وحدت نیوز(کراچی) قائد وحدت ناصر ملت علامہ راجہ ناسڑ عباس جعفری کی اسلام آباد پریس کلب پر جاری بھوک ہڑتالی کیمپ کو اٹھارہ دن گذرچکے ،بے حس حکمرانوں کی کان پر جوں تک نہیں رینگی،مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکرٹری سیاسیات علی حسین نقوی نے وحدت ہاوس پولٹیکل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہ قائدوحدت ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ہماری مظلومیت کو طاقت میں بدل کر ملت مظلوم کی ترجمانی کی ہے اب اس تحریک کی کامیابی کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی،ملت جعفریہ کے قتل عام پر حکمران جماعت اور ریاستی اداروں کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نظروں میں ہماری جان کی کوئی قدر نہیں،ملت مظلوم بیدار ہے اور علامہ راجہ ناصر کے حکم کے منتظر ہیں کہ وہ کیا لائحہ عمل دیتے ہیں،ہم انصاف کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا عہد کرچکے ہیں اور اپنے شہداء کے پاکیزہ لہو کو رائیگاں نہیں جانے دینگے،علی حسین نقوی کہنا تھا کہ علامہ راجہ ناصر نے ملت جعفریہ کی ترجمانی اور بے باک قیادت کا حق ادا کیا ہے ہم قائد وحدت ناصر ملت راجہ ناصر عباس جعفری کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور اس پاکیزہ جدو جہد میں ہر قسم کی قربانی کے لئے آمادہ ہے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) ۔۔۔۔۔ ہم نے ہزاروں احتجاج کئے ،جلسے کیے ،مارچ کئے ،دھرنے دیئے مگر کیا ہوا؟کیا نتیجہ نکلا؟
۔۔۔۔۔ ہم نے مختلف اتحاد بنائے ۔مذہبی جماعتوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی مگر کیا ملا؟
۔۔۔۔۔ہم نے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی مگر موجودہ سیاسی نظام میں وہ بھی فالج زدہ ثابت ہوئے ۔
یہ مظلوم شیعہ یہ مظلوم سنی!یہ مظلوم برادریا ں آخر کیا کریں ؟کہ یہ ملک عزیز پاکستان ان درندوں سے محفوظ ہو ؟
ایسے میں ضرورت تھی کہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجوڑا جائے ،بیدار کیا جائے ،لوگوں کے دلوں سے دہشت گردوں کا خوف نکالا جائے ۔ایسی تحریک جس میں تشدد کا شائبہ تک نہ ہو ۔ایسی تحریک جو خالصتاٌ مظلومیت کی آواز ہو ۔ایسی تحریک جو دنیا بھر کے مظلوموں کی توجہ حاصل کرئے ۔ ایسی تحریک جس میں ہر مذہت ،مسلک اور مکتب کا مظلوم پناہ لے ۔ایسی تحریک جو مظلوموں کو آپس میں جوڑ دے ،ایسی تحریک جو ظالموں کو ہمیشہ کے لئے رسوا اور شرمندہ کر دے ، ایسی تحریک جو صبر و استقامت کی علامت بن جائے ،ایسی تحریک جس کا رشتہ کر بلا سے جڑا ہوا ہو ۔ایس تحریک جو سرفروشوں کی مختصرجماعت ہو مگر لاکھوں ظالموں کے دلوں کو دہلادے ۔
جی ہاں ! یہ وہ حالات تھے اور یہ وہ مقاصد ہیں جنکے حصول کیلئے ایک مر د مجاہد تنھامیدان عمل میں آیا ۔اس نے کسی کو امتحان میں نہیں ڈالا۔بلکہ خود اپنے آپ کو امتحان میں ڈالا۔اسکے ساتھ چند ساتھی شامل ہوئے ،عزم واستقامت کے ساتھ عہدوپیمان کے ساتھ، شہادت کے پیمان کے ساتھ ۔
اس تحریک کا نتیجہ ؟؟
یہ سرفروش جو مجاہد ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ساتھ موجود ہیں نتیجے کی پروا کئے بغیر ۔۔۔
کیونکہ ہمارا کام جدوجہد کرنا ہے نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے
شہدائے کربلاسے عہد وپیمان کرنے والے عاشقان حسین، غلامان حیدر کرارؑ نتیجے کی پروا نہیں کرتے ہمیں نتیجہ تو مل چکا ہے ۔ آج پاکستان کے کونے کونے میں بیداری کی لہر اٹھ چکی ہے آج عالمی ضمیر کروٹ لے رہا ہے ہم مرجائیں گے مگر اپنی ملت کو وقار اور عزت دے کر جائیں گے ہم مظلوم کو مر کر جینے کا سلیقہ سکھا جائیں گے آپ سے کچھ نہیں چاہتے سوائے دعا کے ،آپ ہماری ثابت قدمی کے لئے دعا کیجئے کہ ہم اپنے آقا و مولا سید وسردار حسین ؑ کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر جائیں ،دعا کیجئے کہ ہمارے وقت کا امام ؑ اپنی غلامی میں قبول کر لے ،دعاکیجئے کہ دنیا بھر کے مظلوم متحد ہو جائیں دعا کیجئے کہ اس مٹی کا جو قرض ہم پر ہے ہو ادا کر جائیں دعا کیجئے کہ ہمار ے پاک شہداء کی اروح ہم سے راضی ہو جائے ، دعا کیجئے کہ اپنے شہداء کے ورثا کے سامنے ہم سرخرورہیں ۔اے آسمان و زمین گواہ رہنا ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں ہمیں کسی سے کوئی صلہ نہیں چاہئے سوائے اپنے رب سے مغفرت اور رحمت کے طلبگار ہیں ۔
ہے کوئی مظلوموں کی آواز میں آواز ملانے والا؟؟
اب نہیں تو کب
شیعان حیدر کرار!
یہ ملک عزیز پاکستان جو لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ۔پاکستان کی آزادی کے حصول میں جتنی جانی اورمالی قربانی آپ نے دی کسی اور نے نہیں دی ۔
پاکستان کی آزادی کی پوری تحریک راجہ صاحب محمود آباد کی دولت کی مرہون منت ہے پاکستان بننے کے بعد جب خزانے میں ایک ٹکہ بھی نہ تھا یہ ہماری حبیب فیملی تھی جس نے پورے پاکستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی تھیں ۔
الغرض اگر گنوانا شروع کریں تو ہزاروں صفحات درکار ہوں گے ۔انصاف کی بات یہ ہے کہ اس پوری جدوجہد میں ہمارے اہل سنت بھائی اور ان میں بھی بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی اکثریت اس آزادی کی جنگ میں ’’دام درھم سحن قدم ‘‘قائداعظم محمد علی جناحؒ کے شانہ بشانہ رہی ۔اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس زمانے میں جب پاکستان کی آزادی کی تحریک چل رہی تھی اور مسلمانان ھند برٹش اور ہندو تسلّط سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے خون کے دئے جلا رہے تھے ۔ایک خاص طبقے نے انگریز اور کانگریس کی حاشیہ نشینی اختیار کی اور پاکستان کو کافرستان اور قائداعظم کو کافر اعظم قرار دیا ۔
لیکن الحمداللہ مذہب و ملت کے ان غداروں کو مسلمانان برصغیر نے رد کر دیا ۔اور چودہ اگست 194ء کو لہو میں ڈوبا ہوا آزاد ی کا سورج طلوع ہوا ۔اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی ۔تاریخ بشریت کی سب سے بڑی اور کربناک ہجرت وجود میں آئی ۔تین ہزار کلومیٹر کے راستو ں میں کہیں خون میں لتھٹری ہوئی لاشیں تھیں ۔کہیں جلی ہوئی آبادیاں تھیں،کہیں مظلومیت کا نوحہ پڑھتی سوختہ مساجد ۔قوم کی بے شمار بیٹیوں کی عصمت دری اور بے حرمتی کا درد ناک باب جسے نقل کرنا تو کجاسوچ کر انسانیت پر لرزہ طاری ہو جاتاہے ۔لیکن ان تمام مصائب اور آلام کے سمندر میں بھی ہم خوش تھے کہ ہمیں آزادی نصیب ہوگئی ہے ۔
آزادی کی خوشیوں میں ایک بات بھول گئے تھے کہ انگریزوں اور کانگریس کا زر خرید غلام بھی کالی بھیڑوں کی صورت اس کاروان میں شامل ہو چکا ہے ۔تحریک آزادی کے اس غدّار ٹولے کو جب اپنے پہلے مقصد میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ یعنی پاکستان بن گیا تو اب اس غدّار ٹولے کو دوسرا ہدف دیا گیا کہ پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کیا جائے اور بدترین تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا جائے ۔
تحریک آزادی کے یہ شکست خوردہ اورزخم خوردہ سانپ اب پاکستانی بن کر ہماری صفوں میں داخل ہوگئے ۔اِنہیں غداروں
نے مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے اسباب فراہم کئے ۔انہی دہشت گردوں نے بنگالیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کئے اور
ان کے دلوں میں نفرتوں کے بیج بوئے جو بعد میں نفرت کی ایک پور ی فصل کی صور ت میں سامنے آئی ۔
تاریخ پاکستان اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ سب سے پہلے دہشت گرد ٹولے کن لوگوں کے وجود میں آئے ۔جی ہاں یہ وہی جماعتیں اور
گروہ تھے جو قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو کافرستان قرار دیتے تھے ۔جی ہاں ! یہ وہی انتہا پسند مذہبی گروہ تھے جنھوں نے پاکستان
کے تعلیمی اداروں میں اسلحہ متعارف کروایا اور بہترین تعلمی اداروں کو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا ۔
امریکی سامراج جو برطانوی سامراج کی جگہ سنبھال چکا تھا یہ گروہ اس کے غلام بے دام بن گے کیونکہ انہیں پاکستان سے بدلہ لینا تھا ۔ان کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے تھے ۔آدھا پاکستان توڑنے کے بعد یہ گروہ کوشش کرتے رہے ،جدوجہد کرتے رہے کہ کس طرح باقی پاکستان کو ٹھکانے لگایا جائے (نعوذباللہ )یہ جانتے تھے کہ انتخابات کے ذریعے یہ کبھی بھی پاکستان پر اپنا تسلّط قائم نہیں کرسکتے
کیونکہ 1970ء سے لے کر آج تک کے انتخابی تنائج گواہ ہیں کہ پاکستان کی عوام نے ہمشہ انہیں بری طرح رد کیا ۔
1977ء میں ضیاء الحق کی صورت میں انھیں ایک سرپرست میّسر آیا ۔ضیاء الحق کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے عوام کے ان رد شدہ
عناصر کی ضرورت تھی ،اور امریکہ کو بھی ایک ایسے ہی اقتدار کے بھوکے حکمران کی ضرورت تھی جو خطے میں اس کے سامراجی عزائم میں اسکا
مددگار ہو ۔
روس (اس زمانے کا U.S.S.R)کے افغانستان میں داخل ہوتے ہی مذہب و ملّت کے ان غداروں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں
دوسری طرف ایران کے اسلامی انقلاب نے امریکہ کو جس صدمے سے دوچار کر دیا تھا اُس کا تقاضا تھا کہ وہ عناصر جن کا پاکستان اور تحریک پاکستان سے کوئی تعلق نہ تھا ۔انہیں منظم کیا جائے ۔اور عالم اسلام کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا جائے ۔
ان حالات کے پس منظر میں امریکہ نے اپنے پٹھو ضیاء الحق کے ذریعے ایک طرف پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینا شروع کی
دوسری طرف افغانستان مین نام نہاد جہاد کے نام پر تاریخ بشریت کے سفاک ترین درندوں کو پروان چڑھانا شروع کردیا ۔اسی ضیاء الحق کے دور میں لسّانی ،مذہبی ،علاقائی ،صوبائی نفرتیں اپنے عروج پر پہنچیں ۔
کلاشنکوف اور ہیروئن متعارف ہوتی ہے ۔1980 ء شیعوں کے خلاف بھیانک کھیل کا آغاز ہوتا ہے ۔منظم اور بھرپور طریقے سے ریاست کی سرپرستی میں شیعیان حیدر کرار ؑ کے خلاف تحریک شروع کی جاتی ہے ۔قتل وغارت کا آغاز ہوتا ہے ۔ ہر شہر کو ہمار ی قتل گاہ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے
ہم چلاتے رہے ۔شور مچاتے رہے ،حکمرانوں کو خبردار کرتے رہے کہ اس آگ سے
مت کھیلو ،پاکستان سے دشمنی نہ کرو،جن عناصر کو تم ہمارے خلاف استعمال کر رہے
ہو ،وہ تمھارے دوست نہیں بلکہ پاکستان کے دشمن ہیں
ہم ہوشیارکرتے رہے کہ جو آگ تم ہمارے لئے جلا رہے ہو ایسا نا ہو کہ ایک دن سارا ملک اس میں جل رہا ہو ،مگر کسی نے ہماری بات پر کان نہیں دھرے ۔ہم بتاتے رہے کہ ہم صدیوں سے ان حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں ،ظالم حکمرانوں کے لئے تختِہ مشقِ ستم بنے رہے ہیں ۔مگر ہمیں مٹانے کاخواب دیکھنے والے خود مٹ گئے ۔ بنوامیّہ اور بنی عباس کا بھیانک اور عبرت ناک انجام دنیا کے سامنے ہے ۔
ہمارے ہی وطن میں ہم پر ہی زمین تنگ کر دی گئی ۔عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا پارہ چنار سے کوئیٹہ ،خیبرسے کراچی اور گلگت بلتستان سے لے کر پاکستان کے کونے کونے میں ہمارا قتل عام کیا گیا ۔ہمارے ڈاکٹرز ،ہمارے انجینئرز،ہمارے افسران ہمارے علما، ہمارے ذاکرین ہمارے رہنما۔ہمارے بوڑھے ،معصوم بچے یہاں تک کہ ہماری خواتین کو بے دردی سے قتل کیا جاتا رہا اور کیا جارہا ہے ۔
’’ اور یہ سب کچھ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ہوتا رہاپوری دنیا میں
ہماری حمایت میں آواز اٹھانے والا نہیں تھا۔
بالاخرجب افغانستان میں امریکہ کا مقصد پورا ہو گیا اور روس وہاں سے نکل گیا تو امریکہ نے حسب دستورشیطانی وہ سارا ملبہ
پاکستان پر گرادیا ۔وہ امریکہ جس نے ضیا ء الحق کی مددسے پاکستان میں دنیا بھر کے دہشت گردوں کی نرسریاں قائم کی تھیں اور ساری دنیا کے دہشت گرد یہاں پروان چڑھ رہے تھے ۔اسی امریکہ نے انھیں فسادیوں کو پاکستان پر یلغار کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔
عرب ممالک کی دولت جو عالم اسلام کی یکجہتی اور ترقی کے لئے استعمال ہونا چاہیے تھی وہ پاکستان میں مدارس کے نام پر دہشت گردوں کی تربیت اور برین واشنگ کے لئے استعمال ہونے لگی اور تاحال ہور رہی ہے ۔افغانستان میں وہ تباہی نہیں ہوئی جو افغانستان سے روس کے نکلنے کے بعد پاکستان میں شروع ہوگئی،
پاکستان کے تمام دفاعی اور سول اداروں میں دہشت گردوں کے سرپرستوں کا راج ہو گیا ۔اور دہشت گرد ۔پورے ملک میں کھلم کھلادندناتے ہوئے انسانوں کے قتل عام میں مصروف ہو گئے ۔عدالتیں سزادینے سے قاصر ،پولیس کی کالی بھیڑیں سرپرستی میں مصروف
سول اداروں میں اہم عہدوں پر دہشت گردوں کے کمانڈورں کا قبضہ تعلیمی اداروں میں نفرت انگیزتعلیم ،گھر گھر نفرت انگیز لٹریچر کی تقسیم ۔
اور بدنصیبی تو دیکھئے کہ جہاں عوام نے دہشت گردوں کو اپنی قوت بازوسے شکست دی جیسے کہ پارا چنار اور گلگت بلتستان ،وہاں
ریاست نے انتقامی کاروائیاں شروع کر دیں ۔اور جو کام دہشت گرد نہ کرسکے وہ ریاستی اداروں نے کیا اور یہاں کے مظلوم عوام پر ظلم وستم
کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیئے ۔اور بالاخروہی ہوا۔جسکی طرف ہم برسوں سے اشارے کررہے تھے ۔پاکستان کے نام نہاد مذہبی شدت پسندگروہوں نے پورے ملک پر اپنا تسلّط جمانے کے لئے ہر طبقے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔
اہم سنت بھائی خاص طور پر بریلوی مسلک ان کا دوسرا بڑا نشانہ بنے پھر سکھ ،عیسائی ۔ہندواور دوسری اقلیتی برادریا ں ان کا ہدف قرار پائیں اور پھر
’’مساجد ،مزرارت ،دربار،بارگاہیں ،پارک ،بازار،مندر ،چرچ ،گردوارے کچھ بھی محفوظ نہ رہا ‘‘
اور پھر ہمارے دفاعی اداروں کو اس وقت ہوش آیا جب پانی سر سے گزر چکاتھا ۔اب تک 8000 کے لگ بھک ہمارے وطن کے سپوت ہماری سرحدوں کے محافظ ماضی کی پالیسیوں کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔معصوم بچے اسکولوں میں قتل کر دیئے گئے
مختلف ناموں سے وہی سپاہ،وہی لشکر ۔کہیں طالبان ، کہیں القاعدہ اور اب داعش کی صورت میں گلی گلی ،محلہ محلہ ،شہر شہر انسانوں کی شکل میں چھپے بیٹھے ہیں ۔اور جب موقع ملتا ہے بلکہ ہر روز کہیں نہ کہیں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کی صوبائی شوریٰ کا اجلاس کوئٹہ سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا، اجلاس کی صدارت مرکزی سیکریٹری امور تنظیم سازی سید مہدی عابدی نے کی، جبکہ صوبے بھر کے مختلف اضلاع سے اراکین شوریٰ سمیت مرکزی سیکریٹری آئمہ جمعہ فورم علامہ ہاشم موسوی، سابق سیکریٹری جنرل بلوچستان علامہ مقصودڈومکی اور رکن بلوچستا ن اسمبلی وصوبائی سیکریٹری سیاسیات آغا رضا نے خصوصی شرکت کی، موجودہ حالات اور تنظیمی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ نئے صوبائی سیکریٹری جنرل کا انتخاب فل وقت موخر کیا جائے ایم ڈبلیوایم بلوچستان کی صوبائی کابینہ کو تحلیل کرکے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو آئندہ چار مہینوں میں صوبے بھر میں تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی اور سیٹ اپ کے قیام کیلئے اپنے فرائض انجام دی گی اور مقررہ مدت کے اختتام پربلوچستان کے صوبائی سیکریٹری جنرل کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا، حالیہ کمیٹی کے سربراہ ایم پی اے آغا رضا اور معاون علامہ سہیل اکبر منتخب ہوئے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کو اللہ کی خوشنودی کیلئے بنایا گیاہے میں اپنی جان ،مال کی قربانی دےدوں گا لیکن اس مجلس وحدت کو کبھی کمزور نہیں ہونے دوں گا،میں اپنی تمام طاقت سے بھوک ہڑتال کے فیصلہ پر پابند ہوں اورعلامہ راجہ ناصرعباس کے اس فیصلہ کو آگے بڑھانے کے لیے کوشش کرونگا،ہم سب ایک ہیں اور ایک رہیں گے اور بدخواہوں کو مایوس کریں گے، میدان میں کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما اوررکن شوریٰ عالی علامہ محمد امین شہیدی نے بیرون ملک دورے کے بعد نیشنل پریس کلب کے سامنے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے جس راہ کا انتخاب کیا ہے وہ درست راہ ہے،جب آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے جس کو دشمن بنایا ہے وہ اللہ کا حقیقی دشمن ہے،جب آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے جن کو متحد کیا ہے اور دوست بنایا ہے وہ اللہ کہ دوست ہیں تو پھر اس راہ میں چاہے کوئی مشکل پیش آئے انسان اس مشکل سے سیکھتا ہے اور خدا کی جانب تیزی سے بڑھتا ہے،گذشتہ کچھ روز سے بیرون ملک سفر پر تھا تو مجھے سوشل میڈیا ذرائع سے معلوم ہوا کہ کچھ ناعاقبت اندیش اور سازشی عناصر اس پروپگنڈے میں مصروف ہیں کہ میں بھوک ہڑتالی کیمپ میں اس لئے شریک نہیں کیوں کہ میں کوئی نئی جماعت تشکیل دینے جارہاہوں، انہوں نے کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ لوگ گدھ کی صفت کے حامل ہیں جو ہمیشہ مردار پر جھپٹ پڑنے کی لئے تیار نظرآتے ہیں ، گندا سوچتے ہیں اور گندکی جانب ہی بڑھتے ہیں کبھی اچھائی اور پاکیزگی کی جانب متوجہ نہیں ہوتے،کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ منفی چیزوں کو تلاش کریں اور انہیں بڑھا چڑھا کر معاشرے میں عام کریں ، ان کا کہنا تھاکہ اجتماعی معاشرے میں جہاں ایک گھر میں چند افراد رہائش پزیر ہوں وہاں تمام افراد کی سوچ اور طریقہ کار مختلف ہوتے ہیں ممکن ہے کہ ان کے درمیان ہر معاملے میں سو فیصد اتفاق موجود نہ ہو، لیکن کیا اس کا مطلب عداوت ہے اس کا مطلب دشمنی ہے، بغض ہے ، نہیں ہر گز نہیں ،اسی طرح اجتماعی اور سیاسی میدان میں بھی مختلف الخیال افراد کو ہونا اور ان کے درمیان اختلاف کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں، مجلس وحدت مسلمین جو کہ ایک الہٰی جماعت ہے ہم اس کے بنانے والوں نے کسمپرسی کے عالم اور بے سروسامانی میں یہ سنگین بوجھ اٹھا یا تھااور آج تک اپنی جان ہتھیلی پر لیئے میدان میں ڈٹے ہو ئے ہیں ،اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اسے کمزور کرسکے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے ہم اس کی راہ میں اپنی گردن تو کٹوا سکتے ہیں خون تو بہا سکتے ہیں لیکن چونکہ یہ مجلس دین کے لئے اور ہم اس کے لئے ہمیشہ کھڑے ہیں،انہوں نے کہا کہ جب ایک فیصلہ ہو گیا ہے کہ ہمیں بھوک ہڑتال پر بیٹھنا ہے تو پھر بیٹھنا ہےاور اس وقت تک بیٹھنا ہے کہ جب تک آپ کے مطالبات تسلیم نہ ہوں ، ایجنسیاں مجلس وحدت مسلمین کی طاقت سے خوفزدہ ہیں ، روز اول سے مجلس کی طاقت کو ختم کرنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیئے جارہے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ مجلس طاقت ور رہے اور انہیں اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑیں ،لہذٰا وہ ہمارے آپ کے درمیان دوریاں اور نفرتیں پھیلانے کیلئے تمام ترسلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں اور لا رہے ہیں ، یہ کوئی نئی بات نہیں یا کام ایجنسیاں دنیا بھر میں کرتی ہیں اور یہاں بھی کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بھوک ہڑتالی کیمپ کے نتیجے میں ایک ایسا قدم اٹھا ہے کہ جس نے مظلومیت اور شہداءکی آواز کوراجہ صاحب محترم کے ذریعے لوگوں کی دہلیز تک پہنچایا ہے یہ ایک بڑی کامیابی ہے یہ اس تحریک کا نتیجہ ہے کہ آپ چاہئے کچھ نہ کرسکیں لیکن شہداء سے تجدید عہد کو دنیا کے سامنے واضح کریں اور آپ اس میں کامیاب ہوئے ہیں، تمام مساجد، تمام عزادار، تمام تنظیمات کو اس بھوک ہڑتال میں شمولیت کی دعوت دی جائےتاکہ وہ یہاں جمع ہو کر اپنی طاقت کا اظہار کریں اور دشمن کو پیغام دیں کہ ہم اکھٹے ہیں ، انہوں نے کہا کہ کچھ کھسیانی بلیوں نے اس بھوک ہڑتالی تحریک کے خلاف طرح طرح کے منفی پروپگنڈے کیئے کہ یہ غیر شرعی اقدام ہے اس کی کیا حیثیت ہے لیکن مجتہدین اور فقہا کہ فتاویٰ آجانے کے بعد ان کی دکانیں بند ہوگئیں، مجلس وحدت مسلمین ایک زمینی حقیقت ہےاور شیعہ قوم کی بیداری کا ایک مضبوط اور بہتر ذریعہ ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مجلس کو راجہ صاحب جیسی قیادت عطا کی ہوئی ہے تو ہم سب کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ اس مبارک اور پاکیزہ موومنٹ میں آج انکا ساتھ دیں تاکہ کل اس قوم کے آبرو اور قسمت کا فیصلہ کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہوں ، ایک زندہ قوم کی حیات کا مظہر بننے کیلئے اس طرح کی فعالیت اور میدان میں حضوربہتر پلاننگ کے ساتھ بہت ضروری ہے اور اس میں ہم سب ایک ہیں اور ایک رہیں گے، مجلس کو اس کے مقدس اہداف تک پہنچانے میں اکھٹا رہیں گے، ہمیں لڑانے کے خواہش مندبدخواہوں کو انشاءاللہ مویوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا، مجلس ایک قومی امانت ہے ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے اور اسے طاقت ور بنانا ہے ۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے زیر اہتمام نویں اجتماعی شادی کا اہتمام یزدان خان ماڈل ہائی اسکول کے سبزہ زار پر کیا گیا ، جس میں 20 جوڑوں کی اجتماعی شادی کروا دی گئی، اس اجتماعی شادی کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں 2جوڑوں کا تعلق مسیحی برادری، 5کا تعلق اہلسنت اور 13کا تعلق اہل تشیع سے تھا، اس طرح یہ خوبصورت گلدستہ سجا کر ایم ڈبلیوایم کوئٹہ ڈویژن نے بین المسالک ہم آہنگی کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے ۔ تقریب کی مہمان خصوصی ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی تھیں جبکہ دیگر مہمانان گرامی میں ایم ڈبلیوایم کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا ، علامہ ہاشم موسوی سمیت مختلف سیاسی وسماجی شخصیات اورتمام دولہا اور دلہنوں کے عزیز واقارب نے شرکت کی، ایم ڈبلیوایم کی جانب سے تمام نوبیہاتہ جوڑوں میں جہیز بھی تقسیم کیا گیا۔
ڈپٹی سپیکر محترمہ راحیلہ حمید درانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایم ڈبلیوایم کی جانب سے منعقدہ اجتماعی شادی کی نویں تقریب میں شرکت میرے لیئے افتخار کا باعث ہے، یہ تقریب نہ فقط ایک شادی ہے بلکہ تمام مذہب اور مسالک کے درمیان اتحاد کا مرکزبھی ہے، میں اس شاندار تقریب کے انعقاد پر ایم ڈبلیوایم کے قائدین کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں کہ جو بلوچستان میں امن ومحبت کے قیام میں ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔
ایم ڈبلیوایم کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا نے اپنے خطاب میں کہاکہ مجلس وحدت مسلمین بلاامتیاز رنگ و نسل، انسانیت کی خدمت پر یقین رکھتی ہے، ہم نے آٹھ اجتماعی شادیوں کے ذریعے سینکڑوں افراد کی شادیاں کروائی جس کا عملی ثبوت اجتماعی شادی کی شاندار تقریب ہیں ،جس میں تمام برادر اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں، ان لوگوں میں بڑی تعداد ایسے افراد جو شادی کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھے، اور الحمداللہ اس بار نویں اجتماعی شادی کا اہتمام کیا گیا، جس میں مختلف مسالک، مذاہب اور اقوام کے افراد شامل ہیں، نویں اجتماعی شادی میں بھائی چارگی اور اتحاد کا بہترین نمونہ پیش کیا گیا، جس میں اہل تشیع کے علاوہ اہل سنت سے تعلق رکھنے والے اور عیسائی برادری کے جوڑے بھی اجتماعی شادی کا حصہ ہیں ۔
ایم ڈبلیوایم کے مرکزی رہنما اور امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی نے کہاکہ ہم اللہ کے بے حد شکرگزار ہیں کہ اللہ نے ہمیں اپنے بندوں کی خدمت کا موقع دیا اور اس کار خیر کا ذمہ ہمارے سپرد کیا ۔ اجتماعی شادی میں ہر زبان و مذہب کے لوگ شریک ہوئے جو اس بات کا ثبوت یہ کہ ہم نے ہر مذہب، مسلک اور زبان کے لوگوں کو برابر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ رشتہ ازدواج میں بندھنا ایک ایسا نیک کام ہے جو انسان کے ایمان کی تکمیل کا سبب بنتی ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ معاشرے کے موجودہ رسوم و رواج نے شادی کو ایک غریب انسان کیلئے بے حد مشکل بنا دیا ہے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے دو اقدامات اٹھائے پہلا اقدام شادیوں کے اخراجات میں کمی لانے کیلئے لوگوں کے شعور کو بیدار کیا تاکہ لوگ ان فضول خرچوں کے نقصانات سے گریز کریں ، عوام سے گزارش کی کہ وہ فضول رسم و رواج کے خاتمے میں ہمارا بھرپور تعاون کرے اور دوسرا اقدام اجتماعی شادی کی صورت میں اٹھایا گیا اور اللہ کے فضل و کرم سے یہ اقدام معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کا باعث بنا اور اس کے ساتھ ساتھ ہی اجتماعی شادیوں کا سلسلہ بھی آگے بڑھتا رہے گا۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا نے بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا اور علامہ ناصر عباس جعفری سے ملاقات کی، اس موقع پر شہلا رضا نے علامہ ناصر عباس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ علامہ حسن ظفرنقوی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں شہلا رضا کا کہنا تھا کہ چاروں صوبائی حکومتیں بالعموم اور پنجاب حکومت باالخصوص ایم ڈبلیو ایم کے مطابات پر کان دھرے، علامہ ناصر عباس کے تمام مطالبات قانونی و آئینی ہیں، پنجاب حکومت عزداروں کے خلاف کاٹی گئی تمام ایف آئی آرز کو واپس لے۔ اس موقع پر علامہ حسن ظفرنقوی کا کہنا تھا کہ ہم اپنی بہن کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ یہاں تشریف لائیں اور اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھوک ہڑتالی کیمپ جاری رہے گا، اس لئے پنجاب اور وفاقی حکومت سن لے کہ ہمیں یہاں سے اٹھنے والے نہیں ہیں۔ آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے کہتے ہیں کہ ملت جعفریہ کی نسل کشی پر نوٹس لیں۔