وحدت نیوز (کراچی) قائد شہید علامہ شہید عارف حسین الحسینی (رح) اتحاد امت کے داعی اور علمبردار تھے،عالمی استعمار امریکا و اسرائیل کے ایجنٹوں نے علامہ عارف حسینی شہید کر کے پاکستان کو ایک عظیم فرزند اسلام سے محروم کر دیا،عاشقان شہید حسینی اتحاد و اخوت کے علم کو بلند رکھیں گے اور افکار شہید عارف حسینی کو فراموش نہیں ہونے دیں گے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے رضویہ امام بارگاہ فیز 1میں شہید قائدعلامہ عارف حسین الحسینی شہید کی25ویں برسی کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر شرکاء کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ شہیدحسینی کا جرم یہ تھا کہ آپ نے مینار پاکستا ن میں عظیم الشان ''قرآن و سنت کانفرنس ''کا انعقاد کر کے پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علماء و اکابرین سمیت تمام لسانی اکائیوں کوایک وحدت کی لڑی میں ڈھال دیا تھا تاہم جس کے سبب امریکی و صہیونی پریشان ہو گئے اور پاکستان میں اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری سمجھا کہ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کو راستے سے ہٹا دیا جائے ورنہ پاکستان میں امریکی وصہیونی ایجنڈے پر عملدرآمد نہیں ہو سکے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر چہ شہید قائد کو ہم سے بچھڑے 25برس ہو چکے ہیں لیکن عاشقان شہید آج بھی شہید قائد سے تجدید عہد کرتے ہیں کہ شہید کے مشن کو ناکام نہیں ہونے دیں گے اور اتحاد بین المسلمین کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ تک پیش کر دیں گے۔ان کاکہنا تھا کہ شہید قائد کی شہادت سے پاکستان ایک عظیم قیادت اور اسلام اپنے ایک عظیم فرزندسے محروم ہوا تاہم علامہ عارف حسین الحسینی کے پیروکار اور جانثار اس عزم کے ساتھ مشن کو لے کر چل رہے ہیں کہ سرزمین پاکستان پر امریکی وصہیونی ایجنڈا کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

وحدت نیوز ( لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں مرکزی اجتماع دفاع وطن کنونشن کیلئے بلائے گئے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام پر امریکی ممکنہ جارحیت کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، عراق اور افغانستان میں بھی امریکی دعوے جھوٹے ثابت ہوئے تھے، آج پھر یہود و نصاریٰ سرزمین شام کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں، شام میں امریکی ممکنہ جارحیت کیخلاف پوری پاکستانی قوم متحد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنا کردار ادا کرے، انشاءاللہ شام امریکہ اور اسرائیل کیلئے قبرستان ثابت ہوگا، نام نہاد سپر طاقتیں شام پر حملے کے ذریعے اپنے زوال کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ علامہ اسدی کا کہنا تھا کہ 8 ستمبر کو اسلام آباد میں منعقدہ دفاع وطن کنونشن میں لاکھوں فرزندان اسلام شریک ہونگے، بانیان پاکستان، وارثان پاکستان کا یہ اجتماع پھر سے اس عزم کا اظہار کریں گے کہ پاکستان ہم نے ہی بنایا تھا اور انشاءاللہ اس کو بچانے کیلئے ہم اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔

وحدت نیوز (مانیٹرنگ ڈیسک) مصر خانہ جنگی کے دھانے پرصدر کا مستعفی ہونے سے انکار، رات گئے صدر مرسی نے قبہ نامی صدارتی محل سے ٹی وی کی سکرین کے توسط سے مصر عوام کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے ملک میں جاری کشیدگی کو بدھ تک ختم کرنے کے لیے فوج کی طرف سےملنے والی الٹی میٹم کو مسترد کر دیا ہے۔واضح رہے کہ قبہ محل کے باہر اپوزیشن کے ہزاروں مظاہرین دھرنا دئے ہوئے ہیں۔ منگل کو رات گئے قوم سے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں صدر مرسی نے کہا کہ وہ مرتے دم تک اپنے آئینی عہدے کی حفاظت کریں گے کیونکہ وہ صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ مرسی نے ملک کے آئینی صدر ہونے پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی سے ڈیکٹیشن نہیں لیں گے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ان سے غلطیاں ہوئیں تاہم انھوں نے قوم سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔

 

دوسری جانب مصر کے مختلف علاقوں میں صدر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں کم سے کم 16 افراد ہلاک ہو گئے۔ صدر مرسی نے ملک میں جاری کشیدگی کا الزام بدعنوانی اور سابق صدر حسنی مبارک کے دورِ حکومت کی باقیات پر لگاتے ہوئے مظاہرین کو قانون کی پاسداری کرنے کو کہا۔جبکہ اپویشن کا کہنا ہے کہ صدر مرسی گذشتہ ایک سال میں ملکی اھم مسائل کو حل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں تحریر اسکوئر میں صدر مرسی پر اسرائیل اور عرب شیخ نوازی کا بھی الزام لگایا گیا ہے جس میں اھم ترین نکتہ کیمپ ڈیویڈ جیسے بدنام زمانہ معاہدے کی پاسداری ہے۔

 

مرسی نے اپنی تقریرمیں مفاہمت اور میڈیا کے لیے ضابطۂ اخلاق بنانے کے لیے ایک کمیٹی بنانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ قومی سطح پر مذاکرات کے لیے تمام گروپوں اور شخصیات سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔ جبکہ اپوزیشن شام کچھ جماعتوں اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ صدر مرسی نے آئین میں ایسی تبدیلیاں کی ہیں جس کے بعد وہ ملک میں مطلعق العنان اختیارات حاصل کرچکے ہیں اور یوں وہ منتخب صدر سے دینی خلیفہ بننا چاہتے ہیں تحریر اسکوائرمیں لگنے والے نعروں میں صدر اور اخوان المسمین پر مذہبی ڈکٹیٹرشب اور شدت پسندی کا بھی الزام لگ رہا ہے۔

 

خیال رہے کہ مصری فوج نے اڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت اور اس کے مخالفین ’عوام کے مطالبات‘ ماننے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرے گی۔ اس سے پہلے مصر کی فوج نے ملک کے مستقبل کے لیے تیار کر دہ منصوبے کو لیک کیا تھا جس میں ملک کے موجودہ پارلیمان کو تحلیل کرنے اور ملک میں نئے صدارتی انتخابات کرانے کی بات کی گئی ہے۔ بی بی سی کو موصول ہونے والے معلومات کے مطابق فوجی منصوبے کے تحت ملک کے نئے آئین کو بھی معطل کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب مختلف زرائع بتا رہے ہیں کہ صدر مرسی کی پوزیشن ہر گزرتے منٹ کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ عرب زرئع ابلاغ کے مطابق ایک ایک ٹیکنوکریٹس اور سویلین افراد پر مشتمل ایک ایسی کونسل بنانے کی تجویز زیر غور ہے جو ملکی نظم و نسق کو چلائے گی۔

 

خیال رہے کہ حزب اختلاف کی تحریک تمرد یعنی’باغی‘ نے پیر کو الٹی میٹم جاری کیا تھا کہ اگر صدر مرسی مقامی وقت کے مطابق منگل کی شام پانچ بجے تک اقتدار سے الگ نہیں ہوئے تو ان کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی۔ اس کے بعد مصری فوج نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت اور اس کے مخالفین عوامی مطالبات ماننے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرے گی۔ صدر محمد مرسی نے ملک کے فوج کے سربراہ جنرل عبدالفاتح السیسی سے منگل کے روز مسلسل دوسری ملاقات کی ہے۔ منگل کو ہونے والی دوسری ملاقات میں وزیراعظم ہاشم قندیل بھی شامل تھے تاہم اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ ان تک حکومت کے دس وزرا کے مستعفی ہونے سے جن میں وزیرِ خارجہ محمد کامل امر بھی شامل ہیں صدر مرسی پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔جبکہ صدر کے دو اہم ترجمان بھی استعفی دے چکے ہیں۔

 

مصر کی عدالتِ عالیہ نے بھی صدر مرسی کی جانب سے مقرر کیے جانے والے پراسیکیوٹر جنرل کو برخاست کرنے کے فیصلے کو بھی برقرار رکھا ہے۔ اپوزیشن نے یہ بھی  دعویٰ کیا  ہے کہ فوری انتخابات کے مطالبے کی ایک پٹیشن پر دو کروڑ بیس لاکھ افراد نے دستخط کیے ہیں۔جبکہ مصر کی سلفی تحریک کی ترجمان جماعت النور نے بھی فوری انتخابات کو بحران کا حل قراردیا ہے۔ مرسی 30 جون 2012 کو انتخاب میں کامیابی کے بعد مصر کے پہلے اسلامی صدر بنے تھے۔ان کی صدارت کا ایک سال سیاسی بے اطمینانی اور معیشت میں گراؤٹ کی زد میں رہا۔

تحریر: سید راشد احد

 

یہ حقیقت اب برملا ہوکر سامنے آگئی ہے کہ شام میں جنگ و فساد کا سلسلہ حکومت کے خلاف عوام کی بے چینی کے نتیجے میں شروع نہیں ہوا بلکہ امریکہ، برطانیہ، اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ کی حلیف شاہی حکومتوں کی شراکت سے شام میں خونریزی کا بھیانک کھیل کھیلا۔ اس خونی کھیل کو کھیلنے کے لئے بہانہ انہوں نے یہ بنایا تھا کہ بشار الاسد اور ان کی حکومت آمرانہ روش پر سختی سے کار بند اور گامزن ہیں لہٰذا شامی حکومت کو گرانا بہت ضروری ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے اس پورے کھیل میں بڑی ہی ہوشیاری اور مکاری سے انسانی وسائل مسلمانوں کے استعمال کئے۔ مسلمانوں کے درمیان ان استعماری قوتوں نے شیعہ سنی تعصب کو پہلے خوب ہوا دی پھر عالم عرب میں اخوان المسلمین جیسی تحریکوں کو پٹی پڑھائی کہ بشارالاسد شیعہ ہے اور اس کی حکومت سے سنیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس تھی کہ شام کی بشار الاسد حکومت سے صرف اسرائیل اور مغربی قوتوں کو خطرہ درپیش تھا اس لئے کہ یہ حکومت فلسطین اور لبنان کی مزاحمتی تحریکوں کو کمک پہنچانے میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ اسرائیل کے ناجائز وجود کو شام نے کبھی تسلیم نہیں کیاجب کہ قطر اور ترکی اسرائیل سے رسمی تعلق بحال رکھتے ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ہر طرح کی فوجی، اقتصادی اور سفارتی فعالیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعض دوسرے عرب ممالک مثلاً سعودی عرب نے اگر رسماً اعلانیہ تعلق اسرائیل سے نہیں بھی رکھا ہے تو عملاً اور خفیہ سطح پر انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کی ہوئی ہے اور اسرائیل کے مفاد میں نیز فلسطین کی مزاحمت کے خلاف چپکے چپکے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 

شام کی حکومت کو یہ اسی لئے ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسرائیل کی ہم سائیگی میں موجود فلسطینی مزاحمت نیز حزب اﷲ لبنان جیسی اسرائیل دشمن مزاحمتی قوت کا قلع قمع ہو سکے اور اس طرح اسرائیل اپنے وجود کے حوالے سے سکون کا سانس لے سکے۔ مزید یہ کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور مغربی استعماری قوتوں کے مفاد میں غنڈہ گردی کا سلسلہ ہمیشہ کی طرح شد و مد کے ساتھ جاری رکھ سکے۔ اب جبکہ سلفی دہشت گردوں کو بھرپور طریقے سے شامی عوام کے خلاف استعمال کرنے کے بعد بھی استعماری قوتوں کو اپنا ہدف حاصل نہیں ہوسکا تو استعماری قوتوں کی شام کے حوالے سے پیشگی منصوبہ بندی کا راز رفتہ رفتہ فاش ہونے لگا ہے چنانچہ فرانس کے سابق وزیر خارجہ Roland Dumas نے حال ہی میں ایل سی پی ٹی وی نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ 2011ء میں جب کہ شام میں فساد اور شورس کا سلسلہ شروع ہوا اس سے دو سال قبل ہی برطانیہ شام میں فساد و شورش کے لئے منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ ڈوماس کا کہنا ہے کہ جب شام کے خلاف برطانیہ میں منصوبہ بندی کی جارہی تھی تو اس زمانے میں وہ برطانیہ گئے ہوئے تھے اور برطانوی حکام نے اس کا ذکر کرتے ہوئے اس شورش میں شرکت کی دعوت فرانس کو بھی دی تھی۔ لیکن بقول ڈوماس : ’’چونکہ میں اس وقت وزیر خارجہ کہ منصب سے فارغ ہو چکا تھا لہٰذا میں نے اس حوالے سے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔

‘‘

اس طرح کے رازوں کے انکشاف کا سلسلہ شام میں مغربی استعماری قوتوں، ان کی حلیف عرب شاہی حکومتوں، ترکی اور سلفی تکفیریوں پر مبنی متحدہ محاذ کی القصیر میں پسپائی کے بعد ہی شروع ہوا ہے۔ لہٰذا القصیر میں شامی حکومت کو ملنے والی تازہ کامیابیوں کے نتیجے میں علاقے میں کار فرما حکمتِ عملیوں کے وسیع دائرہ میں عظیم تبدیلیوں کے رونما ہونے کا امکان پوری طرح روشن ہے۔ القصیر کی عظیم فتح کے ساتھ شام ایک ایسے نئے دور میں داخل ہو چکا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے حق میں نہیں ہے۔ امریکیوں اور صہیونیوں کی پشت پناہی میں باغی قوتوں کی جاری دہشت گردی کے خلاف شامی فوج نے بلاشبہ بہت ہی عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ شامی فوج نے حزب ﷲ کی مدد سے القصیر شہر کو بازیاب کرالیا ہے جو ایک عرصے سے شامی باغیوں کے قبضے میں تھا۔ القصیر مغربی شام میں واقع ہے اور یہ ان اولین شہروں میں سے ایک ہے جسے شامی باغیوں نے مارچ 2011ء میں ہی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ واضح رہے کہ شہر القصیر میں رہنے والوں کی اکثریت سنی العقیدہ ہے۔ اس شہر کی کلیدی اہمیت یہ ہے کہ لبنان کی سرحد سے صرف دس کلومیٹر دور ہے اور یہ شہر درحقیقت شام میں دہشت گردوں کو فراہم کئے جانے والی تمام رسد کا اسٹراٹیجک راستہ تھا۔ لہٰذا اسی راستے سے بیرونی قوتیں شامی باغیوں کو اسلحہ سمیت ہر قسم کی لاجسٹک امداد فراہم کرتی تھیں جن کی وجہ سے شامی باغیوں کے حوصلے بہت بلند تھے لیکن القصیر کی بازیابی نے اسد حکومت کو ایک نیا جوش و ولولہ بخشا ہے۔ اب شامی فوج مکمل طور سے پر اعتماد ہے کہ مغرب اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کی اتحادی رجعت پسند عرب شاہی حکومتوں کے تعاون سے شام میں جاری بیرونی مداخلت اور دراندازی کے پوری طرح قلع قمع میں وہ عنقریب کامیاب ہو جائے گی۔

 

مغربی میڈیا کی یہ کوشش رہی ہے کہ شام میں جاری دہشت گردی کو خانہ جنگی ثابت کرے لیکن حزب ﷲ نے اپنی تازہ حکمت عملی سے مغرب کے سارے کھیل کو ناکام بنا دیا اور دنیا کے سامنے یہ حقیقت واشگاف ہوگئی کہ شام میں خانہ جنگی کی صورت حال نہیں ہے بلکہ وہاں شامی حکومت اور عوام کے خلاف بیرونی قوتوں کی ریشہ دوانیاں ہیں۔ ماہ مئی 2013ء میں جب جبھۃ النصرہ نے صحابی رسول ؐ حجر بن عدی الکندی کے مقبرے کی تباہی کی ذمہ داری قبول کی تو حزب ﷲ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصرﷲ نے دہشت گردوں کو اس کے سنگین نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ اگر جنابِ زینب سلام ﷲ علیہا یادیگر مقدس شخصیات کے مقبرے کو کوئی نقصان پہنچا ہے تو حزب ﷲ ایسی بے حرمتی پر ہرگز خاموش نہیں بیٹھے گی۔ القصیر سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں حزب ﷲ کا کلیدی کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیجی تعاون کونسل کے اراکین جن میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مغرب نواز مطلق العنان شہنشاہیتیں شامل ہیں حزب ﷲ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کئے جانے کی خاطر تک و دو کر رہے ہیں۔ بحرین کی مغرب نواز شاہی حکومت نے پہلے ہی سے حزب ﷲ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اپوزیشن گروہ سے اس کے رابطے کو قطعاً ممنوع قرار دیا ہے۔ حمد ابن عیسیٰ الخلیفہ جسے مغرب اور سعودی عرب کی پشت پناہی حاصل ہے نے پہلے ہی حزب ﷲ کو ’’ دہشت گرد تنظیم ‘‘ کے عنوان سے بلیک لسٹ کردیا ہے۔

 

مغربی ردِ عمل پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل راشد بن عبدﷲ الخلیفہ نے فرمان صادر کیا ہے کہ بحرین کے اندر حزب ﷲ کے عمل دخل اور اس کی فعالیت کی تحقیق کی جائے۔ دیگر عرب دنیا میں بھی حزب ﷲ کی شام کے اندر بیرونی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف دفاعی مداخلت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ قطر میں رہائش پذیر سلفی ملّا یوسف القرضاوی نے سنیوں کو ورغلایا ہے کہ وہ حزب ﷲ کے خلاف جہاد کے لئے آمادہ ہو جائیں۔ 31 مئی کو دوحہ کی جامع مسجد میں نماز جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے قرضاوی نے واشگاف لفظوں میں کہا کہ ہر مسلمان کو تربیت حاصل کرنی چاہئے اور جس قدر امکانات دستیاب ہیں انہیں حزب ﷲ کے خلاف جہاد میں استعمال کرنا چاہئے۔ سلیم ادریس جو کہ شامی باغی سپریم فوجی کونسل کا نام نہاد چیف آف اسٹاف ہے نے دھمکی دیتے ہوئے اپنے اس خیالات کا اظہار کیا ہے کہ میرے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ میں جہادیوں کو روک سکوں لہٰذا ہم حزب ﷲ کا اس کے انجام بد (نعوذ باﷲ) تک تعاقب کریں گے۔

 

حتیٰ کہ مسلمان دانشوروں کی ایک انجمن جو معتدل علمائے اہلسنت پر مشتمل ہے اس وقت اپنے پیروں کاروں سے شامی باغیوں کی مدد کے لئے منتیں کر رہی ہے۔ مغرب میں اس کا ردعمل پہلے سے قابلِ درک تھا۔ اسرائیلی فوجی امور کے وزیر موشے یالون نے کہا تھا کہ اسرائیل شام میں حزب ﷲ کی فعالیت پر ردعمل نہیں دکھائے گا اس وقت تک جب تک کہ حزب ﷲ اسرائیلی مفادات پر براہ راست ضرب نہیں لگاتی ہے مثلاً یہ پیش رفتہ اور جدید اسلحوں یعنی مزائیلوں اور کیمیائی ہتھیاروں کے باغیوں کو منتقل کیے جانے کے عمل میں روکاوٹ نہیں بنتی ہے۔ اس طرح کا کمزور بیان ایک اسرائیلی وزیر کی جانب سے اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ اسرائیلی فوج 2006ء میں حزب ﷲ کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد کس قدر حزب ﷲ سے خوفزدہ ہے۔ شامی بحران سے متعلق اقوامِ متحدہ کے نمائندے لخدر ابراہیمی نے حال ہی میں یہ اعلان کیا ہے کہ شام کے حوالے سے ہونے والے امن مذاکرات اب جون کے بجائے جولائی میں منعقد کئے جائیں گے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ شامی باغیوں کو براہ راست مسلح کرنے کے لئے اپنی پارلیمنٹ سے اجازت حاصل کریں، اس خوف کے باوجود کہ ممکن ہے ان کا یہ اقدام عراق میں مداخلت کی مانند مورد تنقید قرار پائے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری جے کارنے نے کہا ہے کہ ہم شام کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلاء ہیں اور شامی حکومت کی القصیر پر یلغار کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

 

یہ بات واضح ہے کہ شامی فوج القصیر جیسے اسٹراٹیجک مقام کو اپنے طور سے بازیاب کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ لہٰذا اس حوالے سے حزب ﷲ کی مدد اس کے لئے لازم ہو چکی تھی۔ جے کارنے اور اسی طرح کے دوسرے مغربی سیاسی تجزیہ نگار اس بات کے ادراک سے قاصر رہے ہیں بلکہ انکاری رہے ہیں کہ شام میں حزب ﷲ کا دفاعی مشن بہت ہی تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ خود نیٹو کے اپنے اعتراف کے مطابق شامی حکومت کو عوام کی 80 فیصد اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ ایک امریکی دانشور جو امریکی خارجہ تعلقات کی شعبہ سے مربوط ہے لکھتا ہے کہ حزب ﷲ شام میں اس وقت داخل ہوئی جب اس نے اپنے انتہائی قریبی اتحادی کے سقوط کا خطرہ محسوس کیا۔ اس کے برعکس مائیکل ینگ جو کہ لبنانی ڈیلی اسٹار کے مدیر ہیں نے شام میں زمینی حقیقت کا بالکل صحیح ادراک کیا جب کہ مغرب کے دانشور حضرات شام کے زمینی حقائق کے اداراک سے عاجز رہے۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ شام کے باغی جنگ ہار رہے ہیں مائیکل ینگ نے واضح کردیا تھا کہ شام کے حوالے سے امریکی موقف مشکل میں آگیا ہے جبکہ روس اور ایران کا موقف حقیقت کے عین مطابق ثابت ہوا ہے۔

 

ینگ کے مشاہدے کے مطابق یہ وقت مناسب ہے شامی اپوزیشن کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا جبکہ اوبامہ انتظامیہ گزشتہ دو سال سے پس و پیش میں مبتلا ہے اور بغیر کسی واضح حکمت عملی کے محض دھمکیوں سے کام لے رہی ہے۔ شام میں حزب ﷲ کے شاملِ جنگ ہونے کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے ینگ لکھتا ہے کہ اس مزاحمتی تحریک کے لئے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ تکفیری انتہا پسندوں، سلفیوں، سنی جہادی انتہا پسندوں، امریکہ اور اسرائیل کے خطرناک حملوں کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لئے شام کی جنگ میں براہ راست شامل ہو۔ حزب ﷲ کی پشت پناہی میں القصیر میں شامی حکومت کی کامیابی سے پہلے صدر اوبامہ نے شام میں حزب ﷲ کے بڑھتے ہوئے فعال کردار کے حوالے سے ایک مبہم سی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

 

صدر اوبامہ نے اپنی اس تشویش کا اظہار کہ حزب ﷲ اسد حکومت کی جانب سے شامی باغیوں کے خلاف صف آراء ہے، لبنان کے صدر مائیکل سلیمان کے ساتھ اپنی ایک ٹیلفونک گفتگو کے دوران کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے شام کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بہت ہی پر زور انداز میں اپنا یہ بیان جاری کیا تھا کہ عالمی برادری کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ شام میں کس کا ساتھ دے گی آیا وہ ان قوتوں کا ساتھ دینا چاہتی ہے جو شام میں زبردستی حکومت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں یا پھر ان لوگوں کا ساتھ دینا چاہتی جو شام کے بحران کو گفتگو اور مذاکرات کے ذریعہ حل کئے جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے اپنے تازہ ترین غیر قانونی خفیہ دورے میں جان مکین نے شامی اپوزیشن سے ملاقات کی تھی اور ان کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ شام کے حوالے سے امریکی پالیسی مبہم اور تذبذب کا شکار ہے۔ مکین نے واضح لفظوں میں کہا کہ واحد قوت جو اس علاقے میں کوئی کمٹمنٹ نہیں رکھتی وہ امریکہ ہے۔ امریکہ کی بے یقینی اور تزلزل پر مبنی اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بیروت میں پریس ٹی وی کے بیورو چیف علی رزق کہتے ہیں کہ شام کے حوالے سے امریکہ کا موقف روس کے موقف سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ گفتگو کے ذریعے راہِ حل دریافت کیا جائے۔

 

شام میں تازہ ترین پیشرفت کے حوالے سے اوبامہ انتظامیہ کوئی متعین اور حتمی بیان دینے سے گریزاں ہیں۔ اب جب کہ حزب ﷲ علی الاعلان میدان میں موجود ہے تو وائٹ ہاؤس کے لئے صورتحال کی وضاحت مشکل ہوگئی ہے۔ لہٰذا جب وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری کارنے سے رپورٹروں نے شام میں فیصلہ کن عامل کے حوالے سے سوال کے جواب پر اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ شام میں طاقت کے توازن کی تبدیلی کی وجہ اسد حکومت کی جانب سے کیمیائی اسلحوں کا استعمال ہے نہ کہ حزب ﷲ کی اعلانیہ شمولیت۔ امریکہ کے لئے مشکل یہ ہے کہ اگر وہ حزب ﷲ کے فیصلہ کن عامل ہونے کا اعلانیہ اعتراف کرے تو پھر حزب ﷲ کے مقابلے میں امریکہ کی کمزور فوجی حکمت عملی کا راز فاش ہوجائے گا اور امریکہ کا بھرم جو علاقے کے ممالک پر قائم ہے اسی طرح شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گا جس طرح کہ 2006ء میں اسرائیل و حزب ﷲ کی جنگ میں اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا واہمہ چکنا چور ہوگیا تھا۔ لہٰذا حزب ﷲ کی القصیر میں کامیابی علاقے میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عرب دنیا میں حزب ﷲ کی محیر العقول قوت آشکار سے آشکار تر ہوتی جا رہی ہے جو کہ امریکہ کے لئے بہت ہی پریشانی کا سبب ہے۔

 

بہرحال حزب اﷲ نے شام کی جنگ میں اپنی شمولیت کے دو اہم وجوہات بیان کئے ہیں: ایک یہ کہ اگر تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں بشار الاسد کی حکومت شکست کھاتی ہے تو پھر ان بیرونی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خطرناک اسلحوں کا رخ حزب ﷲ اور لبنان کے عوام کی جانب ہوگا۔ دوسرے یہ کہ حزب ﷲ اپنا فرض سمجھتی ہے کہ وہ اسلام کی مقدس اور بے مثال شخصیتوں کے مزاراتِ مقدسہ کی حفاظت کرے بالخصوص حضرت زینب سلام ﷲ علیہا کے روضہ اقدس کی حفاظت حزب ﷲ کے لئے ایک دینی وظیفہ اور چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ حزب ﷲ نے بارہا اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے اس دینی فریضے کو بہرصورت انجام دے گی۔ چنانچہ حزب ﷲ کے متعدد جوان شریکۃ الحسین ؑ عقیلۂ بنی ہاشم اور مفسر کربلا حضرت بی بی زینب سلام ﷲ علیہا کے روضہ اقدس کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانون کا نذرانہ بارگاہِ الٰہی میں پیش کر چکے ہیں۔

وحدت نیوز (مصر) مصر میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے نوجوان مظاہرین نے مصری حکومتی جماعت سلفیت کے بانی اخوان المسلمون کے مرکزی دفتر کو توڑ دیا ہے۔ وحدت نیوز کی مانیٹرنگ ڈیسک کی رپورٹ کے بعد اتوار اور پیر کی درمیانی شب میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر پولیس کی جانب سے ہونے والے تشدد کے بعد مظاہرین نے اخوان المسلمون کے مرکزی دفتر پر چڑھائی کر دی اور اسے تباہ کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مصر ی پولیس نے ایک گھنٹے کے دوران مظاہرین پر تشدد اور فائرنگ کے ذریعے پانچ افراد کو قتل کر دیا ہے جبکہ میڈیکل ذرائع کاکہنا ہے کہ ایک سو سے زائد مظاہرین شدید زخمی حالت میں ہیں۔

 

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے ایک رپورٹر کاکہنا ہے کہ مظاہرین نے اخوان المسلمون کے دفتر پر پٹرل بم پھینکے اور دفتر کے گارڈز نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں پانچ مظاہرین قتل کر دئیے گئے۔ واضح رہے کہ مصری سلفی ناصبی جماعت اخوان المسلمون کے خلاف کافی عرصے سے مظاہرے جاری ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے سلفی وہابی ناصبی محمد مرسی کو کہا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں مستعفی ہو جائیں ورنہ مصر میں سول نا فرمانی کی تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا۔

mosadوحدت نیوز (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیلی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد کے سابق سربراہ نے مقبوضہ بیت المقدس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں رونما ہونے والے حالات نے کچھ عرب ممالک اور اسرائیل کو نزدیک کردیا ہے اور یہ ایک ایسا موقع غنیمت ہے کہ اسرائیل نئے نئے متحدین بناسکتا ہے آج عرب لیگ کی اسرائیل مخالفت میں کمی ہوچکی ہے۔ سابق اسرائیلی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا مزید کہنا ہے کہ یہ ہماری کامیابی ہے کہ ہم کچھ اہم عرب ممالک کو آخر کار یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ اسرائیل ان کا اصل دشمن نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اسرائیل کے لئے اس سے سنہرا موقع کوئی نہیں ہوسکتا کہ آج اس کے بلاگ میں وہ ممالک کھڑے ہیں جن سے کبھی اسرائیل کو خدشہ رہتا تھا۔

یہ بات واضح ہے کہ شام کیخلاف اسرائیل اور امریکی ایجنڈے میں عرب عوامی بیداری سے خوفزدہ خلیجی ممالک خاص کر سعودی عرب اور قطر نیز ترکی کا حصہ دار بنا اسرائیل کے لئے ایک طرح سے اطمینان ہے کہ خطے میں سب سے بڑے اسرائیل مخالف ملک کے خلاف محاذ میں عرب بجائے شام کے ساتھ دینے کے اسرائیل کے ساتھ دے رہے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree