وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے ووحدت ہاوس ایم ڈبلیو ایم کراچی ڈویژن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل ضیا الحق نے افغانستان کے راستے آنے والے دہشت گردوں کو اس ملک میں پناہ دی۔جس کا نتیجہ کلاشنکوف کلچر کی شکل میں سامنے آیا۔.اسلام کی بنیادی تعلیمات سے عاری دہشت گرد گروہوں نے اسلام کے نام پر اس ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم کیے رکھا۔اولیاء اللہ کے مزارات اسکولوں اور بازاروں کو نشانہ بنایا گیابانیان پاکستان کے بیٹوں کی نسل کشی کی گئی جو اب تک جاری ہے۔ارض پاک پر کسی بھی دہشتگردی کو قبول نہیں کریں گے ۔ اجلاس میں علامہ مبشر حسن مولانا نشان حیدر ،مولانا صادق جعفری مولانا احسان دانش و دیگر رہنما موجود تھے ان کا کہنا تھا کہ ہزاروں معصوم اور بے گناہ افراد کو دہشت گردی کا شکار بنایا گیا۔داعش اور اس کے حامی گروہ ملک اور اس کے اطراف میں اڈے قائم کر رہے ہیں۔ ملک کو کمزور کرنے کی سازش کی جاری ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنی آنکھیں کھولے اور ان دہشتگردوں کے خلاف فوری کاروائی کرے۔ امریکی و صہیونی ایما پر کالعدم جماعتیں اس ملک میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی سازش ہے۔20 کروڑعوام کے خلاف لشکر تشکیل دیا جارہا ہے۔ 80 ہزار ملک کے با وفا بیٹوں نے قربانیاں دی۔ضرب عضب ہو یا رد الفساد مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے سیکیورٹی اداروں کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کی صرورت ہے ۔حکمران ان بحرانوں کا سامنا نہیں کر سکتے ہیں۔ہے پاکستان میں داعش کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہے سیہون میں دہشتگردی سے عوام میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ ملک میں فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ ملک میں سب سے زیادہ ملت جعفریہ کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرے ناکہ عوام کی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنے حکومت نیشنل ایکشن پلان کے نام پر بے گناہوں کے بجائے مجرموں کے خلاف کاروائی کرے۔ہم قائد اعظم و علام اقبال کے پاکستان کی جدو جہد کرتے رہیں گے۔پنجاب میں کالعدم جماعتوں کو حکمرانوں کی حمایت حاصل ہیں ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) جو لوگ وسطی اور جنوبی ایشیا کی نفسیات جاننے والے عصرِ حاضر کے مغربی لکھاریوں سے واقف ہیں وہ برطانوی مورخ ولیم ڈال رمپل سے بھی واقف ہوں گے۔گذشتہ ہفتے سیہون میں قلندر کے مزار پر خود کش حملے کے بعد اخبار گارڈین میں ان کا ایک مضمون چھپا۔ایک جگہ لکھتے ہیں،

’’چند برس پہلے جب میں سیہون گیا تو قلندر کے مزار سے زرا فاصلے پر ایک حویلی میں قائم مدرسے کے نوجوان مہتمم سلیم اللہ سے ملاقات ہوئی۔سلیم اللہ ایک پڑھا لکھا آدمی ہے۔اس نے بلا لاگ و لپیٹ شریعت و تصوف پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔بقول سلیم اللہ ہم مزار پرستی کے مخالف ہیں۔قرآنی تعلیمات اس بابت بالکل واضح ہیں کہ مردے کچھ نہیں دے سکتے بھلے وہ ولی ہی کیوں نہ ہوں۔قبر پرستی اور بت پرستی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔میری بات لکھ لو کہ طالبان کی مزید شدت پسند شکل پاکستان میں آ رہی ہے۔خلافت قائم ہونے کے بعد یہ ہمارا فرض بن جائے گا کہ تمام درگاہیں اور مزارات ڈھا دیں۔اور اس کا آغاز یہاں سیہون سے ہوگا۔

ولیم ڈال رمپل لکھتے ہیں کہ سلیم اللہ کا تعلق جس مذہبی طبقے سے ہے اس کے پانچ ہزار مدارس ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور مزید ڈیڑھ ہزار مدرسے صرف سندھ میں کھولے جا رہے ہیں۔ہارورڈ یونیورسٹی اور عالمی بینک کے ایک حالیہ تحقیقی مطالعے کے مطابق اس وقت پاکستان میں معلوم مدارس کی تعداد آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے اور یہ تعداد انیس سو سینتالیس کے مقابلے میں ستائیس گنا ہے۔


مسلمانوں کی تاریخ میں بنیاد پرستوں اور تصوف کے ماننے والوں کے مابین کھینچا تانی ہمیشہ سے ہے۔مگر چند عشرے قبل تک اس کش مکش میں الفاظ و دلائل کے ہتھیار استعمال کیے جاتے تھے۔تصوف اور اس کے مراکز اور صوفیوں کی درگاہوں یا مزارات کو ایک خاص نظریے کے تحت نشانہ بنانا یا انھیں منہدم کردینے کا عمل بھی دو سو برس سے زیادہ پرانا نہیں اور یہ طرح جزیرہ نما عرب میں اٹھارویں صدی کے مبلغ عبدالوہاب اور ان کے پیرو کاروں نے ڈالی مگر انہدام یا پابندی کا عمل زیادہ تر جزیرہ نما عرب تک ہی محدود رہا۔

برِ صغیر میں انیسویں صدی کے وسط میں جنم لینے والے دیوبندی اور پھر بریلوی مکاتیب فکر کے مابین بدعت و شرک کی تشریحات کے مسائل پر مناظروں کی حد تک تو مچیٹا چلتا رہا مگر ابھی اس اختلاف نے جان لیوا انتہا پسندی کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔گولی نے دلیل کی جگہ نہ لی تھی۔حتیٰ کہ افغانستان پر سوویت قبضے کے بعد اگلے دس پندرہ برس میں سعودی حمایت یافتہ افغان مجاہدین کے عروجی دور میں بھی درگاہوں اور مزاروں کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔خود طالبان کے چھ سالہ دورِ اقتدار میں کابل میوزیم میں موجود دورِ کفر کی نشانیوں کی توڑ پھوڑ اور بامیان صوبے میں گوتم بدھ کے دو دیوہیکل سنگی مجسموں کو ڈائنامائٹ سے اڑانے کے سوا صوفی مراکز یا مزارات پر حملوں کا کوئی بڑا واقعہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔

مگر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جب مقامی طالبان نے زور پکڑا اور اس سے پہلے افغان سوویت جنگ کے زمانے میں بالحضوص خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے ان مدارس سے جو دیوبند کی علمی روایت سے غیر مطمئن ہو کر تکفیری نظرئیے کے تحت پروان چڑھے۔

ان مدارس سے فارغ التحصیل یا ان مدارس کے اساتذہ سے متاثر ہونے والے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا نے نہ صرف شدت پسند تنظیمیں تشکیل دیں بلکہ گولی کو دلیل سے بدلنے کی کوشش کی اور اس کے جواز کے لیے نظریاتی لٹریچر کی تیاری اور اشاعت کا کام شروع کیا۔بجائے اس کے کہ ریاست یا مختلف مکاتیبِ فکر کے با اثر علما معاشرے کو جوڑنے کے بجائے منتشر کرنے کی ان کوششوں اور رجحانات کو پھیلنے سے روکنے کی بروقت فکری کوشش کرتے۔الٹا انھوں نے یا تو خاموشی میں عافیت جانی یا پھر خود بھی نئی ہوا کے ساتھ چل پڑے۔

چنانچہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں ریڈیکلائزیشن کا عمل جتنا تیز ہوا اور اس کے توڑ کی کوششیں جتنی فرسودہ اور سست ہوتی گئیں اس کے نتیجے میں زندہ مخالفین کے ساتھ ساتھ قبروں کے مکین بھی لپیٹ میں آتے چلے گئے۔پہلے تحریکِ طالبان پاکستان اور القاعدہ کے ہم خیال نوجوانوں نے یہ کام شروع کیا۔ اور اب متشدد انداز میں نظریے کو حلق سے اتارنے والی جدید مشین داعش اور اس کی حلیف مقامی تنظیموں کی شکل میں متحرک ہو چکی ہے۔

پچھلے بارہ سال میں جتنے مزاروں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا ان کی تعداد گذشتہ آٹھ سو برس کی برصغیری تاریخ میں نشانہ بننے والی درگاہوںسے بھی زیادہ ہے۔اگر بڑی درگاہوں پر ہونے والے موٹے موٹے حملے ہی گننے بیٹھیں تو بلوچستان میں جھل مگسی کے علاقے میں پیر رکھئل شاہ کی درگاہ کو انیس مارچ دو ہزار پانچ کو نشانہ بنایا گیا۔اس خود کش حملے میں لگ بھگ پچاس افراد ہلاک ہوئے۔

ستائیس مئی دو ہزار سات کو اسلام آباد میں بری امام کے مزار پر خود کش حملے میں اٹھائیس جانیں گئیں۔گیارہ اپریل دو ہزار چھ کو نشتر پارک میں عید میلاد النبیؐ کے اجتماع پر حملے میں سنی تحریک اور جماعت اہلِ سنت کی تنظیمی قیادت صاف ہو گئی۔ لگ بھگ تریسٹھ ہلاکتیں ہوئیں۔( واضح رہے کہ اس وقت تک لال مسجد اسلام آباد آپریشن نہیں ہوا تھا جسے شدت پسندی میں پھیلاؤ کا کلیدی محرک بتایا جاتا ہے )۔

اٹھائیس دسمبر دو ہزار سات کو پشاور کے مضافات میں عبدالشکور ملنگ بابا کا مزار اڑا دیا گیا ، تین مارچ دو ہزار آٹھ کو گاؤں شیخاں میں ابو سعید بابا کے چار سو برس پرانے مزار پر خود کش حملے میں دس افراد ہلاک ہوئے۔پانچ مارچ دو ہزار نو کو پشتو ادب کے دماغ رحمان بابا کے مزار کو اڑا دیا گیا۔اسی مہینے  میں نوشہرہ میں بہادر بابا اور اپریل دو ہزار نو میں بونیر میں پیر بابا کے مزار پر حملہ ہوا۔یکم جولائی دو ہزار دس کو لاہور میں داتا دربار پر بم حملے میں پینتیس زائرین ہلاک اور پونے دو سو زخمی ہوئے۔

سات اکتوبر دو ہزار دس کو کراچی میں عبداللہ شاہ غازی مزار پر حملے میں آٹھ ہلاکتیں اور ساٹھ زخمی ہوئے۔اکتیس دسمبر دو ہزار پندرہ کو شکار پور میں امام بارگاہ پر خودکش حملے میں ساٹھ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔بارہ نومبر دو ہزار سولہ کو خضدار میں شاہ نورانی کی درگاہ پر خود کش حملے میں تریسٹھ افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے اور اب سیہون کی درگاہ پر حملہ۔اس پورے عرصے میں محرم اور دیگر بیسیوں مذہبی جلوسوں اور اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

مطلب یہ ہوا کہ اب گفتگو کا دور ختم ہوا۔بات گالی سے شروع  اور گولی پر ختم ہوگی۔اب دلیل میں نہیں بم میں دم ہونا چاہیے۔اگر تو مزارات اور درگاہوں کا معاملہ کفر اور اسلام اور مشرک و مومن کا ہے تو پھر تو اتنی درگاہوں پر حملوں کے بعد وہاں جانے والے بیشتر زائرین کو عقل آجانی چاہیے تھی۔ مگر میں نے جن جن درگاہوں کا زکر کیا وہاں تو آج بھی زندگی پوری شد و مد سے جاری و ساری ہے۔ان درگاہوں اور مزاروں میں مدفون ہستیوں کے عمل میں کوئی تو ایسی بات ہوگی کہ لوگ اب بھی کھچے چلے جا رہے ہیں ، نعرے لگا رہے ہیں ، رقص کر رہے ہیں ، لنگر بانٹ رہے ہیں ، کھا رہے ہیں ، نقد نذرانے دے رہے ہیں ، قوالی پر حال کھیل رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

میں ذاتی طور پر مزار پرست نہیں مگر کسی کو اگر کسی مزار پر جا کے آنند مل رہا ہے تو مجھے کیا ؟ کسی کا کوئی دکھڑا سننے والا نہیں اور وہ قبر کو اپنا دکھڑا سنا کے ہلکا ہو رہا ہے تو برا کیا ہے ؟  آخر مہنگے مہنگے ماہرینِ نفسیات کے پاس بھی تو لوگ دکھڑا سنانے ہی جاتے ہیں۔اگر میں کسی کو کھانا نہیں کھلا پارہا اور ہزاروں بھوکوں کا ان درگاہوں پر صبح شام پیٹ بھر رہا ہے تو میں کیوں جلوں ؟ اگر کوئی دھمال ڈال کر چند لمحے کے لیے اس دنیا سے کسی اور دنیا میں جانا چاہتا ہے تو میں کون ہوں اس کے قدم روکنے والا؟ جس کے صحن میں دیوانہ ناچ رہا ہے اسی کو برا نہیں لگ رہا تو میں اتنا برا کیوں مانوں گویا میرے صحن میں ناچ رہا ہو۔یہ ہستیاں جنھیں اس دنیا سے رخصت ہوئے سیکڑوں برس ہو گئے اگر آج بھی دکھ کی ماری خلقت کسی زندہ پرہیزگار عالمِ دین سے زیادہ ان قبر میں لیٹے ہوؤوں کو اپنے دکھ کا مداوا سمجھ رہی ہے تو زرا سوچئیے کہ اس خلقت کا دکھ کتنا بڑا ہے ؟

یہ ہستیاں اپنے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں کے لیے شائد اس لیے آج زندہ ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کسی عقیدے سے نفرت نہیں کی ، کسی کے فنڈز سے کلاشنکوف خرید کر کسی کے سر پے رکھ کے اسے مسلمان نہیں کیا۔ان کے دستر خوان پر جو بھی آ جائے آجائے ، جو بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کو کہے کہے ، مسلمان ہوگیا تو سو بسم اللہ نہ بھی ہوا تو مخلوقِ خدا تو ہے اور اسی سبب احترام ِ انسانیت کا حقدار بھی۔

تعجب ہے جب لشکرِ اسلام حجاز سے نکلا اور اسپین تا ہندوستان و وسطِ ایشیا تک پھیل گیا تو کسی فاتح صحابی یا سپاہ سالار کا خیال اس جانب کیوں نہ گیا کہ راہ میں آنے والی کسی غیرِ اسلام عبادت گاہ ، مجسمے یا مزار کو نہیں بچنا چاہیے۔اگر واقعی یہ رواج شرعاً جائز ہوتا تو آج طالبان کو بدھا کا مجسمہ اڑانے کے لیے کہاں نصیب ہوتا ؟ یا داعش اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو کوئی بھی مزار یا درگاہ تباہ کرنے کے لیے کہاں سے ملتے ؟ تو کیا اسلاف کا ایمان آج کے مسلمانوں کے ایمان سے کم تھا ؟


تحریر۔۔۔۔وسعت اللہ خان

وحدت نیوز(مظفرآباد) قائم مقام سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر مولانا سید طالب حسین ہمدانی نے کہا ہے کہ علامہ تصور جوادی پر حملہ کرنے والوں کو فوری گرفتار کیا جائے ، مجرمان کی گرفتاری آزاد کشمیر کے امن کے لیے انتہائی ضروری ہے، علامہ تصور جوادی پر حملہ امن کی فضا کو خراب کرنے کی بڑی سازش ہے۔ کشمیر کے باسی پرامن اور محب وطن ہیں ، یہاں کوئی شیعہ سنی تفریق ہے نہ ہونے دیں گے ۔ ہم اتحاد بین المسلمین کے لیے کام کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ علامہ تصور جوادی کا مشن و مقصد ہی یہی تھا ، کہ امت مسلمہ ایک پیج پر ہو ، اغیار کی سازشوں کو بھانپتے ہوئے انہیں اپنی صفحوں میں نہ گھسنے دے۔ شہر مظفرآباد امن کی علامت کے طور پر سمجھا جاتا تھا ، مگر ایک شریف النفس درویش صفت انسان کو گولیوں کا نشانہ بنا کر دن دیہاڑے فرار ہو جانا انتظامیہ کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے، پر زور مطالبہ ہے کہ جلد از جلد دہشت گردوں کو گرفتا ر کر کے سامنے لایا جائے ، عدم تحفظ کی فضا کو ختم کیا جائے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے دفتر میں آئے ہوئے مختلف وفود سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

 انہوں نے کہا کہ ہم حسینی قوم ہیں ، میدان میں نکلنا جانتے ہیں ، حکومت فوری طور پر سراغ لگائے ورنہ جب یہ قوم میدان میں نکل جائے تو پھر اسے کوئی نہیں بھگا سکتا ۔ مولانا طالب ہمدانی نے کہا کہ ایکشن کمیٹی نے پانچ دن کی ڈیڈ لائن دی تین روز گزرنے کو ہیں تا حال کوئی پیش رفت نہیں ، اس ڈیڈ لائن کے گزر جانے کے بعد راست اقدام اٹھائیں گے ، مجلس وحدت مسلمین پرامن جمہوری جماعت ہے ، مگراپنے محبوب رہنما کا خون رائیگان نہیں جانے دے گی ۔ مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے ہر کارکن کے اندر شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے معاملے کا فوری حل نکالا جائے بصورت دیگر ہم سڑکوں پر آئیں گے پھر اس وقت تک واپس گھروں کو نہیں لوٹیں گے جب تک علامہ تصور جوادی پر حملہ کرنے والے قانون کی گرفت میں نہ ہوں ۔ ہم انتظامیہ کے ساتھ ہیں ، مکمل تعاون کے لیے آمادہ ہیں ، مگر حکومتی بے بسی پر حیران کن ہیں ، اتنا بڑا سانحہ ہوجانے کے باوجود ایک وزیر ایک رکن نے بھی تعزیت و تسلیت کی زحمت گوارہ نہیں کی ۔ مولانا طالب حسین ہمدانی نے کہا کہ علامہ تصور حسین نقوی الجوادی صحت بہتری کی جانب گامزن ہے ، مگر قوم سے اپیل ہے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھے ۔ انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں کہ جب پھر ہمارا ہر دلعزیز رہنما ہمارے درمیان ہو گا ۔

وحدت نیوز (گلگت)  محکمہ خوراک کے ملازمین کے مطالبات حقیقت پر مبنی ہیں انہیں دیگر صوبوں کے ملازمین کے برابر سکیل دیا جائے۔جتنے بھی ملازمین کنٹریکٹ پر ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں انہیں مستقل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری امور سیاسیات علام عباس نے اپنے ایک بیان میں حکومت پر زور دیا ہے کہ محکمہ خوراک کے ملازمین کے مطالبات فوری طور پر منظور کئے جائیں تاکہ علاقے میں مصنوعی گندم کی قلت کو دور کیا جاسکے۔ملازمین کے جائز مطالبات اور مسا ئل کو ترجیحی بنیادپر حل کیا جائے تو ملازمین محنت اور لگن سے کام کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے طور سے ملازمین کے جائز مسائل حل نہیں کرتی جب تک کہ وہ ہڑتال پر نہ جائیں اور حکومت کی اس روش کی وجہ سے آئے روز کہیں نہ کہیں ہڑتال ہوجاتی ہے جس سے عام آدمی متاثر ہوجاتا ہے ۔محکمہ خوراک کے ملازمین کو بھی ملک کے دیگر صوبوں کے ملازمین کے برابر مراعات لینے کا حق حاصل ہے جس طرح دیگر محکموں کے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا گیا ہے اسی طرح محکمہ خوراک کے عارضی پوسٹوں پر کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی گندم کی مصنوعی قلت پیدا کرکے محکمے کے اعلیٰ آفیسروں نے زائد گندم کو بلیک مارکیٹ کرکے مال کمایا ہے۔ملازمین کی یہ ہڑتال اعلیٰ آفیسروں کی دانستہ بدنیتی ہے جنہوں نے ملازمین کے مسائل بروقت حل نہ کئے۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیںایساتو نہیں کہ ہڑتال کو جواز بناکر گندم بچت کی جائے اور بعد میں بلیک مارکیٹ کیا جائے۔انہوں نے چیف سیکرٹری سے مطالبہ کیا کہ وہ عوام کو گندم کی بروقت ترسیل کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

وحدت نیوز(گلگت) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے رہنماء شیخ نیئر عباس مصطفوی نے پاک فوج کی جانب سے آپریشن ردالفساد کا خیر مقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ پاک فوج اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کی روک تھام کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جاتے تو اتنے بڑے سانحات دیکھنے نہیں پڑتے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکمرانوں نے نیشنل ایکشن پلان کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور اپنی حریف جماعتوں کے خلاف دہشت گردی کے کیسز کھولے گئے۔ دہشت گردی کی ترویج و تبلیغ کرنے والوں کو نہ صرف بے لگام چھوڑا گیا بلکہ درپردہ ان کی سرپرستی بھی کی گئی۔ جس سے ملک کے حالات آج اس نہج تک پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کو مکمل اختیارات دیئے جائیں اور ایک ساتھ پورے ملک میں آپریشن شروع کیا جائے تاکہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کیلئے کوئی جائے پناہ نہ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ محض دہشت گردی میں ملوث کارکنوں کو ٹارگٹ کرنے سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہونگے۔ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنیوالوں اور ان کے سہولت کاروں کو تہ تیغ کرنے سے ہی مطلوبہ مقاصد حاصل ہونگے۔ لہٰذا آپریشن" رد الفساد" کی کامیابی کا راز اسی میں مضمر ہے کہ تکفیری سوچ کا خاتمہ کیا جائے۔ پوری قوم دہشت گردی کے خاتمے کے عزم میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے سیکیورٹی اداروں کی کاروائیاں قابل تحسین ہیں، جنوبی پنجاب میں دہشتگردوں کے خاتمے سے ملک میں امن قائم ہوگا۔ ان خیالات کااظہاراُنہوں نے ملتان میں ڈپٹی کمشنر ملتان نادر چٹھہ سے ملاقات کے دوران کیا۔ اس موقع پر ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد عباس صدیقی، سیکرٹری سیاسیات مہر سخاوت علی صوبائی ترجمان ثقلین نقوی اور ملک عامر کھوکھر موجود تھے۔ ملاقات کے دوران ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ملتان جنوبی پنجاب کا مرکز ہے اور اولیاء اللہ کی سرزمین ہے ،ملتان کے امن کو کسی کو پامال نہیں کرنے دیں گے، ملکی سیکیورٹی ادارے اور ایجنسیاں قومی خدمت سے سرشار اپنا کردار ادا کررہی ہیں، علماء اور مذہبی جماعتوں سمیت ہر شہر کافرض ہے کہ ملکی سلامتی کودائو پر لگانے والوں کو بے نقاب کرے۔

 اس موقع پر علامہ اقتدار نقوی نے کہا کہ ملکی سلامتی اور بقاء کے لیے کسی تفریق اور امتیاز کے بغیر دہشتگردی، فرقہ واریت اور انتہاپسندی کی تعلیم دینے والوں کے خلاف کاروائی کی ضرورت ہے، پنجاب اور باالخصوص جنوبی پنجاب میں رینجرز کے آنے سے دہشتگردوں کے خلاف کاروائیاں مزید تیز ہوں گی۔ ہم صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سرپرستوں کے خلاف کاروائی کرے چاہے وہ کسی بھی لباس یا شکل میں موجود ہوں۔ اس موقع پر علامہ اقتدار نقوی نے کہا کہ محرم الحرام سے قبل محرم کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو عزاداری کے مسائل کو حل کرے، علامہ اقتدار نقوی نے ملکی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ڈپٹی کمشنر ملتان سے ضلع بھر کی امام بارگاہوں اور مساجد کی فول پروف سیکیورٹی کا مطالبہ کیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree