وحدت نیوز(آرٹیکل) کشمیر کی تاریخ کا آغاز آزادی سے ہوتا ہے۔آپ شاید یہ جان کر حیران ہونگے کہ کشمیر کی موجودہ غلامی مسلمانوں کی باہی فرقہ واریت کا نتیجہ ہے۔یہ ۱۵۸۳ کی بات ہے کہ جب کچھ نادانوں نے پہلی مرتبہ کشمیر کو اکبر بادشاہ کی گود میں اس لئے ڈالا تھا کہ انہیں کشمیر پر شیعہ حکمرانوں کی حکومت قبول نہیں تھی،انہوں نے اپنے فرقہ وارانہ تعصب کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یوسف شاہ چک کے خلاف سازش تو کی لیکن اس کے بعد کشمیر آج تک غلامی کی زنجیروں میں جھکڑاہوا چلاآرہاہے۔
پھر۱۷۵۳ میں احمد شاہ ابدالی نے کشمیر کو مغلوں سے چھین لیا اوریوں کشمیری ،مغلوں کے بعد افغانیوں کے غلام بن گئے پھر ۱۸۱۸ میں لاہور کے مہاراجے رنجیت سنگھ نے یہ علاقہ افغانیوں سے چھینااور پھر کشمیری رنجیت سنگھ کے غلام بن گئے۔
۱۸۱۸ء سے ۱۸۴۶ء تک یہاں سکھوں کی حکومت رہی۔9 مارچ 1846ء کو عہد نامہ لاہورکی دفعہ چہارکے تحت جنگی خراجات کی مد میں سکھوں نے کشمیر انگریزوں کے حوالے کیا اور ایک ہفتے کے بعد ہی انگریزوں نے کشمیر کی ریاست گلاب سنگھ کو نیلام کردی۔
کشمیر کی غلامی کی ابتدا فرقہ واریت کے باعث ۱۵۸۳ سے ہوئی اور غلامی کی موجودہ داستان ۱۹۴۷ سے رقم ہوتی ہے۔اس پوری غلامی کی تاریخ میں کشمیری مسلسل آزادی کی جدوجہد کرتے رہے جس پر روشنی ڈالنا اس وقت ممکن نہیں۔
راقم الحروف کی ناقص معلومات کے ۱۸۴۶ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ریاستِ کشمیر معائدہ امرتسر کی رو سے گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کی۔تاریخی اعتبار سے اس وقت شمالی عالاقہ جات کا علاقہ کشمیر کا حصہ نہ تھا بلکہ متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں مثلانگر‘ ہنزہ‘ کھرمنگ‘ خپلو‘ شگر‘ دیامر‘ خذر‘ سکردو‘ استوار اور گانچھے راجواڑے وغیرہ میں منقسم تھا۔۱۸۴۶ میں گلاب سنگھ نے ان چھوٹی موٹی ریاستوں کو طاقت کے زور پر کشمیر میں شامل کیا۔ اس طرح ۱۸۴۶ء کے بعد ۱۹۴۷ء تک کشمیر پر گلاب سنگھ کی نسل اور باقیات ہی حکمران رہی۔
۱۹۴۷ میں ہندوستان میں ہندوستانیوں کی طرف سے برطانیہ کے خلاف ایک بہت بڑی فوجی بغاوت متوقع تھی۔یعنی برطانہ کے خلاف ہندوستان میں سوسال کے اندر دوسری بڑی فوجی بغاوت ہونے والی تھی ،اس سے پہلے بھی برطانوی حکومت ۱۸۵۷ کی فوجی بغاوت کا مزہ چکھ چکی تھی لہذا حکومت کوشش کررہی تھی کہ اسے مزید کسی فوجی بغاوت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس متوقع فوجی بغاوت کو ٹالنے کے لئے ۲۲ مارچ ۱۹۴۷ کو لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے بنا کر بھیجا گیا۔
18 مئی 1947ء کو لارڈبیٹن اپنی رپورٹ مرتب کرکے واپس لندن روانہ ہوگئے۔لندن میں لارڈ ماونٹ بیٹن کی رپورٹ پر سیر حاصل بحث ہوئی جس کے بعد انہیں ۳۰مئی ۱۹۴۷ء کو پھر ہندوستان بھیج دیاگیا۔
2 جون 1947ء کو وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن اور ہندوستان کی سیاسی شخصیات کے درمیان ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں لارڈ نے مقامی سیاسی رہنماوں کو اپنی رپورٹ اور تجاویز سے آگاہ کیا۔۳جون کولارڈ ماونٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنی تقریر میں آزادی اور تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا جسے ’’جون تھری پلان‘‘ کا نام دیا گیا۔
اس تقریر میں انہوں نے تسلیم کیا کہ مسئلہ ہندوستان کا حل تقسیم ہندوستان ہی ہے۔۳جون کی شام کو ہی برطانیہ کے وزیراعظم ایٹلی نے بی بی سی لندن سے اعلان کیا کہ ہندوستانی رہنما متحدہ ہند پلان کے کسی حل پر متفق نہ ہو پائے لہٰذا تقسیم ہند ہی واحد حل ہے۔ یوں 3 جون 1947ء کو پہلی مرتبہ سرکاری طور پر مہا بھارت اور اکھنڈ بھارت کے فلسفے پر خط بطلان کھینچ دیاگیا۔
’’جون تھری پلان‘‘ کی رو سے ہندوستان میں واقع برطانیہ کے زیر انتظام تمام ریاستیں ہندو یا مسلمان ہونے کے ناطے ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کا اختیار رکھتی تھیں۔موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جواہر لال نہرو نے کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔مسٹر نہرو کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسراے بنوانے میں ان کا کلیدی رول تھا اور بعد ازاں ان کی ماونٹ بیٹن سے دوستی رنگ لائی اور کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوسکا۔[1]
تقسیم ہند کے وقت حکومت برطانیہ کی طرف سے سرحد کمیشن کا چیئرمین ریڈ کلف کو منتخب کیا گیا۔لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنے زمانہ طالب علمی کے کالج کے ساتھی ریڈ کلف کو مسٹر نہرو کی منصوبہ بندی کے مطابق مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔
یاد رہے کہ ریڈکلف اس سے پہلے کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا اور ہندوستان کے بارے میں اس کی معلومات فقط سننے سنانے کی حد تک تھیں۔ چنانچہ وہ لارڈ ماونٹ بیٹن کی ہدایات پر ہی عمل کرنے پر مجبور تھا۔
اگرچہ لارڈمائونٹ بیٹن کے وائسرائے مقرر کروانے سے مسٹر نہرو تقسیم ہند کو تو نہیں رکوا سکے البتہ انہوں نے ریڈ کلف ایوارڈکے ذریعے مسلم اکثریتی ضلع گرداسپور کی تین تحصیلیں بھارت میں شامل کرانے میں ضرور کامیابی حاصل کی جس کے باعث کشمیر میں بھارتی فوجوں کی مداخلت ممکن ہو گئی ۔
بلاشبہ اگر تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت مسلم اکثریت کا ضلع گرداسپور پاکستان کے حوالے کر دیا جاتا تو بھارت ، پاکستان کےخلاف کشمیر میں کبھی بھی جنگ نہیں لڑ سکتا تھا۔تاریخی شواہد سے پتہ چلتاہے کہ مسٹر نہرو ،لارڈ ماونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ہندوستان کو سنکیانگ تک پھیلانا چاہتے تھے۔ان کی اس کوشش کو شمالی علاقہ جات کی غیور عوام نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔
اسی طرح ریڈکلف کی طرف سے ضلع مالدہ,مرشدآباد,کریم گنج اور حیدر آباد کی طرح متعدد مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان کو ہدئیے میں دے دئیے گئے۔
24 اکتوبر ۱۹۴۷کو مہاراجہ نے بھارت سے فوج منگوائی اور ۲۷ اکتوبر کو انڈین آرمی کی ایک سکھ بٹالین طیاروں کے ذریعے بھارت سے سرینگر پہنچی ۔اس صورتحال میں کشمیریوں نے مایوسی کے بجائے تحریک آزادی کا اعلان کردیا۔اس تحریک کے نتیجے میں کشمیر کا ایک حصہ مہاراجےکے تسلط سے آزاد ہوگیا جسے ہم آزاد کشمیرکے نام سے جانتے ہیں اور باقی حصے میں تحریک آزادی ہنوز چل رہی ہے۔
دسمبر 1947ء کے آخرمیں ہندوستان نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا اور یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کا حق تسلیم کرتے ہوئے وہاں پر رائے شماری کی قرارداد منظور کی۔
بھارت نے 3جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ واویلا مچایا کہ کشمیر میں جاری بغاوتیں پاکستان کی ایما پر کی جارہی ہیں،چنانچہ سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950ء کو کشمیر میں غیر جانبدار مبصر کی زیر نگرانی استصواب رائے (ریفرنڈم) کرانے کا فیصلہ کیا اور بھارت و پاکستان کو ہدایت کی کہ دونوں پانچ ماہ کے اندر رائے شماری کی تیاری کریں۔
پھر اس کے بعد وہ پانچ ماہ ابھی تک نہیں آئے۔یہ ہے کشمیر کی غلامی کی ابتدا سے لے کر موجود تحریک ِ آزادی کا مختصر پسِ منظر ،اس پسِ منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت راہِ حل کے طور پر چند نکات پیشِ خدمت ہیں ۔:
۱۔کشمیر در اصل مسلمانوں کی باہمی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا ہے ،اگر ابتدا میں اہلیان کشمیر میں سے کچھ لوگ یوسف شاہ چک کو شیعہ کہہ کر اکبر بادشاہ کو حملے کی دعوت نہ دیتے تو نوبت یہانتک نہ پہنچتی۔آج بھی اگر کشمیری ،غلامی سے نجات چاہتے ہیں تو انہیں فرقہ واریت سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہوگا۔فرقہ وارانہ سوچ کشمیریوں کو کمزور تو کرسکتی ہے لیکن مضبوط نہیں۔
۲۔کشمیریوں کی تحریک آزادی ہندوستان کے خلاف نہیں بلکہ خود کشمیریوں کی آزادی کے لئے ہے۔آزادی ہر انسان کافطری اور جمہوری حق ہے ،دنیا کی تمام مقتدر اقوام اور ادارے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں،لہذا کشمیریوں کو اپنی تحریک آزادی کی نظریاتی بنیادوں کو کھل کر بطریقِ احسن بیان کرنا چاہیے۔
۳۔اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی کاغذی قراردادیں اب کشمیریوں کے کام آنے والی نہیں ۔اب اہلیانِ کشمیرکو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ فیصلے حکومتیں نہیں بلکہ ملتیں کرتی ہیں،یہ جمہوری دور ہے ،عوامی طاقت ہی اصل طاقت ہے،مسئلہ کشمیر کو میڈیا کے ذریعے دیگر ملتوں تک مسلسل پہنچایا جانا چاہیے اور ان سے مدد کی درخواست کی جانی چاہیے۔ضروری ہے کہ دنیا کے اطراف و کنار میں انسانی حقوق کی بنیاد پر اس مسئلے کو پوری طاقت کے ساتھ اٹھایاجائے۔یعنی عالمی سطح پر بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔
۴۔مسئلہ کشمیر ایک قانونی اور سیاسی مسئلہ ہے جو ریڈکلف سمیت چند خواص کی خیانت کی وجہ سے پیش آیا لہذا اسے قانونی اور سیاسی طور پر ہی حل ہونا چاہیے۔دہشت گردی اور خون خرابے کو ہر انسان ناپسند کرتاہے۔لہذا تحریکِ آزادی کشمیر کو کسی طور بھی دہشت گرد ٹولوں کے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیے۔یہ جنگ سیاسی اور قانونی بنیادوں پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر لڑی جانی چاہیے۔
۵۔دنیا میں ہر جگہ شدت پسند وہابی اور دہشت گرد ٹولے پائے جاتے ہیں۔مثلا عراق ،پاکستان اور افغانستان کو ہی لے لیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی پورے ملک کو ہی وہابی قرار دے دیاجائے اور امت مسلمہ کو وہابی دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے۔اسی طرح کشمیر میں بھی یہ لوگ پائے جاتے ہیں۔لہذا ہمیں بھی سارے اہلیانِ کشمیر کو وہابی یا داعشی نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی ملت کشمیر کو ان عناصر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنا چاہیے۔
۶۔جو قوم فکری طور پر شکست قبول کرلیتی ہے اسی عملی میدان میں شکست دینا آسان ہوجاتاہے۔کشمیر کے خواص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملت کشمیر کو عالمی اسلامی تحریکوں اور شخصیات سے مربوط رکھیں۔خصوصا انقلاب اسلامی ایران کی جدوجہد ،حزب اللہ کی تاریخ اور فعالیت ،نظام ولایت فقیہ ، اور تحریک آزادی قدس کے مختلف ابواب سے لوگوں آگاہ کریں تاکہ ان کی ہمت اور حوصلہ بلند رہے۔
۷۔کشمیری تاریخ کے کسی بھی دور میں غلامی پر رضامند نہیں ہوئے سو آزادی کی جنگ وہ مسلسل نسل در نسل لڑتے چلے آرہے ہیں۔آزادی کی اس شمع کو جلائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کوکشمیریوں کے نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے۔تاکہ کشمیر کی نسلِ نو اس مسئلے کی نظریاتی بنیادوں کو فراموش نہ کرے۔اگر نصابِ تعلیم میں شامل نہ ہوسکے تو دیگر ذرائع مثلا فنون لطیفہ ،شعرو شاعری اور ناول و افسانے کے ذریعے ہی اس مسئلے کو آگے منتقل کیاجائے۔
ہمیشہ کی طرح آخر میں اپنے قارئین کے لئے تاریخ کا عرق نچوڑ کر ایک بات عرض کرتا چلوں کہ “جو ملت غلامی پر رضامند نہ ہو اسے غلام نہیں رکھا جاسکتا”۔
استفادہ:۔
۱۔تحریک آزادی کشمیر از پروفیسر خورشید احمد
۲۔کشمیر اینڈ پارٹیشن آف انڈیاڈاکٹر شبیر چوہدری انگلش ایڈیشن
۳۔ششماہی سنگر مال تحقیقی مجلہ پنجاب یونیورسٹی لاہور
۴۔مطالعہ کشمیر از پروفیسر نذیر احمد
۵۔تاریخ کشمیر یعنی گلدستہ کشمیر از پنڈت ہرگوپال خستہ[آن لائن] https://archive.org/stream/tarikhikashmir00khas#page/n0/mode/2up
۶۔A brief history of the Kashmir conflict
http://www.telegraph.co.uk/news/1399992/A-brief-history-of-the-Kashmir-conflict.html
۷۔Kashmir: Roots of Conflict, Paths to Peace
by Sumantra Bose
۸۔The Challenge in Kashmir: Democracy, Self-Determination and a Just Peace
by Sumantra Bose
۹۔مشن ودماؤنٹ بیٹن از کیمل جانسن
تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) آج پھر صبح ہونے کی دیر تھی،وزیرستان کی کسی کی تاریک غار میں بوڑھی چمگادڑ وں نے مل کر رات کی جدائی کا نوحہ پڑھا،کچھ نے صرف اشک بہائے اور کچھ نے سینہ کوبی بھی کی،منظر اتنا دلخراش تھا کہ نجد کے پاتال میں سوئے ہوئے سانپ بھی غم و غصے سے پھنکارنے لگے ۔
دن ڈھل گیا ،رات ہوگئی ۔۔۔
اگلے روز پھر سورج اپنے وقت پر مشرق سے طلوع ہوا،اگلے دن بھی چمگادڑوں کا شوروغل جاری رہا۔۔۔
نصف النہار کے سمے کچھ چمگادڑوں نے بھیس بدل کر سورج سے جنگ کرنے کی ٹھانی!
انسانی قالب میں بھی کتنی لچک ہے!!!ہر جانور اس میں ڈھل سکتاہے۔۔۔
چند چمگادڑوں پر بھی انسانی قالب فِٹ آگیا،انہوں نے زبان کی کی نوک سے سورج کا خون چوسنے کا عہد کیا،شام کے قریب سورج کا رنگ زرد پڑا تو چمگادڑیں بہت خوش ہوئیں لیکن اگلے روز پھر سورج اپنے وقت پر نکلا۔۔۔
چمگادڑیں آنکھیں بند کرکے دوڑے جارہی ہیں اوراُن کی عقل کولہو کے بیل کی مانند مسلسل ایک دائرے میں متحرک ہے۔وہ بظاہر صراطِ مستقیم پر دوڑ رہی ہیں لیکن در حقیقت نسل در نسل ایک دائرے میں گھوم رہی ہیں۔
ان کی زبانوں پر سورج، سورج، سورج کے نعرے ہیں۔۔۔سننے والوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ سورج،سورج کی پکار کس لئے ہے!؟
لوگوں کو سورج کی طرف بلانے کے لئے یا سورج سےڈرانے کے لئے۔۔۔
اب سیانے لوگوں کی بیٹھکوں میں گپ شپ بھی ایک دائرے میں ہوتی ہے ،بڑے لوگ سورج کے گرد آلتی پالتی مارکر بیٹھتے ہیں اور پھر نظریات کا افیون باری باری سب کوپلایا جاتاہے۔اسی طرح چوپالوں میں بھی بڑی رونق لگی رہتی ہے،جوگی اپنے منتر اورسنیاسی اپنے ٹوٹکے لے کر سارا دن بیٹھے رہتے ہیں۔
آج صبح بھی جب سورج چمکا تو کسی نے کہا کہ چلو اچھا ہوا،اب میں رزق کمانے جاوں گا ،جوگی نے اسے سمجھایا کہ بھوک تو پیٹ میں محسوس ہوتی ہے لہذا اس کا ذکر نہ کرو اور اسے پیٹ میں ہی رہنے دو۔
کسی نے کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے توسنیاسی نے اسے جواب دیا کہ پیاس تو سینے کی جلن کا نام ہے اسے سینے میں ہی رہنے دو۔
کسی نے کہا کہ میری تو اس آمدن میں بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں تو اسے جواب ملا کہ بھلا ضروریات بھی کبھی کسی کی پوری ہوئی ہیں لہذا فضول میں شور نہ مچاو۔
کسی نے کہا کہ میرا حق چھین لیاگیاہے تو اسے جواب ملا کہ حق تو انبیائے کرام کو بھی نہیں ملا تمہیں کیا ملے گا لہذا صبر سے کام لو۔
کسی نے کہا کہ میری جان کو دشمنوں سے خطرہ ہے تو جواب ملا کہ دروازہ اچھی طرح بند کرکے چہار قل اپنے اوپر دم کرلو اور اس طرح اپنی جان کی حفاظت خود کرو۔
کسی نے کہا کہ آگ میرے دروازے تک پہنچ چکی ہے تو جواب ملا کہ آگ سے نہ ڈرو جب ایک دروازہ جل جائے تو بازار سے جاکر نیا دروازہ لے آو۔۔۔
کسی نے کہا کہ ڈاکو میرے گھر کو تاک رہے ہیں تو جواب ملاکہ منت ترلے کرواور کچھ دے دلا کر وقت گزارو۔
کسی نے کہا کہ میرے کلاس فیلو امتحان میں نقل کرتے ہیں تو اُسے جواب ملا کہ نقل کے لئے بھی عقل چاہیے۔
کسی نے پوچھا کہ غربت کا کیا علاج ہے اسے جواب ملا کہ غریبوں کو ماردیاجائے۔
کسی نے کہا انسانی مساوات کا نسخہ کیاہے اسے جواب ملا کہ سب کے لئے ایک ہی قانون بنادو کہ جو بھی سر اٹھاکرچلے اس کا سر کاٹ دو۔
کسی نے پوچھا کہ بیوروکریسی کی فرعونیت کا کیا درمان ہے؟اسے جواب ملا کہ فقط خوشامد و چاپلوسی
نظریاتی افیون کےجام پلاکر لوگوں کو دائرے میں دوڑانے کا کھیل مدتوں سے جاری ہے۔
اندھی چمگادڑیں دنیا بھر میں سورج کے سامنے پر پھیلا کر کھڑی ہیں،ہر طرف تاریکی پھیل رہی ہے۔۔۔
ایسے میں اس تاریکی سے بچ جانے والے مٹھی بھر انسانوں کو، انسانیت کی بقا کے لئے ہاتھ پاوں مارنے پڑیں گے،کوئی تدبیر سوچنی پڑے گی،زبان کھولنی پڑے گی اوراحتجاج کرنا پڑے گا چونکہ انسانوں کوخون چوسنے والی چمگادڑوں کے رحم و کرم پر چھوڑدینا بھی انسانیت نہیں ہے۔
نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) اخلاق سے افکار واقدار کو تبدیل کرنے کا نام اسلام ہے۔اسلامی اخلاق کا منبع انسان کا ضمیر ہے۔اگر انسان کا ضمیر زندہ ہوتو وہ کبھی بھی اخلاقیات کو پامال نہیں کرتا۔کوئی بھی شخص جتنا بے ضمیر ہوتاہے اتناہی بداخلاق اور منہ پھٹ بھی ۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ بد اخلاقی پر اتراتے تھے،ظلم کرنے پر فخر کرتے تھے،لڑائی جھگڑے کو بہادری سمجھتے تھے اور اخلاقی معائب کو انسانی کمالات کا نام دیتے تھے۔
انبیائے کرام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے زبردستی لوگوں کی عادات نہیں بدلیں بلکہ اپنی سیرت و اخلاق کو لوگوں کے سامنے پیش کرکے ان کے مردہ ضمیروں کو زندہ کیا۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ الٰہی نمائندے پتھرکھاتے ہوئے تو نظر آتے ہیں لیکن مارتے ہوئے نہیں،اسی طرح گالیاں سہتے ہوئے تو دکھائی ہیں لیکن دیتے ہوئے نہیں۔
الٰہی نمائندوں نے اپنے روشن کردار کےذریعے اہلِ دنیا کی تاریک سوچ کوروشن افکار میں تبدیل کیا ہے۔
مقامِ فکر ہے کہ اگر الٰہی نمائندے بھی ظالموں سے مقابلے کے لئے ظلم کا راستہ ہی اختیار کرتے ،وحشت و بربریت کے خاتمے کے لئے وحشت و بربریت کو ہی استعمال کرتے تو آج دنیا کا حال کیا ہوتا!!!؟
الٰہی نمائندوں کی زحمات اور نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ مقدس ہدف تک پہنچنے کے لئے وسیلہ بھی مقدس ہونا چاہیے۔
پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنا ایک مقدس ہدف ہے ،لیکن اس ہدف کو کسی غیر مقدس وسیلے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا اتنا ہی قبیح ہے جتنا کہ خود دہشت گردی۔
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے چبائے ہوئے جگر سے لے کرسبطِ رسولؐ کے تابوت پر لگے ہوئے تیروں نیز میدان کربلا میں مرجھائے ہوئے لبوں کی تاریخ شاہد ہے کہ مظلوموں نے کبھی بھی ظالموں کے نقشِ قدم پر قدم نہیں رکھا۔
اہلِ حق نے کبھی بھی اخلاقی اقدار کو پامال نہیں کیا اور انسانی کرامت کی دھجیاں نہیں اڑائیں۔
پوری تاریخ بشریت میں الٰہی نمائندوں کی یہی اخلاقی فتح ہی ظالموں کی شکست کا سبب بنتی رہی ہے۔یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ دنیائے ظلم ہمیشہ اعدادو شمار اور لاولشکر کے اعتبار سے برتر ہونے کے باوجود اہل حق کی اخلاقی جرات کے ہاتھوں مغلوب ہوتی رہی۔
اس وقت پاکستان کی کربلا میں بھی ظالموں کے خلاف ایک احتجاج جاری ہے۔ اگر ہم نے اس احتجاج کو موثر بنانا ہے تو پھراپنی مظلومیت بھری تاریخ سے سبق لینا ہوگا۔ہر سال دس محرم الحرام کو نواسہ رسول ؐ سے اظہار یکجہتی کے لئے اورجمعۃ الوداع کو یوم القدس کے سلسلے میں پوری دنیامیں ظلم کے خلاف احتجاج کیا جاتاہے۔یہ احتجاج بظاہر خالی ہاتھ کیا جاتاہے۔۔۔
کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ دس محرم الحرام اور یوم القدس کو ہونے والے اس احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں!؟
حق بات تو یہ ہے کہ اس احتجاج کے فوائد و ثمرات کومکمل طور پر ابھی تک عقل بشر درک نہیں کرسکی۔
دس محرم الحرام اور یوم القدس کا عالمی احتجاج ہمیں یہ پیغام دے رہاہے کہ اگر احتجاج کو اس کی زمانی و مکانی شرائط اور زینبی[ع]حوصلے کے ہمراہ انجام دیا جائے تو خالی ہاتھوں اور لبیک یا حسین[ع] کے نعروں سے بھی قصر شاہی کی بنیادوں کو ہلایاجاسکتاہے۔
اگر سیدِ سجادؑ کے اخلاق کے مطابق بے ضمیروں کو جگایاجائے تو بہتے ہوئے اشکوں سے بھی ظلم کی آگ بجھائی جاسکتی ہے۔
اگر ہم تخریب،تنقید اور اخلاقی پستی سے جان چھڑواکر اپنی زندہ ضمیری،خوش اخلاقی،سیاسی تقویٰ اور بصیرت کا ثبوت دیں تو آج بھی پاکستان میں یہ خالی ہاتھ احتجاج اور لانگ مارچ کوفہ و شام کے بازاروں کا منظر پیش کرسکتاہے ۔
اگر ہمارے اپنے ضمیر جاگ جائیں،ہمارے اپنے تنظیمی و اجتماعی اخلاق کی اصلاح ہوجائے تو پھر۔۔۔
بلا شبہ۔۔۔
یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں
فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں
جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیم
اہلِ حق ہوں تو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں
نذرحافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل)لیں جی امجد صابری بھی مر گئے ،مرنا تو سب کو ہے۔موت تو سب کو آتی ہے ۔لیکن وہ کیسے مرے!
بھائی صاحب وہ مرے نہیں بلکہ مار دئیے گئے!
کس نے مار دئیے !؟
کچھ لوگ موت کا کاروبار بھی تو کرتے ہیں۔یہ بھی ایک پیشہ ہے۔۔۔اوریہ پیشہ بڑی طاقتوں کی ایما پر حاصل کیا جاتاہے۔
ہوں!یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ بڑی طاقتیں اپنے بڑے بڑے مفادات کے لئے چھوٹے موٹے لوگوں کو ملازمتیں دیتی ہیں۔
اگر یہ جانتے ہیں تو پھر یہ بھی تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ۔۔۔ ملازموں کی بھی مختلف اقسام ہوتی ہیں،بعض ہرکام کرنے پر اتر آتے ہیں اور بعض اپنی شخصیت کا لحاظ کرتے ہیں۔اسی طرح کچھ نوکرپکے وفادار اور کچھ ہڈ حرام ہوتے ہیں۔
جی جی کیوں نہیں!!!دنیا میں ہر جگہ ہڈ حرام لوگوں کے ساتھ محدود پیمانے پر کام کیا جاتاہے جبکہ وفاداروں کو ہمراز بنایاجاتاہے اور ان سے اہم کام لئے جاتے ہیں۔
بس پھر یہ بھی سمجھ لیجئے کہ انسان کُشی ہڈ حرام لوگوں کا کام نہیں بلکہ استعمار کے وفاداروں کا مخصوص پیشہ ہے۔استعمار کے وفادار ملازم انسانوں کو مارتے ہیں اور استعمار اُن کے مارے ہوئے انسانوں کی لاشوں کو بھنبوڑتا ہے۔
جی قارئین محترم!انسانوں کو دو طرح سے مارا جاتاہے،جسمانی طور پر بھی اور ذہنی طور پر بھی۔جس طرح جسمانی طور پر ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے اسی طرح ذہنی طور پرمارنے کے لئے بھی افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہی کی جاتی ہے۔یاد رہے کہ جسمانی طور پر کسی کی ٹارگٹ کلنگ ،ذہنی ٹارگٹ کلنگ کی نسبت بہت آسان ہے۔
ذہنی طور پر ہر کوئی نہیں مرتا اور نہ ہی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتاہے۔اس کے لئے سب سے پہلے استعمار کے آلہ کار مختلف اقوام و ممالک کے درمیان کم ظرف اور احساس کمتری کے ڈوبے ہوئے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں۔کسی بھی کم ظرف انسان کی شناخت یہ ہے کہ وہ پس پردہ رہنے کی صورت میں سازش اور غیبت کرتاہے جبکہ مدِّ مقابل کے سامنے آنے کی صورت میں اس کی خوشامد،چاپلوسی یا توہین کرتاہے۔قابلِ ذکر ہے کہ چاپلوسی کی طرح توہین بھی کم ظرفی کے ترکش کا تیر ہے۔
جب ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی نے استعمار کے اوسان خطا کئے تو استعمار نے ایسے ہی افراد کو ہمارے ملک میں بھی ڈھونڈا۔وہ لوگ جو درپردہ اسلامی انقلاب کے خلاف استعماری طاقتوں کو گرین سگنل دیتے تھے اور آمنے سامنے اسلامی انقلاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھے یا پھر اس انقلاب کی توہین کرتے تھے،استعمار نے ان لوگوں کو ڈھونڈا اور یوں در پردہ سازشیوں نیز توہین اور خوشامد کرنے والوں کے لئے دہشت گردی کے تربیتی کیمپ لگائے،انہیں درہم و دینار اور اسلحے سے مالا مال کیا اور پھر انہیں مجاہدینِ اسلام کہہ کر ان کے ذریعے سادہ لوح افراد کی ذہنی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔
لوگ جوق در جوق ان کیمپوں میں انسان کشی کی تربیت حاصل کرتے رہے اور پھر اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹنے پر اتر آئے۔
پھر اس مُلک میں کوئی شاعر،ادیب،صحافی،استاد،موسیقار،قوّال،امام بارگاہ،مسجد،مندر،کلیسا،سکول،یونیورسٹی،پولیس ،فوج ۔۔۔کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہلیانِ پاکستان کی اتنے بڑے پیمانے پر ذہنی ٹارگٹ کلنگ کس نے کی؟
کس نے لوگوں کو دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے پر زہنی طور پر آمادہ کیا؟
کیا وہابی علما،دیوبندی مدارس اور اہلحدیث کہلوانے لوگ اس کے ذمہ دار ہیں؟!
کیا سپاہِ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے لوگ اتنی بڑی ذہنی تبدیلی کے موجد ہیں؟!
آپ پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کی تاریخ کا عمیق مطالعہ اور تجزیہ و تحلیل کرکے دیکھ لیں ،آپ کو صاف نظر آئے گا کہ دہشت گردی کے راستے میں استعمال ہونے والے لوگ خواہ کسی بھی مسلک یا ٹولے سے تعلق رکھتے ہوں،اُن کی حیثیت ایک ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے۔
ٹشوپیپر کی طرح استعمال ہونے والے کسی ملت میں کوئی ذہنی تبدیلی یا فکری انقلاب نہیں لاسکتے۔اس تبدیلی کے پیچھے وہ مکار ذہن کام کررہا ہے جو شیعہ کے ساتھ بیٹھتا ہے تو شیعہ کاز کی بات کرتاہے،سنی کے ساتھ بیٹھتا ہے تو اہل سنت کی مظلومیت پر ٹسوے بہاتا ہے اور وہابیوں کے ساتھ بیٹھتا ہے تو وہابیوں کے علاوہ باقی سب کو ختم کرنے کی باتیں کرتاہے۔
وہ دینی قوتیں جنہوں نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے لئے عوامی ذہن کو تیار کرنا تھا ،خود اُن کے ذہنوں پر دہشت گردوں کا خوف سوار کردیاگیاہے۔اگرچہ مجموعی طور پر ایک خاص مسلک نے پاکستان میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی ایک خونی تاریخ رقم کی ہے۔
لیکن اس سے اُس مسلک کو فائدے کے بجائے نقصان ہی پہنچاہے،خود اس مسلک کی مساجد و مدارس اور مفتیوں کے بارے میں لوگوں کو یہ پتہ چل گیاہے کہ یہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں۔
کل امجد صابری کو شہید کیا گیا۔اس سے پہلے قاری سعید چشتی کو بھی خون میں نہلایاگیاتھا،یہ شہادتیں ایسے ہی نہیں ہورہیں۔ان شہادتوں کے پیچھے کچھ درپردہ سازشیں ہیں،کچھ ممالک ہیں،کچھ طاقتیں ہیں ،کچھ پارٹیاں ہیں،کچھ ریاستی ادارے اورکچھ سازشی عناصر ہیں ۔۔۔جن کے ہوتے ہوئے قاتل گرفتار نہیں ہوتے اور دہشت گردی پر قابونہیں پایاجاسکتا۔۔۔ انہیں پہچاننا ضروری ہے ۔۔۔جب تک دہشت گردوں کے سہولت کاروں،سرپرستوں اور شریکِ جرم اداروں کو بے نقاب نہیں کیاجاتا جرائم پیشہ عناصر کو لگام نہیں دی جاسکتی۔
بات یہ نہیں کہ امجد صابری کو موت آگئی ۔۔۔
مرنا تو سب کو ہے،
موت تو سب کو آتی ہے ،
لیکن کل ایک مقتول کے قاتل مرگئے ۔۔۔
شرمندگی کی موت
ندامت کی موت
شکست کی موت
کل آواز کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی
بھلا آواز بھی قتل ہوئی ہے کبھی
کل عقیدت کو مٹانے کی سعی کی گئی
بھلا مٹانے سےعقیدت بھی مٹی ہے کبھی
شاید یہ نامراد قاتل
اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ
یہی وجہ ہے کہ
مقتول مرانہیں بلکہ زندہ ہوگیا ہے
ہمیشہ کے لئے امر ہوگیاہے
من مات علی حب آل محمد۔۔۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) آج انسان کے سامنے صرف دو راستے ہیں،ظلم کرکے زندہ رہنا یا مظلوم بن کر۔یہ دونوں راستے استعمار کے بتائے ہوئے ہیں۔آج پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے زریعے انہی دونوں راستوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔
ایک عام انسان جب سیاستدانوں کے بیانات سنتا،اخبارات پڑھتا اور ٹی وی دیکھتاہے تو وہ یوں سمجھتاہے کہ جیسے انسانیت ایک بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔اسے یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے اب انسان کے پاس ظلم کرنے یا ظلم سہنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔وہ مظلوموں کو بے سہارا،انسانیت کو مایوس اور انسانی اقدار کو قصہ پارینہ سمجھنے لگتاہے۔
حالانکہ انبیائے کرام اور دینِ اسلام نے انسان کے سامنے ایک تیسرا راستہ بھی رکھا ہے۔وہ تیسرا راستہ جسے ہم صراطِ مستقیم کے نام سے جانتے ہیں، صراطِ مستقیم وہ راستہ ہے جو حدِ وسط ہے،جو کلمہ اعتدال ہے،جو میزانِ حق ہے اورجو نورِ مستقیم ہے۔
صراطِ مستقیم یہ ہے کہ جس طرح ظلم کرنا ننگ و عار ہے اسی طرح ظالموں سے ہمکاری،ظالموں کی طاقت سے لوگوں کو مرعوب کرنا اور عوام النّاس کو ظلم قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کرنا بھی ذلت و رسوائی ہے۔
صراطِ مستقیم ،لوگوں کو مظلوم بنانے کا دین نہیں بلکہ مظلوموں کو ظالموں کے خلاف کھڑا کرنے کا نام ہے۔
اس وقت استعماری طاقتیں مکمل منصوبہ بندی سے صراطِ مستقیم پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ میڈیا میں دنیا کے سامنے مسلمانوں کے صرف دوچہرے پیش کئے جارہے ہیں،مسلمان یا تو دہشت گردی کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور یا پھردہشت گردی کے شکار ہورہے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی تربیت بھی مساجد اور مدارس سے دی جاتی ہے جبکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی نماز جنازہ پڑھانے والے بھی مدارس و مساجد کے ترجمان ہوتے ہیں۔
مارنے والے اور مرنے والے دونوں کو اسلامی چہرے کے طور پر بڑھ چڑھ کر متعارف کروایا جاتاہے۔جبکہ اسلام کے حقیقی چہرےکو کہیں پر نہیں دکھایاجاتا۔
اگر کہیں پر کو ئی مسلمان رہنما انسانی حقوق کی بات کرے،مظلوم کو مظلوم بن کررہنے سے نفرت دلائے تو اسے باقرالنمر اور شیخ زکزاکی کی طرح منظر عام سے ہٹادیاجاتاہے۔
استعمار کو گوارا نہیں کہ کوئی مسلمان رہنماانسانی حقوق، احترامِ آدمیت،آزادی رائے،بیداری اقدار اور عدالتِ عمومی کی بات کرے۔استعمار یہ چاہتا ہے کہ مسلمان فقط دہشت گرد کہلوائیں یا پھر صرف مظلوم بن کر آنسو بہائیں۔
اس وقت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں،حکومت کی طرف سےبے گناہ لوگوں کی گرفتاریوں،سرکاری اداروں کی طرف سےدہشت گردوں کی پشت پناہی ،حکومتی سرپرستی میں دینی مدارس کی طرف سے دہشت گردی کی ٹریننگ اورتکفیریت کی تعلیم و تبلیغ کے خلاف احتجاج کے نام پر جو کچھ ہورہاہے ،وہ چاہے کوئی بھی پارٹی کررہی ہے ،یا کوئی بھی گروہ کررہاہے یہ در اصل دنیا کو اسلام کی حقیقی شکل دکھانے کی ایک سعی اور کوشش ہے۔
مسلمانوں کے ایک دینی پلیٹ فارم سے ،اسلامی رہنماوں کی طرف سے بھوک ہڑتال کیمپ ،عالمی برادری کے لئے ایک پیغام اوربین الاقوامی انسانی اداروں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اسلام کی حقیقی شکل وہ نہیں ہے جو تمہیں دکھائی جارہی ہے۔
اس احتجاج کے ذریعے پوری دنیا کو یہ پیغام مل رہاہے کہ جو بے گناہ انسانوں پر ظلم کرتاہے اور یاپھر مظلوم بن کر اپنی مظلومیت کی لاش پر آنسو بہاتارہتاہے وہ اسلام ، اسلام ِ محمدی ؐ نہیں ہے۔یہ دونوں اسلام کے وہ چہرے ہیں جو استعمارنے درہم و دینار اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے تراش تراش کر دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں۔
اسلام حقیقی وہ ہے جو غافل انسانوں کو بیدار کرتاہے،جو مظلوموں کو ظالموں کے خلاف صف آرا کرتاہے اورجو انسانی اقدار اور مساوات کی علمبرداری کرتاہے ۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا یہ احتجاج دنیا میں اسلام کے اس حقیقی چہرےکو متعارف کروانے کا نکتہ آغاز ہے۔دیگر مذاہب و مسالک اور مختلف ممالک کی شخصیات کی طرف سے مجلس وحدت مسلمین کی حمایت اس بات کی دلیل ہے کہ اس احتجاج سے دنیا ایک مرتبہ پھر اسلام حقیقی کے چہرے کی طرف متوجہ ہوئی ہے۔
دنیا کو ایک مرتبہ پھر یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ اسلام فقط مظلوم بن کر جینے،مسجد ،مدرسے اور اذان تک محدود نہیں ہے بلکہ اسلام عادلانہ سیاست ،ظلم کے خاتمے اور مظلوم کو اس کاحق دلانے کا دین ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس احتجاج میں جتنی شدت آتی جائے گی ،اسلام حقیقی کا چہرہ اتنا ہی نکھرتا جائے گا۔کل تک جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ
آج انسان کے سامنے صرف دو راستے ہیں،ظلم کرکے زندہ رہنا یا مظلوم بن کر۔اب انہیں یہ سمجھ میں آجائے گا کہ ایک تیسرا راستہ بھی ہے اور وہ غافل انسانوں کو بیدار کرنے، مظلوموں کو ظالموں کے خلاف صف آرا کرنےاور انسانی اقدار کی علمبرداری کرنے کا ہے ۔
اس سے پہلے جولوگ استعماری دنیا کو یہ تاثر دے رہے تھے کہ پاکستان میں تکفیریت نے شیعت کا راستہ روک دیا ہے،وہابیت نے اہل سنت کو دیوار کے ساتھ لگا دیاہے اور سیکولر تنطیموں نے مذہبی قیادتوں کو بلیک میل کردیاہے اور اب پاکستانی کی دینی تنظیمیں اور مذہبی شخصیات ایک بند گلی میں پہنچ چکی ہیں۔
اس احتجاج کے ذریعے وہ سیکولر اور سعودی عرب کے وظیفہ خور خود بند گلی میں پہنچ گئے ہیں،اب وہ اپنی ہی بنائی ہوئی بند گلی کے افق پر مجلس وحدت مسلمین کے فکری و نظریاتی سورج کو ابھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
سورج روشنی پھیلاتاہے،
روشنی اپنے وجود کا اظہار کرتی ہے
چونکہ روشنی وجود رکھتی ہے
اندھیرے کی مجبوری ہے کہ
اندھیرا اپنے وجود کا اظہار نہیں کرسکتا
وہ صرف سورج کو ڈوبنے کی بددعائیں دیتاہے
اندھیرے کی بددعائیں روشنی کا راستہ نہیں روک سکتیں
دنیا میں روشنی پھیل رہی ہے۔۔۔
ہم رہیں نہ رہیں روشنی رہے گی
سلام اس روشنی پر کہ جس نے
لوگوں کو بند گلیوں سے نکال کر
انسانیت کی تاریک راہوں میں
اجالا کیا
سلام ان پر کہ بھوک اور پیاس سے
جن کے پژمردہ جسموں کامستعار نام “اجالا “ہے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) شخصیات نظریات میں تلتی ہیں۔نظریات کا پتہ میدان عمل میں چلتا ہے۔میدانِ عمل میں انسان اپنی نظریاتی طاقت کا اظہار کرتا ہے۔عمل میں کمزوری دراصل نظریاتی کمزوری کا اظہار ہے۔نظریاتی پختگی افراد کو رشتہ وحدت میں پروتی ہے۔یہ نظریاتی پختگی جتنی زیادہ ہوتی ہے افراد کے مابین وحدت اتنی زیادہ ہوتی ہے۔بلا شبہ نظریاتی پختگی افراد کو متحد کر کے طوفانوں کے مقابلے میں چٹانوں کی مانند کھڑا کر دیتی ہے۔
نظریاتی طور پر مضبوط لوگ قطب نما کی حیثیت رکھتے ہیں،ملتیں انہیں دیکھ کر اپنی سمتوں کا تعین کرتی ہیں جبکہ نظریاتی طور پر ناپختہ لوگ بادبان کی مانند ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی سمتیں بدلتے رہتے ہیں۔
یاد رکھئے!نظریات جتنے بھی عمدہ ہوں وہ اپنے تعارف کے لئے دلکش شخصیات کے محتاج ہوتے ہیں۔چنانچہ دینِ اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کے لئے فقط اچھے نظریات کو کافی نہیں سمجھا بلکہ انہیں یہ پیغام دیا کہ ہمارے لئے باعث زینت بنو باعث ننگ و عارنہ بنو۔
کسی شخص کے نظریات خواہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں لیکن اگر دوسروں کے ساتھ اس کا برتاو منفی ہو تو ایسا شخص کسی مکتب کو بدنام تو کرسکتا ہے لیکن اس کی ترویج و اشاعت کا باعث نہیں بن سکتا۔
پاکستان میں بہنے والے خونِ ناحق کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج اور بھوک ہڑتال آج کتنے ہی دنوں سے جاری ہے۔بعض لوگوں کے نزدیک یہ بھوک ہڑتال اور احتجاج کسی ایک تنظیم یا شخص کی آواز نہیں بلکہ ظلم و جبر کے خلاف مظلوم انسانیت کی آواز ہے۔یہ آواز جس زبان سے بھی نکلے وہ زبان محترم ہے اورجس پلیٹ فارم سے بھی اٹھے وہ قابل رشک ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ظلم سے نفرت انسانی فطرت ہے اور اس احتجاج کے ذریعے انسانی فطری جذبات کا اظہار کیا گیاہے۔ یاد رکھئے جہاں پر اس احتجاج کو فخرومباہات کی نگاہ سے دیکھنے والے موجود ہیں وہیں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو جانے یا انجانے طور پر اس احتجاج کو مسلسل منفی انداز میں پیش کررہے ہیں۔
منفی انداز میں پیش کرنے والوں کا بھی ایک مشن ہے جس کی تکمیل کی خاطر وہ سر گرم ہیں۔انہیں بھی پورا حق ہے کہ وہ اپنے مشن کے لئے جدو جہد کریں۔ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ بھوک ہڑتال کرنے والوں کی ایجنسیوں نے تنخواہیں بند کردی ہیں اس لئے بھوک ہڑتال کئے بیٹھے ہیں،بعض کہتے ہیں کہ یہ پانامہ لیکس کے دباو کو حکومت سے ہٹانے کی سازش ہے۔
گزشتہ روز مجھے بھی کچھ دانشمندوں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھنا نصیب ہوا۔وہاں پر بھی یہی بحث چل رہی تھی۔ارباب دانش کا اصرار تھا کہ غیر جانبدار ہوکر تجزیہ کیا جائے۔
جب جامِ سخن بندہ ناچیز تک پہنچا تو میں نے دست بستہ عرض کیا کہ اگر جان کی امان پاوں تو عرض کردوں کہ نظریاتی جنگ میں غیر جانبداری کو ئی معنیٰ نہیں رکھتی۔
اس وقت اسلام آباد میں جو کچھ ہورہاہے ،چشم فلک اسے رقم کررہی ہے اور مورخ کی آنکھ یہ دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں ایک شخص نے لاشیں اٹھانے کی سیاست پر بھوک سے مرجانے کو ترجیح دی ہے۔اس نے مصلحتوں کی چھاوں میں بیٹھ کر مرغ مسلم اُڑانے پرمئی اور جون کی گرمی میں بھوک اور پیاس براداشت کرنے کو ترجیح دی ہے۔اس نے ہرروز لاشیں اٹھانے اورجنازےپڑھانے کی سیاست کرنے کے بجائے شمشیرِ مظلومیت کو نیامِ سیاست سے باہر نکالا ہے۔
میری گفتگو یہانتک پہنچی تھی کہ شور مچ گیاکہ یہ مکمل جانبدارانہ گفتگو ہے۔میں نے عرض کیا اے میرے بلند فکر دوستو!اے میرے غیرجانبدار دانشمندو!مجھ پست فکر کو بھی اظہار خیالات کا موقع دو!
میں ظالموں کے خلاف ہونے والی جنگ میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔میں یتیموں کے بین سن کر خاموش نہیں بیٹھ سکتا،میں قاتلون کو دندناتے دیکھ کر اپنے لبوں کو نہیں سی سکتا۔
اے اس نازک وقت میں قلم کی شمشیر کو غیرجانبداری کی نیام میں ڈالنے والو!
جو تلوار دشمن سے مقابلے کے وقت غیر جانبدار ہوجائے وہ صرف دوستوں کے گلے کاٹا کرتی ہے۔
جو قلم دشمن کے ماتھے پرخراش نہ ڈال سکے وہ صرف دوست کے دل میں سوراخ کرتاہے۔
میں یہ کہہ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔میری گفتگو بظاہر ختم ہوگئی لیکن پیغام ابھی جاری ہے۔
قارئین محترم !ہاں میں غیر جانبدار نہیں ہوں لیکن مجھ جیسے ہر جانبدار کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی بھی منفی پروپیگنڈے کاعلاج خصومت آمیز جملے نہیں ہوا کرتے،حسد کی آگ کو نفرتوں کی ہوا سے نہیں بجھایا جاسکتا،بداخلاقی کا درمان طعنوں اور طنز سے نہیں ہوا کرتا۔
جس ملت کے نظریاتی اداروں پر ،عیب جو،افترا پرداز ،بداخلاق اور جھگڑالو مزاج لوگوں کا قبضہ ہوجائے اس ملت کا سفینہ کبھی بھی ساحل مراد تک نہیں پہنچ سکتا۔
قارئین کرام !اس وقت ایک دوسرے کو الزام دینے کی ضرورت نہیں،ہمیں اپنی نیتوں پر نظر رکھنی چاہیے، صبر و تحمل کا پرچم کسی بھی صورت نہیں گرنا چاہیے ، لوگوں کو حقائق سے آگاہ کیجئے،عوام کو تجزیہ و تحلیل کرنے دیجئے،ذرا صبح تو ہوجائے،ابھی سورج تو نکلنے دیجئے ۔۔۔
آنے والا کل خود گواہی دے گا کہ آج ظلم کے خلاف احتجاج اور بھوک ہڑتال کرنے والے کسی کے تنخواہ دار ہیں یا اس احتجاج پر خاموش رہنے والے،غیرجانبدار کہلانے والے اور اس کی مخالفت کرنے والے حکومتی ایوانوں سے وظیفہ لے رہے ہیں۔
یاد رکھیئے!شخصیات نظریات میں تلتی ہیں اورنظریات کا پتا میدان عمل میں چلتا ہے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔نذرحافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.