وحدت نیوز (شکارپور) مجلس وحدت مسلمین ضلع شکارپورکے تحت تنظیم سازی مہم زور شور سے جاری ہے، اس سلسلے میں ضلعی سیکریٹری جنرل فدا عباس اور سیکریٹری امور تنظیم سازی شاکر حسین سومرونے چک سٹی اور بھرکھان کا دورہ کیا اور وہاں دو نئے تنظیمی یونٹس تشکیل دیئے، چک سٹی میں منعقدہ جنرل باڈی اجلاس میں کارکنان نے کثرت رائے سے برادرسید سچل شاہ کو جبکہ بھرکھان میں منعقدہ جنرل باڈی اجلاس میں کارکنان نے کثرت رائے سے برادر مظہر عباس کو نیا یونٹ سیکریٹری جنرل منتخب کرلیا ، دونوں منتخب سیکریٹری جنرلز سے ضلعی سیکریٹری جنرل فدا عباس نے حلف لیا، اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ایم ڈبلیوایم الہیٰ اہدافات کی حامل جماعت ہے، جس کا بنیادی مقصد ملت تشیع کو نظم کی لڑی میں پرو کردرپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔امید کرتے ہیں کہ نومنتخب سیکریٹری جنرل صاحبان جماعت کی پالیسیوں کے مطابق اپنی فعالیت سے قوم کی خدمت میں مصروف عمل ہوں گے ، انشاء اللہ تنظیم سازی کا یہ عمل جاری رہے گا اور مذید نئے یونٹس جلد تشکیل دیئے جائیں گے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری نے سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ؒکی اکیسویں برسی کے موقع پر وحدت سوشل میڈیا ٹیم کو جاری ویڈیوپیغام میں کہا ہے کہ پاکستان میں عدالت خواہی کے عظیم علمبردار شہید قائد حسینی ؒ اور ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی تھے،جتنے بھی انبیاءآئے ان کی تحریک عدل خواہی کی تحریک تھی کہ لوگوں کو بیدار کریں باشعور کریں تاکہ انسان عدل کے نفاذکے لئے اُٹھیں،انبیا ءکی تحریک کو  دو لفظوں میں اگر خلاصہ کیا جائے تو یہ کہیں گئے کہ انبیا کی جدوجہد عدالت خواہی ، عدل کے نفاذ کے لئے تھی اور ظلم مٹانے کے لئے تھی ،یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا،انبیا کے ساتھ اولیا ءاللہ اس رستے پر چلتے رہے آئمہ اہل بیت ؑ نے اسی رستے کو اپنایااور اس جدوجہد میں کربلا ایک اہم موڑ ہے کربلا ایک اہم مرحلہ ہے عدالت خواہی کی تحریک کا ظلم ستیزی کا ظلم سے ٹکرانے کی تحریک کا !

ان کا کہنا تھا کہ شہید ڈاکٹر نقویؒ اور قائد شہید ؒاس سرزمین پرعظیم رہنما تھے،شہیدڈاکٹر نقویؒ،انبیاءکی عدالت خواہی اور ظلم ستیزی کی تحریک کے روحِ رواں تھے،انبیاء، آئمہ اور اولیاءکی تحریک عدل خواہی کو آگے بڑھانے کیلئے یہ دونوں شخصیات نمونہ عمل ہیں اور دونوں نے اس راستے میں قربانی دی شہید ہوئے،ڈاکٹر شہید میڈیکل کالج میں پڑھتے رہے تھے تو اس کے ساتھ وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے بھی غافل نہیں تھے ،جب انقلاب اسلامی نہیں آیا تھا ۔جب دنیا اس طرح کے افکار سے زیادہ آشنا نہ تھی انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر اس تحریک کو شروع کیا لوگوں کو منظم کیا ان کی تربیت کرنا شروع کی۔،ڈاکٹر نقوی ،عدالت خواہی اور ظلم ستیزی کی تحریک کا شجرہ طیبہ تھے ، جس کے پھل آج تک ہم دیکھ رہے ہیں،آج پاکستان میں اور دنیا بھر میں جہاں چلے جائیں آپ کو ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی رح کے تربیت شدہ لوگ ملیں گے ، ہمیں شہید ڈاکٹر کے مشن کی تکمیل کے لئے خود کو آمادہ وتیار کرنا ہوگا۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی موسوی نے کہا ہے کہ بارش تو اللہ کی رحمت کی صورت میں برستی ہے مگر کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کی کارکردگی کی وجہ سے یہ رحمت عذاب کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ نکاسی آب کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے قابو سے باہر نظر آرہی ہے۔ایک طرف مسلسل بارشوں کے باعث نظام زندگی متاثر ہو رہی ہے تو دوسری طرف مزید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے ۔ اس سے پہلے کے شہر کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ملازمین شہر کا جائزہ لے اور جن علاقوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے وہاں جلد از جلد نظام کو ٹھیک کرے۔

انہوں نے کہا کہ مسلسل بارشوں سے نالوں میں پانی کا بہاؤ بڑھ رہا ہے اور ایک موثر نظام کی غیر موجودگی کے باعث چھوٹے سیلاب کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اسکے علاوہ نکاسی آب کے ناقص نظام کے باعث کچھ علاقوں میں سڑکوں اور گلیوں میں پانی جمع ہو رہے ہیں جس کے باعث نہ صرف ٹریفک کے نظام میں خلل پیدا ہورہی ہے بلکہ یہ پانی شہر میں گندگی اور ماحول کی خرابی کا باعث بن رہی ہے۔شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پیدل چلنا بھی محال ہوگیا ہے اور اس طرح باران رحمت شہریوں کیلئے زحمت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔

انہو ں نے مزہد کہاکہ ان وجوہات کی بنا پر عوام کو مشکلات کا سامنا ہے اور کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ملازمین بھی اس بات پر رد عمل کا اظہار نہیں کر رہے۔کروڑوں روپوں کے استعمال کے باوجود نالیاں بند ہونے کے باعث گندگی کے ڈھیرسڑکوں پر جمع ہو گئے ہیں اور اس سے تعفن بھی پھیلنے لگا ہے۔ شہر کے نظام کو برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ انتظامیہ اورکوئٹہ میٹروپولیٹن کاپوریشن کی جانب سے صفائی کے اقدامات ناکافی نظر آرہے ہیں۔متعلقہ اداروں کے ملازمین اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے شہر کا جائزہ لے اور شہر میں درپیش مسائل کے حل سے عوام کی مشکلات میں کمی کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) بعض لوگ آج ان کی شہادت کو اکیس برس ہونے کے باوجود سمجھ نہیں پائے کہ ان کی شخصیت میں اس قدر جاذبیت اور مقناطیسیت کیوں تھی، بلاشبہ وہ شہادت سے پہلے کی زندگی میں تو بے حد جاذبیت رکھنے والے شہید قائد کے بعد سب سے بڑی شخصیت تھے، مگر ان کی شہادت کے بعد بھی ان کی جاذبیت اور مقناطیسیت کا یہ عالم بہت سے لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈالے ہوئے ہے اور وہ انگشت بدندان ہیں کہ اکیس برس ہونے کو آئے، نوجوان آج بھی ان کی شخصیت کو آئیڈیالائز کرتے ہیں، ان کے مزار پہ دیوانہ وار آتے ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ان کی یاد میں گریہ ہوتا ہے، ان کی باتوں، ان کی کہانیوں، ان کے کارناموں، ان کے شجاعانہ قصوں، ان کے فلاحی منصوبوں، ان کے یادگار اور پر اثر لیکچرز، ان کے دلنشین خطابوں، ان کے حیران کر دینے والے منصوبوں اور ان کی زندگی کے ان گنت و لامتناہی سلسلوں کا تذکرہ ہوتا ہے، انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، انہیں سلام عقیدت اور نذرانہ محبت پیش کیا جاتا ہے۔

یہ سب واقعی بہت حیران کر دینے والا ہے اور ہر اس شخص کیلئے اس میں حیرت کا مقام ہے، جس نے شہید ڈاکٹر کو زندگی میں نہیں دیکھا اور جس کو ان کی قربت نصیب نہیں ہوسکی اور جو ان سے فیض نہیں پا سکا یا جسے ان سے کسی بھی وجہ سے رغبت نہیں تھی، مگر ہر اس دوست کیلئے جس نے ان کی قربت حاصل کی، جس نے انہیں کام کرتے دیکھا، جس نے انہیں متحرک اور مسلسل فعال پایا، جس نے انہیں لوگوں کا درد محسوس کرتے دیکھا، جس نے انہیں قومیات میں اپنی زندگی کے قیمتی ایام، ماہ و سال خرچ کرتے دیکھا، جس نے انہیں ایثار و قربانی کی عملی تصویر بنے دیکھا، جس نے انہیں نوجوانوں کے مسائل حل کرتے دیکھا، جس نے انہیں افق پاکستان پر روشن اور چمکتے، دمکتے دیکھا، اس کے سامنے یہ محبتوں اور عقیدتوں کے نچھاور ہونے والے پھول اور جاذبیت کے یہ نمونے کسی بھی طور انجانے اور غیر فطری نہیں، ہاں۔۔یہ اس خلوص کا انعام ہی تو ہے جو وہ لوگوں پر نچھاور کرتے تھے، یہ اس قربانی اور ایثار کا بدل ہی تو ہے جو وہ کسی عام سے انسان کیلئے دیتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے تھے، یہ اس درد کا حاصل ہی تو ہے جسے اپنے سینے میں سجائے وہ کراچی سے لیکر بلتستان تک اور کوئٹہ سے لیکر پاراچنار تک کے مومنین کیلئے محسوس کرتے تھے۔

بھلا کوئی اور ہے تو اسے سامنے لایا جائے کہ جو ان کا مقابلہ کرسکے، جس کی خدمات اور کارناموں کی فہرست اور خلوص و مہربانی کا معیار ان کے عشر عشیر بھی ہو، جس کے دن اور رات، ماہ و سال مسلسل قومی زندگی کا آئینہ ہوں، جس پر اعتماد کیا جاتا ہو، جو امید اور آسرا محسوس ہوتے ہوں، جو ظاہر و باطن میں ایک جیسے ہوں، جو گفتار و کردار میں یکساں ہوں، جو اندر و باہر ایک ہی طرح کے ہوں، جو دور اور نزدیک، سفر و حضر اور دکھ و خوشی میں ایک ہی جیسے ہوں، جن کی رفتار سب سے تیز ہو، جس کا کردار سب سے بلند ہو، جس کی نگاہ سب سے دور بین ہو، جس کا ہدف سب پہ بھاری ہو، جس کا جینا خوشنودی خدا کیلئے ہو اور جس کا مرنا راہ آئمہ و انبیاٗ ہو، ہمیں تو کوئی اور ان کے مقابل نظر نہیں آتا، اگر کوئی ہوتا تو اس کی خوشبو بھی آج سب کو مہکا رہی ہوتی، سب کو جلا رہی ہوتی، سب کو اپنی طرف کھینچ رہی ہوتی، میرے خیال میں اس میدان میں ان کے مقابل دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔


تحریر۔۔۔۔۔۔۔ارشاد حسین ناصر

وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے خلیج تعاون کونسل کی طرف سے حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دیے جانے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں مسیحی اقلیتی برادری سمیت مختلف مکتبہ فکر کے لوگ حزب اللہ کے جھنڈے تلے اسلامی مقدسات اور لوگوں کے ناموس کی حفاظت کر رہے ہیں،سعودی حکومت کے نزدیک حزب اللہ کے دہشت گرد ہونے کی سب سے بڑی وجہ اسرائیل دشمنی ہے،اسرائیلی ایما ء پر آل سعود اور خلیجی ریاستوں کا یہ فیصلہ قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔ آل سعود خطے میں اسرائیلی عزائم اور اس کے مفادات کی تکمیل کے لیے سرگرم ہیں۔مسلمان نما یہ حکمران اسلام کے لبادہ اوڑھ کر صیہونی طاقتوں کو تقویت دے رہے ہیں جس کے عالم اسلام پر بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔اسرائیل کے ہاتھ لاکھوں بے گناہ مسلمان کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔اس کے باوجود سعودی عرب کی طرف سے اسرائیلی کے کسی بھی اسلام دشمن اقدام کی مذمت نہ کرنا آل سعود اور اسرائیلی گٹھ جوڑ کا منہ بولتاثبوت ہے،داعش سے مقابلے کیلئے34ملکی اتحادتشکیل دینے والی سعودی حکومت کو عالم بشریت کی فلاح اور نجات کا ذرہ برابر احساس ہوتا تو داعش کو کچلنے میں مصروف حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینے کے بجائے اس کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرتی،جو کہ داعش کے فتنے کو شام میں ہی دفن کرنے کا عزم کربیٹھے ہیں ،  داعش کے مقابل حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کا کردار قابل تحسین ہے جو کہ عالم انسانیت کو اس نجس وجود سے نجات دلانے کیلئے شب وروز کوشاں ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ  اس وقت دنیا بھر میں داعش کی بربریت کے خلاف آواز بلند کی جار رہی ہے لیکن خلیجی ممالک ان مسلمان قوتوں کو نیچا دکھانے میں پیش پیش ہیں جو اسلام کی سربلندی اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عالم اسلام پر ان نام نہاد مسلمانوں کی حقیقت آشکار ہو چکی ہے۔سعودی عرب کا متنازعہ کردار لمحہ فکریہ ہے۔ عالم اسلام کو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر سعودی عرب اسرائیل کو مضبوط کرنے کے لیے امت مسلمہ کی غیرت کو داو پرکیوں لگا رہا ہے۔ حزب اللہ اسلامی تعلیمات کی حقیقی پیروکار ہے اور اس نے اپنے عمل سے اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا ہے،حزب اللہ کی صداقت اور ایمان کا یا عالم ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اسرائیل بھی سید حسن نصراللہ کے کلام کو پتھر پر لکیر اور سو فیصدسچ قراردیتا ہے۔ داعش کی طرف سے مقدسات اسلامی کی بے حرمتی کے خلاف حزب اللہ سب سے بڑی ڈھال ہے۔حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینا آل سعود کی متعصبانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔سعودی عرب عالم اسلام کا مشاہدہ صیہونی چشمہ پہن کر کر رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسےاصل  مسلمان(حزب اللہی) دہشت گرد اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے(داعشی) امن کے علمبردار دکھائی دے رہے ہیں۔

عادت سے مجبور

وحدت نیوز (آرٹیکل) دور کسی گاؤں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔ اس کے تمام تر جائیداد ایک کھیت، رہنے کے لئے ایک کمرہ اور ایک گھوڑا تھا کمرہ کے ساتھ ہی گھوڑے کو باندھنے کے لئے چھوٹا سا اصطبل تھا یہ اصطبل اس قدر چھوٹا تھاکہ گھوڑا اِدھر اُدھر ہل نہیں سکتا تھا۔ کسان رات کو گھوڑے کو اصطبل میں بند کرتااور صبح نکال کر اس چھوٹی سی کھیت کے پاس چرانے لے جاتااور اس پر سفر کرتا اور محنت مزدوری کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا تھا۔

کسان کا گھوڑے کو بند کرنے کا طریقہ کچھ مختلف تھا وہ شام ہوتے ہی گھوڑے کو سر کی طرف سے اصطبل کے دروازے کے پاس کھڑا کرتا اور پیچھے سے مار کر اسے آگے کی جانب دھکیلتا اور پھر گھوڑے کو اندر اصطبل میں بھیج کر دروازہ بند کرتا تھا۔ جب صبح گھوڑے کو نکالنا ہوتا تو پیچھے کی جانب سے رسی کو پکڑ کر کھینجتا یوں گھوڑا ریورس پوزیشن میں ہی پیچھے کی طرف آتے اور اصطبل سے باہر نکلتا۔

ایک دن کوئی امیر شخص وہاں آیااور اس نے وہ گھوڑا خریدنا چاہا اس امیر شخص نے گھوڑے کی قیمت ادا کی اور گھوڑے کو لے کر واپس اپنے گھر پہنچا۔ امیر شخص نے جب اس گھوڑے کی عادتیں دیکھیں تو کافی پریشان ہو،ا ہوا کچھ یوں کہ اس امیر شخص کے پاس بیس کے قریب گھوڑے موجود تھے اور ان کے لئے اس نے بڑا اصطبل خانہ بنوایا ہوا تھا تاکہ گھوڑے آرام سے اس میں بیٹھ سکیں اور گھوم پھر سکیں، لیکن غریب آدمی کے گھوڑے کی عادتیں باقی سب سے مختلف تھی۔۔۔اس بڑے اصطبل خانہ میں بھی یہ گھوڑا بالکل سیدھے طریقہ سے داخل ہوتا تھا اور تھوڑا سا چل کر رک جاتا تھا اور ہوشیار پوزیشن میں کھڑا رہتا تھا اور نہ ہی ادھر اُدھر ہلتا جلتا تھا، باقی سارے گھوڑے ادھر ادھر پھرتے تھے مگر یہ گھوڑا اپنی جگہ پر ساکت کھڑا رہتا، امیر مالک کو مزید حیرت تب ہوئی جب صبح اس نے اصطبل خانے کا دروازہ کھولا تو سارے گھوڑے باہر نکل آئے مگر اُس غریب کا گھوڑا لاکھ کوشش کے باوجود باہر نہیں نکلا نہ ہی وہ دائیں بائیں موڑا،امیر آدمی جب تمام طرح سے ناکام ہوچکاتو اس نے غریب آدمی کو بلا نے بھیجا اور تمام واقعہ سنایا، غریب آدمی اپنے گھوڑے کی عادتوں سے واقف تھا وہ سمجھ گیا کہ کس طرح گھوڑے کو باہر نکلنا ہے۔ غریب آدمی اصطبل خانے گیا اور دیکھا کہ دروازہ کھولا ہوا ہے مگر گھوڑا اپنے جگہ پر ساکت کھڑا ہے غریب آدمی نے گھوڑے کی رسی کو پکڑا اور پیچھے کی جانب کھنچا رسی کو کھنچنا تھا کہ گھوڑا فورا ریورس پوزیشن میں پیچھے کی جانب چلنا شروع کیا اور اس طرح اصطبل خانے سے باہر نکل آیا اور پھر باقی گھوڑوں کی جانب جانے لگا امیر آدمی اس گھوڑے کی حرکت دیکھ کر حیران رہ گیا۔

ایسے ہی کچھ صورت حال پاکستانی عوام کی بھی ہے ہم لوگ ہر وقت ظلم، ناانصافی، غربت، بے روز گاری، دہشت گردی اور کرپشن وغیرہ کا رونا روتے ہیں۔ آئے روز کہی نہ کہی مظاہرے، خودکشی، خودکش بم دھماکہ اور اسکولوں پر حملوں جیسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور عوام بھی اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ پہلے ایسے سانحات کبھی کبھی رونما ہوتے تھے لیکن اب ایسے واقعات کا ہونا تعجب نہیں ہوتا بلکہ کم اور زیادہ کے مرنے پر بات ہوتی ہے اور کم نقصان پر شکر ادا کرتے ہیں ۔

ناانصافی کا بول بالا ہے امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہو تا جا رہا ہے....آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری عام، حکمران ملکی اقتصاد کو بہتر بنانے کے بجائے اپنی اقتدار کو بچا نے میں مصروف ہے، قومی خزانے خالی ہیں، قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں مگر حکمرانوں کے پرسنل اکاؤنٹس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ان کے بچے غیر ملکی اعلی اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھتے ہیں اور غریب کے پاس اتنی بھی وسعت نہیں کی گلی محلے میں کھولے ہوئے کاروباری اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔ عوامی آمدو رفت کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور ذاتی فائدہ مند والی سڑکیں اور میٹرو آباد۔۔میڑو تو بنا یا گیا ہے مگر اس روڑ پر چلنے والے رکشے گاڑیوں کے لئے کوئی متبادل نظام نہیں۔
بحر حال تمام تر مشکلات اور اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہم پاکستانیوں میں اور اس گھوڑے میں کوئی فرق نہیں ہم چارر سال غربت، بے روزگاری، ناانصافی اور ظلم کا رونا روتے ہیں مگر جیسے ہی الیکشن قریب آتے ہیں ہم اپنے پورانے رویش پر واپس آجاتے ہیں اور ان ہی حکمران جماعتوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جن کو کئی دفعہ آزما چکے ہیں اور ان کے ہرجھوٹ اور فریب سے ہم واقف ہوچکے ہیں ، جنہوں نے ہر دفعہ عوام کو لولی پوپ اور جھوٹے دعووں کے سوا کچھ نہیں دیا اور اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کے بعد ملک کو مزید قرضوں میں ڈوبو کر عوام کے تن سے لباس اتار کر چلے جاتے ہیں۔۔۔۔ہم بھی اپنی عادتوں سے مجبور انہی حکمران جماعتوں کو ووٹ دے کر ان کو اقتدار میں لے آتے ہیں پھر کچھ مہینوں کے بعد احتجاج جلسہ جلوس اور رونا دھونا شروع ہو جاتا ہے۔

عوام کو ان حکمرانوں کے تمام تر مفادات کا علم ہے مگر پھر بھی ہر بار ایک ہی غلطی دہرا تے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے لگام کو ان حکمرانوں کے ہاتھوں میں دیا ہوا ہے اور وہ جس طرح چاہیں ہمیں چلاتے ہیں اور ہمیں اس چیز کا عادی بنا دیا گیا ہے کہ ان کے سوا کوئی نہیں پاکستان میں تمام تر طاقت ان ہی چند خاندانوں کے پاس ہے اور ہم بھی اپنی طاقت(عوامی طاقت) سے بے خبر اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ نہیں معلوم وہ وقت کب آئے گا کہ ہم سندھی ،بلوچی، پنجابی ، مہاجراور دیگر علاقائی و خاندانی سیاست کے فریب کردہ خول سے باہر نکلیں گے اور اپنے زہن کو وسیع کر کے ملکی اور عوامی مفادات کے لئے کام کریں تاکہ وطن عزیز پاکستان کو درپیش مسائل کا حل نکال سکیں اور عالمی دنیا میں پاکستان کے امیچ کو بہتر بنایا جاسکیں، مگر افسوس ہم اس وسیع دنیا میں جہاں تمام تر سہولیات اور آرائش موجود ہیں، زندگی گزارنے کے اصول موجود ہیں اسلام اور قرآ ن موجود ہیں جس سے ہم اپنی تمام مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں مگر ہم نے صرف چند پیسوں کے عوض، کچھ دنیا داری کی لالچ میں ہمیشہ اپنی غلامی کی عادتوں کو بر قرار رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہم نے اس وسیع اورروشن دنیا کو بھی اپنے اوپر تنگ کیا ہو ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔ ناصر رینگچن

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree