وحدت (گلگت) مجلس وحدت مسلمین ٹیکس کے ایشو پر عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کی ہڑتال کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ آئینی حقوق کے بغیر ٹیکس لگانا انتہائی زیادتی ہے حکومت وزیروں اور مشیروں کی ایک فوج بھرتی کرکے ان کی عیاشیوں کیلئے غریبوں کو لوٹنا چاہتی ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ جب تک گلگت بلتستان کو ملک کا آئینی پانچواں صوبہ نہیں بنایا جاتا تب تلک گلگت بلتستان کے عوام کسی قسم کا ٹیکس ادا کرنے کے پابند نہیں۔انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے ستر سال سے گلگت بلتستان کے عوام کا استحصال کیا ہے ۔پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں عوام پر غیر قانونی اور جبری ٹیکس نافذ کیا اور پانچ سال بعد عوام نے جس طرح پیپلز پارٹی کو مسترد کیا اس سے نواز لیگ سبق سیکھ لے۔یاد رکھو اقتدار نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کیا ہے جس کسی نے بھی عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈالا ان کا حشر انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔پیپلز پارٹی نے گندم سبسڈی ختم کرنے کی کوشش کی اور عوام نے الیکشن میں اس کا پورا حساب چکادیا۔اب نواز لیگ کے گھنائونے چہروں سے نقاب الٹ رہے ہیں اور پانچ سال بعد ان کا حشر پیپلز پارٹی سے بھی بھیانک ہوگا۔

انہوں نے سئی جگلوٹ میں جنگل کی کٹائی پر لوگوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرنے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں سرکاری ملازمتیں حکمران اپنے منظور نظر افراد کو دے رہے ہیں اور کوئی پرائیویٹ سیکٹر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مالی بدحالی کا شکار ہوچکے ہیں۔حکومت پہلے ان غریب لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) کوئٹہ چرچ پر حملہ دہشتگردوں کی بزدلانہ کاروائی ہے اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ناقابل تلافی نقصان ہے،دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں یہ انسانیت کا دشمن ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما و ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ چرچ پر حملہ دہشتگردوں کی بزدلانہ کاروائی ہے اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ناقابل تلافی نقصان ہے،جن کی ہم بھر زور مذمت کرتے ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں یہ انسانیت کا دشمن ہے،حکومت کرسمس کی تقریبات کے دوران مسیحی عبادت گاہوں کو فول پر وف سیکورٹی فراہم کریں اور پاکستان بھر بالخصوص کوئٹہ شہر میں کالعدم مذہبی جماعتوں اور انکے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن شروع کرکے انکا قلعہ قمع کریں،اس سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو تعزیت عرض کرتے ہیں اور انکے غم میں برابر کے شریک ہیں۔اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہے کہ زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

انہوں نے مزید کہا ملکی تاریخ کے اندوہ ناک سانحے پشاور آرمی پبلک سکول اور سقوط ڈھاکہ یہ دونوں زخم بتاتے ہیں کہ ایک ہی سوچ کا خنجر ہمارے دل کو زخم لگاتا رہا،یہ وہ سوچ ہے جس نے پاکستان کو ایک قومی ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ وفاق کے تقاضے نہیں سمجھے، جمہور کی حکمرانی نہیں مانی اور معشیت کو ایک اجتماعی نصب العین کے طور پر قبول نہیں کیا، ان خیالات کا اظہار اصل مسئلہ معاشرے کے ذہن کو تبدیل کرنا ہے۔ عام لوگوں کی سوچ کو عدم برداشت اور تعصب کی گرفت سے آزاد کرنا ہے۔ ہمارے حکمران اس جنگ کی نوعیت سے پوری طرح آگاہ ہیں لیکن وہ ایسے معاشرے کے قیام سے غافل ہیں جس میں سوچ کی اور اظہار رائے کی آزادی ہواور قوم انتہا پسندی اور مذہبی دہشتگردی کے خلاف بے خوفی کے ساتھ کھڑی ہوسکے۔ 16دسمبر2014کے بعداس تحقیق کی اہمیت بڑھ گئی ہے کہ آخراچھے اور برے طالبان میں فرق کیو ں کیا جاتا ہے۔ دہشتگردوں کی پہچان تو ممکن ہے لیکن انتہا پسندی اور نفرت کی جڑوں تک پہنچناایک انتہائی دشوار عمل ہے، اگر انتہا پسندی اور نفرت کی تلقین کے زرائع کو ختم کیا جائے تو نئے دہشتگرد پیدا ہوتے رہیں گے۔ پاکستان میں انتہا پسندی کی جو فضا ہے اس میں دہشتگردی کے پھلنے پھولنے کے امکانات واضح ہیں گزشتہ برسوں میں مختلف آپریشنز مذہبی دہشتگردی کے خلاف کی ہے لیکن یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ فیصلوں کی میزان میں دہشتگردی کی سوچ ابھی سلامت ہے، سیاسی قوتوں میں ابھی یہ اعتماد پیدا نہیں ہوا کہ وہ کھل کر دہشتگردی کے خلاف کھڑی ہوں، 16 دسمبر محض ہمارے بچوں کی برسی نہیں، ان عناصرکی نشاندہی کا دن ہے جو دہشتگردی کی آبیاری کرتے ہیں، جس کی تازہ مثال کوئٹہ چرچ کا سانحہ ہے جس میں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا۔وہ کھل کر دہشتگردی کے خلاف کھڑی ہوں، 16 دسمبر محض ہمارے بچوں کی برسی نہیں، ان عناصرکی نشاندہی کا دن ہے جو دہشتگردی کی آبیاری کرتے ہیں، جس کی تازہ مثال کوئٹہ چرچ کا سانحہ ہے جس میں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) اقوام  و ممالک کی حفاظت قومی فوج کرتی ہے، جب تک کسی ملک کی قومی فوج مضبوط رہتی ہے اس وقت تک اس ملک   کے دشمن ناکام و نامراد رہتے ہیں، یاد رہے کہ پاکستان کی مسلح افواج صرف پاکستانیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ جہانِ اسلام کے لئے بھی  امیدکی شمع ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دشمن ہر دور میں پاکستان آرمی کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ہیں۔

اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ  سیاہ چن کے برفیلے پہاڑوں سے لے کر  بلوچستان کے صحراوں تک ہر طرف پاکستان آرمی کی عظمت و شجاعت کی داستانیں رقم ہیں اور دہلی سے لے کر تل ابیب تک ہر دشمن طاقت پر  پاکستان آرمی کے نام سے خوف چھایا ہوا ہے۔

پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کا لفظ لفظ پاکستان آرمی کے جوانوں کے خون سے عبارت ہے، ملک کی سرحدوں پر باہر سے حملہ ہو یا اندرونِ ملک سے طالبان، القاعدہ اور لشکر جھنگوی جیسے ٹولے حملہ کریں، یہ پاکستان آرمی ہی ہے جو اِن سب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔

ملکی تاریخ میں پاکستان آرمی نے ملک دشمن عناصر کے خلاف متعدد آپریشن کئے  ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ زیل ہیں:

 آپریشن راہ حق سوات 2007  میں کیا گیا، آپریشن صراط مستقیم خیبر ایجنسی2008 میں  آپریشن شیر دل باجوڑ 2008 میں  آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم بنیر 2009میں  آپریشن راہ راست سوات 2009 میں  آپریشن راہ نجات جنوبی وزیرستان 2009 میں ، آپریشن ضربِ عضب ۲۰۱۴ میں اور آپریشن ردُّ الفساد  میں ۲۰۱۷ فروری کے مہینے   میں  شروع کیا گیا۔

اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ یہ آپریشنز کن حالات میں اور کن لوگوں کے خلاف کئے گئے تو ہمیں پاکستان آرمی کے بہادر سپوت  لائق حسین کی شہادت کی ویڈیو ضرور دیکھنی چاہیے ،  یہ ویڈیو دیکھ کر ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان کے دشمن کس قدر وحشی اور ظالم ہیں،  14 اگست 2007ء میں طالبان نے لائق حسین کو دوران حراست  جانوروں کی طرح ذبح  کر کے شہید کردیا تھا۔

۱۴ اگست پاکستان کا یومِ آزادی ہے، اس روز پاکستان کے دشمنوں نے،  پاکستان کی فوجی  وردی میں ملبوس پاکستان کے بیٹے کو ذبح کر کے  ملت پاکستان کو یہ واضح پیغام دیا تھا کہ پاکستان کے دشمنوں کے سینوں میں دل نہیں بلکہ پتھر ہیں، اگر اس کے باوجود کسی کو اطمینان نہ ہو تو وہ  آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے مُنّےبچوں کی لاشیں گن کر دیکھ لے۔ سولہ دسمبر ۲۰۱۴ کو پاکستان کے ان دشمنوں نے وحشت و بربریت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے  تقریبا ۱۴۴ بچوں کو شہید کردیا تھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے  خود کُش دھماکوں میں  بھی ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں اور پاکستان فوج اور پولیس کے کئی مراکز پر حملے کرنے کے علاوہ کئی قیمتی افیسرز کو بھی شہید کر کے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

ملک و ملت کے ان دشمنوں نے مذہبی مقامات  حتی کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر بھی حملے کئے اور غیر ملکی سیاحوں کو بھی قتل کر کے دنیا بھر میں پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی ۔

ابھی گزشتہ دنوں میں زرعی ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں9 افراد شہید 38 زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ سارے واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ پاکستان کے دشمن پاکستانیوں کے خلاف  مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔

طالبان ،القاعدہ اور  لشکر جھنگوی  وغیرہ کے بے شمار لوگوں کی گرفتاریوں اور اُن سے ہونے والی تفتیش کے بعد اب یہ حقیقت سب پر آشکار ہوچکی ہے کہ پاکستان کے دشمن ،بانی پاکستان کو کافر اعظم ، ملت پاکستان کو کافرو مشرک اور پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں، یہ  پاکستان میں بسنے والی کسی بھی قوم، قبیلے یا مسلک کے خیر خواہ نہیں ہیں۔

یہ دہشت گرد ٹولے پاکستان اور بانی پاکستان سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ انہوں نے 15 جون 2013 کو زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی کو  بھی بم دھماکوں سے تباہ کردیا ،تفصیلات کے مطابق  ایک سے دو منٹ کے وقفے کے ساتھ چار بم دھماکے کئے گئے۔

چنانچہ  موجودہ  حالات میں پاکستان آرمی  مسلسل ملک دشمنوں کے مظالم کے سامنے بند باندھنے میں مصروف ہے۔ پاکستان آرمی کی کامیابی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب عوامی سطح پر بھی لوگ اپنے ملک  کےدشمنوں کو پہچانیں اور اُن سے نفرت کریں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ماضی میں ہماری افغانستان پالیسی اور امریکہ و سعودی عرب کے ایجنڈے کی وجہ سے ہمارے ملک میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو مضبوط ہونے میں مدد ملی ہے تاہم اب یہ ہم سب کی ملی ذمہ داری ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں اور  اس ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں اپنی فوج کا ساتھ دیں۔

جن مدارس اور مراکز میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہو اور جولوگ ملک و قوم کے خلاف نوجوانوں اور جوانوں کو تیار کرتے اور بڑھکاتے ہوں ان کی نشاندہی کرنا ہم سب کا قومی و ملی فریضہ ہے۔

ہمیں اس حقیقت کو جان اور مان لینا چاہیے کہ اقوام کی حفاظت قومی فوج کرتی ہے، جب تک کسی ملک کی قومی فوج مضبوط رہتی ہے اس وقت تک  اس ملت کے دشمن ناکام و نامراد رہتے ہیں،لہذا اپنے دشمنوں کو ناکام اور نامراد کرنے کے لئے ہمارے عوام کو اپنی آرمی سے ہر ممکنہ  تعاون کرنا چاہیے۔

ہمیں اپنے قومی اتحاد، وسعتِ قلبی، دینی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی سے اپنے بدترین دشمنوں پر یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اس ملک کی حفاظت کے لئے ہم سب پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

 

 

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

رجعت کا عقیدہ

وحدت نیوز (آرٹیکل) شیعوں کےمخصوص عقائد میں سے ایک {عقیدہ  رجعت }ہے ۔یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ مہدی موعود {عج}کے ظہور اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت کے قائم ہونےکے بعد اولیائے الہی اوراہل بیت پیغمبر علیہم السلام کے پیروکار اور ان کے دشمنوں  کا ایک گروہ دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں واپس آئیں گے۔اولیاءاور نیک لوگ دنیا میں عدل و انصاف کی حکومت دیکھ کر خوش ہو ں گے اور انہیں اپنے ایمان اورعمل صالح کے ثمرات دنیا میں حاصل ہوں گے جبکہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کو اپنے ظلم کی سزا ملے گی البتہ آخری جزا و سزا قیامت میں ملیں گی ۔ رجعت ایک ممکن امر ہے جو عقلی لحاظ سے محال نہیں ہے ۔اس کے امکان پر واضح دلیل گذشتہ امتوں میں اس کا واقع ہونا ہے یعنی گذشتہ امتوں میں بھی کچھ لوگ مرنے کے بعد زندہ ہو ئے  ہیں۔قرآن کریم جناب عزیر علیہ السلام کے بارے میں فرماتاہے کہ وہ مرنے کے سو سال بعد دوبارہ زندہ ہوئے ۔اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک  معجزہ مردوں کو زندہ کرنا تھا۔رجعت اور مردوں کے زندہ ہونے کا ایک نمونہ بنی اسرائیل کےمقتول کا زندہ ہونا ہے۔بنابریں بعض شبہ ایجاد کرنے والوں کا  رجعت کو تناسخ کے ساتھ تشبیہ دینا  ان کی کوتاہ فکری اور نا آگاہی کی دلیل ہے ۔

شیعہ علماء نے عقیدہ رجعت کے اثبات میں تین طرح کے دلائل ذکر کئے ہیں:1۔آیات قرآنی 2۔سنت نبوی 3۔احادیث اہل بیت علیہم السلام۔  علماء کے نزدیک سب سے  عمدہ دلیل ائمہ اہل بیت علیہم السلام  سے تواتر کے ساتھ نقل شدہ احادیث ہیں۔علامہ مجلسی  نے بحار الانوار میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ان احادیث کو چالیس سے زیادہ موثق شیعہ علماء نے ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل کیا ہے اور یہ احادیث پچاس سے زیادہ شیعوں کی تفسیر ، حدیث  اور کلام کی کتابوں میں نقل ہوئیں ہیں ۔ علاوہ ازیں شیعوں کے کچھ بزرگ علماء نے رجعت کے بارےمیں مستقل کتاب لکھی ہے۔ اسی طرح دوسرے افراد نے بھی اپنی کتابوں میں باب غیبت میں اس کے بارے میں بحث کی ہے ۔ لہذا اگر کوئی اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت پر ایمان رکھتاہو تو ان تمام دلائل  کے بعد اس مسئلے میں شک و تردید کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔اسی لئے رجعت کے بارے میں شیعہ علماء کا اجماع ہے ۔علمائے علم کلام نے رجعت کے اثبات کے لئے ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی احادیث سےاستدلال کرنے کے علاوہ قرآن کریم کی بعض آیات سےبھی استدلال  کرتے ہیں ۔ ہم یہاں صرف دو نمونےذکر کرتےہیں:

1۔{وَ يَوْمَ نحَشُرُ مِن كُلّ‏ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّن يُكَذِّبُ بِايَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُون}  اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھر انہیں روک دیا جائے گا۔یہ آیت اس دن کے بارے میں بیان کر رہی ہے کہ جس دن ہر امت سے خدا کی نشانیوں کو جھٹلانے والے چند افراد زندہ ہو ں گے ۔اس آیت  میں {حشر}صرف اورصرف ایک گروہ{ناصالح افراد} کے ساتھ مخصوص ہے ۔یعنی اس آیت  میں صرف ایک خاص گروہ کے زندہ ہونے کا ذکر موجود ہے حالانکہ قیامت کے دن{حشر}عام ہوگا یعنی تمام انسان محشور ہوں گے جیساکہ ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : {وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنهْمْ أَحَدًا}اور سب کوہم جمع کریں گےاوران میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
بنابریں قرآن کریم دوقسم کے {حشر}کے بارے میں خبر دے رہا ہے ۔1۔حشرعمومی جو قیامت اور آخرت کے ساتھ مربوط ہے۔2۔حشر خصوصی جو چند افراد کے ساتھ مخصوص ہے ۔چونکہ یہ آخرت کے ساتھ مربوط نہیں ہے  لہذا یہ دنیا میں ہی انجام پائے گا اوریہ وہی رجعت ہے ۔
2۔{قَالُواْرَبَّنَاأَمَتَّنَااثْنَتَينْ‏وَأَحْيَيْتَنَااثْنَتَينْ‏فَاعْترَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلىَ‏ خُرُوجٍ مِّن سَبِيل}وہ کہیں گے :اے ہمارےپروردگار!تو نے ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی ہے، اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کر تےہیں تو کیا نکلنے کا کوئی راہ ہے ؟ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں خبر دے رہی ہے جو قیامت کےدن عذاب الہی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔یہ لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لئے خدا کی بارگاہ میں بخشش  طلب کرتے ہیں ۔یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ یہ افراد دو مرتبہ مرنے اور دو مرتبہ زندہ ہونے کے بارے میں خبر دے رہے ہیں ۔یعنی خدا نے انہیں دو مرتبہ موت دی اور دومرتبہ زندگی عطاکی حالانکہ تمام انسان ایک دفعہ مرتے ہیں اور ایک دفعہ ہی زندہ ہو تے ہیں یعنی روح  انسان کےبدن میں دوبارہ داخل ہو تی ہےتاکہ وہ اپنے اعمال کا جزا و سزا دیکھ سکے۔مذکورہ گروہ دو مرتبہ مر جاتا ہے اور دو دفعہ زندہ ہو جاتاہے بنابریں یہ مطلب عقیدہ رجعت کےساتھ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ رجعت کرنےوالوں کے لئے دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی حاصل ہوگی ۔

منکرین رجعت اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں : دو مرتبہ موت واقع ہونےسےمراد ایک دنیوی زندگی سےپہلے والی موت اور دوسری دنیوی زندگی کے بعد آنےوالی موت ہے ۔اسی طرح دو زندگی سے مراد ایک دنیوی زندگی اور دوسری اخروی زندگی ہے ۔یہ تفسیر لفظ {اماته}کے ساتھ ناسازگار ہے کیونکہ اس سےمراد صاحب حیات کو موت دیناہے یعنی پہلے وہ حیات رکھتا ہو پھر اسے موت دی جائے۔ بعبارت دیگر لفظ{اماته}اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ موت سے پہلے ایک زندگی ہے جبکہ انسان کو اس  کی ابتدائی شکل میں موت دینا یعنی جب وہ مٹی یا نطفہ کی شکل میں موجود ہو اورابھی تک اس کے بدن میں روح نہ پھونکی گئی ہو تویہ صاحب حیات نہیں ہے کیونکہ ایسے مقام پر لفظ {اماته}استعمال نہیں ہوتا ۔علاوہ ازیں یہ انسانوں  کا کلام ہے  اور اس کا ظہور بھی یہی ہے کہ انہیں انسانی زندگی  گزارنے کے بعد دو مرتبہ موت دی گئی ہے ۔

بعض افراد اس آیت کی تفسیر میں لکھتےہیں :دو مرتبہ موت دینے سے مراد ایک دنیوی زندگی کےبعد آنےوالی موت ہے اور دوسری منکرونکیر کےسوالات کا جواب دینے کے لئے قبر میں زندہ ہونے کے بعدآنےوالی موت ہے ۔اسی طرح دو زندگی سےمرادبھی ایک دنیوی زندگی اور دوسرا قبرمیں زندہ ہونا ہے ۔
یہ تفسیربھی آیت کے ظہور کے ساتھ سازگار نہیں ہے کیونکہ آیہ کریمہ کا ظہور یہ ہے کہ یہ افراد جوعذاب الہی میں گرفتار ہیں اپنے ان دو زندگیوں  کے بارے  میں  [جو ان کے اختیارمیں دی گئ تھی}نادم ہیں کیوں انہوں نے اپنی  ان زندگیوں کومعقول اور جائز طریقے سے نہیں گزاری کہ آخرت میں عذاب کے مستحق نہ ہوں جبکہ یہ اس صورت میں ہوگا جب انہیں دو مرتبہ زندگی اسی دنیامیں ہی ملی ہوں کیونکہ عمل اسی دنیا کے ساتھ مختص ہیں لیکن قبر میں زندہ ہو نا عمل کے لئے نہیں ہے تاکہ یہ افراد اپنی اس زندگی کے  گناہوں کے بارے میں ندامت کا اظہار کریں  ۔

رجعت کےدلائل میں سےایک دلیل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث ہے جو شیعہ و اہلسنت دونوں کے نزدیک مقبول و مشہور ہے ۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ امتوں میں جتنے وقائع اور حوادث رونما ہوئے وہ سب امت اسلامی میں بھی رونما ہوں گے۔صحیح بخاری میں ابوسعید خدری سے یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرابشبر،وذراعا بذراع} “تم  گذشتہ  امتوں کی روش پربعینہ عمل کرو  گے”۔ شیخ صدوق {کمال الدین} میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنقل کرتےہیں کہ آپ ؐنے فرمایا:{ کل من کان فی الامم السالفة فانه یکون فی هذه الامة مثله،حذو النعل بالنعل و القذة بالقذة}جو کچھ گذشتہ امتوں میں واقع ہوا وہ سب اس امت میں بھی واقع ہو گا۔واضح رہے کہ رجعت گذشتہ امتوں میں رونما ہونے والے اہم حوادث میں سے ہے۔ پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ حدیث کی روشنی میں امت اسلامی میں بھی رجعت واقع ہوگی  ۔مامون عباسی نے جب امام رضا علیہ السلامسے رجعت کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی حدیث سے استدلال فرمایا۔علامہ شبر رجعت کے عقلی اورنقلی دلائل ذکر کرنے کے بعد اسے مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :گزشتہ دلائل کی روشنی میں رجعت پر اجمالی طور پر ایمان رکھنا واجب ہے لیکن اس مسئلہ کی تفصیل ائمہ اہل بیت علیہم السلام  پر ہی چھوڑنی چاہیے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی رجعت کے بارےمیں روایات متواتر ہیں جبکہ بقیہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی رجعت  کے بارے میں بھی روایات  توا تر سے نزدیک ہیں لیکن ان کی رجعت کی کیفیت ہمارے لئےواضح نہیں ہے۔اس بارےمیں علم صرف خدا اور اولیاء کو ہی حاصل ہیں۔

حوالہ جات:
۱۔بقرۃ،259۔
۲۔مائدۃ،110۔
۳۔ بحار الانوار ،ج53،ص132 – 134۔
۴۔نمل:83۔
۵۔کہف،47۔
۶۔مصنفات الشیخ المفید،ج7،ص33۔{المسائل السروریۃ}
۷۔غافر،11۔
۸۔مصنفات الشیخ المفید،ج7 ،ص33 – 35 {المسائل السروریہ}
۹۔صحیح بخاری : ج 9،ص 112،کاتاب الاعتصام بقول النبی{ص}۔
۱۰۔کمال الدین ،ص 574۔ا
۱۱۔بحار الانوار ،ج53،ص59،حدیث 45۔
۱۲۔حق الیقین،ج2،ص35۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

سقوط ڈھاکہ

وحدت نیوز(آرٹیکل) وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو ماضی کے تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ھوئے اپنے مستقبل کو تابناک بناتی ہیں مگر ہم ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے اسی ڈگر پر چلے جارہے ھیں یہاں46سال قبل 16دسمبر 1971 کے دن پاکستانیوں نے اپنے وطن کو دو حصوں میں منقسم ہوتے دیکھا تھا۔ یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو صدق دل سے تسلیم نہیں کیا اوراسکی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں آپنی ریشہ دیونیوں کا آغاز اور ھندو اساتذہ نے بنگالی بچوں میں مغربی پاکستان کے متعلق زہر اگلناشروع کیا اور جب وہ بچے جوان ہوئے تو انہوں نے ان محرومیوں کا اظہار کرنا شروع کیا تومغربی پاکستان میں بیٹھے حکمرانوں نے ان کی طرف توجہ نہ دی اور الٹا حقوق کے حصول کو وطن دشمنی قرار دیا۔ یہی وجہ تھی ایک نظریاتی مملکت اپنے قیام کے چند ہی سالوں بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور اشرافیہ اسی ڈھٹائی سے اسی طرز عمل پر گامزن ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا یہ بیان کہ ’’آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔‘‘ اْن کے دل میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف چھپی نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اندرا گاندھی نجی محفلوں میں اکثر یہ بھی کہا کرتی تھیں کہ ’’میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا جب میں نے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش بنایا۔‘‘

یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ بھارت کی مداخلت کے بغیر پاکستان دولخت نہیں ہوسکتا تھا لیکن بھارت کی مداخلت کے لئے سازگار حالات ہمارے نااہل لالچی حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے خود پیدا کئے۔ہم بھارت پر یہ الزام کیوں عائد کریں کہ اْس نے یہ مذموم کھیل کھیلا، دشمن کا کام ہی دشمنی ہوتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمراں دشمن کی دشمنی کے آگے بند باندھنے کے بجائے دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت ملک توڑنے کا سبب بنتی ہے اور علیحدہ وطن کے لئے کوشاں رہتی ہیکیونکہ وہ اکثریت سے متنفر ہوتی ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی جو ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی، میں اس احساس محرومی نے جنم لیا کہ وسائل کی تقسیم میں اْن سے ناانصافی اور معاشی استحصال کیا جارہا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو بنگالی زبان سے بھی ناآشنا تھے۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے ملک سے زیادہ پارٹی یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی اگر 3 مارچ کے اجلاس میں مغربی پاکستان کے ممبران قومی اسمبلی شریک ہوجاتے تو مجیب الرحمان اور بنگالی علیحدگی پسند گروپوں کو تقویت نہ ملتی اس سلسلہ میں جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمٰن کی ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی کیونکہ یحییٰ خان عدم مفاہمت کی صورتحال سے فائدہ اٹھاکراپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔بے یقینی کی ایسی صورتحال میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کا ملک دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئیمشرقی پاکستان کے لوگوں کو علیحدہ وطن کا جواز مہیا کیا جس کا اظہار انہوں نے 23 مارچ 1971ء کو’’یوم پاکستان‘‘ کے بجائے ’’یوم سیاہ‘‘ مناکر اور سرکاری عمارتوں پر بنگلہ دیشی پرچم لہرا کر کیا جس کے بعد فوج نے باغیوں سے نمٹنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا۔

اس صورتحال کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور فوج کے خلاف بنگالیوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے جیسے منفی پروپیگنڈے شروع کردیئے۔ یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ نے 71ء کی جنگ سے بہت پہلے مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کی تنظیم مکتی باہنی کی مدد کے لئے ایک قرارداد منظور کی تھی جبکہ بھارتی فوج مکتی باہنی کے شدت پسندوں کو ٹریننگ، ہتھیار اور مدد فراہم کرنے میں پیش پیش رہی۔مکتی باہنی کے ان باغیوں نے 71ء کی جنگ سے قبل ہی پاک فوج کے خلاف اپنی گوریلا کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا اور3 دسمبر 1971ء کو جب پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تو ان باغیوں جن کی تعداد تقریباً 2 لاکھ بتائی جاتی ہے، نے بھارتی فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔اور ہمارے فوجی افسران نشے میں بدمست رہے اور نہ ہی پیشہ ورانہ انداز سے مشرقی پاکستان جنگ لڑی جبکہ مغربی پاکستان میں موجود افواج تماشہ ہی دیکھتی رہی۔جنرل یحی جرنل رانی کے ساتھ لطف اندوز ھوتا رہا۔مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں افواج کو مس گائید کیا گیا اور جس دشمن کو ہم نے 1965 میں شکشت فاش کیا 1971 میں اسی دشمن سے ذلت آمیز شکشت سے دوچار ہوئی۔

سانحہ ڈھاکہ پر بننے والا حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو آج تک پبلک نہی کیا۔ دنیا کی کوئی بھی فوج اپنے ہی عوام سے کبھی جنگ نہیں جیت سکتی، یہی کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان۔ کے بعد بھارتی فوج اور عوامی لیگ کا یہ پروپیگنڈہ کہ پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد شہریوں کو قتل کیا، درست نہیں کیونکہ حمود الرحمٰن کمیشن کے مطابق ان ہلاکتوں کی اصل تعداد 26 ہزار ہے جو مکتی باہنی کے علیحدگی پسند تھے اور انہی علیحدگی پسندوں نے پاکستان کی حمایت کرنے والے لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام کیا۔آج بھی لاکھوں بہاری پاکستانی پرچم لہرائے پناہ گزین کیمپوں میں ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان محب وطن لوگوں کونہ بنگلہ دیش قبول کررہا ہے اور نہ ہی پاکستان۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عدم مفاہمت اور دوسرے کے مینڈیٹ اور حقوق کا احترام کرنا بہت ضروری ہے اور محرومیوں،مایوسیوں اور نا مناسب سیاسی فیصلوں سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتاہے۔۔ اگر جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی بجائے اپنی افواج کو دریاؤں سے نکال کرباؤل فال میں حکمت عملی سے لڑتے تو بھارتی سورمائوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا سکتا تھا اورذلت آمیز شکشت سے بچا جا سکتا تھا۔یہ کتنا شرم ناک فعل تھا کہ جنرل نیازی جنر ل اروڑا کے سامنے لطیفے سناتا رہا اور اس کا سر شرم سے جکھنے کی بجائے بے شرمی سےپنجابی اشعار سناتے سناتے سلنڈر کیا۔اس طرح پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ باب کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج پاکستان ایک بار پھر اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے اور دشمن طاقتیں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہی ہیں لیکن ایسے کڑے وقت میں حکمران اور سیاستدان اقتدار اور ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ملکی سلامتی کی کوئی پرواء  نہیں۔ افسوس کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے اب تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔

 تحریر :محمد عتیق اسلم

وحدت نیوز(راولپنڈی) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے اور امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے خلاف راولپنڈی میں مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن راولپنڈی ڈویژن کے زیراہتمام کمرشل مارکیٹ سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جو مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے مری روڈ پر پہنچی، اس موقع پر شرکاء کی جانب سے امریکہ اوراسرائیل کیخلاف شدید احتجاج کیا گیا اور امریکی صدر کے اس فیصلے کو مسترد کیا گیا، احتجاجی ریلی سے مجلس وحدت مسلمین ضلع اسلام آباد کے سیکریٹری جنرل مولاناسید حسین شیرازی اور آئی ایس اوکے ڈویژنل صدر برادر طاہرنے خطاب کیا۔

مظاہرین سے خطاب میں رہنماوں کا کہنا تھا کہ ثابت ہوگیا کہ امریکہ شیطان بزرگ ہے جو کسی اصول، ضابطے اور قانون کو تسلیم نہیں کرتا، بیت المقدس فلسطینیوں کا ہے اور فلسطین عالم اسلام کے دل میں رہتا ہے، امریکہ کے ناجائز بچے کا وقت ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی کم ہورہا ہے اور یہ جعلی ریاست ایک دن اپنے انجام کو پہنچے گی۔ رہنماوں کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنا فیصلہ واپس لے ورنہ اسے عالم اسلام کی مزید نفرت لینا ہوگی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree