The Latest

خواتین کا عالمی دن اور اسلام

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر سال۸ مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منائی جاتی ہے اور تقریباََ دنیا کے تمام ممالک میں اس دن خواتین کو درپیش مسائل کا ذکر اور اُن کے حقوق کے لئے مختلف سیمینار یا پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کی تاریخ کچھ زیادہ قدیم نہیں ہے یہ لگ بھگ ایک صدی قبل روس میں Bread and Peace کے مظاہرے کے بعد سے منایا جانے لگا۔ 1908 میں روس کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین نے مشقت اور اجرت میں کمی کے باعث مظاہرےشروع کئے تھے تاکہ ان کے کام کے اوقات کو دس گھنٹے کے بجائے آٹھ گھنٹے کیا جائے اور اُن کی اجرت کو بڑھایا جائے ۔اسی طرح پھر امریکہ میں, 28 فروری 1909 خواتین کے قومی دن کے طور پر منایا گیا۔ اس کے بعد خواتین نے اپنے حقوق کی آواز کو دبنے نہیں دیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ مختلف حادثات و واقعات بھی رونما ہوئے اور خواتین نے زبردست جدو جہد کا مظاہرہ کیا اور ہر موقع پر ہزاروں کی تعداد میں خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلنے لگیں۔ بلآخر 1975 میں اقوام متحدہ نے آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منانا شروع کیا اور اس کے بعد ہر سال دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے ۔

اگر ہم خواتین کی حقوق کے حوالے سے تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب، یونان،مصر،مشرق وسطیٰ ،ہندوستان غرض یہ کہ ہر جگہ عورت مظلوم تھی عورت کی کوئی معاشرتی شخصیت نہیں تھی۔ قدیم یونان میں عورت کو ایک تجارتی سامان کی طرح سمجھی جاتا اور بازاروں میں خرید و فروخت کی جاتی تھی یہاں تک کی شوہر کی موت کے بعد زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا تھا۔ بعض جگہوں پر باپ یا شوہر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ بیویوں اور بیٹیوں کو قتل کریں یا بیچ دیں۔ ہندوستان میں شوہر کی موت کے بعدعورت کو بھی شوہر کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ اس طرح شوہر کو تنہائی سے نجات ملے گی ۔ عرب میں بھی لڑکیوں کی پیدائش شرمندگی اور بے عزتی تصور کی جاتی تھی اور پیدائش کے ساتھ ہی لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا اور خواتین کو میراث سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ جس زمانے میں عورت کو یورپ اور دیگر اقوام میں انسانوں میں بھی شمار نہیں کیا جاتا تھا ، صنف نازک کو فقط کاروبار یا خواہشات نفسانی کی تسکین کا سامان سمجھا جاتا تھا اُس وقت اسلام نے خواتین کی مقام و منزلت اور ان کے حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کی. عورت کو ذلت سمجھنے والوں کو اسلام نے بتادیا کہ عورت ایک عظیم ہستی ہے۔ حضرت بی بی فاطمہ ؑ کے احترام میں رسول اللّٰہ کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور رسول اللّٰہ کا یہ عمل دنیا والوں کو عورت کی مقام و منزلت اچھی طرح سمجھا رہا ہے۔ اسلام نے عورت کو باقاعدہ طور پر ایک مقام عطا کیا اور ان کے حقوق کو تفصیل سے بیان کیا اور یہ بتایا کہ عورت کو زندہ رہنے کا حق ہے، ملکیت کا حق ہے،آزادی رائے کا حق ہے، ووٹ کا حق ہے،زندگی جینے کا حق ہے، اور عورت معاشرے میں ہر جگہ مردوں کے برابر حق رکھتی ہے۔

اسلام عور ت کو مرد کی طرح کامل انسانی روح، ادارہ اور اختیار کا حامل سمجھتا ہے ، اسی لئے اسلام دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتا ہے اور اسی لیے قرآن پاک میں دونوں کو "یا ایھالناس" اور "یا ایھاالذین آمنو " کے زریعے مخاطب کیا گیا ہے, اسلام نے دونوں کے لئے تربیتی، اخلاقی اور عملی پروگرام لازمی قرار دیے ہیں۔ اسلام بغیر کسی رکاوٹ کے عورت کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ہر قسم کے مالی معاملات انجام دے جیسا کہ ارشار ہوتا ہے:" مردوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمایا ہے اور عورتوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے"(سورہ نساء، آیت۳۲)۔ آج جن ممالک کی ہم پیروی کرتے ہیں اور اُن کو اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں کچھ عرصے پہلے تک وہاں پر بھی عورتوں کو ذلیل و حقیر تصور کیا جاتا تھا بلکہ آج بھی جس طرح اسلام نے عورتوں کے حقوق اور تحفظ کا ذکر کیا ہے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں وہ حقوق عورتوں کو میسر نہیں ہیں، عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور بداخلاقی کے واقعات اسلامی ممالک سے ذیادہ روشن خیال ملکوں میں نظر آتے ہیں۔ امریکہ میں آج بھی صدر کے انتخاب کے لیے کسی خاتون کے مقابلے پر کسی سیاہ فام کو ترجیح دینا پسند کرتے ہیں جبکہ رنگی و نسلی تعصب کوٹ کوٹ کے ان کی رگوں میں موجود ہےلیکن پھر بھی یہ لوگ جتنا پست و کمتر عورت کو سمجھتے ہیں کالوں کوبھی نہیں سمجھتے. اسلام نے تو پہلے ہی رنگ و نسل کی برتری کی نفی کی ہے, جس زمانے میں عورتوں کو اپنے نظریے اور رائے کے اظہار کا کوئی حق نہیں تھا  اُس زمانے میں دینِ اسلام مرد و عورت کے لئے نظریہ دینے ،ووٹ ڈالنے (بیعت کرنے) اور مساوات و برابری کا قائل تھا۔

 رسول اکرم ؐ کا ارشار ہے"عورتیں تم مردوں کے لئے لباس ہیں اور تم مرد بھی عورتوں کے لئے لباس ہو" دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں"تم میں سے وہ شخص سب سے بہتر ہے کہ جو اپنی بیوی اور بیٹیوں سے خوش اخلاقی سے پیش آئے"۔ اس کے علاوہ بھی قرآنی آیات و احادیث خواتین کے حقوق ،فضائل اور احکامات سے بھری پڑی ہیں مگر یہ کہ ہر مسلمان مرد و عورت اسلامی تعلیمات کے بارے میں صحیح سے تحقیق کرے تو اُس کو اسلامی اصولوں کا علم ہو۔ پہلے زمانے میں تعلیم حاصل کرنا ہر ایک کے بس میں نہ تھا آج کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دور ہے تمام معلومات ہر ایک کی دسترس میں ہیں۔ اگر ہم ان سہولیات کو فضول کاموں کے بجائے اچھے کاموں کے لئے استعمال میں لائیں تو معاشرے سے برائیاں بھی ختم ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی ہم اپنی مشکلات کا حل بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی صاحبِ عقل تحقیق کرے اور دنیا بھر میں موجود مسائل کا حل تلاش کرے تو اُس کو اسلامی تعلیمات و احکامات ہی سب پر سبقت لیتے نظر آئیں گے۔ ہم اس قدر دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہیں کہ ہمیں اپنا ہوش ہی نہیں، ہم مغرب سے آئی ہر چیز کو بلا چوں و چراں سر آنکھوں پر رکھ لیتے ہیں ہم کبھی اس کے مثبت اور منفی اثرات اوراُس کے مقاصد کی طرف توجہ نہیں کرتےاور اس کی جگہ اگر کوئی اسلامی چیز یا اسلام کے نام سے کچھ آجائے تو فوراََ ہزاروں سوالات کر ڈالتے ہیں کیوں کہ ہم کھانے پینے سے لے کر تعلیم کے حصول تک مغرب کی پیروی کرتے ہیں اور اپنی دینی تعلیمات کو صرف نام کی حد تک رکھے ہوئے ہیں تو ظاہر سی بات ہے ہمیں مغربی چیزوں میں ہی زیادہ حقیقت نظر آئے گی۔

 آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کسی کی سوچ و فکر کو تبدیل کرنا کوئی ناممکن بات نہیں ہر حقیقت کو وہم اور ہر وہم کو حقیقت بنا کر پیش کرنا عام سی بات ہے جس کی وجہ سے ہم صحیح و غلط کی تمیز نہیں کر پا رہے۔ یہ بلکل اس مثال کی طرح ہے کہ اسلامی ممالک میں گٹر کا ڈھکن کھلا ہو تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے اور مغربی ممالک میں ہر پانچ سیکنڈ میں ایک عورت کی عزت لوٹی جاتی ہے تو روشن خیالی اور آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم واقعی مسلمان ہیں تو پھر ہمیں اسلامی علوم اور قوانین پر عمل کرنا ہوگا، ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے تو پھر مغربی سیرت کو چھوڑ کر سیرت حضرت محمد ؐ کو اپنانا ہوگا، ہمیں اس تہذیب و تمدن کی جنگ کو جیتنا ہوگا, ہم کیوں دوسروں کے رہن سہن, تہذیب و ثقافت کو اپنائیں، دوسروں کی تہذیب کو اپناتے وہ ہیں جن کی اپنی کوئی تہذیب نہ ہو اور الحمد اللہ ہمارے پاس زندگی گزارنے سے لیکر حکومتی قانون تک سب کچھ موجود ہے، نہیں ہے تو صرف جستجو ، شعوراور عمل نہیں ہے۔ اس شعور کو پھیلانے کی ذمہ داری حکومت، عوام اور میڈیا تینوں کی ہے۔ اگر کوئی بھی ذمہ دار شخص پہلے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور پھر معاشرتی حالات کو مد نظر رکھ کر کام کرے تو پھر کوئی چیز ناممکن نہیں۔

میں عالمی خواتین کے دن کا مخالف نہیں ،ناہی اُن خواتین کی جدوجہد کو نظر انداز کرتا ہوں جن کی وجہ سے آج دنیا والے آٹھ مارچ کو خواتین کے نام سے منانے پر مجبور ہیں۔ مگر میری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں ،سرکردہ لوگوں اور عالمی حقوق کے علم برداروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ اگر ہمارے ملک میں یوم خواتین کو سردار انبیاء ، رحمت اللعالمین ؐ کی بیٹی خاتون جنت حضرت بی بی فاطمۃالزہرا ؑ کی ولادت کے دن یعنی بیس جماد الثانی کو منایا جائے تو بہتر نہ ہوگا؟ کیونکہ جب عرب میں لڑکیوں کو ذلت و رسوائی تصور کیا جاتا تھا اور اُن کو زندہ دفن کیا جاتا تھا اور باقی دنیا میں بھی خواتین کی کوئی اہمیت نہیں تھی تو  اس وقت رسول اکرم ؐ نے دنیا کو بتایا کہ خواتین کی عظمت اورحقوق کیا ہیں اور دوسری طرف حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی خود بھی خواتین کے لئے مشعل راہ ہے۔ حضرت فاطمہ (س ) کی شان کے لئے رسول اکرم (ص ) کی یہ احادیث کافی ہیں، *حضور اکرم (ص ) فرماتے ہیں: "فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ھیں"،"فاطمہ میرا ٹکڑا ھے جس نے اسے تکلیف پھنچائی اس نے مجھے تکلیف دی ہے اور جس نے اس سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی ھے"* یہ دو احادیث ہمارے لئے کافی کہ ہم ایک ایسی ہستی کو اپنا آئیڈیل بنائیں جس کی زندگی کا ہر پہلو قیامت تک کی خواتیں کے لئے روشن ستارے کی مانند ہیں۔

تحریر۔۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز (اصفہان) مجلس وحدت مسلمین شعبہ اصفہان کی طرف سے سفیر انقلاب کردار و گفتار کے غازی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی کا انعقاد کیا گیا جس میں حجتہ الاسلام والمسلمین علامہ ڈاکٹر سیدشفقت شیرازی مرکزی سیکریٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان  اور برادر محترم سید دانش نقوی فرزند ارجمند ڈاکٹر محمد علی نقوی نے خطاب کیا اور شہید ڈاکٹر کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بیان کیا اور طلاب کے لیے انکی روش کو نمونہ کے طور پر پیش کیا ۔پروگرام میں  اصفہان کے اردو زبان کےتمام تشکلات تشکل عماریون،تشکل شہید عارف حسینی ،تشکل بین الملل ،تشکل المھدی ھندوستان ،و تشکل قرآن و عترت کے مسئولین اور طلاب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

وحدت نیوز (لاہور) آل پاکستان مسلم لیگ پنجاب کے صدر ڈاکٹر فرخ چیمہ کی وفد کے ہمراہ مجلس وحدت مسلمین کےمرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی  سے ملاقات، تفصیلات کے مطابق آل پاکستان مسلم لیگ پنجاب کے صوبائی صدر ڈاکٹر فرخ چیمہ نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو آل پاکستان مسلم لیگ کے مشاورتی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر فرخ چیمہ کی سربراہی میں آل پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی نمائندہ وفد نے وحدت ہاؤس پنجاب میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی، مرکزی سیکریٹری شماریات علی مہدی خان اور صوبائی سیکریٹری تنظیم سازی مولانا سید نیاز حسین بخاری سے ملاقات کی اور اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ اس موقعہ پر ملکی سیاسی صورتحال کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور قومی سطح پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے قومی مؤقف کی تائید کی گئی اور سیاسی جماعتوں کے باہمی اشتراک عمل کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے باہمی روابط کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا گیا۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین کی ریاستی شوریٰ کے بھر پور اجلاس کا انعقاد ،جبکہ ریاستی کابینہ کے علاوہ ضلعی نمائندگان کی شرکت۔صدرات قائمقام سیکرٹری جنرل علامہ سید طالب حسین ہمدانی نے کی۔اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ریاست میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش قرار دینے میں حیرت کا اظہار۔علامہ تصوحسین نقوی الجوادی پر قاتلانہ حملہ کے حوالے سے ٹھوس پیش رفت نہ ہونا تشویش ناک امر ہے ،مقررین کا خطاب ۔ ریاست کے امن کو درپیش خطرات کا احساس نہ کیا گیا ۔تو ریاست بھر میں احتجاجی سلسلہ شروع کیا جائیگا۔شوریٰ کے اجلاس کا فیصلہ ۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید طالب حسین ہمدانی نے کہا کہ آزادحکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ خطہ میں امن کی فضا کو درپیش خطرات کا احساس کرے ۔لیکن علامہ تصور الجوادی پر قاتلانہ حملہ کے بعد سے اب تک آزادکشمیر میں ریاستی سطع پر ذرا بھی سنجیدگی اور احساس ذمہ داری کا مظاہر ہ دیکھنے میں نہیں آیا۔مجلس وحدت مسلمین کا اصولی اور جائز مطالبہ ہے کہ ریاست میں امن و استحکام کی فضا کو تباہ کرنے کی کوششوں کو سنجیدگی سے لیا جائے ۔شوریٰ کے اجلاس سے مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شہری کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی پہلی ذمہ داری ہے ۔علامہ تصور حسین نقوی الجوادی ریاست کے درجہ ائول باشندے ہونے کے علاوہ ایک عالم دین ہیں ۔اور ریاست کی تمام دینی و سیاسی قوتیں علامہ پر قاتلانہ حملے کیخلاف اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروا چکی ہیں۔اسکے باوجود اگر اب تک تفتیش کو کسی مناسب انداز میں آگے نہیں بڑھایا جاسکا ۔تو اس کا ایک ہی مطلب ہے ۔آزادکشمیر میں ہندوستان کی خواہشات پر عمل کیا جارہا ہے ۔ہندوستان تحریک آزادی کے بیس کیمپ میں امن نہیں دیکھنا چاہتا ۔اور اُسکی کوششیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔مقررین نے اہالیان مظفرآباد کے دھرنے کے موقع پر متعلقہ ذمہ داران کی طرف سے قاتلانہ حملے کے ذمہ دارگرفتاررکئے جانے کی بات کو مضحکہ خیز قراردیا ۔

وحدت نیوز (قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم کے زیراہتمام ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کی 22ویں برسی منائی گئی۔ برسی کا پروگرام علمی مرکز مدرسہ حجتیہ میں منعقد ہوا، برسی کے اجتماع میں علماء، طلاب اور زائرین کی کثیر تعداد نے شرکت کی، پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری امور خارجہ حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے کہا کہ شہید کی پوری زندگی قوم و ملت کی رہنمائی، انکی خدمت اور جوانوں کی تربیت میں گزری، شہید نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود سفیر انقلاب بن کر پوری دنیا کے مظلومین کے حقوق کی جنگ لڑی اور اپنی پوری زندگی شناخت وب صیرت کیساتھ مسلسل جھاد میں گزاری، انہوں نے مزید کہا کہ شہید کی ایک بنیادی اور اہم خصوصیت انکی بصرت اور دشمن شناسی تھی، وہ دشمن کے عزائم اور ارادوں سے باخبر تھے اور انکی سازشوں کے مقابلے میں ہمہ وقت آمادہ و تیار رہتے تھے۔

برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سابق ڈائریکٹر ثقافتی مرکز اسلامی جمہوریہ ایران اسلام آباد جناب ڈاکٹر تقی صادقی نے کہا کہ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی اعلٰی الٰہی اقدار و صفات سے متصف تھے، انہوں نے ہمیشہ دین و ملت کی خدمت، جوانوں کی تربیت اور تمام تر مشکلات کے باوجود اجتماعی سیاسی و ثقافتی امور میں موثر کردار ادا کیا۔ وہ حقیقت میں ملت پاکستان کے ڈاکٹر چمران تھے۔ جوانوں کو چاہئے کہ انکی الہام بخش زندگی سے درس لیں، قوم و ملت کی بے لوث خدمت کریں اور اپنے زمانے کے ولی کی معرفت کیساتھ انکی اطاعت محض کریں،شہید کی برسی میں انکی شخصیت اور دیگر شہداء کے حوالے سے ثقافتی اسٹالز لگائے گے تھے اور سفیر انقلاب کے عنوان سے خصوصی نشریہ شرکاء کی خدمت میں ہدیہ دیا گیا۔

وحدت نیوز(گلگت) سرکاری آفیسران ریاست کے محافظ بنیں، نا اہل حکمرانوں کے غلط احکامات کے سامنے ڈٹ جائیں تو عوام ان ریاستی اداروں کی مکمل سپورٹ کرینگے ۔جو آفیسران اپنی عزت کو دائو پر لگاکر حکومت کے غیر قانونی احکامات کو تسلیم کرینگے انہیں عنقریب عوامی عدالت نشان عبرت بنائے گی۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل سید علی رضوی نے کہا ہے کہ پولیس آفیسران نے جس طرح شیڈول فور میں شامل افراد کو پولیس فورس میں حالیہ بھرتیوں کی میرٹ لسٹ سے خارج کیا ہے وہ قابل تحسین اقدام ہے ۔پولیس آفیسران مزید جرات کا اظہار کرتے ہوئے پیراشوٹ سے میرٹ لسٹ پر آنے والے بقیہ 35 افراد کو بھی فارغ کرکے مثال قائم کریں۔حالیہ بھرتیوں میں بعض پولیس آفیسران نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی احکامات ماننے سے انکار کیا ہے جو کہ ریاست کے مفاد میں ہے اور عوام ان کی اس جرات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ تقرریوں میں شفافیت کے اعتبار سے حکومت اتنی داغدار ہوچکی ہے کہ اب وزیر اعلیٰ کے منہ سے میرٹ کا نام بھی اچھا نہیں لگتا۔کچھ وزرا جو کریشن کے ماسٹر مائنڈ ہیں وہ اخباری بیانات کے ذریعے حکومت کا ناکام دفاع کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔پولیس بھرتیوں میں بے ضابطگی کرکے حکومت نے اپنا اصل چہرہ دکھایا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے میرٹ کا خاص شراب ان وزراء کو پلایا ہے جنہیں پیراشوٹ سے بھرتی ہونے والے 37 افراد کی لسٹ نظر ہی نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین نے حالیہ پولیس بھرتیوں میں کرپشن کے ٹھوس شواہد مقتدر حلقوں تک پہنچائے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ مقتدر حلقے اس سلسلے میں ایکشن لیتے ہوئے پیراشوٹ سے بھرتی ہونے والوں کے نام لسٹ سے فارغ کرینگے اور میرٹ پر اترنے والے افراد کو ان کا حق دلوائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم حکومتی اقدامات کے آگے بے بس نہیں اور نہ ہی یہاں کے عوام لاوارث ہیں ہم حکومت کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ اپنا قبلہ ٹھیک کرلے ورنہ عوامی مظاہرین کا سمندر گلگت بلتستان کی سڑکوں پر ہوگا۔

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین (شعبہ سیاسیات)کے زیراہتمام ملکی حالیہ صورتحال، مزارات پر حملے اور تقدس کی پامالی کے خلاف ’’تحفظ مزارات ِ اولیائو اللہ ‘‘کانفرنس 26مارچ کوجنوبی پنجاب کی بزرگ روحانی شخصیت حضرت شاہ شمس سبزواری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار ملتان میںمنعقد ہوگی۔ ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے ترجمان ثقلین نقوی کے مطابق ’’تحفظ مزارات ِ اولیائو اللہ ‘‘کانفرنس میں جنوبی پنجاب بھر کے تمام مزارات کے سجادہ نشین، گدی نشین، علماء و مشائخ ،سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین شرکت کریں گے۔ کانفرنس کا مقصد ملک دشمن عناصر کی جانب سے بزدلانہ کاروائیوں کے خلاف اور مزارات مقدسہ کے تحفظ اور تقدس کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ کانفرنس کے آخر میں تمام جماعتوں اور قائدین کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جائے گا۔ کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے دعوت ناموں کا سلسلہ جاری ہے، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما 24مارچ کو پریس کانفرنس کریں گے اور انتظامات کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیں گے۔

کاش ذمہ داریوں سے نہ بھاگے ہوتے۔۔۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) ذمہ دار لوگوں کے گرد سارا معاشرہ گھومتا ہے، جولوگ اپنی ذمہ داری کا صحیح تعین کرتے ہیں اور پھر اسے ٹھیک طریقے سے ادا کرنے کا عزم کرتے ہیں وہی معاشرے میں کوئی سنجیدہ کردار ادا کر پاتے ہیں۔ ایک مورخ نے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ گورنمنٹ ہاوس کراچی پہنچ کر قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اپنے ہمراہ سے کہا تھا کہ شاید تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ مجھے کبھی یہ امید نہ تھی کہ پاکستان میری زندگی میں قائم ہوجائے گا۔ہم نے جو کچھ حاصل کر لیا ہے ہمیں اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔[1]

اس سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم نے اپنی ذمہ داری ادا کی تھی اور نتیجہ انہیں ان کی امید سے بڑھ کر ملا۔ مارچ کے مہینے میں یہ جملہ ہمیں بھی کثرت سے سننے کو ملتا ہے کہ ذمہ داری کوئی چیز نہیں بلکہ احساس ذمہ داری بڑی چیز ہے۔

یہ جملہ واقعتا آب زر سے لکھنے کے قابل ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جو ملت اس جملے کابار بار تکرار کرتی ہے وہی احساس ذمہ داری کے بجائے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔غیر ذمہ داری فقط ذمہ داری سے بھاگ جانے کا نام نہیں ہے بلکہ جس کام کی صلاحیت نہ ہو اس کی ذمہ داری اٹھا لینا بھی ایک طرح کی غیر ذمہ داری ہے اور اسی طرح کسی ذمہ داری کو قبول کرکے پھر ٹال مٹول سے کام لینا یہ بھی غیر ذمہ داری ہی ہے۔

ٹال مٹول سے یاد آیا کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کراچی پہنچنے کے بعد جب پہلے دن روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے عملے کے ایک آدمی سے کہا کہ فوری طور پر میرے کمرے میں ایک ریڈیو سیٹ لگوادیا جائے تاکہ میں آج کی خبریں سن سکوں۔

ملازم نے کہا جناب عالی ! آپ بہت سفر کر کے آئے ہیں اور بہت تھک چکے ہیں اس وقت آرام کریں کل ریڈیو سیٹ بھی لگوا دیں گے۔۔۔

یہ سننا تھا کہ محمد علی جناح ؒ نے صاف الفاظ میں کہا دیکھو میاں میرے ساتھ یہ ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔

آج ہمارے سارے کے سارے ملی کام ٹال مٹول کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں، دہشت گردی کے خاتمے سے لے کر  ملکی تعمیروترقی تک ہر طرف ٹال مٹول سے کام لیا جارہاہے، وہ دفاتر سے رشوت کے خاتمے کا مسئلہ ہو، نادرا سے شناختی کارڈ اورپاسپورٹ بنوانے کی بات ہو، ایران سے گیس خریدنے کا منصوبہ ہو، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی خبر ہو ہر طرف ذمہ داریوں سے فرار نظر آتا ہے۔

اس سال بھی سات مارچ  کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی برسی بنائی گئی۔ان کے افکارو نظریات کو دہریا گیا اور بار بار یہ نعرے لگائے گئے کہ ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔۔۔

ڈاکٹر کے بارے میں منعقد ہونے والے پروگراموں  میں ہونے والی گفتگوسے مجھے یہی پتہ چلا کہ  ڈاکٹر کا سب سے بڑا نعرہ احساسِ ذمہ داری تھا۔آج اگرچہ  ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے  لیکن ہمارے قومی اداروں میں غیر ذمہ داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،پہلے لوگ سیاستدانوں سے مایوس ہوتے تھے تو دینی اداروں سے اصلاح احوال کی امید رکھتے تھے اب ہمارے مذہبی مدارس اور دینی  ٹرسٹ ایک طرف سے تو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں اور دوسری طرف  تیزی سے موروثی  جائیدادوں میں بدل رہےہیں، جو بھی ملت و دین کے نام پر کوئی ادارہ قائم کرتا ہے وہی اس کا تاحیات مالک بن جاتا ہے اور پھر اس ادارے کی پراپرٹی اور بینک بیلنس  اس کے بعد اس کی نسلوں کو منتقل ہوجاتا ہے،  سیاستدان الیکشن کے موقع پر چند اچھے اچھے نعرے لگانے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں، بین الاقوامی برادری جیسے چاہتی ہے ہمارے سیاستدانوں اور دینی مدارس سے استفادہ کرتی ہے اور پھر بھی ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔

اگر ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہوتا اور ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ٹال مٹول سے کام نہ لیتے تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ مٹھی بھر کرپٹ سیاستدان ہمیں اپنا غلام بنا لیتے اور چند نام نہاد مذہبی کاسہ لیس دینی مدارس اور اداروں کی قسمت سے کھیلتے۔

آج ضرورت ہے کہ ملت کے ہرفرد کو عملی طور پر  احساس زمہ داری دلایا جائے،  ہمیں اپنے وطن کے ایک ذرے سے لے کر بلند و بالا کہساروں اور سیاست و اقتصاد سے لے کر مسجد و محراب تک ہر سمت اپنی زمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ ذمہ داری بڑی ہو بلکہ ضروری ہے کہ ذمہ داری کی نسبت احساس بڑا ہو۔

یہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کے آخری سال کا واقعہ ہے کہ  ایک دن  انہوں نے  اپنی سرکاری  رہائش گاہ کے معائنے کے دوران لائبریری میں کچھ الماریاں خالی دیکھیں، پوچھنے پر پتہ چلا کہ سندھ کے گورنر صاحب کوٹھی خالی کرتے وقت یہ  کتابیں بھی اپنے ہمراہ لے گئے ہیں، یہ سنتے ہی قائداعظم نے فورا وہ کتابیں واپس منگوا کر کتاب خانے میں رکھوائیں۔

ایک طرف قائداعظم جیسا حساس شخص ہے جو کسی قومی ادارے سے چند کتابیں اٹھنے پر بھی بے تاب ہوجاتا ہے اور دوسری طرف ہمارے جیسے لوگ ہیں جن کے سامنے قومی اداروں کو لوٹ کر کھایا جاتاہے اور ملت اور دین کانام فقط تجوریاں بھرنے کے لئے لیا جاتا ہے لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

ہاں اگر ہم اپنے دینی و قومی معاملات میں حساس ہو جائیں اور ملک ودین کی خاطر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں  تو پھر بلا شبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔۔۔

لیکن جب تک ہم ذمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے، ایک دوسرےپر ڈالتے رہیں گے، ٹال مٹول کرتے رہیں گے اور اپنے سامنے ملک و قوم کے ساتھ ہونے والی خیانتوں پر خاموش رہیں گے یعنی جب تک ہم ذمہ داریوں سے فرار کرتے رہیں گے تب تک کوئی تبدیلی رونما ہونے والی نہیں۔

مورخ تاریخ لکھ رہا ہے اور اگر تاریخ اسی طرح لکھی گئی جیسے کہ لکھی جارہی ہے تو پھر ہماری آئندہ نسلیں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی  مناتے ہوئے یہ افسوس بھی کیا کریں گی کہ کاش شہید نقوی کے بعد ہمارے اباواجداد اپنی ذمہ داریوں سے نہ بھاگے ہوتے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے سیکریٹری سیاسیات علی حسین نقوی نے کہا ہے کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں مردم شماری جیسے حساس ملکی معاملے کو متنازعہ بنانے سے گریز کریں، مردم شماری کو کامیاب بنانا حکومت اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام محب وطن حلقوں کی ذمہ داری ہے، اسے متنازعہ بنا کر ملک و قوم سے خیانت نہ کی جائے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے وحدت ہاو س کراچی میں ڈویژنل پولیٹیکل کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کراچی کے سیکریٹری سیاسیات میر تقی ظفر، ثمر عباس ،حسن عباس اور سبط اصغر و دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی سیکریٹری سیاسیات علی حسین نقوی نے کہا کہ ملک میں آخری بار مردم شماری 1998ئمیں کی گئی جس کے بعد سے آج تک سیاسی اور لسانی مفادات مردم شماری کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے اور اس اہم ملکی معاملے کو سیاست کی نذر کیا جاتا رہا، اب جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مردم شماری ہونے جا رہی ہے تو حکمران اور سیاسی جماعتیں اسے متنازعہ بنا کر ملک و قوم سے خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، حکومت اور سیاسی جماعتیں مردم شماری جیسے حساس ملکی معاملے کو متنازعہ بنانے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی حکمرانوں کی جانب سے بروقت مردم شماری نہ کروا کر آئین کی خلاف ورزی کی جاتی رہی اور اب جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت مردم شماری پر مجبور ہے تو حکمران اور سیاسی جماعتیں اسے اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر متنازعہ بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں، جس کا چیف جسٹس آف پاکستان سمیت تمام ارباب اختیار کو نوٹس لینا چاہیئے، کہیں اس بار بھی مردم شماری سیاسی و لسانی مفادات کی نذر ہو کر تعطل کا شکار نہ ہو جائے، جس سے ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچے گا۔

ڈویژنل سیکریٹری سیاسیات میر تقی ظفر نے کہا کہ ملکی ترقی غیر متنازعہ مردم شماری کے تحت حاصل ہونے والے انہی اعداد و شمار کی بنیاد پر ہوتی ہے، انہی اعداد و شمار کی بنیاد پر ایک مکمل قابل عمل منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے، ترقیاتی منصوبہ بندی، عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی، صحت اور تعلیم کیلئے وسائل مختص کرنے کیلئے اہم ہوتی ہے، لہٰذا مردم شماری قوموں کی تعمیر و ترقی کیلئے انتہائی اہم عمل ہے، اس پر ہمارے بہت سے آئینی معاملات کا انحصار ہوتا ہے، لہٰذا اسے سیاست کی نذر ہونے سے بچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اور رہنما عام انتخابات کا انعقاد ہر اگلے روز چاہتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار ملتا ہے، اس کیلئے وہ وسط مدتی انتخابات کے انعقاد کیلئے دھینگا مشتی سے بھی باز نہیں آتے، جبکہ انہیں مردم شماری کی فکر نہیں ہوتی، جس کے نتیجے میں قوم کو وسائل سمیت بہت کچھ ملتا ہے، حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں اسی نااہلی کے سبب ملک و قوم ایسے مسائل اور الجھنوں کے چنگل میں پھنستی جا رہی ہے، جو ریاستوں کو ناکام بنا دیتی ہیں، لہٰذا ارباب اقتدار ملکی مفادات میں مردم شماری کو سیاست کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے اقدامات کریں۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل خانم سیدہ زہرا نقوی نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر مرکزی میڈیا سیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ دور حاضر میں خواتین کی جملہ معاشرتی مشکلات کی بنیادی وجہ تعلیمات اسلامی سے دوری ہے،عورت بیک وقت تین مناسبتوں (ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی ) کی صورت میں  معاشرے میں زندگی بسر کرتی ہے ، تمام رشتوں میں توازن بہترین زندگی گزارنے کے لیئے ضرور ی ہے  ، چودہ سوسال سے لے کر اس ماڈریٹ زمانے تک ایک کامل بیٹی ،بیوی اور ماں انسانی تاریخ میں فقط سیدہ فاطمہ زہراؑ کی ذات اقدس گزری ہے ، لہذٰا مغربی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں افت وپاکدامنی کا درس حاصل کرنے کیلئے تمام خواتین کو بلاتفریق رنگ ونسل، مذہب ومسلک سیرت دختر رسول (ص)حضرت فاطمہ زہرا(س)کا مطالعہ کرنا ہو گا اور اسے اپنی زندگی میں عملی کرنا ہو گا،غربی ثقافتی یلغارکے مقابل ایک پاکدامن عورت کے پاس سیرت حضرت فاطمہ زہراؑہی بہترین ہتھیارہے ،حقوق نسواں کیلئے متحرک عالمی اداروں کو بھی چاہئے کے جناب فاطمہ زہرا (س)کےحیات مبارکہ کے ظاہری اور پوشیدہ پہلووں کا جائزہ لیں اور اسے اپنے نصاب کا حصہ بنائیں ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree