The Latest

اسلام میں عقل اورتفکر عقلی کی اہمیت

وحدت نیوز (آرٹیکل) دین اسلام میں عقل اور تفکر عقلی کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے  یہاں تک کہ اسلام کے منابع میں سے ایک عقل کو قرار دیا گیا ہے۔عقل کی حجیت کی واضح دلیل یہی ہےکہ خود وجود خدا اور ضرورت دین عقلی تفکر اور عقلی استدلال  پر موقوف ہیں ۔
قرآن کریم اور تفکر عقلی :
قرآن کریم میں اکثر مقامات پر تفکر عقلی پر زور دیا گیا ہے جیساکہ ارشادہوتا ہے :بے شک زمین وآسمان کی خلقت اورروز وشب کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں ۔جولوگ اٹھتے ،بیٹھتے اورلیٹتے ہوئےخدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں ،کہ خدایا تو نے یہ سب بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔ تو پاک و بے نیاز ہے۔تو ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما۔۱
قرآن کریم نظام خلقت کے بارے میں غوروفکر کرنے والےافراد کی تعریف کرتا ہے بلکہ ان لوگوں کی مذمت کرتاہےجو دنیا کےحقایق کی شناخت کے لئے اپنی عقل سے استفادہ نہیں کرتے تا کہ خدا شناسی کے مرحلے تک پہنچ جائیں۔جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔۲
اسی طرح ایک اورمقام پرارشاد ہوتا ہے : اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو لازم قراردیتاہے جوعقل سے کام نہیں لیتےہیں۳۔ اس کےعلاوہ قرآن کریم دینی عقائدکے اثبات کے لئے برہان اور عقلی استدلال سے استفادہ کرتا ہے ۔جیسے توحید خداوند کے بارے میں فرماتا ہے ۔ا گر زمین وآسمان میں اللہ کےعلاوہ اور خدا ہوتے توزمین وآسمان دونوں برباد ہوجاتے ۔۴۔ اسی طرح قیامت کےاثبات پراس دلیل کا ذکر کرتا ہے۔کیاتمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نےتمہیں بیکار پیداکیا ہےاور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائےجاؤگے؟ ۔۵۔ اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کی اطاعت کے لاز م ہونے کے بارے میں استدلال کرتا ہے ۔اورکیا جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابل اتباع ہے یا وہ جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے ؟  آخر تمہیں کیاہوگیا ہے اور تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟۔۶۔
ان کے علاوہ اوربھی بے شمار نمونے موجود ہیں۔قرآن کریم مشرکین اور کفار سے ان کے عقائد کے بارے میں دلیل طلب کرتا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تواپنی دلیل لے آوٴ۔” اس کے بعد صراحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ یہ اپنے ظن پرعمل کرتے ہیں اور اہل یقین نہیں ہیں ۔۷۔یہ صرف گمان کا اتباع کرتےہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۸۔قرآن کریم کی نظر میں مشرکین و کفار کی سوچ یہی تھی کہ وہ اپنے آباءواجداد کی روش پر چلتے تھے حالانکہ ان کی روش غیر عاقلانہ تھی۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے  :جب ان سے کہا جائے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس  روش کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ و دادا کو پایا  ہے ۔کیا یہ ایسا ہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا بےعقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہےہوں؟۹۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی طرف سے حکمت ،موعظہ حسنہ اور جدال احسن کے ذریعے لوگوں کو توحید اور دین کی دعوت دینےپر مامور تھے جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتاہے:آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دیں اور ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین ہو۱۰۔ اس عقلی روش کے مختلف مراحل ہیں۔موعظہ حسنہ پہلامرحلہ ہے، جدال درمیانی مرحلہ ہے  جبکہ حکمت آخری مرحلہ ہے۔
پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی عقائدکےبیان میں ان تین طریقوں سے استفادہ فرمایا ہے جیسا کہ اس کے کچھ نمونے قرآن کریم ، احادیث اورتاریخ کی کتابوں میں مذکورہیں ۔ چنانچہ ایک یہودی عالم نےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوالات کئے ۔ الف:خداوند متعال کہاں ہے ؟ ب:خداوند متعال کا  وجودکیسا ہے ؟آپ ؐنے اس کے جواب میں فرمایا:
الف: خداوند متعال کے لئے خاص جگہ نہیں ہے کیونکہ وہ محدود نہیں ہے لہذا وہ ہر جگہ موجود ہے ۔
ب:خدا وند متعال کو کیفیت کے ذریعے بیان نہیں  کیا جا سکتاکیونکہ کیفیت خود مخلوق ہے اور ہم مخلوقات کے ذریعے اس کی صفات بیان نہیں کر سکتے ۔۱۱۔اسی طرح ایک اور یہودی عالم نے آپ ؐسے مختلف چیزوں کے بارےمیں سوال کیا تو آپ ؐنے تمام سوالوں کے جوابات دیے۔
پہلا سوال :آپ وجود خداوند متعال کو کس طرح ثابت کریں گے ؟آپ ؐنے فرمایا:اس کی نشانیوں اور آیات کے ذریعے۔
دوسراسوال:تمام انسانوں کو اسی نے خلق کیا ہے ۔پھر صرف بعض افراد کو رسالت کےلئے کیوںمنتخب کیا ہے ؟
آپ ؐنے فرمایا : کیونکہ یہ افراد دوسروں سے پہلے خداوند متعال کی ربوبیت پر ایمان لائے تھے ۔
تیسرا سوال:خداوند متعال کیوں اور کس لئے ظلم نہیں کرتا؟
حضور ؐنے فرمایا:کیونکہ وہ ظلم کی قباحت کو جانتا ہے اور ظلم سےبے نیاز ہے ۔{لعلمہ بقبحہ و استغنائہ عنہ}۱۲۔علمائے عدلیہ عدل الہی کو اسی دلیل کے سےثابت کرتےہیں چنانچہ محقق طوسی تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں:{و علمہ و استغناوہ یدلان  علی انتفاءالقبح عن افعالہ}۱۳علم خدا اور اس کی بے نیازی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے فعل قبیح سرزد نہیں ہوتا ۔
ائمہ معصومین علیہم السلام اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کے یہاں مختلف فرقے موجود نہیں تھے۔صرف  بت پرستوں اور اہل کتاب کے ساتھ کلامی و اعتقادی بحث و گفتگو ہوتی تھی لیکن ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانے میں بہت سارے فرقے نیز مختلف فکری و کلامی مکاتب وجود میں آچکےتھے ۔ایک گروہ قرآن و حدیث کےظواہر پر عمل کرتاتھا اور ہر قسم  کی عقلی بحث و گفتگو کو ممنوع سمجھتا تھا۔یہ اہل حدیث کا گروہ تھا۔دوسرا گروہ تمام معارف و احکام کو اپنی عقل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتاتھا۔یہ معتزلہ کا گروہ تھا ۔لیکن ائمہ اطہارعلیہم السلام درمیانی راستے کو منتخب کر کے لوگوں کو ہر قسم کے افراط و تفریط سے منع فرماتے تھے ۔حضرت علی علیہ السلام خدا وند متعال کی شناخت میں عقل کے کردار کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :{لم یطلع العقول علی تحدید صفتہ و لم یحجبہا عن واجب معرفتہ}۱۴اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حد و نہایت سے مطلع نہیں کیا اور بقدرضرورت معرفت حاصل کرنے کی راہ میں پردے بھی حائل نہیں کیے ۔
ائمہ اطہارعلیہم السلام کے نزدیک عقل اصول دین اور مبادی دین کی شناخت کےلئے کافی ہے لیکن احکام کی تفصیل جاننے کے لئے اسےوحی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔اسی وجہ سے خدا نے دو چیزوں کے ذریعے انسانوں پرحجت تمام کیاہے ۔ان میں سے ایک عقل  ہےاور دوسری وحی ۔امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان لله علی الناس حجتین:حجۃ ظاہرۃو حجۃ باطنۃ،اماالظاہرۃ ، فالرسل والانبیاءوالائمہ واماالباطنہ فالعقول}۱۵خدا نےلوگوں پرحجت کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ ایک ظاہری حجت ہےاور دوسری باطنی حجت۔ظاہری حجت انبیاء ورسل اور ائمہ اطہارعلیہم السلام ہیں جبکہ باطنی حجت عقول ہیں ۔
مکتب اہل بیت علیہم السلام میں عقل اور وحی ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کیونکہ ایک طرف سے انبیائےالہی وحی الہی کے ذریعے انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں تودوسری طرف سے انسانی عقل حجت الہی کی تائید کرتی ہے  ۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : بعثت انبیاءکا  ایک فلسفہ یہ ہے کہ انبیاء انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں۔ اس کےبعد آپ ؑفرماتےہیں :{ولیثیروا  لہم دفائن العقول}۱۶وہ عقل کے دفینوں کوابھارتے ہیں۔اسی طرح امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان الله تبارک وتعالی،اکمل للناس الحجج بالعقول}۱۷خداو ند متعال نے عقول کے ذریعے اپنی حجت کو انسانوں پر تمام کیا ہے۔
شیعہ علماءاور تفکر عقلی :
شیعہ علماء قرآن و سنت سے الہام لیتےہوئے معرفت دینی میں عقل کے لئے خاص مقام کے قائل ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف شیعہ متکلمین حسن و قبح عقلی کی حمایت کرتے ہوئے عدل الہی کو اسی کے ذریعہ ثابت کرتےہیں تودوسری طرف سےفقہائےامامیہ احکام شرعیہ کے استنباط میں عقل کو قرآن و سنت کے برابر قراردیتے ہوئے قاعدہ تلازم کو ثابت کرتےہیں۔یعنی ان کے مطابق حکم عقل اور حکم شرع کے درمیان تلازم ہے کیونکہ قرآن و سنت کو سمجھنے میں عقل وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے نیز قرائن عقلی مفسرین اور مجتہدین کے لئے {قرآن کی تفسیر اور احکام الہی کے استنباط میں}رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ رہناچاہیے کہ انسانوں کے لئے جوچیز وحی کی طرح حجت الہی شمار ہوتی ہے وہ مستقلات عقلیہ اور ملازمات عقلیہ ہیں  نہ کہ وہ ظنون جو قیاس واستحسان پر مشتمل ہو ں۔اسی وجہ سے مکتب اہل بیت علیہم السلام اور فقہ امامیہ میں شرعی احکام کے استنباط میں عقل کو ایک محکم وپایدار راستےکی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ قیاس و استحسان {جوظن و گمان پر مشتمل ہوتےہیں}کی پیروی ان کے ہاں سخت ممنوع ہیں ۔
امام جعفرصادق علیہ السلا م نے ابان ابن تغلب سے مخاطب ہو کر فرمایا :{ان السنۃ لا تقاس ، الا تری ان المراۃتقضی صومہا و لا تقضی صلاتہا یا أبان ان السنۃ اذا قیست محق الدین}۱۸سنت {شریعت الہی}میں قیاس {تشبیہ وتمثیل}کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔{یہ حجت نہیں}اسی لئے ماہانہ عادت کی وجہ سےاگرعورت روزہ نہ رکھے اورنماز نہ پڑھے تو اس پر روزے کی قضا واجب ہے لیکن نماز کی قضا واجب نہیں{حالانکہ اسلام میں نماز کی اہمیت روزے سے زیادہ ہے۔ }اے ابان: سنت کوقیاس سے ثابت کیاجائے تو دین  الہی برباد اور نابود
ہوجاتاہے۔
خلاصہ یہ کہ عقل کا دین شناسی اور معرفت دینی میں بہت زیادہ کردار ہے ۔جن میں سےبعض یہ ہیں:
1۔ عقل دین کی بنیادی باتوں کو ثابت کرتی ہے جیسے وجود خدا ، بعض صفات الہی اورضرورت دین وغیرہ ۔
2۔عقل، وحی کی طرح بعض احکام شرعیہ کا استنباط کرتی ہے اور استنباط احکام کا ایک منبع شمار ہوتی ہے ۔
3۔عقل قرآن و سنت کو سمجھانے میں چراغ کا کام کرتی ہے  اور خود ان میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتی۔
4۔عقل محدود پیمانے پرفلسفہ احکام دین کو بیان کرتی ہے لیکن عبادات میں عقل کا کردار بہت ہی کم ہے۔ معرفت علمی اورتفکر عقلی کے ذریعے فلسفہ یا حکمت احکام الہی کے بارے میں جوکچھ کہاجا سکتا ہےانہیں اکثر اوقات احکام الہی کی علت اصلی کے طور پر اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ لہذا کسی موضوع کے حکم کو دوسرے مشابہ موضوعات کے لئے بھی قیاس کے ذریعے ثابت کرنابہت مشکل او ردشوار ہے ۔
حوالہ جات:
۱۔آل عمران ،190 – 191۔
۲۔انفال ،22۔
۳۔یونس،100۔
۴۔انبیاء،22 ۔
۵۔مومنون،115۔
۶۔یونس،35۔
۷۔بقرۃ ،111 ۔
۸۔انعام ،ص 116۔
۹۔بقرۃ،170۔
۱۰۔نحل ،125 ۔
۱۱۔وحید صدوق ،ص310،فصل 44،حدیث 1۔
۱۲۔توحید صدوق ،ص397،باب 61۔
۱۳۔کشف المراد،تیسرا حصہ،تیسری فصل۔
۱۴۔نہج البلاغۃ،خطبہ 49۔
۱۵۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۶۔نہج البلاغہ،خطبہ ،1۔
۱۷۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۸۔وسائل الشیعۃ ،ج18،ص25۔

تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ چھٹی مردم شماری کے عمل میں مزید تاخیرعوام کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔اسے طے شدہ شیڈول کے مطابق عملی شکل دینا قومی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مردم شماری جیسے اہم امور میں 19سال کی تاخیر کو قومی معاملات سے حکمرانوں کی دانستہ غفلت کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ایک جمہوری حکومت میں آئینی عمل کی پاسداری کے لیے سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑے اور مقتدر شخصیات اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کریں تو پھر عوام کے ساتھ صاحبان اقتدار کی نیک نیتی مشکوک ظاہر ہوتی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سندھ میں مردم شماری کے فارم 2الف کو خارج کر دیا گیا ہے جس سے بے روزگاری، نقل مکانی کے اسباب،تعلیمی رجحان، معذور افراد کی تعداد سمیت دیگر اہم اعداد و شمار حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی نامکمل مردم شماری نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی۔ تعلیم و روزگار کے شعبے میں ناکامیوں کو ان غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے چھپانے کی کوشش ایک بھیانک مذاق ہے۔مردم شماری کے عمل کو ہر لحاظ سے مکمل ہونا چاہیے ۔کوائف جمع کرتے وقت کسی بھی ضروری پہلو کو نظر انداز کرنے کو پیشہ وارانہ بددیانتی سمجھا جائے گا۔وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں مکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔19سال کے غیر معمولی وقفے کے بعد شروع ہونے والی مردم شماری کو عالمی معیار کے مطابق طے کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں ان اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر حکومت کی طرف سے ایسے منصوبے تشکیل دیے جا ئیں جو ریاست کے ذمے ہیں اور جو انفرادی ضرورتوں  کی تکمیل میں اہم ثابت ہوں۔علامہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ مردم شماری کے دوران اپنے کوائف کی درست اور مکمل تفصیلات مہیا کرنا قوم کے ہر فرد کا قومی فریضہ ہے ، عملے کے ساتھ مکمل تعاون اور درست کوائف کی فراہمی شہریوں کے اپنے مفاد میں ہے، چونکہ قوم کےسیاسی ، معاشرتی ، اجتماعی  مستقبل کا انحصار اسی مردم شماری پرہوگا۔

وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری  امور سیاسیات سید اسد عباس نقوی نے کہاہے کہ شام میں حضرت سکینہ بنت الحسین (ع) کے مزار کے قریب بم دھماکوں کی پُرزور مذمت کی ہے۔ لاہور میں ضلعی عہدیداروں سے گفتگو کرتے ہوئے اسد نقوی کا کہنا تھا امریکی فوجیں اترنے کے بعد عراق و شام میں انبیاء کرام، اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام کے مزارات دہشتگردوں کا مسلسل ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دمشق میں 40 سے زائد زائرین کی شہادت استعماری کیمپوں میں پلے دہشتگردوں کی کارستانی ہے، مسلم ممالک مقامات مقدسہ کے تحفظ کیلئے مشترکہ اقدامات کریں۔ انہوں نے کہاکہ عالمی ادارے اسلامی مقامات مقدسہ پر حملوں کا نوٹس لیں، مغربی ممالک دہشتگردوں کی فنڈنگ بند کریں۔ انہوں نے کہا کہ جنت البقیع کی مسماری سے شروع ہونیوالی مقامات مقدسہ کی تباہی کی آگ پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اورعالمی امن کیلئے خطرہ ہے، اسے بروقت قابو نہ کیا گیا تو دنیا میں خانہ جنگی پھیل سکتی ہے جس کا زیادہ نقصان مغرب اور استعماری قوتوں کے آلہ کار مسلم حکمرانوں کو ہوگا۔

وحدت نیوز (مظفرگڑھ) ایک طرف لسانی اور مذہبی اختلافات کو ہوا دے کر قوم کو تقسیم کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف عوام کے منتخب نمائندے ماں اور بہنوں کی عزتیں اچھال رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین ضلع مظفرگڑھ کے سیکرٹری جنرل علی رضا طوری نے ضلعی کابینہ کی حلف برداری اور تحصیل سیکرٹری جنرل کے انتخاب کے موقع پر امامیہ امام بارگاہ میں تنظیمی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا مز ید کہنا تھا کہ پوری قوم کو چاہیے کہ مذہبی اور لسا نی اختلافات کو دور کر کے شدت پسند عناصر کے خلاف متحد ہو کر پاکستان کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ اپریشن ردالفساد کو مطلوبہ نتائج کے حصول تک جاری رکھنا چاہیے اور سیکیورٹی اداروں کو پورے پاکستان میں مکمل اختیارات دے کر دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جڑ سے ختم کیا جائے۔ اگر یہ اقدام پہلے کیے جاتے تو PSL کے لیے لاہور میں کرفیو نہ لگانا پڑتا۔ PSL کا فائنل پاکستان میں کروانا اچھی بات ہے مگر پورے شہر کو بند کر کے کرانا کہاں کی عقلمندی ہے؟۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی ناقص خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایک مضبوط خارجہ پالیسی پاکستان کے مفادات میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ حالیہ واقعات میں قوم کے منتخب نمائندے اور بزرگ سیاستدان نے دوسرے منتخب نمائندے کی عزت و ناموس کو اچھالا جو کہ قابل مذمت ہے اور ان ناشائشتہ اور بدتہذیب گفتگو کرنے والے کی رکنیت کو ختم کیا جائے تا کہ آئندہ کوئی ایسی حرکت دوبارہ نہ کرے۔ مجلس وحدت مسلمین ضلع مظفرگڑھ کی ضلعی کابینہ کے پہلے مرحلے میں 12 شعبہ جات کا اعلان کیا گیا اور ان کی حلف برداری کی گئی۔ اس موقع پر تحصیل مظفرگڑھ سے آئے ہوئے مومنین نے کثرت رائے سے سید اسد عباس شاہ بخاری کو تحصیل سیکرٹری جنرل منتحب کیا۔ ضلعی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے طور پر سید عمران رضا ایڈوکیٹ نے حلف لیا۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے شوری عالی کے رکن علی محمد، عمران رضا، شفقت علی کاظمی، سید نعیم کاظمی، عامر عباس، شوکت عباس، تفسیر خمینی، علامہ عابد حسین نقوی، بشیر مہدی، جعفر عباس، ضیغم عباس اور دیگر نے شرکت کی۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے نمائندہ وفد نے شرکت کی وفد میں صوبائی سیکریٹری سیاسیات برادر حسن رضا کاظمی، صوبائی سیکریٹری تنظیم سازی مولانا سید نیاز حسین بخاری شامل تھے۔اجلاس میں پاکستان نیشنل مسلم لیگ، پاکستان عوامی تحریک، سنی اتحاد کونسل، تحریک انصاف، عزاداری کونسل پنجاب، پاکستان مسلم لیگ ج، پاکستان مزدور محاذ سمیت مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں نے شرکت کی اجلاس میں ملک میں جاری صورتحال کا جائزہ لیاگیااور پاکستان کی سیاسی صورتحال، آپریشن ردالفساد، اور قومی مسائل سے متعلق گفتگو کی گئی۔

آل پاکستان مسلم لیگ نے آئندہ انتخابات کے حوالے سے بننےوالےاتحاد میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو باضابطہ دعوت دی جس پر صوبائی سیکریٹری سیاسیات برادر حسن رضا کاظمی نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کےمجلس وحدت مسلمین ایک قومی سیاسی جماعت  ہے جس کے تمام فیصلے اعلیٰ اختیاراتی ادارے کرتے ہیں اس حوالے سے مجلس وحدت مسلمین اپنے اداروں کے فیصلے کے مطابق اپنى حكمت عملى اور ترجيحات كا تعين كرکے مناسب وقت پر اعلان كريگى۔

وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے وفد نے چیئرمین ضلع کونسل ملتان مخدوم دیوان محمد عباس بخاری سے ملاقات کی۔ وفد میں صوبائی سیکرٹری سیاسیات مہر سخاوت سیال، سابق ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ قاضی نادر حسین علوی، مولانا ہادی حسین ہادی، ضلعی ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد اصغر سومرو اور اظہر حسین شامل تھے۔ ایم ڈبلیو ایم کے وفد نے دیوان عباس بخاری کو ملتان کی ضلع کونسل کا چیئرمین منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔ مجلس وحدت مسلمین کے وفد نے دیوان عباس بخاری کو بحیثیت سجادہ نشین آستانہ سلطان قتال رحمتہ اللہ علیہ 26 مارچ کو ملتان میں منعقد ہونے والی تحفظ مزارات اولیاء اللہ کانفرنس کی دعوت دی، جسے دیوان عباس بخاری نے قبول کرتے ہوئے شرکت کی یقین دہانی کرائی، واضح رہے کہ مجلس وحدت مسلمین شعبہ سیاسیات کے زیراہتمام تحفظ مزارات اولیاء اللہ کانفرنس 26 مارچ کو دربار حضرت شاہ شمس ملتان پر منعقد ہو رہی ہے۔

وحدت نیوز (ڈیرہ غازی خان) مجلس وحدت مسلمین ضلع ڈیرہ غازیخان کی ضلعی شوری کا اجلاس مرکزی امام بارگاہ ڈیرہ غازیخان میں منعقد ہوا، اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی، صوبائی سیکرٹری نتظیم سازی سید عدیل عباس زیدی اور سابق آرگنائزر سید انعام حیدر زیدی نے خصوصی شرکت کی۔ ضلعی شوری کے اراکین نے اتفاق رائے سے سید فضل الہی نقوی کو ضلع ڈیرہ غازیخان کا نیا سیکرٹری جنرل منتخب کرلیا۔ نونتخب سیکرٹری جنرل سے علامہ اقتدار حسین نقوی نے حلف لیا۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس بعنوان "پرامن کشمیر کانفرنس "مظفرآبادکے  مقامی ہوٹل  میں منعقد ہوئی ۔اس آل پارٹیز کانفرنس میں آزاد کشمیر کی تمام سیاسی ،مذہبی وسماجی شخصیات نے شرکت کی جن میں  مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما ملک اقرار حسین سمیت شاہ غلام قادر سپیکر قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیراور رہنما مسلم لیگ ن ،چوہدری لطیف اکبر  و جاوید ایوب  سابق وزراء آزادکشمیر ورہنما پاکستان پیپلز پارٹی،خواجہ فاروق احمد(سابق وزیر ) و عبدالماجد خان ممبر قانون ساز اسمبلی رہنما پاکستان تحریک انصاف،پیر سید مرتضیٰ علی گیلانی سابق وزیر آزاد کشمیرو راجہ ثاقب مجید رہنماآل جموں کشمیر مسلم کانفرنس،شیخ عقیل الرحمٰن  نائب امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر، سید شبیر حسین بخاری  و مولانا فرید عباس نقوی رہنما  جعفریہ سپریم کونسل آزاد کشمیر،سید وقار حسین کاظمی صدر پیپلز نیشنل پارٹی کشمیر،جاوید مغل مرکزی کوآرڈینیٹر آل پاکستان مسلم لیگ،میر افضال سہلریا رہنماکشمیر نیشنل پارٹی،قاضی منظور الحسن رہنماجمعیت علمائے اسلام ،سید اسحاق حسین نقوی  کوآرڈینیٹر مرکزی جماعت اہلسنت آزاد کشمیر،اجمل مغل رہنماجموں کشمیر پیپلز پارٹی،عبدالرزاق مغل رہنماتاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی،مولانااحمدعلی سعیدی رہنما حسینی فاونڈیشن آزاد کشمیر، سید ذاکر حسین سبزواری رہنما آئی۔او آزاد کشمیر،ضیاءاحمد چغتائی ریاستی سربراہ پاکستان عوامی تحریک شامل تھے ۔

مرکزی رہنما مجلس وحدت مسلمین پاکستان  ملک اقرار حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاست آزاد کشمیر انتہائی سٹریٹیجک پوزیشن رکھتی ہے اور مظفرآباد تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ ہے۔ لہٰذا اس جگہ پر دہشت گردی کے پےدرپے واقعات حکومت وقت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں ۔ اگر حکومت جلد سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم آزاد کشمیر علامہ تصور جوادی اور ان کی اہلیہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزمان کو گرفتار نہ کر سکی تو پھر نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورا پاکستان سڑکوں پر نکلے گا۔ دیگر مقررین نے بھی علامہ تصور جوادی  اور ان کی اہلیہ پر حملے کی شدید الفاظ پر مذمت کی اور حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا ،آخرمیں  کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔

خواتین کا عالمی دن اور اسلام

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر سال۸ مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منائی جاتی ہے اور تقریباََ دنیا کے تمام ممالک میں اس دن خواتین کو درپیش مسائل کا ذکر اور اُن کے حقوق کے لئے مختلف سیمینار یا پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کی تاریخ کچھ زیادہ قدیم نہیں ہے یہ لگ بھگ ایک صدی قبل روس میں Bread and Peace کے مظاہرے کے بعد سے منایا جانے لگا۔ 1908 میں روس کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین نے مشقت اور اجرت میں کمی کے باعث مظاہرےشروع کئے تھے تاکہ ان کے کام کے اوقات کو دس گھنٹے کے بجائے آٹھ گھنٹے کیا جائے اور اُن کی اجرت کو بڑھایا جائے ۔اسی طرح پھر امریکہ میں, 28 فروری 1909 خواتین کے قومی دن کے طور پر منایا گیا۔ اس کے بعد خواتین نے اپنے حقوق کی آواز کو دبنے نہیں دیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ مختلف حادثات و واقعات بھی رونما ہوئے اور خواتین نے زبردست جدو جہد کا مظاہرہ کیا اور ہر موقع پر ہزاروں کی تعداد میں خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلنے لگیں۔ بلآخر 1975 میں اقوام متحدہ نے آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منانا شروع کیا اور اس کے بعد ہر سال دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے ۔

اگر ہم خواتین کی حقوق کے حوالے سے تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب، یونان،مصر،مشرق وسطیٰ ،ہندوستان غرض یہ کہ ہر جگہ عورت مظلوم تھی عورت کی کوئی معاشرتی شخصیت نہیں تھی۔ قدیم یونان میں عورت کو ایک تجارتی سامان کی طرح سمجھی جاتا اور بازاروں میں خرید و فروخت کی جاتی تھی یہاں تک کی شوہر کی موت کے بعد زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا تھا۔ بعض جگہوں پر باپ یا شوہر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ بیویوں اور بیٹیوں کو قتل کریں یا بیچ دیں۔ ہندوستان میں شوہر کی موت کے بعدعورت کو بھی شوہر کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ اس طرح شوہر کو تنہائی سے نجات ملے گی ۔ عرب میں بھی لڑکیوں کی پیدائش شرمندگی اور بے عزتی تصور کی جاتی تھی اور پیدائش کے ساتھ ہی لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا اور خواتین کو میراث سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ جس زمانے میں عورت کو یورپ اور دیگر اقوام میں انسانوں میں بھی شمار نہیں کیا جاتا تھا ، صنف نازک کو فقط کاروبار یا خواہشات نفسانی کی تسکین کا سامان سمجھا جاتا تھا اُس وقت اسلام نے خواتین کی مقام و منزلت اور ان کے حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کی. عورت کو ذلت سمجھنے والوں کو اسلام نے بتادیا کہ عورت ایک عظیم ہستی ہے۔ حضرت بی بی فاطمہ ؑ کے احترام میں رسول اللّٰہ کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور رسول اللّٰہ کا یہ عمل دنیا والوں کو عورت کی مقام و منزلت اچھی طرح سمجھا رہا ہے۔ اسلام نے عورت کو باقاعدہ طور پر ایک مقام عطا کیا اور ان کے حقوق کو تفصیل سے بیان کیا اور یہ بتایا کہ عورت کو زندہ رہنے کا حق ہے، ملکیت کا حق ہے،آزادی رائے کا حق ہے، ووٹ کا حق ہے،زندگی جینے کا حق ہے، اور عورت معاشرے میں ہر جگہ مردوں کے برابر حق رکھتی ہے۔

اسلام عور ت کو مرد کی طرح کامل انسانی روح، ادارہ اور اختیار کا حامل سمجھتا ہے ، اسی لئے اسلام دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتا ہے اور اسی لیے قرآن پاک میں دونوں کو "یا ایھالناس" اور "یا ایھاالذین آمنو " کے زریعے مخاطب کیا گیا ہے, اسلام نے دونوں کے لئے تربیتی، اخلاقی اور عملی پروگرام لازمی قرار دیے ہیں۔ اسلام بغیر کسی رکاوٹ کے عورت کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ہر قسم کے مالی معاملات انجام دے جیسا کہ ارشار ہوتا ہے:" مردوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمایا ہے اور عورتوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے"(سورہ نساء، آیت۳۲)۔ آج جن ممالک کی ہم پیروی کرتے ہیں اور اُن کو اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں کچھ عرصے پہلے تک وہاں پر بھی عورتوں کو ذلیل و حقیر تصور کیا جاتا تھا بلکہ آج بھی جس طرح اسلام نے عورتوں کے حقوق اور تحفظ کا ذکر کیا ہے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں وہ حقوق عورتوں کو میسر نہیں ہیں، عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور بداخلاقی کے واقعات اسلامی ممالک سے ذیادہ روشن خیال ملکوں میں نظر آتے ہیں۔ امریکہ میں آج بھی صدر کے انتخاب کے لیے کسی خاتون کے مقابلے پر کسی سیاہ فام کو ترجیح دینا پسند کرتے ہیں جبکہ رنگی و نسلی تعصب کوٹ کوٹ کے ان کی رگوں میں موجود ہےلیکن پھر بھی یہ لوگ جتنا پست و کمتر عورت کو سمجھتے ہیں کالوں کوبھی نہیں سمجھتے. اسلام نے تو پہلے ہی رنگ و نسل کی برتری کی نفی کی ہے, جس زمانے میں عورتوں کو اپنے نظریے اور رائے کے اظہار کا کوئی حق نہیں تھا  اُس زمانے میں دینِ اسلام مرد و عورت کے لئے نظریہ دینے ،ووٹ ڈالنے (بیعت کرنے) اور مساوات و برابری کا قائل تھا۔

 رسول اکرم ؐ کا ارشار ہے"عورتیں تم مردوں کے لئے لباس ہیں اور تم مرد بھی عورتوں کے لئے لباس ہو" دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں"تم میں سے وہ شخص سب سے بہتر ہے کہ جو اپنی بیوی اور بیٹیوں سے خوش اخلاقی سے پیش آئے"۔ اس کے علاوہ بھی قرآنی آیات و احادیث خواتین کے حقوق ،فضائل اور احکامات سے بھری پڑی ہیں مگر یہ کہ ہر مسلمان مرد و عورت اسلامی تعلیمات کے بارے میں صحیح سے تحقیق کرے تو اُس کو اسلامی اصولوں کا علم ہو۔ پہلے زمانے میں تعلیم حاصل کرنا ہر ایک کے بس میں نہ تھا آج کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دور ہے تمام معلومات ہر ایک کی دسترس میں ہیں۔ اگر ہم ان سہولیات کو فضول کاموں کے بجائے اچھے کاموں کے لئے استعمال میں لائیں تو معاشرے سے برائیاں بھی ختم ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی ہم اپنی مشکلات کا حل بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی صاحبِ عقل تحقیق کرے اور دنیا بھر میں موجود مسائل کا حل تلاش کرے تو اُس کو اسلامی تعلیمات و احکامات ہی سب پر سبقت لیتے نظر آئیں گے۔ ہم اس قدر دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہیں کہ ہمیں اپنا ہوش ہی نہیں، ہم مغرب سے آئی ہر چیز کو بلا چوں و چراں سر آنکھوں پر رکھ لیتے ہیں ہم کبھی اس کے مثبت اور منفی اثرات اوراُس کے مقاصد کی طرف توجہ نہیں کرتےاور اس کی جگہ اگر کوئی اسلامی چیز یا اسلام کے نام سے کچھ آجائے تو فوراََ ہزاروں سوالات کر ڈالتے ہیں کیوں کہ ہم کھانے پینے سے لے کر تعلیم کے حصول تک مغرب کی پیروی کرتے ہیں اور اپنی دینی تعلیمات کو صرف نام کی حد تک رکھے ہوئے ہیں تو ظاہر سی بات ہے ہمیں مغربی چیزوں میں ہی زیادہ حقیقت نظر آئے گی۔

 آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کسی کی سوچ و فکر کو تبدیل کرنا کوئی ناممکن بات نہیں ہر حقیقت کو وہم اور ہر وہم کو حقیقت بنا کر پیش کرنا عام سی بات ہے جس کی وجہ سے ہم صحیح و غلط کی تمیز نہیں کر پا رہے۔ یہ بلکل اس مثال کی طرح ہے کہ اسلامی ممالک میں گٹر کا ڈھکن کھلا ہو تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے اور مغربی ممالک میں ہر پانچ سیکنڈ میں ایک عورت کی عزت لوٹی جاتی ہے تو روشن خیالی اور آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم واقعی مسلمان ہیں تو پھر ہمیں اسلامی علوم اور قوانین پر عمل کرنا ہوگا، ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے تو پھر مغربی سیرت کو چھوڑ کر سیرت حضرت محمد ؐ کو اپنانا ہوگا، ہمیں اس تہذیب و تمدن کی جنگ کو جیتنا ہوگا, ہم کیوں دوسروں کے رہن سہن, تہذیب و ثقافت کو اپنائیں، دوسروں کی تہذیب کو اپناتے وہ ہیں جن کی اپنی کوئی تہذیب نہ ہو اور الحمد اللہ ہمارے پاس زندگی گزارنے سے لیکر حکومتی قانون تک سب کچھ موجود ہے، نہیں ہے تو صرف جستجو ، شعوراور عمل نہیں ہے۔ اس شعور کو پھیلانے کی ذمہ داری حکومت، عوام اور میڈیا تینوں کی ہے۔ اگر کوئی بھی ذمہ دار شخص پہلے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور پھر معاشرتی حالات کو مد نظر رکھ کر کام کرے تو پھر کوئی چیز ناممکن نہیں۔

میں عالمی خواتین کے دن کا مخالف نہیں ،ناہی اُن خواتین کی جدوجہد کو نظر انداز کرتا ہوں جن کی وجہ سے آج دنیا والے آٹھ مارچ کو خواتین کے نام سے منانے پر مجبور ہیں۔ مگر میری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں ،سرکردہ لوگوں اور عالمی حقوق کے علم برداروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ اگر ہمارے ملک میں یوم خواتین کو سردار انبیاء ، رحمت اللعالمین ؐ کی بیٹی خاتون جنت حضرت بی بی فاطمۃالزہرا ؑ کی ولادت کے دن یعنی بیس جماد الثانی کو منایا جائے تو بہتر نہ ہوگا؟ کیونکہ جب عرب میں لڑکیوں کو ذلت و رسوائی تصور کیا جاتا تھا اور اُن کو زندہ دفن کیا جاتا تھا اور باقی دنیا میں بھی خواتین کی کوئی اہمیت نہیں تھی تو  اس وقت رسول اکرم ؐ نے دنیا کو بتایا کہ خواتین کی عظمت اورحقوق کیا ہیں اور دوسری طرف حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی خود بھی خواتین کے لئے مشعل راہ ہے۔ حضرت فاطمہ (س ) کی شان کے لئے رسول اکرم (ص ) کی یہ احادیث کافی ہیں، *حضور اکرم (ص ) فرماتے ہیں: "فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ھیں"،"فاطمہ میرا ٹکڑا ھے جس نے اسے تکلیف پھنچائی اس نے مجھے تکلیف دی ہے اور جس نے اس سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی ھے"* یہ دو احادیث ہمارے لئے کافی کہ ہم ایک ایسی ہستی کو اپنا آئیڈیل بنائیں جس کی زندگی کا ہر پہلو قیامت تک کی خواتیں کے لئے روشن ستارے کی مانند ہیں۔

تحریر۔۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز (اصفہان) مجلس وحدت مسلمین شعبہ اصفہان کی طرف سے سفیر انقلاب کردار و گفتار کے غازی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی کا انعقاد کیا گیا جس میں حجتہ الاسلام والمسلمین علامہ ڈاکٹر سیدشفقت شیرازی مرکزی سیکریٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان  اور برادر محترم سید دانش نقوی فرزند ارجمند ڈاکٹر محمد علی نقوی نے خطاب کیا اور شہید ڈاکٹر کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بیان کیا اور طلاب کے لیے انکی روش کو نمونہ کے طور پر پیش کیا ۔پروگرام میں  اصفہان کے اردو زبان کےتمام تشکلات تشکل عماریون،تشکل شہید عارف حسینی ،تشکل بین الملل ،تشکل المھدی ھندوستان ،و تشکل قرآن و عترت کے مسئولین اور طلاب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree