وحدت نیوز (کراچی) محب وطن جماعتوں کو تصادم کی راہ پر اکسانے کے لیے مشتعل کرنا نواز لیگ کا پرانا ہتھیار ہے۔ عوامی مسائل سے حکومت کی دانستہ لاتعلقی جمہوری اقدار کے منافی ہے۔جمہوریت کا ہر وقت راگ الاپنے والے حکمرانوں کو وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ ہاوس سے ایک کلومیٹر مسافت پر گزشتہ سولہ روز سے ایک ملک گیر سیاسی و مذہبی جماعت کا لگا ہوا بھوک ہڑتالی کیمپ کیوں دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک بھر سے سینکڑوں قافلے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کے لیے بے چین بیٹھے ہیں۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویثرن کی جانب سے نمائش سے کراچی پریس کلب احتجاجی ریلی نکالی گئی ۔ کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے علامہ باقر عباس زیدی،علامہ نشان حیدر،علامہ احسان دانش،علامہ مبشر حسن ،علامہ علی انور،مولانا صادق جعفری ،علی حسین نقوی سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی احتجاجی مظاہرے میں خواتین ،بچوں سمیت ایم ڈبلیو ایم کارکنا ن کی بڑی تعداد شامل تھی مظاہرین نے ملک میں جاری شیعہ نسل کشی،دہشتگردی، لاقانونیت اور حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف بینرز اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے اور شیعہ و سنی اتحاد سمیت شیعہ قتل عام پر کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے خلاف آپریشن اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی احتجاجی مظاہرے سے خطاب میں مقررین کا کہنا تھا کہاایم ڈبلیو ایم مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی دہشتگردی،لاقانونیت،اور کرپشن کے خلاف احتجاجی بھوک ہڑتال سترہویں روزبھی جاری ہے حکومت کی طرف سے ملت تشیع کے ساتھ یہ غیر منصفانہ طرز عمل حکومت کے متعصبانہ رویہ کی دلالت کرتا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے ڈی آئی خان ،پاراچنار،پشاور،کوئٹہ اور کراچی شیعہ نسل کشی کی مذمت نہیں کی گئی اور نہ ہی اب تک کسی دہشتگرد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی نواز لیگ میں شامل رانا ثناا للہ سمیت چند وزراء وفاق میں بیٹھ کر دہشتگرد تکفیری قوتوں کو سپورٹ کرکے ملکی جڑوں کو کھوکھلا کر رہیں ہیں دوسری جانب عدلیہ کی جانب سے بے گناہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ پر سرد مہری دیکھائی جاری ہے جو غیر منصفانہ ہے ،شیعہ قتل عام پر حکومتی مجرمانہ خاموشی کی بھر پور مذمت کرتے ہیں وفاقی حکومت ہمیں مسلسل نظر انداز کر کے کن قوتوں کو خوش کر رہی ہے۔
علامہ باقر عباس زیدی نے کہاکہ ظلم ،ناانصافی ،ریاستی جبر اور حکومتی اداروں کا اختیارات سے تجاوز قومی بدحالی کا بنیادی سبب ہے مجلس وحدت کے قائدین نے انصاف کے حصول اور قومی سلامتی کے لیے جو مطالبات پیش کر رکھے ہیں ان پر جب تک عمل درآمد نہیں ہوتا تب تک ہمارا احتجاج جاری رہے گاہماری نظریں مرکزی قائدین کی جانب ہیں ملک بھر سے سینکڑوں قافلے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کے لیے بے چین بیٹھے ہیں اگر ان ریلیوں کا رُخ اسلام آباد کی طرف ہو گیا تو پھر واپسی آسانی سے نہیں ہو گی مقررین وفاقی حکومت ،چیف جسٹس آف پاکستان اورآرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی اور ستررہ روز سے مرکزی قائدین کی جانب سے دہشتگردی ،لاقانونیت اور کرپشن کے خلاف ہمارے جائز عوامی مطالبات کی عملی منظوری دی جائے مقررین نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی قوم کو قائد و اقبال کا وہ پاکستان واپس کیا جائے جس کا انہوں نے خواب دیکھا اور جس کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی۔حکمرانوں کی تبا ہ کن پالیسیوں نے اس ملک کو طالبان اور انتہاپسندوں کا ملک بنا کر رکھ دیا ہے۔آرمی چیف اس ملک سے ان ملک دشمن عناصر کا مکمل صفایا کریں۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے شیعہ کمیونٹی کے پڑھے لکھے طبقے اور مختلف شعبوں کے ماہرین کو ٹارگٹ کنلگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ملک بھر میں دوبارہ ابھرنے والی کالعدم دہشتگرد جماعتوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھر پور آپریشن کیا جائے انہوں نے کہا ملک کے تمام سول و عسکری اداروں سے ان کالی بھیڑوں کا صفایا کیا
جائے جواداروں کی بدنامی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں شیعہ نسل کشی کی لہر ایک بار پھر عروج پر ہے، حال ہی میں انسانی حقوق کے علمبردار خرم ذکی کو کراچی میں شہید کردیا گیا اور ڈی آئی خان میں دو وکلاء آصف زیدی اور مرتضی زیدی، دو اساتذہ اختر حسین اور مختیار حسین کو بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، اسی طرح کراچی سے لے کر پارا چنار تک دہشتگردی کے واقعات میں کئی بے گناہ مومنین کو شہید کر دیا گیا۔ پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی کے خلاف مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے دو ہفتے پہلے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا جو آج تک جاری ہے، اس دوران علامہ راجہ ناصر کی اس بھوک ہڑتالی کیمپ میں مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ان سے ملاقات کی اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسی موضوع پر بات کرنے کے لیے شفقنا اردو کی ٹیم نے حجت الاسلام غلام حر شبیری سے رابطہ کیا اور آپ سے تفصلی بات کی۔ آپ کا تعلق پاکستان سے ہے اور آپ پاکستان اور یورپ کی مقبول مذہبی شخصیت ہیں۔ اس حوالے سے جو بھی بات چیت ہوئی وہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
سوال: علامہ صاحب پاکستان میں جاری شیعہ کلنگ اور علامہ راجہ ناصر عباس کی بھوک ہڑتال کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
علامہ غلام حر شبیری: پاکستان میں اہل تشیع حضرات کو نہ صرف ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ ان کے ساتھ بہت ساری دیگر ناانصافیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جیسے ان کی املاک پر قبضہ کیا جا رہا ہے، فعال مومنین کی گرفتاری اور ایم ڈبلیو ایم کے کارکنان کے گھروں پر چھاپے اور ان سے پوچھ گچھ، عزاداری کو محدود کرنے کے لیے ایک باقاعدہ پروگرام بنایا جا چکا تھا، کئی علماء کے مختلف شہروں میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی اور انہیں محدود کرنے کی کوشش کی گئی، یہ وہ تمام اقدامات ہیں جن کی وجہ سے علامہ راجہ ناصر عباس نے بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا۔ یعنی پاکستان میں حکومت کی طرف سے شیعہ دشمنی کے عنوان سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کو درک کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس نے بر وقت قیام کا فیصلہ کیا۔
سوال: علامہ راجہ ناصر عباس کی بھوک ہڑتال کو دو ہفتے ہو گئے ہیں، آپ کے خیال میں اس اقدام سے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
علامہ غلام حر شبیری: دیکھیں، بھوک ہڑتال کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ قوم بیدار ہوئی ہے اور لوگ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے اٹھے ہیں۔ اس کی مثال ہم نے مخلتف شہروں میں علامتی بھوک ہڑتالوں اور یکجہتی کیپمس کی صورت میں دیکھی ہے۔
دوسرا اثر یہ ہوا کہ شیعہ کا یہ کیس ایک طرح سے قومی ایشو بن گیا ہے، یعنی جتنی بھی پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں ہیں انہوں نے آ گر ہمارے مطالبات کو سنا، سمجھا اور ان کی حمایت کا اعلان بھی کیا ۔ ہر پارٹی کے نمائندے نے اس کیمپ میں جانا اپنے لیے ضروری سمجھا۔ حال ہی میں عمران خان نے اس کیمپ کا دورہ کیا اور اپنے صوبے میں حکومت کو ہمارے مطالبات حل کرنے کی ہدایت کی جو بذات خود بڑی خبر ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں اہل تشیع کے مسائل جس حد تک اجاگر ہوئے ہیں وہ شاید ہی پہلے کسی دور میں ہوئے ہوں گے۔ نیشنل میڈیا نے اس بھوک ہڑتالی کیمپ کی تحریک کو موثر انداز میں دکھایا ہے۔ راجہ صاحب سے بہت سے لوگوں نے کہا کہ آپ یہ چھوڑ دیں ہم آپ کے مطالبات اسمبلی میں اٹھائیں گے لیکن انہوں نے کہا کہ جب تک یہ مطالبات عملی طور پر انجام ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔
تیسرا اثر یہ سامنے آیا کہ حکومتی سطح پر متعلقہ اداروں پر دباؤ بڑھا ہے کہ پاکستان میں شیعہ قوم کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اگر ایسا کیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج بر آمد ہوں گے۔
علامہ راجہ ناصر عباس کے اس اقدام کا چوتھا بڑا اثر یہ ہوا کہ قوم میں ایک وحدت کی فضا پھیلی ہے۔ اس کے علاوہ شیعہ قوم نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ باوجود ظلم و زیادتی کے ہم قانون کو ہاتھ میں لینے والے نہیں ہیں اور اس کی عملی مثال یہ ہڑتالی کیمپ ہے جس میں ہم مہذب شہریوں کی طرح اپنے مطالبات کو لے کر پُر امن طریقے سے بیٹھے ہوئے ہیں۔
غیر ملکی سطح پر اس تحریک سے زیادہ تعداد میں لوگ متاثر ہوئے اور ہم نے دیکھا کہ یورپ کے مختلف ممالک، امریکہ وغیرہ میں لوگوں نے پاکستانی ایمبیسی کے سامنے احتجاج کیا جو بہت بڑی کامیابی ہے۔
سوال: علامہ راجہ ناصر عباس کی طرف سے کون کون سے مطالبات پیش کئے گئے؟
علامہ غلام حر شبیری: سب سے اہم مطالبہ یہ تھا کہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں، ملوث افراد کی گرفتاری اور انہیں کیفر کردار تک پہچایا جائے، جن لوگوں کی اراضی قبضے میں ہے اس کو واپس کیا جائے، پارا چنار کے واقعے میں ملوث ایف سی اہلکاروں کو معطل کیا جائے، اس کے علاوہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
سوال: پیش کئے مطالبات پر کسی ممبر نے اسمبلی میں بات کی؟
علامہ غلام حر شبیری: وفاقی حکومت نے چند افراد پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جو مجلس کی ٹیم سے ملکر مطالبات کی فہرست پر غور کرے گی، کے پی کے حکومت نے باقاعدہ مذاکرات کیے ہیں، اور مطالبات کے حل کے لیے ایک آرڈینینس بھی جاری کر دیا ہے۔
سوال: سنی علماء کی بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت اور ان کی علامہ راجہ ناصر عباس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے حوالے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
علامہ غلام حر شبیری: یہ بہت اہم بات ہے، اس سے قومی سطح پر وحدت کی فضا بنی ہے اور جو لوگ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو شیعہ سنی مسئلہ بنا کر پیش کر رہے تھے ان کے لئے ایک واضح پیغام گیا ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور پاکستان میں شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ راجہ ناصر صاحب روز اول سے سنی علماء کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں، ان کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ آج وہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔
سوال: پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی پر ایک عام شیعہ کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
علامہ غلام حر شبیری: یہ ایک نازک مرحلہ ہے، اس وقت جتنے بھی شیعہ ہیں چاہے وہ پاکستان میں آباد ہوں یا پاکستان سے باہر، ان سب کو چائیے کہ وہ اس تحریک کی حمایت کا اعلان کریں، چونکہ یہ تحریک ان کے مطالبات کے حصول میں آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انے والے وقت میں پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر انہوں نے اس وقت قیام نہ کیا تو وہ اپنے ہی ملک میں مشکلات میں پھنسے رہیں گے۔
اس کے علاوہ تمام شیعہ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندر گروہی اختلافات کو ختم کر کے متحد ہو جائیں اور اس تحریک میں شامل ہوں تا کہ حکومت وقت کے سامنے مضبوط تر ہو کر اپنا کیس لڑا جا سکے۔
سوال: علامہ راجہ ناصر عباس کی بھوک ہڑتال کو دو ہفتے ہو گئے ہیں، آخری بار جب اپکی ان سے بات ہوئی تو انہوں نے آپ سے کیا کہا؟
علامہ غلام حر شبیری: اصل میں علامہ راجہ ناصر بہت ہی مضبوط عقیدہ رکھنے والے اور جرات مند شخص ہیں۔ اور ہم سب کو پتہ ہے کہ وہ اپنے کیے ہوئے عہد سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ اس وقت وہ انتہائی پُر عزم ہیں اور اپنے مطالبات کے حل تک وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اگرچہ بہت سارے دوستوں نے علامہ صاحب سے اس سلسلے میں تجدید نظر کی گزارش کی لیکن انہوں نے کہا کہ مجھے میرے حال پہ چھوڑ دیں اور میرے لیے دعا کریں کہ خدا مجھے اس قوم پر قربانی کی توفیق دے۔
سوال: مجلس علماء شیعہ یورپ کی جانب اس سلسلے میں کوئی بیان سامنے آیا ہے؟
علامہ غلام حر شبیری: اس حوالے سے شروع میں ایک بیان سامنے آیا تھا، اس کے علاوہ علماء انفرادی طور پر جہاں بھی ہیں ان کی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں۔ لندن میں ہم نے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا تھا جس کا عنوان بھی یہی تھا، علماء نے اس مظاہرے میں تقاریر کیں اور ہمارا تنہا مطالبہ یہ تھا کہ حکومت وہاں جلد از جلد ہڑتالی کیمپ میں جاکر ان کے مطالبات سنے۔
سوال: ہڑتالی کیمپ کے بعد حکومتی رویے سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟
علامہ غلام حر شبیری: دیکھیں، حکومت اس وقت خود اپنے ذاتی مسائل میں گھری ہوئی ہے، اور ان پر اس حوالے سے بہت زیادہ پریشر ہے اور اسی وجہ سے حکومت کی کوشش ہے کہ ہمارے مسئلے کو قومی اہمیت نہ ملے۔ علاوہ ازیں یہ کہا جا رہا ہے کہ اگلے مہینے کی 2 تاریخ کو سینٹ کے اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھایا جائے گا۔
سوال: پاکستان کے مختلف علاقوں میں اظہار یکجہتی کے لیے علامتی بھوک ہڑتالوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، ان تمام کاوشوں کا انجام کیا دیکھ رہے ہیں؟
علامہ غلام حر شبیری: ہمارا یقین ہے کہ اس طرح کے تحریکی کاموں اور لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ خدا کی مدد شاملِ حال رہتی ہے، امید کی جاتی ہے کہ اس وقت شیعہ قوم کے جو مطالبات علامہ راجہ ناصر نے پیش کیے ہیں ان کو سنا جائے گا اور راجہ صاحب باعزت طریقے سے اس تحرک کو انجام تک پہنچائیں گے، اور یہ اقدامات بہت نتیجہ خیز ہوں گے۔ لیکن جب میں علامہ صاحب سے بات کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نتیجے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہمیں اپنا وضیفہ انجام دینا ہے اور اگر انجامِ وضیفہ انسان کی غرض ہو تو نتیجے کی پرواہ کیسی؟!
سوال: بیرون ملک آباد پاکستانیوں کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
علامہ غلام حر شبیری: ہماری ان سے اپیل ہے کہ وہ حالات سے اگاہ رہیں، مختلف جگہوں پر اپنی آواز بلند کریں، اپنے سفارت خانوں تک اپنا پیغام پہنچائیں، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں تک اپنی آواز پہنچا کر احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ پاکستان میں شیعہ کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ بند ہو سکے۔
بشکریہ، شفقنا اردو
وحدت نیوز(ڈی آئی خان) ڈیرہ اسماعیل خان میں نماز جمعہ کے بعد احتجاجی ریلی نکالی گئی ہے۔ جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ نماز جمعہ کے بعد کوٹلی امام حسین (ع) جو کہ ڈیرہ میں تشیع کا مرکز ہے سے موٹرسائیکل ریلی امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام نکالی گئی۔ ریلی کے شرکا نے جھنڈے اور کتبے اٹھا رکھے تھے۔ احتجاجی ریلی علامہ راجہ ناصر عباس کے احتجاجی کیمپ سے اظہار یکجہتی میں نکالی گئی جو کہ ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ اور قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ریلی مختلف شاہراوں سے گزرتی ہوئی حیدری چوک پر قائم احتجاجی کیمپ پر اختتام پذیر ہوئی۔ جہاں پر اعلان کیا گیا کہ کل شام پانچ امام بارگاہ تھلہ لال شاہ گردیزی سے بھی شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی جائیگی۔
واضح رہے کہ جشن نوروز کے اگلے روز شہید ہونے والی سید رضی الحسن شاہ ایڈووکیٹ اسی امام بارگاہ کے متولی تھے، جن کے قاتل تاحال گرفتار نہیں ہوسکے۔ ریلی کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ ڈیرہ میں اہل تشیع کے تحفظ کیلئے حکومت مناسب اقدامات کرے اور ٹارگٹ کلنگ کے سانحات میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ریلی کی سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے۔
وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک)قائد شہید کے گاوں پیواڑ سے تعلق رکھنے والے مجاہد عالم دین کا اسلام ٹائمز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ ریاستی لبادے میں یہ بربریت پہلی بار نہیں ہے، پاراچنار شروع دن سے ریاستی دہشت گردی کا شکار رہا ہے، بارہا ہم وہاں موجود تھے، خود دیکھا کہ انہی ایف سی والوں نے ہم پر گولیاں چلائیں، سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، دسیوں افراد شہید ہوئے، لیکن اس کے باوجود ہم نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، دو ماہ قبل ہمیں طالبان اور داعش کے آنے کی دھمکیاں دی گئیں اور حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ فلاں گاوں کو خالی کرو، داعش آنے والے ہیں، ہم بے بس ہیں۔
مجلس علمائے اہل بیت (ع) کے راہنما حجۃ الاسلام مولانا ہلال حسین طوری کا تعلق قائد شہید کے گاوں پیواڑ پاراچنار سے ہے۔ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی ہمسائیگی کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ان دنوں قم المقدسہ میں مدرسہ امام خمینی (رہ) سے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے افکار اور موجودہ تشیع تحریکوں کے بارے میں مولانا ہلال طوری کی رائے جاننے کی کوشش کی، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: آپ نے قائد شہید کو قریب سے دیکھا، نئی نسل کیلئے قائد شہید کی زندگی نمونہ عمل ہے، کیا بیان کرنا چاہیں گے۔؟
مولانا ہلال حسین طوری: ہم نے قائد شہید کو قریب سے دیکھا تھا، قائد شہید کے افکار سب کے سامنے ہیں، قائد شہید اتحاد امت کے سب سے پہلے داعی تھے، اتحاد بین المومنین و اتحاد بین المسلمین، وہ جہاں بھی جاتے تھے "وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ" کے مصداق اتم بن جاتے تھے اور وہ لوگ جو دور ہوتے، وہ بھی نزدیک آجاتے۔ قائد شہید نے کبھی بھی یہ نہیں کہا، یہ پٹھان ہے، یہ پنجابی ہے، یہ گلگتی ہے، یہ بلوچ ہے، ہر وقت کہا کرتے تھے کہ ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ فلاں فلاں ہے، ہم ایک ہیں، حتیٰ کہ شیعہ سنی کے معاملہ میں بھی اتحاد کے قائل تھے، کسی نے قائد شہید سے پوچھا کہ آپ ہر وقت کہتے ہیں اتحاد اتحاد تو آپ کا اتحاد سے مقصد کیا ہے، قائد شہید نے فرمایا اتحاد سے میری مراد یہ نہیں کہ شیعہ سنی ہوجائے اور سنی شیعہ ہو جائے بلکہ میری مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں، ایک دوسرے کو تحمل کریں اور دشمن کے خلاف باہم ایک ہو جائیں۔
اسلام ٹائمز: قائد شہید کی آرزو تھی کہ پیروان ولایت باہم متحد ہوں، اسی طرح آیت اللہ اختری نے بھی اسی درد دل کا اظہار کیا کہ شیعہ قوم یکجا ہوجائے، شیعہ ووٹ بینک کو تقسیم نہ کیا جائے، آپ اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
مولانا ہلال حسین طوری: قائد شہید کی ہر وقت یہ کوشش رہتی تھی کہ سب ایک ہوں، اگرچہ تنظیمیں تحریکیں مختلف ہوں، مسئلہ نہیں ہے، لیکن وہ ایک نقطہ پر جمع ہوسکیں۔ پاکستان کے اہل تشیع کے لئے آج وہ وقت آچکا ہے کہ وہ باہم متحد ہوجائیں اور قائد شہید کی امیدوں کو پورا کریں، آج ایک شخص جسے ناصر ملت کہیں یا قائد ملت کہیں، میدان میں آچکا ہے، سب اہل تشیع ملکر اس کا ساتھ دیں، اس تحریک پر لبیک کہہ دیں، ہمارے لئے یہ ایک اہم موقع ہے، دشمن کو بہانہ نہ دیں، دشمن کو میدان میں داخل نہ ہونے دیں، اس تحریک کے بعد جو افراد راجہ ناصر سے دور تھے وہ بھی نزدیک آچکے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ راجہ ناصر کی بدولت شیعہ اور معتدل سنی بیدار ہوچکے ہیں اور راجہ ناصر کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن وہ افراد جو ابھی تک خاموش ہیں، ہمارے بزرگان ہوں یا ہم جیسے چھوٹے ہوں، ان سے بھی التماس ہے کہ اللہ کی خاطر، امام زمانہ (عجل) کی خاطر، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی خاطر اور دیگر شہداء کے ورثا کی خاطر، سب مل کر راجہ صاحب کی اس تحریک میں شامل ہوں اور اس کی حمایت کریں۔
اسلام ٹائمز: ہم دیکھتے ہیں کہ پارا چنار کو مسلسل ریاستی بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی وہاں بیرونی لشکر حملہ آور ہوتے ہیں تو کبھی راستے بند کر دیئے جاتے ہیں، اس مرتبہ بھی پیروان ولایت پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، قیمتی جانیں ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنیں، کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا ہلال حسین طوری: ریاستی لبادے میں یہ بربریت پہلی بار نہیں ہے، پاراچنار شروع دن سے ریاستی دہشت گردی کا شکار رہا ہے، بارہا ہم وہاں موجود تھے، خود دیکھا کہ انہی ایف سی والوں نے ہم پر گولیاں چلائیں، سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، دسیوں افراد شہید ہوئے، لیکن اس کے باوجود ہم نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، دو ماہ قبل ہمیں طالبان اور داعش کے آنے کی دھمکیاں دی گئیں اور حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ فلاں گاوں کو خالی کرو، داعش آنے والے ہیں، ہم بے بس ہیں، سوال یہ ہے کہ پاک آرمی جو پوری دنیا میں مشہور ہے، ہمیں اپنی آرمی پر ناز ہے، اگر وہ یہ کہہ کر چلے جائیں کہ شیعہ یہ گاوں خالی کر دیں، داعش آرہی ہے، یا اپنا دفاع خود کر لیں، ہم دفاع نہیں کرسکتے، تو یہ میرے خیال میں ایک کھیل ہے، یہ ایک منصوبہ ہے، جس کے تحت شیعوں کو کمزور کیا جا رہا ہے، تاکہ یہ اپنے ناپاک عزائم تک پہنچ سکیں۔
اسلام ٹائمز: شیعہ قوم کے جاری قتل عام کیخلاف علامہ راجہ ناصر عباس جعفری آج دو ہفتوں سے بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں، کیا اثرات مرتب ہوتے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا ہلال حسین طوری: اس اقدام کی شروع دن سے ہم نے حمایت کی ہے اور آخری دم تک حمایت کریں گے، ہم آمادہ ہیں، اگر آقا صاحب حکم دے دیں تو قم المقدسہ میں یا سفارت کے سامنے احتجاج کریں گے، اگر خروجیہ ہمیں نہ ملے تو بھی ہم نکلیں گے، اپنا اقامہ خراب کر دیں گے، اسلام آباد تک پہنچیں گے اور بھوک ہڑتال میں شریک ہو جائیں گے اور آخری دم تک وہاں بیٹھیں گے، جیسے آقا صاحب نے کہا کہ میرے بعد میرا بیٹا ہوگا، تو ہم کہتے ہیں کہ آقا صاحب آپ اکیلے نہیں ہیں، آپ کے بیٹے نہیں بلکہ آپ کے شاگرد پہلے اپنی جانیں قربان کریں گے۔
وحدت نیوز (بہاولپور) مجلس وحدت مسلمین ضلع بہاولپور کے سابق سیکرٹری جنرل اور جنوبی پنجاب کے فعال شیعہ رہنما سید انتظار حسین نقوی بہاولپور میں سپردخاک کر دیئے گئے، مرحوم گذشتہ روز ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کر گئے تھے۔ مرحوم کی نماز جنازہ مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیٹا، تین بیٹیاں اور ایک بیواہ چھوڑی ہے۔ سید انتظار حسین نقوی کے انتقال پر ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے مرحوم کے لواحقین سے ٹیلی فونک تعزیت کی اور مرحوم کی بلندی درجات کے لئے دعا کی۔ نماز جنازہ میں مجلس وحدت مسلمین ملتان کے سیکرٹری جنرل علامہ قاضی نادر حسین علوی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی، خواجہ مرید حسین، ایم ڈبلیو ایم بہاولپور کے سیکرٹری جنرل سید اظہر حسین نقوی اور دیگر نے شرکت کی۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے پریس کلب پر جاری بھوک ہڑتالی کیمپ گیارہویں روز میں داخل ،سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ضلع لاہورعلامہ حسن ہمدانی کی صدارت بھوک ہڑتالی کیمپ میں اجلاس ،ضلعی کابینہ کا اعلان اور احتجاج میں پرامن طور پر شدت لانے کا فیصلہ،مجلس وحدت مسلمین لاہور کے ضلعی کابینہ اراکین آج سے باقاعدہ اپنے شعبوں میں کام کا آغاز کریں گے،ضلع لاہور کے ڈپٹی سیکرٹری جنرلز رانا ماجد علی،نجم عباس سیاسیات کے سیکرٹری سید حسین رضا زیدی،سیکرٹری میڈیا توصیف رضا،سیکرٹری فنانس علی عمار فضل،سیکرٹری تربیت علامہ ناظم عترتی،سیکرٹری تبلیغات علامہ مبشر نقوی،سیکرٹری روابط محمد رضا،سیکرٹری تنظیم سازی مولانا مطہر ی ،ڈپٹی سیکرٹری تنظیم سازی رانا کاظم علی،سیکرٹری امور نوجوانان سید زین زیدی و ڈپٹی سیکرٹری امور نوجوانان سید سجاد نقوی،سیکرٹری تحفظ عزاداری سید جاوید بخاری ڈپٹی سیکرٹری تحفظ عزاداری ملک محمد علی ڈھکو،سیکرٹری فلاح وبہود آغا نقی مہدی،سیکرٹری تعلیم فصاحت بخاری اور مسؤل آفس مولانا اظہر حسن کررڑ کے ناموں کا اعلان ہوا،علامہ حسن ہمدانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نفرت کے پجاریوں کو شکست دینے تک ہم اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے،ہم مظلوموں کی آواز ہے اور مظلوموں کی حقوق کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے کو بھی تیار ہے۔