وحدت نیوز (انٹرویو) اپنے خصوصی انٹرویو میں سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے منافقانہ روش ترک کرنا ہوگی، امریکی اور سعودی بلاک سے نکلنا ہوگا، دہشتگردوں کے سہولتکاروں کو بھی سزا دینا ہوگا، کالعدم جماعتوں کو قومی دھارے میں لانے سے اجتناب برتنا ہوگا، ایم ایم اے دور میں تکفیری ذہنیت کے لوگوں کو بھرتی کیا گیا، ڈیرہ اسماعیل کے حالات کی خرابی کی ایک وجہ پولیس میں موجود تکفیری ذہنیت ہے۔ عمران خان کے وزیر ڈرپوک ہیں، ڈرپوک قیادت دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
 
علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، انہوں نے بہت ہی کم عرصہ میں قیام کرکے پاکستان میں ملت تشیع کے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی اور عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ علمی حوالے سے بہت مضبوط ہیں، اسکے علاوہ حالات حاضرہ کا بہت ہی زبردست تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔ ایران کی سرزمین قم المقدس میں دینی تعلیم حاصل کی، اتحاد بین المسلمین کیلئے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مجلس کے مرکزی پروگراموں میں اہل سنت جماعتوں کے قائدین موجود ہوتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے  نے علامہ ناصر عباس جعفری سے موجودہ ملکی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

سوال : دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے اب تک کی جانیوالی کوششوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: میں سمجھتا ہوں کہ جب تک آپ دہشتگردی کے درخت کو نہیں کاٹیں گئے یا فقط اس کی شاخیں کاٹتے رہیں گے، آپ پاکستان کے عوام کی جان اور مال کی حفاظت نہیں کرسکتے، دہشتگردی کے مقابلے کے لئے چار سے پانچ اقدامات ضروری تھے، جو کرنے چاہیئے تھے، مثال کے طور پر ان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنا، سیاسی لحاظ سے تنہا کرنا، سماج میں ان کی جڑوں کو ختم کرنا، مذہبی طور پر ان کا مقابلہ کرنا اور عسکری لحاظ ان کو غیر مسلح اور ان کا مقابلہ کرنا، اس کے علاوہ عوام کو شعور دینا کہ یہ عوام اور ملک کے دشمن ہیں، ان سے تعاون نہ کریں۔ حکمران کہتے ہیں کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے، بھائی صاحب انکا مذہب ہے، یہ اللہ اکبر کہتے ہیں، یہ اپنا مکتب فکر رکھتے ہیں، یہ بکتے اور دوسروں کے لئے کام کرتے ہیں۔ جب تک آپ دشمن کے بارے میں کنفیوژ ہیں اور سوسائٹی کو آگاہ نہیں کرتے، دہشتگردی کا سلسلہ جاری رہے گا، چند لوگوں کو آپ مار کر کہتے ہیں کہ دہشتگردوں کو مار دیا، اصل کام تو آپ نے کیا ہی نہیں، دہشتگرد ہمارے معاشرے میں سکیورٹی تھریٹ ہیں اور یہ تھریٹ کم ہوتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ایک جامع کوشش نہیں ہو رہی، آپ نے دیکھا کہ پچھلے دنوں تکفریوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ایک بیانیہ تیار کرایا گیا اور اس پر دستخط کرائے گئے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جس نے تکفیر کی، کیا اس کو سزا ملنی چاہیے؟، جس نے انتہا پسندی کو فروغ دیا، اس کو کیا سزا ملی۔؟ ضیاءالحق کے دور سے انتہا پسندی کو زیادہ ہوا ملی ہے، اس کی بنیادی وجہ ہماری افغان پالیسی تھی، اس افغان پالیسی نے پاکستان کو عوام کے لئے جہنم بنا دیا، پالیسی بنانے والوں سے کسی نے پوچھا ہے کہ تم نے یہ پالیسی کیوں بنائی تھی؟، کسی کو جواب دینے کے بلایا گیا؟، جب احتساب ہی نہیں تو پھر ان چھوٹے چھوٹے اقدامات سے کیا ہوگا۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ناقص اپروچ اور ناقص پلاینگ کی گئی ہے، اس پلاننگ میں انتہا پسندی پھیلانے والوں کو ٹچ تک نہیں کیا گیا۔

سوال: ناقص اپروچ سے مراد کیا ہے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: دیکھیں پاکستان جس بلاک میں تھا، اس بلاک نے دہشتگردی کو دنیا میں پھلایا ہے، وہ امریکن بلاک کہلاتا ہے، تمام دنیا میں بڑے بڑے دہشتگرد بنانے میں امریکہ کا بڑا رول ہے، اس دہشتگردی پھیلانے میں سعودی عرب بھی ملوث ہے، امریکی آل سعود کے ساتھ ملکر داعش کو اس خطے میں لائے ہیں، ویسٹرن ایشیاء کے بعد اب افغانستان میں داعش کو لایا جا رہا ہے، مقصد اس ریجن کو ڈسٹرب رکھنا ہے، ہم (حکمران) کہتے ہیں کہ امریکہ اور آل سعود ہمارے دوست ہیں، یمن کے اندر القاعدہ مصبوط ہو رہی ہے، داعش کو مضبوط کیا جا رہا ہے، یہ یمن کے ان علاقوں میں ہو رہا ہے، جہاں سعودیوں کا ہولڈ ہے یا پھر یو اے ای کا اثرو رسوخ ہے، آپ نے دیکھا کہ شام میں پوری دنیا سے تکفیریوں کو جمع کیا گیا، ان دہشتگردوں کو ٹرینگ دی گئی اور مسلح کیا گیا۔ یہی حال عراق کا ہے، اب اگر آپ دہشتگردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو آپکو اس بلاک سے نکلنا ہوگا، اس اپروچ کے ساتھ کہ امریکہ اور سعودی عرب ہمارے دوست ہیں، دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی۔

سوال: تو آپکی نگاہ میں کیسے اقدامات کی ضرورت ہے، جس سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہو۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: میں سمجھتا ہوں کہ پورے پاکستان کے اندر بغیر کسی تمیز کے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی، دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو بےنقاب کرکے ان کے خلاف بھی کارروائی کرنا ہوگی۔ اداروں میں موجود گھس بیٹھیئے جو ضیاء الحق کی پالیسی کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں، انہیں بھی بےنقاب کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اپنے آپ کو امریکی بلاک سے نکلنا پڑے گا، یاد رکھیں کہ امریکہ کو اس ریجن میں ناامنی سوٹ کرتی ہے، وہ چاہتا ہے کہ خطے کے ممالک کے آپس میں تعلقات بہتر نہ ہوں۔ لہٰذا پاکستان کو اس طرف آنا پڑے گا۔

سوال: ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ رکنے کا نام کیوں نہیں لے رہی۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ڈی آئی خان ایک مظلوم علاقہ ہے، یہاں کے لوگ پاکستان سے اور آپس میں محبت کرنے والے لوگ ہیں، اس علاقے کیساتھ وزیرستان لگتا ہے، اسٹریٹیجک حوالے سے بہت اہم علاقہ ہے، سی پیک کا مغربی روٹ یہاں سے گزرنے والا ہے، یہاں کئی عوامل کارفرما ہیں، زمینوں کی اہمیت بڑھ چکی ہے، ڈیرہ میں عام عوام اور غریب لوگوں کو شہید کیا جا رہا ہے، اہلیبت علیہ السلام کے ماننے والوں کو مارا جا رہا ہے، یہ ٹارگٹ کلنگ خیبر پختونخوا کی حکومت اور اس کی مثالی پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ آپ دیکھیں کہ وہاں پر جگہ جگہ پولیس اور ایف سی کی چیک پوسٹیں لگی ہوئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ پوسٹیں عوام کیلئے نہیں بلکہ دہشتگردوں کی حفاظت کیلئے بنائی گئی ہیں، جب کوئی مارا جاتا ہے تو وزیراعلٰی بات تک نہیں کرتا، یہ لوگ وہاں جاتے تک نہیں، سی سی ٹی وی فوٹیجز میں دیکھیں کہ کیسے بےخوف ہوکر لوگوں کو شہید کیا جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ دہشتگردوں کو یقین ہو چلا ہے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ کیا آپ ڈیرہ کی تین سڑکوں کی حفاظت نہیں کرسکتے؟، اتنی چیک پوسٹیں ہونے کے باوجود قاتل کیسے قتل کرکے چلے جاتے ہیں، اس کا کوئی جواب دے گا۔؟ دراصل یہ آپس میں ملے ہوئے ہیں، آپ دیکھیں کہ جیل ٹوٹی تو انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا، ان کو پہلے سے پتہ تھا کہ جیل ٹوٹے گی، ڈیرہ میں جو کینٹ کا بریگیڈیئر تھا، اس نے پہلے وزٹ کیا اور بتایا کہ جیل کو کیسے محفوظ بنانا ہے، اس کی سکیورٹی کرنی ہے، اس کے بعد جیل پر حملہ ہوتا ہے، جیل کے تالے ٹوٹتے ہیں، جیل کے تمام قیدیوں کو وہ ساتھ لیکر چلے جاتے ہیں اور ساتھ میں جتنے بھی شیعہ قیدی تھے، ان کو وہاں پر شہید کردیا جاتا ہے۔

آپ اندازہ لگائیں کہ ڈی آئی خان سے لیکر وزیرستان تک کئی چک پوسٹیں آئیں، لیکن ایک بھی فائر نہیں کیا گیا، وہ محفوظ انداز میں اپنی منزل پر پہنچ گئے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس بندے کی ڈیوٹی تھی، اس علاقے کی سکیورٹی کی، اس کو نکالا نہیں جاتا بلکہ اس کی پرموشن کی جاتی ہے۔ یہ سب جوابدہ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ملک کا نظام درست نہیں ہے، گڑبڑ کرنے والے لوگ اداروں میں موجود ہیں، جیل ٹوٹ گئی، دہشتگرد آئے اور گزر بھی گئے، راستے میں کتنی چیک پوسٹیں لگی ہوئی ہیں، کتنے کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا گیا، کسی نے روکا تک نہیں، میں کہتا ہوں کہ پاکستان کو بربادی کی طرف لیکر جایا جا رہا ہے، شاخیں کاٹ رہے ہیں، دہشتگردی کی جڑیں نہیں کاٹ رہے، ان کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور میں داخل ہوچکا ہے، پاکستان کے اندر اگر درست اقدامات نہ ہوئے اور اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ فقط غریب لوگ مارے جا رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ انکے بچے بھی مارے جائیں گے، پشاور آرمی سکول کا واقعہ ان کو جنجھوڑنے کیلئے کافی تھا۔ یہ آگ ان کے گھروں تک پہنچے گی، پہلے بھی پہنچی تھی اور آئندہ بھی پہنچے گئی، ڈیرہ میں جو رکشہ ڈرائیور اٹھارہ سال کا مارا گیا، وہ بھی کسی کا بلاول اور کسی کا حمزہ تھا۔ امام علی علیہ السلام کا قول ہے کہ حکومتیں کفر سے باقی رہ سکتی ہیں لیکن ظلم پر نہیں۔

سوال: بھوک ہڑتال کے دنوں عمران خان خود چل کر آپکے پاس آئے تھے، اسکے باوجود ڈیرہ میں حالات نہیں بدلے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: مجھے تو لگتا ہے ان کی حکومت بہت کمزور ہے، یہ لوگ دہشتگردوں سے خوف زدہ ہیں، پچھلے واقعات کے اندر جب عمران خان نے اپنے ایک وزیر کو فوکل پرسن بنایا تھا تو اس نے مجھے بتایا تھا کہ یہ لوگ مجھے مار دیں گے، میں نے تو یہاں رہنا ہے، یہاں ان کا ہولڈ ہے، اب اندازہ لگائیں کہ ان کے تو وزیر دہشتگردون سے ڈرتے ہیں، یہ عوام کا تحفظ کیسے کریں گے۔ یہاں تو عوامی نمائندوں کا یہ حال ہے تو یہ دہشتگردوں کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں۔ میں عمران خان سے سوال کرتا ہوں کہ ڈی آئی خان میں تو آپ کا ایک ایم پی اے موجود ہے، وہ لوگوں کے پاس کیوں چل کر نہیں جاتا۔ دیکھیں وہاں ہم پر ظلم ہو رہا ہے، لوگوں کا جانی نقصان ہو رہا ہے، ڈی آئی خان ہماری قتل گاہ بنا ہوا ہے، عمران خان کو خود وہاں پر جانا چاہیے تھا، ابھی تک کیوں نہیں کیا۔؟ عمران خان پنجاب میں تو جگہ جگہ پہنچ جاتا ہے، کسی اور صوبے میں ظلم و زیادتی ہو تو فوراً پہنچ جاتا ہے، لیکن اپنے صوبے میں یہ جانے کیلئے تیار نہیں۔ یہ پوائنٹ سکورنگ کرتا ہے، دوسروں کو نیچا دکھاتا ہے، یہ انسانی مسئلہ ہے، عمران خان کے لوگ دلیر نہیں ہیں، یہ ڈرتے ہیں، ڈرپوک حکمران دہشتگردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

ہمیں عمران خان سے مایوسی ہوئی ہے، انہیں خود ڈی آئی خان جانا چاہیے تھا، وہاں پر ہماری زمینوں پر قبضے کئے جا رہے ہیں، تین سو ستائیں کنال سے زیادہ زمین وہاں امام بارگاہ کے نام پر وقف ہے، محکمہ اوقاف کی جانب سے نگران دور میں جعلی طور پر انتقال کرایا گیا اور قبضہ کیا گیا۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ زمین انتقال چڑھ چکی تھی، اب اس پر قبضہ کرکے کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں، افسوس اس بات ہے کہ ہندوں اور عیسائیوں کی زمین پر قبضہ نہیں کیا گیا، لیکن سرکاری سرپرستی میں وہاں پر 2013ء میں یعنی نگران حکومت کے دور میں قبضہ کیا گیا۔ ہم نے بار بار کہا کہ جعلی انتقال کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے، لیکن وہ نہیں کر رہے۔ عمران خان تحریک انصاف کی بات کرتا ہے انصاف چاہتا ہے، بابا دیگ کا ایک چاول چک کرو تو پوری دیگ کا پتہ چل جاتا ہے، ہمیں افسوس ہے کہ ڈیرہ میں امن قائم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا، ہم کہتے ہیں کہ آرمی چیف خود دلچسپی لیں۔ چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں۔ ہم سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے پر بھی مشاورت کر رہے ہیں۔

سوال: 2018ء کے الیکشن کے حوالے کیا سوچ رہے ہیں۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ان شاء اللہ الیکشن میں بھرپور شرکت کریں گے، لوگوں کی رہنمائی کریں گے، کوشش کریں گے کہ کسی مناسب پارٹی سے اتحاد ہو جائے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بھی کوشش کر رہے ہیں، بلآخر ہم ایک مذہبی سیاسی جماعت ہیں۔

سوال: کیا ایم ایم اے کا حصہ بنیں گے، اگر رابطہ کیا جائے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ہم ایم ایم اے کا حصہ نہیں بنیں گے، ایم ایم اے نے جو کام کیا، کے پی کے میں ہم ابھی تک اسے بھگت رہے ہیں، ان لوگوں نے متعصب لوگوں کو بھرتی کیا، میرٹ کی پامالی کرکے تکفیریوں کو بھرتی کیا گیا، ہر ادارے کے اندر تکفیری سوچ کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، ان لوگوں نے جو ایک بڑا کام کیا وہ یہ کہ ایجوکیشن، ہیلتھ، پولیس اور ایجنسی میں جگہ جگہ پر اپنے لوگوں کو بھرتی کیا، اگر ایم ایم اے کی کسی بھی صوبے میں حکومت آگئی تو آپ سمجھیں کہ وہ صوبہ برباد ہو جائے گا، یہ لوگ ہر ادارے میں اپنی سوچ کے حامل افراد بیٹھانا چاہتے ہیں، یہ میرٹ کے قاتل ہیں۔ ان کی چھتری تلے دہشتگرد اور انتہا پسند پرواز چڑھتے ہیں۔ ڈی آئی خان میں پولیس میں ان کے لوگ ہیں، یہ لوگوں کی ریکی کرواتے ہیں، ڈی آئی خان میں اعلٰی عہدوں پر فائز لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ ہمارے لئے ایم ایم اے دور میں بھرتی کئے گئے لوگ بڑا مسئلہ ہیں، اس وقت جو ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اور قتل عام ہو رہا ہے، اس کی ایک وجہ وہ لوگ ہیں، جو اس وقت بھرتی کئے گئے۔ ایم ایم اے میں تکفیری اور انتہا پسند لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔

سوال: کسی جماعت نے رابطہ کیا۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس: ہمارے ساتھ پیپلزپارٹی نے رابطہ کیا ہے اور عمران خان نے بھی رابطہ کیا ہے، لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) دماغ کی غذا علم ہے، ساری غذائیں چمچ سے نہیں کھائی جاتیں، کچھ ہاتھ سے، کچھ گلاس سے اور کچھ کپ سے لی جاتی ہیں، اسی طرح ہر غذا کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے، صبح ناشتے میں جو غذائیں پسند کی جاتی ہیں وہ دوپہر کے کھانے سے مختلف ہوتی ہیں اور رات کے کھانے میں جن چیزوں کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ ناشتے اور دن کے کھانے سے مختلف ہوتی ہیں۔

جس طرح جسم کے رشد اور ارتقا کے لئے مختلف غذاوں کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح دماغ کے  رشد اور ارتقا کے لئے بھی مختلف علوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرینِ تعلیم، طالب علم کی عمر ،اس کے  ماحول اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق  علوم کی بھی درجہ بندی کرتے ہیں۔

ہر عمر کے تناسب سے طالب علم کو مناسب مقدار میں علم دیا جاتا ہے اور ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق طالب علم کو مفید علم سیکھنے  اور حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بدن کی غذا کی طرح دماغ کی غذا یعنی علم  دینے کے بھی مختلف طریقے اور روشیں ہیں جن سے مناسب استفادہ ضروری ہے۔

جس طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اسی طرح مجموعی طور پر ایک ملت کو بھی تعلیم و تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔یہ دانشمندوں اور ہمارے ماہرین تعلیم کا کام ہے کہ وہ بحیثیت ملت اپنی قوم کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل مرتب کریں۔

مسجد کےمحراب و منبر سے لے کر میڈیا تک یہ سب انسانی تعلیم و تربیت کے ذرائع ہیں، انہی ذرائع کو بروئے کار  لاکر ہم اپنے ملی و قومی شعور میں بطریقِ احسن اضافہ کر سکتے ہیں۔ انسان فطری طور پر علم کا تشنہ ہے، اگر انسان فطری تقاضوں کا ساتھ دے تو پورا نظامِ کائنات اس کی مدد کرتا ہے۔

آج ہمارے ہاں ہر چیز میں بگاڑ ہے، ہر شخص ناراض ہے، ہر شعبہ خراب ہے چونکہ ہم بحیثیت قوم نظامِ فطرت سے ہٹے ہوئے ہیں، جس طرح اسلام، دینِ فطرت ہے اسی طرح علم، انسان کی فطری ضرورت ہے ، چنانچہ دینِ اسلام میں بھی بار بار حصولِ علم کی تاکید کی گئی ہے ۔

کبھی کہا گیا ہے کہ علم حاصل کرو مہد سے لے کر لحد تک یعنی علم حاصل کرنے میں عمر کی کوئی قید نہیں، کبھی کہاگیا ہے کہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے یعنی علم کی خاطر ہجرت کرنے میں اور دوسرے ممالک کی طرف جانے میں کوئی مضائقہ نہیں، کبھی کہاگیا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مردو عورت پر فرض ہے یعنی علم کے حصول میں لڑکے اور لڑکی کا کوئی فرق نہیں۔

بلاشبہ علم انسانی معاشرے کی مسلسل ضرورت اور انسانی فطرت کی مسلسل آواز ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر طور پر  اُن لوگوں کا منبر و محراب اور میڈیا پر قبضہ ہوتا ہے جو خود علمی طور پر عقب ماندہ ہوتے ہیں۔ جب محراب و منبر اور میڈیا پر عقب ماندہ لوگ براجمان ہوتے ہیں تو معاشرہ بھی پسماندگی کی طرف جاتا ہے اور معاشرے پر ایسے لوگ حکومت کرتے ہیں جن  کی تعلیمی ڈگریاں تک جعلی ہوتی ہیں۔

جب محراب و منبر ، میڈیا اور سیاست میں تعلیمی  و اخلاقی طور پر زوال پذیر لوگ چھائے ہوئے ہوں تو ماہرین تعلیم اور دانشمندوں کی اوّلین زمہ داری بنتی ہے کہ وہ منبر و محراب، سیاست اور میڈیا کے حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کریں اور شائستہ اور بہترین افراد کی تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھائیں۔

جب تک ہم اپنی قوم کی تعلیمی و شعوری سطح بلند نہیں کرتے ، بچوں کی طرح مساجد و مدارس اور سیاست دانوں نیز میڈیا پرسنز کے ایک مخصوص تعلیمی و اخلاقی معیار کے قائل نہیں ہوجاتے اس وقت تک صرف ووٹ ڈالنے اور الیکشن کرانے سے ملکی و قومی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔

سیاسی شعور اور بازار سے آٹا اور صابن خریدنے کے شعور میں بہت فرق ہے، جب ووٹ ڈالنے والے کو ہم نے سیاسی شعور ہی نہیں دیا اور اس کی سیاسی تربیت ہی نہیں کی تو وہ کبھی آٹے کی ایک بوری کی خاطر اور کبھی برادری، فرقے یا علاقائی و لسانی تعصب  کی خاطر ہی ووٹ دے گا۔

اس وقت انتخابات سے پہلے سیاسی دانشوروں اور عمومی مفکرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو سیاسی طور پر بیدار کریں، انہیں ملک و قوم کا نفع و نقصان سمجھائیں، انہیں سیاست کی ابجد سے آشنا کریں اور ان کے سامنے ایک صاف و شفاف سیاسی نظریہ پیش کریں۔

خصوصا جو تنظیمیں اپنے آپ کو الٰہی و نظریاتی کہتی ہیں ان کی ذمہ داری سب سے زیادہ بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو الٰہی سیاست کے اصولوں کی تعلیم دیں۔

چونکہ جس طرح تعلیم و تربیت کے بغیر بچہ عقب ماندہ رہ جاتا ہے اسی طرح تعلیم و تربیت کے بغیر اقوام بھی پسماندہ اور عقب ماندہ رہ جاتی ہیں ۔

آج ہمیں ایک ایسی اسلامی حکومت کی ضرورت ہے کہ جسمیں  کم از کم مندرجہ زیل خصوصیات پائی جائیں:

۱۔ لوگوں کا انتخابات میں انتخاب  اُن کے ایمان ، تعلیم اور کردار  کی وجہ سے کیا جائے

۲۔ کچہری سسٹم اور عدالتی نظام میں رشوت خور بابو حضرات اور ہرکاروں کا خاتمہ کیا جائے

۳۔امیر و غریب سب کے بچوں کے لئے ایک جیسا معیاری اور جدید نظامِ تعلیم فراہم کیا جائے

۴۔کام اور روزگار کے مواقع رشوت اور سفارش کے بجائے ، تعلیم، میرٹ اور تجربے کی بنیاد پر سب کے لئے یکساں ہوں

۵۔ تھانوں اور دیگر سرکاری داروں میں عوام کے احترام کو یقینی بنایا جائے اور سرکاری اہلکاروں کی تربیت و نگرانی کی جائے تاکہ رشوت و سفارش کا خاتمہ ہو

۶۔ عوام کو قانونی اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کی تعلیم اور شعور دیا جائے

۷۔بنیادی انسانی حقوق پر سب کا حق تسلیم کیا جائے

۸۔ صحت کے سہولتیں امیر و غریب کے لئے ایک جیسی ہونی چاہیے

یہ ہم نے کم از کم خصوصیات کا ذکر کیا ہے ۔ جب تک ہم عوام کو اسلامی نظام ریاست و سیاست سے آشنا نہیں کریں گے ، عوام کو آٹے کی بوری اور برادری سے باہر نہیں نکالیں گے تب تک  ، پاکستان بحرانات سے نہیں نکل سکتا اور عوام کے دکھوں کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (اسلام آباد) غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک منتقل کیئے گئے قومی دولت کو واپس لانے کے لئے موثر اقدامات ہونے چاہئیں ۔لیکن ظالم اور خائین حکمران سب سے بڑی رکاوٹ ہیں یہ پاکستانی عوام کا پیسہ ہے صرف عادل حکمران ہی اس ظلم اور ناانصافی کا رستہ روک سکتے ہیں ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بلکسر میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

 ان کا کہنا تھا کہ عوام جب تک ان چورں لٹیروں ڈاکوں کو منتخب کرتے رہیں گے ان کے پیسوں پر ایسے ہی لوٹ مار جاری رہے گی ۔ان کے پاکستان میں بھی محلات ہیں اور دبئی امریکہ و یورپ میں بھی محلات بنا رکھے ہیں۔پاکستانی عوام کے نام پر قرضے لئے جاتے ہیں اور یہ چند ہزارلٹیرے ہیں جو عوام کا مال لوٹ کر باہر لے جاتے ہیں  پاکستان مذید قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جار ہا ہے ۔ان کو عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں ان کے ہر منصوبے کا مقصد زیادہ سے زیادہ اور نئے طریقوں سے عوام کے مال کی لوٹ کھسوٹ کرنا ہوتا ہے ۔پاکستانیوں کی صرف دبئی میں کھربوں روپے کی جائیدادیں ہیں ،یہ نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے ۔

انہوں نے مزیدکہاکہ اکیس کروڑ کے ملک میں صرف گیارہ لاکھ لوگ فائلرز ہیں ۔قومی دولت لوٹنے والوں کا بلاامتیاز احتساب کرنا ہوگا اوریہ تب ہی ممکن ہو سکتاہے جب عوام جماعتی وابستگی برادری علاقہ و زبان کی سیاست سے بالا تر ہو کر نیک اور عادل افراد کو پارلیمنٹ میں پہنچائیں گے  ۔موجودہ سسٹم اور حکمران لوٹی گئی ملکی دولت کو واپس لانے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ عادل حکمران ہی اس ظلم اور ناانصافی کا رستہ روک سکتے ہیں ۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک/ سبی) صوبائی وزیر لائیو اسٹاک و جنگلات آغا سید محمد رضا نے کہا ہے کہ ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر اداروں کی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا ہے صوبائی حکومت کرپشن کے خاتمہ اور عوام تک سروسز کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے،لائیواسٹاک کے فروغ ہی سے ہماری معیشت میں بہتر تبدیلی آسکتی ہے ،قدرتی چراگاہیں خشک سالی کے باعث ختم ہوتی جارہی ہیں،گوشت و دودھ سمیت پولٹری پیداوار میں اضافہ کے لیے لائیواسٹاک کے ماہرین و ڈاکٹرزہمہ وقت مصروف عمل ہیں بلوچستان ناڑی ماسٹر جیسے جانور وں سے یقینانہ صرف صوبہ بلکہ ملک بھر سے گوشت کی کمی کا مسئلہ ختم ہو سکتا ہے،جانوروں کی ایران اور افغانستان اسمگلنگ کو روکنے کے لیے وزارت داخلہ کو ثمری بھیجی جائے گی، گرین بلوچستان پیکج کے تحت صوبہ بھر میں 15لاکھ سے زائد درخت اور پودئے لگانے کی مہم کا آغاز کردیا گیاہے،ماحولیاتی تبدیلی میں عوام میں شعور و آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے ان خیالات کا اظہارانہوں نے سبی کے ایک روزہ دورہ کے دوران ڈیری فارم ،بیف اینڈ ریسرچ سینٹر ،اسٹیڈیم ،گھوڑا ہسپتال ،جنگلات نرسری کے معائنہ کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت میں کیا۔

 اس موقع پر ڈائریکٹر لائیواسٹاک ڈاکٹر عتیق الرحمان شیرازی،ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر جان محمد صافی،بیف اینڈ ریسرچ سینٹر کے سپرٹنڈنت ڈاکٹر عبدالصبور کاکڑ،ڈاکٹر عزیز عثمانی،ڈائریکٹر جنرل جنگلات ضیغم احمد ،کنزرویٹر جنگلات زاہد رند و دیگر بھی موجود تھے قبل ازیں صوبائی وزیر کو بیف اینڈ ریسرچ سینٹر کے سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر صبور کاکڑ نے بلوچستان ناڑی ماسٹر نسل کے معرض وجود کے حوالے سے کی جانے والی سائنسی تحقیق اور بلوچستان ناڑی ماسٹر کی افادیت کے بارے میں تفصیلاً بریفنگ بھی دی ،اس موقع پر صوبائی وزیرلائیو اسٹاک و جنگلات آغا سیدمحمدرضا  نے کہا کہ کرپشن ہمارئے معاشرئے کی جڑوں میں سرعیت کر چکا ہے اور معاشرئے سے کرپشن کا خاتمہ کیئے بغیر بہتری لانا ناممکن ہے انہوں نے کہا کہ ڈرائنگ رومز اور ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر اداروں کی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا ہے اس کے لیے اداروں کی مانیٹرنگ ناگزیر ہے اور اسی سلسلے میں سبی کا دورہ کیا ہے تاکہ محکمہ کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکے اور پروڈکشن میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکے۔

 انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کے ڈراؤٹ ماسٹر اور بلوچستان کی بھاگناڑی کے کامیاب کراس تجربے کے بعد بلوچستان ناڑی ماسٹر یقیناًگوشت کی پیداوار میں اہمیت کا حامل جانور ہے اور اس نسل کو پال کر نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر سے گوشت کی کمی جیسے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے بلکہ ہم اس قابل ہیں کہ بیرون ممالک بھی گوشت کو ایکسپورٹ کرکے اپنے زرمبادلہ میں اضافہ کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے لائیو اسٹاک کا 48.1فیصد بلوچستان پروڈویوس کرتا ہے اور لائیواسٹاک کے فروغ کے لیے مزید اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ قدرتی چراگاہیں خشک سالی کی وجہ سے ختم ہوتی جارہی ہیں جس کا منفی اثر یقیناًمالداری کے شعبہ پر پڑ رہا ہے انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت نے گرین بلوچستان پیکج کے تحت صوبہ بھر میں15لاکھ سے زائد درخت اور پودے لگانے کی قومی مہم کا آغاز کیا ہے تاکہ صوبے کے ماحول میں تغیراتی تبدیلی لائی جاسکے انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے لیے میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ عوام میں شعور و آگاہی پھیلائے اور اگر ایک گھر ایک پودا لگا یا جائے تو ہم ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔

وحدت نیوز (گلگت) آئینی تحفظ کے بغیر گلگت بلتستان کیلئے کسی بھی قسم کا کوئی نیا پیکج قابل قبول نہیں۔قومی اسمبلی اور سینٹ میں مبصرکی حیثیت سے نمائندگی گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ مذاق ہے۔مجلس وحدت مسلمین کی رکن جی بی اسمبلی بی بی سلیمہ نے کہا ہے کہ حکمران اپنی مرضی کی بجائے عوام کی رائے کا احترام کریں۔قومی اسمبلی اور سینٹ میں آبزرور کی حیثیت سے نمائندگی یہاں کے عوام کا مطالبہ نہیں۔علاقے کے عوام نے ملکی تعمیر و ترقی میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں جس کے کیلئے ایک عرصے سے اس علاقے کی آئینی حیثیت کا تعین چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی حکمرانوں نے اپنی مرضی کے پیکیجز دیئے لیکن عوام ان اصلاحات سے مطمئن نہیں۔اب کی مرتبہ مسلم لیگ حکومت بھی اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح اصلاحات کے نام پر علاقے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیںجسے یہاں کے عوام مسترد کردینگے۔خطے کے عوام پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن حکمرانوں کی بددیانتی کی وجہ سے آج تک یہ علاقے پاکستان میں شامل نہ ہوسکے ہیں آج بھی خطے کے عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں پاکستان میں شامل کیا جائے لیکن حکمرانوں نے اس علاقے کے عوام کی پاکستان کے ساتھ لگائو اور محبت کو خاطر میں نہیں لایااور نت نئے پیکیجز اور اصلاحات کے ذریعے عوامی مطالبے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال رہے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ حکومت کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ عوامی مطالبے کے مطابق اس خطے کی حیثیت کا تعین کریں اور اگر زبردستی خطے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو علاقے کے عوام ایسے کسی بھی فیصلے کو قبول نہیں کرینگے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل)  مقدمہ:حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کےبارے میں کچھ لکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں آپ کے فضائل اور مناقب خدا وندمتعال،  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماورائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کر سکتے ہیں  ۔آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں جنہیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا ۔آپؑ وہ ممدوحہ ہیں جس کی مدح سورۃ کوثر ،آیت تطہیر اور سورۃ دہر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔آپؑ  وہ عبادت گزار ہیں جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا ۔آپؑ وہ  صاحب سخاوت ہیں جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نہیں جانے دیا۔آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں جس کا پردہ تمام زندگی برقرار رہا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سےبھی پردہ فرمایا۔ آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟تواس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بہتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی  کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔{خیر لہن ان لا یرین الرجال و لا یرو نہن}۱۔رسول خدا ﷺ آپ  ؑکے بارے میں فرماتے ہیں :{ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک}۲۔

بےشک خدا آپ کے غضبناک ہونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سےخوش ہوتا ہے ۔ انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔آپؑ لیلۃ مبارکۃ کی تاویل ہیں ۔ آپ ؑشب قدر ہیں ۔ آپ ؑنسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔ آپ ؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا ۔آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں جن کے سر پر{انما نطعمکم لوجہ الله}۳۔ کا تاج مزین ہے ۔وہ ایسا گوہر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر منت رکھی اور فرمایا:{ لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم۔۔ }۴

اور اس گوہر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر منت رکھی اور فرمایا:{انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر ،ان شانئک هو الابتر}بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ اس مختصر مقالہ میں ہم  سیرت حضرت فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیہا  میں موجود چند  تربیتی نمونوں کو پیش کرنے کی کوشش کریں  گے۔

لغت میں سیرۃ ،رفتار کے معنی میں آیا  ہے۔ "حسن السیرۃ؛ یعنی خوش رفتار یا اچھی رفتار۔"۵  ۔

ابن منظور کے مطابق سیرۃ سے مراد: "سنت" اور "طریقہ"ہے۔ جیسے" السیرۃ:السنۃ؛ سیرت یعنی  سنت اور  راہ  وروش کے معنی میں ہے۔سار بہم سیرۃ حسنہ"یعنی ان کے ساتھ اچھا رویہ اور سلوک کے ساتھ پیش  آیا۔اصطلاح میں سیرہ سے مراد کسی انسان کی زندگی کے مختلف مراحل اور مواقع میں چھوڑے ہوئے نقوش اور کردار کے مجموعہ کو" سیرۃ  کہا جاتا ہے جسے دوسرے  انسان  اپنے لئے نمونہ عمل بنایا جاسکے ۔۶

صاحب مفردات کے مطابق "رب" مصدری معنی ٰ کے لحاظ سے  کسی چیز کو حد کمال تک پہچانے ، پرورش  اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ۷صاحب التحقيق کا کہنا ہے اس کا اصل معنی ٰ کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے اور نقائص کو  تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعےرفع کرنے کے معنی ٰ میں ہے۔  ۷۔بنابر این اگر اس کا ريشہ(اصل) "ربو" سے ہو تو اضافہ کرنا، رشد ، نمو اور موجبات رشد کو فراہم کرنے کے معنی ٰ میں ہےلیکن ا گر "ربب" سے ہو تو  نظارت ، سرپرستي و رہبري  اور کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کے لئے پرورش کے معنی ٰ میں ہے۔

شہید مرتضی مطہری لکھتے ہیں: تربیت انسان  کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں ( انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ہوں  انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔۸
سیرہ تربیتی ہر اس رفتار کو کہا جاتا ہے جو دوسروں کی تربیت کی خاطر انجام دی جاتی ہے۔اس بناء پر انسان کا ہر وہ رفتار جو وہ دوسروں  کے  احساسات ،عواطف، یقین و اعتقاد اورشناخت پر اثرانداز  ہونے کےلیے انجام دیتا ہے ،سیرت  تربیتی کہا جاتاہے۔۹

سیرت حضرت فاطمہ زہرا  سلام اللہ علیہا  میں موجود چند  تربیتی نمونے

الف۔گھریلو اور ازدواجی نمونہ
زندگی ایک ایسا مرکز هے جس میں نشیب وفراز پائے جاتے ہیں زندگی میں کبھی انسان خوش ، کبھی غمگین ، کبھی آسائش اور کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا هے اگر میاں بیوی با بصیرت اشخاص هوں تو سختیوں کو آسمان اور ناہموار کو همورا بنادیتے ہیں۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا  اس میدان میں ایک کامل اسوہ نمونہ ہیں آپ بچپن سے ہی سختی اور مشکل میں رہی اپنی پاک طبیعت اور روحانی طاقت سے تما م مشکلات کا سامنا کیا اورجب شوہر کے گھر میں قدم رکھا تو  ایک نئے معرکہ کا آغاز هوا اس وقت آپ کی شوہرداری اور گھریلوزندگی کے اخلاقیات کھل کر سامنے آئے ۔

ایک دن امام علیؑ جناب فاطمہؑ سے کھا نا طلب کیا تا کہ بھوک کو برطرف کرسکیں لیکن جناب فاطمہؑ نے عرض کیا میں اس خدا کی قسم کھاتی ہوں جس نے میرے والد کو نبوت اور آپ کو امامت کے لیے منتخب کیا دو دن سے گھر میں کافی مقدار میں غذا نہیں ہےاور جو کچھ غذا تھی ویہ آپ اور آپ کے بیٹے حسنؑ اور حسینؑ کو د هی ہے امام نے بڑی حسرت سے فرمایا اے فاطمہ آخرمجھ سے کیوں نہیں فرمایا میں غذا فراہم کرنے کے لیے جاتا توجناب فاطمہؑ نے عرض کیا: اے ابوالحسن میں اپنے پروردگار سےحیا ءکرتی هوں کی میں اس چیز کا سوال کروں جو آپ کے پاس   هنہ ہو۔۱۰۔

ب۔ سیاسی نمونہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ؑکے سیاسی  اخلاقیات کو درج ذیل عناوین کے تحت دیکھا جاسکتا هے جیسے امام اور حجت خدا کا دفاع، امامت اور رہبری کی کامل پیروی اور فدک کے متعلق مختلف میدانوں میں مقابلی اور جنگ وجہاد کے بندوبست میں خوشی اور دلسوزی سے حاضر رہنا ۔سب سے پہلے آپ نے غصب  شدہ حق کو گفتگو سے حل کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی آیات سے دلیلیں قائم کیں۔

حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا خلیفہ کےپاس تشریف لے گئیں اور فرمایا:۔تم کیوں مجھے میرے بابا کے میراث سے منع کر رہا ہے  اور تم کیوں میرے وکیل کو فدک سے بے دخل کردیا هہے حالا نکہ الله کے رسول نے الله کے حکم  سے اسے میری ملکیت میں دیاتھا۔"۱۱۔

اسی طرح جب خلافت کا حق چھینا گیا تو دفاع امامت میں پورا پورا ساتھ دیا  اور آپ حسن وحسین کا هاتھ پکڑکر رات کے وقت مدینہ کے بزرگوں اور نمایاں شخصیات کے گھرجاتے اور انہیں اپنی مدد کی دعوت دیتے اور پیغمبر کی وصیت یا ىد  دلواتے ۔۱۲

حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا فرماتیں ہیں اے لوگو!کیا میرے والد نے علی ؑکو خلافت کے لیے معین نہیں فرمایا تھا کہا ان کی فداکاریوں کو  فراموش کربیٹھے ه ہوکیامیرے پدر بزرگوار نے ہی نہیں فرمایاتھا کہ میں تم سے رخصت ه ہو رہا ہوں اور تمہارے درمیان دو عظیم چیزین چھوڑے جارہا هہوں اگر ان سے تمسک رہوگے توہرگز گمراہ نہیں هہوگے اور وہ چیزیں ایک الله کی کتاب اور دوسرا میری  اہل بیت ۔

ج۔  اقتصادی نمونہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اقتصادی اخلاقیات میں بھی همارے لیے اسوہ کامل ہیں سخاوت کے میدان میں آپ اپنے پدر بزرگوار کے نقش قدم پر چلتی تھیں ۔ آپ نے اپنے بابا سے سن رکھاتھا" السخی قریب من الله" سخی الله کے قریب هہوتا هہے ۔

جابر بن عبد الله انصاری کا بیان هے کہ رسو ل خدا نےہمیں ه عصر کی نماز پڑھائی جب تعقیبات سے فارغ هوگئے تومحراب میں هہماری  طرف رخ کرکے بیٹھ گئے لوگ آپ کو هر طرف سے حلقہ میں لیے هہوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا شخص آیا جس نے بالکل پرانا کپڑہ پہنا هہوا تھا یہ منظر دیکھ کر رسول خدا نے اس کی خیرت پوچھی اس نے کہا:ا ے الله کے رسول میں بھوکا هہوں لہذا کچھ کو دیجئے میرے پاس کپڑا بھی نہیں ہیں مجھے لباس بھی دیں۔ رسول خدا نے فرمایا فی الحال میرے  پاس کوئی چیز نہیں هے لیکن تم اس کے گھر جاؤ جو الله اور اس کے رسول سےمحبت کرتاہے اورالله اور اس کا رسول بھی  اس سے محبت کرتے ہیں جاؤ تم فاطمہ کی طرف اور بلال سے فرمایا تم اسے فاطمہ کے گھر تک پہنچا دو۔فقیر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے دروازہ پررکا بلند آواز سے کہا نبوت کے گھرانے والو تم پر سلام ۔شہزادی کونین نے جواب میں کہا  تم پر بھی سلام هہو ۔تم کون ہو ه؟کیا میں بوڑھا اعرابی ہوں آپ کے پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تھا لیکن رسول خدا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ میں فقیرہوں مجھ پر کرم فرمائے خدا آپ پر اپنیرحمت نازل فرمائے حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے اپنا هہار یا گردن بند جو آپ کو حضرت حمزہ کی بیٹی نےہبہ کیا تھا اتار کر دے دیا اور فرمایا امید ہے کہ خدا تم کو اس کے ذریعے بہتر چیز عنایت فرمائے ۔

 اعرابی ہارلے کر مسجد میں آیا حضور مسجد میں تشریف فرماتھے عرض کیا اے رسول خدا: فاطمہ زہرا نے یہ ہار دے کر کہا اس کو بیچ دینا حضور یہ سن کر روپڑے اس وقت  جناب عمار ىاسر کھڑے هوئے عرض کیا یارسول الله کہا مجھے اس ہا رکے خریدنے کی اجازت ہے رسول خدا نے فرمایا خرید لو جناب عمار نے عرض کی اے اعرابی یہ ہار کتنے میں فروخت کرو گے اس نے کہا اس کی قیمت یہ هہے کہ مجھے روٹی اور گوشت مل جائے اور ایک چادرمل جائے جسے اوڑھ کر میں نماز پڑھ سکوں اور اتنے دینار جس کے ذریعے میں گھر جاسکوں۔ جناب عمار اپنا وہ حصہ جو آپ کورسول خدا  نےخیبر کے مال سے غنیمت میں دیا تھا قیمت کے عنوان سے پیش کرتے  ہوئے کہا :اس ہارکے بدلے تجھےبیس دینار،دوسو درہم ٬ ایک بردیمانی ٬ ایک سواری اور اتنی مقدار میں گیہوں کی روٹیاں  اور گوشت فراہم کررہا هہوں جس سے تم بالکل سیرہوجاؤ  گے۔جب یہ سب حاصل کیا تو اعرابی رسول خدا کے پاس آیا ۔رسول خدا نے فرمایا کیا تم سیرہوگئےہو؟ اس نے کہا میں آپ پر فدا ہوجاؤں بے نیازہو گیا ہوں۔جناب عمار نے هہار کو مشک سے معطر کیا اپنے غلام کو دیا اور عرض کیا ا س ہار کو لو اور رسول خدا کی خدمت میں دو اور تم بھی  آج سے رسول خدا کو بخش دیتا ہوں۔  غلا م ہار لے کر رسول خدا کی خدمت میں آیا او رجناب عمار کی بات بتائی رسول خدا نے فرمایا یہ ہار فاطمہ کو دو اور تمہیں فاطمہ کو بخش دیتا ہوں۔ غلام هہار لی کر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی خدمت میں آیا اور آپ کو رسول خدا کی بات سے آگاہ کیا ۔
 
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے و ہ ہار لیا اور غلام کو آزاد کردیا۔ غلام مسکرانے لگا ۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے وجہ پوچھی تو غلام نے کہا مجھے اس ہا ر کی برکت نےمسکرانے پر مجبور کیا جس کی برکت سے بھوکا سیرہو ها اوربرھنہ کو لباس اور غلام آزادہوگیا پھر بھی  یہ ہا هر اپنے مالک کے پاس پلٹ گیا۔۱۳۔

خلاصہ یہ کہ حضرت زہراؑ منصب امامت کے لحاظ سے تو  اگرچہ پیغمبر گرامیﷺ کی جانشین نہیں تھیں لیکن وجودی کمالات  اور منصب  عصمت و طہارت  کے لحاظ سے کوئی دوسری خاتون اولین و آخرین میں سے ان جیسی نہیں ہے۔ جناب سیدہ ؑ علمی ،عملی ،اخلاقی،اور تربیتی حوالے سے نمونہ عمل ہیں۔ انسان کی دینی و دنیاوی سعادت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ان ہستیوں سے متمسک رہے جنہیں اللہ  نے"اسوہ حسنہ"قرار دیا ہے۔بنابرین حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ہمارے لئے زندگی کے ہر شعبے میں نمونہ عمل اور قابل تقلید ہے ۔

{السّلام علیک أیّتہا الصدّیقۃ الشہیدۃ الممنوعۃ إرثہا، المکسور ضلعہا، المظلوم بعلہا، المقتولِ وَلَدُہا}

 

 

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

 

حوالہ جات:
۱۔حلیۃ الاولیاء ج2ص40۔
۲۔  المستدرک علی الصحیحین ، ج3 ص154
۳۔  انسان،9۔
۴۔  آل عمران،164۔
۵۔ فیروز آبادی، القاموس المحیط، بیروت، دارالکتاب العربیہ ، ۱۴۳۲ھ ،ص۴۳۹۔
۶۔ محمد بن مکرم ابن منظور،لسان العرب،بیروت: دارالفکر، ۱۴۱۴ق، ج۴ ،  ص۳۸۹؛  فخرالدین محمد طریحی ، مجمع البحرین ،  تہران:مرتضوی، ۱۳۷۵، ج۳، ص۳۴۰۔
۷۔ معجم مقاييس اللغہ، ص378؛ لسان العرب، ج2، ص1420؛ مجمع البحرین، ج2، ص63؛  محمدمرتضي حسینی زبيدي، تاج العروس من جواہر القاموس،  بیروت،دارالفکر، ۱۴۱۴ق ،چ اول ،ص459 و460.
۸۔مرتضیٰ مطہری، تعلیم و تربیت در اسلام ، تہران:  صدرا، ، ۱۳۳۷ش۔  ، ص۴۳ ۔ ۔ مرتضیٰ
۹۔محمد داؤدی، سیرہ تربیتی پیامبر و اہل بیت ، تربیت دینی ، بی تا،ج ۲، ص۲۳۔                  
۱۰۔باقر مجلسی مجلسی بحار الانوار مؤسس الوفا بیروت 1404ق ج43 ٬ص59۔
 ۱۱۔قزوینی،محمد کاظم، مترجم الطاف حسین ٬فاطمہ زہرا من المہدی الی الحد، قم قزوینی فاونڈیشن ، 1980،ص343۔
۱۲۔ابراہیم امینی، ،اسلام کی مثالی خاتون،(مترجم،اخترعباس)،دارالثقافہ اسلامیہ ،1470 ھ، ص191۔
۱۳۔ محمد باقر بحار الانوارج43 فص56و57۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree