وحدت نیوز (کراچی) جشن ولادت باسعادت خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے موقع پرشیعہ سنی ملکر کر پورے ملک میں بارہ تا سترہ ربیع الاول ہفتہ وحدت منائینگے ، اس پورے ہفتے میں مشترکہ اجتماعات کرینگے ، ریلیوں میں شرکت کرینگے اور عظیم وحدت کا پیغام دینگے، ہم تمام مکاتب فکر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان اجتماعات میں شرکت کرکے عملی وحدت کا مظاہرہ کریں اور دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیں،ملک کے چپے چپے میں شیعہ سنی ملکرمیلاد البنی کے جلوس نکالیں ،ایم ڈبلیوایم کے کارکنان سبیلیں لگائیں اور شرکائے جلوس کا استقبال کریں ، ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے جشن ولادت باسعادت بنی آخرالزمانﷺکے پرمسرت موقع پرمرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے تہنیتی پیغام میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی طرح سرزمین پاکستان میں بھی شیعہ سنی متحد ہیں، کوئی فرقہ واریت نہیں ہے، چند مٹھی بھرتکفیری سوچ کے حاملے افراد ملک کے امن کو غارت کرنا چاہتے ہیں جنہیں ہم اپنے اتحاد سے ناکام بنا دیں گے، بنی کریم کی ذات اقدس دنیا بھی مسلمانوں کیلئے نقطہ وحدت ہے، عالم اسلام معاشرتی مشکلات اور عالم کفر کی سازشوں سے نبردآزما ہونے کیلئے سیرت پیغمبرختمی مرتب ﷺسے استفادہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام اس وقت عالمی استعماری قوتوں کی سازشوں کی زد پر ہے،یمن، نائجیریا،عراق،شام امریکی گماشتوں کی تجربہ گاہ بنے ہوئے ہیں ، امت مسلمہ کو قرآن وسنت اوراہلبیت ؑ سے متمسک رہ کر عالم کفرکی تمام تر نجس سازشوں کا مقابلہ کرنا ہو گا، پاکستان میں تکفیری سوچ کے حامل مٹھی بھر دہشت گرد عناصرکو محب رسول ﷺشیعہ سنی عوام پر مسلط کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے، جسے عوام کو تدبراور فرست کے ساتھ ناکام بنانا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں فوری طور پر نام تبدیل کرکے کام کرنے والی کالعدم جماعتوں پر پابندی عائد کی جائے اور ان کے سرگرمیوں کوختم کرایا جائے۔ الیکشن کمیشن سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسی جماعتوں کی رجسٹریشن ختم کی جائے۔وہ مدارس جو دہشتگردی میں ملوث ہیں انہیں فوری طور پر بند کیا جائے، بیرونی فنڈنگ کو روکا جائے، عالمی سامراج کیلئے کام کرنے والی این جی اوز کو بھی بند کیا جائے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کراچی کی طرف سے ملک میں داعش کے منظم نیٹ ورک کی موجودگی کے انکشاف پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کی بیغ کنی ملکی سلامتی کے اداروں کے لیے چیلنج بنتی جا رہی ہے۔حکومتی ذمہ داران کا پاکستان میں داعش کی موجودگی سے انکار سیاسی مصلحت اور بیرونی دباو کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے۔دہشت گردی کا پرچار کرنے والے مدارس کے منتظمین کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروئی سے معذوری ظاہر کرنا حکومتی رٹ کی کمزوری ظاہر کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک لاکھ سے زائد افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے دہشت گردوں کی گرفتاری میں پس و پیش شہدا کے خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔وفاقی وزیر داخلہ ان تمام مدارس کے کوائف منظر عام پر لائیں جوبیرونی امداد کے بل بوتے پراپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ملک میں موجود کالعدم مذہبی جماعتوں کے مضبوط نیٹ ورک ابھی تک فعال ہیں۔ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے دائرہ کار کو جب تک وسعت نہیں جاتی تب تک یہ آنکھ مچولی کا سلسلہ ختم ہوتا نہیں دکھائی دیتا۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور کراچی جیسے بڑے شہر میں ان مذموم عناصر کی موجودگی ہمارے تشخص پر بدنما اثرات مرتب کررہی ہے۔بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو بحال کرنے کے لیے دہشت گردی کے عفریت سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا اس کے لیے ریاست کے خلاف متحرک مسلح گروہوں کا خاتمہ ہی کافی نہیں بلکہ ان سہولت کاروں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کرنی بھی ضروری ہے جو ان عناصر کو فکری و مالی سپورٹ کرتے ہیں۔
وحدت نیوز (قم) ایم ڈبلیو ایم قم کابینہ کا دبیر کل مجلس وحدت مسلمین علامہ ناصر عباس جعفری کے ساتھ خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں قم کابینہ کے مختلف شعبہ جات ی کارکردگی کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ مسائل و وسائل اور آئندہ کے منصوبوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن مجید سے کیا گیا،جس کے بعد آفس سیکرٹری مختار مطہری نے ایجنڈا پیش کیا اور ایم ڈبلیو ایم شعبہ قم کے سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام گلزار احمد جعفری نے قم کابینہ کی کارکردگی کا خلاصہ بیان کیا۔اس کے بعد تمام شعبہ جات کے مسئولین نے اپنے اپنے شعبہ جات کے حوالے سے دبیر کل مجلس وحدت مسلمین علامہ ناصر عباس جعفری کو آگاہ کیا۔
اس موقع پر دبیرِ کل شعبہ جات کے مسئولین کے سامنے اپنے تجربات بھی بیان کرتے گئے اور انہیں مشورے بھی دیتے رہے۔
بعد ازاں دبیر کل مجلس وحدت مسلمین علامہ ناصر عباس جعفری نے کابینہ سے تفصیلی گفتگو کی جس میں ایم ڈبلیو ایم کی پالیسیز ،پاکستان کو درپیش چیلنجز اور بین الاقوامی سیاسی صورتحال پر مفصل روشنی ڈالی گئی۔
اجلاس کے آخر میں سوال و جواب کا سلسلہ بھی شروع ہوا جس کے بعد تما م شہدائے اسلام،خصوصا شہدائے نائیجیریا،شہدائے پارا چنار اور حجۃ الاسلام سید ابرار نقوی کے ماموں کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی نے کہا ہے کہ جن حالات کا ہمیں سامنا ہے، اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی کارکردگی اور بہترین طرز حکمرانی سے اس جمہوری نظام حکومت کو مضبوط بنائیں۔ محض کھوکھلے نعروں اور الیکشنوں میں حاصل کئے گئے عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر کرپشن ، جرائم اور خراب طرز حکمرانی کی کھلی چھٹی نہیں دی جاسکتی ، یہ ٹھیک ہے کہ جمہوریت ہی ایک مثالی نظام حکومت ہے۔ جس میں عوام اپنے منتخب نمائندوں کے زریعے اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں ۔ ہمارے سیاستدان جمہوریت کو حکومت کی مدت پوری کرنے سے تعبیر دیتے ہیں حالانکہ جمہوریت ڈلیور کرنے کا نام ہے ، لوگ جمہوریت میں گڈ گورننس دیکھنا چاہتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے جمہوری حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد سیاہ و سفید کے مالک ہو گئے ہیں اور وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں ۔ حکمران عوام کی امیدوں اور خواہشوں پر پورا اترے لوگوں کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی کہ اچھی حکمرانی ہوانہیں روزگار ملے اور ان کے مسائل حل ہوں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو امن بھی میسر نہیں آسکا ہے۔ہماری سیاسی جماعتوں کو وفاق کی یکجہتی کی علامت ہونا چاہئے تھا لیکن تمام سیاسی جماعتیں علاقائی حدود تک محدود ہو گئی ہیں ۔ دہشتگردی ، کرپشن اور بیڈ گورننس کے خاتمے سے لے کر علاقائی اور عالمی سیاست تک ہمارے سیاسی جماعتوں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ پاکستان کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کے ساتھ ساتھ کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہئے، کیونکہ کرپشن ختم کئے بغیر نہ جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے اور نہ ہی پاکستان داخلی طور پر مضبوط ہوسکتا ہے ۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے کونسلر کربلائی عباس علی نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سرسری جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک میں تمام خرابیوں کا بنیادی سبب مخلص اور دیانتدار قوی قیادت کا فقدان ہے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے کبھی بھی اپنے ذات سے باہر نکل کر ملک و قوم کے مفادات کو قومیت نہیں دی۔ ان کی تمام سرگرمیاں اقتدار کے حصول اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے گرد گھومتی ہے۔ آنہوں نے سیاست کو سماجی خدمت کا ذریعہ بنانے کی بجائے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا اور عوامی مسائل سے لاتعلق رہے۔ یہی وجہ ہے کہ 68 سال گزرنے کے باوجود عوامی مسائل جوں کے توں ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران ملک میں سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ اخلاقی نظام قائم کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر مسائل کا تعلق اخلاقی اور سماجی نظام سے ہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے باوجود ہم اخلاقی گراونڈ سے دو چار ہیں۔ سو ہمیں ایسی قیادت میسر آتی ہے جیسے ہم خود ہیں ۔ ہم نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دے کر یہ خطہ زمین اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں قرآن و سنت کے زریں اصولوں کے مطابق نظام قائم ہوگا۔ ہماری زندگیاں اسلام کے مطابق ہوں گی لیکن ہمارا کردار اور عمل اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہے۔ ناپ تول میں کمی ، ناجائز منافع خوری، ملاوٹ، دھوکہ بازی ، جھوٹ اور فریب جیسے برائیوں میں گرفتار ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ہم بحیثیت قوم قیام پاکستان کے اصل مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہی رہے ہیں لیکن اس ناکامی کا ملبہ دوسروں پر گرانے کی بجائے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہماری زندگیاں کس حد تک اخلاقی نظام کے پابند ہیں۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری سیاسیات کامران حسین ہزارہ نے کہا ہے کہ ملک میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ، کرپشن اور بیڈ گورننس ہے حکمرانوں نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا لوگوں کے بنیادی حقوق کیلئے ہر فورم پر آواز بلند کرنا ہوگی ۔ ناقص پالیسیوں کے باعث مہنگائی ، بد امنی ، لوڈ شیڈنگ ، گیس کی بندش اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دہشتگردی کی ایک وجہ بھوک اور بے روزگاری بھی ہے جس ملک میں غریبوں کا استحصال ہو اور اقتدار میں ہمیشہ امیر ہی رہے ہیں اور ملک پرسرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی حکومت ہو، حکومت کے پاس ملک و قوم کو غربت سے نکال کر خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کا کوئی نظام نہ ہو اور وہ صرف سیاسی جوڑتوڑ میں لگی رہیں تو عوام کے اندر مایوسی بڑے گی جس کا نقصان سیاسی عمل کوپہنچے گاعوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں ، سیاست اور جمہوریت کی گاڑی تو چل رہی ہے مگر آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ آٹا، دال، چاول، چینی، گھی ،بجلی اور گیس ہے اسے اسمبلیوں اور سینٹ سے نہیں اپنے مسائل کے حل سے غرض ہے، بلا شبہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے ۔ تاہم اس وقت پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا ہے انکا تقاضا ہے کہ وسیع تر قومی اتفاق رائے کو فروغ دیا جائے ،لہٰذا حکومت اوردیگر سیاسی جاعتوں کا فرض ہے کہ جس طرح سیاسی معاملات پر اتحاد کیا جاتا ہے عوام الناس کے مسائل کے حل کیلئے بھی وسیع تر اتفاق رائے تشکیل دیا جائے ۔ دیگر اہم سماجی معاشی اور سیاسی معاملات پر قومی اتفاق رائے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔