔
لوگ بوکوحرام کے بجائے شیخ کو اسلام کا ماڈل سمجھنا شروع ہوگئے،لوگوں کی اکثریت نے بلاتفریق مذہب و مسلک شیخ کی آواز پر لبّیک کہنا شروع کردیا ،شیخ کی عوامی مقبولیت کے باعث اسلامی اتحاد کو بھی فروغ ملا اور یوم القدس کو بھی مسلمان مل کر بنانے لگے۔ہر سال یوم القدس کی شان و شوکت میں اضافہ ہونے لگا اور یوم القدس کے پروگراموں میں تمام اسلامی مسالک کے نمائندے بھرپور شرکت کرنے لگے۔
دوسری طرف ““شیطانی مثلث” “کے پالتو درندے” بوکوحرام “کے نام سے فقط درندگی تک محدود ہونے لگے اور شیخ زکزاکی حقیقی اسلام کی نمائندگی کرنے لگے۔چنانچہ گزشتہ سال یوم القدس کے موقع پر شیخ کے تین بیٹوں سمیت تقریبا تیس سے زائد افرادکو شہید کیاگیا۔۲۰۱۴ میں یوم القدس کے موقع پر ہونے والی شہادتوں کے ذریعے “شیطانی مثلث” نے عالمِ اسلام کی بے حسی اور بے خبری کا اندازہ لگایا اور اس سال شیخ کی بیداری اور شعور کی لہر کو کچلنے کے لئے بھرپور حملہ کیا ۔
یہ دوسرا حملہ پہلے سے بھی زیادہ شدید تھا،شیخ کے باقی رہ جانے والے بیٹے اور بیوی سمیت ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو شہید کیا گیا جبکہ شیخ کو زخمی حالت میں کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
بالکل وہی درندگی جو نائیجیریا میں بوکوحرام کے کارندے کرتے ہیں ان کے آقاوں نے بھی کی۔ اب ان ظالم درندوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ظلم کی رات چاہے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو سویرا ضرورہوتا ہے۔
جب تک دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے طالبان،داعش اور بوکوحرام جیسے گروہ بنائے جاتے رہیں گے،زکزاکی بھی جنم لیتے رہیں گے۔دنیا کب تک دھوکہ کھائے گی ،میڈیا کب تک خاموش رہے گا،انسانی حقوق کے ادارے کب تک بے حسی کا مظاہرہ کریں گے۔۔۔بالاخر شہیدوں کا لہو رنگ لائے گا ۔۔۔ضرور رنگ لائے گا
کتاب سادہ رہے گی کب تک؟؟
کبھی تو آغاز باب ہو گا۔۔۔
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی،،
کبھی تو انکا حساب ہوگا۔۔۔۔
سکون صحرا میں بسنے والو۔۔
ذرا رتوں کا مزاج سمجھو۔۔
جو آج کا دن سکوں سے گزرا۔۔
تو کل کا موسم خراب ہو گا۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ۔۔۔ کل کا موسم ظالموں کے لئے خراب ہوگا۔۔۔۔
تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com
وحدت نیوز (آرٹیکل) مجھے اس وقت بہت عجیب لگا، جب میں نے ایک بچے کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے نبیﷺ بچوں سے محبت کرتے تھے، بچوں کو چومتے تھے اور جو لوگ بچوں کو قتل کرتے ہیں، وہ گندے لوگ ہوتے ہیں۔ ہاں ہمارے بچے بالکل ٹھیک سمجھے ہیں کہ جو بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ گندے لوگ ہوتے ہیں، اس وقت ہمارا وطنِ عزیز گندے لوگوں میں گھرا ہوا ہے، ہم نے مل کر ہی اپنے ملک کو ان گندے لوگوں سے پاک کرنا ہے۔ ہر سال سولہ دسمبر کو ننھے منّے شہیدوں کا مقدس لہو ہمیں یہ یاد دلاتا رہے گا کہ گندے لوگوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے، اس لئے کہ گندے لوگ، ملک، ملت اور دین و مذہب سب کو گندہ کر دیتے ہیں۔
تاریخِ بشریت پر بچوں کے بڑے احسانات ہیں، حضرت مریمؑ کی عصمت و طہارت کی گواہی گہوارے سے ایک بچے نے ہی دی تھی، جنابِ یوسف ؑ کی بے گناہی کا ثبوت ایک بچہ ہی بنا تھا، تیرہ رجب المرجب کو بیت اللہ میں ایک بچے کی ولادت سے دنیائے توحید میں اجالا ہوا تھا اور 61 ھجری میں باطل کو ابدی شکست دینے والا بھی ایک شش ماہہ بچہ تھا۔ گذشتہ روز سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے شہید بچوں کی پہلی برسی کے موقع پر قم المقدس میں ایم ڈبلیو ایم قم کی طرف سے بچوں کے ساتھ ایک خصوصی نشست رکھی گئی۔ نشست کے دوران جب بچے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس اکیسویں صدی میں بھی انسان اتنا بے بس ہے اور انسانیت اتنی مظلوم ہے کہ انسان نما درندے کسی قانون یا ضابطے کی پابندی کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
یمن، بحرین اور کشمیر و فلسطین میں بے کس خواتین، کم سن بچوں اور ضعیف العمر افراد کو کھلے عام درندگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، شام اور سعودی عرب میں بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، پاکستان و افغانستان میں پرامن لوگوں کو دھماکوں سے اڑایا جا رہا ہے، مقامی سیاست سے لے کر بین الاقوامی سیاست تک کمزوروں کا خون چوسا جا رہا ہے، لیکن بین الاقوامی طور پر کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آرہا۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب ہی پوری دنیا میں کشت و کشتار کے سارے نیٹ ورکس کو بھی چلا رہے ہیں اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے علمبردار بھی بنے ہوئے ہیں۔ جو امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی دوغلی پالیسی ہے، وہی ان کے تربیت یافتہ دہشت گردوں نے بھی اپنا رکھی ہے، ان کے تربیت یافتہ دہشت گرد ایک طرف تو نہتے انسانوں اور بچوں کا قتلِ عام کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے آپ کو مسلمان اور مجاہد اسلام بھی کہتے ہیں۔
مجھے اس وقت بہت عجیب لگا، جب میں نے ایک بچے کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے نبیﷺ بچوں سے محبت کرتے تھے، بچوں کو چومتے تھے اور جو لوگ بچوں کو قتل کرتے ہیں، وہ گندے لوگ ہوتے ہیں۔ ہاں ہمارے بچے بالکل ٹھیک سمجھے ہیں کہ جو بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ گندے لوگ ہوتے ہیں، اس وقت ہمارا وطنِ عزیز گندے لوگوں میں گھرا ہوا ہے، ہم نے مل کر ہی اپنے ملک کو ان گندے لوگوں سے پاک کرنا ہے۔ ہر سال سولہ دسمبر کو ننھے منّے شہیدوں کا مقدس لہو ہمیں یہ یاد دلاتا رہے گا کہ گندے لوگوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے، اس لئے کہ گندے لوگ، ملک، ملت اور دین و مذہب سب کو گندہ کر دیتے ہیں۔
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com
وحدت نیوز (آرٹیکل) انتشار و تفرقے سے اقوام کمزور اور وحدت و اتحاد سے مضبوط ہوتی ہیں۔ کمزور کی چیخیں بھی کمزور ہوتی ہیں،کمزرو کی چیخوں اور احتجاجات سے نہ زمین پھٹتی ہے ، نہ آسمان گرتا ہے،نہ انصاف ملتا ہے ،نہ عدالتوں کے دروازے کھلتے ہیں اور نہ کوئی اس کی فریاد پر کان دھرتا ہے۔
یہ ربیع الاوّل پیغمبرِ اسلام ﷺ کی ولادت ِ باسعادت کا مہینہ ہے اوراس مہینے کے آغاز پر اس وقت ملتِ پاکستان پارہ چنار میں اپنے عزیزوں کی لاشوں کے ٹکڑے اٹھا رہی ہے۔تفصیلات کے مطابق پارہ چنار میں کھلے میدان میں لگے لنڈا بازار میں اُس وقت دھماکا ہوا جس وقت لوگ بڑی تعداد میں خریداری میں مصروف تھے۔ذرائع کے مطابق دھماکا لنڈا بازار میں نصب بارودی مواد جو کہ 35 کلو سے زائد تھاکے پھٹنے سے ہوا۔
اگر مارنے والوں کا تعلق کسی خاص فرقے سے ہوتا تو وہ بازار میں دھماکہ کرنے کے بجائےاپنے اعتراضات کو بیان کرتے اور اپنے مطالبات پیش کرتے اور نہتے لوگوں کو درندگی کا نشانہ نہ بناتے۔
شجاع اور بہادُرانسان کبھی بھی کمزوروں،بچوں اور عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔شجاعت کا اظہار میدان میں کیا جاتاہے۔شجاع انسان اپنے موقف کو بیان کرتا ہے،مخالفین کے اعتراضات برداشت کرتا ہے،ناقدین کا سامنا کرتا ہے،دلیل پیش کرتا ہے اور دلیل کو قبول کرتا ہےلیکن اس کے برعکس انسان جتنا بزدل اورپست ہوتا ہے وہ اتنا ہی سفّاک، وحشی، خونخوار اور ہٹ دھرم ہوتا ہے۔
یہ عبادت گاہوں پر حملے،اولیائے کرام کے مزارات پر دھماکے،بازاروں میں قتلِ عام اور بے گناہ لوگوں کے کشت و خون سے یہ واضح ہے کہ اس وقت ملتِ پاکستان کو انتہائی گھٹیا اور پست دشمن کا سامناہے۔
گزشتہ سال ہمارے انہی پست اور بزدل دشمنوں نے انہی دنوں میں پشاور کےآرمی پبلک سکول پر حملہ کرکے ہماری ملت کے نونہالوں کو خاک و خون میں غلطاں کیا تھا۔
یہ واقعات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ سامراجی سازشوں اور طاغوتی ایجنسیوں نے ہمارے گرد گھیرا تنگ کررکھا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جو لوگ پاکستان میں قتل و غارت کررہے ہیں وہ پاکستان کے دشمن ممالک کی ایجنسیوں کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔دشمن کے ایجنڈے پر کام کرنے والے یہ لوگ نام نہاد مجاہدین کے کیمپوں میں بھی اور سرکاری پوسٹوں پر بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان میں خون بہانے اور خون پینے کا عمل زورو شور سے جاری ہے۔ملت پاکستان کے ساتھ جس پستی اور درندگی کا مظاہرہ نام نہاد مجاہدین کررہے ہیں اسی کمینگی اور ذلت کو سرکاری اہلکار بھی اپنائے ہوئے ہیں۔
جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ پاکستان سے ایران آنے والے زائرین کی لوٹ مار کا سلسلہ یوں تو ایک عرصے سے جاری ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں اس میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔
ابھی چند روز پہلے یعنی دو دسمبر کو میڈیا نے یہ خبر نشر کی کہ زائرین کو زبردستی پاکستان ہاؤس میں رکھ کر5ہزار زائرین سے چارجزکے نام پر 100 روپے کے حساب سے پانچ لاکھ وصول کئے گئے،جس کے بعد علامہ عارف حسین واحدی مر کزی سیکرٹری شیعہ علماء کونسل کی طرف سے مذمتی بیان پڑھنے کو ملا:۔
علامہ عارف حسین واحدی مر کزی سیکرٹری شیعہ علماء کونسل نہ کہا کہ پہلے تو کوئٹہ میں سیکورٹی کے نام پربلاجواز ہزاروں زائرین کو ایک ہفتہ تک روکے رکھا جو ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی پریس کانفرنسزو ریلیوں اور اعلیٰ سطحی رابطوں کے بعدزائرین کوئٹہ سے روانہ ہوئے لیکن تفتان بارڈر پہنچنے پرزائرین کوبلاجواز پاکستان ہاوس میں زبردستی روکے رکھنا شہری حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سے تفتان 8 گھنٹے کا سفر ہے لیکن زیادتی یہ ہے کہ کانوائے میں20 گھنٹے سے زائد لگائے جاتے ہیں، زائرین کوئٹہ سے گذشتہ رات تین بجے کے قریب تفتان بارڈرپہنچے جہاں زائرین کو زبردستی پاکستان ہاؤس میں بٹھایا گیا اور ہر قافلے سے چھ سے دس ہزار روپے جو تقریباً فی زائر 100 روپے کے حساب سے پانچ لاکھ کے قریب بنتے ہیں چارجز وصول کئے گئے۔ رقم لینے کے باوجود پاکستان ہاوس میں زائرین کیلئے نہ تو سونے کی جگہ ہے اور نہ ہی بیٹھنے کی علاوہ ازیں پاکستان ہاوس میں تمام بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ایسا لگتا ہے کہ زائرین کو ایک خصوصی جیل میں بند کر دیا گیاہو۔ پاکستان ہاؤس کے گیٹ بند ہیں،زائرین کے باہر جانے پر حتیٰ کہ ایف آئی اے کے دفتر تک بھی جانے کی پابندی ہے ۔علامہ عارف واحدی نے کہا کہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں بیمارمسافر زائرین علاج معالجہ کے لئے مجبور ہیں کہ وہ علاج کیلئے بھی باہر نہیں جاسکتے۔بچے خواتین مرد سب تکلیف دہ عمل سے گزر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تفتان بارڈر پر ایف سی کے ایک صوبیدار رینک افسر کی اجارہ داری ہے جس کا رویہ نہایت ظالمانہ ہے۔تفتان بارڈر پر زائرین انتہائی کسمپرسی کے عالم میں بے یارومددگار پڑے ہیں اور ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ [1]
اس سے پہلے ۲۲ نومبر ۲۰۱۵ کی بات ہے کہ جب پاکستان سے قم پہنچنے والے زائرین نے ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام گلزار احمد جعفری اور دیگر مسئولین سے ملاقاتوں کے دوران بتایا کہ پاکستان سے ایران آنے والے زائرین کو ستانا اور لوٹ مار کرنا سرکاری کارندوں کا معمول بن چکا ہے، کانوائے کو رشوت بٹورنے کے لئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹرانسپورٹر حضرات سواریوں سے چندہ اکٹھا کرکے سرکاری چوکیوں پر رشوت جمع کراتے ہیں۔ قدم قدم پر زائرین کو رشوت لینے کے لئے ہراساں کیا جاتا ہے۔ کہیں پر کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔
زائرین نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اب تو پاکستان آرمی کے جوان بھی پولیس کی طرح رشوت کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔[2]
اس طرح کی صورتحال ابھی تک جاری ہے کہ زائرین کو سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ابھی آج ہی ایک صاحب پاکستان پہنچے ہیں انہوں تفتان روٹ کی تازہ ترین اطلاع دی ہے کہ زائرین کو ستانے اور رشوت خوری کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے۔
میرے خیال میں ماہِ ربیع الاوّل میں پاراچنار کے شہدا کا مقدس خون اور زائرینِ امام حسینؑ کا تقدس ملتِ پاکستان کے ہرباشعور مسلمان،تمام دینی و سیاسی تنظیموں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ دشمن کے ایجنڈے پر کام کرنے والے نام نہاد مجاہدین اور سرکاری پوسٹوں پر بیٹھے ہوئے حرام خوروں کو مل کر بے نقاب کریں اور متحد ہوکر سزا دلائیں۔اگر ہم متحد ہوجائیں تو یہ سب ہوسکتا ہے اور اگر ہم متحد نہ ہوں تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔
اس وقت پوری ملت پاکستان کو اپنے پست اور گھٹیا دشمنوں کے خلاف متحد ہوکر ایک سیاسی و عملی قیام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم متحد نہیں ہونگے تو کمزور ہی رہیں گے اور کمزور کی چیخیں بھی کمزور ہوتی ہیں،کمزرو کی چیخوں اور احتجاجات سے نہ زمین پھٹتی ہے ، نہ آسمان گرتا ہے،نہ انصاف ملتا ہے ،نہ عدالتوں کے دروازے کھلتے ہیں اور نہ کوئی اس کی فریاد پر کان دھرتا ہے۔
نذر حافی
وحدت نیوز (آرٹیکل) اقوام کو حادثات اور سانحات سے بچانے کی تدابیر دانشمند اور مفکرین کیا کرتے ہیں۔کسی شخص کا اگر دماغ مفلوج ہوجائے تو اس کا باقی بدن باہمی ربط کھو دیتاہے اور وہ الٹی سیدھی حرکات شروع کردیتاہے ،جسکی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ شخص پاگل ہوگیاہے۔
بالکل اسی طرح کسی بھی ملت میں دانشمندوں کی حیثیت دماغ کی سی ہوتی ہے۔اگرکہیں پر دانشمند حضرات اچھائیوں کی ترغیب دیں تو لوگ اچھائیوں کی طرف آنے لگتے ہیں اور اگر برائیوں کی تبلیغ کریں تو لوگوں میں برائیاں عام ہونے لگتی ہیں۔جس ملت کے دانشمند حضرات اپناکام چھوڑدیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں تووہ ملت پاگلوں کی طرح الٹی سیدھی حرکات کرنے لگتی ہے اور اس ملت کے کسی بھی فرد کو کچھ پتہ نہیں چلتاکہ اس کے ساتھ کیا ہونے والاہے اور اسے کیا کرناچاہیے۔ یعنی جس ملت کے دانش مند افراد میدان میں رہتے ہیں وہ ملت میدان میں قدم جمائے رکھتی ہے اور جس ملت کے دانشمند افراد میدان خالی چھوڑدیں اس ملت کے قدم میدان سے اکھڑجاتے ہیں۔
کوئی بھی ملّت اس وقت تک انقلاب برپانہیں کرسکتی جب تک اس کے صاحبانِ فکرودانش اس کی مہار پکڑکرانقلاب کی شاہراہ پر آگے آگے نہ چلیں۔اگرکسی قوم کی صفِ اوّل دانشمندوں سے خالی ہو توایسی قوم وقتی طور پر بغاوت تو کرسکتی ہے یاپھر کوئی نامکمل یابے مقصد انقلاب تولاسکتی ہے لیکن ایک حقیقی تبدیلی اور بامقصد انقلاب نہیں لاسکتی۔
کسی بھی معاشرے میں دانشمندوں کی حیثیت،بدن میں دماغ کی سی ہوتی ہے،دماغ اگراچھائی کاحکم دے تو بدن اچھائی کاارتکاب کرتا ہے ،دماغ اگر برائی کاحکم دے تو بدن برائی انجام دیتاہے،دماغ اگر دائیں طرف مڑنے کاحکم دے توبدن دائیں طرف مڑجاتاہے اور اگر دماغ بائیں طرف مڑنے کا کہے توبدن۔۔۔
جیساکہ تحریک ِ پاکستان کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ برّصغیرکے مسلمانوں کی قیادت،علمائ،شعرائ،خطبائ،وکلائ،معلمین،مدرسّین،واعظین اور صحافی حضرات پرمشتمل تھی،انہوں نے نہتّے مسلمانوں کو طاغوت و استعمارکے خلاف کھڑاکردیااور ان کی قیادت میں برّصغرکی ملت اسلامیہ اپنے لئے ایک نیاملک بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن قیامِ پاکستان کے بعدحصولِ اقتدار کی دوڑشروع ہوئی توجاگیرداروں،صنعتکاروں،وڈیروں اور نوابوں نے دانشمندوں کودھتکارکرایک طرف بٹھادیا۔
صحافت کوملازمت بنایاگیا،علماء کو مسجدو مدرسے میں محدودکیاگیا،خطباء اور وکلاء کو فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات میں الجھایاگیا،معلمین ،مدرسین اور شعراء کافکرِ معاش کے ذریعے گلہ گھونٹاگیا۔ جس سے ملکی قیادت میں پڑھے لکھے اوردینی نظریات کے حامل باشعور افراد کاکردار ماندپڑتاگیا اور صاحبانِ علم و دانش کے بجائے رفتہ رفتہ بدمعاشوں،شرابیوں اور لفنگوں کاسکّہ چلنے لگا۔
ملکی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی گئی جن کا علم و دانش اور ملت و دین سے دورکاواسطہ بھی نہیں تھا۔چنانچہ یہ نئی قیادت جیسے جیسے مضبوط ہوتی گئی ملتِ پاکستان ،قیام ِ پاکستان کے اہداف اور اغراض و مقاص سے دور ہوتی چلی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو ایک لادین ریاست بنانے اور اس کے قیام کے اغراض و مقاصد کومٹانے کے لئے،نظریہِ پاکستان کو مشکوک قراردیاجانے لگا،انسانیت کے نام پر تقسیم ِ برّصغیر کو غلط کہاجانے لگااوردین دوستی کو انسانیت دوستی کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کیاجانے لگا۔جس سے نظریہ پاکستان کی جگہ کئی لسانی و علاقائی تعصبات نے جنم لیا اور ملت پاکستان لڑکھڑانے لگی ،یہ لڑکھڑاتی ہوئی ملت ١٩٧١ء میں دودھڑوں میں بٹ گئی اور پاکستان دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔
١٩٧١ء سے لے کر ١٩٧٧ء تک باقی ماندہ پاکستان ،فوج اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں بازیچہء اطفال بنارہا،بالکل ایسے ہی جیسے آج سے پانچ سوسال پہلے اٹلی بازیچہء اطفال بناہواتھا،ایسے میں اٹلی کی طرح پاکستان کی قیادت میں ایک میکاویلی ابھرا۔۔۔
پاکستان کا یہ میکاویلی١٩٢٤ء میں جالندھرمیں پیداہوا،ابتدائی تعلیم اس نے جالندھر اوردہلی میں ہی حاصل کی،١٩٤٥ء میں اس نے فوج میں کمیشن حاصل کیااور دوسری جنگِ عظیم کے دوران برما،ملایا اور انڈونیشیامیں اس نے فوجی خدمات انجام دیں،برّصغیرکی آزادی کے بعد اس نے پاکستان کی طرف ہجرت کی،١٩٦٤ء میں اسے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقّی دی گئی اور یہ سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوا،١٩٦٠ء سے ١٩٦٨ء کے دوران اسے اردن کی شاہی افواج میں خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا،مئی ١٩٦٩ء میں اسے آرمڈڈویژن کا کرنل سٹاف اور پھربریگیڈئیر بنادیاگیا،١٩٧٣ء میں یہ میجرجنرل اوراپریل ١٩٧٥ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پرفائزہوا اور یکم مارچ ١٩٧٦ء کو یہ پاکستان آرمی کا چیف آف آرمی سٹاف بنا۔بالاخر١٩٧٧ء میں یہ پاکستان کے اقتدار کابلاشرکت غیرے مالک بننے میں کامیاب ہوگیا۔
اس کے مکمل فوجی فوجی پسِ منظر کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی ماہرین اس سے دھوکہ کھاگئے اوربڑے بڑے تجزیہ کار اس کی شخصیت کا درست تجزیہ نہ کرسکے۔
علمی و سیاسی دنیا آج بھی اس مرموزوپراسرارشخص کے بارے میں اس مغالطے کی شکارہے کہ یہ صرف ایک فوجی آدمی تھا اور کچھ نہیں۔حالانکہ اگر یہ صرف فوجی ہوتاتویحیٰ خان کی طرح عیاشیاں کرتا اور مرجاتایاپھر ایوب خان کی طرح دھاندلیاں کرتا اور رخصت ہوجاتااور اس کاشر اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتالیکن اس کے فکری بچے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی مزید افزائشِ نسل ہورہی ہے،اس کے قائم کئے ہوئے تھنک ٹینکس اور دینی مدرسے،اس کے پالے ہوئے سیاستدان،اس کے نوازے ہوئے صحافی،اس کے بھٹکائے ہوئے ملّا،اس کے تربیت دیے ہوئے متعصب لسانی و علاقائی لیڈرپاکستان کی شہ رگ کو آج بھی مسلسل کاٹ رہے ہیں۔
١٩٧١ء کے سیاسی بحران کے بعدپاکستان میں جدیدلادین سیاست کابانی اور پاکستانی میکاویلی ضیاء الحق،فوجی وردی پہن کر پاکستانی سیاست کے افق پر چمکا۔
اس نے اپنے گیارہ سالوں میں اٹلی کے میکا ویلی کی طرح ایک نئے سیاسی فلسفے کی بنیادیں فراہم کیں۔اٹلی کے میکا ویلی کا کہنا تھا کہ
"سیاست کا دین اور اخلاق سے کوئی تعلق نہیں" ۔
چونکہ اٹلی کے میکاویلی کا پسِ منظر علمی اور سیاسی تھا لہذا اس کا سیاسی فلسفہ بہت جلد علمی حلقوں میں زیرِ بحث آیا اور اس پر لے دے شروع ہوگئی لیکن پاکستان کا میکاویلی بظاہرصرف اور صرف" فوجی "تھاجس کے باعث علمی و فکری حلقوں میں اس کی شخصیت کو سنجیدگی سے زیرِ بحث لانے کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا اور یہی ملتِ پاکستان کے دانشوروں سے بھول ہوئی۔
حتّیٰ کہ ذولفقار علی بھٹو سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ وہ خود کو تو دنیائِ سیاست کا ناخدااور اسے فقط "فوجی" سمجھتے رہے۔تجزیہ نگار اظہر سہیل کے مطابق جنرل ضیاء الحق ،جنہیں بھٹو نے ٨ جرنیلوں کو نظراندازکرکے چیف آف آرمی سٹاف بنایاتھا،انھیں دن میں دومرتبہ مشورے کے لئے بلاتے تھے اور وہ ہردفعہ پورے ادب کے ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ کر نیم خمیدہ کمر کے ساتھ یقین دلاتے:
سر! مسلّح افواج پوری طرح آپ کا ساتھ دیں گی۔میرے ہوتے ہوئے آپ کو بالکل فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔[2]
اس نے اپنی عملی زندگی میں جس فلسفے کو عملی کیا وہ اٹلی کے میکاویلی سے بھی زیادہ خطرناک تھا،اگر اس کی تمام تقریروں کو سامنے رکھ کراوراس کے دور کی تاریخ کے ساتھ ملاکردیکھاجائے ،نیز اس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ جرنیلوں کی یاداشتوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عہد کی اسلامی شخصیات کے بیانات کو بھی مدِّ نظر رکھا جائے تو اس کی فکروعمل کا خلاصہ کچھ اس طرح سے سامنے آتاہے:
"سیاست کا دین و اخلاق سے کوئی تعلق نہیں لیکن سیاست کو دین و خلاق سے جدا کرنے کے بعد اس کا نام پھر سے دینی و اخلاقی سیاست رکھ دینا چاہیے"۔
موصوف کی دین ِ اسلا م اورشریعت کے نام پر ڈرامہ بازیوں کودیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پشاور میں قاضی حسین احمد کوبھی یہ کہناپڑاکہ شریعت آرڈیننس قانونِ شریعت نہیں بلکہ انسدادِ شریعت ہے۔ [3]
اس نے لادین سیاست کا نام دینی سیاست رکھ کرپاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں کی آنکھوں میں اس طرح دھول جھونکی کہ اس کی نام نہاد دینداری کی چھتری کے سائے میں بڑی بڑی نامی و گرامی دینی و سیاسی شخصیتیں آکر بیٹھ گئیں۔اسے پیرومرشد اور مردِ مومن اور مردِ حق کہاجانے لگا،اس نے اپنی مکروہات و خرافات کو نعوزباللہ "نظامِ مصطفیۖ "کہنا شروع کردیا اورجب اپنا یہ حربہ کامیاب دیکھاتوامریکی اشارے پراپنے خود ساختہ نظام ِ مصطفیٰ ۖ کے جال میں جہادِ افغانستان کا دانہ ڈالا، کسی طرف سے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑاتواس نے شریعت آرڈیننس،زکوٰة آرڈیننس اور پتہ نہیں دین کے نام پر کیسے کیسے آرڈیننس جاری کئے اورلوگوں کو کوڑے مارے۔۔۔اس ساری کاروئی کے دوران جو بھی اس کی مخالفت میں سامنے آیا اس نے اسے اپنی مخصوص سیاست کے ذریعے راستے سے ہٹادیا،یعنی بغل میں چھری اور منہ میںرام رام کا عملی مظاہرہ کیا ،اس نے زوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑوانے کے لئے عدالتی کاروائی کو استعمال کیا،بظاہر اس نے اپنے آپ کو عدالتی فیصلوں کا پابند بنا کر پیش کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھٹو کو قتل کروانے کے لئے ،بھٹو کے شدیدمخالف ججز کولاہور ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں تعینات کیا،اس بات کا اعتراف جیوٹی وی پر افتخاراحمد کو انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی کیا تھا۔
یادرہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کاتعلق ان چار ججوں سے ہے جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت کو باقی رکھاتھا،انٹرویو میں جسٹس صاحب کا کہناتھاکہ بھٹوکے قتل کا فیصلہ حکومتی دبائوکی بناء پر کیاگیاتھا۔پنجاب کے سابق گورنر مصطفیٰ کھر نے بھٹو کے قتل کے بعد٢١مئی ١٩٧٩ء میں ڈیلی ایکسپریس لندن کو ایک بیان دیا تھاجس کے مطابق بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی تشدد کر کے ہلاک کردیاگیاتھا اور پھر اس ہلاکت کو چھپانے کے لئے عدالتی کاروائی سجائی گئی اور بھٹو کی لاش کو سولی پر لٹکایاگیا۔ ان کے مطابق بھٹو پر تشددیہ اقبالی بیان لینے کی خاطر کیاگیاتھاکہ میں نے اپنے ایک سیاسی حریف کو قتل کرایاہے۔
اگرآپ ضیاء الحق کی عملی سیاست اورشخصیت کاتجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ موصوف اپنی " عملی سیاست" میں اتاترک اور شہنشاہِ ایران کے جبکہ فکری سیاست میں میکاویلی کے ہم پلّہ تھے یاان سے بھی کچھ آگے ۔جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ انھوں نے جب جونیجو حکومت برطرف کی تو انہوں نے کہاکہ وہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے استخارہ کرتے ہیں،اس لئے اسمبلی توڑنے کا جو قدم انھوں نے اٹھایاہے اس کے بارے میں بھی تین دن تک استخارہ کیاہے۔
گزشتہ سال ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴کو انہی دنوں میں ضیاالحق کے نظریاتی پیروکاروں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے
9 اساتذہ ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کُل 144 بچوں کو شہید کردیا تھا۔ سانحہ بنگلہ دیش کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کا ایسا دردناک با ہے جو ہمیشہ ہمارے دانشمندوں کے ضمیر کو جھنجوڑتا رہے گا۔
اس سانحے کا جتنا ذمہ دار ایک فوجی جنرل ہے اتنے ہی وہ سول مفکرین اور سیاستدان بھی ہیں جو ضیاالحق کو اپنا پیرومرشد کتے چلے آرہے ہیں اور یا جنہوں نے کبھی ضیائی فکر کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
ہمارے ملک میں دہشت گردی کے دیگر واقعات کی طرح اس سانحے کے ذمہ دار بھی ضیائی کیمپ کے تربیت یافتہ ہیں۔
۱۶ دسمبر کا سانحہ ہماری آرمی کو بھی اس امر کی یاددہانی کرواتا ہے کہ جب تک اس ملک کی کلیدی پوسٹوں اور عسکری اداروں میں ضیاالحق کے مقلدین موجود رہیں گے،ایسے سانحات کو نہیں روکا جاسکتا۔
کسی حساس مزاج شاعر کے بقول
پھولوں کا اور کلیوں کا
چمن میں خوں کیا ہے جنہوں نے
درندہ کیسے کہہ دوں ان کو
کہ اتنے زیادہ ظالم تو
درندے بھی نہیں ہوتے
!
منابع
بادشا،نکولومیکاویلی،مقدمہ،مترجم محمود حسین ·
جنرل ضیاء کے ١١ سال از اظہرسہیل
ضیاکے آخری ١٠سال از پروفیسرغفوراحمد
· جنرل ضیاکے آخری دس سال از پروفیسر غفور احمد
· اورالیکشن نہ ہوسکے از پروفیسر غفور احمد
·بھٹو ضیاء اور میں ازلفٹیننٹ جنرل(ر)فیض علی چشتی
·اسلوب سیاست،خطبات علامہ عارف حسین الحسینی
نذر حافی
وحدت نیوز (آرٹیکل) دانش مند کہلانا کسے پسند نہیں!؟البتہ دانش مندوں کی بھی اقسام ہیں، ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ اگر لکھنے لکھانے اور میڈیا سے کوئی اثر اور فائدہ ہوتا تو سارے انبیائے کرام ؑ آکر پہلے لوگوں کوانٹر نیٹ سکھاتے،فیس بک سمجھاتے اورکمپیوٹر کی تجارت کو رواج دیتے۔
ان کے نزدیک لکھنے لکھانے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں ،نفرتیں پیدا ہوتی ہیں،دوریاں جنم لیتی ہیں اور غیبت وحسد کے دروازے کھل جاتے ہیں۔لہذا وہ ہمیں اکثر مسائل کا حل خاموشی اختیار کرنے ،منّت سماجت سے کام نکالنے اور حسبِ استطاعت کچھ لے دے کرمعاملہ نمٹانے میں بتاتے ہیں۔
ہمارے خیال میں ایسے دانشمندوں کے افکار و نظریات انسانوں کو بے حس کرنے والی دوائیوں کے بہترین متبادل ثابت ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے ہاں کے دانشمندوں کی ایک اور قسم بھی ہے ،یہ ایسے دانشمند ہیں جو اصلاً دو جملے بھی نہیں لکھ سکتے،یا پھر خیر سے ایک جملہ بھی ٹھیک سے نہیں لکھ پاتے،البتہ اپنی باتوں سے یہ عالمِ امکان کو زیروزبر کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔یہ اپنے آپ کو ہرفن مولا ثابت کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔آپ دنیا کا کوئی مسئلہ ان کے سامنے پیش کریں یہ اس میں اپناسنہری تجربہ آپ کے سامنے رکھ دیں گے۔
اپنے اندر کے احساسِ کمتری کو چھپانے کے لئے ان کے پاس چند رٹے رٹائے جملے بھی ہوتے ہیں،مثلاً ہم تو تنظیمی ہیں،ہم تو انقلابی ہیں،ہم تو اتنا تجربہ رکھتے ہیں،ہم تو۔۔۔وغیرہ وغیرہ
سونے پر سہاگہ یہ کہ ایسے دانشمند فیڈبیک کے بنیادی اصولوں سے بھی آگاہ نہیں ہوتے اورانہیں کہیں پر کمنٹس دینے کا بھی پتہ نہیں ہوتا ،یہ اگر کہیں اپنے کمنٹس کے ذریعے تیر مارنا بھی چاہیں تو سیدھا وہاں مارتے ہیں جہاں نہیں مارنا ہوتا۔
مثلاً اگر کوئی آدمی فوری طور پر کہیں سے رپورٹنگ کرے یا کوئی خبر نقل کرےکہ فلاں جگہ فلاں حادثے میں اتنے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں تو ایسے دانشمند فوراً کمنٹس میں لکھیں گے کہ” ہلاک نہیں شہید ہوئے “اس کے بعد یہ بحث کو کھینچ کر ہلاک اور شہید میں الجھا دیں گے اور اصل مسئلہ ان کی قیل و قال میں ہی دفن ہوجائے گا۔ایسے دانشمند ہماری ملّی توانائیوں کو خواہ مخواہ ضائع کروانے میں یہ یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔
علاوہ ازیں ہمارے ہاں اس طرح کے دانشمند بھی بکثرت پائے جاتے ہیں جو سارے مسائل کو لغت اور اصطلاح کی روشنی میں کُلی طور پرحل کرنا چاہتے ہیں۔مثلاًاگر کہیں پر شراب کی خرید و فروخت کا دھندہ ہورہاہو اور آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں یا کوئی میدانی تحقیق کریں تو فوراً یہ دانشمند ناراض ہوجاتے ہیں۔ان کے نزدیک شراب فروشی اور شراب خوری کا علاج یہ ہے کہ آپ زمینی تحقیق کرنے کے بجائے شراب پر ایک علمی مقالہ اس طرح سے لکھیں :۔
شراب در لغت۔۔۔۔ شراب در اصطلاح۔۔۔۔شراب کا تاریخچہ۔۔۔۔ شراب کے طبّی فوائد و نقصانات ۔۔۔دینِ اسلام میں شراب کی حرمت۔۔۔۔شرابی کے لئے دنیا و آخرت کی سزائیں۔۔۔اور آخر میں حوالہ جات
آپ انہیں لاکھ سمجھائیں کہ قبلہ میڈیا میں میڈیم کے بغیر لکھا ہوا ایسے ہی ہے جیسے آپ نےکچھ لکھا ہی نہیں لیکن وہ اپنی ہی بات پر ڈٹے رہیں گے۔
معاشرے کے زمینی حقائق سے اربابِ علم و دانش کو دور رکھنا ایسے دانشمندوں کا اصلی فن ہے۔
اس کے علاوہ بھی ہمارے ہاں دانشمندوں کی ایک بہت ہی نایاب قسم بھی پائی جاتی ہے۔یہ تعداد میں جتنے کم ہیں معاملات کو بگاڑنے میں اتنے ہی ماہر ہیں۔یہ ایک چھوٹے سے مسئلے کو پہلے بڑھا چڑھا کر بہت بڑا بناتے ہیں اور پھر آخر میں اس کا حل ایک چھوٹی سی مذمت کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔
مثلاً اگر اسلام آباد میں کہیں پر خود کش دھماکہ ہوجائے اور آپ علاقے کو فوکس کرکے وہاں کے سیاستدانوں،بیوروکریسی,مقامی مشکوک افراد اور دیگر متعلقہ لوگوں اور اداروں کے بارے میں زبان کھولیں اور عوام کو شعور دینے کی بات کریں تو ہمارے ہاں کے یہ نایاب دانشمند فوراً ناراض ہوکر میدان میں کود پڑتے ہیں۔
اس وقت ان کا بیان کچھ اس طرح سے ہوتا ہے:
خود کش دھماکے کہاں نہیں ہورہے،پاکستان ،عراق،شام ،افغانستان وغیرہ وغیرہ ۔یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور ان دھماکوں میں مارے جانے والے لوگوں کی اپنی غفلت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔لوگ خود بھی اپنے ارد گرد کھڑی گاڑیوں ،موٹر سائیکلوں اور مشکوک افراد پر نگاہ نہیں رکھتے،ہم عوام کی غفلت کی مذمّت کرتے ہیں۔
یہ پہلے چھوٹی سی بات کو گھمبیربناتے ہیں،ایک سادہ سے مسئلے کو پیچیدہ کرتے ہیں،کسی بھی مقامی ایشو کے ڈانڈے بین الاقوامی مسائل سے جوڑتے ہیں اور آخر میں ایک سطر کا مذمتی بیان دے کر یا لکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔
ایسے دانشمندوں کا ہنر یہ ہے کہ یہ خود بھی کسی مسئلے کو اٹھانے کے فنّی تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی بولنے کا موقع نہیں دیتے۔
میں ان کی ایک مثال اور دینا چاہوں گا کہ مثلاً آپ انہیں کہیں کہ پاکستان کے فلاں علاقے میں ایک مافیا رشوت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔یعنی فلاں جگہ پر مافیا انسانوں کا خون پی رہاہے۔
اس کے بعد ہمارے ہاں کے ” نایاب دانشمند “کچھ اس طرح سے قلمطراز ہونگے کہ دنیا میں جب تک پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا اس وقت تک لوگ ایک دوسرے کا خون پینے پر مجبور ہیں۔یہی صورتحال پاکستان سمیت متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہے ۔ دنیا میں جہاں جہاں پینے کا صاف پانی میسّر نہیں ہم وہاں کے محکمہ واٹر سپلائی کی مذمت کرتے ہیں۔
قارئینِ کرام ! اپنے ہاں پائے جانے والے دانشمندوں کے بیانات،تقاریر،کمنٹس ،نگارشات اور تحقیقات کا جائزہ لیں اور فیصلہ آپ خود کریں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہماری سوئیاں بھی اپنی اپنی جگہ اٹکی رہیں اور ہمارے ملّی و قومی مسائل بھی حل ہوجائیں۔
تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی