The Latest
وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر شعبہ سیاسیات کے زیر اہتمام یکجہتی کشمیر سیمینارکا انعقاد کیا گیا،سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے یکجہتی کشمیر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سیاست کا یہ کلچر رہا ہے کہ اگر کوئی کام نہیں کرنا ہوتا تو اس کے لیئے کمیٹی بنا دی جاتی ہے، اور اس کمیٹی کا سربراہ ایسے فرد کو لگا دیا جاتا ہے جو متعلقہ امر کا بال برابر بھی علم نہ رکھتا ہو، کشمیر کمیٹی کا چئیرمین کشمیری کو بنایا جائے جو کشمیری جغرافیائی حالات سے واقف ہو ، آلو پیاز کی تجارت ضرور ہو ، مگر اس سے آگے بڑھ کر کشمیر کاز پر توجہ دی جائے، انہوں نے کہا کہ شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ، اور سلام پیش کرتے ہیں اُن ماؤں کو کہ جن کے بچے اُن ہی سے تربیت پا کر راہ شہادت اپناتے ہیں ، باضمیر کا ڈٹنا حسینی ہونے کا پتا دیتا ہے ، جو کٹ تو سکتا ہے مگر اپنے مشن و مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا ، کشمیر میں الیکشن ہو جانا حل نہیں ، پائیدار حل استصواب رائے ہے ، مجلس وحدت مسلمین دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو اسکی مذمت و مخالفت میں علم بلند کیئے ہوئے ہے، مسئلہ کشمیر تو گھر کا مسئلہ کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے،دیگر ایشوز کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات از حد ضروری ہیں ، اور مذاکرات میں مسئلے کے اصل فریق آر پار کی کشمیری قیادت کو شامل کیا جانا بھی ضروری، انہوں نے کہا کہ ولایت فقیہ کا پرچم جو کربلا سے لے کر چلے تھے تھام کر کشمیری مظلوم و محکوم عوام کے لیئے آواز بلند کرتے رہیں گے، اوبامہ کی انڈیا آمد کسی طور پر بھی خطرے سے خالی نہیں ، امریکہ جو سلامتی کا ضامن بنا بیٹھا ہے کیا اقوام متحدہ کی قراردادیں نظر نہیں آتیں ؟ ہم کشمیری عوام سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں ، اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنی کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے سہ فریقی بامقصد مذاکرات کے ذریعے سے مسئلے کے پائیدار حل کی طرف بڑھے ، یہی پاکستان ، ہندوستان اور خطہ کے مفاد میں ہے۔
سابق چئیرمین کشمیر کلچرل اکیڈمی علامہ جواد جعفری نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیئے تشریف لائے ہم انہیں ویلکم کرتے ہیں، مگر اب آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی ضرورت ہے، مسئلہ کشمیر انتہائی اہم ایشوہے، اسے اجاگر کرنے کے لیئے عربی ، اردو، انگلش سمیت دنیا کی تمام زبانوں میں کام کرنا ہو گا، یورپین و بیرون ممالک کشمیر کاز کے لیئے جانے والے وفود صرف سیر سپاٹے کرتے ہیں ، وفود مین جانے والوں کو مسئلہ کشمیر یہاں تک کہ کشمیری اضلاع ، گاؤں،دیہات اور شہر تک کا پتا نہیں ہوتاکہ وہ کہاں ہیں؟ وفود میں کشمیری ماہرین و قیادت کو شامل کیا جائے ، ہماری قیادت صرف اور صرف کشمیری کر سکتے ہیں، کسی کو نوازنے یا جھنڈی دینے کی خاطر کشمیری قوم کا نمائندہ مقرر کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ صرف اس لیئے کشمیریوں کا نمائندہ مقرر کر دیا گیا کہ وہ مراعات لیتا رہے اور ہمارے خلاف نہ بولے، کشمیر کاز زندہ رکھنے کا کریڈٹ صرف انہیں جاتا ہے جواس راہ میں قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں، کشمیری تاریخ لازوال قربانیوں کی داستان سے بھری پڑی ہے، حکمران ہر گز اس قابل نہ تھے کہ مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھ سکیں ، ہم نے مملکت خداداد پاکستان کو اسلامی مملک کی تشکیل کے لیئے بنایا، بجائے اس کے کہ تشکیل کو تکمیل کی طرف لے کرجا سکیں ، لسانی ،علاقائی اور مسلکی بنیادوں پر جھگڑے شروع کر دیئے ۔ ہمیں تمام تر تعصبات سے بالا ہو کر ایک ملت بنکر پاکستان کو مضبوط بنانا ہو گا، ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہو گا، محبت کو فروغ اور نفرت کو مٹانا ہو گا ، تب جا کر کشمیر ایشو جیسے اہم مسائل کے لیئے باہم متحد ہو کر جدوجہد کر سکتے ہیں ۔
سیمینار سے سیکرٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر سید تصور عباس موسوی،نمائندہ مہاجرین مقبوضہ کشمیر سید محمد حسین نقوی، ناظم امامیہ آرگنائزیشن سید اشتیاق حسین سبزواری، ڈپٹی جنرل سیکرٹری شیعہ علماء کونسل حافظ کفایت حسین نقوی، سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم مظفرآباد مولانا طالب ہمدانی،سیکرٹری روابط ایم ڈبلیو ایم آزاد کشمیر مولانا سید حمید حسین نقوی،سیکرٹری یوتھ ایم ڈبلیو ایم مظفرآبادسید شاہد کاظمی، نمائندہ آئی ایس او سید تجمل کاظمی، سید علمدار مہدی نقوی، محمد ابرار قادری و دیگرنے خطاب کیا۔
وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) انقلاب اسلامی کا سورج ایک ایسے وقت میں طلوع ہوا جب دنیا ظلم و جور کے سیاہ و تاریک اندھیروں کی لپیٹ میں تھی۔ جب بشریت کفر و شرک کے بھیڑیوں کے خونی پنجوں میں جکڑی ہوئی تھی اور انسانی ضمیر کے سوداگر انسانوں کے ساتھ غیرت، شعور اور بصیرت کا جہالت اور ضلالت کے ساتھ سودا کر رہے تھے۔ دنیا کے ہر کونے سے ظلم و ستم کے خلاف اٹھنے والی آواز کو طاقت کے زور پر دبا دیا جاتا تھا۔ دین کو فرد کی بدبختی اور ناکامی میں دخیل اور معاشرے کا افیون قرار دے کر دین داروں پر روزگار حیات تنگ کیا جا رہا تھا اور دین سے بڑھ کے کوئی بے مایہ چیز نہیں تھی۔
ایسے میں ایک مرد الٰہی آفاق عالم سے خدا کا ودیعہ بن کر نمودار ہوا، جس نے دنیا کے مستکبروں کو للکارا اور اس کے رعب و دبدبے سے مستکبروں اور طاغوتوں کی انحرافی آوازیں ان کے گلے میں دب کر رہ گئیں۔ جس نے سنت خلیل پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی زوردار ضرب سے شرقیت اور غربیت کے تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔ لیکن ایک فرق کے ساتھ، اور وہ یہ کہ کل کے ابراھیم نے "لعلھم یرجعون" کی مصلحت کے تحت "بت کبیر" کو چھوڑ دیا تھا لیکن عصر حاضر کے اس خلیل نے بلا کی بصیرت اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیاں بڑے بت کو توڑنے پر صرف کیں اور ایک ایسے وقت میں اسکے خلاف آواز بلند کی جب شرق و غرب کے تمام لوگ خواستہ یا نخواستہ اسکے سامنے سجدہ ریز تھے۔ اس نے پوری قاطعیت کے ساتھ اس کے خبیث چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔
اس مرد الٰہی نے اپنے فولادین ارادوں کے ساتھ اس کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور اسے شیطان اکبر کا نام دیتے ہوئے اسے اس کی ابدی موت کو حقیقت سے پیوند دینے کیلئے "مرگ بر امریکہ" کا وہ عالمی نعرہ بلند کیا جو آج بھی زبان زد خاص و عام ہے، جو لسانی اور لفظی شکل سے آگے بڑھ کر عملی صورت اختیار کرچکا ہے۔ آج مشرق و مغرب سے "مردہ باد امریکہ" یا "DOWN WITH USA" کے نعرے بلند ہو رہے ہیں اور امام خمینی (رہ) کا وہ تاریخی جملہ کہ "ما امریکہ را زیر پا می گزاریم" (ہم امریکہ کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں گے) تخیل و وہم کی دنیا سے نکل کر واقعیت کا روپ اختیار کر رہا ہے۔ جس کو اس وقت بہت سوں نے فقط جذباتی جملہ کہہ کر نظر انداز کر دیا اور ناممکن اور محال سمجھ کر ٹھکرا دیا تھا، آج اسکی صداقت پر شاہ ایران سے لے کر تیونس، یمن اور دوسرے بعض ممالک کے اندر امریکی نمک خواروں کا تخت سے تختہ دار سے نزدیک ہونے تک کے سارے واقعات گواہی دے رہے ہیں۔
دراصل عصر حاضر میں ایک تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے لیکن یاد رہے کہ یہ توپ و تلوار کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ فکر و عقیدہ اور بقول امام خامنہ ای کے "ارادوں کی جنگ" ہے اور جو دو ارادے نبرد آزما ہیں ایک "یریدون لیطفئوا نوراللہ بافواھھم" کی صورت میں اور دوسرا "لیظھرہ علی الدین کله" کی صورت میں ہے اور اس صدی میں اس عظیم انقلاب کا ظھور کرنا یہ اللہ کے اس حتمی ارادے کا پیش خیمہ ہے۔ آج انقلاب اسلامی کی برکت سے دنیا میں دو نئے بلاک بن رہے ہیں۔ ایک مستضعفین کا ہے اور دوسرا مستکبرین کا۔ ایک طرف دنیا کے تمام نہتے مظلوم چاہے وہ جس مذہب و ملت سے ہوں شامل ہیں اور دوسری طرف دنیا کے تمام ڈکٹیٹرز اور ظالم و جابر حکمران ہیں۔ ان میں سے ایک کا اسلحہ علم و آگاہی ہے اور دوسرے کا اسلحہ مکر و فریب و دھوکہ ہے۔ ایک اپنی ظاہری طاقت پر نازاں ہے اور دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا واحد ہتھیار وعدہ الٰہی پر حسن ظن ہے اور خدا کا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوسکتا "ان تنصرواللہ ینصرکم۔"
آج کے اس حساس دور میں امام خمینی اور امام خامنہ ای جیسی شخصیات کا موجود ہونا اور اس عظیم انقلاب کا کامیاب ہونا اللہ کے اسی ناقابل خلف وعدے کے تحقق کی دلیل ہے اور آج ہم شاہد ہیں کہ عصر حاضر کے فرعون یکے بعد دیگرے امتوں کے امڈتے ہوئے "دریائے نیل" میں غرق ہو رہے ہیں اور یہ انقلاب نائب برحق امام زمان (عج) کی قیادت میں تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل کی طرف بڑھ رہا ہے، جب خدا کا آخری وعدہ ضرور وقوع پذیر ہوگا اور دنیا بھر کے مسلموں اور بے کسوں کے دلوں کی آخری امید ذوالفقار حیدری کے ساتھ زمین خدا سے کفر و شرک کی کانٹے دار جھاڑیوں کو اکھاڑ پھینکے گی اور اس کی جگہ اس زرخیز مٹی پر ایمان و اسلام کی فصل لہرانے لگے گی، عقل انسانی کے شگوفے کھل کر پھول بنیں گے، ہر طرف بہار ہی بہار کا عالم ہوگا۔
بقیۃ اللہ خیر لکم ان کنتم تعلمون
تحریر: سید طاہر حسین نقوی
وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے آج صبح ایئرفورس کے ہزاروں افسران اور اہلکاروں کے عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے گذشتہ 36 برس کے دوران ایران کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کی وجوہات اور اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امریکہ ایران کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے میں شدید غلط فہمی کا شکار ہے، اسے جان لینا چاہئے کہ ایران ہرگز اس کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرے گا اور اپنی خود مختارانہ اور عزت مندانہ پالیسیوں کو جاری رکھے گا۔ انکا کہنا تھا: "ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دنیا کی مختلف اقوام نے جب ایرانی قوم کی دلیری اور شجاعت کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ ایران کس طرح امریکہ کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہوا ہے تو وہ اسلامی انقلاب کی عاشق ہوگئیں اور دل سے ہماری حامی ہوگئیں، جبکہ دوسری طرف عالمی استکباری قوتوں خاص طور پر امریکہ نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے پہلے دن سے ہی اس عظیم انقلاب کو ختم کرنے کی ٹھان لی اور اس مقصد کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہ کیا۔ ان کی دشمنی آج تک جاری ہے۔"
امام خامنہ ای نے کہا کہ امریکہ اور عالمی استکباری قوتوں کی دشمنی کسی خاص شخص یا اشخاص سے نہیں بلکہ وہ ملت ایران کی انقلابی تحریک، ان کی خود مختاری اور عزت مندانہ قیام کی دشمن ہیں اور اس حقیقت کا وہ خود بھی اعلانیہ طور پر اعتراف کرتے ہیں۔ استکبار جہانی ایرانی قوم کی استقامت اور پائیداری کی وجہ سے شدید غصے میں ہیں۔ ان کا اصلی مقصد ملت ایران کی تحقیر کرتے ہوئے اسے اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شدید غلط فہمی اور حساب کتاب میں غلطی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اسی غلط فہمی کی ایک مثال چند روز پہلے منظر عام پر آنے والا امریکی عہدیدار کا ایک بیان تھا، جس میں اس نے یہ کہا کہ ایرانی جوہری مذاکرات میں بے بس ہوچکے ہیں اور ہمارے جال میں پھنس گئے ہیں۔ امام خامنہ ای نے کہا کہ کچھ دن بعد 11 فروری (انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کی سالگرہ) کے موقع پر تم لوگ اچھی طرح دیکھ لو گے کہ ایرانی قوم بے بس نہیں۔
ولی امر مسلمین جہان نے کہا کہ ایرانی قوم اور مسئولین کبھی بھی بے بسی کا شکار نہیں ہوئے اور انہوں نے اس حقیقت کو اپنے عمل کے ذریعے بھی ثابت کیا ہے اور مستقبل میں بھی اپنی خلاقیت اور شجاعت کے ذریعے اس کا ثبوت پیش کرتے رہیں گے۔ امام خامنہ ای نے کہا وہ جو اس وقت انتہائی بے بس اور ناچار ہوچکا ہے امریکہ ہے، دنیا اور خطے کے موجودہ حالات اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے شام، عراق، لیبیا، فلسطین، غزہ، افغانستان، پاکستان اور یوکرائن میں امریکی ناکامیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "یہ تم لوگ ہو جو گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل ناکامیوں اور شکست کا شکار ہو رہے ہو، جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ایران کی آج کی صورتحال کا 36 سال پہلے کی نسبت موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔"
ولی امر مسلمین جہان نے علم و ٹیکنالوجی، مختلف سماجی مسائل، بین الاقوامی اور خطے کی سطح پر حاصل ہونے والی عظیم کامیابیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اسلامی جمہوریہ ایران گذشتہ تجربات کے قیمتی ذخیرے کے ذریعے انتہائی طاقت کے ساتھ ترقی کے راستے پر گامزن ہے اور چونکہ امریکی حکام ایران کی ترقی کو روکنے میں ناکام رہے ہیں، لہذا اس وقت اسلامی جمہوری نظام کو برداشت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ مستقبل میں بھی ان کی سیاسی، سیکورٹی، اقتصادی اور ثقافتی سازشیں ایران کی ترقی کو روک نہیں پائیں گی۔"
نامناسب جوہری معاہدے سے بہتر معاہدے کا نہ ہونا ہے:
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران کے پاس ان کے مطالبات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں بچا اور ایران اب مکمل طور پر بے بس ہوچکا ہے جبکہ یہ سراسر جھوٹ پر مبنی دعویٰ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکام بارہا اس بات پر تاکید کرچکے ہیں کہ نامناسب معاہدے سے بہتر یہ ہے کہ معاہدہ ہی طے نہ پائے، میں بھی ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ میری نظر میں بھی نامناسب معاہدے سے بہتر معاہدہ کا طے نہ پانا ہے۔ امام خامنہ ای نے کہا کہ جوہری مذاکرات میں ایران کا رویہ مکمل طور پر منطقی رہا ہے، جبکہ مدمقابل نے غیرمنطقی رویہ اپنا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بامعنی مذاکرات کیلئے ضروری ہے کہ دونوں اطراف ایک مشترکہ نکتے تک پہنچنے کی کوشش کریں، لیکن اگر ایک فریق اپنے غیر منطقی رویے کے ذریعے اپنی مرضی کے مطالبات دوسرے پر ٹھونسنے کی کوشش کرے تو مذاکرات ناکامی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ولی امر مسلمین جہان نے کہا کہ امریکہ اور اس کے پیرو ممالک کا رویہ مذاکرات کے دوران انتہائی غیر منطقی رہا ہے اور وہ یہ توقع کر رہے ہیں کہ ایران ان کے تمام مطالبات من و عن قبول کر لے گا، لیکن یہ رویہ مذاکرات کے اصول کے منافی ہے۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ملت ایران کبھی بھی دھونس اور زبردستی قبول نہیں کرتی، چاہے یہ زبردستی کسی کی طرف سے بھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی ایسے معاہدے کی اجازت نہیں دوں گا جو ایرانی قوم کی عزت اور احترام سے تضاد رکھتا ہو۔ انہوں نے مذاکرات میں ایران کی عزت، احترام اور ترقی کو ملحوظ خاطر رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان شرائط کے ساتھ انجام پانے والا معاہدہ ملت ایران کیلئے قابل قبول ہوگا۔
وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ شیخ زاہد حسین زاہدی نے کہا کہ نگران حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان میں صنف علماء کے داخلے پر پابندی علماء کی توہین اور بوکھلاہٹ ہے۔ انہوں نے علما کے خلاف عملی اقدام کر کے اپنی ذہنیت واضح کر دی، وزیراعلی فوری طور علماء کی اہانت پر معافی مانگیں ورنہ تمام مکاتب فکر کے علما کو جمع کر کے نام نہاد نگران حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کو شاید معلوم نہیں کہ اگر گلگت بلتستان میں امن قائم ہیں تو حکومتی اداروں اور طاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ یہاں کے امن پسند علماء اور عوام کی وجہ ہے اور ان علماء سے ملک کے محب وطن دہشتگردو مخالف علماء کا رابطہ ہے اگر حکومتی ادارے امن قائم کر سکتے ہیں تو ملک کے دیگر حصوں میں کیوں نہیں قائم کرتے ۔ ہم علماء کی توہین کو ایک لحظہ کے لیے برداشت نہیں کرسکتے اگر وزیراعلیٰ کو کلمہ پاک بھی یاد ہے تو علماء کی تعلیم کر دہ ہے۔ انکے علماء کے خلاف اقدام پر تمام مکاتب فکر کے علماء کو دکھ پہنچا ہے۔ اگر پابندی عائد کرنی ہے تو گلگت بلتستان میں دہشتگرد عناصر کے آمدورفت پر پابندی عائد کی جائے، اسلحے کی نقل حمل پر پابندی عائد کی جائے، منشیات کی خریدوفروخت پر پابندی عائد کرے ، ترکی کے فحش ڈراموں پر پابندی عائد کی جائے۔ لیکن سلسلہ اس کے برعکس ہے یہاں پر بھی فیض احمد فیض کے کلام کی طرح ہے سنگ و خشت مقید اور سگ آزاد ہے۔نگران حکومت گلگت بلتستان کو پاکستانیوں کے لیے نوگو ایرایا بنا کر کس کو خوش کرنا چاہتی ہے ریاستی ادارے نگران حکومت کی اس پالیسی کو آسان نہ لے۔ گلگت بلتستان کو پاکستان کے لیے نوگو بنانا را کی خواہش ہے۔ بعید نہیں کہ کل وطن عزیز پاکستان کے ازلی دشمن ہندوستان بھی نگران حکومت کی اس پالیسی کو اپنے میڈیا میں جگہ دیں۔
گلگت بلتستان کو پاکستان کے علماء اور دیگر امن پسند عوام کے لیے نوگو ایریا بنانے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے اور ان تمام عوامل کو دیوار سے لگائیں گے جسکے نتیجے میں علیحدگی پسند تحریکوں کو تقویت پہنچتے ہوں۔ہم نے اس خطہ کو قوت بازو سے آزاد کرایا ہے اور پاکستان سے الحاق بلاشرط و شروط کے کیا ہے اگر گلگت بلتستان کو پاکستان سے مختلف ناموں سے الگ کرنے کی کوشش کرے توان غداروں کو سبق سکھائیں گے اور جانوں کی قربانیاں دے کے واضح کردیں گے کہ یہ ارض پاک ہے جان اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے۔ہم حساس اداروں تک ایک بار پھر یہ پیغام دینا چاہیں گے کہ دشمن کے ایجنڈوں کو تقویت ملنے والی پالیسوں کودفن کرے۔ حساس ادارے نااہل حکمرانوں کی نااہلی اورکم ظرفی پر نگاہ رکھیں اور ایسی پالیسیاں بننے نہ دیں جس سے دشمن خوش ہوں۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری کردہ بیان میں مرکزی رہنما علامہ سید ہاشم موسوی نے کہا ہے کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں یکجہتی اور یکسوئی کی جس قدر ضرورت پاکستانی قوم کو آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ کیونکہ جب تک قوم میں دہشت گردی کے حوالے سے اتحاد و اتفاق نہیں ہوتا اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان کے لیے سب سے اہم اور ضروری چیز یہی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ حکومت کی غلط پالیسی کے باعث دہشت گردوں کا نیٹ ورک مضبوط اور فعال ہوا۔ دہشت گردوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے اڈے قائم کر لیے ہیں۔ملک کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں دہشت گردوں نے بم دھماکے یا خودکش حملے کرکے بے گناہوں کا خون نہ بہا یا ہو۔ کہیں تخریب کار انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں تو کہیں کرپٹ عناصر مالی دہشت گردی سے قوم کے ارمانوں کا خون کر رہے ہیں۔ انتظامی افراتفری، بد نظمی سے آئین اور قانون کا قتل عام ہو رہا ہے۔اسی لیے دہشت گردی سے نجات ملک کے لیے نا گزیر ہو گیا ہے۔جنگ جیتنا ہے تو اچھے برے کی تمیز ختم ، جانبداری سے اجتناب کرکے ہر قسم کی دہشت گردی کا سر سختی سے کچلنا ہوگا۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے حکمران آج بھی دہشت گردی کے اقسام میں الجھے ہوئے ہیں۔ اور ان کے لیے اب بھی ڈھکی چھپی ہمدرددی پائی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردی کی تعریف پر اتفاق نہیں ہو پایا۔ایک ایسا ملک جس کی بنیاد کرپشن اور در و دیوار کو دہشت گردی نے چھلنی کر رکھا ہو جس کے مستقبل پر کئی سوالیہ نشان لگے ہو اس کے قیادت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خود پر نیند حرام کر لینا چاہیے۔
وحدت نیوز (یمن) گذشتہ روز یمنی دارالحکومت صنعاء میں شیعہ مجاہدین انصار اللہ کے انقلاب کی کامیابی کا جشن منایا گيا جب صدارتی محل میں ایک اجلاس کی تقریب میں کہ جس میں یمن کی اعلی شخصیات شامل تھی، الحوثی شیعہ قبیلے کی انقلابی کمیٹی (جسے 21 ستمبر کے انقلابی گروہ کے نام سے جانا جاتا ہے) نے نئی حکومت سازی کے لیے عبوری قانون و ضابطے کا اعلان کیا جس کے تحت پارلیمان تحلیل ہوگئ اور 551 اراکین پر مشتمل عبوری قومی کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس میں تحلیل شدہ اسمبلی کے اراکین بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ ایک فرد کے صدرِ مملکت بنائے جانے کے بجائے عبوری قومی کونسل 5 رکنی صدارتی کونسل تشکیل دے گی جس کی توثیق انقلاب کمیٹی کرے گی۔ صدارتی کونسل بااختیار طور پر عبوری حکومت قائم کرسکے گی۔ اس عبوری مرحلے کے تمام ذمہ داران/ادارے دو سال کی معینہ مدت میں نئی حکومت سازی کے لیے پارلیمانی و صدارتی انتخابات کا انعقاد اور نئے دستور کی تیاری کا مرحلہ مکمل کریں گی۔ اس نئی حکومت سازی کے مرحلے میں انقلاب کمیٹی ملکی دفاع، عوام کے حقوق و سیکورٹی کا تحفظ یقینی بنائے گی۔واضح رہے کہ آل سعود خاندان کے نئے بادشاہ نے جی-سی-سی کے پلیٹ فارم کے ذریعے اور یمن کے سابق سعودی نواز حکمرانوں کے پردے ميں یمن کی 6 ریجنز کی تقسیم کے جی-سی-سی کے سابقہ منصوبے کی تکمیل کی ایک بار پھر سے کوششیں تیز کردی ہیں۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کوئٹہ ڈویژن کے جاری کردہ بیان میں ایم ڈبلیوایم کے کونسلر محمد مہدی نے کہا ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی سے عوام کے مسائل حل ہونگے۔ منتخب نمائندوں کا فرض ہے کہ جس طرح عوام نے ان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے لہذا وہ اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے اپنی اعلیٰ کارکردگی کا معیار قائم رکھتے ہوئے اس اعتماد پر پورا اُترینگے۔ تمام منتخب نمائندوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دیانتداری سے اپنے فرائض سر انجام دینگے اور اپنے سرکاری فنڈز دیانتداری سے خرچ کرینگے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے ثمرات سے استفادہ کرسکے۔ اور مستقبل میں عوام کو تعلیم ، صحت ، سماجی بہبود ، امن و امان اور دیگر مسائل کے حل کے لیے راہ ہموار ہوجائے۔ صوبے میں عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہونے چاہیے۔ صوبے میں بلدیاتی اداروں کی فعالی سے ترقی کے عمل میں تیزی کے ساتھ ساتھ امن و امان کی مجوعی صورتحال میں بھی نمایاں بہتری آنی چاہیے۔ مجلس وحدت مسلمین یقین رکھتی ہے کہ کامیاب ہونے والے امیدوار جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام اور عوامی مسائل کے حل کے لیے ایمانداری ، خلوص نیت اور قومی جذبے سے کام کرینگے کیونکہ خالق حقیقی کی خوشنودی خدمت خلق میں ہی پوشیدہ ہے۔
وحدت نیوز (گلگت) برمس کے عمائدین نے وحدت ہاوس گلگت میں مجلس وحدت مسلمین کے ڈویژنل ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ شیخ عاشق حسین ناصری اورصوبائی ترجمان الیاس صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ وفاقی حکمران جماعت کی نظر میں گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے حالانکہ اس خطے کے عوام نے ڈوگرہ راج سے اپنی مدد آپ کے تحت آزادی حاصل کرکے اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے اور 28 ہزار مربع میل پر مشتمل خطہٌ گلگت بلتستان کو پاکستان کے حوالے کردیا۔یہ اس علاقے کے عوام کی بدقسمتی سمجھئے یا ملک عزیز پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ پر براجمان حکمرانوں کی نااہلیت، کہ 68 سال گزرنے کے باوجود اس علاقے کے عوام کو قومی و صوبائی اسمبلی کی نمائندگی حاصل نہ ہوسکی۔ ماضی میں آئینی حقوق کے حصول کیلئے کئی آوازیں بلند ہوئیں لیکن حکمرانوں نے اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے ان آوازوں کو خاموش کرادیا اور یوں آج تک علاقے کے عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق اور آئینی حقوق کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔
خطہ گلگت بلتستان جو بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے کا تحفظ ہم سب کا فریضہ ہے تاکہ آنیوالی نسلیں ان وسائل سے استفادہ کرتےہوئے علاقے کا مستقبل روشن اور تابناک بنائیں گے۔بصورت دیگر اگر یہ وسائل کسی اور کے ہاتھ چلے گئے تو ان دوسری غلام اقوام کی طرح اس علاقے کے عوام بھی اپنی ہی سرزمین میں بھیک مانگتے پھریں گے اور کوئی بھیک دینے والا بھی انہیں میسر نہ آسکے گا۔ ڈوگرہ راج کے دوران 1927 میں ان قدرتی وسائل کے تحفظ اور عوام کے حقوق کی خاطر سٹیٹ سبجیکٹ رول کا نفاذ عمل میں آیا جس کے تحت کسی دوسرے علاقے کے شہری کو خطہ گلگت بلتستان میں زمین خریدنے پر پابندی عائد تھی اور یہاں کے قدرتی وسائل سے استفادے کا اختیار صرف اور صرف یہاں کے عوام کو حاصل تھا لیکن 1952 میں عوام کے اس حق کو نہ جانے کس مقصد کے تحت چھین لیا گیا اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کو معطل کرکے ناردرن ایریاز ناتوڑ رول کو نافذ کردیا گیا جس کے تحت کسی بھی علاقے کے شہری کو گلگت بلتستان میں زمین خریدنے کی اجازت مل گئی اور یوں آج گلگت بلتستان میں غیر مقامی افراد کی ایک کثیر تعداد علاقے میں مقیم ہے اور مقامی آبادی اقلیت میں بدل رہی ہے۔حکومت نے ناردرن ایریاز ناتوڑ رول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے من پسند افراد میں کونو داس اور جوٹیال میں ہزاروں ایکڑ اراضی بانٹ دیا ہے جس سے مقامی آبادی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
رہنماؤں کا کہنا تھا کہ خطہ گلگت بلتستان کے عوام کی دیرینہ روایات یہ بتاتی ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ متعلقہ آبادیوں کے عوام اپنے علاقے سے متصل بنجر اراضیوں کو خانگی تقسیم کے ذریعے اپنے زیر استعمال لاتے رہے ہیں اور ماضی کی حکومتوں نے ایسی روایات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے بنجر زمینوں کی آباد کاری کیلئے دست تعاون بھی بڑھادیا اور حکومت کی نگرانی میں واٹر چینلز بنوائے گئے اور نرسریز سے مفت میں درخت مہیا کئے گئے۔پچھلے کئی سالوں سے گلگت اور آس پاس کی بنجر اراضیوں کو آباد کرنے کے عوامی حق کو چھینتے ہوئے آباد کاری کے عمل میں حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں جس سے تنگ آکر علاقے کے عوام عدالتوں میں انصاف کے منتظر ہیں۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ ناردرن ایریاز ناتوڑ رول کا زیادہ استعمال صرف اور صر ف گلگت شہر سے متصل آبادیوں میں ہورہاہے اور گلگت بلتستان کے بیشتر علاقوں میں اب بھی سابقہ روایات کے مطابق عوام بنجر زمینوں کو خانگی تقسیم کے ذریعے تصرف کررہے ہیں جو کہ ان علاقوں میں بسنے والے عوام کا بنیادی حق ہے۔مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے عوام کوان کے علاقے سے متصل تمام بنجر زمینوں کے حقیقی وارث سمجھتی ہے اور یکطرفہ طور پر نافذالعمل ناتوڑ رول کو قاتل رول تصور کرتے ہوئے اس کی بھرپور مخالفت کرتی ہے۔چلاس داریل سے لیکر بلتستان خپلو اور غذر سے لیکر خنجراب تک کی بنجر زمینوں کے وارث ان علاقوں میں بسنے والے عوام ہیں جن کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کسی طور کامیاب نہیں ہونے دینگے۔موجودہ نگران حکومت جو چور دروازے سے اقتدار تک پہنچی ہے ،کو وحدت مسلمین نے شروع دن سے مسترد کیا ہے کیونکہ نگران حکومت کے وزراء کی فوج گلگت بلتستان کے وسائل پر ایک بوجھ ہیں اور نگران حکومت کی مشکوک سرگرمیوں سے اندازہ ہورہا کہ بروقت الیکشن کروانے میں ان کی نیت صاف نہیں ہے اور ان کے اقدامات سے کسی سازش کی بو محسوس ہورہی ہے۔
رہنماؤں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کانا ڈویژن کے ساتھ مل کر مخصوص علاقوں کی بنجر اراضی کو خالصہ سرکار قرار دیکر ان اراضیوں کی بندربانٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے اور مختلف سرکاری اداروں کو زمینوں کی الاٹمنٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ برمس داس کی اراضی کو مقامی لوگوں نے خانگی تقسیم کرکے آباد کاری شروع کی جہاں فی گھرانہ مشکل سے 10 مرلہ زمین نصیب ہوئی ہے میں حکومت کی طرف سے مداخلت کسی شرارت سے کم نہیں۔مزید یہ کہ مذکورہ جگہ میں 220 کنال اراضی قبرستان کیلئے مختص ہے۔ حکومت کے ایسے اقدامات سے علاقے میں نقص امن کا خدشہ لازمی امر ہے او ر اس کو بنیاد بناکر الیکشن ملتوی کرواکے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ ناتوڑ رول کا اجراء صرف اور صرف شیعہ آبادیوں پر کیا جارہا ہے تاکہ یہاں فرقہ واریت کے پرانے حربے کو استعمال کیا جاسکے اور غیر شیعہ آبادیوں کو بنجر زمینوں کی خانگی تقسیم کے ذریعے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور حکومت کا یہ اقدام صرف اور صرف اہل تشیع میں احساس محرومی پیدا کرکے ایجی ٹیشن کو ہوا دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ناتوڑ رول کا استعمال صر ف اور صرف شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر اراضیوں پر کیوں؟ کسی غیر شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر زمینوں پر کیو ں اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟ہم یہ بھی نہیں کہتے ہیں کہ اس قاتل قانوں کا اطلاق غیر شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر اراضیوں پر ہو۔ ہم تو سرے سے اس قانون کی نفی کرتے ہیں جو پورے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اس آواز پر گلگت بلتستان کے عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہوں ۔ آج ہماری آواز کو دبایا گیا تو آنیوالے کل میں دوسری آبادیاں بھی اس قانون کی زد میں آئینگی۔آج ہم چیخ رہے ہیں تو کل کوئی اور چیخے گا۔
رہنماؤں نے کہا کہ سونی یار جو موجودہ نگران وزیر اعلیٰ کا علاقہ ہے جس کے کچھ حصے پرپاک فوج کا قبضہ تھا اور عوام نے فوج سے معاوضہ طلب کرتے ہوئے باقیماندہ علاقے کو خانگی تقسیم کرکے اپنی تحویل میں لے لیا اور موجودہ نگران وزیر اعلیٰ نے خود ہی پاک فوج سے اپنی اراضی کا معاوضہ بھی لیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کا یہ اقدام صحیح اور درست تھا۔نگران وزیر اعلیٰ بتائیں جب وہاں ناتوڑ رول نافذ نہ ہوسکا اور اس نے خود پاک فوج سے اپنی زمین کے عوض معاوضہ وصول کیا تو گلگت میں اس قاتل قانون کو نافذ کرکے عوام کی ملکیتی اراضی کو خالصہ سرکارکیسے قرر دیا جارہا ہے؟ اور یہ نہیں ماضی میں بھی اس مخصوص سوچ کے حامل لوگوں کو کوئی اہم ذمہ داری ملی تو اس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ سال 2003 میں اس وقت کے ہوم سیکرٹری نے گلگت کے کشیدہ حالات میں کرفیو کا نفاذ کرکے نومل کے عوام کے چھلمس داس میں تعمیرشدہ مکانات کو بلڈوز کیا اور آج تک عوام کو انصاف نہیں ملا ہے۔
رہنماؤں نے صحافیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ حضرات تو خود لینڈ مافیا کا تذکرہ کرتے کرتے تھک ہار چکے ہیں اور اسی قاتل قانون نے محکمہ مال کے پٹواریوں اور آفیسروں کو ککھ پتی سے کروڑپتی اور ارب پتی بنادیا ہے۔محکمہ مال نہ صرف اپنے لئے مال بناتی ہے بلکہ دوسرے بھی اسی مال سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ ناجائز مال حکومت کے ایوانوں تک بھی پہنچ جاتا ہے جو بظاہر نظر نہیں آرہا ہے۔اسی محکمہ مال کے مک مکا کا نتیجہ ہے کہ پہاڑوں پر لوگ چڑھ گئے اور اور پہاڑوں کو بھی بھاری رشوت کے عوض لوگوں کے نام الاٹ کیا جاچکا ہے۔
آخر میں رہنماؤں کاکہنا تھا کہ حکومت عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی بجائے آباد کاری کے مسائل پر توجہ دیکر بنجر اراضیوں کو سرسبز و شاداب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں نہ کہ عوام کی زمینوں کو ان سے چھین کر مفاد پرستوں کا پیٹ بھریں۔ ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو علاقے کے عوام کو بے چینی اور تشویش میں مبتلا کرے اورہماری امن پسندی کو کمزوری پر محمول نہ کیا جائے تو حکمرانوں کے حق میں بہتر ہوگا۔بصورت دیگر یا ہم رہیں گے یا پھر تم۔
وحدت نیوز (بیروت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری نے حالیہ دورہ لبنان کے موقع پرحزب اللہ لبنان کے سربراہ قائد مقاومت حجتہ السلام سید حسن نصراللہ سے بیروت میں انکی رہائش پر خصوصی ملاقات کی، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی اور حزب اللہ کے اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے، حجتہ السلام سید حسن نصراللہ سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ ناصرعباس جعفری نے پاکستان میں ایم ڈبلیوایم کے کردار و فعالیت اور ملت پاکستان کی بیداری اور شعور کے حوالے سے حزب اللہ لبنان کے سربراہ کوآگاہ کیا، انہوں نے پاکستان میں حالیہ دنوں میں شیعہ سنی یونٹی کے اقدامات اور سعودی نواز حکومت سے عوامی بیزاری کے حوالے سے بھی آگاہ کیا،ایم ڈبلیوایم کے قائدین نے قنیطرہ کے مقام پرحزب اللہ کے چھ مجاہدین بالالخصوص شہید جہاد عماد مغنیہ کی شہادت پر قائد مقاومت سید حسن نصراللہ کی خدمت میں تعزیت و تہنیت کا اظہار کیا، حجتہ السلام سید حسن نصر اللہ نے علامہ ناصرعباس جعفری سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد کیلئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں،امریکی اسرائیلی گماشتوں (تکفیریوں) کا وجود جڑ سے اکھاڑے بغیرعالم اسلام میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے،اتحاد امت وقت کی اہم ضرورت ہے، شیعہ سنی اتحاد کی طاقت کے ذریعے امت مسلمہ کو باہم دست و گریباں کرنے کی امریکی سازش کو ناکام بنایا جاسکتا ہے،قائد مقاومت نے پشاور اور شکارپور سانحہ پر تعزیت کا اظہارکرتے ہوئے اسے تکفیری عناصر کی بزدلانہ کاروائی قرار دیا اور دونوں سانحات پر ملت پاکستان اور متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی کا اظہا رکیا، ان کاکہنا تھا کہ خدا ان ہی قوموں کو آزمائش میں ڈاتا ہے جو ان آزمائشوں میں سر خرو ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں،امید کرتے ہیں کہ یمن کے بعد پاکستان سے بھی امریکی و صیہونی تسلط کا خاتمہ ہوگا اور پاکستان کی عوام بھی سکو ن کا سانس لے سکیں گے،پاکستان کی عوام کو چاہیئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی فوج کی مدد کریں تاکہ پاکستان سے بھی تکفیریوں کے نجس وجود کا خاتمہ ہوسکے،لبنان کی عوام نے بھی یہ کام انجام دیا تھا، میں امید کرتا ہوں کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مظلوم عوام کی پناہ گاہ بن کر سامنے آئے اور حال میں اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المومنین کو قائم کرنے کیلئے اپنا ہر قسم کا کردار ادا کرے،یہ صدی اسلام کی صدی ہے، اسرائیل انتہائی کمزور ہوچکا ہے اور وہ زمانہ گزر گیا کہ جب سامراج اس خطے میں اپنے حکمرانی کرتا تھا۔
وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نےنجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے کئی ایک چہرے ہیں ، کراچی میں دہشت گردی سیاسی و مذہبی عناصر کا ملاپ ہے، ملک کے دیگر شہروں میں مذہبی انتہاپسند عوام کے قتل عام میں مصروف ہیں ، ملک میں قیام امن سیاسی جماعتوں کے عسکری اور عسکری جماعتوں کے سیاسی ونگ کے خاتمے تک ممکن نہیں ، اکیسویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد میں دہشت گردوں کے سیاسی سرپرست بڑی رکاوٹ ہیں ، کراچی میں بلدیہ ٹاون فیکٹری میں آتشزدگی میں ملوث عنا صرکے خلاف بلاخوف و خطر کاروائی کی جائے، 270بے گناہ افراد کو قتل کرنے والا ایک شخص نہیں پورا گروہ ہے، کالعدم جماعتوں کی فعالیت آئین کی پامالی ہے، سول سوسائٹی کی جانب سے پر امن احتجاج جمہوری اور آئینی حق ہے، جسے کوئی نہیں چھین سکتا ، دہشت گرد کودہشت گرد نہیں تو کیا کہا جائے ۔