The Latest
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کا نامور کوہ پیما محمد علی سدپارہ کی گمشدگی پر اظہار تشویش، سربراہ ایم ڈبلیوایم علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے مرکزی سیکریٹریٹ سے میڈیا کو جاری بیان میں کہاکہ محمد علی سدپارہ قومی ہیرو ہیں جن پر ساری قوم کو فخر ہے۔
انہوں نے کہاکہ کےٹو کی سرمائی مہم میں مصروف محمد علی سدپارہ کی تلاش کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کی جائیں،انہوں نے کہاکہ محمد علی سدپارہ کی بحفاظت بازیابی کے لیے پوری قوم دعا گو ہے۔
وحدت نیوز(ملتان)ملتان ینگ پاکستانیز آرگنائیزیشن اور پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن ڈسٹرکٹ ملتان کے زیرِ اہتمام 5 فروری یومِ یکجہتیِ کشمیر کے سلسلے میٹرو پولیٹین کارپوریشن ملتان میں کشمیر یکجہتی واک کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں انجینئر مہر سخاوت علی رہنما مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب نے شرکت کی۔
واک میں ممتاز ماہر تعلیم و ادیب پروفیسر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی، چیئرمین اوور سیسز پاکستانیز کمیشن ڈسٹرکٹ ملتان مخدوم شعیب اکمل ہاشمی، ضلعی صدر PTI ملتان چوہدری خالد جاوید وڑائچ، صدر ینگ پاکستانیز آرگنائزیشن نعیم اقبال نعیم، ممتاز عالم دین علامہ عبد الحق مجاہد،پرنسپل گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سینٹر بوسن ٹاون ملتان میاں محمد ماجد، مارکیٹنگ ہیڈ شمع بناسپتی عمران اعظمی، پروفیسر عبد الماجد وٹو،سیاسی و سماجی رہنما الحاج اشرف قریشی، رشید خان کے علاوہ اس موقع پر شرکاء خاص میں سماجی رہنما حافظ معین خالد، رانا محمد شیراز، علامہ انوار الحق مجاہد، ملک محمد اسلم بھٹہ، صابر انصاری، ابرار علی خان، علی عمران ممتاز، ملک شاہد یوسف، علی صابر سبحانی، پروفیسر محمود حسین ڈوگر، سید محمد علی رضوی، محمد حفیظ ملک، رضوانہ شاہین، طیبہ اعزاز ملک، محمد اعزاز ملک، شیخ محمد یامین،زیشان بھٹی اور دیگر شامل تھے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انجینئر مہر سخاوت علی نے کہا کہ کشمیریوں سے ہمارا خون کا رشتہ ہے ہم ایک روح اور دو جسم ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کے لے اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دلائے ،کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور پاکستان کشمیر کے بغیر ادھورا ہے اس موقع پر یکجہتی کشمیر واک میں شرکاء نے آزادی کشمیر اور کشمیربنے گا پاکستان کے نعرے لگائے جبکہ شرکاء نے بنیرز بھی اٹھا رکھے تھے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل)جب فلسطین کی مزاحمت کی بات کی جاتی ہے تو اس ضمن میں فلسطین کے وہ گروہ مراد ہیں کہ جو مقبوضہ فلسطین کے اندر اور سرحدوں پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ ان معرکوں کی تفصیل کا اگر طائرانہ جائزہ لیا جائے تو اس طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ سنہ1967 اور 1973سمیت سنہ1982کے واقعات اور عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل کی جانب سے مسلسل عرب علاقوں پر قابض ہونے کے واقعات ملتے ہیں اور اسی دوران سنہ1979ء میں ایران کی سرزمین پر اسرائیل کی دوست حکومت کا خاتمہ ہو نے کے ساتھ ساتھ اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ اسلامی انقلاب کے سورج کے طلوع ہوتے ہی کرنیں فلسطین،لبنان، شام اور مصر سمیت ان مقبوضہ علاقوں میں پھیلتی ہیں جن پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے تسلط کے سایہ منڈلا رہے تھے۔
انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین میں، فلسطینی اسلامی مزاحمت جہاد اسلامی کے نام سے جنم لے چکی تھی جس کی قیادت ڈاکٹر فتحی شقاقی کر رہے تھے اسی طرح بعد میں اسلامی مزاحمتی گروہ حماس نے جنم لیاجس کی قیادت مجاہد عظیم شیخ احمد یاسین کر رہے تھے۔اسی طرح مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں پر جنوبی لبنان سے حزب اللہ نامی مزاحمتی گروہ امام موسی صدر، شہید راغب حرب اور شہید عباس موسوی کی قیادت میں جنم لیتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسرائیل طاقت کے نشہ میں دھت فلسطین کی سرحدو ں کو عبور کرتا ہوا مصر اور اردن سمیت شام کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا تھا۔ حد تو یہ تھی کہ اسرائیلی فوجوں نے لبنان کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ایسے حالات میں دنیا کے لئے شاید یہ سمجھنا مشکل تھا کہ اب کبھی یہ علاقے واپس ان ممالک کے باشندوں کو مل سکیں گے۔
25مئی سنہ 2000کی بات ہے کہ جب ذرائع ابلاغ پر پہلی مرتبہ یہ خبریں نشر ہورہی تھیں کہ اسرائیل لبنان سے فرار کر رہا ہے۔ایسی حالت میں اسرائیلی افواج فرار ہو رہی ہیں کہ اپنا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بھی ساتھ لے کر نہیں جا پا رہی ہیں۔ ان خبرو ں نے دنیا کی سیاست اور عالمی استعمار کے ان سودا گروں کو ہلا کر رکھا دیا کہ جو اسرائیل کی پشت پناہی کرنے میں مصروف تھے تا کہ اسرائیل کے ذریعہ وہ پورے غرب ایشیاء اور پھر جنوبی ایشائی ممالک تک راج کریں اور اقتصاد کے نظام پر مکمل تسلط حاصل کر لیں۔یہ سنہ1948ء سے اب تک پہلا موقع تھا کہ جب اسرائیل کی ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی فوج کو لبنان میں چند مٹھی بھر جوانوں کے سامنے شکست کا سامنا تھا۔ یہ جوان مزاحمت فلسطین حزب اللہ کے سپوت تھے جنہوں نے پورے لبنان کو اسرائیلی چنگل سے نجات دلوا کر یہ ثابت کر دیا کہ فلسطینی مزاحمت اسرائیل کے سامنے ڈٹ چکی ہے اور اب عرب علاقوں کی شکست کا دور ختم ہو کر عرب حمیت کی بحالی اور فتوحات کا دور شروع ہو چکا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل اگر چہ لبنان سے فرار کر گیا تھا لیکن اپنی اسی شکست اور ذلت کا انتقام لینے کے لئے بے چین تھا اور موقع دیکھتے ہی سنہ2006ء میں اسرائیل نے لبنان پر 33 روزہ جنگ مسلط کی اور پھر تاریخ اس بات پر گواہ بنی کہ 34ویں روز اسرائیل کی وہی نام نہاد ناقابل تسخیر قوت لبنان میں ایک انچ بھی پیش قدمی کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ حالانکہ اس جنگ کے دنوں کی بات ہے کہ جب امریکی وزیرخارجہ کولن پاؤل اور کونڈولیزا رائس اپنے بیانات میں کہتے تھے کہ چند دنوں میں نیا مشرق وسطیٰ یعنی غرب ایشیا جنم لے گا اور اس کا پالن ہار اسرائیل ہو گا۔ لیکن امریکہ اور استعماری قوتو ں کے تمام منصوبے اس وقت خاک کی نظر ہو گئے جب چونتیس دن کے بعد اسرائیلی فوج حزب اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر جنگ بندی کی اپیل کر رہی تھی۔یہاں پھر وہی بات یاد آتی ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور پھر لبنان سے اسرائیلی قبضہ کا خاتمہ او ر ب یہ 33روزہ جنگ میں مزاحمت فلسطین کی کامیابی ”فتوحات کے دور“ کی نشاندہی کر رہی تھی۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ مزاحمت فلسطین خود مقبوضہ فلسطین میں کس طرح ان فتوحات کے دور کا آغاز کر رہی تھی۔ اسرائیل لبنان میں مزاحمت کے ہاتھوں مسلسل شکست کھانے کے بعد اپنی طاقت کا زعم دکھانے اور فلسطینیوں سے اس شکست کا انتقا م لینے کے لئے سنہ 2008ء میں غزہ پر حملہ آور ہوا۔ اسرائیل کو یہاں پر فلسطینی مزاحمت کی طرف سے حیرت انگیز جواب ملا جس کی اسرائیل کو توقع ہی نہ تھی۔اکیاون د ن تک اسرائیل مسلسل اس جنگ میں وارد رہا اور اپنے متعین کردہ جنگی اہداف میں سے ایک بھی حاصل کئے بغیر جنگ بندی کرنے کی اپیل کرنے لگا۔ اس جنگ میں بھی جہاں فلسطینیوں کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا رہا وہاں اسرائیل کو بھی بد ترین جانی نقصان اٹھا نا پڑا جس کے بعد اسرائیل نے شکست کے طور پر یہاں بھی جنگ بندی کو ترجیح دی۔
اس کے بعد اسرائیل نے 2010اور 2011میں بھی غزہ اور دیگر علاقو ں پر جنگیں مسلط کیں لیکن ہر مرتبہ فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی تحریکوں جہاد اسلامی اور حماس نے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا۔اس عنوان سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان فتوحات کے دور میں ایران کے اسلامی انقلاب کی پروان کرد ہ عالمی اسلامی شخصیت او رالقدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی خدمات کا ذکر ملتا ہے۔ ان کی گذشتہ برس امریکی حملہ کے نتیجہ میں ہونے والی شہادت کے بعد سے فلسطینی رہنماؤں کی جانب سے ان کی غزہ میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں شہید سلیمانی کے کردار پر روشنی ڈالی ہے اور کہا گیا ہے کہ فلسطین کے اندر مزاحمت کو مسلح اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے میں جنر ل سلیمانی پیش پیش رہے ہیں اور اکثر اوقات محاصروں کو توڑتے ہوئے، زیر زمین سرنگوں اور خفیہ راستوں سے فلسطین پہنچ جاتے تھے اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرتے تھے۔اسی طرح لبنان میں ہونے والی اسرائیل مخالف جدوجہد اور جنگوں میں بھی شہید سلیمانی کا کردار نمایا ں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت حماس کے سربرا ہ اسماعیل ہانیہ نے شہید سلیمانی کو شہید القدس کا لقب دیا ہے اور آج بھی مقبوضہ فلسطین میں قاسم سلیمانی کو شہید القدس کے عنوان سے یاد کیا جا رہا ہے۔
اب اگر سنہ2011سے 2020تک کا زمانہ بھی دیکھا جائے تو اسرائیل نے اس مرتبہ داعش نامی گروہ کو جنم دے کر اپنی تمام تر ذلت اور شکست جو فلسطین مزاحمت کے ہاتھوں اٹھائی تھی اس کا انتقام لینے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی مسلسل ناکام رہا۔ اسلامی مزاحمت کی تحریکوں نے فلسطین و شام اور عراق تک داعش کے اس فتنہ کا سر رگڑ کر رکھ دیا ہے۔حقیقت میں داعش کی شکست امریکہ اور اسرائیل کی شکست ہے۔ فتوحات کا دور جاری ہے۔ جس کی تاریخ سنہ1979ء سے شروع ہو کر تاحال جاری ہے۔
حالیہ دنوں میں بھی اگر ہم دیکھیں تو فلسطینی مزاحمتی گروہ جہا ں جنوبی لبنان میں طاقتور ہو چکے ہیں وہاں مقبوضہ فلسطین میں بھی مثال نہیں ملتی۔ گذشہ دو ہفتو ں کے دورا ن جنوبی لبنان میں مزاحمت نے اسرائیل کے ایک ڈرون طیارے کو مار گرایا ہے تو دوسی طرف گذشتہ دنوں حماس اور جہاد اسلامی کے جوانوں نے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی ڈرون طیارے کو مار پھینکا ہے۔ یہ سب اس جد وجہد اور کوشش کا نتیجہ ہے جو اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کو طاقتور بنانے کے لئے القدس فورس کے کمانڈر شہیدسلیمانی (شہید القدس) نے انجام دی تھیں۔اس کاوشوں کا ثمر آج پوری فلسطینی ملت اور عرب اقوام فتوحا ت کی صورت میں حاصل کر رہی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج دنیا کے لئے سپر پاور سمجھے جانے والی حکومت امریکہ او ر اس کے مغربی اتحادی اور چند عرب اتحادی سب کے سب مل کر بھی فلسطین کی مزاحمت کے سامنے بے بس ہیں۔ خاص طور پر اسرائیل جو امریکی و اتحادو حکومتوں کی پشت پناہی رکھنے کے باوجود مزاحمت فلسطین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اسرائیل کے لئے اپنا وجود باقی رکھنا بھی ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ جبکہ مزاحمت فلسطین فتوحات کے دور میں داخل ہونے کے بعد مزید آگے بڑھ رہی ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ حیفا شہر بھی مزاحمت فلسطین کے نشانہ پر ہے اور آئندہ کسی بھی اسرائیلی حماقت کے نتیجہ میں اسرائیل کا ایٹمی پلانٹ بھی نشانہ بن سکتا ہے اور مزاحمت فلسطین کا نشانہ حیفا بنے گا۔یقینا یہ دور اسلام اور اسلامی انقلاب اور مزاحمت فلسطین کی فتوحات کا دور ہے۔
وحدت نیوز(کراچی) ناصران امام فاؤنڈیشن کی جانب سے’’ کشتہ کار اسلام ناب محمدی شہید مظفر علی کرمانی‘‘ اور ان کے باوفا ساتھی شہید نظیر عباس کی بیسویں برسی کی مناسبت سے بھوجانی ہال سولجر بازار میں اجتماع منعقد کیا گیا ۔ جس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے کہا کہ امام زمانہؑ کا کاررواں جاری و ساری ہے ۔ جب کبھی اس قافلہ کو خون کی ضرورت ہوتی ہے ،شہداء اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اس قافلہ کو مضبوط بنانے کا کام کرتے ہیں ۔ شہداء کی یاد منانا ہماری بیداری کا ثبوت ہے ۔ شہداء کی یاد شعور اور بصیرت میں اضافہ کاباعث بنتی ہے ۔ شہید مظفر کرمانی نے شعور اور آگاہی کے ساتھ شہادت کا سفر مکمل کیا ۔ شہید مظفر کرمانی کبھی تھکتے تھے اور نہ ہی کبھی مایوس ہوتے تھے ۔ جب دنیا خستہ ہوگئی اور لوگ حالات سے مایوس ہوجاتے تھے اس وقت شہید کرمانی ہمیشہ پر امید اور پر عزم دکھائی دیتے تھے ۔
انہوں نے کہاکہ شہید مظفر کبھی کام نہ کرنے کے بہانے اور عذر پیش نہیں کرتے تھے ۔ کام نہ کرنے ،سستی ،کاہلی اور بزدلی کی بہت سی دلیلیں موجود ہیں ۔ مگر انہوں نے کبھی اس طرح کی دلیلیں پیش نہیں کی اور ہمیشہ میدان عمل میں حاضر رہے ۔ وہ لوگوں کو میدان عمل میں آنے اور قیام کی دعوت دیتے تھے ۔ جو شخص خود قربان ہونا چاہتا ہواور اپنی ذمہ داری کو پہچانتا ہے تو وہ میدان میں کھڑا نظر آئے گا ۔ شہید کرمانی ہمیشہ اپنے حصہ کا کام مکمل کیا کرتے تھے ۔ اپنی استطاعت، استعداد، صلاحیت اور توانائی کا بھرپور استعمال کرتے تھے ۔ شہید کرمانی کا انداز انقلابی انداز تھا ۔ ان کی عادات ،مزاج ،سوچ اور روش انقلابی تھی ۔ شہید مظفر کرمانی ابتکار عمل (جدت)کے ساتھ کاموں کو کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے کامیاب ترین پروگرامات انجام دیئے، جو نوجوانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں ۔ شہید مظفر کرمانی ملت کے حقوق کے لئے ہمیشہ کردار اداکرتے تھے ۔ شہید مظفر کرمانی جیسے لوگ جو ہمیشہ میدان میں رہتے تھے ان کی آرزو تھی کہ وہ شہید ہوجائے ۔ شہادت مجاہدوں کی آرزو ہے ۔ جان ،مال اور عزت سمیت ہر چیز کی قربانی کے لئے آمادہ ہونا تشیعوں کا مکتب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہر شخص کو چاہیئے کہ وہ شہید مظفر کرمانی کی طرح اپنی قومی ،اجتماعی اور سیاسی ذمہ داری کو ادا کریں ۔
علامہ سید احمد اقبال رضوی کا کہنا تھا کہ آج ملت کو اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ لوگوں کو چاہیئے کہ وہ منفی تبصروں سے بچیں ،دوسروں کو قبول کرنے کا جذبہ پیدا کرے ۔ جو لوگ میدان میں کھڑے ہوئے ہیں ان کی ٹانگیں کھینچنے کی روش ترک کرنی چاہیئے ۔ کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملت میں اتحاد و اتفاق کو فرو غ دینا ہوگا ۔ کسی کے دامن کو داغ دار کریں گے تو آپ کا دامن داغ دار ہوگا ۔ یہ کاررواں رکنے والا نہیں ہے ۔ یہ شہداء کا کاررواں ہے ۔ آپ پیچھے رہ جائیں گے مگر یہ کاررواں آگے بڑھ جائے گا ۔ آپ میدان میں نہیں آسکتے تو سائیڈ پر ہوجائیں ،مقابلہ پر نہ آئے ۔ برسی کے اجتماع سے مولانا محمد رضا داءودانی، علامہ نثار قلندری اور مولانا جواد محمدی نے بھی خطاب کیا ۔ جبکہ برادر احمد ناصری اور برادر علی دیپ رضوی نے ترانہ شہادت پیش کئے ۔
وحدت نیوز(جیکب آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے یوم یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں منعقدہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کے مظلوم عوام گذشتہ 70 سال سے اپنی جنگ آزادی لڑ رہے ہیں مگر انڈین افواج ان پر مسلسل ظلم اور بربریت ڈھا رہی ہے مودی حکومت نے آج کشمیر کے اندر جو لاک ڈاؤن اور ریاستی جبر اور دہشت گردی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ حق خود ارادیت کشمیریوں کا بنیادی انسانی حق ہے جسے اقوام متحدہ نے باقاعدہ ایک قرارداد کے ذریعے تسلیم کیا ہے لہٰذا انڈین افواج کو فوری طور پر کشمیر سے نکل جانا چاہئے تاکہ کشمیری آزادانہ ماحول میں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام عالم کو چاہیے کہ وہ کشمیر میں جاری ظلم و بربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں کشمیر اور فلسطین امت مسلمہ کے دو بنیادی مسائل ہیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ کشمیر اور فلسطین میں جاری امت مسلمہ پر مظالم کے خلاف بھرپور آواز بلند کریں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کے عوام اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور انشاء اللہ عنقریب کشمیر اور فلسطین آزاد ہو نگے اور ہم کشمیر اور فلسطین کی آزادی کا جشن منائیں گے۔اس موقع پر احتجاجی مظاہرے سے ایم ڈبلیو ایم ضلع جیکب آباد کے سیکرٹری جنرل نذیر جعفری، آئی ایس او کے رہنما منصب علی بروہی نثاراحمد ابڑو و دیگر نے خطاب کیا۔
وحدت نیوز(وزیرآباد)مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وزیر آباد دورے کے دوران کشمیر فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عزاداری امام حسین علیہ السلام ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ۔جو قوتیں مذہبی آزادی کے آئینی حق پر قدغن لگانا چاہتی ہیں انہیں ملت تشیع کی طاقت کا اندازہ نہیں۔ہم مرنا قبول کر سکتے ہیں لیکن عزاداری پر کوئی آنچ نہیں آنے دینگے۔پنجاب حکومت کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ تشیع کے خلاف پارٹی بننے سے گریز کرے۔ پنجاب میں عزاداروں کے خلاف بے بنیاد مقدمات کا اندراج قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اپنے اختیارات سے تجاوز ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس میں موجود متعصب افسران ایسے غیر قانونی اقدامات سے باز رہیں۔ ملت تشیع کے ساتھ کسی بھی زیادتی کی اجازت نہیں دینگے۔قانون کی بالادستی کا مطلب عدل و انصاف کا قیام ہے جو شخص قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھ کر متعصبانہ طرز عمل اختیار کرے گا اسے مقتدر اداروں کے ذریعے احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ عزاداران امام حسین علیہ السلام کے خلاف قائم بے بنیاد مقدمات کو فوری طور پر خارج کیا جائے۔
انہوں نے کہا مذہبی منافرت کا پرچار کرنے والے عناصر دوبارہ متحرک ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد فرقہ واریت پھیلا کر صوبے کے امن و استحکام کو نقصان پہچانا ہے۔قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے عناصر کی بیخ کنی کے لیے موثر اقدامات کریں۔مذہبی آزادی ملک میں بسنے والے ہر شخص کا آئینی حق ہے۔کسی کو اپنا عقیدہ دوسروں پر تھوپنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ملت تشیع ایک پُرامن قوم ہے۔قیام پاکستان سے آج تک ہم نے ہمیشہ اتحاد واخوت کی بات کی۔ہم اپنے عقیدے پر کسی کو انگلی اٹھانے کی اجازت نہ دینے اور دوسروں کے عقیدے کو نہ چھیڑنے کے قائل ہیں۔
وحدت نیوز (گجرانوالہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے اپنے دورہ سینٹرل پنجاب کا آغاز کردیا ہے۔ مرکزی وصوبائی قائدین کے ہمراہ گجرات وگجرانوالہ پہنچنے پر ضلعی رہنماؤں ،کارکنان اور عوام کی جانب سے سربراہ ایم ڈبلیوایم کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔
گجرات اور گجرانوالہ کی شہراہوں پر مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی قائدین کی آمد کی مناسبت سے قد آورخیر مقدمی بینرز آویزاں کیئے گئے تھے ۔ گجرانوالہ میں ایک بڑی ریلی نے سربراہ ایم ڈبلیوایم علامہ راجہ ناصرعباس کا استقبال کیا اور موٹر سائیکل اور کار سوار سینکڑوں شرکاءنے جلوس کی صورت میں انہیں مرکزی امام بارگاہ پہنچایا۔
بعد ازاں علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے تنظیمی عہدیداران سمیت سےملاقات کی اور عوامی اجتماعات سے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل ناصرعباس شیرازی ، مرکزی سیکرٹری یوتھ علامہ اعجاز بہشتی،صوبائی سیکریٹری جنرل سنٹرل پنجاب علامہ عبد الخالق اسدی،مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی، معاون مرکزی سیکریٹری تنظیم سازی آصف رضا سمیت صوبائی عہدیداران سید حسن کاظمی،سید سجاد بخاری اور رائے ناصر بھی موجود تھے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کےرکن گلگت بلتستان اسمبلی و سکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم ضلع کھرمنگ شیخ اکبر رجائی کی مرکزی سکریٹریٹ ایم ڈبلیوایم اسلام آباد آمد کے موقع پر مرکزی رہنماؤں اور آفس اسٹاف کی جانب سے پرتپاک استقبال کیا گیا۔
ایم ڈبلیوایم رہنماؤں اور آفس اسٹاف کی جانب سے رکن جی بی اسمبلی شیخ اکبر علی رجائی کو پھولوں کے ہار پہنچائے گئے اور انہیں مرکزی سیکریٹریٹ آمد پر خوش آمدید کہا گیا۔
اس موقع پرعلامہ ضیغم عباس، علامہ ظہیرالحسن، راشاد بنگش، شجاعت بلتی، ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان حاجی زرمست خان و دیگر موجودتھے، واضح رہے رکن اسمبلی شیخ اکبر رجائی ممبران گلگت بلتستان اسمبلی کیلئےمنعقد ہونے والی ورکشاپ میں شرکت کرنے کیلئےاسلام آباد پہنچے ہیں۔
وحدت نیوز(مشہد مقدس) یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ مشھد مقدس ،جامعہ روحانیت بلتستان شعبہ مشہد مقدس اور کشمیری طلاب کی طرف سے حسینہ امام جواد علیہ السلام بلتستانیھا میں ایک اجتماع ہوا ۔جس میں مشہد مقدس ایران میں مقیم علمائے کرام اور طلاب عظام کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور انہوں کشمیریوں کے حق میں اور بھارتی ظلم بربریت کے خلاف نعرے لگائے۔
پروگرام کی ابتدا ء کلام مجید سے کی گئی اور اسکے بعد نعت رسول مقبول اور کشمیر کے شھداء کو خراج عقیدت برادر قمر علی کشمیری پیش کیا۔اسکے بعد جامعہ روحانیت بلتستان شعبہ مشہد کے رکن حجتہ الاسلام والمسلمین زاہد حسین ھاشمی نے خطبہ استقبالیہ دیا۔انہوں نے کہا ہمیں مظلوم کشمیری مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا ہے اور ھم دنیا کی تمام زندہ قوموں کو بھی کہتے ہیں کہ آئیں اور مظلوم کا ساتھ دیں۔
پروگرام کے مہمان خصوصی حجتہ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی سیکرٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے کہا کہ کشمیری مسلمان اتنے مظلوم ہیں کہ اکثر اقوام عالم کو ان پر کیے جانے والے ظلم کی ذرا سی بھی خبر نہیں۔خصوصا عرب ممالک میں کشمیر کے مسئلہ کو صرف پاکستان اور ھندوستان کے درمیان ایک سرحدی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔دشمن نے اتنا غلیظ پروپیگندہ کیا ہوا ہے کہ سچ کو چھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر کے دیکھایا جا رہا ہے۔
علامہ شیرازی نے کہا کہ ہمیں اپنا فریصہ ادا کرنا چاہیے اور کشمیریوں کی زبان بننا چاہیے اور بھارتی حکومت کے منفی پروپیگنڈہ کے جواب میں مختلف زبانوں میں کشمیریوں پر کیے جانے والے ظلموں کو آشکار کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ عرب ریاستیں اور خصوصا سعودی عرب بھی بھارتی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔اور یہ سب ملکر کشمیریوں کی تحریک دبانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انشاءاللہ یہ سب ناکام اور نامراد ہونگے اور وہ دن دور نہیں جب کشمیری مسلمان بھائی آزاد ہونگے۔
پروگرام میں حریت کانفرنس کے لیڈر اور اتحاد مسلمین کے سربراہ جناب مسرور انصاری نے ٹیلیفونک خطاب کیا اور کہا کہ کشمیریوں پر اس مودی حکومت نے ظلم کی انتھا کر دی ۔مسلمانوں کو دبانے کے لئے سات لاکھ فوجی تعینات کیئے گئے ہیں جنہوں نے ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کی ہے جوانوں کو ماؤں کے سامنے گولیوں سے بھون دیا جاتا،خواتین کے سہاگ اجاڑ دیے جاتے ہین ۔خواتین کی عزتوں کو پامال جا رہا ہے۔لیکن کوئی روکنے والا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کہاں ہیں انسانی حقوق کا سور مچانے والے ،کہاں ہے او ائی سی ،کہاں ہیں اسلام کے ٹھیکیدار عرب حکمران۔
پروگرام کے اخر میں کشمیری طلاب کے نمایندہ جناب مولانا شوکت حسین نے مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشھد مقدس ۔جامعہ روحانیت بلتستان مشہد مقدس اور ھیئت حسینہ امام جواد ع کا پروگرام کے برگزار کرنے پر انکا شکریہ ادا کیا۔سید محمد موسوی نے اور برادر سید عامر عباس کشمیری نے اپنی بہترین آواز میں کشمیر پر ترانے پڑھے۔پروگرام کی نظامت کے فرائص معروف اردو شاعر برادر شمس جعفری نے انجام دیے
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین سندھ کے زیر اہتمام سندھ کے مختلف شہروں میں یوم یکجہتی کشمیر کی مناسبت سے ریلیاں نکالی گئیں جن میں مرکزی، صوبائی و ضلعی رہنماؤں سمیت بڑی تعداد میں کارکنان اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔شرکائے نے مختلف بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر بھارتی مظالم کے خلاف اور آزادی کشمیر کے حق میں نعرے درج تھے۔ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویزن کی جانب سے یوم یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں مرکزی احتجاج نماز جمعہ کے بعد جامع مسجد نور ایمان ناظم آباد کے باہر ہوا۔جس میں علامہ صادق جعفری،علامہ مرزا یوسف حسین،علامہ اظہر نقوی، علامہ مبشر حسن،علامہ ملک محمد عباس سمیت دیگر نے کیا۔
مقررین نے اپنے خطابات میں بھارتی مظالم کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں انسانیت کی جو تضحیک کی جا رہی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ستر سالوں سے کھیلے جانے والا ظلم و بربریت کا یہ گھناو نا کھیل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کی قراردادوں کی حکم عدولی ایک بدمعاش ریاست کی عالمی غندہ گردی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔احتجاج کے اختتام پر مظاہرین نے بھارتی پرچم اور وزیر اعظم نریندر مودی کی شکل میں بنائے گا پلے کارڈ کو نظر آتش کیا۔
ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے نمائش چورنگی پر شہداء کشمیر کی یاد میں دعائیہ اجتماع و چراغاں بھی کیا گیا جس مولانا منظر الحق تھانوی،علامہ احمد اقبال رضوی،میجر قمر عباس،محمد شفقت،علامہ باقر عباس زیدی،علامہ سجاد شبیر رضوی،علی حسین نقوی، علامہ علی انور جعفری،میر تقی ظفر،میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے شمع روشن کی۔
اس موقع پررہنما علی حسین نقوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عوام کی خواہشات کے مطابق ہونے کا وقت آن پہنچا ہیں، ظالم کا زوال جب قریب آئے تو اس کا ظلم بڑھ جاتا ہے۔بھارتی حکومت کی جانب سے اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں شدت عوامی بغاوت کی راہ ہموار کررہی ہے۔برصغیر کی تقسیم کے طے شدہ فارمولے کے مطابق خود مختار ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ ان کے عوام کی منشا کے مطابق ہونا تھا لیکن کشمیر کے ہندو راجہ نے کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف طاقت کے زور سے کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کی کوشش کی۔
مقررین نے کہاکہ کشمیر کے عوام اور پاکستان کی بھرپور مزاحمت پر بھارت نے اقوام متحدہ سے مدد مانگی اور انسانی حقوق کے اس نام نہاد علمبردار نے جنگ بندی کراتے ہوئے رائے شماری کا اعلان کیا۔جو ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی نہ ہو سکی۔ بھارتی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور غیر جمہوری رویہ مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو حق خود ارادیت دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔بھارت جو خود کو جمہوریت کا چمپیئن سمجھتا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اس کا رویہ سخت ترین آمروں سے بھی بدتر ہے۔اقلیتوں پر بھارتی حکومت کے بڑھتے ہوئے مظالم ان کی نام نہاد جمہوریت کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں۔مودی حکومت ظلم و بربریت کے جو داستانیں رقم کرنے میں مصروف ہے اس کا خمیازہ بھارت کے ٹکروں کی صورت میں اسے بھگتنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی جمہوری ریاست میں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو طاقت کے زور پر دبایا نہیں جا سکتا۔سکھ برادری پر وحشیانہ تشدد جیسے واقعات پر پوری دنیا میں احتجاج کیا جانا بھارت سے نفرت کا عملی اظہا رہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ امت مسلمہ نے ذاتی منفعت کو اپنے دین پر مقدم کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان پوری دنیا میں زوال کا شکار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے نہتے اور مظللوم عوام کی حمایت میں آواز بلند کرنا ہماری اخلاقی و شرعی ذمہ داری ہے۔ہماری رگوں میں جب تک خون کی ایک رمق بھی باقی ہے ہم بھارت اور اس کے حواریوں کے غاصبانہ اقدامات کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔