The Latest

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین (شعبہ سیاسیات)کے زیراہتمام ملکی حالیہ صورتحال، مزارات پر حملے اور تقدس کی پامالی کے خلاف ’’تحفظ مزارات ِ اولیائو اللہ ‘‘کانفرنس 26مارچ کوجنوبی پنجاب کی بزرگ روحانی شخصیت حضرت شاہ شمس سبزواری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار ملتان میںمنعقد ہوگی۔ ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے ترجمان ثقلین نقوی کے مطابق ’’تحفظ مزارات ِ اولیائو اللہ ‘‘کانفرنس میں جنوبی پنجاب بھر کے تمام مزارات کے سجادہ نشین، گدی نشین، علماء و مشائخ ،سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین شرکت کریں گے۔ کانفرنس کا مقصد ملک دشمن عناصر کی جانب سے بزدلانہ کاروائیوں کے خلاف اور مزارات مقدسہ کے تحفظ اور تقدس کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ کانفرنس کے آخر میں تمام جماعتوں اور قائدین کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جائے گا۔ کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے دعوت ناموں کا سلسلہ جاری ہے، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما 24مارچ کو پریس کانفرنس کریں گے اور انتظامات کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیں گے۔

کاش ذمہ داریوں سے نہ بھاگے ہوتے۔۔۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) ذمہ دار لوگوں کے گرد سارا معاشرہ گھومتا ہے، جولوگ اپنی ذمہ داری کا صحیح تعین کرتے ہیں اور پھر اسے ٹھیک طریقے سے ادا کرنے کا عزم کرتے ہیں وہی معاشرے میں کوئی سنجیدہ کردار ادا کر پاتے ہیں۔ ایک مورخ نے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ گورنمنٹ ہاوس کراچی پہنچ کر قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اپنے ہمراہ سے کہا تھا کہ شاید تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ مجھے کبھی یہ امید نہ تھی کہ پاکستان میری زندگی میں قائم ہوجائے گا۔ہم نے جو کچھ حاصل کر لیا ہے ہمیں اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔[1]

اس سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم نے اپنی ذمہ داری ادا کی تھی اور نتیجہ انہیں ان کی امید سے بڑھ کر ملا۔ مارچ کے مہینے میں یہ جملہ ہمیں بھی کثرت سے سننے کو ملتا ہے کہ ذمہ داری کوئی چیز نہیں بلکہ احساس ذمہ داری بڑی چیز ہے۔

یہ جملہ واقعتا آب زر سے لکھنے کے قابل ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جو ملت اس جملے کابار بار تکرار کرتی ہے وہی احساس ذمہ داری کے بجائے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔غیر ذمہ داری فقط ذمہ داری سے بھاگ جانے کا نام نہیں ہے بلکہ جس کام کی صلاحیت نہ ہو اس کی ذمہ داری اٹھا لینا بھی ایک طرح کی غیر ذمہ داری ہے اور اسی طرح کسی ذمہ داری کو قبول کرکے پھر ٹال مٹول سے کام لینا یہ بھی غیر ذمہ داری ہی ہے۔

ٹال مٹول سے یاد آیا کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کراچی پہنچنے کے بعد جب پہلے دن روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے عملے کے ایک آدمی سے کہا کہ فوری طور پر میرے کمرے میں ایک ریڈیو سیٹ لگوادیا جائے تاکہ میں آج کی خبریں سن سکوں۔

ملازم نے کہا جناب عالی ! آپ بہت سفر کر کے آئے ہیں اور بہت تھک چکے ہیں اس وقت آرام کریں کل ریڈیو سیٹ بھی لگوا دیں گے۔۔۔

یہ سننا تھا کہ محمد علی جناح ؒ نے صاف الفاظ میں کہا دیکھو میاں میرے ساتھ یہ ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔

آج ہمارے سارے کے سارے ملی کام ٹال مٹول کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں، دہشت گردی کے خاتمے سے لے کر  ملکی تعمیروترقی تک ہر طرف ٹال مٹول سے کام لیا جارہاہے، وہ دفاتر سے رشوت کے خاتمے کا مسئلہ ہو، نادرا سے شناختی کارڈ اورپاسپورٹ بنوانے کی بات ہو، ایران سے گیس خریدنے کا منصوبہ ہو، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی خبر ہو ہر طرف ذمہ داریوں سے فرار نظر آتا ہے۔

اس سال بھی سات مارچ  کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی برسی بنائی گئی۔ان کے افکارو نظریات کو دہریا گیا اور بار بار یہ نعرے لگائے گئے کہ ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔۔۔

ڈاکٹر کے بارے میں منعقد ہونے والے پروگراموں  میں ہونے والی گفتگوسے مجھے یہی پتہ چلا کہ  ڈاکٹر کا سب سے بڑا نعرہ احساسِ ذمہ داری تھا۔آج اگرچہ  ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے  لیکن ہمارے قومی اداروں میں غیر ذمہ داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،پہلے لوگ سیاستدانوں سے مایوس ہوتے تھے تو دینی اداروں سے اصلاح احوال کی امید رکھتے تھے اب ہمارے مذہبی مدارس اور دینی  ٹرسٹ ایک طرف سے تو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں اور دوسری طرف  تیزی سے موروثی  جائیدادوں میں بدل رہےہیں، جو بھی ملت و دین کے نام پر کوئی ادارہ قائم کرتا ہے وہی اس کا تاحیات مالک بن جاتا ہے اور پھر اس ادارے کی پراپرٹی اور بینک بیلنس  اس کے بعد اس کی نسلوں کو منتقل ہوجاتا ہے،  سیاستدان الیکشن کے موقع پر چند اچھے اچھے نعرے لگانے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں، بین الاقوامی برادری جیسے چاہتی ہے ہمارے سیاستدانوں اور دینی مدارس سے استفادہ کرتی ہے اور پھر بھی ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔

اگر ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہوتا اور ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ٹال مٹول سے کام نہ لیتے تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ مٹھی بھر کرپٹ سیاستدان ہمیں اپنا غلام بنا لیتے اور چند نام نہاد مذہبی کاسہ لیس دینی مدارس اور اداروں کی قسمت سے کھیلتے۔

آج ضرورت ہے کہ ملت کے ہرفرد کو عملی طور پر  احساس زمہ داری دلایا جائے،  ہمیں اپنے وطن کے ایک ذرے سے لے کر بلند و بالا کہساروں اور سیاست و اقتصاد سے لے کر مسجد و محراب تک ہر سمت اپنی زمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ ذمہ داری بڑی ہو بلکہ ضروری ہے کہ ذمہ داری کی نسبت احساس بڑا ہو۔

یہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کے آخری سال کا واقعہ ہے کہ  ایک دن  انہوں نے  اپنی سرکاری  رہائش گاہ کے معائنے کے دوران لائبریری میں کچھ الماریاں خالی دیکھیں، پوچھنے پر پتہ چلا کہ سندھ کے گورنر صاحب کوٹھی خالی کرتے وقت یہ  کتابیں بھی اپنے ہمراہ لے گئے ہیں، یہ سنتے ہی قائداعظم نے فورا وہ کتابیں واپس منگوا کر کتاب خانے میں رکھوائیں۔

ایک طرف قائداعظم جیسا حساس شخص ہے جو کسی قومی ادارے سے چند کتابیں اٹھنے پر بھی بے تاب ہوجاتا ہے اور دوسری طرف ہمارے جیسے لوگ ہیں جن کے سامنے قومی اداروں کو لوٹ کر کھایا جاتاہے اور ملت اور دین کانام فقط تجوریاں بھرنے کے لئے لیا جاتا ہے لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

ہاں اگر ہم اپنے دینی و قومی معاملات میں حساس ہو جائیں اور ملک ودین کی خاطر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں  تو پھر بلا شبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔۔۔

لیکن جب تک ہم ذمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے، ایک دوسرےپر ڈالتے رہیں گے، ٹال مٹول کرتے رہیں گے اور اپنے سامنے ملک و قوم کے ساتھ ہونے والی خیانتوں پر خاموش رہیں گے یعنی جب تک ہم ذمہ داریوں سے فرار کرتے رہیں گے تب تک کوئی تبدیلی رونما ہونے والی نہیں۔

مورخ تاریخ لکھ رہا ہے اور اگر تاریخ اسی طرح لکھی گئی جیسے کہ لکھی جارہی ہے تو پھر ہماری آئندہ نسلیں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی  مناتے ہوئے یہ افسوس بھی کیا کریں گی کہ کاش شہید نقوی کے بعد ہمارے اباواجداد اپنی ذمہ داریوں سے نہ بھاگے ہوتے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے سیکریٹری سیاسیات علی حسین نقوی نے کہا ہے کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں مردم شماری جیسے حساس ملکی معاملے کو متنازعہ بنانے سے گریز کریں، مردم شماری کو کامیاب بنانا حکومت اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام محب وطن حلقوں کی ذمہ داری ہے، اسے متنازعہ بنا کر ملک و قوم سے خیانت نہ کی جائے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے وحدت ہاو س کراچی میں ڈویژنل پولیٹیکل کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کراچی کے سیکریٹری سیاسیات میر تقی ظفر، ثمر عباس ،حسن عباس اور سبط اصغر و دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی سیکریٹری سیاسیات علی حسین نقوی نے کہا کہ ملک میں آخری بار مردم شماری 1998ئمیں کی گئی جس کے بعد سے آج تک سیاسی اور لسانی مفادات مردم شماری کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے اور اس اہم ملکی معاملے کو سیاست کی نذر کیا جاتا رہا، اب جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مردم شماری ہونے جا رہی ہے تو حکمران اور سیاسی جماعتیں اسے متنازعہ بنا کر ملک و قوم سے خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، حکومت اور سیاسی جماعتیں مردم شماری جیسے حساس ملکی معاملے کو متنازعہ بنانے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی حکمرانوں کی جانب سے بروقت مردم شماری نہ کروا کر آئین کی خلاف ورزی کی جاتی رہی اور اب جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت مردم شماری پر مجبور ہے تو حکمران اور سیاسی جماعتیں اسے اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر متنازعہ بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں، جس کا چیف جسٹس آف پاکستان سمیت تمام ارباب اختیار کو نوٹس لینا چاہیئے، کہیں اس بار بھی مردم شماری سیاسی و لسانی مفادات کی نذر ہو کر تعطل کا شکار نہ ہو جائے، جس سے ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچے گا۔

ڈویژنل سیکریٹری سیاسیات میر تقی ظفر نے کہا کہ ملکی ترقی غیر متنازعہ مردم شماری کے تحت حاصل ہونے والے انہی اعداد و شمار کی بنیاد پر ہوتی ہے، انہی اعداد و شمار کی بنیاد پر ایک مکمل قابل عمل منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے، ترقیاتی منصوبہ بندی، عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی، صحت اور تعلیم کیلئے وسائل مختص کرنے کیلئے اہم ہوتی ہے، لہٰذا مردم شماری قوموں کی تعمیر و ترقی کیلئے انتہائی اہم عمل ہے، اس پر ہمارے بہت سے آئینی معاملات کا انحصار ہوتا ہے، لہٰذا اسے سیاست کی نذر ہونے سے بچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اور رہنما عام انتخابات کا انعقاد ہر اگلے روز چاہتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار ملتا ہے، اس کیلئے وہ وسط مدتی انتخابات کے انعقاد کیلئے دھینگا مشتی سے بھی باز نہیں آتے، جبکہ انہیں مردم شماری کی فکر نہیں ہوتی، جس کے نتیجے میں قوم کو وسائل سمیت بہت کچھ ملتا ہے، حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں اسی نااہلی کے سبب ملک و قوم ایسے مسائل اور الجھنوں کے چنگل میں پھنستی جا رہی ہے، جو ریاستوں کو ناکام بنا دیتی ہیں، لہٰذا ارباب اقتدار ملکی مفادات میں مردم شماری کو سیاست کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے اقدامات کریں۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل خانم سیدہ زہرا نقوی نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر مرکزی میڈیا سیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ دور حاضر میں خواتین کی جملہ معاشرتی مشکلات کی بنیادی وجہ تعلیمات اسلامی سے دوری ہے،عورت بیک وقت تین مناسبتوں (ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی ) کی صورت میں  معاشرے میں زندگی بسر کرتی ہے ، تمام رشتوں میں توازن بہترین زندگی گزارنے کے لیئے ضرور ی ہے  ، چودہ سوسال سے لے کر اس ماڈریٹ زمانے تک ایک کامل بیٹی ،بیوی اور ماں انسانی تاریخ میں فقط سیدہ فاطمہ زہراؑ کی ذات اقدس گزری ہے ، لہذٰا مغربی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں افت وپاکدامنی کا درس حاصل کرنے کیلئے تمام خواتین کو بلاتفریق رنگ ونسل، مذہب ومسلک سیرت دختر رسول (ص)حضرت فاطمہ زہرا(س)کا مطالعہ کرنا ہو گا اور اسے اپنی زندگی میں عملی کرنا ہو گا،غربی ثقافتی یلغارکے مقابل ایک پاکدامن عورت کے پاس سیرت حضرت فاطمہ زہراؑہی بہترین ہتھیارہے ،حقوق نسواں کیلئے متحرک عالمی اداروں کو بھی چاہئے کے جناب فاطمہ زہرا (س)کےحیات مبارکہ کے ظاہری اور پوشیدہ پہلووں کا جائزہ لیں اور اسے اپنے نصاب کا حصہ بنائیں ۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) آل خلیفہ حکومت کا بحرینی عوام کے خلاف ظالمانہ رویہ گذشتہ 6 سال سے شدت اختیار کر چکا ہے. اور انھوں نے بحرینی عوام کے قائد آیت اللہ عیسی قاسم کی شہریت بھی منسوخ کردی ہے. تقریبا 9 ماہ سے وفادار اور غیرتمند عوام نے انکے گھر کے ارد گرد دھرنا دے رکھا ہے. حکومت کی گرفتاری کی کوششوں کو عوام نے نا کام بنایا . بین الاقوامی طور پر بھی حکومت پر پریشر ہے کہ وہ اس ظالمانہ فیصلے کو واپس لیکر اور عوام کے مطالبات قبول کر کے ملک کو خانہ جنگی سے بچائے. لیکن حکومت اسرائیلی ہاتھوں میں کھیل رہی ہے. اور شاید ال سعود اور ال یہود عراق وشام کی شکست فاش کا انتقام بحرین میں خانہ جنگی کی آگ لگا کر لینا چاہتے ہیں. احتمال ہے کہ ظالم حکومت چند دن بعد حضرت آیت اللہ عیسی قاسم کے خلاف بڑا قدم اٹھائے. اس لئے تمام مسلمانوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ آواز بلند کریں اور بحرینی حکومت اور بین الاقوامی اداروں پر پریشر ڈالیں تاکہ لاکھوں بیگناہ افراد کو بچایا جا سکے اور اس ملک کے امن وامان قائم ہو.
جہان تشیع کے بزرگ مراجع عظام اور علماء کرام نے حضرت آیۃ اللہ عیسی قاسم کی مکمل حمایت وتائید اور بحرینی عوام سے اظہار یکجہتی کیا ہے. اور علمائے کرام اور بحرینی عوام کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنانے کی پر زور مذمت کی ہے. ذیل میں بعض فقہاء ومراجع وعلماء کی اس حمایت کا ذکر کرتے ہیں.

حضرت آیۃ اللہ العظمی الامام الخامنئی دام ظلہ

"جناب شیخ عیسی قاسم نے جب بحرینی عوام پر اثر انداز ہو کر انہیں خشونت آمیز اور مسلحانه تحریک سے منع کیا ہے، ناعاقبت اندیش بحرینی حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ اس عالم مجاہد پر کسی قسم کا حملہ یعنی پر جوش بحرینی نوجوانوں کے سامنے سے رکاوٹ ہٹانا ہے جو کہ پھر حکومت کے خلاف کوئی بھی اقدام کر سکتے ہیں. "

حضرت آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی دام ظلہ

"شیخ قاسم کی جو اھانت کی گئی انہیں اس سے کو نقصان نہیں ہو گا کیونکہ وہ دلوں میں بستے ہیں. پرامن طریقے سے بحرینی عوام کے حقوق کی جدوجہد پر انکا شکریہ ادا کرتا ہوں. "

حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ

" میں آل خلیفہ کی حکومت سے کہتا ہوں کہ غیر انسانی رویہ ترک کرے جیسے علماء کے گھروں پر حملے خاص طور پر شیخ عیسی قاسم کے گھر پر حملہ ہے. اور جو بھی عوام کے جائز حقوق اور مطالبات کے سامنے رکاوٹ بنتا ذلت اور پشیمانی اسکا مقدر بن جاتی ہے. اگر شیخ عیسی قاسم پر حملہ کیا تو جان لو شاہ ایران اور قذافی جیسا تمھارا حشر ہو گا. اور بیگناہوں کے خون کی مہنگی قیمت ادا کرنی پڑے گی. کسی بھی حکومت اور حاکم نے جب عوام کے خلاف طاقت کا استعمال کیا اور بیگناہوں کا خون بہایا گویا اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودی "

حضرت آیت اللہ العظمی الصافی الگلپائگانی دام ظلہ

"بزرگ عالم دین جناب شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کرنے کی مذمت کرتا ہوں. اور بحرین کے بزرگ علماء بین الاقوامی تنظیموں حقوق بشر کے اداروں سے کہتا ہوں کہ اس غیر انسانی اور ظالمانہ فیصلے پر خاموشی اختیار نہ کریں. تاکہ یہ غیر حکیمانہ فیصلہ جلدباز جلد واپس لیا جائے وگرنه نتائج بھیانک ہونگے."

حضرت آیت اللہ العظمی محمد سعید الحکیم دام ظلہ

"ہم آیۃ اللہ عیسی قاسم کے لئے بہت فکرمند ہیں. اور حکومت بحرین سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ سماحۃ شیخ اور بحرینی مومنین عوام پر نا جائز حملے بند کرے."

حضرت آیت اللہ العظمی جعفر سبحانی دام ظلہ

" سماحۃ آیت اللہ عیسی قاسم شیعیت کے نامور عالم ہیں. وہ شیعوں کی قدرت اور طاقت کا عمود ہیں. اور ہر حال میں انکی حفاظت واجب ہے. کیونکہ ان کی شہریت منسوخ کرنے اور گرفتاری سے بہت نقصان ہو گا. اگر میں بحرین میں ہوتا تو خود انکے گھر جاتا اللہ تعالی انکی حفاظت کرے. "

حضرت آیت اللہ العظمی جوادی آملی دام ظلہ

" بحرینی عوام کی مظلومیت کا علم ہوا. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں اور انکے محبوب زعیم اور مجاہد قائد آیۃ اللہ عیسی قاسم کو بحرین میں کامیاب فرمائے.جس میں اس ذات اقدس کی رضایت اور مرضی ہو. "

حضرت آیت اللہ العظمی سید کاظم الحائری دام ظلہ

" آج کے زمانے میں اسلام اور اسکے مخلص قائدین کی حفاظت اہم شرعی وظیفہ ہے. مؤمنین کرام کو چاہیئے کہ اسلام اور اسکے مقدسات کی حمایت اور حفاظت کے لئے پوری توانائی صرف کریں. اور ہر ممکن وسائل کو بروکار لا کر حکمت کے ساتھ آل خلیفہ کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کی حمایت و حفاظت کریں. اور اس راہ میں اگر کسی کو اذیت بھی ہوئی تو اسکا اجر اللہ تعالی عطا کرے گا. بے شک اللہ تعالیٰ ، مغفرت اور رحم کرنے والا ہے."

حضرت آیت اللہ العظمی سید محمود الھاشمی دام ظلہ

آیت اللہ عیسی قاسم ہمارے بڑے علماء میں سے ہیں اور ان پر بہت امیدیں ہیں. انکے علم و ھدایت اور جہاد سے ہمارے بحرینی مؤمنین بھرہ مند ہو رہے ہیں. اللہ تعالی انکا مدد گار ہو. اور اللہ تعالی جناب شیخ کی زحمات قبول کرے.اور امت کی خاطر انکا سایہ برقرار رکھے. اور مؤمنین کو وصیت کرتا ہوں کہ انکا احترام وحفاظت کا خیل رکھیں اور انکے با برکت وجود سے بھرپور استفادہ کریں. اور انکے علم ،ورع واخلاق اور نھج سے فیضیاب ہوں. "

حضرت آیت اللہ العظمی شیخ تقی مصباح یزدی دام ظلہ

سماحۃ آیت اللہ عیسی قاسم بحرین میں انبیاء کے وارث ہیں. اور وہ اپنے نیک سلوک وسیرت ، اخلاق اور عمل میں بہترین نمونہ ہیں. بحرینی عوام سے کہتاہوں ان سے محبت اور انکے اوامر کی اطاعت کر کے قرب خدا حاصل کریں. اس میں کوئی شک نہیں کہ بحرینی عوام کی افسوسناک صورتحال زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی. اور باطل کی ذلت اور خاتمے پر یہ ختم ہونگی.اگر صبر و استقامت کا آپ نے مظاہرہ کیا تو حق کی فتح ہوگی."

حضرت آیۃ اللہ علی رضا الاعرافی حفظہ اللہ تعالیٰ
مدیر حوزھہاے دینی ایران.

"بیشک بحرینی عوام شیخ عیسی قاسم کا دفاع کرے گی. اور کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ دینی رموز کی بیحرمتی کریں. اور انہیں تکلیف پہنچائیں. نظام آل خلیفہ کی طرف سے کسی بھی حماقت اور دشمنانہ حملے کا بحرینی عوام فیصلہ کن اور سخت جواب دیں گے. "


ترجمہ وترتیب ۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز (اسلام آباد) ملی یکجہتی کونسل کی سپریم کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ اس وقت ملک سنگین حالات سے دوچارہے۔گزشتہ تین دہائیوں سے ملک کو لاتعداد بحرانوں کا سامنا ہے۔دہشت گردی اور بدامنی نے ملک کے بیس کروڑ عوام کو عدم تحفظ کا شکار کر رکھا ہے۔پی ایس ایل کے انعقاد کے لیے مارکیٹوں اور مساجد کو بند کرایا گیا۔ طویل آپریشن کے باوجود ابھی تک دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکے جس کی بنیادی وجہ دہشت گردی کی جڑوں تک عدم رسائی ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کا سبب ضیا الحق کی افغان پالیسی بنی۔ حکومتی سرپرستی میں مختلف لشکر بنائے گئے ۔جو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی بنیاد بنے۔ بیس کروڑ افرادی قوت کا ایٹمی ملک تکفیریت اور منافرت کے حوالے کر دیا گیا۔قائد اعظم نے جس اسلامی پاکستان کی تشکیل کی اس اسلام دشمن کارستانیوں کی نذر کیا جا رہا ہے ۔ملک دشمنوں کی شناخت کے حوالے سے دانستہ طور پر ابہام پیدا کیا۔جب تک دشمن کی درست شناخت نہیں کی جائے گی تب تک اس کی بیخ کنی ممکن نہیں۔جہاد کے نام پر ریاست میں مسلح جدوجہد کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی ۔جہاد کا اعلان ریاست کی طرف سے ہی کیا جا سکتا ہے۔کشمیر کے لیے جہاد لازمی ہے تو ریاست اعلان کرے ہم سب جہاد کریں گے۔جہادی ٹولے بنا کر علاقہ میں طاقت کے توازن کو نہ بگاڑا جائے۔ عالمی ذرائع ابلاغ رواں سال کے دوران پاکستان ،افغان اور سینٹرل ایشیا میں حالات کی سنگینی کی مسلسل نشاندہی کر رہا ہے۔جن طاقتوں کو روس کے ساتھ ہمارے تعلقات قبول نہیں تھے وہ چین کی پاکستان میں موجودگی کو کیسے ہضم کر سکتے ہیں۔اگر ہم سی پیک کی کامیابی چاہتے ہیں تو پہلے پاکستان کے امن و امان کو یقینی بنانا ہو گا۔اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ ساتھ علما کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا اقتدار میراث نہیں بلکہ اللہ کی امانت ہے۔پاکستان کا آئین ایک بہترین دستاویز ہے۔وطن عزیزکے اندرعالمی قوتوں کی ڈکٹیشن پر اقدامات قابل مذمت ہیں۔قانون شکنی کرنے والوں پر بیرونی قوتوں کے احکامات کا انتظار کیے بغیرخود گرفت سخت کرنا ہو گی۔ایک خودمختار ملک کے لیے بیرونی طاقتوں کی ایما پر فیصلے کرنا قومی وقار کے منافی ہے۔انہوں نے کہا نااہل حکمران ملکی سالمیت و استحکام کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے قبل جن عالمی طاقتوں نے مستقبل کے جس عرصے میں مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کے خدشات کا اظہارکیا تھا حکمرانوں کی حماقتوں کی وجہ سے یہ دلخراش سانحہ بارہ سال قبل رونما ہو گیا۔وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لیے حکمرانوں کو دانشمندانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔انہوں نے ملی یکجہتی کونسل کے نام کو اسلامی یکجہتی کونسل رکھنے کی بھی تجویزییش کی۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے رہنما ضیااللہ شاہ بخاری اور تحریک اویسیہ پاکستان کے سربراہ پیر غلام رسول اویسی نے  اپنے وفود کے ہمراہ سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری سے انکی رہائشگاہ پر ملاقات کی جس میں موجودہ ملکی صورت حال خصوصا اتحادبین المسلمین کے لئے عملی کوششوں پر تبادلہ خیا ل کیا گیا۔ملاقات میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی،علامہ اصغرعسکری، محسن شہریار بھی شریک تھے۔ علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ موجودہ ملکی صورت حال میں تمام مکاتب فکر کے علما کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا دشمن ہمیں تقسیم کرکے پاکستان کی سالمیت پر وار کرنے کے درپے ہیں،امریکہ اور اسرائیل افغانستان میں داعش دہشتگردوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ہمیں دشمن کی سازشوں کا ادراک کرنا ہوگا،امریکہ اسرائیل اور ہندوستان پاکستان پر دہشتگردوں کو مسلط کرنے کی کوشش میں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیاستدانوں، حکمران جماعت اور اسٹبلشمنٹ کو ملکی سلامتی کے لئے اس منحوسی ٹرائی اینگل کیخلاف جراتمندانہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہیں،دشمن پاکستان کو غیر مستحکم کرکے ایشیا میں ترقی کے دروازے بند کرنے کی کوشش میں ہے،موجود حکمران اور سیاسی اشرافیہ اقتدار اور کرسی کی ہوس میں ملکی سلامتی کے ایشوز سے غافل ہیں، وطن عزیز کودہشتگردی کا تحفہ امریکہ ہی کا دیا ہوا ہے،اہلحدیث و اہلسنت علماء کے وفود نے علامہ راجہ ناصر عباس کی تجاویز اور خدشات پر اتفاق کرتے ہوئے ملکی سلامتی و استحکام اتحاد امت اور ملک دشمنوں کیخلاف مشترکہ جدو جہد کا عزم بھی کیا۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے رہنما علامہ سید اظہر حسین نقوی نے کہا ہے کہ شہید ایس ایس پی چوہدری اسلم کی گاڑی میں دھماکے میں ملوث دہشتگرد کا پولیس اہلکار کے بھیس میں ہونے کے انکشاف کے بعد لازمی ہو گیا ہے کہ سندھ پولیس کو لشکر جھنگوی سمیت دیگر تمام کالعدم تنظیموں کے سہولت کار کے روپ میں موجود کالی بھیڑوں سے پاک کرنے کیلئے فی الفور بھرپور تطہیری عمل شروع کیا جائے۔

 وحدت ہاؤس کراچی میں تنظیمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کراچی کے رہنما علامہ اظہر حسین نقوی نے کہا کہ کراچی آپریشن اور سندھ بھر میں آپریشن ردالفساد کے تحت دہشتگرد و انتہاپسند عناصر کے خلاف کارروائی کو مؤثر اور کامیاب بنانے کیلئے لازمی ہو گیا ہے کہ سندھ پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود کالعدم دہشتگردتنظیموں کے سہولت کاروں کو بے نقاب کرکے اداروں کو ان کے نجس وجود سے پاک کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور انتہاپسند عناصر کے سہولت کاروں سے پاک نہیں کیا گیا تو دہشتگردی کے خلاف کامیاب آپریشن خواب بن کر رہے جائے گا۔علامہ اظہر حسین نقوی نے مزید کہا کہ کالعدم لشکر جھنگوی کے گرفتار دہشتگردوں کے انکشافات نے ان تحفظات کو حقیقت کی شکل دے دی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی کالعدم تنظیموں اور دہشتگرد عناصر کے سہولت کار موجود ہیں،لہٰذا وزیراعلیٰ اور آئی جی سندھ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس انتہائی حساس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے سہولت کار سے پاک کرنے کیلئے فی الفور بھرپور تطہیری عمل شروع کریں۔

 ڈویژنل رہنما ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ کاؤنٹر ٹیرراز ڈیپارٹمنٹ کراچی کو کالعدم لشکر جھنگوی کے خلاف کامیاب کارروائی، سلیپر سیل کے امیر کو ہلاک کرنے اور چار خطرناک دہشتگردوں کی گرفتاری پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں، امید ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کو کراچی سمیت سندھ بھر میں ان کے خاتمے تک جاری و ساری رکھیں گے۔

وحدت نیوز (گلگت) رکن صوبائی اسمبلی محمد علی شیخ (مرحوم ) کی اچانک رحلت پر غمزدہ خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔محمد علی شیخ ایک باصلاحیت شخصیت کے مالک تھے ،ان کی ناگہانی رحلت سے گلگت بلتستان خاصکر ضلع نگر میں سیاسی خلا پیدا ہوا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل سید علی رضوی، ممبر گلگت بلتستان اسمبلی حاجی رضوان علی نے ضلع دفتر نگر میں ایم ڈبلیو ایم کے عہدیداروں اور کارکنوں کی جانب سے منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محمد علی شیخ مرحوم نہ صرف نگر کے ایک حلقے کے ممبر تھے بلکہ گلگت بلتستان سطح پر تمام مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق سمیت تمام مسائل کے حل کیلئے ایک خاص ویژن کے ساتھ جدوجہد میں مصروف تھے یقینا مستقبل میں ان کی کمی محسوس ہوگی۔تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ممبر جی بی اسمبلی حاجی رضوان علی نے کہا کہ امیدہے نگر کے عوام باشعور ہیں اور وہ جماعتی وابستگی سے ہٹ کر ایسے نمائندےکا انتخاب کرینگے جو نگر قوم کے عزت وقار اور تعمیر و ترقی کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔

انہوں نے اپنے خطاب میں مسلم لیگ نواز کے میرٹ کو پامال کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے میرٹ کی انوکھی تشریح کی ہے اور حالیہ پولیس بھرتیوں میں ان افراد کو بھرتی کیا ہے جو سرے سے فزیکل ٹیسٹ میں فیل ہوئے تھے ۔انتہائی تعجب کی بات یہ ہے کہ پولیس بھرتی میں دو ایسے افراد کو سلیکٹ کیا ہے جن کا نام شیڈول فور میں شامل ہے،اس پر مستزاد یہ کہ اپوزیشن اراکین بھی اس کھلم کھلا میرٹ کی پامالی پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔حکومت کو کھلم کھلا میرٹ پامال کرنے پر اپوزیشن کی جانب سے چھوٹ دینا حکومت کے جرائم میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اراکین کو مصلحت پسندی سے نکل کر متحد ہوکر میرٹ کوفالو کرنے حکومت کو مجبور کرنا چاہئے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو مستقبل میں حکومت جری ہوجائیگی اور ریاستی ادارے تباہ و برباد ہوجائیں گے۔

غریب مریض اور سرکاری ہسپتال

وحدت نیوز (آرٹیکل) کچھ دنوں پہلے ایک قریبی عزیز کے ساتھ اسلام آباد کے ہسپتالوں کا چکر لگانے کا موقع ملا اور جو حالات و واقعات پیش آئے اس حقیقت سے چشم پوشی نہ کر سکا کیونکہ یہ واقعات میرے دیس کے ہر عام شہری کے ساتھ روزانہ پیش آتے ہیں،ہوا کچھ یوں کہ میرے عزیز کو  پیٹ میں تکلف ہوئی جس کی وجہ سے ہم اُسے اسلام آباد کے ایک کلینک میں لے گئے  تو وہاں موجود ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مریض کو فوری ڈرپ چڑھانے کی ضرورت ہے بحرحال شام تقریبا چھ سات بجے سے لیکر رات ۱۱ بجے تک ڈاکٹر صاحب ڈرپ پہ ڈرپ چڑھاتے رہے مگر درد کی شدت میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوتا گیا، مریض کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر سے بیماری کا دریافت کیا تو کہنے لگے جناب ابھی تو میں چیک کر رہا ہوں کہ درد کی وجہ کیاہے جب ڈاکٹر صاحب کے اِس جواب کو سنا تو ایک لمحے کے لئے دل چاہا کہ ڈاکٹر صاحب کو بیڈ پر لیٹا کر جتنے ڈرپ اور انجیکشن مریض کو چڑھائے ہیں اُسی کو کو چڑھا دوں مگر اپنی بے بسی پر خاموش رہا تھوڑی دیر میں نرس صاحبہ آئی اور کہنے لگی، ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے بیماری کا وجہ معلوم نہیں ہو سکا لہٰذا آپ اپنا  پیمینٹ کر کے فوری طور پر پی آئی ایم ایس یا پولی کلینک لے جائیں ۔بیماری سے مجبور ڈاکٹر کی فیس، ڈرپ دوائیوں کے پیسے ادا کرکے ہم پولی کلینک گئے وہاں پر بھی پہنچتے ہی درد کم کرنے کے انجکشن کے ساتھ ڈرپ لگادیئے گئے اور صبح ڈاکٹر کے پاس آنے کا کہا گیا۔

ہم اگلے روز جب بتائے گئے ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو پتہ چلا یہاں تو پرچی لینے کے لئے لوگ صبح چھے بجے سے آئے ہوئے ہیںاللہ اللہ کر کے جب ہمیں موقع ملا تو ڈاکٹر صاحب نے کچھ پوچھنے کی زحمت نہیں کی اور ساتھ بیٹھے میڈیکل ریپ نے کہنا شروع کیا آپ فلاں دوائی فلاں کمپنی کی لے لیں انشااللہ خدا جلد شفا دے گا ساتھ ہی ڈاکٹر نے ہاں میں ہاں ملایا اور وہی دوائی لکھ کر دے دی۔نہ چاہتے ہوئے پرچی لی اور گھر کو آگئے، ایک دن تو دوائی نے اپنا اثر دیکھا یا مگر اگلے دن پھر وہی درد، لہٰذاہم پھر ڈاکٹر کے پاس گئے ۔ڈاکٹر کے سیکریٹری نے ہمیں پریشانی کی حالت میں دیکھا تو کہنے لگے صاحب اس طرح تو آپ کی بیماری کا علاج نہیں ہوگا اور اگر ہو بھی گیا تو کم از کم مہینہ آپ کو ہسپتال کا چکر کاٹنا ہوگا ۔آپ فوری علاج چاہتے ہیں تو میں ایڈریس دیتا ہوں ڈاکٹر صاحب فلاں نجی ہسپتال میں اِس ٹائم بیٹھتے ہیں فیس تھوڑا زیادہ ہے مگر پریشانی کے بغیرعلاج ممکن ہے ہم بھی بیماری سے پریشان تھے فوراََ ہامی بھر لی اور ایڈریس لیکر اسلام آباد کے ایک مشہور پرائیوٹ ہسپتال پہنچے اور فیس ادا کر کے ڈاکٹر صاحب سے ملے اور اُس کو یاد دہانی کرایا کہ ایک دن قبل سرکاری ہسپتال میں آپ نے یہ دوائیاں دی تھی ابھی ہم اپنی بات مکمل نہیں کرپائے تھے، ڈاکٹرصاحب بڑے ہی شفیقانہ انداز میں کہنے لگے رہنے دیجئے اُس پرچی اور دوائی کو ،وہ سرکاری اداراہ تھا ابھی آپ یہ دوائیاں استعمال کریں انشااللہ ٹھیک ہوجائے گا ۔

یقین جانئے ہم یہ رویہ دیکھ کر پریشان ہوگے ۔ایک ہی ڈاکٹر، ایک ہی مریض اور ایک ہی بیماری مگر الگ رویہ الگ دوائی اور الگ ہمدردی۔۔۔ ہمارے ملک کے تقریبا تمام سرکاری ہسپتالوں کے حالات زارکچھ ایسے ہی ہیں جس ہسپتال میں جائیں تو ہر جگہ کچرے کا ڈھیر، مریضوں کی لمبی قطاریں، ڈاکٹرز اول تو ڈیوٹی پر موجود نہیں ہوں گے اگر خدانخواستہ موجود ہوں تو ہڑتال یااحتجاج کے نام پر گھپے مارتے چائے بسکٹ کے مزے لیتے نظر آئیں گے اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو مریضوں سے ایسے برتائو کرتے نظر آئیں گے کہ جیسے ملزم پولیس کے ہتھے چڑ گیا ہو۔ جس طرح پولیس تفتیش کرتی ہے ،اسی طرح  مریض سے سوالات کرتے ہیں ، پھر لمبی چوڑی ایف آئی آر یعنی نسخے لکھتے ہیں۔ اب پولیس والے تو رشوت کے چکر میں لگ جاتے ہیں اور ڈاکٹرمیڈیسن کمپنیوں کی جانب سے گاڑی ، دبئی کی سیراور میڈیکل ریپ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مریض کو ایسے ہی چکر لگواتے ہیں جیسے ملزم کو عدالت کا، آخر میں نہ ملزم کے کیس کی سماعت ہوتی ہے اور نہ ہی مریض کا مرض ٹھیک ہوتا ہے۔مریض اگلے مرحلے میں سسکتے ہوئے پرائیوٹ ہسپتالوں کا روخ کرتے ہیں جہاں سے علاج تو ستر فیصد ہو جاتا ہے مگر مریض خاندان سمیت روڑ پر زندگی گزانے پر مجبور ہوجاتاہے ۔ دوسری طرف سیاست دان چھینک بھی آئے تو باہر ممالک میں چیک اپ کے لئے جاتے ہیں۔آخر عوام اور رعایا کے درمیاں اس قدر فاصلے کیوں؟ کیا عام شہری کو ان سہولیات کا حق نہیں ہیں، کیا غریبوں کے جانوں کی کوئی حیثیت نہیں ؟ آخر ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟کیا سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر مفت میں کام کرتے ہیں؟ کیا ایک میڈیکل کا اسٹوڈنٹس سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں کی جانوں سے کھیل کر ڈاکٹر نہیں بنتا؟کیا یہ پیشہ انتہائی اہم اور ذمہ دارانا نہیں ؟ کیا ڈاکٹر ز کی زرا سی غفلت سے مریضوں کی جان نہیں چلی جاتی؟ دنیا کی لالچ میں مریضوں کو ایسی دوائیاں دی جاتی ہے جو محض پیسے بنانے کے سوا کچھ نہیں۔آخر اس میں غلطی کس کی ہے کیا ہمارے ملک میں کوئی نظم و ضبط اور قانون نامی کوئی چیز نہیں ہے؟

 جی ہاں!قانون تو ہر جگہ بنے ہوئے ہیںمگر عمل کرنے والا کوئی نہیں ۔ دیکھا جائے تو غلطی ہماری ہی ہے ،کسی بھی قانون پر عمل درآمد کروانے میں عوام پربھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم غلاموں کی طرح ہر ایک کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں اور تھوڑے پیسوں کے عوض بک جاتے ہیں۔ہم کبھی معاشرے میں ہونے والی برائیوں پر اپنے لب نہیں ہلاتے ہم اُس وقت تک خطرہ کا نوٹس نہیں لیتے جب تک کہ اپنے دامن کو آگ نہ پکڑ لے،ہم کرپشن کے خلاف اُس وقت تک آواز بلند نہیں کرتے جب تک ہماری جیب سے پیسے نہ نکلیں، ہم اتنے بے وقوف ہیں کہ بار بار اُسی شخص کو ووٹ دیتے ہیں اوراُسی کو سپورٹ کرتے ہیں جس نے ہر دفعہ جھوٹے وعدوں اورکھوکھلے  نعروں کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ ہم رنگ زبان سرحد اور مذہب کے چکر میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ۔ ہم کسی بھی برائی کو اُس وقت تک برا نہیں سمجھتے جب تک اُس برائی کا اثر ہمارے اپنے گھر تک نہ پہنچ جائے ۔ہم اپنے بچوں کے اسکول ایڈمیشن سے لیکر نوکری تک سفارش رشوت کا سہارا لیتے ہیں پھریہ بھی امید لگا تے ہیں کہ باقی سب کے بچے میرٹ پر سلیکٹ ہوں۔ ہم ہمیشہ اپنی کمی اور کوتاہی کو ماننے کے بجائے فوراََ دوسروں کے اچھے کاموں اور دوسروں کی قابلیت میں خامیاں تلاش کرتے ہیں تو معاشرے میں تبدیلی کیسے ممکن ہوگی؟ ہر کام کی ابتدا اپنی ذات سے شروع ہوتی ہیں سب سے پہلے ہمیں اپنی ذات کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ جب ہم کسی دوسرے کوکچھ بولیں تو اس بات میں اثر ہوں۔

ایک اور ہماری سب سے بُری عادت یہ ہے کہ ہم ہر کام دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیںاور اپنی ذمہ داریوں سے بری ذمہ ہونا چاہتے ہیں۔کسی بھی معاشرے کی بہتری کے لئے تعلیم اتحاد، بھائی چارگی اور صبر کا ہونا ضروری ہے ۔ ہماری سوچ اور فکر وسیع ہونی چائیے تاکہ ہم لانگ ٹرم پالیسی پر عمل کر سکیں ۔ راستے کے بیج کسی کانٹے کو دیکھیں تو فورا اسے کنار کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے نہ کہ یہ سوچ کر گزر جائے کہ لوگوں کو آنکھیں کھول کر راہ چلنا چاہیے۔نہیں جناب ہم سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا ہمیں آنکھیں کھول کر اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کا خیال رکھنا ہوگا ، ظاہری فائدے کو چھوڑکر ابدی فائدے کو دیکھنا ہوگا۔جب تک عوام کے بنیادی حقوق کا خیال نہیں رکھا جائے گا وہ معاشرہ ترقی کی منزلوں کی طرف نہیں بڑھ سکے گا۔لیکن ہر چیز کے لئے اس کا طلب ہونا بھی ضروری ہے جس دن ہم میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا حقیقی معنوں میں جستجو پیدا ہوجائے اور ہمیں عوامی طاقت کا اندازہ ہو جائے تو ہمیں اس ملک سے غربت ، دہشت گردی اورکرپشن کو ختم کرنے میں دیر نہیں لگے گی ۔


تحریر۔۔۔۔ناصر رینگچن

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree