
Ahsan Mashadi
وحدت نیوز(اسلام آباد)بلتستان کے بزرگ عالم دین ،محکمہ شرعیہ کے قاضی القضاۃ ،کچورا کے امام جمعہ حجۃ الاسلام شیخ صادق نجفی طاب ثراہ ایک طویل عرصہ قوم وملت اور اسلام کی خدمت کرنے کے بعد اس عالم فانی سے عالم بقا ءکی جانب کوچ کرگئے ہیں۔
حجۃ الاسلام شیخ صادق نجفی کے سانحہ ارتحال پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ ، علامہ سید احمد اقبال رضوی، علامہ آغا سید علی رضوی، علامہ احمد علی نوری ، وزیر زراعت کاظم میثم، علامہ علی شیر انصاری سمیت دیگر مرکزی و صوبائی قائدین نے دلی افسوس اور پسماندگان سے تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔
مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے مشترکہ تعزیتی پیغام میں قائدین نے کہا کہ حجۃ الاسلام شیخ صادق نجفی کی رحلت ارض بلتستان کے لیے ایک ناقابل تلافی حادثہ جانکاہ ہے۔مرحوم کی رحلت پر اہل بلتستان،مرحوم کے حلقہ احباب اور فرزندان ودیگر بازمندگان کی خدمت میں تعزیت وتسلیت پیش کرتے ہیں اور مرحوم کی بلندی درجات کے لیے دعاگو ہے۔
خدا وند متعال حجۃ الاسلام شیخ صادق نجفی طاب ثراہ کو جوار آئمہ اطہار ؑ میں محشور فرمائے ۔ ان کے تمام پسماندگان کو اپنی بارگاہ سے صابرین اک عظیم اجر عطا فرمائے ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)شہداء کے افکار کی ترویج اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے اور استحکام وطن کے لئے دی گئی ان کی عظیم قربانیوں کی یاد میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے یکم جنوری سے دس جنوری تک عشرہ تکریم شہدائے پاکستان و تشیع جہاںمنانے کا اعلان کیا ہے اس سلسلے میں اسلام آباد میںدوجنوری بروز اتوار بوقت دن 1:00 بجے بمقام امام بارگاہ و جامع مسجد الصادق جی نائن ٹو اسلام آباد میں بیاد شہداء کانفرنس منانے کافیصلہ کیا ہے۔
عشرے کی تقریبات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما ملک اقرار حسین کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا جس میں ضلع راولپنڈی کے سیکرٹری جنرل مولانا علی اکبر کاظمی اور دیگر عہدیداروں نے شرکت کی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ دوجنوری بروز اتوار بوقت دن1بجے بمقام امام بارگاہ و جامع مسجد الصادق جی نائن ٹو اسلام آباد میں بیاد شہداء کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا جس میں مختلف مکاتب فکر کے علما،اور سیاسی و سماجی شخصیات مدعو ہوں گی۔جبکہ ملک بھرمیں ایم ڈبلیوایم کے اضلاع ویونٹس میںبھی تقاریب کا انعقاد کیا جائے گا۔
کانفرنس کے انتظامات اور مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے انتظامی کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں۔عشرہ تکریم شہداء پاکستان منانے کا مقصد پاکستان میں رونما ہونے والے مختلف سانحات و دہشتگردی کے واقعات میں نشانہ بننے والے اور عالم اسلام کے شہداء بالخصوص شہید سردار سلیمانی و رفقا کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔
وحدت نیوز(سکردو) وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے صوبائی وزیر زراعت و رہنما مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کاظم میثم اور ضلعی انتظامیہ کے سربراہان کے ہمراہ سکردو کے مشہور سیاحتی مقام بشو برج کے مقام کا دورہ کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر زراعت کاظم میثم نے بشو پل کے لئے خطیر رقم رکھنے پر وزیراعلی' گلگت بلتستان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بشو پل فزیبلٹی کے مراحل پر ہے۔
وزیر زراعت کاظم میثم نے بشو اور حلقہ دو کے دیگر سیاحتی مقامات کے حوالے تفصیلی بریفنگ دی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ جی بی نے کہا کہ بشو پل کا کام فوری طور پر کام شروع ہونا چاہیے تاکہ سیاحت کو فروغ ملے۔ بشو سمیت بلتستان ریجن کے تمام سیاحتی مقامات کو بہتر بنانے کیلئے سہولیات فراہم کرنے کے لئے اور یہاں کے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں جاری رکھیں جائیں گے۔
وحدت نیوز(سکھر)مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری سیاسیات وتربیت محترمہ نرگس سجاد جعفری اپنے تین رکنی مرکز ی وفد جس میں محترمہ بیناشاہ مرکزی مسئول آفس و رابطہ سیکریٹری، محترمہ شبانہ میرانی کے ہمراہ، صوبہ بلوچستان ،صوبہ سندھ میں کراچی کا کامیاب دورہ کرنے کے بعد اندرون سندھ سکھر پہنچیں جہاں انہوں ضلع سکھر کی ضلعی سیکریٹری جنرل محترمہ سعیدہ سے ملاقات کی اور مختلف تنظیمی وتربیتی امور پر گفتگو کی ۔
انہوں نے اپنے دورے کے حوالے گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک نظریاتی ،سیاسی اور مذہبی تنظیم ہے ۔ اللہ تعالیٰ اسے ایسے ورکرز دیئے ہیں جن میں جذبہ ایمانی کے ساتھ ساتھ خدمت کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے جو کہ قابل رشک اور ستائش ہے ۔ اور ہم نے اس دورے کے دوران دیکھا کہ کس طرح خواتین میں کام کرنے کی لگن موجود ہے ۔ مختلف خواتین سے ملنے کے بعد معلوم ہوا کہ اگر انہیں میدان فراہم کیاجائے اور سرپرستی کی جائے تو ان میں کس قدر کام اور خدمت کا شوق پایا جاتاہے ۔
انہوں نے کہا کہ خواتین نے ہمیں یقین دلایا کہ جب بھی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو ان کی ضرورت پڑی وہ میدان میں آئیں گی اور اپنے مردوں کے شانہ بشانہ امام عصر (عج) کے ظہور کے لئے زمینہ ہموار کرنے میں اپنا کردار پیش کریں گی ۔ ہم جس طرح عزاداری سید الشہداء میں اپنے بچوں کے ہمراہ مجالس عزاءکی مجالس و محافل اور جلوسوں میں شرکت کرتی ہیں اسی طرح اپنے وقت کے امام(ع) کےظہور کے لئے زمینہ سازی میں بھی شریک ہونگیں ۔ ہمیں پاکستان میں مجلس وحدت کے قائدین پر پورا یقین ہے کہ وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑیںگے ۔جس طرح پاکستان میں جب بھی مکتب اہلبیت ؑ کو مشکل پیش آئی ہے تو ہماری واحد جماعت(مجلس وحدت مسلمین ) پیش پیش نظر آتی ہے ۔ ہم بھی اپنی توان کے مطابق اپناحصہ ضرور ڈالیں گی ۔ان شاءاللہ ۔
وحدت نیوز :مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی ضلعی سیکریٹری جنرل ضلع اسلام آباد محترمہ صدیقہ کائنات صاحبہ نے افغان مہاجرین کی فیملیز کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت اسلام آباد کے علاقہ بھارکہو میں راشن اور دیگر سامان تقسیم کیا ہے ۔محترمہ خدیجہ کائنات نے اس سے پہلے بھی علاقہ بھارہ کہو ، راولپنڈی کے علاقہ خیابان سر سید میں بھی افغان بے سہارا مہاجرین کی امداد کے طور پر بستر ، لباس ،ادویات اور خواراک تقسیم کی ہیں ۔
ضلع اسلام آباد اور راولپنڈی خواتین برادران کے شابشانہ اس کار خیر سےپیچھے نہیں رہیں بلکہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں ۔ خواہر صدیقہ کائنات کا کہنا تھا کہ آج سے۲۰ دن پہلے راولپنڈی اور اسلام آباد کے پسماندہ شیعہ نشین علاقوں میں افغانستان سے شیعہ فیملی اپنے اہل وعیال کے ہمراہ بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت کرکے پہنچیں۔ یہ لوگ چمن اورطورخم باڈر سے آئے ہیں ۔ انہوں نے افغانستان کے اندر بھی ایک طولانی سفر اورصعوبتیں برداشت کیں اور یہاں آکر بھی انہیں ٹرانسپوٹروں نے لوٹا ۔ ۱۵۰۰ روپےکا کرایہ ان سے ۵۰۰۰ ہزار سے ۲۵۰۰۰ ہزار تک لیا گیا ۔
کوئٹہ اور خیبر سے ہوتے ہوئے یہاں کیپیٹل سٹی اسلام آباد پہنچے ۔ زبان انہیں نہیں آتی ۔ شیعہ کے علاوہ کوئی ان کا پرسان حال نہیں ۔ ان خاندانوں میں شہداء اور سادات فیملیز ہیں جن کی حالت نہایت ناگفتہ ہے ۔ ایک ایک خاتوں کے ہمراہ ۵ سے ۸ تک بچے ہیں جن کا سنبھالنا بہت مشکل ہے ۔ ان لوگوں کے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں تھی ۔ ہمارے مخلص دوستوں نے بندہ حقیر سے ملکر کافی حد ان کی مشکلات کو کم کیا مگر کب تک ۔ کس حد تک ؟ اور کیسے؟ ایک چھوٹے گھر میں ۴سے ۵ فیملیز اور وہ بھی ناکافی وسائل کے ساتھ ۔
پانی کے مسائل،خواراک کا مسئلہ ،لباس کا مسئلہ ، اور بستر ،کمبل تک نہیں ۔اسی گھر میں ایک خاتوں نے اسی گھر کے برآمدے میں چادر لٹکا کر پناہ لی ہوئی تھی ۔ ایک فیملی جس کی خاتون مریض اور بچے بیمار تھے دوکان کے شٹر کے نیچے بیٹھی اپنے بچوں کو تسلیاں دے رہی تھی ۔لہذا ضلع اسلام آباد اور مرکزی خواہران شعبہ خواتین نے مجلس وحدت مسلمین کے برادران کے ہمراہ تعاون کر نا شروع کردیا ہے ۔ جہاں تک ممکن ہوا اس کار خیر سے پیچھے نہیںہٹیں گے ۔ان شاءاللہ
وحدت نیوز(آرٹیکل) غاصب صہیونیوں نے سنہ1948ء میں فلسطین پر اپنا ناجائز تسلط جماتے ہوئے اسرائیل نامی سرطان کو جنم دیا تھا جسے آج دنیا بھر میں غاصب ریاست کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے۔ سنہ1948ء کے نکبہ کے بعد فلسطین کی تاریخ میں سنہ2021ء تک کئی بار نکبہ کی تاریخ دہرائی جاتی رہی ہے۔دنیا میں امن قائم کرنے کا نام نہاد ٹھیکیدار امریکہ روز اول سے ہی غاصب ریاست کا سرپرست رہا ہے اور امریکہ کی کوشش سے ہی مغربی دنیا نے ہمیشہ اسرائیل کو ایک جدید اور پر امن ریاست کے طور پر پیش کرنے میں تمام حربوں کو استعمال کیا ہے۔
ترکی، مصر اور اردن کی جانب سے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کئے جانے کے بعد اب گذشتہ چند سالو ں میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ مغربی دنیا پوری طرح سے کوشش کر رہی ہے کہ عرب دنیا کے حکمرانوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات استوار کئے جائیں۔اس غرض سے چند ممالک جن میں عرب امارات، بحرین، سوڈان، مراکش وغیرہ شامل ہیں۔حال ہی میں غاصب صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والے ممالک کی فہرست میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان معاہدوں اور دوستانہ تعلقات سے امن قائم کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یقینا انتہائی مشکل ہے۔
امریکی آشیرباد تلے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے والے عرب اور افریقی ممالک یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا مقصد قضیہ فلسطین کے لئے نرمی پیدا کرنا ہے۔ حالانکہ ستر سال کی تاریخ عیاں ہے کہ اسرائیل نے جنگوں اور دہشت گردی کے ذریعہ فلسطین پر قبضہ بڑھاتے ہوئے صہیونی بستیوں کی توسیع کی ہے اور آج تک ان تمام معاہدوں کے بر عکس عمل انجام دیا ہے جو ماضی میں فلسطین سے متعلق کئے گئے ہیں۔لہذا عرب اور افریقی دنیا کے ممالک کی جانب سے فلسطینیوں کو یہ کہنا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر کے وہ فلسطینی عوام اور قضیہ فلسطین کو ریلیف دینا چاہتے ہیں یہ فلسطینیوں کے لئے تو کھلا دھوکہ ہے اور خود ان تعلقات قائم کرنے والے ممالک کے حکمرانوں کے لئے بھی دھوکہ کے مترادف ہے جو حقائق کو پس پشت ڈال کر امریکی آشیرباد کی خاطر اس گھناؤنے فعل کی انجام دہی میں مصروف عمل ہیں۔
اس تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے اوسلو معاہدے پر عمل درآمد کر کے سب سے بڑی تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا تھا جسے آج خود ان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے والے ممالک جہاں ایک طرف فلسطینی عوام کو امن کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں وہاں ساتھ ساتھ اپنے ممالک کی عوام کو معاشی امن اور معاشی ترقی کے نام پر بھی اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گذشہ چند سالوں میں مغربی دنیا نے غرب ایشیائی ممالک میں معاشی امن کی اصطلاح کو پروان چڑھا کر اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات استوا ر کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔سنہ 2019ء میں بحرین کے دارلحکومت منامہ میں ہونے والی اقتصادی امن کانفرنس بھی اسی کڑی کا ایک تسلسل تھاجس کا مقصد عرب دنیا کو اسرائیل کے ساتھ نام نہاد اقتصادی امن کے چنگل میں کھینچ لایا جائے۔یہ ایک بہت ہی گہری سازش تھی۔
اگر غاصب ریاست کے عہدیداروں کی جانب سے اقتصادی امن کے نعروں کا جائزہ لیا جائے توان کے نعروں اور ان کی منصوبہ بندی میں کسی بھی مقام پر فلسطین کی بات ہی موجود نہیں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ فلسطین کے پڑوس اور گرد ونوا ح میں موجود عرب ریاستوں نے اسرائیل کو اپنا پیشوا تسلیم کر لیا ہے اور فلسطین کو فراموش کرتے چلے جا رہے ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ دوستی کے عوض امن کے حصول کے سوال پراگر بات کی جائے تو ماہرین سیاسیات اور ماہرین بین الاقوامی تعلقا ت کہتے ہیں کہ اسرائیل کی ستر سالہ تاریخ جھوٹ، دھوکہ دہی، فریب، مکاری اور ظلم و جبر ک داستانوں سے بھری پڑی ہے۔جب جب بھی بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے ساتھ امن کے لئے کوئی معاہدہ کیا گیا ہے بدلے میں اسرائیل نے فلسطینیوں پر مزید ظلم اور جبر کے پہاڑ ہی ڈھائے ہیں۔لہذا اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی طرح جو بھی عرب اور افریقی یا خطے کی غیر عرب ریاستوں کے حکمران یہ سو چ کر اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کر رہے ہیں کہ ان تعلقات کے عوض امن قائم ہو سکتا ہے یہ کھلا جھوٹ ہے۔ایسا ہونا ہر گز ہرگز ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے نہ صرف فلسطین کے لئے امن فراہم نہیں کر سکتے بلکہ عنقریب آنے والا وقت یہ ثابت کرے گا کہ یہ تعلقات خود ان کے اپنے اقتدار اور ان کی ریاستوں کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔
حقیقت میں فلسطین کے معاملہ میں امن نہیں بلکہ انصاف کا تقاضہ کیا جانا چاہئیے۔یہ مسئلہ امن قائم کرنے سے زیادہ انصاف کی فراہمی مسئلہ ہے۔ اگر مسئلہ فلسطین میں انصاف کی فراہمی کو مرکز قرار دیا جائے تو پھر انصاف کا تقاضہ یہ کہتا ہے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے۔ہر اسی فلسطینی کا وطن ہے جو سنہ1948ء میں سرزمین مقدس فلسطین کا شہری تھا جس میں غیر صہیونی یہودی جو باہر سے نہیں آئے تھے، عیسائی اور مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے فلسطینی شامل ہیں۔ انصاف کا تقاضہ یہ کہتا ہے کہ جو بھی یہودی صہیونی فلسطین میں باہر سے آ کر قابض ہوئے ہیں وہ سب اپنے وطن کو جائیں، جن فلسطینیوں کو ان کے اپنے وطن سے جبری جلاوطن کیا گیا ہے ان کو واپس لایا جائے۔
افسوس ہے ان عرب حکمرانوں پر کہ جو خود بھی دھوکہ میں ہیں اور فلسطینی عوام کو بھی دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔عنقریب اسرائیل کا شر ان کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور اس وقت تک بہت دیر نہ ہو جائے۔لہذا ابھی وقت ہے کہ عرب و افریقی ممالک کی حکومتوں کو ہوش کے ناخن لے کر فلسطین کے ساتھ کسی بھی قسم کی خیانت کے مرتکب ہونے سے بچا لیں کیونکہ تاریخ کبھی خیانت کاروں کو معاف نہیں کرتی اور آنے والی نسلیں زمانہ در زمانہ ان خیانت کاروں پر ملامت ہی کریں گی۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان