وحدت نیوز (کوہاٹ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے صوبہ خیبرپختونخوا کے دورہ کا آغاز کر دیا۔ کوہاٹ کے علاقہ کچئی میں دفاع وطن کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس سے قبل استر زئی پایان کے علاقہ حسن خیل میں علامہ ناصر عباس جعفری نے ایم ڈبلیو ایم شعبہ خیر العمل کے زیر اہتمام چلنے والے سلائی سنٹر کا دورہ کیا۔ طالبات سے گفتگو کی، اور ہاتھ سے بنی چیزوں کا مشاہدہ کیا۔ اس موقع پر دیگر قائدین بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وفد کے ہمراہ سابق چیف جسٹس سید ابن علی و صدر وحدت کونسل سے ملاقات کی، ان کے ہمراہ وفد میں علامہ اقبال بہشتی رکن شوری عالی، علامہ سبطین حسینی صوبائی سیکرٹری جنرل کے پی کے، علامہ ارشاد مطاہری سیکرٹری جنرل ضلع ہنگو حاجی علی داد سیکرٹری جنرل ضلع استر زئی موجود تھے۔

کچئی کوہاٹ میں منعقدہ دفاع وطن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ کربلا مشن انبیا ءکی ایک تکمیل ہے، امام خمینی کے ذریعے اللہ نے اس سفر کو جاری رکھا، شہنشاہیت کا خاتمہ ممکن بنایا، اسی طرح پاکستان میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی نے اس سفر کو جاری رکھا، ہمارا ٹارگٹ ہونا، ہماری شہادتیں، اس وجہ سے ہیں کہ ہم نے طول تاریخ میں یزیدان وقت کو للکارا، یزیدیت کو مردہ باد کہا، ہم نے ان کے مشن کو مردہ باد، یزیدیت کا ساتھ نہیں دیا، ہم نے عصر کے یزید امریکہ و اسرائیل کو مردہ باد کہا، ہم نے فلسطین کی حمایت کی، یہی ہمارا جرم ہے، بات شیعہ سنی کی نہیں، ہم ہر ظالم کے دشمن ہیں چاہے وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو، ہر مظلوم کے حامی ہیں چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔

علامہ سبطین حسینی کا کہنا تھا کہ ہم ابوالفضل العباس کے ماننے والے ہیں، جنہوں نے نہر فرات اور القمہ پر فرمایا تھا والله اِن قَطعتم یَمینی انی احامی ابداً عَن دینی و عَن امام صادق الیقینی نَجْلِ النبی الطاهر الامین تم نے میرا دایا ہاتھ کاٹا اس کے باوجود میں سید الشہداء کا وفادار رہونگا، دین اور مکتب سے وفادار رہونگا۔ علامہ سبطین کا کہنا تھا کہ ہم نے شہادتیں دیں ہیں، ہم اپنی سرزمین سے وفاداری نبھاتے ہیں گے۔ ہم اپنے عقیدے سے وفاداری نبھاتے رہیں گے۔ ہم ایک قدم بھی اپنے سرزمین کے دفاع سے اور عقیدے کے دفاع سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

وحدت نیوز (کوہاٹ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے صوبہ خیبرپختونخوا کے دورہ کا آغاز کر دیا۔ کوہاٹ کے علاقہ کچئی میں دفاع وطن کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس سے قبل استر زئی پایان  کے علاقہ حسن خیل میں علامہ ناصر عباس جعفری نے ایم ڈبلیو ایم شعبہ خیر العمل کے زیر اہتمام چلنے والے سلائی سنٹر کا دورہ کیا۔ طالبات سے گفتگو کی، اور ہاتھ سے بنی چیزوں کا مشاہدہ کیا۔  اس موقع پر دیگر قائدین بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وفد کے ہمراہ سابق چیف جسٹس سید ابن علی و صدر وحدت کونسل سے ملاقات کی، ان کے ہمراہ وفد میں علامہ اقبال بہشتی رکن شوری عالی، علامہ سبطین حسینی صوبائی سیکرٹری جنرل کے پی کے، علامہ ارشاد مطاہری سیکرٹری جنرل ضلع ہنگو حاجی علی داد سیکرٹری جنرل ضلع استر زئی موجود تھے۔

وحدت نیوز (گلگت) خالصہ سرکار کے نام پر بنجر اراضیوں کی بندر بانٹ تشویشناک عمل ہے ،ایسے اقدامات علاقے میں انتشار و انارکی پھیلانے کا موجب بن جائینگے۔طاقت کے بل بوتے پر بنجر زمینوں قبضہ کرنا اور متعلقہ آبادیوں کے عوام کو بیدخل کرنا جمہوری روایات کے منافی اقدام ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اور رکن گلگت بلتستان اسمبلی حاجی رضوان علی نے کہا کہ گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں علاقے میں موجود بنجر اراضیوں کی بندربانٹ نئی نسل کو چھت سے محروم رکھنے کی سازش ہے، حالانکہ متعلقہ علاقوں کی آبادی شرعا و قانونا حریم علاقوں پر حق تصرف رکھتے ہیں۔گلگت بلتستان میں قابل کاشت اراضی کا رقبہ پہلے ہی انتہائی قلیل ہے اور عوام کے پاس اپنا رہائشی گھر بنانے کی زمین بھی نہیں رہی ہے اور بنجر اراضیوں پر عوام کے حق تصرف کو چھیننا عوام دشمنی کے مترادف ہے۔پاکستان کے دیگر علاقوں میں بنجر زمینوں کو آباد کرنے کیلئے حکومت مختلف پیکجز دے رہی ہے اور گلگت بلتستان میں اس کے برعکس یہاں کے عوام بنجر اراضیوں کو قابل کاشت بنانے پر آمادہ ہے جبکہ حکومت طاقت کے ذریعے عوام سے آباد کاری کے حق کو چھیننا چاہتی ہے۔ چھلمس داس،مقپون داس، تھک داس، مناور اور نلتر بالا سمیت کئی بنجر رقبے سرکار کے نام پر الاٹ کرنا سراسر ناانصافی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان ناتوڑ رولز کو ایک ظالمانہ قانون سمجھتی ہے اور گلگت بلتستان کے طول وعرض میں موجود تمام بنجر زمینوں کو گلگت بلتستان کے عوام کی ملکیت سمجھتے ہیں ، ناتوڑ رولز کی آڑ میں بنجر اراضیوں کی بندربانٹ کی حکومتی پالیسی کے خلاف گلگت بلتستان اسمبلی میں قرارداد لائی جائیگی اور خالصہ سرکار کے نام پر عوامی زمینوں پر سرکاری قبضہ کے خلاف تحریک چلانے سے بھی دریغ نہیں کیا جائیگا۔

وحدت نیوز (گلگت) قلیل عرصے میں تین بار مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوامی ریفرنڈم ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام نواز لیگ کے کھوکھلے نعروں سے عاجز آگئے ہیں اور اپنے مطالبات منوانے کیلئے سڑکو ں پر آچکے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری امور سیاسیات غلام عباس نے کہا کہ حکومت کی غلط پالیسیوں نے جی بی کے عوام کو سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور کردیا ہے۔حکومت کی یقین دہانیاں اور جھوٹے وعدوں کو گلگت بلتستان کے عوام نے مسترد کرتے ہوئے اپنے مطالبات کے حق میں مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤں ہڑتال کرکے حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔حکومت حق حکمرانی کھوچکی ہے اور عوام دشمن پالیسیوں کا نتیجہ انتہائی بھیانک ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نوازلیگ اقتدار کی بھوکی جماعت ہے جس کے سامنے بیروزگاری، کرپشن اور بھوک و افلاس کوئی معنی نہیں رکھتی ،علاقے کی ترقی و خوشحالی کیلئے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں اور نہ ہی موجودہ حکومت میں وفاقی حکومت سے اپنے حقوق مانگنے کی جرات پائی جاتی ہے۔آئینی حقوق کے حوالے سے کئی مہینے عوام کو دھوکے میں رکھا گیا اور اب اس غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے۔گلگت سکردو روڈ کے حوالے سے اراکین اسمبلی کا اجلاس سے واک آؤٹ کرنا اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ حکومت کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں۔ترقیاتی منصوبوں اور بیروزگاری کے خاتمے کے تمام تر اعلانات ہوا پر ہیں اور کرپشن ، پروٹوکول اور سیر وسیاحت میں حکومتی اراکین نے سابقہ حکومت کو بھی لات ماردی ہے۔پاک چائنا اقتصادی راہداری کے حوالے سے موجودہ حکومت وفاق سے اپنا حق مانگنے کی بھی پوزیشن میں نہیں،سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات وفاق تک پہنچان حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ ابھی تک گلگت بلتستان کے عوام کی ترجمانی کیلئے کوئی پیپر ورک نہ ہونا لمحہ فکر یہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے تمام تر دعوے ہوائی فائرنگ ثابت ہوچکے ہیں جبکہ عملی طور پر کسی بڑے منصوبے پر کسی قسم کی پیش رفت نہیں
کی گئی ہے۔لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18 گھنٹے سے تجاوز کرگیا اور پورے علاقے میں گندم کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) حاسد کو زندہ سمجھنا خود زندگی کے ساتھ مذاق ہے،حاسد کیا کرتا ہے؟! وہ پہلے مرحلے میں مدّمقابل جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے، جب نہیں بن پاتا تو پھر مدّمقابل کو گرانے کی سعی کرتا ہے، جب اس میں بھی ناکام ہو جاتا ہے تو پھر مدّمقابل کو مختلف حیلوں اور مفید مشوروں کے ساتھ میدان سے ہٹانے کی جدوجہد کرتا ہے، جب اس تگ و دو میں بھی ناکام ہوجائے تو پھر مدّمقابل کی غیبت اور کردار کشی پر اتر آتا ہے۔ جب کھل کر غیبت اور کردار کشی بھی نہ کرسکے تو پھر اشارے کنائے میں ہی غیبت پر گزارہ کرتا ہے۔ اگر اس سے بھی اس کے حسد کی آگ نہ ٹھنڈی ہو تو پھر وہ اس انداز سے تعریف کرتا ہے کہ جس سے اس کے ارد گرد کے لوگ غیبت کرنے میں اس کی ہمنوائی کریں۔اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی حاسد خود اپنی ہی نظروں میں شکست خوردہ اور مرا ہوا ہوتا ہے۔

 جس طرح ایک شخص کو دوسرے سے حسد ہو جاتا ہے، اسی طرح ایک قوم اور ایک تنظیم کو بھی بعض اوقات دوسری سے حسد ہو جاتا ہے۔
 قومی اور تنظیمی حاسد بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

 اربابِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اقوام افراد سے اور تنظیمیں ممبران سے تشکیل پاتی ہیں۔ اقوام میں افراد کی شمولیّت کسی حد تک اجباری اور کسی حد تک اختیاری ہوتی ہے، جبکہ تنظیموں میں شمولیّت فقط اختیاری ہوتی ہے۔

اقوام میں اجباری شمولیّت کی مثال یہ ہے کہ جو شخص بھی یہودی خاندان میں متولد ہوتا ہے، وہ بہر صورت یہودی قوم کا فرد ہی متصور ہوگا۔ اب اقوام میں اختیاری شمولیت کی مثال یہ ہے کہ ایک یہودی کلمہ طیّبہ پڑھ کر اپنی سابقہ یہودی قومیّت سے دستبردار ہو جاتا ہے اور اختیاری طور پر ملت اسلامیہ کا فرد بن جاتا ہے۔

سیاسی نظریات کے مطابق تنظیمی ممبر شپ کے لئے ایسا نہیں ہوتا کہ ہر شخص جس خاندان میں پیدا ہو وہ موروثی طور پر اپنے ابا و اجداد کی پارٹی کاممبر بھی ہو۔ پارٹی کا ممبر بننے کے لئے اسے فارم پُر کرنے پڑتے ہیں اور مختلف تربیتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس طرح ایک وقت میں ایک قوم کے اندر مختلف تنظیمیں ہوسکتی ہیں، اسی طرح ایک تنظیم کے اندر بھی مختلف اقوام کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ جس طرح اقوام کی تشکیل رنگ، نسل، مذہب، علاقے، خاندان یا دین پر ہوتی ہے، اسی طرح تنظیموں کا انحصار بھی مذکورہ عناصر میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے۔

 عام طور پر اقوام اپنی مشکلات کے حل کے لئے تنظیموں کو وجود میں لاتی ہیں۔ اس حقیقت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح افراد زندگی اور موت کے عمل سے گزرتے ہیں، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کو بھی زندگی اور موت سے واسطہ پڑتا ہے۔

 قرآن مجید کی نگاہ میں بہت سارے لوگ بظاہر کھانے پینے، حرکت اور افزائش نسل کرنے کے باوجود مردہ ہیں، اسی طرح بہت سارے لوگ بظاہر جن کا کھانا پینا، حرکت کرنا اور افزائش نسل کا سلسلہ متوقف ہو جاتا ہے وہ زندہ ہیں اور قرآن مجید انہیں شہید کے لقب سے یاد کرتا ہے۔

 افراد کی مانند اقوام اور تنظیمیں بھی دو طرح کی ہیں، کچھ زندہ ہیں اور کچھ مردہ۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جس طرح افراد کی ظاہری حرکت زندگی کا معیار نہیں ہے، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کی ظاہری حرکت اور فعالیت بھی زندگی کی غماض نہیں ہے۔ حرکت کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ حرکت کی سمت کیا ہے، چونکہ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص زندگی کی آغوش میں بیٹھا ہوا ہو، لیکن موت کی طرف حرکت کر رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص موت کے سائے میں جی رہا ہو، لیکن زندگی کی طرف گامزن ہو۔

عبداللہ ابن ابیّ جیسے بہت سارے لوگ بظاہر پیغمبر اسلام (ص) کے پرچمِ حیات کے زیرِ سایہ زندگی گزار رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کی سمت ہلاکت و بدبختی تھی۔ اسی طرح سلمان و ابوذر جیسے لوگ ظہورِ اسلام سے پہلے ہلاکت و بد بختی کے سائے میں جی رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کا رخ حقیقی زندگی کی طرف تھا۔ بظاہر دونوں طرف حرکت تھی، اسی حرکت نے عبداللہ ابن ابیّ کو ہلاکت تک پہنچا دیا اور اسی حرکت نے سلمان (ر) و ابوذر (ر) کو حیاتِ ابدی سے ہمکنار کیا۔ اسی طرح تنظیموں کی زندگی میں بھی فقط ظاہری حرکت اور فعالیّت معیار نہیں ہے، بلکہ حرکت کی سمت کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ ہمارے دور کی بات ہے کہ طالبان نے بہت زیادہ فعالیت کی، لیکن اس کے باوجود طالبان مرگئے، اس لئے کہ ان کی حرکت کی سمت غلط تھی، لیکن حزب اللہ سربلند ہے، اس لئے کہ حزب اللہ کی حرکت کی سمت نظریات کی طرف ہے۔ طالبان کے نظریات سعودی عرب اور امریکہ سے درآمد شدہ تھے، چنانچہ ریاض وواشنگٹن کی پالیسی بدلتے  ہی ان کی نظریاتی موت بھی واقع ہوگئی۔

 یاد رکھئے! جھوٹ، ظلم و تشدد اور دھونس دھاندلی سے تنظیموں کو کبھی بھی زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ اب طالبان کی محبت کا دم بھرنے والے دھڑوں کو یہ نوشتہ دیوار ضرور پڑھ لینا چاہیے کہ حاسد کی مانند مردہ تنظیمیں بھی اپنے ہی ممبران کی نظروں میں مری ہوئی ہوتی ہیں۔ جہاں پر تنظیموں کی نظریاتی موت واقع ہوجائے، وہاں پر ان کے تابوت اٹھانے سے وہ زندہ نہیں ہو جایا کرتیں۔

 ہمیں یہ کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ملت اسلامیہ کے افراد اور تنظیموں کی اساس ان کے عقائد اور نظریات پر قائم ہے۔ اسلامی تنظیموں کی زندگی میں ان کے نظریات اس قطب نما کی مانند ہیں، جس سے سمت معلوم کی جاتی ہے۔ اگر کسی ملی تنظیم کی سمت مشخص نہ ہو اور حرکت نظر آئے تو اس کے ناخداوں کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی سمت درست معیّن کریں اور پھر حرکت کریں۔ بصورتِ دیگر وہ جتنی حرکت کرتے جائیں گے، اتنے ہی منزل سے دور ہوتے جائیں گے۔

جو طاقت تنظیم کی حرکت کو کنٹرول کرتی ہے اور تنظیم کو نظریات کی سمت پر کاربند رکھتی ہے، وہ اس کے تربیّت یافتہ ممبران ہوتے ہیں۔ اگر کسی تنظیم میں تربیّت کا عمل رک جائے یا کھوکھلا ہوجائے تو وہ بھنور میں گھومنے والی اس کشتی کی مانند ہوتی ہے، جو جتنی تیزی سے حرکت کرتی ہے، اتنی ہی ہلاکت سے قریب ہوتی جاتی ہے۔

 کسی بھی تنظیم کے ممبران کس حد تک تربیّت یافتہ ہیں، اس کا اندازہ ان کی جلوتوں سے یعنی نعروں اور سیمیناروں سے نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا پتہ ان کی خلوتوں سے چلتا ہے۔ جس تنظیم کے ممبران کی خلوتیں نظریات سے عاری ہوں، ان کی جلوتیں بھی عارضی اور کھوکھلی ہوتی ہیں۔ جب کسی تنظیم کے پرچم کو تھامنے والے افراد کی خلوتوں میں رشک کی جگہ حسد، حوصلہ افزائی کی جگہ حوصلہ شکنی، تعریف کی جگہ تمسخر، تکمیل کی جگہ تنقید، تدبر کی جگہ تمسخر، خلوص کی جگہ ریا اور محنت کی جگہ ہنسی مذاق لے لے تو اس تنظیم کی فعالیّت اور حرکت کو زندگی کی علامت سمجھنا یہ خود زندگی کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔

 ہماری ملّی تنظیموں کو ہر موڑ پر اس حقیقت کو مدّنظر رکھنا چاہیے کہ نظریات پر سمجھوتے کا نتیجہ تنظیموں کی موت کی صورت میں نکلا کرتا ہے۔ تنظیمیں نعروں سے نہیں بلکہ نظریات سے زندہ رہا کرتی ہیں اور نظریات کی پاسداری صرف اور صرف تربیّت شدہ ممبران ہی کرتے ہیں۔ جہاں پر تنظیموں میں ممبران کی نظریاتی تربیّت کا عمل رک جائے، وہاں پر تنظیموں کو مرنے اور کھوکھلا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ غیر تربیّت یافتہ افراد تنظیموں کو دیمک کی طرح چاٹتے ہیں اور پھندے کی مانند تنظیموں کے گلے میں اٹک جاتے ہیں۔

تنظیموں میں تربیّت کا عمل کسی صورت بھی نہیں رکنا چاہیے چونکہ تربیّت ایسی کیمیا ہے جو زندگی کی لکیر اور خون کی تاثیر کو بھی بدل دیتی ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ تبلیغات کے مرکزی سیکریٹری علامہ اعجاز بہشتی نے اپنے ایک بیان میں روضہ حضرت زینب ؑ کے قریب ہونے والے بم دھماکوں کی مذمت کی اور شام کے صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام میں جنگ بندی مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے نہایت مثبت قدم ہے جو شامی صدر بشار السد کی کامیابی اور دہشت گرد اور انکے اتحادیوں کی شکست ہے ۔ حضرت زینب سلام علیہا کی روضہ مبارک کے پاس بم دھماکہ اور بے گناہ لوگوں کی شہادت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والے یہ دہشت گرد در حقیقت امریکہ، اسرائیل کے ایجنٹ ہیں ۔ لیکن مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دفاع حرمین کا نعرہ لگا نے والے نواسی رسول حضرت زینب ؑ کے روضہ کی دفاع کے موقع پر خاموش ہیں، جن دہشت گرد گروں کی جانب سے نواسی رسول حضرت زینب ؑ کی روضہ کو خطرہ ہے انہی دہشت گردوں سے مکہ و مدینہ اور سول اکرم ؐ کے روضہ کو بھی خطرہ ہے اور ان کی شر سے کوئی مسلمان محفو ظ نہیں ہے ۔لہذا ہمیں اس وقت اسلام کے اصل چہرہ کو دہشت گردوں اور عالمی سازشوں سے بچا نا ہے اور دشمنان اسلام کو بے نقاب کرنا ہے تاکہ ساری دنیا پر حقیقت اسلام اور محبت دین محمدی ؐ واضح ہو۔ اسلام کو بچا نے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر اتحاد اور شعور کی فضاء کو قائم کریں اور دشمنان اسلام کی ہر سازش سے ہوشیار رہے تاکہ ہم دشمن کی ہر سازش کا بر وقت مقابلہ کر سکیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree