وحدت نیوز (آرٹیکل) زمانہ مہذّب ہوگیا ہے،لوگ لکھ پڑھ گئے ہیں۔سکولوں،کالجز ، یونیورسٹیوں اور ذرائع ابلاغ کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے،لوگوں نے تعلیم کو اپنی اوّلین ترجیح بنالیاہے لیکن اس کے باوجود اصولوں کے خلاف جنگ جاری ہے،قانون شکنی کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے،خون خرابے اور درندگی کرنے کی خاطر ٹریننگ کیمپس لگے ہوئے ہیں،منشیات اور ہیروئن کی فیکٹریاں زہر اگل رہی ہیں اور اکیسویں صدی کے درندے ظلم و ستم میں مصروف ہیں۔
اکیسویں صدی کا انسان بوکھلاہٹ، پریشانی اور اداسی کاشکار ہے، اس اداسی کی وجہ یہ ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ سکولوں،کالجز ، یونیورسٹیوں اور ذرائع ابلاغ کی تعداد میں خاطرخواہ اضافے کے باوجود انسان کو امن سکون اور تحفظ نہیں ملا،وہ دیکھتاہے کہ اپنے آپ کو مسلمان،مجاہدینِ اسلام اور خادم الحرمین شریفین کہلانے والے بھی کسی اصول،دین یا ضابطے کے پابند نہیں ہیں ،وہ دیکھتاہے کہ سانحہ پشاور میں ننھی کلیوں کو کس بے دردی سے مسل دیاگیا،سانحہ صفورا میں انسانی جانوں پر کس طرح شبخون ماراگیا،سانحہ مِنیٰ میں کتنے ہزار انسان ایک ہی دن میں شاہی انا کی بھینٹ چڑھ گئے ۔
انسان دیکھتاہے کہ ایک طرف تو دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق حرام مہینوں [ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب ]میں جنگ کرنا گناہِ کبیرہ ہے[1] ۔گناہِ کبیرہ یعنی دینِ اسلام نے ان مہینوں میں جنگ کرنے سے روکاہے اور مشرکین مکہ بھی حرام مہینوں میں جنگ روک دیا کرتے تھے جبکہ آج دنیائے اسلام میں خادم الحرمین شریفین کہلوانے والوں کی ہی قیادت میں انہی حرام مہینوں میں اہلِ یمن پر حملے کئے جارہے ہیں۔
افسوس صد افسوس یہ ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں دنیا بھر میں جو آگ اور خون کا کھیل جاری ہے وہ خواہ سپاہِ صحابہ،لشکرِ جھنگوی،طالبان یا داعش کے نام پر ہو اور یاپھر گمنام تنظیموں کے روپ میں۔سعودی عرب اور امریکہ سے مربوط خون آشام کاروائیوں میں کہیں پر بھی کسی بھی قسم کے انسانی اصولوں کا لحاظ نہیں کیاجاتا۔[2]
امریکہ سے تو کسی قسم کا گلہ کرنا ہی بعید ہے البتہ سعودی عرب بھی امریکہ کے ہی نقشِ قدم پر چل رہاہے۔گزشتہ روز یمن میں سعودی اتحاد کے طیّاروں نے شادی کی تقریب کے دوران بمباری کر کے28افراد کو شہید اور 10کو زخمی کردیا۔
مقامِ فکر یہ ہے کہ ایک تو یہ ماہِ حرام ہے اورسعودی عرب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ کو روک دینا چاہیے،دوسرے یہ حملہ کسی جنگی کیمپ پر نہیں بلکہ شادی کی ایک تقریب پر کیاگیاہے۔ تفصیلات کے مطابق صوبہ دھمار کے علاقے سنبان میں جنگی طیاروں نے ایک گھر کو نشانہ بنایا جس میں شادی کی تقریب جاری تھی۔ جس سے 28افراد ہلاک، 10زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا جن میں متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق اور باغیوں کے ٹی وی المصیرہ نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی اتحاد کے جنگی طیاروں نے حملہ کیا۔ رائٹر کے مطابق مرنے والوں میں تین دولہے بھی شامل تھے۔ تین بھائیوں کی ایک ساتھ شادی ہو رہی تھی ۔ تینوں بھائی دولہا بنے اپنی دلہنوں کا انتظار کر رہے تھے کہ گھر پر میزائل برسا دئیے گئے۔
یمن میں مارے جانے والے ان لوگوں کا پاکستان میں مارے جانے والوں سے بس اتنا فرق ہے کہ پاکستان میں عوام کو سعودی نواز گروپ اور ٹولے مارتے ہیں اور یمن میں سعودی اتحاد ،یہ کارنامہ انجام دے رہاہے۔
وہ چاہے سعودی خود کش بمبار ہوں یا سعودی اتحاد، کوئی بھی دینِ اسلام کے اصولوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ایک عام انسان بھی جب سانحہ مِنیٰ میں گری ہوئی لاشوں اور افغانستان و پاکستان اور یمن میں سعودی دہشت گردوں کے ہاتھوں بہتا ہوا خون دیکھتا ہے تو اس کے دل میں یہ خیال ضرور پیداہوتاہے کہ زمانہ مہذّب ہوگیا ہے،لوگ لکھ پڑھ گئے ہیں،سکولوں،کالجز ، یونیورسٹیوں اور ذرائع ابلاغ کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے،لوگوں نے تعلیم کو اپنی اوّلین ترجیح بنالیاہے لیکن کاش آلِ سعود بھی تھوڑا بہت دینِ اسلام کو سمجھ لیتے،کسی نہ کسی حد تک اسلامی اقدار اور اصولوں کی پابندی کرتے اور ماہِ حرام میں ہی جنگ سے ہاتھ اٹھا لیتے۔۔۔
تحریر :نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (قم المقدس) ایم ڈبلیو ایم قم کے قائم مقام سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام گلزار احمد جعفری کے ساتھ ایم ڈبلیو ایم قم کی کمبائن ایکشن کمیٹی کا اجلاس ہوا۔اجلاس میں کمبائن کمیٹی نے قائم مقام سیکرٹری جنرل کوایران میں مقیم پاکستانی طلّاب کو پاسپورٹ کے کے حوالے سے درپیش مشکلات سے آگاہ کیا اور اس حوالے سے اپنی سفارشات پیش کیں۔کمبائن کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ تہران میں قام پاکستان ایمبیسی عرصہ دراز سے پاکستانیوں کو مختلف حیلے بہانوں سے ٹارچر کرتی چلی آرہی ہے۔اس مرتبہ ایمبیسی نے کمپیوٹرائز پاسپورٹوں کا بہانہ بنایا ہوا ہے اور لوگوں کو اذیّت دی جارہی ہے۔ایمبیسی کی طرف سے کمپوٹرائزڈ پاسپورٹ بنائے جانے کے حوالے سے انتہائی سستی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا جارہاہے۔
کمبائن کمیٹی نے قائم مقام سیکرٹری جنرل کو اس حوالے سے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل سے آگاہ کیا۔اس موقع پر قائم مقام سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایم ڈبلیوایم کا طرّہ امتیاز ہی مشکلات کو حل کرنا اور قومی مسائل پر آواز بلند کرنا ہے۔انہوں نے کمبائن کمیٹی کی کارکردگی کو سراہااور کہا کہ اسی ہفتے سے پاسپورٹ کا مسئلہ حل کروانے کے حوالے سے عملی اقدامات کئے جائیں۔
اجلاس میں سیکرٹری سیاسیات و ارتباطات عاشق حسین آئی آر اور آفس سیکرٹری مختار مطہری نے بھی تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کی سستی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کمبائن ایکشن کمیٹی کے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے گفتگو کی۔اراکینِ اجلاس نے کہا کہ اگر ایمبیسی نے فوری طور پر پاسپورٹوں کا مسئلہ حل نہ کیا تو اس حوالے سے قانونی و سیاسی طور پر اعلیٰ سطح پر تگ و دو کی جائیگی۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) شکار جتنا قریب ہوتا ہے شکاری اتناہی بے قرار۔سعودی حکومت یوں تو اربوں ریّال لگا کر سال بھر پوری دنیا میں شدّت پسند ٹولوں کے ذریعے دیگر اسلامی فرقوں کے نہتّے افراد کا قتلِ عام کرواتی ہی ہے لیکن اس مرتبہ حج کے موقع پر اس نے اپنے حصّے کا شکار خود ہی کرلیاہے۔
سانحہ مِنیٰ میں مختلف اسلامی فرقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کی تعداد میں حاجی شہید ہوگئے اور اسی طرح ایک بڑی تعداد میں لاپتہ ہوگئے۔ اتنے بڑے انسانی المیّے پر ہماری حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔اس سانحے کی تحقیقات اور گمشدہ پاکستانیوں کی تلاش کے حوالے سے سے ہمارے ہاں سے سرکاری سطح پر کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی جارہی۔
ایسے سانحات پر خصوصاًسعودی جرائم پر سکوت اختیار کرلینا یہ ہمارے سرکاری اداروں کی پرانی پالیسی ہے۔اسی پالیسی کے باعث سعودی حکومت نے خود ہمارے ملک میں بھی نے تکفیریت کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے اور ہمارے حکمران اندرونِ پاکستان سعودی جرائم پر ماضی میں بھی ایسے ہی خاموش رہے ہیں جیسے اب سانحہ مِنیٰ پر خاموش ہیں اور دوسروں کو بھی سعودی مظالم پر خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔
لیکن پاکستانی عوام اب سعودی حکمرانوں کے مظالم پر خاموش رہنے کے بجائے بولنا شروع ہوگئےہیں۔
لوگ سعودی بادشاہوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ شاہی محلات تعمیر کروائیں،آپ نائٹ کلب بنوائیں،آپ یہود و ہنود کے ساتھ رقص کریں،آپ کلنٹن کے ساتھ جام چھلکائیں،آپ فلسطین کو بیچ کھائیں،آپ اخوان المسلمین کی حکومت گرائیں،آپ جہاد کشمیر و افغانستان کے نام پر امتِ مسلمہ کو دہشت گردی کی ٹریننگ دیں،آپ دنیا بھر میں بے گناہ انسانوں کو قتل کروائیں،آپ سانحہ چلاس میں مسافروں کو قتل کروائیں،آپ سانحہ پشاور میں ننھے پھولوں پر گولیاں چلوائیں،آپ میدانِ منیٰ میں فاختاوں کے نشیمن پر بجلیاں گرائیں!آپ شہیدوں کی لاشوں کو ان کے ورثا کے حوالے نہ کریں!آپ کے مفتی ،شہدا کے قاتلوں کی حوصلہ افزائی کریں اور کہیں کہ یہ مرضی خدا ہے۔۔۔
آپ جو چاہے کریں،آپ کا ہر قول و فعل اسلام ہے اور آپ کی ہر ادا سنّت ہے ،آپ جو بھی کریں آپ اسلام سے خارج نہیں ہوسکتے لیکن ہم۔۔۔
ہم اگر۔۔۔ اپنے رسول کے مزار کی جالی کو چوم لیں تو مشرک ہیں
ہم اگر ۔۔۔جنت البقیع کے مزارات کی زیارت کے قصد سے جائیں تو کافر ہیں
ہم اگر۔۔۔مردہ باد امریکہ اور اسرائیل کہیں تو ایران کے ایجنٹ ہیں
ہم اگر ۔۔۔یارسول اللہ کہیں تو کوڑوں کے حقدار ہیں
ہم اگر۔۔۔اللہ کے رسول سے مدد مانگیں تو کافر مشرک اور مرتد ہیں اور آپ اگر امریکہ اور اسرائیل سے مدد مانگیں تو خادم الحرمین شریفین ہیں
اور
غضب خدا کا کہ ہم اگر۔۔۔شہدا کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ پڑھ دیں تو بدعت ہے اور آپ اگر شہدا کی لاشوں کو کرینوں سے گھسیٹ کر کنٹینرز میں پھینک دیں تو یہ سنّت ہے۔
کیا صرف اس لئے کہ آپ بادشاہ ہیں،آپ ہمارے ہاں کے کچھ مولویوں، چند سیاستدانوں، بڑے بڑے دینی مدارس اور دہشت گرد گروپوں کانیٹ ورک چلاتے ہیں ۔۔۔
اس لئے آپ جیسے چاہیں اسلام کے ساتھ کھیلیں اور جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔
تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (قم المقدس) مجلس وحدت مسلمین قم کی کابینہ کا ایک اہم اجلاس سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام گلزار احمد جعفری کی زیرصدارت دفتر مجلس وحدت مسلمین قم میں منعقد ہوا۔اجلاس کے دوران اراکین ِکابینہ نے اپنی گزشتہ کارکردگی کا جائزہ لیا اور اپنا آئندہ کا لائحہ عمل پیش کیا۔اس کے علاوہ اہم مناسبتوں کے انعقاد،بین الاقوامی اسلامی ایشوز ،اعزامِ مبلغین اورمملکتِ خداداد پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے بھی اظہارِ خیال کیاگیا۔
وحدت نیوز (قم) مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم نے کوئٹہ میں ازسرِنو شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم قم کے میڈیا سیکرٹری آغا نذر حافی نے کہا ہے کہ نواز حکومت ملک و قوم کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ ملک میں آئے روز نہتے اور بےگناہ شہریوں کا تسلسل سے قتلِ عام کیا جا رہا ہے لیکن حکمران فقط زبانی بیانات پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں انسان کشی کی بدترین مثالیں قائم کی گئی ہیں۔ سانحہ پشاور، سانحہ صفورا، سانحہ تفتان اور سانحہ مستونگ سمیت متعدد واقعات اس امر پر شاہد ہیں کہ اب عوام کی بےکسی اور حکمرانوں کی بےحسی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کوئٹہ میں ازسرِنو ٹارگٹ کلنگ کے آغاز پر خصوصاً گذشتہ 10 دنوں میں ہزارہ برادری کے 8 افراد کو نشانہ بنائے جانے پر گہری تشویش اور رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر کو قوم و قبیلے اور مذہب و مسلک کی تمیز کئے بغیر کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے تفتان روٹ پر مسافروں کو درپیش مشکلات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہی ہے۔ سرکاری اہلکاروں کی طرف سے زائرینِ امام حسینؑ کے ساتھ ناروا سلوک انتہائی شرمناک فعل ہے۔ انہوں نے بلوچستان کی صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت ہزارہ برادری اور تفتان روٹ کی سکیورٹی کے حوالے سے عملی اقدامات کرے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک پاکستانی ہونے کے ناطے حکامِ بالا سے ہمارا پہلا یہ سوال ہے کہ کیا مسافروں کو ہراساں کرنے، دھمکانے اور رشوت لینے والے سرکاری کارندے بھی را اور بھارت کے ملازم ہیں؟؟؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب “را” اور بھارت کے لئے کام کر رہے ہیں تو پھر پاکستان کی ایجنسیاں اور ادارے کہاں ہیں؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا رشوت خوری اور دہشت گردی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور یہ 780 ارب روپے بھی “را” اور بھارت کے ایجنٹوں پر خرچ کئے جائیں گے۔۔۔؟
سانحہ مستونگ کے بعد لوگوں کی نظریں آل پارٹیز کانفرنس پر لگی ہوئی تھیں، یہ اتنی اہم کانفرنس تھی کہ وزیراعظم اور آرمی چیف سمیت متعدد اہم شخصیات اس میں شامل تھیں، ان ساری شخصیات نے سرجوڑ کر بیٹھنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ سانحہ مستونگ ملک دشمنوں کی کارروائی ہے اور اس کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے۔ ساتھ ہی ان جذبات کا اظہار بھی کیا گیا کہ ہم ذمہ دار عناصر کو چھوڑیں گے نہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ اتنی اہم کانفرنس منعقد کرکے ہماری اہم شخصیات نے جو نتیجہ نکالا ہے، ہمارے ہاں کا ان پڑھ آدمی بھی بغیر کسی کانفرنس کے یہی نتیجہ نکالتا ہے۔ آپ کسی دودھ بیچنے والے ان پڑھ یا یا نسوار فروش اجڈ کو اس طرح کے واقعات سنا کر پوچھیں، آپ کو کیا لگتا ہے کوئی محبّ وطن شخص ایسا کرسکتا ہے! وہ کہے گا، نہیں نہیں! اس کام کے پیچھے تو مجھے کوئی غیر ملکی ہاتھ لگتا ہے۔ آپ اسے کہیں کہ سانحہ مستونگ کے ذمہ دار عناصر کی بارے میں تمہارے کیا جذبات ہیں؟! وہ کہے گا کہ اگر میرے ہاتھ لگ جائیں تو چھوڑوں گا نہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری اہم شخصیات کی تجزیہ و تحلیل کرنے کی صلاحیت اور جذبات ہمارے ہاں کے عام اور ان پڑھ آدمی جیسے ہی ہیں۔ ہماری ان اہم شخصیات نے مالی سال 16-2015 کے لئے 43 کھرب 13 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ قرار دینے والوں نے ملکی دفاع کے لئے 780 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ 780 ارب روپے ایک سال کے اندر ہمارے دفاع کے لئے مختلف لوگوں کی جیبوں میں چلے جانے ہیں۔ یہ تو آن دی ریکارڈ 780 ارب روپے ہیں، دوسری طرف ہماری سلامتی اور دفاع کا آف دی ریکارڈ بجٹ اگر آپ نے دیکھنا ہو تو کوئٹہ سے تفتان روٹ کا سفر کرکے دیکھیں، جہاں ہماری سکیورٹی اور دفاع پر مامور جیالے مسافروں سے دھڑا دھڑ رشوت بٹورنے میں مصروف ہیں۔ جو مسافر رشوت دینے سے کترائے، اسے کہتے ہیں کہ تمہیں ایک ہفتے تک ادھر ہی “کانوائے” کا انتظار کرنا پڑے گا۔
پورا سال یہ سرکاری کارندے مسافروں سے رشوت بٹورتے ہیں اور جب دہشت گردی کا واقعہ ہوجاتا ہے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے حکامِ بالا سے ہمارا پہلا یہ سوال ہے کہ کیا مسافروں کو ہراساں کرنے، دھمکانے اور رشوت لینے والے سرکاری کارندے بھی را اور بھارت کے ملازم ہیں؟؟؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب “را” اور بھارت کے لئے کام کر رہے ہیں تو پھر پاکستان کی ایجنسیاں اور ادارے کہاں ہیں؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا رشوت خوری اور دہشت گردی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور یہ 780 ارب روپے بھی “را” اور بھارت کے ایجنٹوں پر خرچ کئے جائیں گے۔۔۔؟
تحریر۔۔۔۔۔نذرحافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.