وحدت نیوز (شیخوپورہ) مجلس وحدت مسلمین کے سر براہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور ملک میں امن کیلئے فوجی عدالتوں کو قائم رکھنا ضروری ہے ورنہ دہشت گردوں کے حوصلے بڑھیں گے '(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی 35سالوں سے مل کر ملک کو لوٹ رہی ہیں ، دونوں جماعتوں نے عام اور غریب آدمی کو کچھ دینے کی بجائے صرف اپنا مال بنایا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کے سر براہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے مجلس وحدت مسلمین ضلع شیخوپورہ کے زیر اہتمام جامع مسجد امامیہ کالونی میں اجتماعی شاد ی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو چلانے کے لئے ہزاروں نہیں صرف دو درجن ایماندار لوگ کافی ہیں اگر ملک کو یہ ایماندار لوگ مل جائیں تو ملک کی تقدیر کو دنوں میں بدلا جا سکتا ہے مگر موجودہ حکمرانوں کو ملک اور قوم کی کوئی فکر نہیں یہ صرف اپنا اقتدار بچانے میں لگ ہوئے ہیں جسکی وجہ سے ملک میں بجلی کی لوڈشیڈ نگ سمیت دیگر مسائل میں خطر ناک میں اضافہ ہوا ہے ۔انہوں نے کہا کہ  دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور ملک میں امن کیلئے فوجی عدالتوں کو قائم رکھنا ضروری ہے ورنہ دہشت گردوں کے حوصلے بڑھیں گے۔ شادی کی اس اجتماعی تقریب سے سید ناصر شیرازی ،علامہ قیصر عباس چیئر مین شیئر پاکستان،سید مسرت کاظمی ،سید اسد عباس نقوی  اور دیگر مہمانان گرامی نے بھی خطاب کیا۔آخر میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے 15جوڑوں کا نکاح پڑھایا۔

وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نےوحدت ہاوس اسکردو میں  سکمیدان سے تعلق رکھنے والے جوانوں کے ایک وفد سے   ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے گلگت میں جو اعلانات کئے ہیں وہ انتہائی غیر معقول اور غیر مناسب ہیں،گلگت بلتستان کےباشعور جوان کا ایمان لیپ ٹاپ کے عیوض نہیں خریدا جاسکتا، اگر گلگت بلتستان کے مسائل اور انکے اعلانات کا موازنہ کیا جائے تو انکے اعلانات کی نسبت مسائل بہت بڑے ہیں اور اگر انہیں گلگت بلتستان کے حوالے کچھ کرنا ہوتا تو ان دو سالوں میں بہت کچھ کرچکے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ نواز لیگ کی حکومت گلگت بلتستان سے ہرگز مخلص نہیں، اگر مخلص ہوتی تو پاک چین اقتصادی راہداری کے ثمرات سب سے زیادہ گلگت بلتستان کو منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کرتے، لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اکنامک زون میں نواز شریف کو اپنے داماد کی سرزمین حویلیاں تو نظر آئی لیکن گلگت بلتستان کو یکسر فراموش کر دیا گیا۔ نواز شریف دورہ گلگت کے موقع پر جرات مندانہ فیصلہ کرتے، جرائت مندانہ اقدام اٹھاتے ہوئے گلگت بلتستان کی حقوق سے محروم عوام کو سینیٹ اور پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے کا اعلان کرتے اور اس خطے کو محرومی سے نکالنے کے لئے جامع پلان دے دیتے مگر ایسا نہیں کیا گیا، انکی تقریر سے لگ رہا تھا انہیں گلگت بلتستان کے بارے میں چندان معلومات بھی نہیں اور انکے اعلانات گلگت بلتستان کے مسائل کا احاطہ کرنے سے مکمل قاصر ہیں۔

 

علامہ محمد امین شہیدی نے اپنی گفتگو میں مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے حقوق سے محروم اور پسماندہ خطے کو وفاق سے جو بجٹ مہیا کیا جاتا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اگر دریائے سندھ کی رائیلٹی، کے ٹو، نانگا پربت کی رائیلٹی بنتی ہے اور یہاں کی عوام سے بالواسطہ اور بلاواسطہ کھربوں روپے وفاق کی طرف منتقل ہوتے ہیں لیکن وفاق سے گنتی کی کچھ رقم مہیا ہوتی ہے، اگر یہی گنتی کے پیسے بھی بنیادی مسائل پر خرچ ہوتے تو کسی حد تک ان مسائل کا مداوا ہوسکتا تھا، لیکن وہ پیسے بھی مکمل طور پر کرپشن اور بدعنوانی کے نذر ہو جاتے ہیں۔ اگر صالح سیاسی قیادت ہوتی اور صالح حکمران ہوتے تو کسی حد تک ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم چاہتی ہے کہ مسلک، لسان، علاقہ، گروہ اور دیگر تعصبات سے بالاتر ہو کر صالح اور اہل قیادت کو سامنے لایا جائے گا، تاکہ عوامی مسائل مکمل طور پر حل ہوں، آئندہ انتخابات کے حوالے سے مجلس وحدت مسلمین بھرپور کردار ادا کرے گی اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اہل امیدواروں کو سامنے لائے گی۔

وحدت نیوز (شکارپور) شہداء کمیٹی شکارپور کے چیئرمین اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی معاون سیکریٹری امور سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی نے عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں سندہ کے مختلف شہروں میں منعقدہ اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت وعدہ خلافی اور عہد شکنی کر رہی ہے، صوبائی حکومت کا رویہ افسوس ناک ہے۔ دہشت گردی کے اڈوں اور ٹریننگ کیمپس کے خلاف آپریشن نہیں کیا جارہا جبکہ کالعدم دہشت گرد جماعتوں کی سرگرمیاں جاری ہیں،سندہ حکومت نے کروڑوں عوام کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ وہ ۲۲ نکاتی معاہدے پر عمل کرے گی،سندہ حکومت کو اس معاہدے پر عمل کرنا ہوگا۔ عہد شکنی ہوئی تو احتجاجی تحریک کا اعلان کریں گے۔

 

در ایں اثناء علامہ مقصود علی ڈومکی نے وزیر اعلیٰ کی تشکیل کردہ کمیٹی کے رکن ایم این اے آفتاب شعبان میرانی سے رابطہ کرکے کمیٹی کی عدم فعالیت اور حکومتی رویئے کا شکوہ کیا۔ انہوں مطالبہ کیا کہ کمیٹی معاہدے پر عمل در آمد کی ذمہ داری پوری کرے، کمیٹی کے دوسرے رکن صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ مکمل ہوچکی ہے، لہذا معاہدے کے تحت جے آئی ٹی رپورٹ شہداء کمیٹی سے شئیر کی جائے،انہوں نے کہا کہ حکومت کے غیر سنجیدہ رویہ کے باعث عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ہے۔

وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا مظاہر حسین موسوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیر عظم پاکستان کے اعلانات اس قوم کے ساتھ سنگین مزاق ہے اس طریقے سے انتخابات میں سیاسی رشوت کی جو کوشش کی ہے اس سے نواز لیگ کی سیاسی ذہنیت کو سمجھنے میں دشواری نہیں ہونی چاہئے ، دو سال قبل یہ اعلانات کیوں نہیں کئے گئے۔مزید بران انتظامی حوالے سے سے غیر مقامی فرد کو گورنر مقرر کرنا بیس لاکھ عوام کی توہین ہے۔ وہ یہاں کسی کو اس کا اہل نہیں سمجھتے یا کسی پر اعتبار نہیں کرتے یا انتخاباتبات کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ یمن جنگ کے حوالے سے مکہ ومدینہ کو جتنا آل سعود سے خطرہ ہے کسی دوسرے سے نہیں ۔جسکی واضح مثال مکے مومیں جنت البقیع، محسنان ملت اسلامیہ حضرت ابوطالب ؑ اور حضرت خدیجہ الکبریٰ کے قبر کی حالت زار اور مدینہ میں آل رسول ﷺ، ازواج رسوال اور اصحاب رسوال کے قبور کی تاراجی ہے۔انہوں نے کہا کہ خائن حرمین نے مسجد الحرام کے سامنے تیس سال قبل چھ سو مردزن حاجیوں کا قتل عام فقط مردہ باد امریکہ مردہ باد اسرائل کے نعروں کے جرم میں کیاگیا۔علاوہ ازایں جمہوری ملک کو شاہی ملوکیت سے دوستی کی پینگیں بڑھانا سیاسی نقط نظر سے جمہوریت کی توہین ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ تقدس فقط مکہ اور مدینہ کو حاصل ہے ریاض اور اسلام آباد میں فرق نہیں۔حرمین الشریفین آل سعود کی میراث نہیں عالم اسلام کا مرکز ہے اسے اسلامی دنیا کے حوالے ہونا چاہئے ۔انہوں نے مزید کہا کہ نواز لیگ سیاسی انتقام پر یقین رکھتی ہے۔ جس کی مثال مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکریڑیٹ پر اور مسؤلین پر ATA لگا کر سیاسی انتقام کی ابتدا کی ہے ۔ آمریت کی پیداوار سے اس کے علاوہ کوئی توقع فضول ہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) سعودی عرب دنیا میں امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ 60 سے 70 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اڑھائی لاکھ افراد پر مشتمل فوج ہے۔ امریکہ کے 5 ائیر بیس سعودی عرب میں موجود ہیں۔ جہاں 20000 امریکی سپاہی حفاظت کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی افواج بھی کثیر تعداد میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ 9 دیگر ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، سوڈان، اردن اور مصر بھی شامل ہیں، جبکہ امریکی افواج انہیں مکمل جاسوسی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اس ’’عظیم ترین لشکر‘‘ نے جن لوگوں پر حملہ کیا ہے، ان کی تعداد محض 20 سے 30 ہزار ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے تن پر ڈھنگ کا لباس ہے نہ پاؤں میں جوتی۔

 

رپورٹ کے مطابق دنیا میں موجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا، جسے حرمین شریفین اپنی جان سے بڑھ کر عزیز نہ ہو۔ البتہ یہ موضوع ضرور قابل بحث ہے کہ آیا سعودی عرب اور یمنی قبائل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ سے حرمین کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہے یا نہیں؟ یمن حضرت اویس قرنی کا دیس اور عشاق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگری ہے۔ یہاں اسلام کی روشنی خواجہ اویس نے پھیلائی اور اس طرح پھیلائی کہ 99 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جس کے بارے میں روایات ملتی ہیں کہ اس زمین سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یمن کی جانب اشارہ کرکے فرمایا: سنو! ایمان اہل یمن میں ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ مزید فرمایا ’’ایمان یمنی ہے، فقہ یمنی ہے، حکمت یمنی ہے۔

‘‘

26 مارچ کو سعودی عرب نے 9 اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر یمن پر حملہ کیا۔ تادم تحریر ان اتحادی ممالک کے حملوں میں یمن کے 2571 سے زائد شہری شہید ہوچکے ہیں۔ جن میں 172 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد دو ہزار سے متجاوز ہے۔ سعودی فرمانروا سے لے کر کسی بھی چھوٹے یا بڑے حکومتی عہدیدار نے یہ خدشہ ظاہر نہیں کیا کہ خدانخواستہ اس جنگ کے نتیجے میں کعبہ شریف یا روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطرے میں ہے۔ آپ کوشش کریں اور گوگل کریں کہ 26 مارچ یمن پر حملہ کرنے کے دن سے آج تک سعودی عرب یا 9 اتحادی ممالک میں کسی ایک ملک میں بھی ’’حفاظت حرمین‘‘ کے حوالے سے کوئی ایک جلسہ ہوا ہو، کوئی جلوس نکلا ہو، کوئی ریلی برآمد ہوئی ہو یا کوئی کانفرنس منعقد ہوئی ہو۔ وہاں کے عوام بہت اچھی طرح یہ جانتے ہیں کہ حرمین کو دور دور تک کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ البتہ پاکستان میں کچھ جماعتوں کے ہاتھ ’’مال کماؤ پروگرام‘‘ آگیا ہے اور وہ حرمین کے مقدس ترین نام پر اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں۔

 

میں حیران رہ گیا کہ اسلام آباد کے ایک پنچ ستارہ ہوٹل میں ’’حفاظت حرمین کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی ہے۔ یہ پیسہ کون دے رہا ہے اور کسے دے رہا ہے، خدا کی ذات بہتر جانتی ہے۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو سعودی عرب دنیا میں امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ 60 سے 70 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اڑھائی لاکھ افراد پر مشتمل فوج ہے۔ امریکہ کے 5 ائیر بیس سعودی عرب میں موجود ہیں۔ جہاں 20000 امریکی سپاہی حفاظت کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی افواج بھی کثیر تعداد میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ 9 دیگر ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، سوڈان، اردن اور مصر بھی شامل ہیں، جبکہ امریکی افواج انہیں مکمل جاسوسی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اس ’’عظیم ترین لشکر‘‘ نے جن لوگوں پر حملہ کیا ہے۔ ان کی تعداد محض 20 سے 30 ہزار ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے تن پر ڈھنگ کا لباس ہے نہ پاؤں میں جوتی۔

 

یمن کی آبادی تقریباً 40 فیصد زیدی شیعہ یعنی انصاراللہ اور 60 فیصد سنی افراد پر مشتمل ہے۔ جن میں اکثریت شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یمنی صدر ہادی کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک میں شیعہ اور سنی دونوں مسلمان شامل ہیں اور ان کے بنیادی مطالبات بدعنوانی کا خاتمہ، پٹرول کی قیمتوں میں کمی اور قومی حکومت کی تشکیل ہے۔ صدر ہادی ملک سے فرار ہوا تو انہی افراد نے حکومت تشکیل دی اور تمام طبقوں کو آئینی حقوق اور آزادی دی۔ سابق صدر علی عبداللہ صالح اور اس کی حامی افواج بھی انصاراللہ کی حمایت کر رہی ہیں۔ البتہ سعودی عرب کو مسلکی حوالوں سے فکر لاحق ہوئی کہ انصاراللہ بھی حزب اللہ کی طرح ایران کا حمایتی گروپ نہ بن جائے۔ اس حوالے سے ایران پر حوثیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ جس کی ایران نے سختی سے تردید کی۔ بالآخر سعودی عرب نے اتحادیوں کی حمایت اور امریکہ کی مشاورت سے یمن پر حملہ کر دیا۔

انصاراللہ اور اس سے منسلک یمنی اتحادیوں کی امن پسندی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان علی الاعلان سعودی عرب کا اتحادی ہے، انہوں نے یمن میں موجود کسی بھی پاکستانی کو نہ صرف گزند نہیں پہنچائی بلکہ ان کی بحفاظت واپسی کو بھی یقینی بنایا اور پرنم آنکھوں سے انہیں وداع کیا۔ کیا یہی پاکستانی طالبان یا داعش کے علاقے میں ہوتے، تو کیا انکی زندہ واپسی کا تصور کیا جاسکتا تھا۔؟ حیرت ہے وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان پر جو اس مسئلہ پر اہل یمن کی بجائے سعودی عرب کا شکریہ ادا کر رہے تھے، ’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔‘‘ پاکستان اس وقت بہت نازک پوزیشن میں ہے۔ افواج پاکستان کو اندرونی و بیرونی دونوں جگہ دشمن کا سامنا ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سات سال بعد پہلی دفعہ افواج پاکستان نے 23 مارچ کو پریڈ کرنے کا ’’رسک‘‘ لیا۔ بہت عرصہ بعد عوام اور افواج دہشت گردوں کے خلاف ایک صفحہ پر موجود ہیں، مگر ابھی تو ابتدا ہے۔

 

فاٹا بدستور دہشتگردوں سے بھرا ہوا ہے، کراچی جل رہا ہے، مساجد امام بارگاہیں، چرچ، سکولز، مارکیٹیں حتؑی کہ آرمی کے مراکز اور پولیس سنٹرز بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سرحدوں کے پار انڈیا جبڑے کھولے کھڑا ہے۔ افغانستان سے ابھی بھی دہشتگرد داخل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں افواج پاکستان کو سعودی عرب بھیجنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کے گھر چور گھسے ہوں اور آپ اپنے چوکیداروں کو ہمسائیہ کی حفاظت کے لئے بھیج دیں۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے کہ یمن پر حملہ سعودی عرب نے نہیں کیا بلکہ امریکہ نے کروایا ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح صدام سے پہلے ایران پر حملہ کرایا، پھر کویت پر اور اسی کی آڑ میں امریکی افواج ’’حفاظت‘‘ کی غرض سے سعودی عرب میں داخل ہوگئیں۔ اس حملہ کا مقصد دراصل پاکستان کو ایک نئی جنگ میں الجھا کر کمزور کرنا اور پھر مکمل ختم کرنا ہے۔ ہماری مقتدر قوتوں کو اس نازک وقت میں اپنا ملک بچانے کی فکر کرنی چاہیئے۔ جنگیں شروع کرنا اپنے اختیار میں ہوتا ہے مگر ختم اپنی مرضی سے نہیں ہوتیں۔

 


تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اعجاز ممنائی

وحدت نیوز (حیدرآباد) سندھ بھر میں تکفیری دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں سستی اور یمن پر سعودی جارحیت کے خلاف مجلس وحدت مسلمین ضلع حیدرآبادکے زیر اہتمام قدم گاہ مولا علی سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس سے مولانا امداد علی نسیمی نے خطاب کیا۔ خطاب میں انہوں نے کہاکہ شکار پور واقعہ کے بعدمجلس وحدت مسلمین سندھ نے 22نکاتی ایجنڈا حکومت سندھ کو دیا تھااور حکومت سندھ نے ہم کو بھرپور یقین دہانی کرائی تھی کہ آپ کے یہ جائز مطالبات ضرور پورے ہونگے۔ان مطالبات کو ابھی تک حکومت سندھ نے پورا نہیں کیا ہے ۔ اور تاخیر کیو ہو رہی ہے۔اور جو افراد دھشتگردوں کی پشت پناہی اندرون سندھ میں کر رہے ہیں ان دھشت گردوں کے خلاف بھی آپریشن میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے ۔ آخر ان دھشت گردوں کے خلاف آپریشن کیوں نہیں کیا جا رہا ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پورے سندھ میں آپریشن کیا جائے اور یمن میں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور سعودی ظالمنہ کاروائیوں کو فوراً روکا جائے اور 19 اپریل 2015کو گاڑی کھاتہ حیدر آباد میں ریفرنڈم کیمپ مجلس وحدت مسلمین ضلع حیدر آباد سندھ کی جانب سے لگایاجائیگا۔ جس میں تمام اہل اسلام دھشت گردی کے خلاف اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ اور اس میں کسی بھی مذہب اور کسی بھی فرقے کو لوگ اپنا ووٹ کاسٹ کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ دھشت گرد اور دھشت گردی کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے،کیوں کہ دہشت گردی میں بے گناہ اور معصوم لوگ مارے جاتے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree