The Latest
دہشت گرد ی کے خلاف صف آرا قوتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے,اللہ بشیر احمد بلور کوجنت فردوس میں جگہ عنایت کرے وہ دہشت گردی کیخلاف پر عزم افراد میں سے تھے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پیشاور میں اے این پی کے جلسے پر دہشت گرد گروپ طالبان کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد تمام ان طبقات کو ٹارگٹ کررہے ہیں جو دہشت گردوں کے مقابلے میں صف آرا ہیں
انہوں نے کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز چھوڑ کر تمام شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا جائے اور ہر اس پارٹی اور افراد کو بھی عدالتی کٹہرے میں لایا جائے جو کسی بھی شکل میں دہشت گردوں اور شدت پسندوں کی مدد کرتے یا ہمدردی رکھتے ہیں ۔
سکردو میں مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل مجلس وحدت بلتستان علامہ آغا علی رضوی نے کہا کہ کل کے یزید کو برا بھلا کہنا بہت آسان کام ہے لیکن وقت کے یزیدیوں کو اور فرعونوں کو للکارنے کے لیے کربلا والوں کو حوصلہ اور ہمت درکار ہے۔ اس وقت یزیدی طاقتیں ذکر حسین (ع) کو روکنے کے لیے طرح طرح کے شیطانی حربے استعمال کر رہی ہیں، قراقرم یونیورسٹی میں یوم حسین (ع) پر پابندی عائد کرکے موجودہ حکومت نے علاقے والوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے، گلگت بلتستان حکومت مٹھی بھر دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوم حسین (ع) پر پابندی علامہ ضیاء الدین رضوی شہید کے قاتلوں کو جیل سے بھگانا، علامہ نیئر عباس مصطفوی جیسے داعی وحدت عالم دین کی گرفتاری ان باتوں کی عکاسی کرتی ہے، یہ تمام افسوسناک واقعات کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں، کربلا والوں کو بیدار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ اس عشرہ محرم کا اہتمام امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلتستان ڈویژن کیا ہے مجالس امام بارگاہ ابوطالب سکمیدان اسکردو میں منعقد ہوئیں۔شدید سردی کے باوجود مجالس میں کثیر تعداد میں جوانان شریک ہوئے۔ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے
سندھ موروسٹی میں مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا بے مثال استقبال
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری جو کہ گذشتہ ہفتے سے سندھ کے دورے پر ہیں آج جب موروسٹی پہنچے تو ہزاروں عوام نے آپ کا لبیک یا حسین کے نعروں کے ساتھ شاندار استقبال کیا سینکڑوں گاڑیوں موٹر ساءئیکلز نیز پیدل قافلے کی شکل میں آپ موروسٹی داخل ہوئے یوں لگتا تھاکہ گویا پورا موروشہر آپ کے استقبال کے لئے آیا ہے شہر کو خیر مقدمی بینروں اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے جھنڈوں سے سجایا گیا تھا جبکہ شہر کی معزز شخصیات اور اہم سماجی و سیاسی افراد آپ کے قافلہ استقبال میں شریک تھیں
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سندھ کے اس دورے میں اب تک مختلف شہروں اور اضلاع کا دورہ کرچکے ہیں ہر شہر میں عوام کا والہانہ استقبال سے آپ خطاب کرتے ہیں اور مجالس عزا سے بھی خطاب کرتے ہیں
مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید عبدالحسین الحسینی نے انسداد پولیو مہم کی ٹیموں پر حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں جنگل کا قانوں ہے، دہشت گرد جہاں چاہیں منظم کارروائیاں کرتے ہیں اور فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ مگر سیکورٹی ادارے ان کا سراغ لگانے میں ہمیشہ کی طرح آج بھی ناکام ہیں۔ اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ مساجد اور امام بارگاہیں پہلے سے ہی غیر محفوظ تھیں، تاہم آج پولیو ٹیمیں بھی عدم تحفظ کا شکار ہوگئی ہیں۔ جس کی وجہ سے انسداد پولیو کی اہم مہم اس مرتبہ ناکام ہوگئی۔ ان کا کہنا تھا کہ درحقیقت یہ پولیو مہم ناکام نہیں ہوئی بلکہ ملک بھر کے ریاستی ادارے ناکام ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی ہوتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ سیکورٹی ادارے خاموش بیٹھیں گے تو دہشت گرد اپنی کامیاب کارروائیاں تو کریں گے۔
علامہ عبدالحسین نے مزید کہا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی میں امریکہ اور اسرائیل ملوث ہیں۔ یہ مھٹی بھر لوگ امریکہ کے اشارے پر چل رہے ہیں کیونکہ چند ممالک ہمارے ملک میں خوشحالی دیکھنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی، پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ میں پولیو ٹیموں پر حملوں کی تحقیات کی جائیں اور اس میں ملوث لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک میں کبھی بھی امن بحال نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ انسداد پولیو مہم کو بند نہ کیا جائے کیونکہ اس سے دشمن مزید حوصلہ افزاء ہو جائے گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیو ٹیموں کو ہر قسم کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
مجلس وحدت مسلمین کا منشور واضح اور بین ہے کہ ہم آئندہ انتخابات میں کسی بھی تکفیری یا تکفیری گروہ کے حمایت یافتہ اُمیدوار کو پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بننے دیں گے، پاکستان اُس وقت تک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا جب تک پارلیمنٹ کو ان دہشت گرد اور تکفیریوں سے پاک نہیں کیا جاتا۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین ملتان کے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے ملتان میں علمائے کرام کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں شیعہ قوم اُس وقت تک مضبوط اور طاقتور نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنے ووٹ کی طاقت کو صحیح استعمال نہیں کرے گی۔ مجلس وحدت مسلمین نے ملت تشیع کو ایک نئی سوچ اور فکر دی ہے، جس کے ذریعے وہ آئندہ انتخابات میں اپنا حق چھین سکتی ہے۔
وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے گلگت بلتستان کے حوالے سے کہا کہ ایک مخصوص ٹولے کی وجہ سے پورے صوبے کا امن تباہ کیا جا رہا ہے، گلگت بلتستان کی نااہل حکوت شرپسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے پُرامن شہریوں اور علمائے کرام کے خلاف سرگرم ہے۔ اُنہوں نے پشاور اور کوئٹہ میں ہونے والی حالیہ ٹارگٹ کلنگ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی انتہائی مخدوش حالت ہے، دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان کو غیر محفوظ بنایا جائے، لیکن جب تک ہم زندہ ہیں، ان دہشت گردوں کو ان کے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ توہم پرستی یورپ کے بظاہر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے اس لئے ہالیوڈ فلم انڈسٹری بکثرت جنات مافق الفطرت موجودات،اور فرضی و تصوراتی موضوعات پر ٹیکنالوجی کے مدد سے سالانہ دسیوں فلمیں بناتی ہے جن کا اصل مقصد تو یورپ کی عوام کو اہم معاشرتی مسائل سے غافل رکھ کر ایسی ہی چیزوں پر مصروف رکھنا ہوتا ہے
مجھے یاد ہے کہ جس وقت میں اس ٹیم کاحصہ تھا جو ہالیوڈ کے پس پردہ حقائق کے نام سے ایک ڈاکیومنٹری کی اردو ڈبنگ پر کام کررہی تھی،البلاغ نامی ایک اہم نشریاتی ادارے کی اس ڈاکیومنٹری پر کام کرتے ہوئے میں دسیوں ایسی فلموں کے بارے میں واقف ہوا جنکا موضوع دنیا کے اختتام ،آخری زمانہ ،جنات اور عجیب و غریب تصوراتی وفرضی مخلوقات کے بارے میں تھا ۔
ان تمام فلموں میں ایک چیز مشترکہ تھی وہ یہ کہ دنیا کو امریکہ اور یورپ کی ہمیشہ ضرورت رہے گی اور کسی بھی بحرانی صورت حال میں امریکہ ہی دنیا کا نجات دہندہ ہوگا ۔گویا کہ ان فلموں کا ایک مقصد سیاسی طور پر امریکہ کی بالادستی کا قائم رکھنا تھا ۔
دوسری جانب ان فلموں میں انتہاء درجے کی توہم پرستی دیکھائی گئی تھی جو یورپ اور امریکی معاشرے کی روحانی اور انسانی فطرت کے بحران کو عیاں کرتیں ہے ،ظاہرہے کہ جن معاشروں میں دین جیسی فطری ڈیمانڈ کو نظر انداز کیا جائے اور اسکے لئے ثانوی حثیت کے بھی قائل نہ ہوں وہاں روحانی اور ماوارئے طبعیت موضاعات کے بارے میں درست شناخت کسیے ممکن ہوسکتی ہے
یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات غیب کے موضوعات کو بھی لیباٹری ٹیسٹوں کے توسط سے حل کرنے کی کوشش میں وہ مزید گمراہ ہو جاتے ہیں اور قیامت کا تعلق بھی اسی غیب کے موضوع سے ہوتا ہے ۔
اکیس دسمبر کی من گھڑت کہانی نے اہل یورپ کو اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ حالیہ میڈیا روپورٹس کے مطابق بڑے بڑے بینکرز اور پناگاہیں بناکر لوگ کئی کئی سالوں تک کی خوارک جمع کرنا شروع کردیا ہے یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ بعض امریکی ریاستوں اور کچھ ممالک میں لوگوں نے بچوں کو کیڑے مکوڑے کھانے کاعادی بنایا ہے تاکہ اکیس دسمبر کو دنیا کی تباہی کے بعد کم ازکم کھانے کو کچھ تو ملے ۔
ظاہرہے جب انسان درست عقیدہ اور ایمان سے فاقد ہو تو پھر رائی پہاڑ ہی لگتا ہے جبکہ اکیس دسمبر کی من گھڑت کہانی میں رائی تک کا بھی کہیں نشان نہیں ۔
بحثیت مسلمان ہم جانتے ہیں کہ قیامت کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے چند امور کا انجام پانا ضروری ہے جس میں سے کچھ یہ ہے حضرت امام مہدی ع کا ظہور اور حضرت عیسی ع کا نزول یہ دو اہم امور مسلمانوں کے درمیان مسلمہ اور مشترکہ ہیں ۔
تمام مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خاندان نبوت سے تعلق رکھنے والی ایک ہستی کہ جن کا نام مہدی ہوگا ظہور کرینگے یا اپنی موجودگی کا اعلان کرینگے جن کے بعد حضرت عیسی ع کا نزول ہوگا اور زمین میں انصاف پر مبنی ایک عالمی معاشرہ تشکیل پائے گا جہاں نہ کوئی استعمار ہوگا اور نہ کوئی استکبار عدالت اور انصاف کا یہ عالم ہوگا کہ بطور مثال کہا جاتا ہے کہ صدقہ لینے والا کوئی نہ ہوگا لیکن ایک ایسے معاشرے کا قیام بھی ہالی ووڈ کی فلموں میں دیکھائی جانے والی فرضی ٹیکنالوجی سے لیس مشین کے بٹن دبانے سے نہیں بلکہ یہی آج کا انسان اپنی جدوجہد اور کوشش کے بعد معاشرے کو عدل و انصاف کی راہ پر استوار کرے گا
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں امام مہدی کے ظہور کے لئے سوسائٹی کو ہر لحاظ سے تیار کرنے کی کوشش کو بڑی عبادتوں میں سے شمار کیا گیا ہے اور امام مہدی کے ظہور کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے انتظار کی سرزنش کی گئی ہے ۔
بحرحال اکیس دسمبر کو کچھ بھی نہیں ہونے والا ،کائنات اس لئے نہیں بنائی گئی کہ کوئی ایک دیوانہ خواب دیکھے اور اسے تباہ کرے ۔
تحریر: ع صلاح ایم ڈبلیوایم میڈیا سیل
اسلام آ باد (پ ر) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کراچی اور پشاور میں کمسن بچوں کو پولیو ویکسین پلانے والی خواتین پرہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اور سیکورٹی فورسز رضاکار خواتین کا تحفظ یقینی بنائیں ، ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے ایک پریس ریلیز میں انہوں نے کہا دہشت گردوں کے حملوں کو روکنے کی اور ملزمان کو قانون کی گرفت میں لینے کی بجائے ،پولیو مہم کو روک دینا انتہائی غیر دانشمندانہ قدم ہے،دہشت گرد ملکی ترقی اور بہتری کے دشمن ہیں تمام محب وطن قوتوں دہشت گردوں کے مقابلے میں ایک صف میں کھڑے ہونے کی ضرورت ہے ۔
ترکی کے فحش ڈراموں کیخلاف احتجاج
گذشتہ ایک سال سے مختلف تفریحی چینلز نے انڈیا کے بعد ترکی کے ڈراموں کو اردوڈبنگ کے ساتھ نشر کرنا شروع کیا ہے جس کے خلاف اگرچہ عوامی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا تھا لیکن اس غم و غصے نے کہیں بھی کوئی عملی شکل اختیار کرکے احتجاج یا پھرپیمرا کو اس جانب متوجہ کرنے کی کوئی باقاعدہ اور منظم کوشش نہیں کی لیکن گذشتہ روز لاہور میں اداکاروں کی جانب سے احتجاج میں اس بات کی جانب متوجہ کیا گیا کہ ان ڈراموں کے سبب ملکی ثقافت تباہ ہورہی ہے اور اداکاروں کا مالی نقصان بھی ہوریا ہے
یہ حقیقت ہے کہ ترکی جیسا آزاد خیال معاشرہ اور اس میں بنے والے ڈرامے قطعی طور پر ہمارے معاشرے سے میل نہیں کھاتے کیونکہ ترکی مکمل طور پر یورپی ثقافت کو اپنا چکا ہے اور خاص طور پر زرائع ابلاغ میں کہیں بھی مشرقیت نظر نہیں آتی خواہ کسی ڈرامے کی کہانی ہو مرکزی خیال ہو یا پھر ڈراموں میں دیکھایا جانے والے کلچر یہاں تک کہ ظاہری وضع قطع اور پہنے جانے والے کپڑوں تک میں ترکی مختف ہے ۔
ترکی میں اچھے ڈرامے بھی بنتے ہیں لیکن ہمارے چینلز ان ڈراموں کو ہی پیش کرتے ہیں جن کا موضوع شادی شدہ عورت کا اپنے عاشق کی خاطر اپنے شوہر سے خیانت یا پھر عشق و عاشقی شیطانی ہوا کرتی ہے
دوسری جانب اجنبی مرد اور عورت کے باہمی تعلق میں اس قدر آزدی دیکھائی جاتی ہے جیسے ہم کسی بھی طور برداشت نہیں کرسکتے لہذا پیمرا سمیت سول سوسائٹی کو ان ڈراموں کیخلاف متعلقہ ادارے سے بات کرنی چاہیے تاکہ غیر اخلاقی اس سیلاب کو روکا جاسکے واضح رہے کہ عرب ممالک میں ترکی کے بہت سے ڈراموں پر پابندی لگادی گئی ہے جن میں سے ایک عشق ممنوع نامی ڈرامہ بھی ہے
سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری جو ان دنوں وادی مہران سندھ کے دورے پر ہیں جب شہداد کوٹ پہنچے تو عوام نے انہیں خوش آمدیدکہا اور ایک استقبالی قافلے کے ہمراہ آپ شہر میں داخل ہوئے جہاں آپ سے عوامی مختلف حلقوں نے ملاقات کی اور علاقائی مسائل بیان کئے آپ نے وہاں مجلس سے خطاب بھی کیا اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی ضلعی شوری کے اجلاس کی صدارت بھی کی.تفصیلات عنقریب
مُحرّم کی نو اور دس تاریخ کسی بڑے سانحے کے بغیر گذرجانے پر سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ یہ ایّام تدبر کے اظہار کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اگر اس دوران شہریوں کی جان و مال کو کسی قسم کا خطرہ ہو تو پھر اس کا تدارک بھی ہونا چاہیے۔
کہا جاتا ہے کہ ان ایام میں دہشت گردوں نے مختلف مقامات پر تباہی پھیلانے اور بڑی تعداد میں قتل و غارت گری کا منصوبہ بنا رکھا تھا مگر بروقت ا اطلاع ملنے پر نہ صرف ان تخریبی اور دہشت گردی کارروائیوں کو ناکام بنادیا گیا بلکہ بڑی تعداد و مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی قبضے میں لے لیا گیا، جس سے وہ بوکھلا کر رہ گئے۔
اطلاعات کے مطابق کراچی کو سب سے بڑا خطرہ لاحق تھا جہاں پولیس نے بروقت کارروائی کرکے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی پکڑی تھی، جس سے یہ خطرہ ٹل گیا۔
اس طرح کے تدارکی اقدامات قابلِ تعریف ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ عام حالات میں بھی اس طرح کی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے یا پھر یہ سب کچھ عاشور کے سبب کیے جانے والے سخت ترین حفاظتی اقدامات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتہائی چوکسی کے سبب ہی ممکن ہوسکا تھا۔
عاشور کے موقع پر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی بارہ ہلاکتوں کی بات دوسری ہے۔ نویں محرم کو سات اور عاشور کو پانچ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اسے کوئی بڑا المیہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عقائد سے منسلک تشدد ہے جو سماج کی بے حسی اور عدم برداشت کی سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔
لیکن کیا کسی نے ان ایام کے دوران پورے ملک میں خصوصی حفاظتی اقدامات پر اٹھنے والے اخراجات کا حساب کتاب کیا ہے؟
تقریباً دو تین روز کے لیے دفاتر اور اسکول بند رہے تھے، رہے لوگ توبڑی تعداد خوف کے باعث گھروں تک ہی محدود ہو کر رہ چکی تھی۔
تمام صوبوں کے پولیس سربراہوں نے خصوصی کنٹرول اینڈ مانیٹرنگ سیل قائم کردیے تھے۔ اس ضمن میں صرف پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کو روکنے کے لیے دس لاکھ پولیس افسران و اہلکار تعینات کیے تھے۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے اس طرح کے اقدامات میں حصہ لیا، کامیابی پر سراہے جانے کے مستحق ہیں۔
حتیٰ کہ وہ بھی جو موبائل فون کی بندش اور ڈبل سواری پر پابندی کے باعث اکثر اس دوران وزیرِ داخلہ پر تنقید کرتے رہے، انہیں پابندیوں کے سبب جس پریشانی سے گذرنا پڑا، خاص کر موبائل فون کے لاکھوں صارفین، وہ بھی بخیر و خوبی اس اہم دن کے گذرجانے پر سراہنے کے کے لائق ہیں۔
ان سب کے باعث ملک کی ایک بڑی شیعہ اکثریت کو اپنے عقائد کے مطابق اہم ترین مذہبی نوعیت کے ایّام کو کسی مجلس یا جلوس میں بنا کسی بم دھماکے یا تخریبی کارروائی کے منانے کا موقعہ میسر آیا۔
دہشت گردوں نے جس طرح پاکستانی ریاست کو پریشان کرکے انہیں خود سے دور رکھنے کے لیے بھاری اخراجات پر مجبور کیا، اسے دیکھ کر تو وہ خود آستین چڑھا کر ہنستے ہوں گے۔
جب وہ انٹیلی جنس ایجنسوں تک صرف اپنے سرگرم رہنے کی سادہ سی دھمکی پہنچا کر پورے ملک کو مفلوج کرسکتے ہیں تو پھر انہیں کیا ضرورت پڑی تھی کہ اپنے خودکش بمباروں کی جانیں اور دھماکا خیز مواد برباد کرتے؟
اس وقت دو سوالات نہایت توجہ کے طلب گار ہیں۔ پہلا یہ کہ عاشور کے ایّام میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جو چوکسی نظر آئی کیا اسے کسی خاص مدت تک برقرار رکھا جاسکتا ہے؟
اگر جواب نفی میں ہے تو پھر شک پیدا ہوتا ہے کہ عام حالات میں دہشت گردی کے واقعات دھیمے نہ پڑنے کے اسباب دیگر ہیں۔
سچ ہے کہ بڑے بڑے اجتماعات انہیں اپنے نظریات کے اظہار اور اس کے نفاذ کے لیے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں تاہم دہشت گردوں سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ طویل عرصے تک اپنے ہتھیاروں کو بنا استعمال کے پڑا رہنے دیں گے۔
خظرناک ہتھیار رکھنے والے یہ دہشت گرد کبھی بھی اپنے سارے انڈے ایک باسکٹ میں رکھ کر ان کی نقل و حرکت نہیں کرتے کہ آسانی سے پکڑے اور کچلے جاسکیں۔
دوسرا یہ کہ کیا دہشت گردی کے اس خطرے سے مستقل طور پر نمٹنے کے لیے قابلِ برداشت حکمتِ عملی کی ضرورت ہے؟
یہ ضرور ہوا کہ عاشور کے موقع پر سخت اقدامات کے بدولت دہشت گردوں کے منصوبے ناکام ہوئے، جس پر وہ ضرور سیخ پا ہوں گے، یوں وہ مزید خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، تاہم عاشور پر امن و امان کے لائقِ تحسین اور کامیاب اقدامات کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے جن کو شکست دے دی گئی ہے۔
گذشتہ چند برسوں سے ملک میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف تشدد کی لہر میں بدستور اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر اب تک ہم نے اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے کسی حکمتِ عملی کے بارے میں نہ تو کچھ سنا اور نہ ہی دیکھا ہے۔
سادہ اور تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے لیڈر، چاہے وہ حکومت کے اندر بیٹھے ہوں یا پھر باہر، وہ شیعہ کمیونٹی کے حقوق کا دفاع یا ان کے قتل کی مذمت کرنے سے خوف زدہ نظر آتے ہیں، حالانکہ جو یہ گھناؤنا فعل انجام دیتے ہیں، وہ مذمت کے ہی مستحق ہیں۔
جیسا کہ خود میڈیا میں بھی رپورٹ ہوا، ان خیالات کی تصدیق عاشور سے قبل صرف چار دن کے اندر دو درجن سے زائد شیعوں کی ہلاکتوں پر آنے والے ردِ عمل سے کی جاسکتی ہے۔
صدر اور وزیر اعظم سمیت زیادہ تر رہنماؤں نے بم دھماکوں کی مذمت کی، مرحومین کے لیے خدا سے دعائے مغفرت کی، متاثرہ خاندانوں سے یہ صدمہ برداشت کرنے کے لیے ہمدردی کا اظہار بھی ہوا مگر اس بہیمانہ قتل و غارت کے سلسلے کو روکنے کے لیے با معنیٰ اقدامات سے خالی یہ ایک دکھاوا تھا۔
جماعتِ اسلامی کے سربراہ نے بھی میڈیا سے گفتگو میں ایسا ہی کچھ کہا اور پھر دیکھا گیا کہ وہ فوراً ہی انتخابی اتحاد کے منصوبے پر بولنے لگے۔
متعدد اہم شخصیات نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے نامعلوم ’دشمنوں’ کو ذمہ دار قرار دیا تو بعض نے ان ہلاکتوں کے پیچھے ‘غیر ملکی ہاتھ’ پر الزام دھر دیا۔
مجلسِ وحدت المسلمین نے شیعوں کے قتل کے خلاف متفقہ فتویٰ حاصل کرنے کے لیے تمام علما کا اجلاس بلانے کی درخواست کی مگر ان کی بات پر کسی نے کان نہیں دھرا۔
مختلف مذہبی جماعتوں اور دھڑوں بشمول دفاعِ پاکستان کونسل کے جغادری رہ نماؤں نے اس معاملے پر خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے شیعوں کی ہلاکت کے واقعات کا دو مرتبہ حوالہ دیا مگر اس تناظر میں وہ بھی اس سے آگے کچھ نہیں کہہ سکے کہ قاتل اور مقتولین دونوں ہی کلمہ گو ہیں۔
چاہے شیعوں کا قتل ہو یا کسی دوسرے مذہبی گروہ سے منسلک افراد کا، یہ ناقابلِ معافی جرم ہے، جس کی صرف مذمت کردینا ہی کافی نہیں۔
جس بیان کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے، وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے وزیرِ اعلیٰ کی جانب سے سڑک حادثے میں پچیس افراد کی ہلاکت یا پھر کسی گودام میں آتشزدگی پر جاری کردیا جاتا ہے۔
ان میں ایسے کوئی اشارے نہیں کہ جن لوگوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے بیان دیا جارہا ہے، یہ وہ معصوم شہری تھے جنہیں اُن کے عقائد کی بنیاد پر مارا گیا، حالانکہ اس حقیقت کا ہمیں شدت سے اعتراف کرنا چاہیے تھا۔ بم دھماکوں کی مذمت تو کی جاتی ہے مگر اُن کے ذمہ داروں کا نام نہیں لیا جاتا۔
فرقہ واریت کا نشانہ بننے والوں کی شناخت بطور شیعہ ظاہر نہیں کی جاتی۔ تصور ہے کہ مقتولین اور قاتلوں کی شناخت ظاہر نہ کرنے کا مقصد کشیدگی کو بڑھنے سے روکنا ہوتا ہے مگر یہ خیال بڑا احمقانہ ہے۔ سب لوگ بات جانتے ہیں کہ کون مارا گیا اور کس نے معصوموں کو، اُن کے اپنی ہی خون میں نہلادیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ وم تمام لوگ جوکوئی نہ کوئی اثر یا اختیا رکھتے ہیں، بین العقائد امن کو لاحق خطرات تسلیم کرنے کو ہی تیار نظر نہیں آتے۔
مقدس مبلغین کے لبادے میں نفرت کا پرچار کرنے والے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرتے پھر رہے ہیں کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔
انہیں کس نے حق دیا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے کی بنیاد پرلوگوں کی زندگی و موت کا فیصلہ کرتے پھریں مگر وہ ایسا کررہے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں لوگوں کی جان و مال کی سلامتی کو درپیش خطرات کے سدِباب کے لیے ریاست خاطر خواہ اقدام کرتی نظر نہیں آتی۔
اس ملک میں تب تک نہ تو امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کےشہریوں کے لیے کوئی جائے پناہ ہوسکتی ہے، جب تک کہ نفرت کے اس عفریت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن نہ کردیا جائے۔(اس آرٹیکل کو ڈان نیوز کی سائیڈ سے لیا گیا ہے ۔۔مجلس وحدت کی ویب سائیڈ کا بیرونی مواد سے مکمل ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں ہے )