وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام شیعہ ٹارگٹ کلنگ، بے بنیاد مقدمات، عزاداری پر عائد پابندیاں، پُرامن شہریوں کی گرفتاری کے خلاف ملک کے دیگر شہروں کی طرح جنوبی پنجاب میں احتجاجی دھرنے دیے گئے۔ ملتان میں سہو چوک کے مقام پر خانیوال روڈ پر دھرنا دیا گیا، دھرنے میں خواتین، بچوں، نواجوانوں نے سینکڑوں کی تعداد میں شرکت کی۔ احتجاجی دھرنا شام پانچ بجے شروع ہوا جو کہ رات گئے اختتام پذیر ہوا، دھرنے کے شرکاء نے اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک بلاک کیا، دھرنے سے مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی، علامہ قاضی نادر حسین علوی، علامہ غلام مصطفی انصاری، علامہ سید سلطان احمد نقوی، علامہ ہادی حسین ہادی، مولانا مظہر عباس صادقی، مولانا اعجاز حسین خان، یافث نوید ہاشمی، محمد عباس صدیقی اور دیگر نے خطاب کیا۔ رہنمائوں نے دھرنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری گزشتہ 70دنوں سے نیشنل پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال پر ہیں لیکن بے حس حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ رہنمائوں نے کہا کہ جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے ہم سراپا احتجاج رہیں گے۔ پنجاب میں ہمارے عزاداروں اور بانیان مجالس کے خلاف بے بنیاد مقدمات بنائے گئے، پُرامن شہریوں کو شیڈول فورتھ میں ڈالا جا رہا ہے، عزاداری پر پابندیاں عائد کی جارہی ہے، ملک بھر میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، گلگت بلتستان میں زمینوں پر ناجائز قبضے کیے جارہے ہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے پُرامن شہری ہیں ہمیں حکومت احتجاج اور دھرنوں پر مجبور کرچکی ہے ہم حکومت کومتنبہ کرتے ہیں کہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو 7 اگست کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کا گھیرائو کریں گے۔ دھرنے کے شرکاء نے حکومت مخالف نعرے بازی اور اپنے شہداء کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر نماز باجماعت کا اہتمام کیا گیا، دھرنے کے شرکاء نے ایمبولینسزکو خصوصی طور پر راستہ دیا گیا۔
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی کال پر ملک بھر کی طرح بلتستان میں بھی اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی دھرنا دیا گیا۔ اس سلسلے میں رندو ڈمبوداس میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور گلگت اسکردو روڈ پر دھرنا دیا اور دھرنے سے مقامی علماء نے خطاب کیا۔ گلگت اسکردو روڈ پر بشو کے مقام پر بھی جوانوں نے روڈ پر دھرنا دیا اور اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کی۔ اسی سلسلے میں گمبہ اسکردو میں مین بازار میں جوان اور عوام سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاجی دھرنا دیا۔ اسکردو یادگار چوک پر مرکزی دھرنا یادگار شہداء اسکردو پر دیا گیا جس میں علماء اور عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مرکزی دھرنے سے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماء علامہ محمد امین شہیدی نے بھی ٹیلی فونک خطاب کیا۔ اسکردو مرکزی دھرنے میں عوام کی کثیر تعداد شریک تھی۔ اسکردو شہر کو کالج روڈ اور حسین چوک کے مقام پر مظاہرین نے بلاک کیا۔ اس کے علاوہ گول کے مقام پر گانچھے اور سیاچن کے روڈ کو بلاک کر دیا گیا اور جوانوں نے اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کی۔ دوسری طرف کھرمنگ میں بھی مختلف مقامات پر احتجاجی پروگرامات کا سلسلہ جاری رہا۔ کھرمنگ میں شیخ اکبر رجائی اور دیگر علمائے کرام کی قیادت میں کرگل لداخ روڈ پر دھرنا دیا گیا اور اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند ہوئی۔ بلتستان کے دیگر مقامات کی طرح شگر میں علماء اور جوانوں نے کے ٹو جانے والی شاہراہ پر دھرنا دیا۔
یادگار شہداء اسکردو پر جاری مرکزی دھرنے سے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماء علامہ محمد امین شہیدی نے ٹیلی فونک خطاب کیا۔ انکے علاوہ ایم ڈبلیو ایم بلتستان کے سربراہ آغا علی رضوی، شیخ احمد علی نوری، شیخ حسن جوہری، شیخ مبارک علی عارفی، شیخ ذوالفقار، شیخ محمد علی، شیخ غلام حسن عابدی، شفقت غازی اور حاجی ابراہیم نے خطاب کیا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ مرکزی حکومت کی سرد مہری کا یہ بدترین ثبوت ہے کہ ستر روز سے احتجاجی سلسلہ جاری ہے لیکن حکومت شہریوں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کے تیار نہیں ہے۔ آج علامہ راجہ باصر عباس جعفری کی کال پر پاکستان کے عوام سٹرکوں پر ہیں اور سکیورٹی اداروں سے سوال کر رہے ہیں کہ ساٹھ ہزار شہدا کے قاتلوں کو کب سزا دینی ہے اور انہیں کس جرم میں شہید کیا گیا۔ ہم پر پاکستان کی زمین کیوں تنگ کر رہی ہے اور ہم سے جینے کا حق کیوں چھینا جا رہا ہے، شہریوں کو جینے کا حق دینا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کا جن بے قابو ہے اسے قابو کرنے کے لیے حکومت سنجیدہ نہیں۔ دہشتگردی کا ناسور ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے لیکن حکومت کو احساس نہیں۔ مقررین نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کی طرح صوبائی حکومت اپنی بساط کے مطابق یہاں پر مظالم ڈھانے میں مصروف ہے۔ زمینوں پر قبضہ، غیرقانونی بھرتیاں، ٹیکس کا نفاذ، سبسڈی کے خاتمے کی کوشش اور گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر میں غفلت انکی بلتستان دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جسے معاف نہیں کیا جائے گا۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ترجمان علامہ مختار امامی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 22جولائی ملت تشیع اپنے حقوق کی شناخت کے لیے سڑکوں پر ہو گی۔کل بروز جمعہ 22 جولائی علامہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال کو 70 روز پورے ہو جائیں گے۔ اب فیصلہ کیمپ میں بیٹھنے کی بجائے شاہرواں پر ہو گا۔ملک بھر میں 70سے زائد شہروں میں احتجاجی دھرنے دیے جائیں گے۔جب تک شیعہ نسل کشی میں ملوث افراد کے خلاف ریاستی و عسکری اداروں کی طرف سے ملک گیر آپریشن کا آغاز نہیں کیا جاتا تک تک مختلف اندازمیں ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔ماہ رمضان میں کالعدم جماعتوں کی طر ف سے کراچی اور دیگر شہروں میں چندہ اکھٹا کیا جاتا رہا جو قومی سلامتی کے اداروں اور حکومتی رٹ کو سرعام چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ ان کالعدم جماعتوں کے خلاف فوری کاروائی کی جائے جو نام بدل کر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔سانحہ شکار پور میں ملوث افراد کی رہائی ملت تشیع کے لیے تشویش اور سخت حیرانگی کا باعث ہے۔ ملک میں ہونے والے مختلف سانحات بالخصوص سانحہ چلاس،سانحہ شکار پور،سانحہ بابو سر،سانحہ حیات آباد،سانحہ عاشور اور سانحہ راولپنڈی کے مقدمات کو ملٹری کورٹس میں بھیجا جائے۔پاکستان میں موجود تمام مسالک اور مذاہب کو انتہا پسند تکفیری گروہ سے تحفظ فراہم کیاجائے۔پنجاب حکومت سمیت تمام صوبائی حکومتیں اور وفاق اپنی شیعہ دشمنی ترک کرے اور بے گناہ عزاداروں کے خلاف انتقامی بنیادوں پر درج مقدمات فوراختم کیے جائیں۔جن شیعہ عمائدین کے نام شیڈول فور میں ڈالے گئے ہیں ان کے نام وہاں سے نکالیں جائیں۔پارہ چنار کرم ایجنسی میں ایف سی اہلکاروں نے بے گناہ مظاہرین کو گولیاں برسا کر شہید کر دیا اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے فوری طور پر کمیشن تشکیل دیا جائے۔پارہ چنار میں لوگوں کی املاک پر زبردستی قبضوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور انتخابی فوائدکے حصول کے لیے وہاں کی ڈیموگرافی کو تبدیل نہ کیا جائے۔پاکستان کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کر کے کمزور کیا جا رہا ہے ۔مسلکی تعصب کی روک تھام کے لیے اہم اقدامات کیے جائیں۔پاکستان کے حکمران مخصوص تکفیری گروہ سے دوستی کا حق ادا کررہے ہیں۔شیعہ سنی پاکستان کے دفاع کی فرنٹ لائن ہیں جنہیں دانستہ طور پر دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پاکستان میں بسنے والوں کو پاکستانیت پر یکجا کرنے کی بجائے لسانیت، فرقہ واریت، صوبائیت اور دیگر تعصبات میں الجھا کر گروہوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے تاکہ قومی طور پر ہمیں کمزور کر کے ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلا جا سکے۔
انہوں نے کہا ریاست میں بسنے والوں کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔موجودہ حکومت کو اس میں مکمل ناکامی کا سامنا ہے۔ملت تشیع کو تحفظ دینے کی بجائے ریاستی اداروں کے ذریعے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ملک میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ، ریاستی جبراور ملک و قوم کے مفادات کے منافی حکومتی پالیسیوں کے خلاف13مئی کو بھوک ہڑتال کا آغاز کیاجس کوآج 69 روز گزر چکے ہیں۔ میڈیکل بورڈنے ان کی صحت کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کر رکھا ہے ۔قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ،تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان،پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سمیت ملک کی تمام بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں نے بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کر کے علامہ ناصر عباس سے اظہار یکجہتی کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے مطالبات کو قانونی آئینی قرار دیا ہے۔لیکن موجودہ حکمران ہمارے جائز مطالبات تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آنے والوں کو یہ فرعونیت و شدادیت زیب نہیں دیتی۔انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کے مطالبات کی منظوری پُرامن اور مستحکم پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے بصورت دیگر یہ ملک ظالموں،غاصبوں،لیٹروں،سرمایہ کاروں اور دہشت گردوں کی جاگیر بن کر رہ جائے گا جہاں قانون و انصاف کی بجائے ظلم و بربریت اور اختیارات کی حاکمیت ہو گی۔
وحدت نیوز(گلگت) حکومت کی عدم توجہ اور غفلت سے شاہراہ قراقرم ایک خونی شاہراہ بن چکی ہے۔ تتہ پانی کے مقام پر کار حادثے میں علامہ ساجد شیرازی اور دیگرکی ناگہانی موت پر دلی صدمہ پہنچا۔حادثے میں دو زخمیوں کو ریسکیو کرنے والے مقامی ڈرائیور کو تمغہ جرات سے نوازا جائے جس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دو قیمتی انسانی جانو ں کو بچالیا۔
مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ شاہراہ قراقرم پر حکومت کی جانب سے سیاحوں اور مسافروں کے لئے سہولیات کی عدم فراہمی سے آئے روز حادثات رونما ہورہے ہیں۔اس پر خطر شاہراہ پر کوئی حادثہ رونما ہوجائے تو ریسکیو کیلئے کوئی مناسب انتظام نہیں۔شاہراہ پر نہ تو کوئی ریسکیو ٹیم موجود ہے اور نہ ہی فرسٹ ایڈ کی کوئی سہولت جس سے ملک بھر سے گلگت بلتستان کی حسین قدرتی وادیوں کے نظارے کی خواہش رکھنے والے آئے روز کے حادثات سے گھبراگئے ہیں۔دوسری جانب 1122 کی ریسکیو ٹیم کسی بھی حادثے میں مدد فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں،نہ تو ان کے پاس پیشہ ور غوطہ خور ہیں اور نہ ہی ضروری سازو سامان۔یہ ادارہ صرف حادثے کی جگہ کا معائنہ کرسکتا ہے لیکن کوئی امداد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔علامہ ساجد شیرازی کی کار حادثے کو آج تین دن گزرگئے ہیں لیکن موقع پر کو ئی کاروائی نظر نہیں آرہی ہے۔ انہوں نے مقامی ڈرائیور کی جوانمردی کو سلام پیش کرتے ہوئے انہیں تمغہ جرات سے نوازنے کا مطالبہ کیا ہے جس نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دو قیمتی انسانی جانوں کو بچالیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اہم قومی شاہراہ پر بے ہنگم ٹریفک اور حادثات کی ذمہ دارحکومت ہے جو ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ خراب موسمی حالات میں پرخطر مقامات کی نشاندہی اور ٹریفک کا روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور کسی بھی ناخوشگوار حادثے میں ریسکیو کرنے کی تمام تر ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن اس شاہراہ پر ریسکیو کرنے کیلئے عوام پہلے پہنچ جاتی ہے اور حکومت آخر میں صرف جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے چلی آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پر خطر اور اہم قومی شاہراہ پر موبائل ریسکیو ٹیمیں اور فرسٹ کی سہولیات بہم پہنچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ شاہراہ پر حادثات کو کنٹرول کرنے کیلئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں اور بروقت فرسٹ ایڈ کی سہولیات پہنچانے کیلئے سپیشل موبائل ٹیمیں تشکیل دی جائیں تاکہ مسافروں اور سیاحوں کوکسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین سندھ کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کے پُرامن شہری ہیں لیکن حکومت ہماری اس خاموشی کو ہماری کمزوری سمجھ رہی ہے، پاکستان میں مظلوم کو اُس وقت تک حق نہیں ملتا جب تک وہ خودکشی نہ کرے یا پھر سڑکوں پر آکر اپنا حق نہ مانگے۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے وحدت ہاؤس کراچی میں ڈویژنل شوریٰ کے اجلاس سے خطاب میں کیا۔ اجلاس میں علامہ علی انور جعفری، مولانا نشان حیدر ساجدی، علی حسین نقوی، میثم عابدی، مولانا صادق جعفری، رضا نقوی، میر تقی ظفر سمیت دیگر ڈسٹرک کے ذمہ داران موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں میں موجود تکفیری فکر کے حامل عناصر ملک میں تکفیریت کو رواج دینے میں مصروف ہیں، اہل سنت اور اہل تشیع پاکستان کے دفاع کی فرنٹ لائن ہیں جنہیں کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ریاستی اداروں اور قوم کے درمیان نفرت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے تاکہ ملک پر سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو، پاکستان کو اقتصادی طور پر کھوکھلا کیا جا رہا ہے، پورا انفراسٹرکچر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، پاکستان کے حکمران ہمارے دشمنوں کے ساتھ مل کر ہمیں ظلم و بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں، شہر قائد کالعدم دہشتگرد جماعتوں کی مضبوط پناہ گاہ بنتا جارہا ہے، شہر میں خرم ذکی و امجد صابری جیسے افراد کا قتل سمیت جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے کا اغواء اور ٹانک سے بازیابی ان کی فعالیت کی جیتی جاگتی دلیل ہے۔
علامہ مقصود ڈومکی کا کہنا تھا کہ سانحہ شکار پور میں ملوث دہشتگردوں کو عدلیہ و حکومت کی جانب سے کلین چٹ دے دی گئی، سانحہ میں ملوث کالعدم جماعت کے دہشت گردوں کو کس ڈیل کے تحت چھوڑا گیا، پنجاب میں بے گناہ عزاداروں پر نیشنل ایکشن پلان کے تحت مقدمات بنائے جا رہے ہیں، گلگت بلتستان میں ہمارے لوگوں کی زمینوں پر زبردستی قبضے کیے جا رہے ہیں، پنجاب کی سی ٹی ڈی ملت تشیع کے لیے لشکر جھنگوی بن چکی ہے، عزاداری سید الشہدا ہماری عبادت ہے، ہم اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ قطعی برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ 22 جولائی کو سندھ کی تمام اہم شاہراہوں پر احتجاج کریں گے۔ انشاء اللہ 22 جولائی کو ملک بھر کی طرح سندھ دھرتی سے پوری دنیا کو اپنے پُرامن احتجاج کے ذریعے ایک پیغام دیں گے اس حوالے سے ترجمان ایم ڈبلیو ایم علامہ مختار امامی جمعرات کو شام پانچ بجے کراچی پریس کلب میں نیوز کانفرنس کرکے دھرنوں کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ و سابق وزیراعظم پاکستان چوہدری شجاعت حسین نے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے بھوک ہرٹالی کیمپ میں ملاقات کی۔ ملاقات میں دو طرفہ دلچسپی کے امور اور ملکی حالات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جمہوریت کے نام پر جمہور کے خلاف ظلم کا بازار گرم ہے۔ حکمرانوں کا رویہ عوام کے ساتھ دشمنوں سے بھی بدتر ہے۔ علامہ ناصر عباس نے انہیں ملک میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ اور حکومت کی ملت تشیع کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے تفصیلی آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے بھوک ہرتال پر بیٹھے ہوئے 68 دن گزر چکے ہیں۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے مرکزی رہنما یہاں تشریف لا چکے ہیں لیکن حکومت، وزراء، قومی ادارے اور اعلٰی عدلیہ ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلہ ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اگر عوام کے ساتھ اسی طرح کا انصاف اور رویہ روا رکھا گیا تو پھر ان اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔
چوہدری شجاعت نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت سمجھتی سب ہے لیکن عوام کے لئے کرنا کچھ بھی نہیں چاہتی۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں جمہور کا قتل ہو یا چاہے کوئی دوسری آفت نازل ہو، حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام دیگر سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس وقت اپنے درمیان موجود اختلاف کو ایک طرف رکھ کر قومی معاملات پر توجہ دیں۔ حکومت کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو یکجا کرنے کے لئے ہم بھرپور کوشش کریں گے۔ مجھے خود اگر چل کر بھی کسی کے پاس جانا پڑا تو میں دیر نہیں کروں گا کیونکہ اس وقت ملک کی بقا و سالمیت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ افغانستان، بھارت، ایران اور کشمیر سمیت تمام اطراف سے ہم مسائل میں جھکڑے ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے ان مسائل سے نکلنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ ناصر عباس جعفری کی اپنی قوم اور ملک کے لئے جدوجہد مثالی اور قابل تعریف ہے۔ 22 جولائی کے ملک گیر احتجاج کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں چوہدری شجاعت نے کہ کہ ہم ہر جگہ علامہ ناصر عباس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین نے ہمیں جب بھی پکارا ہم ان کے شانہ بہ شانہ موجود ہوں گے۔
علامہ ناصر عباس جعفری نے چوہدری شجاعت کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ قاف کے سربراہ کی آمد ہمارے لئے تقویت کا باعث ہے۔ ہماری آواز میں اب مزید طاقت پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا جمہوریت کے دعویدار حکمرانوں میں جمہور کا درد نہیں۔ یہاں قانون و انصاف کی بجائے اختیارات کی حاکمیت ہے۔ اختیارات کے ناجائز استعمال سے عوام کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے 22 جولائی کو سڑکوں پر ہوں گے۔ اس روز ملک کی اہم شاہراہوں پر ملت تشیع دھرنے دے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہمارے پرامن احتجاج میں حکومت کسی قسم کا رخنہ ڈالنے کی کوشش نہ کرے۔ ہم آئینی و قانونی انداز سے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر ملک کے کسی بھی شہر میں ہمارے کارکنوں کو ہراساں کرنے کی کوئی کوشش کی گئی تو نتائج کی ساری ذمہ داری متعلقہ حکومت اور انتظامیہ پر ہوگی۔ ملاقات میں سابق صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت، ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما علامہ حسن ظفر نقوی، سید ناصر شیرازی، سید اسد نقوی، ملک اقرار حسین، علامہ اصغر عسکری اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔