وحدت نیوز (آرٹیکل)  اسلام  ایک عالمی اورابدی دین ہے جس میں انسان کی فردی و اجتماعی ضرورتوں کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔انسان کی فطری ضرورتوں میں سے ایک  ازدواج ہے ۔یہ ضرورت اس وقت پوری ہوگی جب وہ کسی سےشادی کرے ۔قرآن کریم نےمرد و عورت کی تخلیق کو خدا کی نشانی اور ان کے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنے کو مودت و رحمت قرار دیا ہے ۔ارشاد رب العزت ہو رہاہے:{ وَ مِنْ ءَايَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکمُ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُواْ إِلَيْہَا وَ جَعَلَ بَيْنَکُم مَّوَدَّۃً وَ رَحْمَۃً  إِنَّ فیِ ذَالِکَ لاَيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفکَّرُون}1اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاراجوڑا تمہیں میں سے پیدا کیا ہےتاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قراردی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس آیہ کریمہ میں  شادی کی بعض حکمتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ازداوجی زندگی سے منسلک ہونے کے بعد انسان کو فکری و روحی سکون مل جاتاہے ۔ شادی کرنے سےنسل انسانی جاری رہتی ہے اور انسانی معاشرے وجود میں آتے ہیں ۔قرآن اس سلسلے میں کہتاہے :{وَ اللّہ  ُ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکمُ أَزْوَاجًا وَ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَزْوَاجِکُم بَنِينَ وَ حَفَدَۃً وَ رَزَقَکُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ} 2 اور اللہ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں اور اس نےتمہاری ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کیےاور تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں ۔شادی کرنےسےعقلی و معنوی مقاصد حاصل ہونےکےساتھ ساتھ انسان کی نفسانی خواہشات بھی پوری ہو تی ہیں۔چنانچہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا:{من تزوج فقد احرزنصف دینہ}جس نےشادی  کی اس نے اپنا  نصف دین بچا لیا ۔ آپ ؐ نے شادی کو بہترین عمل قرار دیا اور فرمایا:{ما بنی فی الاسلام بناء احب الی الله من التزویج}خدا کےنزدیک اسلام میں سب سےبہترین بنیاد ازدواجی زندگی کی بنیاد ہے۔

اگرہم انسان کی زندگی کا مطالعہ کریں توہم اس حقیقت کو درک کر سکتے ہیں کہ انسان کےلئے دو قسم کی شادیوں کی ضرورت ہے ایک دائمی شادی اور دوسری موقتی شادی۔دائمی شادی عام حالتوں  کےلئے ہےجبکہ موقتی شادی غیر معمولی حالات  کے پیش نظر جیسے اگرکوئی طولانی  مدت  کےلئےسفر میں جائےاور بیوی ساتھ نہ ہو ۔اسی طرح جنگ اور مختلف حوادث میں جو عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں  ۔علاوہ ازیں دائمی شادی  کے لئےبہت زیادہ اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے   جبکہ موقتی شادی  کے لئے اتنےاخراجات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔انسان کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے  کےلئےاسےشادی کرنےکی ضرورت ہے اگرموقتی شادی کےذریعے اس کی یہ خواہش پوری  نہ ہو تو وہ ناجائز روابط کے ذریعے اسےپوری کرنےکی کوشش کرے گا جس سے انسانی معاشرے میں اخلاقی برائی پھیل جائی گی اور معاشرہ تباہ و بربادہو جائے گا۔

دین مقدس اسلام نے انسان کی اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے دو قسم کی شادیوں کو جائز قرار دیا ہے ۔ایک دائمی شادی اوردوسری موقتی شادی۔ دائمی شادی کے بارے میں قرآن کریم کہتاہے :{ وَ إِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُواْ فیِ الْيَتَامی فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنیَ وَ ثُلَاثَ وَ رُبَاعَ  فاِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃ}3اور اگر یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کر سکنےکا خطرہ ہے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہیں دو،تین ،چار  ان سےنکاح کر لو اور اگر ان میں بھی انصاف نہ کر سکنے کا خطرہ ہے تو پھر ایک ہی عورت {کافی ہے}۔

قرآن کریم عقد موقت یا متعہ کےبارے میں کہتاہے:{ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنہنَّ فَاتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِيضۃ}4

پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطورفرض ادا کرو ۔لفظ متعہ عرف،شرع اور شیعہ وسنی فقہاء کےنزدیک نیز روایات میں عقد موقت  کے معنی میں ہے۔مشہور مفسر جناب طبرسی مجمع البیان میں اسی آیت  کے ذیل میں فرماتے ہیں:اس آیت  کے  متعلق دو نظریےپائے جاتے ہیں :1۔ بعض لوگوں  نےاستمتاع سےمراد لذت جوئی  لیا ہے  اور بطور دلیل بعض اصحاب اور تابعین  کے عمل کو پیش کیا ہے ۔2۔ بعض لوگوں نے استمتاع سےمراد عقد موقت لیا ہے  اور بطوردلیل ابن عباس، سدی ،ابن مسعوداور تابعین کی ایک جماعت کو پیش کیا ہے  جو  استمتاع کوعقد موقت سے تفسیر کرتے تھے۔ ان دو نظریوں میں سے دوسرےنظریے کی صحت واضح ہے اس لئے کہ عرف و شرع  میں متعہ اور استمتاع سے مراد عقدموقت ہے ۔اس کے علاوہ مہر کا ادا کرنا لذت اٹھانے پر منحصر نہیں ہے۔ بنابرین آیہ کریمہ متعہ پر دلالت کرتی ہے کیونکہ :1۔ اس آیت سے  پہلی والی آیتوں میں عقد دائمی اور اس کے مہریہ کا حکم بیان ہوا ہے لہذا اسےدوبارہ تکرار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے  ۔2۔دائمی شادی میں جونہی صیغہ عقد جاری ہو مہر شوہر پر واجب ہوتا ہے  اور اگر عورت ہمبستری سے پہلے اس کامطالبہ کرے تو مہر  دینا واجب ہے جبکہ مذکورہ آیت  کےمطابق شوہر پر مہر اس وقت واجب ہوگا جب اس نے اپنی بیوی سے ہمبستری کی ہو لہذا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب عورتوں سے ہمبستری کرنا تو ان کا مہر ادا کرنا۔5اس نظریہ پر یہ اعتراض ہے کہ :مہریہ کاا دا کرنا عقد پرمنحصر ہے یعنی جیسےہی عقد پڑھ لیاگیا ،عورت اپنا تمام مہر مانگ سکتی ہے اور اس میں ہمبستری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ اگر دخول سے پہلے طلاق ہو جائے تونصف مہر دینا ہو گا ۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث  6کےعلاوہ اہل سنت نے بعض اصحاب اور تابعین سےوقتی شادی کےبارےمیں احادیث نقل کی ہیں۔ابن عباس،ابی بن کعب ،سعید بن جبیر اورسدی آیہ کریمہ کی تلاوت اس طرح کرتے تھے:{فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنہْنَّ ُإلی اجل مسمی فَاتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِيضَۃ}مجاہد کا کہنا ہے:مذکورہ آیہ متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔7.فخر الدین رازی لکھتے ہیں :مسلمانوں نےابی کعب اور ابن عباس کی قرائت سےانکار نہیں کیا ہے ۔یہاں سےمعلوم ہوتاہے کہ ان دونوں کی قرائت کے صحیح ہونے کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ متعہ کےجائزہونے کے بارے میں بھی مسلمانوں کا اجماع ہے ۔8اہل سنت کے علماء نے یہ ادعا کیا ہے کہ یہ آیہ نسخ ہوئی ہے اور انہوں نے اس سلسلے  میں بعض آیات کے علاوہ صحاح اور مسانید میں منقول احادیث سے استدلال کیاہے ۔بعض افراد نے آیہ کریمہ {وَ الَّذِينَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ.إِلَّا عَلیَ أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَيْمَانہُمْ فاِنہَّمْ غَيرْ مَلُومِين َ.فَمَنِ ابْتَغَی وَرَاءَ ذَا لک ِفاُوْلَئکَ ہُمُ الْعَادُون}۹{اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، مگر اپنی بیویوں اورکنیزوں سے پس ان پر ملامت نہیں ہے، جو لوگ اس کے علاوہ کی خواہش کریں وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں }کو حکم متعہ کےمنسوخ ہونے کی دلیل قرار دیاہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس آیت کےمطابق صرف دو طریقوں سے عورتیں مرد پر حلال ہوجاتی ہیں ۔  ایک زوجیت اور دوسرا ملکیت جبکہ اس آیت میں متعہ کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے ۔ متعہ کا ملک یمین نہ ہونا واضح ہے اسی طرح متعہ شادی کی قسم بھی نہیں ہے کیونکہ اس میں شادی  کےاحکام جیسے ارث ،نفقہ اور حق قسم {شب خوابی}نہیں ہیں ۔اس غلط تصور کا جواب یہ ہے کہ

 پہلا: عقد موقت {متعہ}کیفیت  کےلحاظ سے عقد دائمی  جیسا ہے ۔اس قسم کے ازدواج کے شرعی ہونےمیں کوئی انکار نہیں کرتا۔ان دونوں  کےدرمیان بعض احکام مشترک اور بعض احکام ان میں سے ہر  ایک مخصوص ہیں۔

دوسرا:سورۃ مومنون کی آیت مکی آیات میں سے ہے جبکہ عقد موقت پر دلالت کرنےوالی آیت مدنی ہے ۔ مسلمانوں کا اجماع ہےکہ آیۃ متعہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے  جبکہ ناسخ کو زمان  کے اعتبار سےمنسوخ کے بعد ہونا چاہیے ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جب ان سےکہا جاتاہے کہ سورۃ مومنون کی اس آیت  نےکنیزوں سے شادی کرنے کے حکم کو کیوں نسخ نہیں کیاہے؟ چنانچہ ارشاد ہوتاہے :{وَ مَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنکُمْ طَوْلاً أَن يَنکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُم مِّن فَتَيَاتکُمُ الْمُؤْمِنَات}10{اور جس کےپاس اس قدر مالی وسعت نہیں ہے کہ آزاد مومنہ عورتوں سے نکاح کرے تو وہ کنیز مومنہ عورت سے عقد کرے}تو جواب دیتے ہیں کہ سورہ مومنون کی آیت مکی ہےلیکن مذکورہ آیت { جس میں کنیزوں سے شادی کاحکم ہوا ہے }مدنی ہے ۔مکی آیتیں مدنی آیات  کے لئے ناسخ نہیں بن سکتیں ۱۱جبکہ اسی بات کو متعہ کے بارے میں  کہنےسےگریزکرتے ہیں ۔{والذین ہم هلفروجہم حافظون}یہ آیتیں سورہ معارج میں بھی موجود ہیں جبکہ سورہ معارج بھی مکی ہے  ۔

بعض روایات  کےمطابق متعہ کا حکم اضطراری حالات  کے لئے تھالہذا جب اضطرار ی حالات ختم ہوگئے تو متعہ کاحکم بھی منسوخ ہوا ہے ۔ 12جبکہ اضطراری احکام، اضطراری حالتوں کے تابع ہیں  اور اضطراری حالات صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانےسے مخصوص نہیں ہیں جیسے مجبوری کی حالت میں مردار کا گوشت کھانا جائز ہے اور یہ حکم صرف صدر اسلام سے مخصوص نہیں ہے بلکہ آج  بھی اس قسم کی کوئی حالت پیش آجائے تومردارکا گوشت کھانا جائز ہے ۔اس قسم کی روایتوں  کے مقابلے میں اوربھی روایات موجود ہیں جو خلیفہ دوم  کےزمانے تک متعہ کے جائز ہونےپر دلالت کرتی ہیں ۔ عمران بن حصین سےبخاری نےنقل کیا ہے کہ اس نےکہا : آیہ متعہ کتاب خدا میں نازل ہوئی ہے ہم نے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ اس پر عمل کیا ۔اس کےحرام ہونے کے بارے میں کوئی دوسری آیت نازل نہیں ہوئی ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنی وفات تک اس سے منع نہیں فرمایا ۔ اس  کےبعد ایک شخص نے اپنی رائے کی بنا پر اس سلسلے میں حکم صادر کیا ۔13اس قسم کی روایتوں کو مسلم نےچند واسطوں سے جابر بن عبد اللہ انصاری سےنقل کیا ہے۔۱۴متعہ کے منسوخ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں ایک واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن ان روایتوں میں بہت زیادہ ضد و نقیض باتیں ہیں جوان کے جعلی ہونے کو ثابت کرتے ہے۔۱۵ مثلا بعض روایات کے مطابق یہ حکم فتح مکہ کے سال منسوخ ہوا ہے۔بعض کہتے ہیں کہ فتح خیبر کے سال یہ حکم منسوخ ہوا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر یہ حکم نسخ ہوا ہے جبکہ بعض کےمطابق جنگ تبوک میں یہ حکم نسخ ہوا ہے۔16ان اقوال کا لازمہ یہ ہے کہ ایک حکم چند سالوں میں متعدد بار مباح اور متعدد بار نسخ ہو اہو۔یہ نہ علم و حکمت خداوندی سے سازگار ہے اور نہ اسلام میں اس قسم کی کوئی روش پہلے سے موجود تھی۔واضح رہےکہ اتنے اختلافات اور تعارض کےہوتےہوئے ان روایات سےایک قطعی حکم کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔علاوہ ازیں یہ روایتیں دوسری روایتوں سے{جو متعہ کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں}تعارض رکھتی ہیں۔ابن عباس کہتے ہیں :{ماکانت المتعۃ الارحمۃ رحم الله بہا امۃ محمد{ص}لو لا نہیہ{یعنی عمر}عنہا ما احتاج إلی الزناء الاشقی}17

متعہ ایک رحمت تھی خدا نے اس کے ذریعے پیغمبر کی امت پر رحمت کی۔اگر عمربن خطاب متعہ سے منع نہ کرتا تو سوائےشقی   کے کسی اور کو زنا کی ضرورت نہ پڑتی ۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہےکہ متعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعےمنسوخ نہیں ہوا بلکہ خلیفہ دوم نے اس سےمنع کیا ہے ۔یہ حدیث جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ہونے والی حدیث کی موٴید ہے ۔

طبری اور ثعلبی آیہ کریمہ{فمااستمتعتم بہ منہن}18کی تفسیرمیں حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتےہیں کہ آپؑ نےفرمایا : {لو لا ان عمرنہی عن المتعۃ مازنی الاشقی}19اگرعمر نےمتعہ سےمنع نہ کیا ہوتاتو شقی کےسوا کوئی زنا نہ کرتا۔اسی بات کو دوسرے ائمہ اہلبیت علیہم السلام نےبھی متواتر طریقوں سےآپؑ سے نقل کیا ہے۔یہ حدیث بھی جابربن عبداللہ انصاری کی حدیث کی موٴید ہے ۔ جناب جابر ابن عبد اللہ انصاری کا بیان ہے :ہم رسول خداؐ کے زمانےمیں بطور مہر مختصر کھجور اورآٹے پر چند دنوں کے لئے متعہ کیا کرتےتھے اوریہ کام ابوبکرکےزمانے تک انجام دیا لیکن عمر نے عمرو بن حریث  کےواقعے کےبعد اس سے منع کردیا۔ 20

6۔خلیفہ دوم کا یہ قول مشہور ہے {متعتان کانتا علی عہد رسول الله{ص}و انا انہی عنہما و اعاقب علیہما: متعۃ الحج و متعۃالنساء}21دو متعے جو رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانےمیں رائج تھے میں ان سےمنع کرتاہوں اور جو ان کا مرتکب ہو ااسے سزا دوں گا: متعۃ النساء اور حج تمتع۔خلیفہ دوم کے اس قول سے واضح ہو جاتاہے کہ متعہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانےمیں منسوخ نہیں ہوا تھابلکہ انہوں نے اپنی طرف سے منع کیا تھا ۔ فریقین کی روایتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا ہے بلکہ خلیفہ دوم نےاس حکم پر عمل کرنے سے روکاہے وہ کہتا ہے :{ایہا الناس ثلاث کن علی عہد رسول الله.انا انہی عنہن و احرمہن و اعاقب علیہن وہی ه متعۃ النساء و متعۃ الحج و حی علی خیرالعمل} اےلوگو:تین چیزیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانےمیں رائج تھیں میں ان سےمنع کرتا ہوں اور انہیں حرام قراردیتا ہوں ۔ جس کسی کو ان کا مرتکب پاوَں گا اسےسزا دی دوں گا وہ تین چیزیں یہ ہیں :عورتوں سے متعہ کرنا ،حج تمتع اور حی علی خیر العمل۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پہلے اور تیسرے مسئلے میں خلیفہ کی ممانعت ابھی تک باقی ہے لیکن حج تمتع کوخلیفہ دوم کی مخالفت  کےباوجود مسلمان بجا لاتے ہیں ۔22

عقد موقت کے مخالفین اس بارے میں بہت سےشبہات پیش کرتےہیں جو  عموما نکاح موقت سے آشنائی نہ رکھنےکی وجہ سے ہے۔ ہم یہاں عقد موقت کےسلسلے میں کئےگئے دو اعتراضات کا مختصراجواب دینے کی کوشش کرینگے ۔

1۔شادی کا مقصد ازداجی زندگی اور نسل کو باقی رکھناہے جبکہ یہ ہدف صرف عقد دائمی کےذریعےحاصل ہوتا ہے کیونکہ متعہ یا عقد موقت کرنےکا مقصد صرف جنسی خواہشات کو بجھانا ہے  ۔ 23

جواب:اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شادی کرنےکا ایک مقصد نسل کو باقی رکھنا اور ازدواجی زندگی کوقائم کرنا ہے لیکن شادی کرنے کا مقصد
صرف یہی نہیں بلکہ جنسی لذتوں کو جائز طریقے سے پورا کرنا اور معاشرے کو فساد اور برائیوں سے پاک رکھنا بھی شادی کے اہم اغراض میں سے ہے۔لہذا جب عقد دائمی کےلئےراستہ ہموارنہ ہو تو ان اہداف کو حاصل کرنے کا معقول اور جائز طریقہ عقد موقت ہے ۔ علاوہ ازیں بہت سارے افراد تولیدنسل کی خاطر اس قسم کی شادی کرتے ہیں کیونکہ متعہ اور دائمی شادی سےپیدا ہونےوالےبچوں کے احکام مشترک ہیں۔
2۔متعہ عورت کی شرافت و کرامت کے ساتھ منافات رکھتاہے کیونکہ یہ ایک قسم کی جسم فروشی ہے ۔ عورت کی عزت وکرامت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ کچھ چیزوں کی خاطر اپنے آپ کو ایک اجنبی مرد کے سپرد کرے ۔

جواب:متعہ اوردائمی شادی کے درمیان ماہیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ۔جو کچھ عورت مرد سے لیتی ہے وہ مہر ہے۔ان دونوں قسموں میں مرداپنی بیوی سے لذت اٹھانے کا حق رکھتا ہےجس کے مقابلےمیں مردپرعورت کا مہر واجب ہوتا ہے۔عقد موقت اور دائمی کوئی مالی تجارت نہیں بلکہ یہ ایک مقدس عہد وپیمان ہے جو معقول اور جائز طریقے سے شوہر اور بیوی کے درمیان انجام پاتا ہے ۔یہ بات بہت تعجب آور ہے کہ جو لوگ اس قسم کی شادی پر اعتراض کرتے ہیں یہیں افراد اس دور میں جہاں کچھ شیطان صفت افراد اپنے جنسی خواہشات کو پوری کرنے کے لئےعورتوں کو مختلف طریقوں سے شکار کرتے ہیں اور انہیں اپنی جنسی پیاس بجھانے  کا ایک وسیلہ سمجھتے ہیں  اسے  جدید دور کے تہذیب و تمدن  کے طور پر قبول کرتے ہیں ۔یہ کیسےممکن ہے کہ اگرایک عورت اپنی مرضی سے کسی کےساتھ متعہ کرےتو یہ عورت کی شرافت کے خلاف ہو لیکن اگر ایک عورت چند پیسوں کی خاطر کسی لہوو لعب کی محفل میں یا کسی نائٹ کلب میں ہزاروں عیاش مردوں کے سامنےان کی جنسی خواہشات کو ابھارنے کی خاطر ہر قسم کی حرکتیں انجام دے اور چند افرادکے ہاتھوں اس کی عزت لٹ جائے تویہ عورت کی کرامت و شرافت کے خلاف نہ ہو۔ 24

بہت افسوس کی بات ہے کہ بعض مسلمان مردوں اور عورتوں کی طرف سے متعہ جیسےاسلامی احکام کی بے حرمتی ہوئی ہے۔ بعض خود خواہ مردوں اور عورتوں نے اس اہم اسلامی قانون کے فلسفےکو پاوٴں تلے روندتے ہوئے اسے صرف لذت اٹھانے کا وسلیہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے کچھ موقع پرست نادان افراد کو موقع مل گیا تاکہ وہ اسی بہانے سے اس حکم شرعی کو ایک فعل قبیح کےطورپر پیش کریں۔ائمہ اہلبیت علیہم السلام نے اسی لئےشادی شدہ افراد کو متعہ کرنےسےمنع فرمایا اس کے باوجود انہوں نےہمیشہ اس حکم شرعی کی اہمیت کے پیش نظر اہل سنت کے نظریے کی سختی سے مخالفت کی اور اس بارے میں تقیہ اختیار کرنے کو جائز قرار نہیں دیا ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : جن موضوعات میں تقیہ نہیں کروں گا ان میں سے ایک متعہ ہے ۔25

امام موسی کاظم علیہ السلام نے علی بن یقطین کو{ جنہوں نے متعہ کیا تھا }سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: تمھیں متعہ کرنے کی کیا ضرورت ہے خدا نے تمہیں اس کام سے بے نیاز کیا ہے ۔ آپ ؑکسی اورمقام پر فرماتےہیں:یہ کام اس شخص کےلئے مناسب ہےجو شادی شدہ ہونے کے باوجود خدا نے اسے اس کام سے بے نیاز نہیں کیا ہے۔جو شخص شادی شدہ  ہے وہ اس وقت متعہ کر سکتا ہے جب اس کی بیوی اس کے پاس نہ ہو یعنی اس تک رسائی نہ ہو۔26

بہر حال جو کچھ واضح ہے وہ یہ کہ شارع کی طرف سے اس شرعی حکم کو صادر ہونےاورائمہ اہلبیت علیہم السلام کا اس مسئلے کے بارے میں رغبت دلانے کا مقصد یہ نہیں کہ چند ہوسران اورشیطان صفت افراد اس کے ذریعے اپنی جنسی لذتیں پوری کریں یا اس کے ذریعے چند سادہ لوح عورتوں اور بےسرپرست بچوں کو مشکلات میں گرفتا ر کریں ۔27


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

 

 

حوالہ جات:
۱۔روم،21۔
۲۔نحل،72۔
۳۔نساء،3۔
۴۔نساء،24۔
۵۔مجمع البیان ،ج3ص60۔ ناصر مکارم شیرازی،شیعہ پاسخ می گوید،ص 114 ۔
۶۔وسائل الشیعۃ ،ج14،ابواب المتعۃ،باب1۔
۷۔تفسیر ابن کثیر،ج2، ص244۔
۸۔مفاتیح الغیب،ج10ص52۔
۹۔مومنون ،5 – 7۔معارج،29 – 31۔
۱۰۔نساء،25۔
۱۱۔سید شرف الدین عاملی ،الفصول المہمۃ ،ص75۔
۱۲۔صحیح بخاری ،ج3،ص246۔صحیح مسلم،ج2،ص1027۔
۱۳۔صحیح بخاری،ج6ص27۔
۱۴۔صحیح مسلم،ج2ص1023۔
۱۵۔سید محسن امین ، نقض الوشیعۃ ،ص 303۔شرف الدین عاملی ،مسائل الفقیۃ ،ص69۔ علامہ امینی ،الغدیر،ج6ص225۔،شیخ محمد حسین کاشف الغطاء،اصل الشیعۃ و اصولہا،ص171۔
۱۶۔شرح صحیح مسلم،نووی ،ج9،ص191۔
۱۷۔ابن اثیر،نہایۃ،ج2،ص488۔
۱۸۔نساء،24۔
۱۹۔سیدشرف الدین عاملی،الفصول المہمۃ ،ص79۔
۲۰۔ صحیح مسلم ، ج 2 ،ص131۔
۲۱۔فخر الدین رازی ،مفاتیح الغیب،ج10،ص52۔
۲۲۔ جعفرسبحانی،عقائدامامیہ ،ص367۔
۲۳۔تفسیرالمنار۔
۲۴۔مرتضی مطہری،نظام حقوق زن دراسلام،ص67۔
۲۵۔نظام زن در اسلام،ص82۔
۲۶۔ایضاً،ص82۔
۲۷۔ایضاً۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) تکفیریت کے ناسورسے نجات اور استحکام پاکستان کے لئے تمام معتدل قوتوں کا متحد ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے پاکستان کو بنانے اکابرین معتدل شیعہ سنی تھے ۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مرکزی شوریٰ عمومی کے اجلاس کے تیسرے اور آخری روز ،،وحدت اسلامی اور پاکستان کا استحکام ،،کے عنوان سے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ علمی اختلافات علما تک محدود رہنے سے فتنہ پیدا نہیں ہوتا۔ایسے فتنہ گروں کا راستہ روکنا ہو گا جو باہمی اختلافات کو ہوا دے کر امت مسلمہ کو تصادم کی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں۔ملت تشیع کے اندر بھی ایسے اختلافات زور پکر رہے ہیں جو ہمارے لیے نقصان دہ ہیں۔علماء کی ذمہ داری ہے کہ ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کریں۔

انہوں نے کہا کہ مشترکہ سیاسی اہداف اور استحکام پاکستان کے لیے شیعہ سنی جماعتوں کو یکجا ہونا ہو گا۔پاکستا ن کی سالمیت و بقا تکفیریت کے خاتمے سے مشروط ہے جس کے لیے شیعہ سنی پورے عزم سے ساتھ میدان میں موجود رہیں۔پاکستان میں قانون کی عملداری اور انصاف کے فروغ کے لیے ہم خیال مذہبی جماعتوں کا سیاسی اشتراک وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس وقت لاقانونیت کا گہر ا زخم ہمارے جسم میں رس رہا ہے۔مسنگ پرسنز لاقانونیت کی بدترین مثال ہیں۔کسی مہذب معاشرے میں اس کی اجازت نہیں۔یہ وطن قانون شکن قوتوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔اس ملک کی اپنی کوئی پالیسی نہیں۔ہم نے ارض پاک کو بیرونی دباؤ سے آزاد ریاست بنانا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی اپنے جغرافیائی ،سیاسی اور معاشرتی ضرورتوں،قومی وقار اور عوامی امنگوں کے تابع ہو۔

انہوں نے کہا کہ تکفیریت نے ایک طرف مسلمانوں کو ذبح کیا اور دوسری طرف اسلام کے روشن تشخص کو داغدار بنایا۔ہماری سیاسی وحدت عصر حاضر کا تقاضہ اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ملک دشمن بدعنوان لوگوں کا راستہ روکنے کے لیے ہم نے مل بیٹھنا ہے۔مذہبی جماعتوں کا یہ قرب ہمارے سیاسی اتحاد کا آغاز ثابت ہوگا۔ہم سے زیادہ سے اس وطن کے باوفا بیٹے اور کہیں نہیں۔بہت جلد اس ملک کی بھاگ دوڑ اس ملک کے باوفا بیٹوں کے ہاتھ میں ہو گی۔انہوں نے سیمینار میں شریک مذہبی رہنماؤں اور مختلف علاقوں سے آئے ہوئے اراکین کا شکریہ ادا کیا ۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان قومی الیکشن 2018میں بھر پور طریقے سے حصہ لے گی۔ملکی سیاست میں ایک باوقار سیاسی کردار ادا کرئے گی اور ان سیاسی قوتوں کا راستہ روکیں گے جو وطن عزیز کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی نےمرکزی شوریٰ عمومی کے تین روزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم ڈبلیو ایم وطن عزیز میں عدل وانصاف کے قیام کے لئے کوشاں ہے ہم اقتدار کی سیاست کی بجائے اقدارکی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ہم ہر مظلوم کے حامی ہیں چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اور ہر ظالم کے مخالف ہیں چاہئے وہ مسلمان ہیں کیوں نا ہو، سیاست عوام کی ?خدمت کا نام ہے ،لہذہ آئندہ انتخابات میں مجلس وحدت مسلمین ملک بھر کے تمام صوبوں کے اہم اضلاع سے اپنے عوامی نمائندان میدان میں اتارے گی۔

انہوں نے مزیدکہاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم جماعتوں پر پابندی عائد کرے جو ماضی میں دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث رہی ہے اور ملکی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں۔ملکی سلامتی و بقاء4 کی خاطر مجلس و حدت مسلمین کا ہر کارکن اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرنے کیلئے تیار ہے۔ایم ڈبلیو ایم شعبہ سیاسیات اپنی شوریٰ عالی سے منظورشدہ پالیسی کے مطابق بیک وقت دو انتخابی حکمت عملیوں پر کام کر رہی ہے۔ جس میں معتدل اور ملک دوست جماعت کے ساتھ انتخابی اتحادکرناشامل ہے۔تاکہ وطن عزیز کو پر امن اور تکفیریت سے پاک قائد اعظم اور اقبال کا پاکستان بنائیں۔ اس سلسلے میں ملک کی تمام بڑی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

وحدت نیوز  (جیکب آباد)  مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ اسرائیل سے محبت اور دوستی کا ہاتھ ملاکرکر بن سلمان نے آزادی فلسطین کی تحریک سے غداری کی ہے اور آل سعود کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ہے، اب امت مسلمہ پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ آل سعود سے حرمین شریفین کو شدید خطرہ ہے۔ امریکہ اور عالمی سامراج کی خوشنودی آل سعود کے لئے خدا و رسول ﷺ کی خوشنودی پر مقدم ہے۔ امریکہ برطانیہ اور شیاطین عالم کو خوش کرنے کے لئے وہابیت کو فروغ دینے کا بیان آل سعود کا اقبال جرم ہے۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ حق اپنی صداقت کے ساتھ آشکار ہوتا جارہا ہے جبکہ باطل اور اس کا مکروہ چہرہ ہر روز پہلے سے زیادہ بے نقاب ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں تسلسل کے ساتھ شیعیان علی ؑ اور ہزارہ مومنین کا قتل تشویشناک ہے۔ حکومت کے بلند وبالا دعووں کے باوجود بلوچستان سے لشکر جھنگوی اور داعش کے تربیتی مراکز کو ختم نہیں کیا جارہا۔ ملت جعفریہ کو وطن عزیز پاکستان سے محبت کی سزا دی جارہی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ کے مومنین اکیلے نہیں ہیں ،پوری قوم ان کے درد کو محسوس کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ اور ملت جعفریہ کے خلاف ملکی اور عالمی سطح پر جو سازشیں تیار کی گئی ہیں، ان کا مقابلہ بصیرت، شعور، صبر و استقامت اور جہد مسلسل ہی سے ممکن ہے۔ پاکستان میں بسنے والے چھ کروڑ شیعہ اپنی الٰہی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے میدان عمل میں آجائیں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) سوشل میڈیا کی اہمیت اور معاشرے پر اس کے کردار سے ہر کوئی واقف ہے۔ یہ بات بھی نئی نہیں رہی کہ دنیا بھر میں خاص کر نئی نسل اسی سوشل میڈیا کے توسط سے بہت اہم امور بھی انجام دیتے ہیں اور بہت ہی قبیح ترین کام بھی۔ ترقی یافتہ ممالک میں کیا کچھ ہورہا ہے، عام طور پر ان کی خبریں ہمارے ہاں بہت کم پہنچتی ہے۔ اور جو کچھ پہنچتی ہے وہ بھی سوشل میڈیا کے ہی طفیل۔ جبکہ زبان و بیان کی مشکلات اور دلچسپیوں کی تفریق کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا ذرایع کی اپنی پالیسیوں کے تحت دنیا میں سوشل سرکلز بھی ملکوں، معاشروں، مذاہب، اور زبانوں کے حساب سے ہی ایک دوسرے علاقے، زبان، معاشرہ اور ملک کے باسی تک پہنچ پاتا ہے۔ مثلا پاکستانی اردو اور انگریزی میں آئے پوسٹ تو دیکھتے ہی رہتے ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ عربی، چائنیز،یا ہندی زبانون میں پبلک فورمز میں کئے پوسٹ بھی بار بار آپ کے سامنے آتا رہے۔ زمانے کا تقاضا ہے کہ ہم ان جدید ذرائع کو بہتر انداز میں اور مثبت کاموں کیلئے استعمال کرنا سیکھیں اور اپنی نسلوں کو سکھائے۔ لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہم مثبت کم جبکہ منفی سرگرمیوں کیلئے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے سکول اور کالج کے طلباٗ خاص طور پر متاثر ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس زمانے کو ثقافتی یلغار کا زمانہ بھی شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے باقاعدہ جنگ سے کترانے لگے ہیں اور سمجھ لیا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن کی جنگوں سے کسی کی جیت نہیں ہوئی۔ چین جیسا اقتصادی سپر پاور اس حقیقت کو پہلے ہی درک کر چکا تھا۔ اب زمانہ سوشل جنگوں کا ہے اور ہمارے سامنے عرب سپرنگ، ویلویٹ ریوولیوشن، اور دیگر مثالیں موجود ہیں کہ سوشل میڈیا پر اب مختلف معاشرے باقاعدہ جنگیں لڑ رہی ہیں

چائینہ مجبور ہے کہ وہ اپنی معاشیت اور ثقافت کو بیرونی یلغار سے بچانے کیلئے مغربی سماجی ویب سائٹس پر پابندی لگادیں۔ یہی کچھ حال روس کا ہے۔ ایران سمیت دیگر کئی ممالک نے بھی بیرونی ممالک کی سماجی ویب سائٹس کو بند کردیئے، پاکستان میں بھی کافی عرصۃ فیس بک اور یوٹیوب بند رکھا گیا۔ حال ہی میں فیس بک پر الزام لگا کہ کڑوڑوں صارفین کا ڈیٹا امریکی انتخابات کے دوران ناجائز طریقے سے استعمال ہوئے، فیس بک کے بانی نے معذرت بھی کی اور اب امریکا اور برطانیہ میں ان کے خلاف کیسز بھی چل رہے ہیں۔ مسلمان ممالک خصوصا پاکستان کی اپنی کوئی سماجی ویب سائٹ تو ہے ہی نہیں، بیرونی دنیا کے ان اداروں اور سائٹس پر ہماری چلتی نہیں۔ پابندی ہم سے لگنی نہیں کیونکہ استعمال کئے بنا کسی نے رہنا نہیں۔ چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے۔ اور استعمال کرنیمیں کوئی قباحت اور مسئلہ بھی بظاہرنہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی چیز کی بہتات اچھی نہیں ہوتی۔ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں کوئی باقاعدہ گائیڈ لائن یا طریقہ کار نہ ہوں تو اسکے مضر اثرات سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ ہم شاید فی الحال اس چیز کو درک نہیں کرپائے، لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے سامنے امریکا جیسی ترقی یافتہ ممالک بھی مجبور ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو یقینی بنانے کیلئے باقاعدہ سرکاری فنڈ ز میں سے بجٹ مختص کرے۔ ہر ریاست میں محکمہ تعلیم کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سکولوں میں بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو یہ بھی سکھائے کہ ان کے بچوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کے آداب کیسے سکھائے جائیں۔کیوں؟ کیوں کہ ان کے تجربات ہوچکے ہیں ماں باپ گھر میں کتنا ہی خیال کیوں نہ رکھے، سکول میں کتنی اچھی تعلیمی نظام کیوں نہ ہو اگر طالبعلم کا حلقہ احباب،خصوصا آج کل کے زمانے میں سوشل نیٹ ورک اچھے نہ ہوں تو وہ کسی اور راہ لگ جانے میں دیر نہیں کرتا۔امریکہ اپنی نئی نسل کو سوشل میڈیا پر کس طرح کے کردار ادا کرنے اور سکھانے پر مجبور ہیں۔؟ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور ایسا کرنے سے کیا کچھ فرق پڑیگا؟ اسطرح کے سوالات تفصیل طلب ہے۔

کچھ سالوں سے امریکی ریاستوں کی حکومتیں باقاعدہ کوشش کررہی ہیں کہ تعلیمی نظام کو بہتر ٹریک پر رکھنے کیلئے سوشل میڈیا کے بہتر استعمال کو یقینی بنائی جائے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی شہر نیویارک حکومت کے محکمہ تعلیم نے ] طلبا کے سوشل میڈیا کے رہنمائی خطوط کے لیے والدین اور اہل خانہ کی رہنمائی[ کے نام سے باقاعدہ بارہ سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کیلئے الگ اور بارہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کیلئے الگ گائیڈ لائن وضع کئے اور ان کو دنیا کے مختلف زبانوں میں تحریرکرنے کے ساتھ ساتھ والدین کی رہنمائی کیلئے ویڈیوز اور دوسروں کے آرا تک شامل کرکے شایع کردیئے۔نیویارک سٹی گورئمنٹ اور سکولز کی مرکزی ویب سائٹ پر بھی ڈال دیئے۔]جسکا خلاصہ اس تحریر میں شامل ہیں[۔ اور شہر کے ہر سکول اور ہر سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو بھی ظاہر ہے پہنچا دی گئی ہیں تاکہ۔۔۔؟ سوال یہ ہے کیا یہ بات نیو یارک حکومت تک محدود ہے؟ کیا دوسری قومیں ہماری طرح ہیں؟ نہ سکولوں میں تعلیم کا بہتر نظام، نہ نئے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت؟ یقینا نہیں، چائینہ، یورپ، رشیا، اور دنیا بھر میں سوشل میڈیا اتھکس کو اب ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بچوں اور بچوں کیوالدین کی تربیت کی جاتی ہے۔ انکو سوشل میڈیا کے آداب باقاعدہ پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں پاکستانی، خصوصا گلگت بلتستانی۔ مسلمان ہیں۔ سماجی و دینی اقدار ہیں۔ بہت ساری ذمہداریاں ہیں سب پر۔ سرکاری پالیسیوں کو تورکھیں اپنی جگہ وہ تو دو انچ تارکول سڑک پر چڑھا کے احسان عوام پر ڈالتے ہیں۔ لیکن والدین؟ اکثریت خود ٹیکنالوجی سے واقف نہ تعلیم اتنی کہ دنیائی حوادث سے آشنائی ہو۔ اور ان حوادث کیلئے اپنے بچوں کی کوئی رہنمائی کرسکیں۔ نتیجتا، بچے اپنی راہ خود چنتے نکلتے جاتے ہیں، اچھے کو برا سمجھے، یا کچھ برے لوگ برائی کو ہی اچھا بنا کر انکو سمجھائے، بچارے والدین کو تو پتہ ہی نہیں چلتا۔ جب سالہا سال شہروں میں رہنے کے بعد اور بعض تو اپنے ہی گھر میں ہی رہتے ہوئے کسی اور سوچ کا مالک بن چکنے اور والدین، اخلاق، اطوار، روایات، سب کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہونے تک بے خبر رہتے ہیں۔ باتیں لمبی ہوجارہی ہے۔ مختصرا۔سوشل میڈیا کے بارے میں اپنے بچوں کی رہنمائی پر توجہ دیں۔۔ اگر والدین اور گھر کے بڑے نہیں دینگے تو کل کو پچھتائیں گے۔اس کیلئے کم از کم شیطان بزرگ امریکہ کی طرفسے اپنے شہریوں کیلئے پیش شدہ رہنمائی (اردوزبان میں تحریر لنک مضمون کے آخر میں ) کا ہی ایک بار مطالعہ کر لیں۔۔۔

خلاصتا چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

۱۔ شہ سرخی مشق: اگر آپ کا بچہ ایک اخبار کے مضمون کا عنوان ہوتا تو یہ اس مضمون کے ساتھ کیسی شہ سرخی دیکھنا چاہیگی؟ شہ سرخی کو تحریر کریں۔ دوستوں، اہل خانہ اور مشہور افراد کی شہ سرخیاں کیسی ہو سکتی ہیں۔ آپ کی اور آپ کے بچے کی موجودہ آن لائن جگہوں پر موجود تصاویر اور پوسٹس کی نوعیت کا جائزہ لیں۔ کیا یہ آپ دونوں کے پسندیدہ عنوان سے میل کھاتی ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا مستقبل کی پوسٹس ایسی ہونی چاہئیں؟ ۲۔ بچے کو پتہ ہونا ضروری ہے کہ آپ کے بچے کے پوسٹ سے انکے اساتذہ، دوست، رشتے دار کیا تاثر لیتے ہیں؟یعنی اسکی شخصیت اور سوچ کیسی ہے۔ ذاتی حساس معلومات کو پوسٹ نہ کریں۔اپنے بچے کو بتائیں کہ اپنا پتہ، تاریخ پیدائش، یا دیگر ذاتی معلومات کو پوسٹ کرنا کیوں غیر محفوظ ہے اور شناخت کی چوری (آئی ڈینٹٹی تھیفٹ) کا کیا مطلب ہے۔ ۳۔ تعارف، پس منظر کس طرح سے لکھ کر پیش کرتے اور کیسی تصاویر شیر کرتا ہے؟ عام لوگوں کو ان سے کیا تاثر مل رہا ہے؟ ۴۔ بچے کو جاننا لازمی ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ پوسٹ کریں - اپنے سامعین کو ذہن میں رکھیں، اس کیلئے والدین کا اپنے بچے کیساتھ ایک مشترکہ اکاونٹ بنانا، پرائیوسی کا خیال، دوستیاں وغیرہ مل کرنا، بات چیت جاننے والوں سے ہی کرنا،۔۔ جو چیز پوسٹ کی جارہی ہیں اسکی ضرورت، اہمیت، افادیت سے واقف کاری بہت اہم ہے۔ ۵۔ اپنے آن لائن سرگرمیوں کے نتائج کے بارے میں سوچیں اور یہ جانیں کہ یہ کس کو بطور دوست، یا فالو کرنے والا وغیرہ شامل کررہے ہیں۔ ذاتی حساس معلومات کو پوسٹ نہ کریں، معلومات کو راز رکھیں، سکول سے ملنے والی بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر مبنی رپورٹ پر غور کریں، بچے کے اکاونٹ کو خود فالو کریں، دوست بنائے رکھیں اور انکی رہنمائی کرتے رہیں۔ ۶۔ سائبر غندہ گردی کی دھمکیوں کو سنیجیدہ لیں۔ پنے بچے کے اسکول کے دوستوں اور ان کے ساتھ ملکر کرنے والی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، گھر پر طرز عمل سے آگاہ رہیں، اگر آپ کو شک ہے کہ آپ کے بچہ کیساتھ کوئی غندہ گردی کر رہا ہے تو صورت حال کو سمجھنا اہم ہے۔ ۷۔ اپنے بچے کی آن لائن برادریوں میں مثبت رہنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ایسے دیگر افراد کی نشان دہی کریں جو مثبت انداز میں شرکت کرتے ہیں۔ ۸۔ اس بات پر دھیان دیں آپ کے بچے کا رویہ ایک دم کیوں تبدیل ہو جاتا ہے۔ روزہ مرہ کی سرگرمیوں سے خارج ہونا، آن الئن اور ٹیکسٹ کرتے وقت غصہ کرنا، جب کسی بالغ کی آمد ہو تو جلدی سے اپلیکشنز کو بند کرنا، یا اس بارے میں بات چیت کرنے سے اجتناب کرنا کہ یہ کمپیوٹر پر کیا کر رہے ہیں۔ ۹۔ حالات حاضرہ کو استعمال کریں۔ خبروں میں واقعات اور دوستوں اور اہل خانہ کی صورت حال ذمہ داری کے ساتھ پوسٹ کرنے کے بارے میں بات چیت کرنے کے عمدہ مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ''ہمیں یہ جاننے کی ضرورت کیوں ہے؟'' جیسے سوال کا تیار جواب فراہم کرتا ہے۔

 

تحریر: شریف ولی کھرمنگی( بیجنگ)

وحدت نیوز(کوئٹہ)  مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کےسیکریٹری جنرل کربلائی رجب علی نے کہاہے کہ ہمیں ملک میں عدل و انصاف کی عدم موجودگی کا سامنا ہے اور اسکی عدم موجودگی نے ملک کے اندر کرپشن، قانون شکنی، جرائم میں اضافے اور ایسے دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں۔جمہوریت انصاف کی بحالی کیلئے ہوتی ہے، اس نظام میں انصاف کو ترجیح دی جاتی ہے، پاکستان کے عوام حقیقی جمہوریت کے خواہش مند ہیں، ہم ہمیشہ جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ حقیقی جمہوریت ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں پارلیمانی نمائندے اپنے علاقے کے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہیں، عوامی نمائندے اپنے اختیارات کے استعمال سے عوام کو درپیش مسائل کو حل کرتے ہیں اور قوم کی خدمت حقیقی نمائندوں کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔

بیان میں مزید کہا گہا ہے کہ ہمارے نمائندے نے اپنے علاقے میں بِلا رنگ و نسل و مذہب عوام کی بھرپور خدمت کی ہے، جس کی گواہ علاقے کے عوام ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں عدلیہ قانون ، آئین اور انسانی حقوق کی محافظ ہوتی ہے۔ قیام امن اور کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھائے جانے چاہئے اور عدلیہ کو چاہئے کہ وہ بغیر کسی سیاسی دباؤ اور خوف کے فیصلہ کرے اور جمہوریت کی تکمیل میں اپنا  کردار ادا کرے۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ موجودہ جمہوری نظام میں عدلیہ کا کردار سب سے زیادہ اہم ہو گیا ہے، بہتر نظام کیلئے عدل و انصاف کو یقینی بنایا جائے وگرنہ ہمارا نام صرف نام کا جمہوری نام رہ جائے گا اور اس کے اندر جمہوریت کی کوئی خوبی نظر نہیں آئے گی۔

Page 85 of 266

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree