وحدت نیوز(کراچی) مجلس و حدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل احمد اقبال رضوی کا کہنا ہے کہ ڈی آئی خان249 پشاور میں روزانہ دہشتگردی کے واقعات ریاستی اداروں سمیت صوبائی حکومت کی نا اہلی ہے،جب تک فوجی اور شیعہ پاکستانیوں کے قاتلوں میں تفریق ختم نہیں ہوتی دہشت گردی جاری رہے گی، افواج پاکستان اور حکومت کالعدم دہشتگردی جماعتوں اور سہولت کاروں کے خلاف ملک گیر آپریشن کا اعلان کریں،خوجہ مسجد کھارادر کے سامنے ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان سمیت ملک بھر میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے رہنماوں کا کہنا تھا کہ شیعہ وکلاء و اساتذہ کا قتل ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی ظاہر کرتا ہے ۔
علامہ احمد اقبال کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی تازہ لہر وفاقی حکومت کی دہشت گرد عناصر کے خلاف نرمی برتنے کا نتیجہ ہے ڈی آئی خان249 پشاور میں روزانہ دہشتگردی کے واقعات ریاستی اداروں سمیت صوبائی حکومت کی نا اہلی ہے. افواج پاکستان اور حکومت کالعدم دہشتگردی جماعتوں اور سہولت کاروں کے خلاف ملک گیر آپریشن کا اعلان کریں تاکہ دہشت گردی کو جڑ سے اوکھاڑا جائے احتجاجی مظاہرے میں رہنما مولانا احسان دانش. علامہ مبشر حسن.علامہ صادق جعفری ،ناصرحسینی ،رضوان پنجوانی،شبیر حسین سمیت مظاہرین کی بڑی تعداد موجود تھی احتجاجی مظاہرے میں شیعہ مسلمانوں کے قتل کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
وحدت نیوز(ڈی آئی خان) ڈیرہ اسماعیل خان اہدافی قاتلوں کے رحم و کرم پر ہے، تھانہ چھاونی کی حدود میں ایک ہی دن میں چار اہل تشیع افراد کو شہید کر دیا گیا۔ جس سے شہر بھر میں بالعموم اور اہل تشیع میں باالخصوص انتہائی تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مغرب کی نماز سے چند منٹ قبل مریالی موڑ کے علاقے میں مختیار حسین بلوچ اور اختر علی کو نامعلوم دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کیا۔ دونوں دوست ایک شادی (نکاح) کی تقریب میں شرکت کی غرض سے جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار ٹارگٹ کلرز نے فائرنگ کر دی۔ متعدد گولیاں لگنے سے اختر علی موقع پر ہی جاں بحق جبکہ مختیار حسین بلوچ کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جانے کی کوشش کی گئی، مگر وہ راستے میں ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگیا۔ اس وقوعہ کے تیس منٹ بعد گرڈ سٹیشن کے علاقے میں دو زیدی سادات کو فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔ جن میں سے ایک معروف وکیل سید مستان شاہ زیدی کے داماد محمد علی ایڈووکیٹ اور سید عباس زیدی کو موٹر سائیکل پر سوار دو ٹارگٹ کلرز نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ ایک ہی دن میں، ایک ہی تھانے کی حدود میں چار اہل تشیع افراد کے بہیمانہ قتل پر شہریوں نے انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت اور فوج سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں شہداء کی نماز جنازہ کے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے ڈی آئی خان میں چار شیعہ پروفیشنلز کی ٹارگٹ کلنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے قومی نقصان قرار دیا ہے۔ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ 7 گھنٹوں میں 4 شیعہ پرفیشنلز کا قتل ریاستی اداروں ، وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف دہشتگردی کے اس بدترین واقعہ کا خود نوٹس لیں، علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ قاتلوں کی فوری گرفتاری سمیت ڈی آئی خان میں کالعدم جماعتوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کرتے ہیں، ملک بھر میں دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن عضب اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکا اور عوام کا ضرب عضب سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔ اپنے بیان میں ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ نے 2 وکلاء اور 2 اساتذہ کے قتل کو قومی نقصان قرار دیا۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) ھر ملک کے کچھ حساس علاقے ہوتے ہیں۔ اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے یہ علاقے بہت مھم ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے طاقتور ہونے میں اقتصاد اور قوت دفاع کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ دنیا کی سپر طاقتوں میں ایک مملکت خداداد پاکستان ہے جو 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے شمال میں گلگت بلتستان ہے۔ جو پاکستان کے آزاد ہونے کے بعد آزاد ہوا اور کچھ عرصے کے لئے ایک الگ اور مستقل سٹیٹ رہا۔ چونکہ گلگت بلتستان کے لوگوں میں دینی جذبہ زیادہ ہونے کی وجہ سے اس دور کے بزرگوں نے بغیر کسی شرط و شروط کے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ الحاق کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان قرآن و سنت کے نام پر بنا تھا اور ایک الگ اور مستقل مسلم سٹیٹ تھا اور لوگوں کی محبتیں پاکستان کے ساتھ تھی۔ گلگت بلتستان پاکستان کا انتھائی حساس علاقہ ہے۔ طاقت کے دونوں عنصر اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ سیاچن کارگل کا باڈر دفاعی اعتبار سے بہت اھمیت رکھتا ہے اور اب تک پاکستان اور ھندوستان کے درمیان اسی مقام پر کافی جنگیں لڑی جا چکی ہیں خصوصا سنہ 1999 میں لڑنے والی کارگل جنگ 1965 اور 1971 میں لڑی جانے والی جنگوں سے خطرناک نہیں تو کم بھی نہیں تھی۔ جس میں قوم کے سینکڑوں دلاوروں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا اور اپنے پاک خون سے مملکت پاکستان کا دفاع کیا۔ این ایل آئی کے سینکڑوں دیندار اور وظیفہ شناس جوانوں نے سینوں پر گولیاں کھائی اور دشمن کا مقابلہ کیا یہ اس وقت کی بات ہے کہ این ایل آئی رجمنٹ کے طور پر نہ تھی کارگل جنگ کے بعد این ایل آئی کو رسمی طور پر پاک فوج میں شامل کیا گیا۔ اور دوسری طرف عوامی جمھوریہ چین جو آج کی دنیا میں اقتصادی اعتبار سے سپر پاور مانا جاتا ہے، سے سرحد ملتی ہے اور شاہراہ قراقرم پاکستان کی شہ رگ مانی جاتی ہے جس کے ذریعے سے چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر سوچا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی مناظر کے اعتبار سے گلگت بلتستان کےعلاقے نے دنیا بھر کی نظروں کو اپنی طرف جذب کر رکھا ہے۔ آسمان کی بلندیوں سے چھونے والی سرسبز وشاداب چوٹیاں دنیا بھر کے سیاحوں کے توجھات کو اپنی طرف مبذول کر رکھا ہے۔ سیاحوں کا آمد و رفت ملک کے اقتصاد میں بڑا اثر رکھتا ہے۔ گلگت بلتستان کی اتنی اھمیت کے باوجود پاکستان اب تک اس علاقے کو آئینی حقوق دینا تو دور کی بات کوئی خاص توجہ دینے سے بھی گریز کر رہا ہے اور اب تک یہ علاقہ متنازعہ علاقوں میں شامل ہے۔ گلگت بلتستان کا علاقہ پہاڑی علاقہ ہے وہاں کی اکثر زمینے بنجر ہیں عوام کی غربت اور ناداری ان بنجر زمینوں کو آباد کرنے کی اجازت نہیں دیتی جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا دریا دیائے سندھ گلگت بلتستان سے ھوتا ہوا پنجاب اور سندھ کو آباد کر رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں اکثر لوگوں کا گزارہ پنجاب سے آنے والے خورد و نوش کی چیزوں پر ہوتا ہے۔ اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب کی مدد امن اور سلامتی کے دنوں میں ہی کام آتی ہے مشکل اور کٹھن موقعوں پر کوئی کام نہیں آتی۔ راولپنڈی اسلام آباد سے گلگت تک کوئی 600 کلو میٹر کا راستہ ہے۔ یہ پورا راستہ کبھی فسادات اور کشت و کشتار کی وجہ سے مسدود ہو جاتا ہے تو کبھی قدرتی آفات کی وجہ سے بند ھو جاتا ہے۔ ابھی تک کتنی قیمتی جانے موت کی بازی حار چکی ہیں۔ کبھی مذھبی فسادات کے نام پر دھشتگردوں کی گولیوں اور پتھروں کا نظر ہوتے ہیں تو کبھی اکسیڈنٹ اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے اپنی زندگی کھو جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان اس راستے کی امنیت کو بحال کرنے میں ناکام ھو چکی ہے۔ حالیہ بارشیں گلگت بلتستان کے لئے رحمت نہیں زحمت اور عذاب بن چکی ہیں۔ کتنے دن اور کئی جگہوں پر روڈ بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو راستے میں جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مصیبت کو صرف وہیں احساس کر سکتا ہے جو اس مصیبت کا شکار ہوا ہو۔ نہ جانے اس سفر میں بچے، خواتین، بوڑھے، جوان مرد و عورت کو کتنی سختیان جھیلنی پڑی۔ راستے کی پریشانیاں ایک طرف اور گلگت بلتستان میں لوگوں کی مشکلات دوسری طرف۔ گلگت بلتستان کا علاقہ ھر طرف سے مشکلات کا شکار ہے۔ سیل کی وجہ سے گلگت بلتستان میں جو تباہی ہوئی ہے اس کا تصور بھی سخت ھے۔ لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ابھی تک کتنے دن بید گئے لیکن عوام بجلی اور پانی سے محروم ہیں بعض جگہوں میں ابھی تک پینے کا پانی فراھم نہیں ھو سکا ہے۔ لوگوں کے گھر، زمیں اور فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ گھروں کو چھوڑ کر غاروں میں پناہ لے چکے ہیں۔ اس قدرتی آفت کی وجہ سے اب تک کتنی جانے لقمہ اجل بن چکی ہیں۔ اس حساس علاقے میں حکومت کی خاموشی کے ساتھ امدارسانی کا سلسلہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ گلگت بلتستان تک تیل کی سپلائی بند ھوچکی ہے جس کی وجہ سے وہاں کا ٹرانسپورٹ سسٹم مکمل رک چکا ہے۔ اور دن بدن لوگوں کی زندگی سخت ہوتی جا رہی ہے۔ شھروں میں پہر بھی حکومت اور امداد رسانی کے ادارے کسی حد تک متحرک ہیں لیکن گلگت بلتستان کے لوگ اکثر دیہاتوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ گلگت اور آس پاس کے شھروں کی صورت حال قابل برداشت نہیں ہے تو وہاں کی دیہاتوں کا کیا حال ہوگا۔ بھت ساری دیہاتوں میں لوگوں کے پاس پینے کے لئے پانی نہیں ہے ان کی فصلیں تباہ اور مال مویشی آوارہ ہو گئے ہیں حراموش جو گلگت کا نواحی علاقہ ہے ابھی تک بجلی اور پانی کی فراھمی منقطع ہے۔ مٹھی کے تودے گرنے سے داسو نامی گاووں میں دو خواتیں جان بحق اور ایک شدت سے زخمی ہو چکی ہے۔ اس زبو حالی کے عالم میں لوگ میلوں دور سے صرف پینے کے لئے پانی بڑی مشکل سے فراھم کرتے ہیں۔ سپلائی کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو تین وقت کی روٹی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومت کے کانوں پر جووں تک نہیں رینگتی۔ گلگت بلتستان سے ھر وقت سوتیلی ماں والا سلوک کیا جا رہاہے۔ آخر کب تک یہ علاقہ اس حالت میں رہے گا۔ کیا کوئی ایسے وقت کی امید ہے کہ جس میں وہاں کے لوگوں پر فرج ہو جائے۔ اور لوگوں کو یقین ہو جائے کہ ہمارے سر پر ہاتھ رکھنے والا بھی کوئی ہے۔ ایسے میں 3ھم صرف شکوہ ہی کر سکتے ہیں کہ کاش مملکت خداداد پاکستان کے حکمران اپنے عوام کو اپنا سرمایہ اور اپنے ملک سے وفادار ہوں تاکہ پاکستان اپنی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کی بھی حفاظت کر سکے۔
تحریر۔۔۔۔عباس رضا
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا نے کہاہے کہ ہمیں ملک میں عدل و انصاف کی عدم موجودگی کا سامنا ہے اور اسکی عدم موجودگی نے ملک کے اندر کرپشن، قانون شکنی، جرائم میں اضافے اور ایسے دیگر مسائل جنم دے دیئے ہیں۔جمہوریت انصاف کی بحالی کیلئے ہوتی ہے، اس نظام میں انصاف کو ترجیح دی جاتی ہے، پاکستان کے عوام حقیقی جمہوریت کے خواہش مند ہیں، ہماری قوم نے ہمیشہ جمہوریت کی حمایت کی ہے اور جاگیردارانہ نظام کے مقابلے میں کھڑے ہو کر اسے مسترد کر دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ حقیقی جمہوریت ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں پارلیمانی نمائندے اپنے علاقے کے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہیں، عوامی نمائندے اپنے اختیارات کے استعمال سے عوام کو درپیش مسائل کو حل کرتے ہیں اور قوم کی خدمت حقیقی نمائندوں کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ سے کوئی شخص مایوس نہیں ہوتا مگر یہاں کا حال کچھ الگ ہی تصویر کشی کرتی ہے، جمہوری نظام میں عدلیہ بہت اہم کردار ادا کرتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملے میں ہم کامیاب نہیں رہے ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں عدلیہ قانون ، آئین اور انسانی حقوق کی محافظ ہوتی ہے۔ قیام امن اور کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھائے جانے چاہئے اور عدلیہ کو چاہئے کہ وہ بغیر کسی سیاسی دباؤ اور خوف کے فیصلہ کرے اور جمہوریت کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرے، موجودہ جمہوری نظام میں عدلیہ کا کردار سب سے زیادہ اہم ہو گیا ہے، بہتر نظام کیلئے عدل و انصاف کو یقینی بنایا جائے وگرنہ ہمارا نام صرف نام کا جمہوری نام رہ جائے گا اور اس کے اندر جمہوریت کی کوئی خوبی نظر نہیں آئے گی۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے بیان میں پارٹی کے رکن اور کونسلر کربلائی عباس علی نے میئر کوئٹہ سٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے میئر کوئٹہ سٹی کو اپنے علاقے میں دورے کی دعوت دی ، وہ ہمارے دعوت پر ہمارے علاقے میں آئے اور انہوں نے وارڈ نمبر دس کا دورہ کیا۔ ہم میئر کوئٹہ سٹی کے نہایت شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اپنے مصروفیات سے وقت نکالا اور اپنا قیمتی وقت ہمیں دے کر ہمارے علاقے کا دورا کیا۔ بیان میں کونسلر کربلائی عباس علی نے کہا کہ میں نے وارڈ نمبر دس کے دورے کے دوران میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم اللہ صاحب سے علاقے کے مسائل کا تذکرہ کیا اور انہیں مختلف مقامات دکھائے جہاں پر ہمیں مسائل اور مشکلات کا سامنا تھا اور اُن سے اِن مسائل کو جلد حل کروانے کا مطالبہ کیا ، شفا خانہ صاحب الزمان کے قریب نالیوں کا مسئلہ بھی ان کے زیر نظر لیا گیا اور انہوں نے وعدہ کیا کہ جلد ہی اس مسئلے کو بھی حل کر دیا جائے گا، ہم اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ میئر کوئٹہ سٹی اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہمارے مسائل جلد از جلد حل کرائیں گے۔ کونسلر کربلائی عباس نے کہا کہ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارے مسائل حل ہونے کو ہیں اور ہم نے قوم کی خدمت کا جوعزم کیا تھا وہ آج بھی برقرار ہے ۔ ہمارے ارادے ہمیں ہمارے منزل تک پہنچا دیں گے۔ کونسلر کربلائی عباس نے اپنے بیان میں کیسکو مری آباد برانچ کے اہلکاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ کیسکو کے اہلکار سرکاری ملازمین ہونے کے باوجود قانون کے دائرے سے باہر کام کررتے ہیں، ہمارے پارٹی کے ایم پی اے جناب آغا رضا نے ہمارے علاقوں میں اسٹریٹ لائٹس لگوائے تھے، ہم نے عوام کے لئے انہیں لگوایا ،مگر مری آباد کیسکو کے ایس ڈی او نے اپنے طاقت کا ناجائز استعمال کیا اور ایس ڈی او کے حکم پر کیسکو کے اہلکاروں نے بغیرکسی نوٹس کے اور غیر قانونی طور پر ہمارے علاقوں سے تمام لائٹوں کو اتار کر ان پر قبضہ کر لیا جو کہ ایک غیر قانونی اور غیر آئینی عمل ہے۔ سرکاری عہدہ عوام کے خدمت کیلئے لیا جاتا ہے مگر بعض افراد اسے تخت بادشاہی سے منسوب کرتے ہیں اور اپنی منمانیوں سے بعض نہیں آتے۔ بیان کے آخر میں انہوں نے کیسکو کے ہیڈ سے مطالبہ کیا کہ وہ مری آباد برانچ کے ایس ڈی او کی آمرانہ حرکات کا نوٹس لے اور انکی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ان سے جواب طلب کرے۔