Ahsan Mashadi

Ahsan Mashadi

weku natomiast pierwej usma|onymi pieczarkami z przenn. Pszeniczn do piecyka. I naci pietruszki, powikszajc póB pory na optymistycznie lukratywny kolor. http://vitamineforharet.eu - http://vitaminizakosa.eu
Website URL: http://max-penis.eu Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)آزادی انسانی فطرت کی آواز ہے۔ کوئی انسان جتنا انسان ہوتا ہے، اتنا ہی آزادی پسند ہوتا ہے۔ انسانی فطرت جس طرح غلام رہنا پسند نہیں کرتی، اُسی طرح دوسروں کو غلام رکھنا بھی اسے گوارا نہیں۔ دین اسلام کی نظریاتی تعلیمات میں سے ایک اہم نظریہ اپنی آزادی کا تحفظ اور دوسروں کی آزادی کا احترام ہے۔ اِسی فطرت کی آواز کو انبیائے کرام کا مشترکہ ایجنڈا اور اسلام کا آفاقی و جہانی منشور بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے جتنے بھی انبیائے کرام بھیجے، وہ سب کے سب اقوام اور قبائل کو آزاد کرانے کیلئے آئے۔ اللہ نے کوئی ایک نبی بھی لوگوں کو غلامی کا درس دینے کیلئے نہیں بھیجا۔ اُس نے غلام اقوام میں اس لئے تو انبیاء بھیجے کہ وہ اقوام آزاد ہو جائیں، لیکن اس لئے کوئی رسول نہیں بھیجا کہ وہ حالات کی مشکلات کے پیشِ نظر لوگوں کو غلامی پر رضا مند کرے۔

آزادی کی ضِد غلامی ہے۔ کوئی انسان جتنا انسانیت سے دور ہوتا ہے، وہ اتنا ہی غلامی پسند ہوتا ہے۔ حالات کے امتحان میں اپنی آزادی کو گروی رکھ کر غلامی کا طوق پہن لینا اُس کیلئے کوئی عیب نہیں ہوتا۔ انسانی اقدار سے عاری ایسے پست لوگ ہی طاقت اور اقتدار ملنے کے بعد استعمار و استکبار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کیلئے مفادات کے حصول کی خاطر جس طرح غلام بن جانا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، اسی طرح اپنے مفادات کیلئے دوسروں کو غلام بنا لینا بھی ان کے نزدیک کوئی بری بات نہیں ہوتی۔ یہ آزادی کی ہر تحریک کے مقابل، حریت کی ہر آواز کے مخالف،  اور استقلال کے ہر راستے کی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ اگر غُلامی کے خلاف آسمانی کتابوں کے چراغ، انبیائے کرام کی سیرت کے نقوش اور بانی اسلام ؐ کی جدوجہد قافلہ بشریت کے سامنے نہ ہوتی تو  لوگ غُلامی کی غلاظت کو محسوس کرنا ہی چھوڑ دیتے۔

دینِ اسلام کے مکمل ہونے اور ختمِ نبوّت کے بعد مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا اور کٹھن امتحان مسلمانوں کے درمیان  آزادی کے شعور کو زندہ رکھنا ہے۔ نااہل حکمرانوں، جابر بادشاہوں اور عیاش سلاطین نے اس شعور کو ختم کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ انہوں نے مختلف حیلوں، حربوں، مکاریوں اور چالوں کے ذریعے مسلمانوں کو اپنا غلام بنایا اور پھر انہیں غلامی پر رضامند رکھنے کیلئے بڑی بڑی شاندار مساجد تعمیر کرائیں، وسیع و عریض دینی مدرسے بنوائے، مذہبی کتابیں لکھوائیں، کتابخانوں کا رواج ڈالا، تراجم کے مراکز قائم کئے اور مکاتب و مسالک کے درمیان مناظرے کروائے۔ رفتہ رفتہ لوگ اپنی آزادی کو بھول کر بادشاہوں کی دینداری کے گُن گانے لگے۔ مسلمان بطورِ قوم بظاہر زندہ رہے لیکن اُن میں زندگی کا شعور ختم ہوگیا۔ اُنہوں نے یہ سوچنا بھی چھوڑ دیا کہ نبی اکرم حضرت محمدﷺ کی اطاعت تو ہم نبوت و رسالت کی وجہ سے کرتے تھے، اب ان بادشاہوں کی اطاعت ہم کس وجہ سے کریں!؟

لوگ ان بے عمل، بدکار، عیاش اور بدمعاش بادشاہوں کو ظِل الہیٰ کہہ کر انہیں تعظیمی سجدے کرنے لگے، ان کے خلاف آواز اٹھانے کو بغاوت کہا جانے لگا اور باغیوں کے کفر و ارتداد کے فتوے جاری ہوگئے۔ مسلمان اپنا پیٹ کاٹ کر ان کے شاہی خزانے بھرتے اور یہ بادشاہ ان خزانوں سے اپنی طوائفوں کیلئے شاندار محلات تعمیر کراتے، رنگ رلیاں مناتے، عیش و نوش کے ساتھ زندگی بسر کرتے اور مسلمانوں سے کہتے کہ پکا اور سچا مسلمان وہ ہے، جو غربت و تنگدستی کی زندگی گزارتا ہے، پھٹے پرانے کپڑے اور جوتے پہنتا ہے اور نمک سے روٹی کھاتا ہے۔ مسلمانوں میں یہ شعور ہی ختم ہوگیا کہ بادشاہوں کا اسلام تو امیر کبیر ہے اور رعایا کا اسلام  بھوکا ننگا کیوں ہے۔؟ عقل و شعور کی یہ موت آج بھی جہانِ اسلام میں دکھائی دے رہی ہے۔

اسلامی ممالک میں حاکم طبقے اور اشرافیہ کے ٹھاٹ باٹ اور عام مسلمان کے شب و روز کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ لوگ نماز و روزے اور حج و زکواۃ میں مشغول ہیں، لیکن انہیں ایک اسلامی ریاست میں بطورِ مسلمان اپنے سیاسی و اقتصادی حقوق کا کچھ شعور نہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں بادشاہت کا طِلسم ٹوٹ چکا تھا۔ لوگ جن بادشاہوں اور حکومتوں کو اسلامی سمجھتے تھے، وہ سب تاراج ہوچکی تھیں۔ بیرونی استعمار نے ہلّہ بول کر مقامی استعمار کے وہ تاج اچھال دیئے تھے اور وہ سلطنتیں ختم ہوگئی تھیں۔ ٹیپو سلطان کی مانند جن حکمرانوں میں کچھ انسانیت و شرافت باقی تھی، وہ بھی استعمار کے طوفانی ریلے کے سامنے ٹھہر نہ سکے۔

اب وقت تھا کہ برِّصغیر کے مسلمانوں کو اُن کی خودی کی طرف دعوت دے کر انہیں سیاسی شعور دیا جائے اور اُن کی فطرت کی آواز “ آزادی” کو زندہ کیا جائے۔ بادشاہوں کے طِلسم سے آزاد ہونے والے ان مسلمانوں کو جلد ہی برطانوی استعمار کے خلاف اپنی خودی اور شناخت کا احساس ہوگیا۔ یہی احساس آگے چل کر قیامِ پاکستان کا باعث بنا۔ تاہم یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جیسے ریاستِ مدینہ کے قیام کے وقت مسلمانوں میں شعور کی لہر اتنی پختہ نہیں ہوئی تھی کہ وہ نبی اکرم ؐکے بعد اپنی آزادی کی حفاظت کرتے اور بادشاہوں و اشرافیہ کے غُلام نہ بنتے، ویسے ہی قیامِ پاکستان کے وقت بھی مسلمانوں میں سیاسی شعور کی سطح اتنی بلند نہیں تھی کہ پاکستانی مسلمان اپنی خودی اور استقلال کی حفاظت کرسکتے۔ چنانچہ جس طرح چودہ سو سال پہلے ریاستِ مدینہ ایک ملوکیت میں بدل گئی تھی، ویسے ہی  آج سے پچہتر سال پہلے قیامِ پاکستان کے بعد اس ریاست پر بھی اشرافیہ کا قبضہ ہوگیا۔

ریاستِ پاکستان پر اشرافیہ، نوابوں، بیوروکریٹوں، جرنیلوں اور وڈیروں کے خلاف بیداری اور شعور کی کئی تحریکیں چلتی رہیں۔ ایسے کئی دانشور اور رہنماء منظرِ عام پر آئے، جنہوں نے پاکستان کو عالمی اور مقامی استعمار سے آزادی دلانے کیلئے آواز اٹھائی اور شہید ہوئے۔ پاکستان میں عوام کی آزادی اور حرّیت کیلئے اٹھنے والی اِن موثر آوازوں میں سے ایک بڑی اور جاندار آواز علامہ عارف حسین الحسینی ؒکی تھی۔ آپ کی کچھ تقاریر سننے اور مکتوب صورت میں پڑھنے سے مجھ پر یہ واضح ہوا ہے کہ آپ کی جدوجہد کے دو پہلو تھے۔ ایک پہلو ہمہ جانبہ آزادی کے شعور پر مبنی تھا۔ یعنی سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، ثقافتی، تعلیمی، فکری، نظریاتی، عسکری۔۔۔ ہر لحاظ سے مسلمانوں کو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہونا چاہیئے۔ اسی طرح آپ کی جدوجہد کا دوسرا پہلو پرچم توحید و علمِ ختمِ نبوّت کے نیچے سارے مسلمانوں کو اپنی آزادی کیلئے متحد کرنا تھا۔

آپ مسلمانوں کے درمیان ہمہ جانبہ آزادی کے شعور کے فروغ کیلئے کسی قسم کی فرقہ وارانہ تقسیم یا جغرافیائی حدود کے قائل نہیں تھے۔ آپ کے پروگرامز، کانفرنسز، اجلاسوں، سیمینارز اور جلسے جلوسوں و پریس کانفرنسز میں دنیا کے ہر ملک کے مسلمانوں کیلئے ہمہ جانبہ آزادی کا پیغام ہوتا تھا۔ آپ نہ صرف یہ ہمہ جانبہ آزادی کا پیغام دیتے تھے بلکہ آپ اس پیغام پر ساری اُمّتِ مسلمہ کو متحد کرنے کیلئے داعی اتحاد و وحدت بن کر بھی ابھرے۔ آپ کی یہ ہمہ جانبہ آزادی کی آواز انسانی فطرت کی آواز تھی، چنانچہ یہ بلاتفریقِ مذہب و مسلک لوگوں کے دلوں میں اترتی گئی۔ مسلمانوں کو اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہونا چاہیئے، مسلمان حکمرانوں کو اسلامی ریاستوں کے معدنی ذخائر اور قدرتی وسائل کو استعمار کے ہاتھوں فروخت نہیں کرنا چاہیئے، اسلامی دنیا کو اپنی داخلہ و خارجہ پالیسیاں خود بنانی چاہیئے، اسلامی ریاستوں سے استعماری افواج کا انخلا ہونا چاہیئے۔

فلسطین، افغانستان اور کشمیر پر ساری امّتِ مسلمہ کا ایک موقف اور ایک آواز ہونی چاہیئے، مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے فرقہ وارانہ، علاقائی اور لسانی تعصبات کو فروغ دینے والے استعمار کے ایجنٹ ہیں، اسلام آزادی و خود مختاری کا دین ہے، لہذا پاکستان کے حکمرانوں کو  استعمار کے مقابلے میں استقلال اور آزادی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ علامہ عارف حسینی کے روح پرور نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان بھی اور بحیثیتِ پاکستانی بھی ایک آزاد قوم ہیں، ہمارے حکمرانوں کو بھی آزادانہ سوچنا اور عمل کرنا چاہیئے اور دیگر اقوام کو بھی ہم سے آزاد اقوام کی طرح برتاو کرنا چاہیئے۔ واضح کرتا چلوں کہ آزادی کی آواز چونکہ انسانی فطرت کی آواز ہے، لہذا ہر دور، ہر زمانے اور ہر ملک میں مقبول ہوئی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جس رہبر و رہنماء نے بھی یہ آواز بلند کی ہے، وہ لیڈر اور رہنماء بھی عوام ُالناس کے درمیان مقبول ہوا ہے۔

گذشتہ دنوں مجلس وحدتِ مسلمین کے رہنماء علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے فطرت کی آواز کے بارے میں جو کہا، وہ نذرِ قارئین ہے: “ہم آزاد ہیں، یہ انسانی فطرت کی آواز ہے، لہذا فطرت کی آواز کو ہر انسان سنتا بھی ہے اور پسند بھی کرتا ہے۔ لوگوں کو اسے سننے سے روکا نہیں جا سکتا، آپ لوگوں کے کانوں میں روئی ڈال کر بند کرسکتے ہیں، لیکن فطرت اِن کانوں کی محتاج نہیں ہے۔” قارئینِ محترم ممکن ہے کہ بہت سارے لوگوں کیلئے “ہم آزاد ہیں” کی آواز نئی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ آواز انہی دنوں میں سُنی ہو، لیکن جو لوگ علامہ عارف حسینی ؒکے راستے کے حقیقی راہی ہیں، وہ اِس آواز سے اچھی طرح مانوس ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ “ہم آزاد ہیں” کی گونج کے پیچھے کئی صدیوں اور کئی سالوں کی جدوجہد پوشیدہ ہے۔ دوسری طرف جو لوگ فطرت کی آواز کے خلاف بولتے ہیں، ایسے لوگوں سے راستہ جدا کرنا ہی آزاد منش انسانوں کا فطری راستہ ہے۔

تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین علامہ احمد اقبال رضوی نےایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہید قائد عارف حسین الحسینی اتحاد امت کے داعی تھے۔ضیائی آمریت کے بدترین دور میں جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر آمریت کے خلاف آواز اٹھانے والی توانا آوازشہید علامہ سید عارف حسین الحسینی ؒ کی تھی۔ شہید قائد کی 34 ویں برسی کا انعقاد مہدی برحق کانفرنس کے عنوان سے  24جولائی بروز اتوار سہ پہر تین بجے جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔مجلس وحدت مسلمین اپنے شہید قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہر سال برسی کی تقریب شایان شان انداز میں منعقد کرتی ہے۔وطن عزیز سے مذہبی ، لسانی ، قومی  اور مسلکی تعصبات  کے خاتمے کے لیے  کلیدی کردار ادا کرنے والے عظیم رہنما کی برسی میں  مختلف مکاتب فکر کے علماء ، اکابرین، مذہبی و سیاسی شخصیات اور کارکنوں کی بڑی تعداد شرکت کرے گی۔مستحکم  اور مضبوط پاکستان شہید قائد کا وہ موقف ہے جس کا تائید میں آج مجلس وحدت مسلمین پوری طاقت کے ساتھ میدان میں کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ارض پاک تاریخ کے ایک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔اقتدار کی بقا اور طوالت کے لیے جمہوری روایات کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔پنجاب میں وزیر اعلی کے انتخاب میں ڈپٹی سپیکر کی غلط رولنگ  منصب کی بے توقیری ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب میں جس غیر جمہوری رویے  اور غیر منصفانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس کے ملکی سیاست پر بدترین اثرات رونما ہوں گے۔ جمہوریت کی آڑ میں دھونس دھاندلی کی سیاست غیر جمہوری طاقتوں کو موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔سیاسی جماعتوں کو دانش و بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے اسے معاشی و سیاسی بحرانوں میں جکڑا جا رہا ہے۔ملک کی موجودہ صورتحال اقتدار کی رسہ کشی کے لیے قطعاً موزوں نہیں۔تمام سیاسی قوتیں پاکستان کو معاشی بحران کے دلدل سے نکالنے کے لیے افہام و تفہیم کا مظاہرہ کریں اور اعتدال سے کام لیں ۔اقتدار بچانے کی بجائے ملک بچانے کی فکرکی جائے۔ایسی صورتحال میں ان اداروں کو بھی  مثبت کردار ادا کرنا ہو گا جو سیاسی عمل  اور فیصلوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔عام آدمی کی زندگی اذیت کا شکار ہو چکی ہے۔حکومت روپے کی گراوٹ کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے کی فکر کرنے کی بجائے اقتدار کے لیے بے قراری کا مطلب عوامی مشکلات سے بے غرضی ہے۔ پریس کانفرنس میں مرکزی رہنما علامہ اعجاز بہشتی ، سید اسد نقوی ،سلیم عباس صدیقی، علامہ شیخ عباس ، مولانا مشتاق حکیمی،مولانا ظہیر کربلائی،مولانا جان حیدری اورمولانا عیسیٰ امینی بھی شریک تھے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے پنجاب میں جاری سیاسی و آئینی بحران پر شدیدتشویش کا اظہار کیا ہے ۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں جس بددیانتی کا مظاہرہ کیا گیا اس سے پوری دنیا میں پاکستان کی تضحیک ہوئی۔دولت کے بل بوتے پر جمہوری اقدار کی پامالی عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔

سیاسی فرعونوں نے ارض پاک کو شدید معاشی بحران کے بعد بدترین سیاسی بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔یہ سیاسی بحران ملک کی کمزور  معیشت کو مزید تباہی کے دہانے پر پہنچادے گی۔

وحدت نیوز(لاہور)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے لاہور میں حضرت بی بی پاک دامنؒ کے دربار پر حاضری دی، فاتحہ خوانی کی اور دربار میں جاری تعمیراتی کام کا جائزہ لیا۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مرحوم سیٹھ بشارت علی کے وقف کردہ زیر تعمیر مسافر خانے پر دعائے خیر بھی کی۔ اس موقع پر مرکزی سیکرٹری سیاسیات اسد عباس نقوی، صوبائی سیکرٹری سیاسیات سید حسن کاظمی، سیٹھ عدنان علی اور شیخ عمران بھی ہمراہ تھے۔ علامہ راجہ ناصر عباس سے زائرین نے بھی ملاقات کی اور جنہوںنےاپنی مشکلات سے آگاہ کیا۔

زائرین کا کہنا تھا کہ ایک طویل عرصے سے تعمیراتی کام کا بہانہ بنا کر مزار کو بند رکھا گیا ہے، جبکہ ملک بھر سے آنیوالے زائرین کو مزار کی بندش سے مشکلات ہیں۔ زائرین کی شکایات پر علامہ راجہ ناصر عباس نے محکمہ اوقاف کے حکام کو کام کی رفتار تیز کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے دیکھیں گے کہ کہیں تعصب کا مظاہرہ تو نہیں کیا جا رہا، اگر اس معاملے میں کوئی سازش نظر آئی تو محکمہ اوقاف کی ذمہ داروں کیخلاف ایکشن لیا جائے گا اور حکومت کو ان کی شکایت کی جائے گی۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام قومی مرکز شاہ جمال لاہور میں "عزاداری کانفرنس" کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس کی صدارت چیئرمین ایم ڈبلیو ایم پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کی جبکہ آئمہ جمعہ جماعت، علمائے کرام، ذاکرین عظام سمیت عمائدین ملت کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ عزاداری ہمارا آئینی، قانونی اور مذہبی حق ہے، جس سےکسی طور بھی دستبردار نہیں ہوں گے، عزاداری کی راہ میں واقعہ کربلا کے بعد سے روڑے اٹکائے جا رہے ہیں، لیکن یہ وہ دریا ہے جو اپنی موج میں بہتا ہی رہتا ہے اور بہتا ہی رہے گا، اس کا راستہ ماضی میں کوئی روک سکا اور نہ مستقبل میں اس کی راہ کوئی روک سکے گا، کئی یزید آئے اور چلے گئے عزاداری قائم ہے اور قائم رہے گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قانون ہمیں مکمل مذہبی آزادی دیتا ہے، چند مٹھی بھر تکفیری کو تنہائی کا شکار ہو چکےہیں، وہ عزاداری کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کی مذموم کوششیں کرتے رہتے ہیں، مگر ہم ان یزیدی گماشتوں سمیت حکمرانوں پر بھی واضح کرنا چاہتےہیں کہ عزاداری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔

 انہوں نے کہا کہ کچھ دشمنانِ امام حسین عزاداری کے انعقاد پر مقدمات درج کروا دیتے ہیں، اس حوالے سے بھی ہم نے حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ ماضی میں درج کئے گئے ایسے تمام بے بنیاد مقدمات خارج کئے جائیں اور نئے مقدمات کے اندراج کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئی جی پولیس پر واضح کرتے ہیں کہ پولیس کو ایسے اقدامات سے باز رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ محرم الحرام نواسہ رسول کی یاد منانے کا مہینہ ہے، لیکن افسوس کہ اس مہینے میں امن و امان کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے، کیا کوئی یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ ان شرپسندوں کو نواسہ رسول سے دشمنی کیا ہے۔ انہیں علم کے لہرانے اور ذوالجناح کی شبیہہ سے تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر امام خمینیؒ کا قوم صادق آتا ہے کہ ماتم میں ہمارے سینوں پر پڑنے والے ہاتھ دراصل یزیدیت کے منہ پر طمانچہ ہیں۔

 علامہ راجہ عباس کا کہنا تھا کہ عزاداری ہمارا قانونی و آئینی حق ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ حکومت کی طے شدہ ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے عزاداری کے مراسم کو ادا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ اور پنجاب حکومت عزاداروں کی سکیورٹی اور مجالس عزاء و جلوس ہائے عزاء کے انعقاد میں عزاداران امام عالی مقام کیساتھ بھرپور تعاون کرے، صوبائی سیکرٹریٹ میں قائم کنٹرول روم سے پنجاب بھر کے اضلاع سے رابطے میں رہیں گے، کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں انتظامیہ کیساتھ مل کر اس کا سدباب کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن عزاداری جو ہمارا بنیادی آئینی و قانونی حق ہے اس پر کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہماری یہ عبادت ہے اور ہم اس میں کسی بھی قسم کے خلل کو بنیادی آئینی حقوق سے متصادم سمجھتے ہوئے مسترد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیرت معصومینؑ پر عمل کرتے ہوئے ہمیں باہمی وحدت اخوت اور امن و محبت کی فضا کر برقرار رکھنا ہے تاکہ دشمن اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنماء اور مرکزی سربراہ عزاداری کونسل علامہ مقصود علی ڈومکی نے آج ایک وفد کے ہمراہ آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ سے ملاقات کی۔ ملاقات میں ایم ڈبلیو ایم بلوچستان کے صوبائی نائب صدور و اراکین صوبائی عزاداری کونسل علامہ شیخ ولایت حسین جعفری اور آغا سہیل اکبر شیرازی ان کے ہمراہ تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے جناب عبدالخالق شیخ کی بطور آئی جی پولیس بلوچستان تعیناتی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ محرم الحرام نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں ذکر حسین علیہ السلام، عزاداری، مجالس اور جلوس عزاء عبادت کا درجہ رکھتے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ عزاداروں کی سکیورٹی کے لئے فول پروف انتظامات کرے۔ مجلس وحدت مسلمین کی عزاداری کونسل، وحدت یوتھ اور ہمارے رضا کار قیام امن کے سلسلے میں پولیس اور انتظامیہ سے مکمل تعاون کریں گے۔ ہمیں امید کہ پولیس اور انتظامیہ بھی ایام عزاء کے دوران عزاداروں اور بانیان مجالس سے مکمل تعاون کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ محرم اور صفر کے دوران مجالس عزاء اور عزاداری کے حوالے سے خواتین کے بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ جن کی سکیورٹی کے لئے لیڈیز پولیس کو تعینات کیا جائے اور اس سلسلے میں خواتین رضاکاروں کی خدمات لی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بدلتے موسمی حالات گرمی اور سردی میں سورج کے غروب میں دو سے ڈھائی گھنٹے کا فرق ہوتا ہے۔ جس کا اثر مجالس عزاء اور جلوس عزاء کے اوقات پر بھی پڑتا ہے۔ لہٰذا پولیس انتظامیہ اور ایف سی کو ان اوقات کے سلسلے میں بانیان مجالس عزاء و جلوس اورعزاداری کونسل کے اکابرین سے تعاون کی تاکید کی جائے۔

اس موقع پر انہوں نے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں عزاداروں کو در پیش مشکلات اور رکاؤٹوں کے حوالے سے آئی جی پولیس کو آگاہ کیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ نے کہا کہ پولیس قیام امن کے سلسلے میں سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔ پولیس اور عوام کا باہمی تعاون صوبے میں قیام امن کی ضمانت ہے۔ محرم الحرام اور چہلم شہدائے کربلا کے موقع پر پولیس اور عزاداروں و بانیان مجالس کے درمیان باہمی تعاون کی فضاء ہوگی۔ اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے آئی جی صاحب کو اپنی تحریر کردہ کتاب (حدیث غدیر اہل سنت کی معتبر کتب احادیث کی روشنی میں) کا تحفہ پیش کیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree