وحدت نیوز(کوئٹہ ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ ہاشم موسوی , صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ برکت بلوچ , صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کیپٹن حسرت اللہ ہزارہ , رکن صوبائی اسمبلی بلوچستان آغا رضا , صوبائی رہنما ظفر عباس شمسی, ڈویژنل سیکرٹری جنرل سید عباس آغا, علامہ ولایت حسین جعفری, کونسلر رجب علی, کونسلر سید مہدی , جعفر علی جعفری, فدا حسین ہزارہ, رشید علی طوری, حاجی عمران ہزارہ و دیگر پارٹی عمائدین نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری پر بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں. علامہ ہاشم موسوی نے کہا کہ بلوچستان بھر میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ضرورت ہے مستونگ , درینگڑھ اور نوشکی میں انتہا پسندی عروج پر پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں دہشتگردوں نے اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں لیکن اب تک ان علاقوں میں دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا ۔

مجلس وحدت مسلمین صوبہ بلوچستان کے سیکرٹری جنرل علامہ برکت بلوچ نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری اور جمعیت کے دیگر کارکنان پر حملہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گرد ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے جس کے متحد ہونے کی ضرورت ہے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما و رکن صوبائی اسمبلی بلوچستان آغا رضا نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری  ایک سلجھے ہوئے سیاست دان ہیں جو امن وامان کی بحالی کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں ان کے قافلے پر حملہ اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اسی راستے پر شیعہ زائرین پر کئی بار دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں جس پر ہم نے احتجاج بھی کیا اور اس وقت بھی ہم نے حکومت اور اداروں پر زور دیا کہ اس روٹ پر دہشت گردوں کیخلاف سنجیدہ آپریشن کرکے دہشتگردوں کا مکمل صفایا کیا جائے لیکن آج تک اس روٹ پر دہشت گردوں کیخلاف آپریشن نہیں کیا گیا اور دہشت گردوں کو صرف شیعہ مسلک کا دشمن سمجھ کر انکے ساتھ نرمی برتی گئی اگر ہمارے مطالبات مان کر حکومت اور ادارے دہشت گردوں کا صفایا کرتے تو آج یہ افسوسناک سانحہ پیش نہ آتا . سانحہ پر اپنے شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے دیگر رہنماؤں نے حکومت اور اداروں سے مطالبہ کیا کہ کوئٹہ تفتان روٹ اور خصوصاً مستونگ میں  دہشتگردوں کا مکمل صفایا کیا جائے..

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ برکت مطہری نے کہا ہے کہ ہمیں ہر آزمائش میں صبر سے کام لینا ہوگا۔پاکستان اس وقت چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے ہمیں ایک ملت بن کر ان مشکلات سے نکلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اجتماعی ترقی اور خوشحالی کیلئے جن معاشرتی خوبیوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر اور اپنے اداروں پر بھروسہ کر سکیں ، انہوں نے معاشرے میں ترقی کیلئے اعتماد کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس دولت کی بات تو بہت کرتے ہیں جس کی ایک مادی حیثیت ہے لیکن ایک دولت وہ بھی ہوتی ہے جس کا رشتہ ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی سے ہوتا ہے جہاں تک اعتماد کا معاملہ ہے تو اس کا اطلاق صرف سیاست پر نہیں ہوتا ۔ انکا کہنا تھا کہ ہماری اجتماعی زندگی میں بھروسے اور اعتماد کی کمی اتنی پھیل گئی ہے کہ ایماندار اور نیک لوگ اپنے اپنے شعبوں میں خود کو اس کیلئے موزوں نہیں سمجھتے ۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے اگر کرپشن، بد عنوانی کے کلچر کو ختم کرنا ہے تو ہمیں مل کر اسکے خلاف کام کرنا ہوگا ہمارے معاشرے میں ہر طرح کی گندگی موجود ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں صرف بھروسے اور اعتماد کی ہی کمی نہیں ہے برداشت کی اس سے بھی زیادہ کمی ہے ، بیان کے آخر میں آغا رضا نے کہا کہ یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ کیسی کیسی محرومیوں کو ہم قبول کر لیتے ہیں اور کیسی کیسی باتوں پر پورا ملک ،پورا معاشرہ غیظ و غضب کا شکار ہو جاتا ہے جس کیلئے سنجیدہ طرز عمل ضروری ہے ۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)  سورج افق میں چھپ چکا تھا رات کی تاریکی چھا رھی تھی طلاب مدرسے کی عمارت کو دلھن کی طرح سجھا رھے تھے سبھی کے چھرے خوشی و سرور سے تلملا رہے تھے کچھ ہی دیرمیں سارےمدرسے پے قمقموں کی روشنی چمکنے لگی جشن کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ ایک ایسی خبر آئی جسے سنتے ہی سب چہرے اتر گئے خوشی غم و غصہ میں تبدیل ہوگئی جشن کی تقاریر کے موضوعات بدل گئے ایسا لگ رہا تھا جیسے قمقموں کی روشنی ماند پڑ گئی ھو جی ھاں یہ پچهلے سال تین شعبان کی بات ہے جب ہم محسن انسانیت،علمبردار حریت،غیور و آزاد صفت انسانوں کے قافلہ سالار امام حسین ؑابن علیؑ کی ولادت کا جشن منانے میں مصروف تھے اسی دوران خبر ملی کہ پاراچنار کے محب وطن اور غیرتمند عوام پر کہ جنھوں نے ہمیشہ وطن کے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا آج ایک اور ظلم ڈھایا گیا ہے جی ہاں پتہ چلا کے عوام کی جان و مال کے رکھوالوں نے مومنین پے صرف اس لیے فائر کھول دیے کہ وه نواسہ رسول کی آمد کی خوشی منارہے تھے ہاں وه محب وطن قوم جس نے پاکستان کے لیے سب سے زیاده قربانیاں دیں اور دہشتگردی نے جس کی ماؤں سے جوان بیٹے بھنوں کا سہارا بھائی بچوں سے والدین اور جوان سال بیٹیوں سے انکے سہاگ چھینے آج وه ریاستی دہشتگردی کے نشانے پر تھی سمجھ نھیں آرہا تھا کہ آخر کون آواز اٹھائے گا کون اس مظلومیت کو پاراچنار کے پهاڑوں سے نکال کر ریاستی اداروں کی دہلیز تک پهنچائے گا جمعہ 13 مئی 2016 کو مختلف تنظیموں نے احتجاج کی کال دی مختلف جگہوں پے احتجاج کیا گیا اسلام آباد کے مرکزی احتجاج کے اختتام پر ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفرى نے مظلوموں کے مطالبات کی منظوری تک بھوک ھڑتال کرنے کا اعلان کردیا سب حیران تھے کہ ناصر ملت نے یہ کیسا سخت اعلان کردیا جبکہ آغا کے بقول وه کسی بڑی احتجاجی تحریک کے ذریعے ملت کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے خود کو مشکل میں ڈالنا زیاده بھتر سمجھ رہے تھے ۔

13 مئی وه تاریخی دن تھا جب ملت مظلوم پاکستان کے ایک مخلص رہنما نے وطن عزیز کو دہشتگردی کی عفریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے بھوک ہڑتال کا آغاز کیا میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ راجہ صاحب کے پاس موجود تھا دن ڈھلا تاریکی چھائی اور یہ عالم بزرگوار بھوک برداشت کرتے ہوئے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے زمین پے اگی گھاس پے اپنی عبا سر کے نیچے رکھے سو گیا جن احباب کو وه مقام دیکھنے کا موقع ملا وه جانتے ہیں کہ وه جگہ سیکیوریٹی اعتبار سے انتہائی غیر محفوظ تھی لیکن شہادت کے تمنائی کے لیے خطرات کوئی ارزش نہیں رکھتے راجہ صاحب اور آغا احمد اقبال زمین پے سو گئے جبکہ آغا اعجاز بھشتی اور چند جوان جن کی تعداد تقریبا 12 یا 14 سے زیاده نہیں تھی آغا کی حفاظت کے لیے جاگ رہے تھے اتنے میں آسمان نے کھا آج اس مرد مقاوم کی مقاومت کا امتحان لیا جائے تیز ہوا چلی اور طوفان کی شکل اختیار کرگئی جوان راجہ صاحب کے ٹینٹ کے ستون پکڑ کے کھڑے ہوئے تو ہوا نے سارا ٹینٹ پارا پارا کردیا راجہ صاحب بھی نیند سے بیدار ہوگئے ادھر سے ٹینٹ ناکاره ہوکے گرا اور ادھر سے بارش نے برسنا شروع کردیا آغا صاحب سے گزارش کی گئی کہ آپ گاڑی میں چلے جائیں لیکن شاید شھداء کی مظلومیت کا درد ناصر ملت کو وھاں سے اٹھنے نہیں دے رہا تھا ہم نے ایک بینر کے ساتھ آغا صاحب پے سایہ کیا کافی دیر بارش کے بعد ناصر ملت سمیت سب جوان بھیگ چکے تھے فجر کی نماز بھی بارش میں ھوئی اور دعائے عہد کے بعد ناصر ملت نے بارش میں بیٹھے ہوئے صبر کے موضوع پے درس دیا اور خانواده عصمت و طہارت کے مصائب پڑہے ناصر ملت بھوک برداشت کرتے رہے اور ظلم پے خاموش حکمرانوں کے ضمیر جھنجوڑتے رہے ۔

آغا کا بلڈ پریشر کم اور شوگر مسلسل بڑھتا رہا دھیرے دھیرے کھڑے ہوکے نماز پڑھنا دشوار ہونے لگا کئی بار آندھی طوفان اور بارش نے امتحان لیا لیکن یہ مرد مجاہد کھلے مقام پر دہشتگردوں سے بے خوف اور کیمپ میں آنے والوں کی تعداد سے لاپرواه اپنے فریضے کی انجام دهی میں مصروف رھا کبھی فون پے بات کرتے ھوئے زمین پے گرا اور کبھی طبیعت زیاده ناساز ھونے پر ھسپتال منتقل ہوا لیکن اپنے وعده سے پیچھے نہ ہٹا مظلومیت کی آواز ہر باضمیر کے کانوں تک پهنچی اور شیعہ ، سنی، دیوبندی، عیسائی، ھندو،سکھ،وکلاء،میڈیا،خواتین،بچے، جوان،بزرگ اور تقریبا تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے حمایت کے لیے بھوک ھڑتالی کیمپ تشریف لائے پاراچنار ڈی آئی خان گلگت اور پنجاب میں مظلوموں کے مطالبات پر کافی حد تک پیشرفت ہوئی جسکی تفصیلات ایک مکمل کتابچے میں چھپ چکی ہیں، شوریٰ عالی  کے اصرار اور مراجع و فقہاء کے خطوط کے بعد ناصر ملت نے شھید قائد کی برسی پے اپنی جدوجھد کے اس مرحلے کو تمام کیا اور اپنے خلوص اور سچائی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا البتہ ابھی اس مادر وطن میں امن و ترقی کے حصول کی جنگ جاری ہے اور قائد کے پاکستان کو لوٹانے کے لیے ایک لمبا عرصہ جدوجہد کی ضرورت ہہے ملت مظلوم پاکستان کو ایسے مخلص لیڈرکا ساتھ دینا ہوگا اور اپنی مسلسل استقامت سے دشمنان وطن کو ذلیل و خوار کرنا ہوگا۔


تحریر۔۔۔سید حسن رضا نقوی

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی پاور ہے ، تمام اسلامی مسالک و مذاہب  کا حسین گلدستہ ہے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا ایک نمایاں اور منفرد مقام ہے۔پاکستا نیوں کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستانیوں کو حقیقی معنوں میں ملی اور اجتماعی شعور  رکھنے والے سیاستدان نصیب نہیں ہوئے۔

سرزمین پاکستان کی نظریاتی سطح کے لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے ہماری قوم مختلف تعصبات میں بٹتی گئی اور ہم اکثر اوقات، حقائق بیان کرنے کے بجائے دانستہ یا نادانستہ طور پر انہی تعصبات کے بتوں کو سجدہ کرتے ہیں۔ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم جس قدر  نظریہ پاکستان سے دور ہوکر تعصبات میں بٹتے جارہے ہیں اتنے ہی کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔

ہم میں سے بعض افرادنے اپنی کمزوریوں کا علاج تعصبات کو مزید ہوا دینے میں ڈھونڈ رکھا ہے، وہ بڑے خلوص کےساتھ  جھوٹ اور غلط اطلاعات کو پھیلاکر سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہمارا لسانی ، علاقائی یا مذہبی گروہ مضبوط اور مستحکم ہوجائے گا۔  اس مقصد کے لئے سوشل میڈیا پر بعض  افراد مسلسل جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں۔ اب اگر ان  جھوٹ پھیلانے والوں سے کوئی کہے کہ یہ خبر تو جھوٹ پر مبنی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہماری تجزیاتی خبر ہے۔ صحافت اور دیانت داری کا تقاضایہ ہے کہ اصل خبر کو تجزیے سے الگ  بالکل شفاف طریقے سےبیان ہونا چاہیے اور اس کے بعد رپورٹر اگر چاہے تو  اپنے تجزیے کو چند لائنوں میں الگ سے پیش کردے۔ تاکہ قاری کو پتہ چلے کہ اصل خبر یہاں ختم ہو گئی ہے اور اس کے بعد  یہ رپورٹر کا  اپناتجزیہ ہے۔

اگر کوئی سننے والا ایک خبر یا کسی کے انٹرویو کو سنتا یا کسی کا کیا ہوا ترجمہ پڑھتا ہے اور پھر اس کے بعد اپنے مسلکی و لسانی  یا کسی  علاقائی  یا سیاسی  پارٹی کے مفادات و نظریات  کے تنا ظر میں اس بیان یا انٹرویو میں تحریف کر کے ایک چربہ بناکر لوگوں کو غلط اطلاع دیتا ہے تو باشعور افراد کو اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

  ایک رپورٹر  کو معلوم ہونا چاہیے کہ  دنیائے صحافت کی آبرو رپورٹنگ سے قائم ہے۔تجزیے میں غلطی ہو سکتی ہے ، ممکن ہے ایک آدمی  اپنی کم علمی یا کسی اور وجہ  کی بنیاد پر تجزیہ کرنے میں غلطی کرجائے ، تجزیہ کرنے والے کو سب جانتے ہیں کہ یہ فلاں آدمی کا تجزیہ ہے۔ لیکن  رپورٹنگ اتنا حساس مسئلہ ہے کہ اس کی تلافی اور ازالہ تقریبا ناممکن ہے، خصوصا اگر رپورٹنگ کرنے والا اپنے تجزیے  اور اپنی سوجھ بوجھ کو خبر بنا کر پیش کرے تو یہ بہت ہی غلط قدم ہے۔ چونکہ ممکن ہے کہ رپورٹر جوبات سمجھ رہاہو وہ غلط سمجھ رہا ہو لہذا   اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی غلط سمجھ کو خبر کہے۔ خبر کی روح یہی ہے کہ خبرکو  شفاف طریقے سے جیسے کہ ہے اسے ویسے ہی بیان ہونا چاہیے اور رپورٹر اگر اس میں کوئی اضافہ کرنا چاہے تو  اسے الگ سے بتانا چاہیے کہ اس سے میں یہ سمجھا ہوں اوریہ میری رائے اورمیری زاتی سوچ ہے ۔

بدقسمتی سے  رپورٹنگ کی دنیا میں لغزشوں کی مثالیں پاکستان میں بکثرت ملتی ہیں۔پاکستان سے ایران و افغانستان   کی کشیدگی آج کل عروج پر ہے، یہ  کشیدگی کوئی آج کی بات نہیں،  یہ  بھی ہم جانتے ہی ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کا  ہمیشہ سے یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو ہندوستان کی ایجنسی را کی سازش قرار دے کر اپنا دامن صاف کر لیتے ہیں۔ اس موضوع پر میں نے   متعدد مرتبہ قلم اٹھایا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب کرنے میں ہماری نااہل حکومتوں کا بہت عمل دخل ہے۔

سچ بات تو یہ ہے کہ  ناہل حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی دشمن ایجنسی کی ضرورت ہی نہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے  مجھ جیسے ایک ناتجربہ کار شخص کو بھی یہ صاف دکھائی دے رہاتھا کہ افغانستان کے بعد اب  ایران سے بھی  پاکستان کے تعلقات بہت  تیزی کے ساتھ  خراب  ہو  رہے ہیں،    اس کا ایک ثبوت میرے پاس یہ تھا کہ  گزشتہ چند سالوں سے  ایران جانے والے پاکستانیوں کو کوئٹہ میں ہی  شیعہ کانفرنس نامی تنظیم کے کارندے خوب رسوا کرتے تھے۔ کوئٹہ میں موجود پولیس اور ایف سی بھی شیعہ کانفرنس کی  حمایت کرتی تھی، اب لوگ شکایت کریں تو کس سے کریں ،  لوٹتے  تو شیعہ کانفرنس والے تھے اور لوگوں کی جنگ ایف سی اور پولیس سے ہوتی تھی ، یہاں سے ہی فوج، ایف سی اور پولیس کے خلاف ایک خاص ذہنیت  بن جاتی تھی کہ  یہ ادارے تو ہمارے محافظ نہیں بلکہ ہمارے دشمن ہیں، اس کے بعد راستے میں ایف سی والے اور دیگر سرکاری اہلکار مسافروں اور بسوں والوں سے بھتہ لیتے تھے جس سے مزید منفی  تاثر پیدا ہوتا تھا، لے دے کر جب یہ مسافر تفتان  پہنچتے تھے تو سرکاری وردیوں میں ملبوس اہلکار باقاعدہ مبلغین کی طرح لوگوں کو ایران کے خلاف تبلیغ کرتے تھے کہ ایران کیوں جا رہے ہو ، ایران تو ہمارا دشمن ہے ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔اب یہ لوگ  یہ سب کچھ دیکھ کر جب ایران میں آکر  سب کو بتاتے تھے کہ پاکستان تو ایران کے شدید خلاف ہے، ایران آنے والے پاکستانیوں کو مسلسل ستایا جاتا ہے اور ایران کے خلاف لیکچرز دیے جاتے ہیں، اب اس سے یہ تاثر بھی جنم لیتا تھا کہ چونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات  بہت اچھے ہیں لہذا سعودی عرب یہ سب کچھ کروا رہا ہے۔

ظاہر ہے کہ جب پاکستانیوں کی زبانی یہ حالات ایران میں منتقل ہوتے تھے تو ایران میں مقیم پاکستانیوں کو یوں لگتا تھا کہ جیسے پورا پاکستان سعودی عرب کے قبضے میں چلا گیا ہے ، سونے پر سہاگہ  یہ کہ  اس دوران  کئی سالوں تک تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے عملے میں موجود ایک آدھ کالی بھیڑ نے لوگوں کو ایمبیسی سے مایوس کیا اور مایوس ہونے والوں میں سے اکثر نے یہی سمجھا کہ بھائی یہ سب سعودی ایجنڈا ہے اس لئے  پاکستان ایمبیسی   ہمارے کام انجام نہیں دے رہی۔

 آج کل بھی ایران میں اگر کسی پاکستانی کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو اس سے تہران ایمبیسی میں  شناختی کارڈ کی فیس وصول کرنے کے بعد  اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ وہ بے چارہ  مجبورا پاکستان سے ہی شناختی کارڈ بنواتا ہے،  اکثر لوگوں سے یہاں پر فیس کے نام پر رقم انیٹھ لی جاتی ہے لیکن انہیں یہاں سے شناختی کارڈ نہیں ملتا اور وہ پاکستان جاکر دوبارہ فیس جمع کرواتے ہیں اور شناختی کارڈ بنواتے ہیں، میں نے کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بھائی انہیں اوپر سے یوں ہی کہا جاتا ہے۔۔۔ یعنی سعودی عرب سے۔۔۔اس سے آپ اندازہ لگالیں کہ  ہمارے ہاں فائدہ تو چند کرپٹ لوگ اٹھاتے ہیں اور  غلط فہمیاں کسی اور کے بارے میں پیدا ہوتی ہیں۔

یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ پاک ایران بارڈر پر کئی مرتبہ ایرانی سرحدی گارڈز کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ہے اور تفتان میں زائرین کو بھی اپنی سفاکیت کا نشانہ بنا چکے ہیں،  گزشتہ ماہ پا کستان اور ایران کے سرحدی مقام میرجاوا میں دس ایرانی سرحدی محافظین کو پاکستانی علاقے سے دور مار بندوقوں کے ساتھ ’’جیش العدل‘‘ نامی گروہ نے  موت کے گھاٹ اتار دیا۔

 اس واقعے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے  پاکستان کا دورہ  کیا اور انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے سرحدی سکیورٹی بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ، علاوہ ازیں ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کے نام ایک پیغام میں کہا کہ بدقسمتی سے کچھ ممالک پراکسی وار کے ذریعے اسلامی ممالک کی یکجہتی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، انھیں ’’بھرتی کیے گئے دہشت گردوں‘‘ کے ہاتھوں سرحدی محافظوں کی ہلاکت پر افسوس ہے کہ جو حملے کرنے کیلئے پاکستان کی زمین استعمال کرتے ہیں۔

اس کے بعد  حالیہ دنوں میں ایرانی افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری  نے ایک بیان میں کہا  ہے کہ وہ پاک ایران سرحد پر اپنی جانب عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے بصورت دیگر تہران ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو خود نشانہ بنائے گا۔

پیر کو ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' کے مطابق مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ صورتحال کا اس طرح جاری رہنا قابل قبول نہیں ہے۔

انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستانی حکام سرحدوں پر قابو رکھیں گے اور دہشت گردوں کو گرفتار اور ان کے ٹھکانوں کو بند کریں گے۔ جنرل باقری کے بقول اگر دہشت گرد حملے جاری رہتے ہیں تو ایران عسکریت پسندوں کی آماجگاہوں کو جہاں کہیں بھی وہ ہوں گی نشانہ بنائے گا۔[1]

  یہ بیان میں نے ایران کے بدترین دشمن، امریکہ کی  معروف سائیٹ، وائس آف امریکہ سے من و عن  نقل کیا ہے۔ تاکہ قارئین  ایرانی جنرل کے اصل مدعا کو سمجھ سکیں۔

اس  بیان سےسے صاف پتہ چل رہا ہے کہ  ایرانی جنرل نے   پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کی بات کی ہے  اور یہ بات ممالک کے تعلقات میں بالکل نارمل سی بات ہے جیسا کہ پاکستان بھی کئی مرتبہ افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کر چکا ہے ، یاد رہے کہ  ہمسایہ ممالک ایک دوسرے سے تعاون کر کے دہشت گردوں کے خلاف اس طرح کے آپریشن انجام دیتے رہتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر روزنامہ ایکسپریس کا  یہ لنک  قارئین کے لئے پیش ہے:             https://www.express.pk/story/741738/

اب یہ حقیقت تو واضح ہے کہ   ایرانی جنرل کا روئے سخن تو  دہشت گردوں  کی طرف  تھا، اور انہوں نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ دہشت گردوں کے سرپرست اور حامی  ان کے بیان کو پاکستان پر حملہ کرنے کے بیان میں بدل دیں گے اور یوں رائے عامہ کو گمراہ کریں گے۔

خیر جو ہونا تھا وہ تو ہوا ،اس وقت یہ  ہمارے حکومتی اداروں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملکی معاملات پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لئے بغیر مصدقہ سورس کے خبریں لگانے ، خبروں کو بغیر کسی سورس کے  مختلف جگہوں سے کاپی پیسٹ کرکے پھر   اپنے  من پسند نظریات  کے مطابق خبریں گھڑنے ، درست خبروں کو غلط رنگ میں پیش کرنے  اور خبروں میں سچ اور جھوٹ ملاکر پیش کرنے والی سائٹوں اور رپورٹرز کے خلاف فوری ایکشن لے۔ اس عمل کو فوری طور پر انجام دیا جانا چاہیے اور جعلی خبریں بنانے والے لوگوں کے خلاف  بلا تفریق  جلد از جلد قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔

 بے شک ہماری   دیانت دار اور شفاف  صحافت ہی ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کی ضامن ہے۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کراچی) ہیت آئمہ مساجد وعلما امامیہ کی جانب سے نظریہ پاکستان و امام مہدیؑ سمینار کا انعقاد ہوا جس میں علما کی کثیر تعداد نے شرکت کی،سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ نظریہ پاکستان ارض پاک کی اساس اورظہور امام مہدی ؑ پر یقین ایمان کا حصہ ہے۔وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں اورایمان پر کسی وار کو برداشت کیا نہیں کیاجائے گا۔سمینار کے اختتام پر ہیت آئمہ مساجد و علما امامیہ اور مجلس وحدت مسلمین کے قائدین نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جس میں سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم علامہ راجہ ناصر عباس جعفری،علامہ شیخ حسن صلاح الدین،علامہ عباس کمیلی،علامہ مرزا یوسف حسین،علامہ نثار قلندری،علامہ احمد اقبال،علامہ نعیم الحسن،علامہ علی کرار نقوی،علامہ باقر زیدی اورعلامہ مختار امامی سمیت علما ء کرام کی بڑی تعداد موجود تھی۔

علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ دہشت گردوں نے ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے وطن کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔سکولوں کے معصوم بچے بھی ان کی بربریت سے محفوظ نہ رہ سکے۔وطن عزیز کی سلامتی کے دشمنوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت دہشت گردوں کے حوصلوں کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ان عناصر کو میڈیا میں لا کر بے گناہ قرار دینے کی کوشش شہدا کے خون سے غداری ہے۔ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔انہوں نے کہا ڈان لیکس کے معاملے میں قوم کو مطمئن نہیں کیا جا سکا۔ملکی و قومی مفادات کے خلاف سرگرم عناصر چاہے کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا ہی عدل کا تقاضہ ہے۔دہشت گردوں نے اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا لیکن حکمرانوں کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی ایسا واضح لائحہ عمل موجود نہیں جس سے بلاتحصیص تمام دہشت گردوں کا ملک سے صفایا کیا جا سکے۔

 انہوں نے کہا کہ شیعہ نوجوانوں کو سیاسی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔گھروں سے اٹھائے جانے والے ہمارے نوجوانوں کی کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی کوئی اطلاع نہیں۔بغیر کسی مقدمے کے اسی طرح شہریوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے اٹھایا جانا بنیادی انسانی حقوق کی صریحاََ خلاف ورزی اور ناقابل برداشت عمل ہے۔ہمارے لاپتہ افراد کو فوراََ بازیاب کرایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ شہر کی بدترین حالت دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکمرانوں کے شہریوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ان کی تمام تر توجہ اپنے اقتدار کو سلامت رکھنے پر مرکوز ہے۔انہوں نے کہا کہ 41ملکی اتحادامریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے وجود میں آیا۔اس اتحاد میں جنرل(ر)راحیل شریف کی شمولیت نواز شریف اور عرب بادشاہوں کے اصرار کا نتیجہ ہے۔پاک فوج پوری قوم کے لیے وقار کی علامت ہے۔عسکری قوتوں کو فیصلے کرتے وقت وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے ان کی عظمت میں مزید اضافہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ 21مئی کو نشتر پارک میں استحکام پاکستان و امام مہدیؑ کانفرنس ایک تاریخی اجتماع ثابت ہو گی۔نشتر پارک میں قومی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا جائے گا۔بزرگ عالم دین حسن صلاح الدین نے کہا کہ پاکستانی عوام کو مشرق وسطی کی جنگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔عالمی قوتیں مسلک کے نام پر امت مسلمہ کو دست و گریبان دیکھنے کی متمنی ہیں۔اسلام دشمنوں کوصرف وحدت و اخوت کے ہتھیار ہی سے شکست دی جا سکتی ہے۔امام مہدی ؑ کی شخصیت پر عالم اسلام کا کامل ایمان ہے۔ان کی ذات کو متنازعہ بنانے والے احادیث نبوی سے انکاری اور توہین رسالت کے مرتکب ہیں۔سعودی وزیر دفاع کی امام مہدی علیہ السلام کی ذات مقدسہ کے حوالے سے ہرزہ سرائی قابل مذمت ہے۔

سینٹر عباس کمیلی نے کہا کہ 41ملکی اتحاد فرقہ وارنہ اتحاد ہے۔جب تک امت مسلمہ کے تمام ممالک اس میں شریک نہیں ہوتے تب تک اس اتحاد کو اسلامی اتحاد نہیں کہا جا سکتا۔جنرل راحیل شریف سے قوم کو بہت ساری توقعات وابستہ تھیں۔اسلامی مفادات کے تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف قائم اس اتحاد میں بیت المقدس اور مظلوم فلسطینوں کے حق میں آواز کیوں بلند نہیں کی جا رہی۔پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد مثالی ہے۔انہیں کبھی جدا جدا نہیں کیا جا سکتا۔شیعہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ علامہ مرزا یوسف حسین نے کہا کہ 41ملکی اتحاد اسلام کی سربلندی کے لیے نہیں بلکہ امریکی خوشنودی کے لیے ہیں۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) مقدمہ:ہر زمانے میں امام معصوم کی امامت پر عقلی دلیل موجود ہے۔ اس دلیل کے مطابق حجت الہیٰ  کا لوگوں کے درمیان موجود ہونا ضروری ہے جس کا مصداق تام امام معصوم ہیں۔قاعدہ لطف{کلامی وعقلی قاعدہ} کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ امام معصوم کی غیبت ایک امر عارضی ہے جو اصل اولی{ضرورت وجودامام معصوم} کے ساتھ منافات نہیں رکھتا۔ محقق طوسی اس بارے میں لکھتےہیں :{وجودہ لطف،وتصرفہ لطف آخروعدمہ منا}1۔ امام کا وجودبھی لطف{اطاعت و مصالح سےنزدیک اور معاصی و مفاسد سے دور کرنےوالا }ہے اور امام کا تصرف ایک الگ لطف ہے اور ان کا ظاہرنہ ہونا ہماری وجہ سےہے ۔

حضرت علی علیہ السلام کے فرامین کے مطابق زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی جیساکہ آپ ؑفرماتے ہیں :{اللہم بلی! لا تخلوا الارض من قائم الله بحجتہ،اما ظاہرا مشہورا و اما خائفا مغمورا،لئلاتبطل حجج الله و بیناتہ}2۔  خدایا !بے شک زمین حجت الہیٰ اور قیام کرنے والے سے خالی نہیں ہو سکتی چاہے وہ ظاہر و آشکار ہو یا خائف و مخفی تاکہ خدا کی حجتیں اور براہین تمام نہ ہونے پائیں۔

بعض احادیث جیسے حدیث ثقلین اور حدیث ائمہ اثنا عشر قیامت تک  امام معصوم کی موجودگی پر دلالت کرتی ہیں ۔
تاریخی شواہد سے بھی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آپ{عج}کی ولادت معین زمانے میں مخصوص مقام  پر ہوئی ہےکیونکہ افراد کی ولادت اور موت کے بارے میں جاننے کا متعارف طریقہ یہی تاریخی شواہد ہیں جن پر استناد کیا جاتا ہے۔

ان افراد کے نقل کے مطابق جنہوں نے اما م حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کے  زمانےمیں آپ ؑکے گھر  میں امام زمان{عج}سے ملاقات کئے اور وہ افراد جنہوں نےغیبت صغری کے زمانے میں آپ{عج}سے ملاقات کا شرف حاصل کیا جن میں نواب اربعہ سر فہرست ہیں ۔نواب اربعہ شیعوں کے برجستہ ترین شخصیات میں سے تھے جواپنے زمانے میں پرہیزگاری  کے لحاظ سے بے نظیر تھے۔

ان افراد کے نقل کے مطابق جنہوں نے غیبت کبری کےعرصے میں آپ{عج}سےملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ یہ گزارشات  اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے جعلی ہونے کا احتمال منتفی ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی صحت کے بارے میں انسان کو  یقین ہو جاتا ہے۔

انبیاء کی تاریخ میں مسئلہ غیبت ایک واضح مسئلہ تھا۔بعض اولیاء کا محدود مدت کے لئے لوگوں کے درمیان سے غائب ہونا گذشتہ امتوں میں بھی معمول رہا ہے چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام ،حضرت موسی علیہ السلام اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگانی میں اس کے نمونے دیکھ سکتے ہیں : حضرت یونس علیہ السلام ایک مدت تک اپنی امت سے غائب رہے ۔

3۔ حضرت موسی علیہ السلام چالیس دن تک اپنی امت سےغائب رہےاور انہوں نے یہ ایام میقات میں بسر کئے ۔4۔  اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی  مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے وقت چند مدت تک اپنی امت کےپاس نہیں رہے  ۔  5۔ ان میں سے کسی  بھی مورد میں ان افراد کی نبوت اور رسالت پر اعتراض نہیں کیا گیا ہے ۔واضح ہے کہ اگر غیبت مقام نبوت اورمقام امامت  کے ساتھ منافات رکھتی تو زمان کےمختصر اور طولانی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بنابریں امام زمانہ{عج} کی غیبت کے  طولانی  ہونےکو آپ {عج} کی امامت کے ساتھ ناسازگا ر نہیں سمجھنا چاہیے ۔

امام زمانہ{عج} کی غیبت کے اسباب کے بارے میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں کچھ مطالب بیان ہوئے ہیں ذیل میں ہم  ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

1۔راز الہی:
بعض روایات میں اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ امام زمانہ{عج}کی غیبت کا فلسفہ آپ {عج} کے ظہور سے پہلے پوری طرح واضح نہیں ہوگا جبکہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان آپ {عج} کے وجود کے بارے میں موجود دلائل سے آشنا ہونے کےبعد اسے تسلیم کرے اور آپ {عج} کی غیبت کے اسرار کومکمل طورپردرک نہ کرنے کی وجہ سے شک و تردید کا شکار نہ ہو ۔ شیخ صدوق عبد اللہ بن فضل  ہاشمی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سےسنا :صاحب الامرکے لئے یقینا ایک غیبت ہوگی جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس دوران ہر اہل باطل شک و شبہ میں مبتلا ہو جائے گا۔میں نے عرض کی :میری جان آپ پر قربان !ایسا کیوں ہے ؟ فرمایا:وہی حکمت ہے جو ان سے پہلے خدا کی حجتوں کے غائب ہونے کی تھی ۔ یقینا غیبت کی حکمت اسی وقت ظاہر ہوگی جب ان کا ظہور ہو جائےگا بالکل اسی طرح جیسے حضرت خضرعلیہ السلام کے امور یعنی کشتی میں سوراخ کرنے ،لڑکے کو جان سے مار دینے اور دیوار بنانے کا راز حضرت موسیعلیہ السلام کو  اس وقت معلوم ہو ا جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہونے لگے ۔ اے فرزندِ فضل یہ غیبت خداکے امور میں سے ایک امر ہے ،اسرار الہیٰ  میں سے ایک سر ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ خداوند  عالم حکیم ہے اور ہم نے یہ گواہی دی ہے کہ اس کا ہرقول وفعل حکمت کے مطابق ہے چاہے اس کا راز ہم پرپوشیدہ ہی کیوں نہ ہو۔6۔

2۔قتل کا خوف:
بہت ساری احادیث  کے مطابق امام زمانہ{عج}کی غیبت کا ایک سبب قتل ہونے کا خوف ہے ۔ 7۔ جیساکہ جناب زرارہ امام باقرعلیہ السلام سے نقل کرتےہیں کہ آپؑ نے فرمایا:قائم آل محمد کے لئے قیام کرنے سے پہلے ایک غیبت ہے ۔میں نے عرض کیا کس لئے؟ فرمایا:{یخاف القتل} 8۔اس لئےکہ ان کی جان کے لئےخطرہ ہے ۔ قتل سے ڈرنے کا دو ہی سبب ہو سکتاہے  ۔ ایک یہ کہ انسان دنیوی لذتوں سے زیادہ استفادہ کرنا چاہتا ہے دوسرایہ کہ اس کےاوپر سنگین ذمہ داریاں عائد ہیں جن کو انجام دینے کے لئے اسے اپنی جان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ان میں سے پہلی قسم مذموم جبکہ دوسری قسم ممدوح ہے بلکہ بعض اوقات  واجب بھی ہے۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جان کی حفاظت کی خاطر غارحرا میں پناہ لیا ۔امام زمان عج کے بارے میں بھی قتل ہونے کا خوف اسی طرح  ہے۔ عقلی و نقلی دلائل کےمطابق آپ {عج} زمین پر آخری حجت الہیٰ  ہیں ۔ آپ{عج} پرچم توحید کو پوری دنیا میں لہرانے اور دین اسلام کو پوری دنیا پر حاکم کرنے پر مامور ہیں۔علاوہ ازیں ظالم و جابر حکمران اپنے ناجائز منافع کی حصول کے راستے میں آپ{عج}کے وجود کو مانع سمجھتے ہیں ۔طبیعی بات ہے کہ یہ افراد آپ {عج} کو قتل کرنےکے لئے ہر طرح  کا منصوبہ اور حربہ استعمال کریں گے۔   اس صورتحال میں آپ{عج} کی حفاظت کا بہترین طریقہ آپ{عج}کی غیبت ہے ۔

 یہاں ممکن ہےکوئی اس طرح  اعتراض کرے کہ خداوند متعال معجزے  کےذریعے آپ {عج} کی حفاظت کرسکتاہے مثلا اس طر ح کہ کسی اسلحہ یا زہر کا اثر آپ {عج} کے بدن پر نہ ہو۔جس کے نتیجے میں آپ {عج}  ظاہر بھی  ہوتے اور لوگ آپ {عج} کے وجود سےزیادہ استفادہ کرتے کیونکہ اس صورت میں آپ {عج}کے وجود کو کسی قسم کا بھی خطرہ نہیں تھا ۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کسی فرد کی جان کی حفاظت  کےلئےمعجزے سے استفادہ کرنا ایک استثنائی بات ہے جس سے صرف خاص موارد میں استفادہ کیا جاتاہے جبکہ اولیاءاور حجت الہیٰ  کےبارے میں مشیت الہیٰ  یہ ہے کہ یہ افراد لوگوں کے درمیان طبیعی زندگی گزاریں اور طبیعت پرمبنی قوانین ان کے درمیان یکساں جاری ہو ، تاکہ قانون امتحان و آزمائش الہیٰ  محقق ہو ۔واضح ہےکہ اگر امام خاص شرائط کے ساتھ زندگی گزاریں تو سب لوگ اجباری اور غیرعادی طریقے سےان پر ایمان لائیں گے ۔ علاوہ ازیں ممکن ہے انہیں مافوق بشر قرار دیتےہوئے ان کی پرستش شروع کردیں۔ یہ سب معجزہ کے ذریعے امام کی حفاظت کرنے اور آپ {عج}کے لوگوں کے درمیان رہنے کے  نامطلوب نتائج میں سے ہیں ۔

شیخ طوسی اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں :اگر کوئی اعتراض کرے کہ خدا نے امام اور اس کے قاتل کے درمیان مانع ایجاد کر کے آپ {عج} کی حفاظت کیوں نہیں کی ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کام انسانوں کو مکلف کرنے کے فلسفے کے ساتھ ناسازگار ہے کیونکہ انسانوں کو مکلف کرنے کا مقصد ان کوجزا وسزا کامستحق بنانا ہے جبکہ ایسی صورت میں مانع ایجاد کرنا  اس مقصد کے ساتھ منافات رکھتاہے ۔ 9۔
امام زمانہ{عج}اور ان کے آباء و اجداد کے درمیان کیا  فرق ہے کہ وہ غیبت میں نہیں رہیں بلکہ لوگوں کے پاس ظاہر تھے جبکہ آپ {عج} غائب ہیں اور آپ تک لوگوں کی رسائی بھی نہیں ؟
اس کاپہلا جواب یہ ہے :آپ {عج}کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ{عج}اگر ظاہر ہوں تو ظالم و جابر افراد کے مقابلے میں تقیہ نہیں کریں  گے جبکہ اس صورت میں آپ{عج}کے قتل کا خطرہ زیادہ ہے ۔دوسراجواب یہ ہے کہ ہر امام کی شہادت کے بعددوسرے امام نے اس عظیم ذمہ داری کو قبول فرمائی اور انسانوں کی رہبری کی لیکن آپ {عج} آخری امام ہیں اور اگر شہید ہو گئے تو کوئی ایسا فرد نہیں ہےجو اس عظیم ذمہ داری کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔ 10۔

3۔ مومنین کا امتحان:
خداوند متعال کی ایک سنت جو ہمیشہ سے مومنین کے بارے میں جاری رہی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں مختلف طریقوں سے آزمایا جاتا ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے :{ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُترْکُواْ أَن يَقُولُواْ ءَامَنَّا وَہُم ْ لَا يُفْتَنُونَ.وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِہِمْ  فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّہُ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَ لَيَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِين}11۔ کیالوگوں نےیہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنےسےچھوڑدیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟ اور بتحقیق  ہم نے ان سے پہلے والوں کوبھی آزما چکےہیں کیونکہ اللہ کوبہر حال یہ واضح کرناہے کہ کون  سچے ہیں اور یہ بھی ضرورواضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔

امام زمان {عج}کی غیبت کے اسباب میں سے ایک سبب مومنین کا امتحان اور ان کی آزمائش ہے جو متعدد احادیث میں بیان ہوئی ہے ۔

 12۔ کتاب منتخب الاثر میں اس بارے میں چوبیس احادیث نقل ہوئی ہیں۔ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ امام جعفر صادق  علیہ السلام کے اصحاب امام زمانہ{عج} کے ظہور اور حکومت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔امام صادقعلیہ السلامنے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: یہ امر{ظہور}تمہارےسامنے نہیں آئے گا  مگر ناامیدی کے بعد ۔ خدا کی قسم! یہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگا جب تک تم{مومن اور منافق}ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں۔خدا کی قسم! یہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگا جب تک اہل شقاوت و اہل سعادت  ایک دوسرے سےجدا نہ ہو جائیں ۔

 13۔شیخ طوسی  اس بارے میں لکھتے ہیں:جن روایات میں امام زمانہ{عج}کی غیبت کے اسباب میں سے ایک سبب شیعوں کا امتحان اور ان کی آزمائش قرار دی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ مسئلہ امام کی غیبت پر مترتب ہونےوالےنتائج میں سے ایک ہے اور ایسا نہیں ہے کہ امتحان و آزمائش امام {عج} کی غیبت کا اصلی مقصد ہے بلکہ امام {عج}کی غیبت کا اصلی سبب آپ{عج} کے قتل ہونے کا خوف ہے جبکہ آزمائش و امتحان غیبت کے نتائج اوراہداف میں سے ہیں۔

 14۔ امام زمانہ{عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں دو احتمال قابل بحث ہیں ۔پہلا احتمال یہ کہ حقیقت میں آپ {عج} کا وجود لوگوں سے پنہاں ہے۔دوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ {عج} ایسے جگے پر زندگی کر رہے ہیں جہاں دوسراکوئی انسان موجود نہیں ہے یا یہ کہ آپ {عج} لوگوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن معجزانہ طور پر لوگ آپ {عج} کو نہیں دیکھتے یا آپ کو نہیں پہچانتے ۔آپ {عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں نقل شدہ احادیث دونوں احتمال کے ساتھ سازگار ہیں ۔ جیساکہ شیخ صدوق ریان بن صلت سےنقل کرتے ہیں کہ امام رضاعلیہ السلام نے امام زمانہ{عج} کے بارے میں فرمایا :{لایری جسمہ ولا یسمی باسمہ}15۔نہ ان کے جسم کو دیکھا جا سکتاہے اور نہ ان کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ عبید بن زرارۃ سے ایک  حدیث منقول ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ ؑفرمارہے تھے:لوگ اپنے امام کو نہیں پائیں گے جبکہ وہ حج کے موسم میں حاضر ہوتے ہیں اور لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ انہیں نہیں دیکھتے ۔16۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سےایک اور حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپ ؑفرماتے ہیں :ساتویں امام کے پانچویں فرزند کا وجود تم لوگوں سے پنہان ہو گا اور ان کانام لینا تمہارے لئے جائز نہیں ہے ۔17۔   اس احتمال پر عقیدہ رکھنےوالوں کا نظریہ یہ ہے کہ جہاں  پر مصلحت موجود ہو وہاں امام {عج} کے وجود کو پہچانا جائے گا۔بنابریں  جن افراد نے آپ {عج} کے حضور میں شرفیاب ہونے کا  دعوی کیا ہے وہ بھی اس احتمال  کے ساتھ سازگار ہےجبکہ دوسرے احتمال کےساتھ مربوط بعض روایات کچھ اس    طرح  ہیں :

1۔ شیخ طوسی  محمد بن عثمان عمری { امام زمان{عج}کےدوسرے نائب خاص }سے نقل کرتے ہیں :{و الله ان صاحب هذا الامر لیحضر الموسم کل سنۃ و یعرفہم و یرونہ و لا یعرفونہ} 18۔ خدا کی قسم! امام زمانہ{عج} ہر سال حج کے موسم میں حاضر ہو کر لوگوں کو دیکھتے ہیں اور پہچانتے ہیں اور دوسرے افراد بھی آپ {عج} کو دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ہیں ۔

2۔محمد بن عثمان عمری سے نقل ہے کہ آپ{عج} کا نام لینا اس لئے جائز نہیں کیونکہ اگر آپ{عج} کا نام لیا جائے تو دشمن آسانی سے آپ
{عج} کو پہچان لیں گے ۔19۔  واضح ہے کہ اگر آپ {عج}لوگوں کی نظروں سے سے غائب ہوں توپھر آپ {عج}کا نام لینا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ اس  کے ذریعے دشمن  آپ {عج} کو  نہیں پہچان سکتے ۔

3۔ابوسہل نوبختی سے جب سوال کیاگیا کہ آپ  امام زمانہ{عج}کےنائب کیوںمنتخب نہیں ہوئے جبکہ ابوالقاسم حسین بن روح نوبختی کو اس منصب کےلئے انتخاب کیاگیا ہے ؟ تو انہوں نےجواب دیا :امام اپنے کاموں کی حکمت سےزیادہ واقف ہیں ۔ میں ہمیشہ دشمنوں سےملاقات کرتاہوں اور ان کے ساتھ بحث و مناظرہ کرتا ہوں اوراگر بحث کے دوران کبھی مجھے مشکل کا سامناکرنا پڑے تو ممکن ہے کہ  میں امام {عج} کے قیام کرنے کی جگہ دشمنوں کو دکھا دوں لیکن ابوالقاسم نوبختی ایمان اور استقامت کا پیکر ہے اگر امام زمانہ{عج} اس کے پاس موجود ہو اور اس کے بدن کے ٹکڑےٹکڑے کر دئیے جائیں تب بھی وہ امام {عج}کی مخفی گاہ کودشمنوں کو نہیں دکھائیں گے۔ 20۔ واضح ہے کہ امام کی مخفی گاہ دشمنوں کو دکھانا اس وقت خطرناک ہوگا جب لوگ آپ {عج}کے وجود مبارک کو دیکھ سکیں ۔

خلاصہ یہ کہ امام زمانہ{عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں دونوں احتمالات قابل قبول ہیں اور یہ احتمالات ایک دوسرے کے ساتھ منافات بھی نہیں رکھتے اوریہ مطلب کہ لوگ آپ {عج}کو دیکھیں گے لیکن نہیں پہچانیں گےیا یہ کہ اصلاًکوئی آپ {عج}کو نہیں دیکھ سکتا،یہ تمام مطالب شرائط ،مصالح اور افراد کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس بارے میں ایک عام قانون بیان نہیں کر سکتےکیونکہ امام زمانہ{عج } مصلحت  کے مطابق ہی عمل کریں گے ۔


تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree