وحدت نیوز(آرٹیکل) ہر انسان کی جدوجہد کو اس کےظاہری عمل اور اس عمل کے پیچھے پنہاں فکر کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔  ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کے تئیس سال بعد پاکستان کے دینی حلقوں میں یہ بات مسلمہ ہو چکی ہے کہ شہید کا عمل صائب اور ان کی فکر درست تھی- اگرچہ یہ بات ان کی حیات میں اس حد تک ثابت نہ تھی- متعدد علماء اور دیگر رہنماء جو ایک زمانے میں ان کے عمل کوتعجب کی نگاہ سےدیکھتے  تھے اور ان کی فکر کے لحاظ سے تردد کے شکار رہتے تھے لیکن آج وہ بھی شہید کے گُن گا رہے ہیں۔ گویا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ  سچے  اور مخلص انسانوں کو  اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے جان گنوانا پڑتی ہے-

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے عمل کی پاکیزگی اور ان کی فکر کی سچائی نہ صرف ان کی اپنی شخصیت میں تبدیلی لائی بلکہ ہزاروں لاکھوں دوسرے انسانوں  میں تبدیلی کا مؤجب بھی  بنی ہے۔ بیرون ملک کے ایک اہم مذہبی رہنما نے ایک مرتبہ ایک پرائیوٹ محفل میں یہ کہا کہ میں پاکستان میں جس بھی دینی جوان سے ملا ہوں وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈاکٹر محمد علی شہید سے تعلق رکھتا ہے۔

ڈاکٹر شہید کی زندگی کا اہم ترین اور نمایاں پہلو اُن کا ہمیشہ متحرک رہنا ہے۔ وہ نامساعد حالات میں بھی ہمیشہ متحرک رہتے بلکہ ایسے حالات ہی کو عمل کا بہترین وقت سمجھتے تھے۔ ان کی فکر یہ تھی کہ ہمیں اپنے آپ پر نامساعد حالات کا بوجھ ڈالنا چاہیے تاکہ ہم اپنے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکیں اور اپنے سینوں کو مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے کھول سکیں۔

وہ  یہ سمجھتے تھے کہ جب بھی ایسے نا مساعدحالات ہوں تو ہمیں اپنی ہر چیز قربان کر دینی چاہیے کیونکہ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو ہم دوسروں کے حملوں کی موجوں اور ان کی تحریکی کاوشوں کے فکری بھنور میں پھنس کر انہی کی بعض حرکات کی نقالی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر محمد علی شہید کی فکر کے مطابق اگر ہم اپنے گردوپیش میں رونما ہونے والے واقعات سے بے اعتناء رہیں اور اپنے ارد گرد ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ذات، تشخص اور حقیقت سے متصادم کسی بھی واقعے اور چیز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

 اسی لئے حق و صداقت کے مدعی کو اپنے تشخص کی بقا کے لیے اپنی تمام ترخواہشات، رجحانات،قلب و وجدان اور حرکات و اعمال کے ذریعے جدوجہد کرنی چاہئیے۔بلاشبہ وه جانتے تھے کہ یہ جدوجہد پہلے بازو و دل سے ہو گی اور پھر وجود اور سر کا تقاضا کرے گی۔وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے آج اپنے دلوں اور سروں کو قربان نہ کیا تو دوسرے لوگ بڑی ڈھٹائی سے ایسی جگہ اور وقت میں ہم سے ان کا مطالبہ کریں گے جب ہم اختیار سمیت اپنا سب کچھ کھو چکے ہوں گے۔

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی عمل و فکر کا ایک خاصہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ضروریات کو جہان کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ڈھال لیا تھا مثلاً دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کو جہاں وہ دنیا کے لئے ضروری سمجھتے تھے وہاں اسے اپنی ذات کی بھی ایک ضرورت سمجھتے تھے۔ اجتماعی جدوجہد کرنے والوں میں یہ خاصیت کم و بیش ہی دیکھنے میں آئی ہے اسی وجہ سے ان کی جدوجہد میں وہ لگن اور قربانی کا جذبہ نظر  نہیں آتا جو ڈاکٹر صاحب کی ذات میں قابلِ مشاہدہ تھا۔ ڈاکٹر شہید کی اپنی کوئی مخصوص دنیا نہ تھی بلکہ انہوں نے اپنے وجود  کو اجتماع سے مربوط کر لیا تھا۔فکری طور پر وہ اپنے اس تعلقات کی نوعیت کو سمجھتے تھے اور اس میں بالکل واضح تھے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں قبل از وقت اپنی وصیت لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔

اگرچہ شہید ڈاکٹر  کا عمل کے میدان میں بہت متحرک ہونا اور تحریر و تقریر کے ذریعے ان کی جانب سے کوئی قابلِ ذکر مواد منتقل نہ ہونا ہمارے لئے ایک بہت بڑی محرومی کا باعث ہے  تاہم  ڈاکٹر صاحب فکری لحاظ سے ایک  مضبوط اور پختہ انسان تھے اور غوروفکر کے عمل کو ہمیشہ جاری رکھتے تھے۔

 راقم سمیت جن لوگوں کا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا ہے وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے ہر عمل کے پیچھے ایک گہری سوچ ہوتی تھی جو ایک فکری عمل کے نتیجے میں وجود میں آتی تھی۔ یہ بات ڈاکٹر شہید کی جدوجہد سے متاثر نوجوانوں کو پلے باندھ لینا چاہئیے کہ ڈاکٹر صاحب کا ہر عمل گہری فکری عمل کا نتیجہ ہوتا تھا۔

 ڈاکٹر صاحب سے تحریری و تقریری طور پر زیادہ مواد نقل نہ ہونا اس وجہ سے تھا کہ انہیں اردو زبان پر عبور نہ تھا۔ ان کی بنیادی تعلیم جنوبی افریقہ کی تھی لہذا انہیں اردو زبان پر دسترس حاصل نہ تھی۔ ڈاکٹر شہید فکر میں تقلید کے قائل نہ تھے بلکہ اپنے ذہن سے سوچتے تھے اور مسائل و خیالات کے تجزیہ تحلیل میں کمال کی مہارت رکھتے تھے۔ شہید ڈاکٹر کو کبھی بھی جذبات کی رو میں بہتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، ہر عمل کو منطق و عقل کی بنیاد پر انجام دیتے تھے۔ جذباتی لوگوں کی قدر ضرور کرتے تھے اور ان کی حسن نیت کو سمجھتے بھی تھے لیکن انہیں سمجھاتے اور ان کے احساسات کو توازن پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔

ڈاکٹر شہید جیسی انسانی روح کا ارتقاء تعامل فکر کے ذریعے اور اس کی روشنی میں ہوتا ہے۔ایسے انسان اپنی ذات میں اور اپنے نفس کے باطن میں گہرائی سے مسلسل غوروفکر کرتے رہتے ہیں اور نفس کی کمزوری اور جذباتیت کی وجہ سے جو اوہام پیدا ہوتے ہیں ان سے چھٹکارا پانے کے لیے تنگ نظری کے خول کو توڑ دیتے ہیں،جس کے نتیجے میں ان کی ان حقائق کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے، جن میں کوئی کجی یاگمراہی پیدا نہیں ہو سکتی۔

ڈاکٹر شہید کی شخصیت کوئی ایسی شخصیت نہ تھی جو صرف کام برائے کام کرنا چاہتی ہو بلکہ وہ کائنات کی روحانی تعبیر کے قائل تھے، معاشرے کے اپنے تشخص کو کھو دینے کا درد محسوس کرتے تھے، عالمی سطح پر شیطنت کے کھیل  کے مقابلے کے لئے کمر بستہ تھےاور اس کے مقابل رحمانی قوتوں کے ظہور کو  ضروری سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو اس وسیع کائناتی جدوجہد کا حصہ سمجھتے تھے۔

ایک عالم و روحانی کے گھر میں متولد ہونے اور قرآن و حدیث کے سائے میں پرورش پانے نے خود ڈاکٹر شہید کی اس فکری پاکیزگی کو جلا بخش دی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ہماری عملی و فکری زندگی اور اس کی جدوجہد ہماری روحانی زندگی کے لئے ہے،جو ہماری دینی فکر کا جزولاینفک ہے۔

وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے کہ جس طرح ظاہری عبادت اور ذکرو تسبیح کے ذریعے قلب و روح کی روحانی زندگی میں رفعت پیدا ہوتی ہے،اسی طرح اجتماع میں رہنا اور اس کی اصلاح و فلاح کے لئے محنت و جدوجہد کرنے کا تعلق بھی روحانی زندگی سے ہے۔ خلاصہ یہ کہ ڈاکٹر شہید کی زندگی ایک حقیقی مؤمن کی زندگی تھی جس کا ہر کام عبادت،ہر فکر مراقبہ،ہر کلام مناجات ، ہر عمل معرفت کی رزمگاہ،کائنات کا ہر مشاہدہ چھان پھٹک اور نگاہِ شوق اور اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کے ساتھ رحمت وشفقت پر مبنی تعلق ہوتا ہے۔

اگرچہ آج کے رہنما اور تمام اہم جماعتیں اپنے آپ کو ڈاکٹر شہید کے نقش قدم پر چلنے والے اور پاکستان میں ان کے قائم کردہ اصول عمل کے وارث قرار دیتے ہیں،لیکن اس کے باوجود وہ حسبِ منشا عوامی محبت اور تقدس حاصل نہیں کر پائے اور گروہ در گروہ میں تقسیم ہو کر مثبت کردار ادا نہیں کر پا رہےاور بعض اہلِ نظر کے مطابق انہوں نے راہِ راست سے بھٹک کر منفی پہلوؤں کو اختیار کر لیا ہے۔

ایسے موقع پر جب ہم شہید کی تئیسویں برسی منا رہے ہیں ہمارے راہنماؤں اور ملی تنظیموں کو اپنے اندر اس حقیقی عمل و فکر کے فقدان کا سبب تلاش کرنا چاہیے  جس کے ڈاکٹر شہید امین تھے ۔ یہ جاننا چاہئیے کہ حقیقی ایمان اور کردار کے خلوص کی وہ جھلک جو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا خاصہ تھی  اور جو کیسی بھی صورتحال ہو ان کی ذات اور ان کے اجتماعی کاموں میں نمایاں تھی اب کہاں ہے یا اس کا رنگ پھیکا کیوں پڑ گیا ہے۔

تحریر: پروفیسر سید امتیاز رضوی

وحدت نیوز(آرٹیکل) متکلمین امامیہ نے اپنی کتابوں میں ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی امامت کے بارے میں قرآن و سنت سے بہت سارے نصوص ذکر کئے ہیں کہ جن کی وضاحت کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن ہم یہاں پر بطور نمونہ چند نصوص بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

1۔ آیہ ولایت:
{ إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللّہ ُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوۃَ وَ يُؤْتُونَ الزَّکَوۃَ وَہُمْ رَاکِعُون}۱تمہاراولی تو صرف اللہ اوراس کا رسول اوروہ اہل ایمان ہیں جونماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔

آیت کریمہ کے مطابق خداوند متعال،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ مومنین جو خاص صفات کے حامل ہیں مسلمانوں پرولایت رکھتے ہیں ۔علاوہ از یں کلمہ{انما} حصر پر دلالت کرتاہے ۔۲ یعنی خدا ،پیغمبر اسلا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بعض مومنین کو مسلمانوں پر  ولایت حاصل ہے۔
آیت کریمہ کی شان نزول کے سلسلے میں شیعہ وسنی کتابوں میں بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں نیزطرفین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔۳بنابریں آیت کریمہ سے حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری  ثابت ہوجاتی ہیں  اگرچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مسلمانوں پر ولایت رکھتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام بھی دوسرے مومنین کی طرح اس آیت  {النَّبیِ أَوْلیَ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِہِمْ}کے حکم میں شامل تھےلیکن آپ ؐکی رحلت کے بعد  حضرت علی علیہ السلام کی ولایت شروع ہوتی ہے۔

2۔آیت تبلیغ:
{یايہُّا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْکَ مِن رَّبِّکَ  وَ إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَ اللّہ ُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ  إِنَّ اللّہ َ لَا يہَدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِين}۴اے رسول!جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیاگیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویاآپ نےاللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اوراللہ آپ کو لوگوں{کے شر}سے محفوظ رکھے گا،بےشک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔آیہ کریمہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے بہت ہی قابل توجہ اور اہم موضوع کے بارے میں اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے اگر وہ کام انجام پذیر نہ ہو تو گویا اسلام کی بنیاد اور رسالت خطرے میں پڑ جائے گی لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موضوع کو بیان کرنے کے لئے مناسب موقع کے منتظر تھے کیونکہ عوام کی طرف سے ممانعت ،رکاوٹ اور خطرے سے ڈرتے تھے ۔یہاں تک  خداوند متعال کی طرف سے تاکید کے ساتھ حکم ملا کہ اس کام کو انجام دینے میں تامل نہ کریں اور فورا انجام دیں اور نہ ہی کسی سے ڈریں۔یہ موضوع یقینی طور پر دوسرے احکام کی طرف نہیں تھا کیونکہ ایک یا چند قوانین کی تبلیغ کی یہ اہمیت نہیں ہے کہ ان کی تبلیغ نہ کرنے سے اسلام کی بنیاد اکھڑ جائے گی اور نہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قوانین کے بیان کرنے اور تبلیغ سے خوفزدہ تھے۔بنابریں قرائن و شواہد اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مذکورہ آیت غدیر غم کے مقام پر حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور بہت زیادہ شیعہ اور سنی مفسرین نے بھی اس کی تصدیق کی ہے ۔جیساکہ ابو سعید خدری فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر لوگوں کو  حضرت علی علیہ السلام کی طرف دعوت دی ۔ آپ ؐنے حضرت علی علیہ السلام کے بازو کو پکڑ کر اس قدر بلند کیا کہ آپؐکی بغل کی سفیدی دکھائی دینے لگی اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔{الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَ أَتمْمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتی وَ رَضِيتُ لَکُمُ الْاسْلَامَ دِينًا}

شیعہ و سنی کتابوں میں نقل ہونی والی متعدد احادیث میں اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کیاگیاہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام  کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم کو غدیر خم میں پہنچایا ہے ۔ شیعہ عقائد کے مطابق یہ بات مسلم ہے جبکہ اہل سنت کے متعدد علماء نے  بھی آیت کی شان نزول کو حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت قرار دیا ہے اگرچہ یہ افراد ولایت کے معنی میں شیعہ مذہب کے ساتھ متفق نہیں ہیں  ۔

علامہ امینی نے کتاب  الغدیر میں اہل سنت کے تیس بزرگ علماء کا نام ذکر کیا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے بارے میں غدیر خم میں نازل ہوئی ہے ۔آیت کریمہ کے شان نزول کے بارے میں موجود احادیث  کے علاوہ خود آیت کریمہ کے ابتداوانتہا اورکلمات پر غور کرنے سے بھی واضح ہو جاتا ہے  جیساکہ آیت کریمہ کے ابتدائی حصے  میں اس مطلب کو بیان کیاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خدا کی طرف سے نازل شدہ احکام کو لوگوں تک پہنچانے پر مامور تھے  اور یہ الہیٰ پیغام اتنا اہم تھا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے انجام نہ دیں تو گویا نبوت و رسالت کی ذمہ داری انجام نہیں دی ہے جبکہ اس جملہ{ وَ اللّہ ُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ}{خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا}سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ اس حکم کو پہنچانے  سے خوف محسوس کرتے تھے جس کی بنا پر خدا نے آپ ؐکو تسلی دی اور آپ ؐکی حفاظت کا اعلان فرمایا ۔ ظاہر ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پیغام کے پہنچانے میں اپنی جان کا خوف نہیں تھا اور آپ ؐاپنی موت و حیات کے بارے میں خوفزدہ نہیں تھے بلکہ آپ ؐدین  کے بارے میں خوف محسوس کر رہے تھے کہ کہیں  لوگ اس اعلان کے بعد دین  کے بارے میں مشکوک اور مرتد  نہ ہو جائیں کیونکہ یہ  پیغام حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت سے متعلق تھا اور حضرت علی علیہ السلام آپ ؐ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔عرب کے پرانے رسم و رواج کے مطابق منافقین کے لئے  یہ بہترین موقع تھا کہ آپ ؐ کے اس اقدام کو عرب کے اس جاہلی آداب و رسوم کے مطابق سمجھ بٹھیں جس کے نتیجے میں  دین اسلام کی حقانیت اور اس کے عظیم اہداف خطرے میں  پڑ جاتےجبکہ دین اسلام عرب کے اس جاہلی آداب و رسوم کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنا چاہتا تھا لہذا  خداوند متعال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دی کہ ہم ہر قسم کی ناروا تہمت سے آپ کو محفوظ رکھیں گےاور اس سلسلے میں دین اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔۵

3۔ آیہ اکمال دین:
{الْيَوْمَ يَئسَ الَّذِينَ کَفَرُواْ مِن دِينِکُمْ فَلَا تخَشَوْہُمْ وَ اخْشَوْنِ  الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَ أَتمْمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتیِ وَ رَضِيتُ لَکُمُ الْاسْلَامَ دِينًا}۶  آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوچکے ہیں،پس تم ان{کافروں} سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور اپنی
نعمت تم پرپوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو  بطوردین پسندکرلیا۔

آیت کریمہ اس دن کی خبر دے رہی ہےکہ جس دن کوئی بڑا واقعہ رونما ہوا جس سے دو نتیجہ حاصل ہوا:

1۔ کفار ہمیشہ کے لئے اسلام کی تباہی سے مایوس ہوگئے۔2۔دین اسلام اپنے کمال کو پہنچا اور خداوند متعال کی نعمتیں پوری ہوئیں اور وہ دین اسلام سے راضی ہو گیا ۔  یہاں یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کون سا دن تھا ؟ اور کون سا عظیم واقعہ رونما ہوا؟
شیعہ و اہل سنت ذرائع سے نقل ہونے والی متعدد احادیث  کے مطابق آیت کریمہ حجۃ الوداع اور روز غدیر خم 18 ذی الحجۃ سن10ہجری کو نازل ہوئی یعنی جب پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاجیوں کے جمع غفیر میں اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری کا اعلان فرمایا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ بات شیعہ روایات کےمطابق مسلم ہے۔ اہل سنت کی روایات میں بعض اصحاب جیسے ابو سعید خدری ،جابر بن عبد اللہ انصاری ، زید بن ارقم اور ابو ہریرہ وغیرہ نے مذکورہ آیت کو واقعہ غدیر سے مربوط جانا ہے ۔

مسئلہ امامت، دین اسلام کی حفاظت اور احکام کےنفاذ و ابلاغ میں امام او ررہبرکے اہم کردار کو مد نظر رکھنےسے واضح ہو جاتا ہےکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت اسلامی کے رہبر کے انتخاب یعنی حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے اعلان کے بعد کفار مایوس ہو گئے کیونکہ یہ لوگ اسلام کی نابودی کے لئے ہمیشہ سازش میں مصروف  رہتےتھے لیکن کبھی کامیاب نہ ہو سکے گرچہ ان کی آخری امید یہی تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلام کے خلاف عملی قدم اٹھاسکتے ہیں کیونکہ آپ ؐکا کوئی بیٹا نہیں ہے۔لہذا وہ اس  دن کے منتظر تھے تاکہ دین اسلام کے خلاف اپنی دشمنی کو برملا کریں لیکن پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کے سامنے قانونی اور عمومی طور پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرما کر ان کی امیدوں کو ناامیدی میں تبدیل کیا. جب رہبر و امام کا اعلان ہوا تودین عروج و کمال کو پہنچا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام جیسا رہبر مسلمانوں کو ملاجو قرآن و سنت کی صحیح تفسیر کرتے ہیں اور جن کا کلام حق و باطل کی پہچان کا معیار بنا جس کے نتیجے میں دین وشریعت تحریف سے محفوظ رہیں۔ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں مسلمانوں پر خدا کی نعمتیں بھی کامل ہوگئیں اور اس قسم کے آئین پرعمل کرنے کے نتیجے میں رضایت الہی بھی حاصل ہوگی۔

لہذا خدا کی حکیمانہ تدبیر کو جسےپیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں واضح فرمایا جس سے دین اسلام ،کفار کی سازشوں سے محفوظ رہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس سلسلہ میں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیےلیکن جو چیز پریشانی کا باعث ہے  وہ مسلمانوں کے اپنے اعمال ہیں کیونکہ اگر وہ اس عظیم نعمت کا انکار کریں تو یقینا یہ الہی نعمت ان کے ہاتھوں سے چھن جائے گی کیونکہ الہی سنت یہ رہی ہے کہ وہ کسی قوم یا  فرد کو نعمت عطا کرنے کے بعد واپس نہیں لیتا مگر یہ کہ کفران نعمت کرے اور اپنے ہاتھوں سے الہی نعمت کے زوال کا اسباب فراہم کرےچنانچہ ارشادرب العزت ہے :{ذَالِکَ باَنَّ اللّہ َ لَمْ يَکُ مُغَيرِّا نِّعْمَہً أَنْعَمَہَا عَلیَ قَوْمٍ حَتیَ يُغَيرِواْ مَا باَنفُسِہِمْ}۷ایسا اس لئےہواکہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے۔ آیت اکمال دین کا یہ جملہ {فَلَاتخَشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ}{پس تم ان{کافروں} سے نہیں مجھ سے ڈرو}اسی الہی ٰقانون کی طرف اشارہ ہے ۔۸

حوالہ جات:
۱۔مائدۃ،55۔
۲۔مختصر المعانی ،ص82،باب القصر۔
۳۔المیزان ج6ص16 – 20۔تفسیر ابن کثیر،ج2ص597۔تفسیر قرطبی،ج6س221۔شواہد التنزیل،حسکانی،ج1ص161۔اسباب النزول ، واحدی ، ص 132۔الریاض النضرۃ،طبری،ج3،ص208۔ المیزان ج6،ص 35۔المراجعات ،ص 161۔
۴۔مائدۃ، 67 ۔
۵۔المیزان،ج6،ص 45 – 52۔
۶۔مائدۃ،3۔
۷۔انفال،53۔
۸۔المیزان، ج5، ص178 – 179۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(حیدرآباد) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین ضلع حیدرآباد کے شعبہ تحفظ عزاداری کی جانب سے مجلس ایام فاطمیہ بسلسلہ شہادت خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کا انعقاد کیاگیا، امام بارگاہ معصومین  میں منعقدہ مجلس عزاء میں مرثیہ خوانی کے فرائض خواہر شہر بانو (شھرو) اور ساتھی خواہران نے جبکہ خطابت ذاکرہ اہلیبیت محترمہ فضا ءعمران دستی  نے  بعنوان معرفتِ شہزادی کونین عبد اور عبادت فرمائی ،بعد ختم مجلس اجتماعی دعائے سلامتی امام زمانہ ع اور ملک و ملت کے لئے دعا کرائی گئی۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ضلع جنوبی کے ڈیفنس ویو یونٹ کی تشکیل نوکردی گئی،یونٹ اراکین نے کثرت رائے سے برادر حسن کاظمی کو ایم ڈبلیوایم ڈیفنس ویویونٹ کا سیکریٹری جنرل منتخب کرلیا جن سے ڈویژنل سیکریٹری امور تنظیم سازی سید ذیشان حیدر نے حلف لیا، اس موقع پر ڈویژنل پولیٹیکل سیکریٹری میر تقی ظفر ، ضلع جنوبی کے عبوری سیکریٹری جنرل حسن رضا اور دیگر کارکنان بھی موجود تھے ، اجلاس سے قبل مجلس شہادت حضرت فاطمہ زہراؑ منعقد ہوئی اور ماتم داری بھی کی گئی۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین نقوی پنجاب نے کہا ہےکہ احد چیمہ کی گرفتاری پر بیوروکریسی کا احتجاج اور کام چھوڑنا انتہائی تشویش ناک عمل ہے جس کو فوری طور پر نوٹس لیا جانا چاہیے۔ نیب کی جانب سے احد چیمہ کی گرفتاری پر پنجاب میں کرپشن کے مگر مچھ خوف میں مبتلا ہیں کیوں کہ نیب کا اگلا ہدف کرپٹ بیوروکریٹ اور سیاستدان ہیں۔

 انہوں نے کہا ہے کہ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ احد چیمہ شہباز شریف کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتے رہے ہیں اسی لیے احد چیمہ کی گرفتاری نے شہباز شریف کو شدید خوف میں مبتلا کر رکھا ہےکہ کہیں وہ شہباز شریف کے کرپشن ریکارڈ سامنے نہ لے آئیں ۔ اگرپنجاب میں بھی نیب اسی طرح غیر جانبداری سے کام کرتی رہی تو بہت جلد ریکارڈز کو جلانے والوں کی کرپشن بھی کھل کر عوام کے سامنے آ جائے گی ۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کا رویہ غیر جمہوری ہے ، پنجاب میں شہباز شریف کی کوشش ہے اداروں کو کمزور کیا جائے جب کہ پنجاب کی بیورو کریسی میں بغاوت کرائی جارہی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر افتخار نقوی کاکہنا تھا کہ ادارے ختم ہوجائیں تو ملک کمزور ہوجاتا ہے، پنجاب کی بیوروکریسی میں 14 سے 15 ایم این ایز کے بھائی بھتیجے ہیں، ان کی مدد سے پنجاب کی بیوروکریسی میں بغاوت کروائی جارہی ہے، ان کو ڈر ہے کہ شہباز شریف بھی چلے گئے تو ان کا کیا بنے گا۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین  پنجاب کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مبارک علی موسوی کا نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نا اہلی پر تبصرہ کرتے ہوئےکہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ خوش آئند ہےجس کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے نے پاکستان کی 22 کروڑ عوام کی ترجمانی کی ہے، نواز شریف شروع سے ہی نا اہل تھے جسے ضیا الحق جیسے ڈکٹیٹر نے اہل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ نواز شریف کرپشن کا بادشاہ ہے جو بہت جلد جیل کی ہوا کھائے گا ۔ نوازشریف اپنی کرپشن کو بچانے کے لئے بیرونی عناصر کی مدد لے رہا ہے۔لیکن عدالتیں نواز شریف کا احتساب کیے بغیر آسانی سے جانے نہیں دیں گی۔ یہ عدالتی فیصلے حقیقتاً صدیوں یاد رکھے جانے والے فیصلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی کا یار عوام کو بے وقوف بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے ، اداروں پر الزام لگانے اور حملوں کی سازش کھل کر عوام کے سامنے آچکی ہے۔ علامہ مبارک علی موسوی کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کی نا اہلی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے خون کا بدلہ ہے ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree