وحدت نیوز (آرٹیکل) اسلامی تعلیمات میں بلا کسی تفریق و امتیاز کے انسانی فضائل و کمالات (جو کہ انسانوں کی برتری کا معیار ہیں) کی نسبت مردو عورت دونوں کی طرف دی گئی ہے
    فضائل و کمالات کا منشاانسان کا جسم نہیں ہے بلکہ اس کی روح اور نفس ہے اور روح کے اعتبار سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے
    وہ آیتیں جو علم اور جہالت، ایمان اور کفر، عزّلت اور ذلّت، سعادت اور شقاوت، فضیلت اوربرائی، حق و باطل، سچّائی اور جھوٹ، تقویٰ اور فسق، اطاعت اور عصیاں، فرمانبرداری اور سرکشی، غیبت اور عدمِ غیبت، امانت اور خیانت اور ان جیسے دیگر امور کوکمالات اور نقائص جانتی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اچھائی یا برائی نہ مذکّر ہے نہ مؤنّث اس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان یا کافر کا بدن، عالم یا جاہل، پرہیزگاریا فاسق، صادق یا کاذب نہیں ہے
    دوسرے الفاظ میں علمی اور عملی مسائل میں جو کہ فضیلت اور کمال کا معیار ہیں اگرکہیں بھی مذکّر اور مؤنّث کی بات نہیں ہے، تو یقیناً روح جو کہ ان صفات سے مزین ہے، وہ بھی مذکّر و مؤنّث کے دائرہ سے خارج ہوگی
    مرحوم علّامہ طباطبائی اس سلسلہ میں یوں رقم طراز ہیں: مشاہدہ اور تجربہ کی رو سے یہ بات ثابت ہے کہ مردو عورت ایک ہی نوع کے دو افراد ہیں دونوں کا تعلّق فردِ انسانی سے ہے، چونکہ جو کچھ مردوں میں آشکار ہے وہی عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے
    کسی بھی نوع کے آثار اور علامات کا ظہور اس کے خارجی وجود کا مظہر ہوا کرتا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ ان دو صنفوں کے مشترکہ آثار و علامات میں شدّت اور کمی پائی جاتی ہو لیکن یہ اختلاف اس بات کا باعث نہیں بنتا کہ دونوں صنفوں کی حقیقت میں کسی قسم کا کوئی فرق پایا جاتا ہو
    یہاں سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ نوعی فضائل اور کمالات جو ایک صنف کی حد امکاں میں ہیں وہ دوسری صنف کے لئے بھی ممکن ہیں، اس کی ایک مثال وہ فضائل اور کمالات ہیں جو ایمان اور اطاعتِ پروردگار کے سایہ میں مرووعورت دونوں حاصل کرسکتے ہیں، وہ جامع ترین کلام جو اس حقیقت کو بیان کرتا ہے یہ آیت ہے
 أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ(۱)
میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم ایک دوسرے کا حصّہ ہو
    اس کے علاوہ سورۂ احزاب میں اسی حقیقت کو تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے اور مردو عورت کی معنوی خصوصیات کو ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ایک ساتھ قرار دیا گیا ہے اور دونوں کے لئے کسی امتیاز کے بغیر ایک ہی جزا قرار دی گئی ہے، انسانی روح کے اعتبار سے دونوں کو ایک ہی مقام عطا کیا گیا ہے، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس سورہ میں مردوں اور صنف نسواں اور ان کی ممتاز صفات کو ایک جامع عبارت میں بیان کیا گیا ہے اور ان دونوں صنفوں کے اعتقادی، اخلاقی، عملی صفات اور جزا کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔
ارشادِ ربّ العزّت ہے
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْقَانِتِينَ وَ الْقَانِتَاتِ وَ الصَّادِقِينَ وَ الصَّادِقَاتِ وَ الصَّابِرِينَ وَ الصَّابِرَاتِ وَ الْخَاشِعِينَ وَ الْخَاشِعَاتِ وَ الْمُتَصَدِّقِينَ وَ الْمُتَصَدِّقَاتِ وَ الصَّائِمِينَ وَ الصَّائِمَاتِ وَ الْحَافِظِينَ فُرُوجَہُمْ وَ الْحَافِظَاتِ وَ الذَّاکِرِينَ اللَّہَ کَثِيراً وَ الذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُمْ مَغْفِرَۃً وَ أَجْراً عَظِيماً (۳)
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچّے مرداور سچّی عورتیں اورصابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفّت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خداکا بکثرت ذکرکرنے والے مرد اور عورتیں، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہیّا کر رکھا ہے
    مشہور ومعروف مفسّر مرحوم طبرسی مجمع البیان میں رقمطراز ہیں، جب جنابِ جعفرابن ابی طالب کی زوجہ اسماء بنت عمیس اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ سے واپس آئیں تو رسالت مآب حضرت ختمیٔ مرتبتﷺ کی ازواج سے ملاقات کے لئے گئیں، اس موقع پر آپ نے ازواجِ رسولﷺ سے جو سوالات معلوم کئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آیا قرآن میں عورتوں کے سلسلہ میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا، نہیں،ان کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے، اسماء بنت عمیس پیغمبراکرمﷺ کی خدمت میں شرفیاب ہوئیں اور عرض کی اے خدا کے رسول! عورت کی ذات خسارہ و نقصان میں ہے ،رسولِ خداﷺ نے فرمایا تم نے کہاں سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے؟
اس نے عرض کی
’’اسلام اور قرآن میں عورتوں کے لئے مردوں جیسی کسی فضلیت کو بیان نہیں کیا گیا ہے‘‘
    اس موقع پر مذکورہ آیت نازل ہوئی، جس نے خواتین کو اس بات کا اطمینان دلایا کہ خدا کے نزدیک قرب اور منزلت کے اعتبار سے مرداور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں برابر ہیں، سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ یہ دونوں عقیدہ،عمل اور اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوں ۔
    مذکورہ آیت میں مردوں اور عورتوں کے لئے دس صفات کو بیان کیا گیا ہے جن میں بعض صفات کا تعلّق ایمان کے مراحل،یعنی زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اوراعضاء و جوراح سے عمل سے ہے۔ ان میں سے کچھ صفات زبان، شکم اور جنسی شہوت کے کنٹرول سے مربوط ہیں، یہ تین صفتیں انسانی اور اخلاقی زندگی میں سرنوشت ساز کردار ادا کرتی ہیں، مذکورہ آیت کے ایک دوسرے حصّہ میں سماج کے محروم اور پسماندہ طبقہ کی حمایت، سخت اور ناگوار واقعات کے سامنے صبر اور بردباری  اور ان تمام پسندیدہ صفات کی پیدائش اور بقا کے اصلی عامل یعنی یادِ خدا کا تذکرہ کیا گیا ہے
آیتِ کریمہ کے آخر میں ارشاد ہو رہا ہے کہ:
پروردگارِ عالم نے ان مردوں اور عورتوں کے لئے اجرِ عظیم مہیّا کر رکھا ہے جو مذکورہ صفات سے مزین ہو ں پروردگارِ عالم پہلے مرحلہ میں بخشش کے پانی سے ان کے گناہوں (جوان کی روح کی آلودگی کا سبب ہیں) کو دھودیتا ہے، اس کے بعد انہیں اس اجرِ عظیم سے نوازتا ہے جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔
عورت کی پاک و پاکیزہ زندگی، ایمان اور نیک عمل کی مرہونِ منّت ہے،قرآنِ مجید کی آیات میں عورت کی انسانی شخصیت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اوراسے مردوں کے ہم پلّہ قرار دیا گیا ہے، ارشاد ربّ العزّت ہے
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہُ حَيَاۃً طَيِّبَۃً وَ لَنَجْزِيَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا يَعْمَلُونَ(۵)
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبِ ایمان بھی ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے۔
    مذکورہ آیت میں پاکیزہ حیات کو ایمان اور نیک عمل کے نتیجہ کے طور پر ایک کلّی قانون اور اصول کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، حیاتِ طیّبہ سے مراد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں سکھ چین، امن و امان، صلح اور دوستی، محبّت، باہمی تعاون اور دیگر انسانی اقدار کا دور دورہ ہو جس سماج میں ظلم، سرکشی، استکبار،جاہ طلبی اور خواہشات ِنفسانی کی پیروی سے وجود میں آنے والے دکھ درداور ظلم و ستم کی دور دور تک کوئی خبر نہ ہو، پروردگارِ عالم ایسے معاشرے کے افراد کو ان کے اعمال کے مطابق بہترین جزا دے گا ۔
    مذکورہ آیت میں اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ان تنگ نظر افراد کو دندان شکن جواب دیا گیا ہے جو ماضی اور حال میں عورت کی انسانی شخصیت کے بارہ میں شک و شبہ میں مبتلا تھے اور اس کے لئے مرد کے انسانی مرتبہ سے پست مرتبہ کے قائل تھے، یہ آیت عالمِ انسانیت کے سامنے عورت کے سلسلہ میں اسلام کے نقطۂ نظر کو بیان کر رہی ہے اور اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ کچھ کوتاہ فکر اور تنگ نظر افراد کے برعکس اسلام مردوں کا دین نہیں ہے بلکہ وہ عورتوں کو بھی مردوں کے برابر اہمیت دیتا ہے
    اس مقام پر سب سے اہم نکتہ جو لائق ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ مفسّرین نے پاکیزہ حیات کے بارے میں مختلف آراء و نظریات اور تفاسیر پیش کی ہیں، مثال کے طور پر بعض مفسّرین نے حیاتِ طیّبہ کو رزقِ حلال اور بعض دیگر نے قناعت اور اپنے حصّہ پر راضی رہنے بعض دوسرے مفسّرین نے پاکیزہ زندگی کو روزمرّہ زندگی میں عبادت اور رزقِ حلال سے تعبیر کیا ہے، لیکن اس لفظ کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ مذکورہ تمام معنیٰ اور ان کے علاوہ دیگر معانی بھی اس کے دائرہ میں آسکتے ہیں، حیاتِ طیّبہ سے مراد وہ زندگی ہے جو تمام برائیوں، ہر قسم کے ظلم و ستم، خیانتوں، عداوتوں، اسارتوں، ذلّتوں اور حق تلفیوں اور ان جیسی دیگر مذموم صفات سے پاک و پاکیزہ ہو ۔
قرآنِ مجید میں مثالی خواتین کا تذکرہ:
    قرآن مجید کی نگاہ میں فضائل و کمالات کے حصول میں مردوعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس آسمانی کتاب میں صرف کلّیات کو ہی بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان تعلیمات کو عینی شکل میں بیان کر نے کے لئے عالمِ انسانیت کے سامنے بعض مثالی خواتین کو پیش کیا ہے
قرآنِ مجید کی داستانوں اورقصّوں کی روح اخلاقی اور انسانی مسائل ہیں، وہ ان اہم مسائل کو قصّہ اور داستان کے سانچے میں بیان کرتا ہے، ان قصّوں اور داستانوں میں بھی عورت کا کردار بہت نمایاں ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے:
     حضرت ابراہیم ِ خلیل علیہ السّلام اور جنابِ سارہ:
    قرآنِ مجید نے اخلاقی اور انسانی فضائل و کمالات کو بیان کرتے وقت جہاں صاحب فضیلت مردوں کا تذکرہ کیا ہے وہیں مثالی خواتین کا نام بھی لیا ہے چونکہ نیک کردار مردو عورت دونوں ہی دیگر افراد کے لئے نمونۂ عمل بن سکتے ہیں، یعنی نیک کردار مردو عورت اچھے مردو عورت کے لئے نمونۂ عمل ہیں اور بد کردار مردوعورت، برے مردو عورت کے لئے اسوہ ہیں
    حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا شمار اولوالعزم پیغمبروں میں ہوتا ہے جن کو بڑھاپے کے عالم میں فرشتوں نے ایک عالِم اور بردبار فرزند کی بشارت دی، چنانچہ یہی خوشخبری فرشتوں نے آپ کی زوجہ کو بھی دی فرشتوں نے جنابِ ابراہیم علیہ السّلام سے کہا
 فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلاَمٍ حَلِيمٍ‌  (۶)
    پھر ہم نے انہیں ایک نیک دل فرزند کی بشارت دی
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔
إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلاَمٍ عَلِيمٍ‌  (۷)
ہم آپ کو ایک فرزندِ دانا کی بشارت دینے کے لئے اترے ہیں
جناب ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا:
 قَالَ أَ بَشَّرْتُمُونِي عَلَی أَنْ مَسَّنِيَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ‌  (۸)
اب جب کہ بڑھاپا چھا گیا ہے تو مجھے کس چیز کی بشارت دے رہے ہو۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے
 قَالُوا بَشَّرْنَاکَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَکُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ‌ . قَالَ وَ مَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَۃِ رَبِّہِ إِلاَّ الضَّالُّونَ‌  (۹)
انہوں نے کہا
ہم آپ کو بالکل سچّی بشارت دے رہے ہیں خبردار! آپ مایوسوں میں سے نہ ہو جائیں
ابراہیمؑ نے کہا کہ:
رحمتِ خدا سے سوائے گمراہوں کے کون مایوس ہو سکتا ہے
گذشتہ آیات سے اس بات کا استفادہ ہوتا ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام پر بڑھاپا چھا چکا تھا لیکن فرشتوں نے آپ سے کہا: آپ مایوس نہ ہوں، چونکہ فرشتوں کی بشارت اور خوشخبری ہمیشہ ہی سچّی اور حق ہوا کرتی ہے،اس کے علاوہ کوئی بھی مؤمن شخص کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا،چونکہ مایوسی کے معنیٰ ہیں( معاذاللہ )خدا کی قدرت اور توانائی کے بارے میں بدگمانی، یہ مایوسی کفر کی حد تک ہے، کسی بھی انسان کو ناامّیدی اور مایوسی کا حق نہیں ہے ۔
    قرآن ِ مجید جنابِ ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ کی بشارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ’’ وَ امْرَأَتُہُ قَائِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاہَا بِإِسْحَاقَ وَ مِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ‘‘ (۱۰ ) ابراہیم کی زوجہ اسی جگہ کھڑی تھیں یہ سن کر ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحاق کی بشارت دے دی اور اسحاق کے بعد پھر یعقوب کی بشارت دی چونکہ خدا کےفرشتے صرف صاحبانِ کمال اور برگزیدہ افراد پر نازل ہوتے ہیں اور الٰہی وحی اور حقائق کو ان پر نازل کرتے ہیں لہٰذا مذکورہ بالا آیات سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ بھی آپ کی ذاتِ گرامی کی طرح کمال کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھی جس کی بنا پر فرشتوں کی بشارت کی سزاوار قرار پائیں ۔
فرعونی ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے والی خواتین:
ظلم و ستم سے پیکار کے میدان میں مرد و زن دونوں موجود ہوتے ہیں لیکن فرعون کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے میں خواتین کا کردار حیرت انگیز ہے، قرآن ِ مجید نے ایسی تین خواتین کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی حفاظت اور تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، جناب موسیٰ کی مادرِ گرامی، ان کی بہن اور فرعون کی بیوی نے جناب موسیٰ کی پرورش کا بیڑا اٹھایا، ان خواتین نے اس دور کے ناگفتہ بہ سیاسی حالات کا مقابلہ کیا اور اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر جنابِ موسیٰ کی جان بچائی
جب حکمِ الٰہی کے مطابق جناب ِ موسیٰ کی مادرگرامی نے اپنے جگرگوشہ کو صندوق میں ڈال کے دریائے نیل کی موجوں کے حوالہ کردیا تو ان کی بہن سے کہا : اس صندوق کا پیچھا کرو۔فرعون کی زوجہ نے فرعون سے کہا : اس بچّہ کو قتل نہ کرو شاید اس سے ہمیں فائدہ پہنچے یا ہم اس کو گود لے لیں، قرآن ِ مجید کا ارشاد ہے
أَوْحَيْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِيہِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْہِ فَأَلْقِيہِ فِي الْيَمِّ (۱۱)
وَ قَالَتْ لِأُخْتِہِ قُصِّيہِ فَبَصُرَتْ بِہِ عَنْ جُنُبٍ وَ ہُمْ لاَ يَشْعُرُونَ(۱۲)
"اور ہم نے مادرِ موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے بچّے کو دودھ پلاؤ اور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دو، اور انہوں نے اپنی بہن سے کہا کہ تم بھی ان کا پیچھا کرو تو انہوں نے دور سے موسیٰ کو دیکھا جب کہ ان لوگوں کو اس کا احساس بھی نہیں تھا۔"
فرعون کی بیوی نے بھی کہا:
 قُرَّۃُ عَيْنٍ لِي وَ لَکَ لاَ تَقْتُلُوہُ عَسَی أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَہُ وَلَداً وَ ہُمْ لاَ يَشْعُرُونَ(۱۳)
"یہ تو ہماری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے لہٰذا اسے قتل نہ کرو کہ شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے اور ہم اسے اپنا فرزند بنالیں اور وہ لوگ کچھ نہیں سمجھ رہے تھے۔"
 فرعون کے زمانہ میں نوزائیدہ بچّہ کی صنف معلوم کرنے کے لئے ہر دودھ پلانے والی عورت کا پیچھا کیا جاتا تھا، تاکہ لڑکا ہونے کی صورت میں اسے قتل کردیا جائے، اس خطرناک ماحول میں جنابِ موسیٰ کی بہن کی طرف سے ایک دائی کی تجویز کوئی معمولی اقدام نہیں تھا بلکہ ایک خطرناک اقدام تھا، موت سے روبرو ہونے کا مقام تھا اور وہ بھی ایک ایسے ماحول میں جہاں جنابِ موسیٰ علیہ السّلام کی مادرِگرامی کا حاملہ ہونا اور بچّہ کو پیدا کرنا سب صیغۂ راز میں تھا، یہ تجویز اور بھی زیادہ خطرناک تھی، لیکن اس پر عمل ہوا اور فرعون کی زوجہ کی تجویز کو بھی قبول کر لیا گیا۔
جنابِ مریم، ان کا مرتبہ اور مقام:
جنابِ مریم بھی ان خواتین میں سے ہیں جن کے مرتبہ، عظمت اور کرامت کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے، قرآن مجید نے آپ کی ذاتِ والا صفات کو صاحبانِ ایمان کے لئے نمونۂ عمل  قرار دیا ہے،
 ارشاد ہوتا ہے :
 وَ مَرْيَمَ ابْنَۃَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِيہِ مِنْ رُوحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہِ وَ کَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ‌(۱۴)
 اور مریم بنت عمران کو بھی (اللہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے ) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی
 آیاتِ قرآن سے استفادہ ہوتا ہے کہ جنابِ مریم کی کفالت حضرتِ زکریا علیہ السّلام کے ذمّہ تھی، جب بھی جنابِ زکریا محرابِ عبادت میں جنابِ مریم کی ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے تو وہاں قسم قسم کے میوہ اور غذائیں دیکھتے تھے، جنابِ مریم علیہا السّلام ان پھلوں اور غذاؤں کے سلسلہ میں فرمایا کرتی تھیں کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے، پروردگارِ عالم نے  انہیں بے حساب نعمتوں سے نوازا ہے
 ارشادِ ربّ العزّت ہے
کُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْہَا زَکَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقاً قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّی لَکِ ہٰذَا قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللہِ إِنَّ اللہَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ(۱۵)
جب زکریا علیہ السّلام محرابِ عبادت میں داخل ہوتے تو مریم کے پاس رزق دیکھتے اور پوچھتے کہ یہ کہاں سے آیا اور مریم جواب دیتیں کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتا ہے رزقِ بے حساب عطا کردیتا ہے۔
 قرآن کے اعتبار سے یہ بات مستند ہے کہ فرشتے جنابِ مریم سے گفتگو کیا کرتے تھے اور آپ کی باتوں کو سنا کرتے تھے،
ارشاد ہوتا ہے
 وَ إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَۃُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللہَ اصْطَفَاکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصْطَفَاکِ عَلَی نِسَاءِ الْعَالَمِينَ‌ .
يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّکِ وَ اسْجُدِي وَ ارْکَعِي مَعَ الرَّاکِعِينَ‌ (۱۶(۱۶)
 اور اس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے مریم کو آواز دی کہ خدا نے تمہیں چن لیا ہے اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دے دیا ہے اے مریم! تم اپنے پروردگار کی اطاعت کرو، سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
پس عورت بھی عالمِ ملکوت تک رسائی حاصل کرسکتی ہے، وہ بھی فرشتوں کی مخاطب قرار پاسکتی ہے ۔مردوں اور عورتوں میں عفّت اور پاکدامنی کےمتعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
قرآنِ مجید نے عفیف اور پاک دامن انسان کے تعارف کے لئے مرداور عورت دونوں کی مثال پیش کی ہے، اس میدان میں مرد اور عورت دونوں ہی جلوہ افروز ہیں
قرآن ِ مجید نے مردوں میں سے حضرت یوسف علیہ السّلام اور عورتوں میں سے جناب مریم علیہا السّلام کو عفّت اور پاکدامنی کے نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے، حضرتِ یوسف بھی امتحان میں مبتلا ہوئے اور اپنی عفّت کی وجہ سے نجات حاصل کی، جنابِ مریم علیہا السّلام کا بھی امتحان لیا گیا وہ بھی اپنی عفّت کے سایہ میں نجات سے ہمکنار ہوئیں۔
قرآنِ مجید نے حضرتِ یوسف علیہ السّلام کے امتحان کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے
 وَ لَقَدْ ہَمَّتْ بِہِ وَ ہَمَّ بِہَا لَوْ لاَ أَنْ رَأَی بُرْہَانَ رَبِّہِ (۱۷)
اور یقینا اس (مصری) عورت نے ان سے برائی کا ارادہ کیا اور وہ بھی ارادہ کر بیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے،
اس عورت نے جنابِ یوسف علیہ السّلام کا پیچھا ضرور کیا لیکن جناب ِ یوسف نے نہ صرف یہ کہ گناہ کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اس کے مقدّمات کو بھی فراہم نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس گناہ کا تصوّر بھی نہیں کیا چونکہ وہ اپنے پرودگار کی دلیل کا مشاہدہ کرچکے تھے، ان پر الزام لگانے والے آخر کار ان کی بے گناہی کے اعتراف پر مجبور ہوگئے
 الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُہُ عَنْ نَفْسِہِ وَ إِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ(۱۸)
توعزیزمصر کی بیوی نے کہا:
اب حق بالکل واضح ہو گیا ہے کہ میں نے خود انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ صادقین میں سے ہیں
ان الفاظ کے ذریعہ عزیزِ مصر نے جنابِ یوسف علیہ السّلام کی طہارت کی گواہی دی اور بتایا کہ نہ فقط جنابِ یوسف برائی کی طرف مائل نہیں ہوئے بلکہ برائی بھی ان کی طرف مائل نہیں ہوئی
 کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَ الْفَحْشَاءَ مِنْ (۱۹)
یہ تو ہم نے اس طرح کا انتظام کیا کہ ان سے برائی اور بدکاری کا رخ موڑ دیں،
 قرآن کا ارشاد ہے کہ ہم نے گناہ کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ جنابِ یوسف کی طرف جائے
حضرت یوسف تمام عالم انسانیت کے لئے عفّت اور طہارت کا نمونہ ہیں حضرتِ مریم بھی ملکہ ٔ عفّت کے اعتبار سے جنابِ یوسف سے کسی درجہ کم نہیں ہیں بلکہ وہ جنابِ یوسف کی ہم پلّہ یا ان سے بھی بالا ہیں، چونکہ قرآنِ مجید جناب مریم کی حالت کو بیان کرتے ہوئے
 فرماتا ہے
قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِيّاً (۲۰ )
 اور انہوں نے کہا کہ اگر تو خوفِ خدا رکھتا ہے تو میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں،
 جنابِ مریم نہ صرف یہ کہ بذاتِ خود گناہ کی طرف مائل نہیں ہیں بلکہ اس فرشتہ کو بھی امربالمعروف کرتی ہیں جو انسانی شکل وصورت میں متمثّل ہوا تھا اور فرماتی ہیں اگر تم خوفِ خدا رکھتے ہو تو یہ فعل انجام نہ دو حالانکہ حضرتِ یوسف نے خدا کی دلیل اور برہان کا مشاہدہ کیا جس کی وجہ سے یہ قبیح فعل انجام نہیں دیا۔
نتیجہ اور ماحصل :
اس مقالہ میں انسانی اقدار کے حصول میں مردو عورت کی برابری کو بیان کیا گیا اور اس حقیقت کو ثابت کیا گیا کہ مردو عورت یکساں طور پر راہِ تکامل اور کمال کو طے کرسکتے ہیں اور میدانِ عمل میں بھی فضائل و کمالات سے یکساں طور پر مزین ہو سکتے ہیں بعض کامل مردوں اور خواتین کو بطورِ مثال پیش کیا گیا تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ یہ ہمسری اور یکسانیت محض تھیوری اور نظریہ تک محدود نہیں ہے بلکہ عملی میدان میں بھی یہ دونوں صنفیں ان اقدار سے ہمکنار ہوئی ہیں ۔


تحریر : آیۃ اللہ العظمی جوادآملی حفظ اللہ تعالیٰ
ترتیب و تدوین : ظہیرالحسن کربلائی


 حوالہ جات
۱۔ سورہ آل عمران، آيہ ۱۹۵.
۲۔الميزان، ج 4، ص 94.
۳۔ سورہ احزاب، آيہ 35.
۴۔ مجمع البيان، ج 7، ص 357  358؛ نورالثقلين، ج 4، ص 275.
۵۔ سورہ نحل، آيہ 97.
۶۔سورہ صافات، آيہ 101.
۷۔سورہ حجر، آيہ 53.
۸۔سورہ حجر، آيہ 54.
 ۹۔حوالہ سابق، آيہ 56
10. سورہ ہود، آيہ 71.
11. سورہ قصص، آيہ 7.
12. سورہ قصص، آيہ 11.
13. سورہ قصص، آيہ 9.
14. سورہ تحريم، آيہ 12.
15. سورہ آل عمران، آيہ 37.
16. سورہ آل عمران، آيہ 42 / 43.
17. سورہ يوسف، آيہ 24.
18. سورہ یوسف، آيہ 51.
19. سورہ يوسف، آيہ 44.
20. سورہ مريم، آيہ 17.

وحدت نیوز (آرٹیکل) انسانی حقوق سے مراد  وہ حقوق ہیں جو تمام انسانوں کو جنم سے مرن تک ہر جگہ اور ہر وقت برابر کی بنیاد پر حاصل ہونے چاہئیں۔بین الاقوامی دستاویزات کے مطابق انسانی حقوق [ [Human Rights کے لسٹ میں دیگر تمام حقوق کے ساتھ حق مساوات، حق نمائندگی، حق رائے دہی، انتخاب حکومت کا حق، اچھی سہولیات اور بہتر معیار زندگی کا حق،یہاں تک کہ جنگلات ،جانوروں اور پرندوں کے تحفظ کا حق اور جغرافیائی حدود کے بغیر تمام عالمی اور بین الاقوامی حقوق کے حصول کا حق موجود ہیں ۔لیکن آج ۶۸ سال گزرنے کے باوجود آئینی حقوق تو دور کی بات گلگت بلتستان کے عوام کو انسانی حقوق دینے سے بھی انکار کیا جارہا ہے ۔جب بھی یہاں کے عوام  آئینی حقوق کی بات کرتے ہیں انہیں گنی چنی انسانی حقوق سے بھی محروم کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہے اور اصل مسئلے سے لوگوں کے اذہان کو ہٹانے کے لیے کبھی گندم کا بحران پیدا کیا جاتا ہے تاکہ یہاں کے لوگ بنیادی انسانی حق کے لیے بھیگ مانگتے رہے اور آئینی حقوق سے توجہ ہٹ جائے تو کبھی نفاذ ٹیکس کے معاملوں کو بڑھا چڑھا کر لوگوں کو پریشان رکھا جاتا ہے۔اور کبھی اکنامک کوریڈور سے  محرومی اور کبھی  زندگی کے دیگر سہولیات سے محرومی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ اس سے زیادہ انسانی حقوق سے محرومی اور کیا ہوگی کہ جو شاہراہ گلگت بلتستان کے نصف سے زیادہ عوام کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہو اسے بنوانے کے لیے عوام کو کئی سال  احتجاج کرنا پڑے  اور پھر بھی  لیت و لعل کرتے ہوئےوقت گزار ے ۔ہسپتالوں اور صحت کے سہولت کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اسلام آباد علاج کے لیے آنے کی ضرورت پڑنا   اوربے روزگاری سے تنگ نوجوانوں کا منشیات ،فحاشی اور دیگر اخلاقی برائیوں میں مرتکب ہونا،  انسانی حقوق   کے تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کے منہ پر طمانچہ نہیں تو اور کیا ہے؟

ایوان اقتدار میں تخت حکومت پر متمکن حضرات وعدے بہت کرتے ہیں وعدہ وفائی ہوئی یا نہیں اس پر کچھ کہنا سعی لاحاصل ہے کیونکہ تاریخ کھلی کتاب کی طرح دنیا کے سامنے ہے ۔گلگت بلتستان کے غیور عوام نصف صدی سے خالی مصیبتیں اور حقوق کی پامالیوں کی المناک گھڑیاں دیکھتی چلی آئی ہے۔یہ قوم اپنے آئینی حق کے لیے لڑ مر رہی ہے اور بدلے میں اس کی آرزووں اور خواہشات کی تکمیل تو دور اسے انسانی اور بنیادی حقوق [فنڈامنٹل رائٹس]سے بھی بے دخلی کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔اور ارباب اختیار لوگوں کے جائز مطالبات پر آنکھیں بند کرنے لگتے ہیں .یہاں تک کہ  ۱۹۹۹ میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں  حبیب وہاب الخیری کی جانب سے ایک  پٹیشن  داخل ہوئی جس میں سیکرٹری وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات (موجودہ گلگت بلتستان) کو فریق بنایا  گیا تھا ۔ سپریم کورٹ نےاس پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ شمالی علاقہ جات کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیےا قدامات کیے جائیں۔لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو ا۔ یہاں کے عوام کو کیسے انصاف ملے گا جب کہ یہاں کے منتخب نمائندے ذاتی مفادات کو ہمیشہ عوامی مفادات پر ترجیح دیتے رہے ہیں ۔ایوان میں قدم رکھنے کے بعد ہمیشہ کے لیے قدم جمانے کی سوچ میں مگن نمائندے کہاں عوامی حقوق کی بات کرینگے ؟

انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پہلے انسانی اور بنیادی حقوق حاصل کریں اور پھر آئینی حقوق کی جنگ لڑیں کیونکہ ہم ایسے خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کے لوگوں کو اس ماڈرن دور میں جدید سہولیات زندگی تو دور کی بات فنڈامنٹل رائٹس بھی میسر نہیں ہیں اس عالم میں گلگت بلتستان کے عوام کو انسانی حقوق کی حصول کے سفر کو طے کر کے آئینی حقوق تک رسائی حاصل کرنے میں بڑا ہی وقت لگے گا۔

تحریر۔۔۔۔۔سید قمر عباس حسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) گلوبل ویلج کانام تو آپ نے سنا ہی ہوگا،یہ کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ میدانی حقیقت ہے۔آج جدید ٹیکنالوجی نے ،سچ مچ میں ہماری اس دنیا کو گلوبل ویلیج میں بدل دیا ہے۔ ماضی کی  مشکلات اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت کافی حد تک حل ہوگئی ہیں۔ وسائل نقل و حمل کا مسئلہ ہو یا مواصلات کا، پہلے دنیا ومافیہا سے لوگ بے خبر ہوتے تھے لیکن آج ان سہولیات کی بدولت پل پل کی خبروں سے انسان آگاہ رہ سکتے ہیں۔ پہلے سالوں کی مسافت اب ہفتوں میں اور مہینوں کی مسافت اب دنوں اور گھنٹوں میں بدل گئی ہے۔ پہلے جس کام کے انجام دینے کے لیے دسیوں افراد درکار ہوتے تھے اب ایک جدید مشین ان سب سے بہتر انداز میں اس کام کو انجام دیتی ہے۔ٹیلی فون اور موبائیل کے فقدان کے باعث لوگ اپنے عزیزوں سے سالوں بے خبر ہوتے تھے  اب جدید ٹیکنالوجی نے مختلف طریقوں سے ایسے بہت سارے مسائل کو حل کیا ہےاور فاصلوں کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔وہاں  بدقسمتی سے وسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ مختلف اخلاقی، اعتقادی، معاشرتی، خاندانی، فکری اورتربیتی حوالے سےبہت ہی خطرناک مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ پہلے جن مسائل کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا آج کل وہ عملی صورت پر رونما ہورہے ہیں۔ پہلے لوگ ایک دوسرے کے بھائی  کی طرح زندگی گزارتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھرپور شریک ہوتے تھے، غریبوں کی خوب مدد کرتے تھے اور بے سہاروں کا سہارا بنتے تھے، مریضوں کی  تیمار داری کرتے تھے، ایک دوسرے کا غم بانٹتے تھے، بزرگوں کا احترام اور علماء کے دربار میں رہنے کو اپنا شرعی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے، اپنے ہر  اہم کام میں اپنے علاقے کے عالم دین سے مشورہ کرتے تھے اور اس کے حکم کی تعمیل کرتے تھے، مشکلات کی بھرمار ہونے کے باوجود خوشحال رہتے تھے، عیش و نوش کی محفلوں کا سوچنابھی دور کی بات تھی،  طور اطوار اب سے بہت ہی مختلف تھے،ناموس کا احترام بہت زیادہ کیا جاتا تھا اور طلاقوں کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ بے حیائی اور بے حجابی آٹے میں  نمک کے برابر تھی۔

موجودہ زمانے میں جدید ٹیکنالوجی  جوں جوں ترقی کر رہی ہے  انسان کی  انسانیت و  اخلاقیات، محبت و الفت، شرافت و دیانت، عبادت و ریاضت، عدالت و صداقت، رحمت و ہمدلی، آداب و احترام، اطعام و اکرام ، غریب پروری و تیمارداری میں رفتہ رفتہ واضح کمی بھی رونما ہورہی ہے اور اب انسان انسانیت سے نکل کر مشین کا روپ دھار رہا ہے۔ ایسی ایجادات کی نمود سے پہلےیہ تمام اخلاقی اقدار کافی حد تک برقرار تھے۔

انسانیت کی جگہ اب مادیت لےرہی ہے، محبت کی جگہ اب نفرت اپنا گھر بسا رہی ہے، شرافت و دیانت کے مقام پر بدمعاشی اور خیانت قابض ہوتی جارہی ہے، عبادت و ریاضت کی جگہ اب ساز و سرود غصب کررہا ہے، عدالت و صداقت پر اب ظلم وفریب  شب خوں مار رہا ہے، رحمت و ہمدلی کی جگہ اب شقاوت و نفرت حاکم ہوتی جارہی ہے۔علماء کی ہمنشینی اب عذاب محسوس کرنے لگ گئے ہیں اور ان پر مختلف قسم کا الزام لگاکر انھیں سرکوب کرنے کی کوشش کرنا ایک عام سی بات بن گیا ہے۔ ان سے معاشرے کےایک حاذق روحانی ڈاکٹر کے طور پر اپنی روحانی بیماریوں کا علاج کرانے کی بجائے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے انھیں استعمال کرنے کی ناکام کوشش کرنا اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ پہلے خواتین اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر گھرسے نکلنا اپنے لیے ننگ و عار سمجھتی تھیں اور محدود وسائل کے باعث ان کا ہر کام  والدین، بھائی اور دوسرے عزیزوں کی  زیر نظر ہوتا تھا جس کے سبب بے حیائی عجوبہ سی لگتی تھی اور ہماری خواتین حیا  کا  پیکر شمار ہوتی تھیں۔ لیکن اب جدید کمیونیکیشن کی بدولت موبائیل، فیس بک اور وٹس اپ جیسی سہولیات کا سہارا لیکر  رفتہ رفتہ عشق و عاشقی کے نام پر غلط روابط کے ذریعے بے حیائی کا بازار گرم ہوتا جارہا ہے۔طلاقوں کی شرح میں روز بہ روز ترقی ہوتی جارہی ہے۔ گھروں  کی چاردیواری کی حرمت بھی اب بری طرح پامال ہوتی جارہی ہے اور آزادی کے نام پر  فحاشی  اور عریانیت کو  دن بہ  فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ  خانوادگی زندگی بھی اجیرن بنتی جارہی ہے۔ انھیں سہولیات کا سہارا لیکر مغرب کی بوسیدہ  ثقافت ہماری پاکیزہ  ثقافت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ تمدن کے نام پر اسلامی تہذیب کے پرخچے اڑائے جارہے ہیں۔

نشے اور اخلاقی برائیوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سال ۶۷لاکھ  بالغ افراد نے منشیات استعمال کیا۔ ۴۲ لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ ان میں سے تیس ہزار سے بھی کم افراد کے لیے علاج معالجے کی سہولیت میسر ہے۔ کل آبادی کا ۴فیصد بھنگ پی رہا ہے۔ آٹھ لاکھ سات ہزار افراد افیون استعمال کر رہے ہیں۔ مردوں میں بھنگ اور خواب آور ادویات کی شرح زیادہ ہے جبکہ خواتین سکون فراہم کرنے والی ادویات بھی استعمال کرتی ہیں۔ تقریبا سولہ لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد داعی اجل کو لبیک کہہ رہے ہیں۔ ﴿۱﴾ یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید نظام زندگی سے تنگ آکر لوگ اب اپنی سابقہ طریق زندگی کے لیے ترس رہے ہیں۔جس کا واضح ثبوت  حال ہی میں اٹلی میں  دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد کا اپنے قدیم گھریلو سسٹم کی بحالی کے لیے احتجاج کرنا ہے۔﴿۲﴾

آخر اس کا سبب کیا ہے؟  اس کی بنیادی وجہ  ہمارے اعتقادات کی کمزوری،اسلامی اقدار سے  ہماری دوری اور نئی نسل کی صحیح اسلامی تربیت سے ہمارا چی چرانا ہے۔ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں  جس کے بعد وہ ان تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرسکیں۔ جب ہم ان کی درست تربیت کے ذریعے ان کے اعتقادات کو مضبوط بنائیں گے تب اسلامی اقدار کی نسبت ان کے ذہنوں میں ایک احترام تشکیل پائے گا۔ جب یہ اقدار  ان کے ذہنوں پر حاکم رہے  گا تب خود بہ خود اسلامی قوانین پر عمل کرنے کے لیے وہ تیار ہوجائیں گے۔ جب وہ اسلامی اصولوں پر عملی میدان میں بھی پابند ہوجائیں گے تب ثقافتی یلغار انھیں  منحرف نہیں کر سکے گا۔

کائنات میں اللہ تعالی نے کوئی چیز بری خلق نہیں کی ہے۔ ہر چیز انسان کے کمال اور اس کی ترقی کے لیے ہے۔  اسی طرح جدید ٹیکنالوجی میں بھی صرف منفی پہلو نہیں بلکہ اس کے فوائد بھی  ناقابل انکار ہیں۔ کیا ہم صرف اس کی منفی جہت کو دیکھ کر اس کے قریب ہی نہ جائیں؟ نہیں نہیں۔ اس قدر احتیاط کی ضرورت نہیں ہے۔﴿البتہ کم عمر ی میں بچوں کا  کمپیوٹر استعمال کرنا  ان کی ذہنی صلاحتیوں میں کمی کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے خود بلگیٹ نے اپنے بچوں کو کبھی کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح اوباما کی بیوی نے بھی پندرہ سال ہونے تک اپنے بچے کو کمپیوٹر کے قریب تک جانے  نہیں دیا۔ یہ ہم ہیں جو دوسروں کی نقل اتارتے اتارے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔﴾ ہماری کمزوری یہ ہوتی ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں فائدہ مند بنانے کی بجائے اسے منفی کاموں کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں۔بالفرض اگر کوئی فیس بک پر کسی نامحرم کی تصویر لگا دے تب مرور زمان کے ساتھ ساتھ  جتنے لوگ اسے دیکھ کر گمراہ ہوتے جائیں گے اس گناہ میں وہ تصویر لگانے والا برابر کا شریک رہے گا خواہ وہ خود زندہ ہو یا  مر چکا ہو۔ اس گناہ کا حصہ اسے قبر میں بھی ملتا رہے گا۔ اسی طرح کوئی اچھی بات وہاں شیئر کرتا ہے تب جتنے لوگ اس سے استفادہ کریں گے اس کے ثواب میں بھی وہ شخص برابر کا  شریک رہے گا خواہ وہ قید حیات میں  ہو یا ابدی سفر پر روانہ ہوچکا ہو۔  جس طرح چھری خود سے کوئی بری چیز نہیں، رائفل کوئی خطرناک چیز نہیں، کلہاڑا کوئی دردناک چیزنہیں۔ لیکن جب ہم ان چیزوں کو اپنے مصرف میں استعمال کرنے کی بجائے ان سے  غلط کام لینا شروع کردیتے ہیں تب ان میں منفی رخ پیدا ہوجاتا تھا۔ جس چھری کو سبزی اور گوشت کاٹنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا، جس ہتھیار کو اپنے ملک دشمن  کافر و مشرکین کو سرکوب کرنے کے لیے بروکار لانا چاہیے تھا جس کلہاڑے سے لکڑی اور دوسری سخت چیزیں کاٹنا چاہیے تھا اب اگر ان سے کسی مسلمان  کا گلہ کاٹے ، کسی بے گناہ  کی جان سے کھیلے اورکسی عزیز  کا خون بہائے تو اس میں ان چیزوں کی کوئی غلطی نہیں بلکہ اس استعمال کرنے والے کا قصور ہے۔ بنابریں جدید ٹیکنالوجی خود سے کوئی خطرناک چیز نہیں لیکن جب ہم اسے اپنے منفی مقاصد کو پانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تب اس کے مفید اثرات ناپید ہوجاتے ہیں اور اس کی جگہ مضر اثرات معاشرے میں پھیل جاتے ہیں۔ لہذا ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ان سہولیات سے  ہماری نسلوں کو صرف اور صرف معاشرے کی ترقی اور تکامل کے کاموں میں استعمال کرنے کی تلقین کریں۔جس فیس بک کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ اور ان کی پاک آل کا پیغام  دنیا تک پہنچا سکتا ہے، ہمارے اعتقادات سے دنیا کوآشنا کیا جاسکتا ہے، معاشرتی اصلاح کی باتیں شیئر کرسکتے ہیں، ظالموں کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں، مظلوموں کی حمایت کا اعلان کرسکتے ہیں اور اپنے عزیزوں کی زیارت کرسکتے ہیں۔ اسی سے اگر غلط فائدہ اٹھاکر فحاشی پھیلانے، نفرت ایجاد کرنے، فساد برپا کرنے اور اسلامی اقدار کو پامال کرنے والی چیزوں کے لیے استعمال کرے تب یہ معاشرے ،گھر اور ملک  بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ البتہ موجودہ زمانے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے والدین ، بھائیوں اور رشتہ داروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی ماں بہنوں کے ہاتھوں ضرورت سے زیادہ موبائیل وغیرہ نہ تھمائیں بالخصوص جن کی ابھی تک شادی بھی نہیں ہوئی ان کے ہاتھوں ایسی چیزوں کا تھمانا ایسا ہی ہے جیسے ایک غیر ممیز بچے کے ہاتھ میں آگ کا انگارا دینا۔ لہذا ان کو ہمیشہ تحت نظر رکھنا اشد ضروری ہے۔

یہ حقیقت ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہاری ہوئی جنگ کو دوبارہ جیت میں تبدیل کیا جاسکتا ہےمگر تہذیب  و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔ آج کل زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہورہا ہے۔ آج کل سوشل نیٹ ورکینگ کا چلن فروغ پارہا ہے۔ فیس بک کا استعمال لڑکے لڑکیوں کو نشے کی لت کی طرح لگ جاتا ہے اور اس میں نئی نئی دوستیاں صنف مخالف سے ہوتی ہیں اور پھر معاملات پیار، شادی اور زنا تک پہنچ جاتے ہیں۔ فیس بک اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پر بھی کاری ضرب لگتی ہے۔ لہذا گھر کے ذمہ دار افراد کو اپنے گھر والوں کی آئی ڈی وغیرہ وقتا فوقتا چیک کرتے رہنا چاہیے۔ ساتھ ہی پولیس اور دوسرے ذمہ دار ادارے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح معنوں میں نبھائے نہ کوئی وجہ نہیں کہ معاشروں سے جرم  کا تدارک نہ ہوسکے۔ اس لیے جوابدہی کے نظام کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔(3) بنابریں جہاں جدید ٹیکنالوجی زندگی میں آسانیوں کا سبب ہے وہاں پر اس کا غلط استعمال انسانی زندگی کو اجیرن بھی بنا سکتا ہے۔


تحریر۔۔۔۔۔ سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے رہنمااور کونسلر کربلائی عباس علی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیسکو مری آباد ڈویژن کے ایس ڈی او کی نااہلی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک کرپٹ اور نااہل افسران ملک و قوم کے خدمت پر فائز کئے جائیں گے ، ملک کو ترقی نہیں ملے گی۔ اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور قانون کی خلاف ورزی پر ایس ڈی او کیسکو مری آباد ڈویژنکی کارکردگی کا نوٹس لیا جانا چاہئے کیونکہ عہدے کا استعمال خدمت کے بجائے ذاتی مفادات کیلئے کیا جارہا ہے اور جو افراد اپنے ذاتی مفادات کو قوم کے مفادات پر ترجیح دے وہ کبھی محب وطن نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے علاقوں میں عوام کی خدمت کرے، انہیں جو مسائل درپیش ہیں ان پر نظر رکھیں اور ان کے حل کیلئے ہم قانونی طور پر اقدامات اٹھاتے ہیں ، جسکا حق ہمیں آئین پاکستان دیتا ہے ۔ مگر کچھ افراد اور اعلیٰ افسران جنہیں عوام کی خدمت پر فائز کیا جاتا ہے اور جنہیں ہمارا ساتھ دینا چاہئے،وہ اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں اور انکی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سٹریٹ لائٹس کی عدم موجودگی کا سامنا ہے، جس سے کئی مسائل جنم لے رہے تھے اور ہمیں علاقوں میں سٹریٹ لائٹس لگوانے تھے۔ ہم نے قانونی چارہ جوئی کی اور قانون پر عمل کرتے ہوئے سٹریٹ لائٹس اور بجلی کے ٹرانسفرمرز لگوانے کیلئے حکومتی نوٹس حاصل کیا اورنوٹس کے حصول کے بعد ہم وقت ضائع کئے بغیر عوام کی خدمت کیلئے نکل پڑے ، جن سڑکوں اور گلیوں میں لائٹ لگوانے کی ضرورت تھی ہم نے اپنے جائزے اور علاقہ مکینوں سے مشورے کے بعد وہاں لائٹس لگوائے مگر چند ہفتوں بعد ہی کیسکو مری آباد ڈویژن کے ایس ڈی او اسماعیل شاہ کے حکم پر متعلقہ ادارے کے نمائندوں نے تمام سٹریٹ لائٹس جمع کر دیئے اور عوام کیلئے حکومت سے حاصل کردہ ٹیوب لائٹس پر قبضہ کر لیا گیا۔ جو کہ عوام کی حق تلفی اور قانون شکنی کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملکی ترقی کیلئے قائم کردہ اداروں میں ایسے کرپٹ افراد کی تعیناتی ملک کی پسماندگی کا اہم سبب ہے۔ نیب ایسے افسران پر کھڑی نظر رکھیں جو اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور حکومت اس بات کا نوٹس لے اور کیسکو مری آباد ڈویژن میں کسی قابل اور ہونہار ایس ڈی او کو تعینات کرے تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے رہنماء اورکونسلرکربلائی رجب علی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جمہوریت ارتقاء سے عبارت کا نام ہے، جو آنے والے دن کے گزر جانے والے دن سے بہتر ہونے کا نام ہے۔ یوں مطلوب حد تک جمہوری معاشرے کی تشکیل بتدریج لیکن مسلسل بہتری کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ کہ عوام الناس میں اس امر کا یقین پیدا ہو جائے کہ وہ جس طرح معاشرے میں رہ رہے ہیں ، اس کا ارتقائی عمل میں وہ شریک اور مطمئن ہیں۔ اور اس پر فخر کرتے ہیں ۔ بہتری کے تسلسل میں تعطل کسی رکاوٹ یا پیچیدگی کا پتہ دیتی ہے اور اگر تعطل جلد جلد ہونے لگے تو جمہوری عمل سست پڑنے لگتا ہے۔ایسے میں غیر جمہوری ماحول حاوی ہونے لگتا ہے۔ اگر ملک و قوم کی بقاء و استحکام کیلئے جمہوری طرز حکومت سیاست اتنا ہی ناگزیر ہے جتنا ہمارے معاشرے میں قرار دیا جاتا ہے تو بتدریج لیکن مسلسل بہتری کیلئے مطلوب ہے کہ حکومت اور حکومتی یا اتحادی جماعتوں اور مقابل مخالف سیاسی جماعتوں کا سیاسی ابلاغ جو خود تواتر سے جاری رہتا ہے۔اس میں کبھی کمی نہیں آتی۔ لیکن یہ جمہوری عمل کو روک لیتا ہے۔ یہ جمہوری ارتقائی عمل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ جذباتی ، غیر مدلل الزامات جوابی الزامات سے غیر محتاط اور غیر متوازن یہ ابلاغ مسلسل معاشرے میں ہلچل مچائے رکھتا ہے۔گویا اظہار رائے کی آزادی کا حق استعمال کرتے ہوئے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور وزراء نے اپنی غیر ذمہ داری سے میڈیا کی آزادی کو اپنے لپیٹ میں لے لینے ہیں۔ یہ سب کچھ آزادی اظہار رائے کے آئینی حق کی آڑ میں ہی ہوتا ہے۔ میڈیا اور سیاسی جماعتیں باہم مل کر اس کا سبب بنتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں اور کارکنوں میں غیر ضروری حد تک فاصلوں اورتناؤ کا باعث بنتی ہے ۔ یوں قومی سیاست کا مرکزی دھار تو کمزور رہتا ہے اور کھینچا تانی جگہ بناتی جاتی ہے۔یہی ماحول جمہوری عمل کے ارتقاء کو روک دیتی ہے۔ پارٹیوں میں بھی قیادت کا آمرانہ طرز عمل اور جاگیردار کاسا رویہ شاہی کلچر کی تشکیل کی طرف مائل ہوتا ہے کہ سیاسی ابلاغ دوسری جماعتوں کیلئے جتنا آزادانہ اور غیر زمہ دار نہ ہوتا ہے۔ اپنی پارٹیوں کے اندر اتنا ہی گھٹا ہوا اور تکبر اور خوشامد سے پر ہوتا ہے۔ گویا پورٹیوں کے اندر اور باہر ہر طرف سیاسی سیاسی ابلاغ بیمار ہی ہوتا ہے۔ یہی ماحول بڑھتا بڑھتا ملکی سیاسی و جمہوری عمل اور اقتصادیات کیلئے مہلک بن جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی ابلاغ سیاسی استحکام اور عدم استحکام دونوں کا باعث بنتا ہے۔

وحدت نیوز(پشاور) تبدیلی کا نعرہ لگانے والی پی ٹی آئی کی حکومت کے پی کے میں عوام کی جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہوچکی ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے پی کے کے سیکرٹری جنرل علامہ سبطین حسینی نے مسجد حیات آباد کی پہلی برسی کے موقع پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ،دارالحکومت پشاور میں منعقدہ شہداء کی پہلی برسی سے خطاب میں انکا مزید کہنا تھا کہ ہم پی ٹی آئی حکومت سے بالکل مایوس ہوچکے ہیں ،البتہ حسینیت کا سفر جو کہ قربانیوں اور جا نفشانیوں کا سفر ہے جاری رہیگا۔

آج ہزاروں افراد کی موجودگی اور شہداء کی یاد اس بات کی دلیل ہے کہ قوم نے شہداء کے مشن کو جاری رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے مساجد اللہ تعالی کا گھر ہیں اسکی حفاظت اللہ نے کرنی ہے اور مسجد بھی شہداء کا مشھد اور مقتل ہیں تا قیامت تک ہمارے اذہان احرار شہیدوں کی یاد سے محو نہیں ہوگا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree