وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی نےوفدکے ہمراہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو سے لاہور میں ملاقات کی۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی،علامہ سید ظہیرالحسن نقوی،  سید حسن کاظمی، آصف رضا ایڈووکیٹ و دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ ملاقات میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف تحریک اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ناصر عباس شیرازی کا کہنا تھا کہ سیاسی قوتوں کو متحد ہو کر غیر جمہوری قوتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کل لاہور میں ہونیوالا احتجاج تاریخی تھا۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی تک ہم ڈاکٹر طاہرالقادری کے شانہ بشانہ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ قاتل حکمرانوں کو مزید اقتدار میں نہیں رہنے دیں گے، آمریت کی پیداوار حکمران جمہوریت کیلئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے نام نہاد خادم اعلیٰ نے کہا تھا کہ ان کا نام آ گیا تو وہ بلا تاخیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا، جھوٹ بولنے پر یہ صادق اور امین نہیں رہے، بڑے بھائی کو بھی اقامہ کی بنیاد پر نکالا گیا جبکہ چھوٹا بھی جھوٹ کی سیاست کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہداء ماڈل ٹاؤن اور قصور کے متاثرین کیساتھ ہیں اور انصاف کے حصول کی اس جدوجہد میں ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کے خلاف پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج میں بھرپور طور پر شرکت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت ہماری جماعت کے منشور کا حصہ ہے۔ماڈل ٹاؤن میں احتجاج کا آئینی حق استعمال کرنے والوں کو جس بربریت کا نشانہ بنایا گیا پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ہم پہلے دن سے اس بھیانک اقدام کی مذمت اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہچانے کے مطالبے میں شریک رہے ہیں۔حکمران جماعت نے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ہمیشہ قومی اداروں کو استعمال کیا ہے۔اختیارات کے اس ناجائز استعمال پر پنجاب حکومت کی جوابدہی کا وقت آ پہنچا ہے۔ملک کی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتیں شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کا استعفی چاہتی ہیں۔ کالعدم مذہبی جماعتوں سے رابطوں کے انکشافات کے بعد پنجاب کابینہ کے بیشتر وزرا کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔نواز شریف بھارت کے لیے درد دل رکھتے ہیں جب کہ شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے وزرا ملک کے امن و سلامتی کے خلاف مصروف کالعدم جماعتوں سے فکری و جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں جو ملک دشمنی کی دلیل ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوم ایسے ظالم حکمرانوں کا احتساب چاہتی ہے ۔جو قوم کو پرتعیش سفری سہولیات کے جھانسے میں رکھ کر پورے ملک کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔موجودہ حکومت نے سوائے لوٹ مار اور مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کے اور کوئی کام نہیں کیا۔ ملک میں صحت، تعلیم اور بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل حکومت کی عدم توجہی کے باعث سنگین صورتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں لیکن حکمران عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں لگی ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب حکمرانوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔نااہل حکمرانوں کے خلاف جس احتجاج کا آغاز ہونے جا رہا ہے وہ انہیں ایوان اقتدار سے نکالے بغیر ختم نہیں ہو گا۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی بھارتی افواج کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کا یہ جارحانہ طرز عمل پورے خطے کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتاہے۔بھارتی افواج کی مسلسل گولہ باری سے اب تک متعدد پاکستانی فوجی اور شہری شہید ہو چکے ہیں۔

و حدت ہاؤس سے جاری اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ جو بین الاقوامی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کے داخلی حالات کو اپنے لیے سازگار سمجھتے ہوئے بھارت افواج کی طرف سے کسی بھی طرح کی در اندازی اس کی بقا و سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گی۔ افواج پاکستان اور قوم ملک میں دہشت گردی کے مقابلے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی بیرونی جارحیت سے نبردآزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارت کسی مغالطے میں نہ رہے ۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اپنے دفاع کے لیے ہر قسم کے ہتھیاروں کے استعمال کرنے میں مکمل طور پر با اختیار ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتیں بھارت کے اس رویے کا نوٹس لیں جو اپنے غیر مدبرانہ اور جارحانہ رویے سے اقوام عالم کو شدید خطرات سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور کبھی بھی جنگ کا حامی نہیں رہا لیکن تاریخ شاید ہے کہ جب بھی اس پر جنگ مسلط کی گئی اس نے میدان جنگ کو دشمن کے قبرستان میں بدل کراپنی طاقت کے جوہر کو عالمی سطح پر منوایا ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر موودی ایک متعصب شخص ہے جو پاکستان کی سلامتی کا کھلے عام دشمن ہے۔علامہ مختار امامی نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ اس بھارتی جارحیت کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ضروری اقدامات کریں تاکہ خطے کی سلامتی و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کی دو روزہ تربیتی و تنظیمی ورکشاپ جامعہ شہید مطہری ملتان میں اختتام پذیر ہوگئی، ورکشاپ میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی اور مرکزی رہنما علامہ اعجاز حسین بہشتی نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ ورکشاپ میں جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع بشمول ملتان، مظفرگڑھ، علی پور، لیہ، بھکر، رحیم یارخان، میانوالی اور لودھراں کے سیکرٹری جنرل اور ضلعی کابینہ کے افراد نے شرکت کی۔ بعدازاں صوبائی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس کی صدارت صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کی، اجلاس میں صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی، محمد اصغر تقی، سیکرٹری تنظیم سازی ناصر عباس، سیکرٹری سیاسیات مہر سخاوت علی، سیکرٹری تربیت سید وسیم عباس زیدی، سیکرٹری فلاح و بہبود سید زعیم زیدی، صوبائی ترجمان ثقلین نقوی، ندیم عباس کاظمی، سید عدیل زیدی، مولانا ہادی حسین ہادی اور اظہر کاظمی موجود تھے۔

اجلاس میں خصوصی طور پر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے شرکت کی۔ اجلاس میں صوبے کے مختلف ایشوز پر اظہار خیال کیا گیا، اس موقع پر علامہ احمد اقبال رضوی کا کہنا تھا کہ ایم ڈبلیو ایم کی بلوچستان میں سیاسی کامیابی تاریخ ساز ہے، خدا نے اہلیان کوئٹہ اور مظلومین پاکستان کو آغا رضا کی شکل میں عزت سے نوازا ہے، اُنہوں نے کہا کہ ملک کے دیگر صوبوں اور شہروں میں عوام کو اپنی طاقت کا احساس کرنا چاہیے، اگر اہلیان علمدار روڈ اپنی طاقت کے ذریعے سے پارلیمنٹ میں اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں تو باقی لوگ کیوں نہیں؟۔ اُنہوں نے کہا کہ انشاء اللہ اگلے الیکشن میں قوم سے توقعات وابستہ ہیں، سانحہ قصور جیسے واقعات حکومت اور حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہیں، حکومت میں موجودکرپٹ وزراء اور مشیر ملک میں جاری بدامنی کے ذمہ دار ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر سانحہ ماڈل ٹائون کے شہدا ء کو انصاف ملتا تو شاید قصور میں زینب کی عصمت دری نہ ہوتی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک وقت وہ تھا کہ جب پاکستان میں ملت تشیع نہ صرف کئی سیاسی طاقتوں کے ہاتھوں کھٹ پتلی بنی ہوئی تھی بلکہ مساجد و امامبارگاہوں کے ممبروں تک سے اس بات کی تبلیغ کی جاتی تھی کہ ہمیں سیاست سے کیا لینا دیناہم توبس عزادار ہیں اور ہمیں عزاداری کی اجازت ہونی جائے ۔جبکہ جس عظیم ہستی کی عزاداری کی جارہی ہے وہ کائنات کی اس بے مثال تحریک یعنی کربلا کا بانی ہے کہ جس نے نہ صرف یزیدیت جیسی آمرانہ حکومت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے کوڑے دانوں کے سپرد کردیا اور سیاست الہی اور سیاست محمدی اور علوی کو بھی بلندی عطا کی یہاں تک کہ آج ہر انقلاب خود کربلا کا مرہون منت سمجھتا ہے-

عزاداری بذات خود ایک تحریک اور ہر زمانے کے باطل کیخلاف ایک للکارہے دلوں سے نکلنے والی یا حسین کی آہ دنیا کے ہر ستم کے خلاف صدائے احتجاج ہےآنکھوں سے نکلنے والے آنسو ظلم کیخلاف ایک سیلاب ہیں، بقول رہبر کبیر انقلاب امام خمینی رض غم حسین ؑ کایہ سیلاب دنیا کے ظلم و ستم کو بہا لے جائے گا ، سینوں پر آلگنے والے ماتم حسین کے ہاتھ ہر ظالم و ستمگر کے منہ پہ ایک طمانچہ ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ایک زمانے تک ہم سادہ فکری کے شکار تھے اور ہمیں اصل تشیع اور حقیقت عزاداری سے مکمل و گہری آشنائی نہیں تھی لیکن الحمداللہ اب معرفت کے دریچے کھلتے جارہے ہیں اور چراغ سے چراغ جلتے جارہے ہیں اور بیداری کی تحریک قوت پکڑتی جارہی ہے۔
حق و حقیقت کے متلاشی عاشقوں نے راہ حق میں آخرکار قدم رکھ ہی لیا اور دنیا والوں کے لئے ثابت کردیا کہ کربلاکی روح اب بھی زندہ ہے ، حسینیت آج بھی یزیدیت سے نبرد آزما ہے ۔آج بھی شہدائے اسلام اپنے سرخ لہو سے پھر تاریخ رقم کررہے ہیں، ملتوں میں بیداری کا عمل تیز رفتاری کے ساتھ آج بھی جاری ہے ۔

ملت پاکستان بھی باقی ملتوں کے شانہ بشانہ اس بیداری کا حصہ ہے اور مملکت پاکستان کا وجود ہی انقلابی بنیادوں پر رکھا گیاتھا اوران بنیادوں میں ملت تشیع بھی کسی دوسری قوم سے نہ صرف پیچھے نہ تھی بلکہ سب کے شانہ بشانہ اپنی آزادی اورخودمختار مملکت  کے قیام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا تعلق ملت تشیع سے ہے ،اگرچہ ہمارا عقیدہ ہے کہ سنی شیعہ بلکہ دوسرے مذاہب کے پیروکار جو اس ملک میں آباد ہیں وہ سب ملک کے برابر کے شہری ہیں اور سب نے ملکر قربانیاں دی ہیں لیکن ملت تشیع جس طرح مسلسل قربانیاں دے رہی ہے خاص کر گذشتہ تین دھائیوں جتنی قربانیاں دی ہیں شاید کسی اور قوم نے دی ہوں۔

دشمن نے گذشتہ عرصے میں اس ملت کو نشانہ بنایا اور لاکھوں کی تعداد میں اس کے فرزندوں کو صرف اس جرم میں کہ یہ لوگ محبت اہل بیت اطہار سے سر شار ہیں اور اپنے ملک و ملت کے ساتھ وفادار ہیں انہیں گولیوں ،خودکش حملوں ،خنجروں اور تلواروں کا نشانہ بنایا ۔ہمارے نوجوانوں کو بسوں سے اتار کر نشان دہی کے ساتھ ،نام معلوم کر کے شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کیا گیا۔پاراچنار سے لے کر گلگت اور پنجاب سے لے کر سندھ بلوچستان اور کوئٹہ جیسے شہروں میں شیعہ کے خون کی ندیاں بہائی گئیں، وطن کی سرزمین ہمارے خون سے رنگین کی گئی ،ہمارے بڑے بڑے علما اور بالخصوص ہماری ملت کے ہر دلعزیز قائد علامہ عارف الحسینی کو شہید کر دیا گیا۔

دشمن کا یہ خیال تھا کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے اس شہید پرور ملت اور اس ملک میں کمزور کردے گااوران احمقوں نے گمان کرنا شروع کیا تھا کہ شیعہ کو ملک میں اقلیت قرار دے دیا جائے اور اس پہ کفر کےفتوے صادر کرکے اس مظلوم ملت کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے-ہمارے خلاف ایک بہت گہری اور دراز مدت پلاننگ کی گئی جس کا حکومتوں نے بھی کم و بیش ساتھ دیا چونکہ ایک بین الاقوامی سازش بھی پس پردہ کارفرما تھی شائد اس لئے کسی ایسے قاتل کو نہ صرف سر عام سزا نہیں دی گئی جس نے ملت تشیع کے جوانوں کا خون بہایا ہوبلکہ اس کے برعکس مجرموں کو جیلوں سے رہا کر دیا گیا اور آج بھی بہت سے مجرم ملک میں دندناتے پھرتے ہیں-حکومتوں نے بجائے اس ستمدیدہ قوم کی داد و فریاد سننے اور ان کی مدد کرنے کے اسی ملت کو نوجوانوں کو گھروں سے مختلف جگہوں سے اٹھانا شروع کیا اور کتنے ہی جوان اب سالہا سال سے لاپتہ اور جبری گمشدگی میں ہیں ۔

ہمیں مختلف مذہبی اور قومی اختلافات میں دھکیلا گیا تاکہ یہ قوم ملک میں پنپ نہ سکے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ مکتب تشیع مظلومیت ہی میں پروان چڑھتا اور خون سے ہی اس مکتب کی آبیاری ہوتی ہے-چنانچہ جو ملت اس سے پہلے فقط اپنی مجلس اور عزاداری کا سوچتی تھی ان میں رفتہ رفتہ قومی شعور بیدار ہوا اور انہوں نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنا شروع کی-

ایک زمانے میں سیاست کو ہمارے مدارس میں شجرہ ممنوعہ سمجھا جاتا تھا اور سیاسی امور سے متعلق مجالس میں گفتگو حرام شرعی اور یا پھر مجلس کے تقدس کے خلاف سمجھا جاتا تھا تو آج اسی ملت سے متعلق مختلف انقلابی قوتیں اس ملک میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور اب اس بات کو لیکر ہر گز اختلاف نہیں کہ ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں بلکہ اگر کہیں اختلاف ہے بھی تو اس بات پر کہ ہمیں انقلابی بنیادوں پہ ملک میں ایک مکمل تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنا چاہئے یا ہمیں ملکی سطح پراصلاحات کا عمل جاری رکھنا چاہیے یہاں تک کہ ہم خود ملک میں کسی بڑی تبدیلی لانے کے قابل ہو جائیں لیکن دونوں افکار ملک میں ایک سیاسی ارتقا کی دلیل ہیں اور جو بھی اس ملک و ملت کے لئے اخلاص کے ساتھ جذبہ خدمت سےسرشار جدوجہد کر رہا ہے وہ قابل تحسین ہے اور ہمارے فکری اور نظریاتی اختلافات ہماری قومی بالیدگی اور پیشرفت کی علامت ہے جبتک یہ اختلافات ٹکراو و تصادم کی شکل اختیار نہ کریں اور مومنین آپس میں دست وگریبان نہ ہوں اور اپنی اپنی حدود میں ایک دوسرے کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے اپنی جہت میں حرکت کرتے رہیں تو الہی عمل میں نہ تعارض ہے نہ تزاحم-لیکن جہاں ذاتی مفادات پیش نظر ہوں اور افکار مادی ہو جائیں وہاں رسہ کشی ہوتی ہے اور اختلاف رائے انتشار کی شکل اختیار کرجاتا ہے جس سے دشمن بھی سو استفادہ کرتا ہے اور ملت میں بھی مایوسی پیدا ہوتی ہے-

بحمد اللہ ان گذشتہ سالوں میں ہمارے انقلابی علما کی جہد مسلسل سے ملت میں بیداری پیدا ہوئی یہ اسی سیاسی کرداراور جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ جہاں کچھ علما تربیتی عمل میں مصروف ہیں اور کئی بنیادی کام انجام دینے میں اپنی مساعی جمیلہ کو بروئے کار لا کر ملت کے مستقبل کے لئے عظیم کارنامے انجام دے رہے ہیں وہاں کچھ دوسرے طبقے کے علما ملک کی روزمرہ سیاست میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں-

گذشتہ دہائیوں میں دشمن کی تمام تر کاوشوں کے باوجود ہمارے مبارز اور مجاہد علما نے اپنی ملت کی صحیح جہت میں رہبری کی لہذا ہماری ملت نے مظلوم ہونے کے باوجود کبھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیاکبھی ملکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچایا کبھی ہماری قوم نے ملکی املاک کو ہاتھ نہیں ڈالا کبھی کوئی کسی مسجد پہ حملہ کرتے یاخودکش حملے میں پکڑا نہیں گیا-ہمیں اس بات پہ فخر ہے کہ ہم ہر زمانے میں مظلوم رہے ظالم نہیں بنے-ہمارے علما نے پر امن مظاہرے کئے کوئٹہ میں بارہا ہزارہ کے مومنین اور دیگر شیعیان اہلبیت کا خون بہایا گیا لیکن ہمارے علما نے قوم کو صبر کی تلقین اور استقامت کا مظاہرہ کر کے عوامی طاقت سے صوبائی حکومت کو گرا دیا-یہ ایک با شعور قوم کا سیاسی عمل تھا جس نے بلوچستان کی حکومت کو فقط ایک بار ہی نہیں بلکہ اب دوسری بار استعفی دینے پہ  نہ ٖصرف مجبور کر دیا بلکہ اپنی سیاسی بصیرت کے باعث آج مجلس وحدت مسلمین کے رہنمااور ممبر بلوچستان اسمبلی آغارضا ملت تشیع کی نمائندگی میں بلوچستان کی ایک سے زائد وزارتوں کے عہدے پہ فائز ہیں ۔
سلام ہے ان شہدا کے خانوادوں پرکہ جنہوں نے اپنے حقوق کی جنگ میں فتح حاصل کی اگرچہ جتنی قربانی پیش کی گئیں اس کے مقابلے میں یہ کامیابی کوئی حیثیت نہیں رکھتی-

ہمارے علما نے گذشتہ سالوں پر امن جدوجہد کی اور ملک کے عالم مجاہد علامہ ناصر عباس جعفری ۸۰ دن سے زیادہ بھوک ہڑتال کرکے اپنی ملت کی بیداری اور دوسری اقوام کو ملت تشیع کی مظلومیت سے آگاہ کرنے اور حکومت وقت کو اپنے عظیم ارداے سے لرزانے میں بہت بڑا کردار ادا کیاکہ جس کے متعلق میں نے اس سے پہلے بھی اپنے مقالے میں لکھا تھا کہ اسلامی ممالک میں سے کسی عالم کی قوم کے لئے یہ ایک بے مثال قربانی تھی-

چنانچہ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملت میں گلگت و بلتستان یا کوئٹہ کی سرزمین جو اعتماد اور عزم و ارادہ میں قوت و قدرت پیدا ہوئی اس میں ہمارے علما اور زعما ملت کی انتھک کوششیں ہیں یہاں تک گذشتہ عرصے ملک کی بہت ہی فعال مذہبی اور سیاسی شخصیت کو دن دھاڑے اٹھا لیا گیا اور ایک ماہ سے زیادہ انہیں لا پتہ رکھا گیاتاکہ قومی شخصیات میں خوف و ہراس پیدا کر سکیں لیکن یہ ملت شہید پرور ہے اور یہ ملت خوف سے مقابلہ کرنا جانتی ہے-

آج گلگت و بلتستان کی ملت کی وحدت و کامیابی اور وہاں کے عالم مبارز و مجاہدآغا علی رضوی کہ جس نے وہاں کی قوم کی رہبری کا فریضہ ادا کیا اور اس علاقے کی شدید سردی کے موسم میں اپنے حقوق کی جدوجہدکے لئے دن رات ایک کر کے حکومتی اداروں کا گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردیا اور دوسری طرف ملک کی دوسری سر حد کوئٹہ کامیاب سیاسی عمل اور عظیم کامیابیوں کو دیکھ کر ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ملت تشیع پاکستاں ملک کے سیاسی عمل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو چکی ہے-

باوجود اس کے کہ دشمن ہمیں ملکی دھارے سے ہٹانے کا سوچ رہا تھا جبکہ ہماری قومی جدوجہد نے دشمن عناصر کو کنارے لگا دیا اوروہ سب قوتیں ملک کی منفور قوتیں ہیں یہانتک کہ ہماری ملت نے امریکہ اور اسرائیل سے مسلسل دشمنی کو اپنی قوم و ملت میں رائج کیا کہ اج امریکہ کے صدر کو بھی ملت پاکستان سے بیزاری کا اعلان کرنا پڑا لیکن اسے کیا معلوم ہماری ملت نے تو اس کی حماقتوں کو نیک شگون ہی لیا کہ اچھا ہوا اس چھچھوندر سے جان چھوٹی اگرچہ ہمارے بعض بے ضمیر اور وطن فروش تو اب بھی بھیک مانگنے چلے جائیں گے اور اتنی جلدی جان چھوٹتے دیکھائی نہیں دیتی لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے ہماری قوم و ملت میں ایک شعوری ارتقا کا عمل مسلسل جاری ہے جس میں ہماری ملت تشیع کے علما کا بہت بڑا کردار ہے-
ہم ان عظیم کامیابیوں پہ جو قوم و ملت کو نصیب ہوئیں تمام شہدا کی اروح کو سلام بھیجتے ہیں جن کی ارواح طیبہ آج بھی ملت میں زندہ اور جن کا خون آج بھی قوم و ملت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور اگر ہمارے علما و ملک کے ذمہ دار ایک دوسرے سے ساتھ ملکر وحدت و یکجہتی سے اس ملک میں عمل کریں تو ہم کہیں زیادہ کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں-

آج اس قوم کو مخلص قیادت اور رہبری کی ضرورت ہے اور جن مقاصد کے لئے یہ مملکت معرض وجود میں آئی ان مقاصد کے حصول کے لئے مضبوط قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس ملک و ملت کی رہبری میں جو کردار ہمارے شیعہ علما پیش کر سکتے کوئی دوسرا نہ اس کی صلاحیت رکھنا ہے نہ اتنا موثر کردار ادا کرسکتا ہے-اخر وہ قوم جس کے پاس سیاست عکوی موجود ہو اور جو عاشورا و کربلا کے وارث ہوں اور جو مہدویت پہ عقیدہ رکھتے ہوں جن کی بنیادوں میں ائمہ علیھم السلام کا دو سو پچاس سالہ دور ہو اور جن کےمکتب کا پروردہ خمینی بت شکن بنے اور جس مکتب سے حسن نصراللہ جیسے فرزند جنم لیں اور جو قوم حکیم امت رہبر معظم انقلاب کے سائے پروان چڑھ رہی ہو اور جس کی بنیادوں شہید راہ حق علامہ عارف الحسینی کا خون ہو اس کا کوئی کیسے مقابلہ کر سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اس میراث کی درست حفاظت کریں اور انہی خطوط پہ عمل پیرا رہیں اور اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔ان شااللہ وہ دن دور نہیں حرم الہی سے فرزند زہرا کا پرچم بلند ہو اور اہل حق دنیا کے اطراف و اکناف سے اس پرچم کے نیچے جمع ہو جائیں اور پوری دنیا کو نوید امن و امان دی جائے اور انسان عدالت الہی کے سائے میں زندگی بسر کریں-اللہم عجل لولی الفرج واجعلنا من اعوانہ و انصار


از قلم :حجتہ الاسلام والمسلمین علامہ غلام حر شبیری

شفاعت کا عقیدہ

وحدت نیوز (آرٹیکل) قیامت کےدن انجام پانےوالے اہم امورمیں سےایک بعض گنہگار افراد کے حق میں شافعین کی شفاعت ہے ۔یہ افراد شفاعت کرنے والوں کی سفارش کی بدولت رحمت الہیٰ کے حقدار ہو کر بہشت میں داخل ہوں گے ۔شفاعت کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک  ایک مسلم عقیدہ ہے کیونکہ قرآن کریم اور سنت نبوی میں اس بارے میں صراحت  ہوئی ہے۔ قرآن کریم مسئلہ شفاعت کو مسلم قرار دیتا ہے اور اس کے بعض احکام کو بیان کرتا ہےچنانچہ ارشاد فرماتا ہے کہ شفاعت صرف اور صرف اذن الہیٰ کے ساتھ ہی انجام پائے گی۔{مَن ذَا الَّذِی يَشْفَعُ عِندَہُ إِلَّا بِاِذْنِہ}1کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضورسفارش کر سکے ؟ ایک اور مقام پر فرماتا ہے :{مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِہ}2کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قرآن کریم مشرکین اور بت پرستوں کے عقیدے {بتوں سے شفاعت طلب کرنے}کو باطل قرار دیتا ہے کیونکہ مشرکین اپنے معبودوں کی الوہیت کے قائل تھےاور وہ شفاعت کے نفاذ میں کسی قسم کےقید و شرط کےقائل نہیں تھے۔قرآن کریم ان کے اس عقیدے کو مردود قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :{وَ يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہ ِ مَا لَا يَضُرُّہُمْ وَ لَا يَنفَعُہُمْ وَ يَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَؤُنَا عِندَ اللّہ ِ  قُلْ أَ تُنَبِّونَ اللّہ َ بِمَا لَا يَعْلَمُ فیِ السَّمَاوَاتِ وَ لَا فی الاَرْضِ  سُبْحَانہُ وَ تَعَالیَ عَمَّا يُشْرِکُون } 3  اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ  انہیں  کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور{پھربھی}کہتے ہیں : یہ خدا کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں کہہ دیجئے: کہ تم  خداکو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اللہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اورنہ زمین۔ وہ پاک و پاکیزہ اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے ۔لہذا قرآن کریم کی ان آیات کےتناظر میں بتوں کی شفاعت کی نفی ہوتی ہے ۔اسلام میں اصل شفاعت سے انکار کرنا کھلم کھلا مغالطہ ہے کیونکہ اسلام نہ شافعین کی الوہیت کا قائل ہے اور نہ ہی کسی قید و شرط کےبغیر انہیں شفاعت کی اجازت دیتا ہے۔یعنی شافعین کی شفاعت کو  اذن الہیٰ میں منحصرکیا ہےاور اسلام کی نظر میں شافعین خدا  کے مقرب بندے ہیں ۔ قرآن کریم فرشتوں کو شافعین میں سےقرار دیتا ہے جو صرف ان افراد کی شفاعت کریں گے جنہیں خدا پسند کرتا ہے ۔جیسے ارشاد ہوتا ہے:{بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُونَ. لَا يَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَ ہُم بامْرِہِ يَعْمَلُونَ. يَعْلَمُ مَا بَينْ أَيْدِيہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضی}4بلکہ یہ تواللہ کے محترم بندے ہیں۔وہ تواللہ{ کے حکم }سے پہلے بات {بھی} نہیں کرتےاور اسی کے حکم کی تعمیل کرتےہیں۔ اللہ ان باتوں کوجانتا  ہےجو ان کے رو برو اور جوان کے پس پردہ ہیں اوروہ فقطان لوگوں کی شفاعت کر سکے ہیں جن سےاللہ راضی ہے۔5

قرآن کریم کےمطابق پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام محمود پرفائزہوں گے ۔ مفسرین متعدد روایتوں سے استناد کرتےہوئے مقام محمود کو شفاعت سے تعبیرکرتےہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:{ عَسیَ أَن يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا محَّمُود}6امید ہےکہ آپ کا رب آپ کو مقام محمودپر فائز کرے گا ۔طبرسی لکھتےہیں:مفسرین  اس بات پر متفق ہیں کہ مقام محمود سےمراد شفاعت ہے ۔یعنی قیامت  کے دن پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرچم {لواء الحمد}کو ہاتھ میں اٹھائیں گے اور تمام انبیاء اس پرچم تلے جمع ہوں  گے ۔ آپ ؐ پہلے شافع ہوں گے جس کی شفاعت قابل قبول ہوگی ۔7 مسلمانوں کے نزدیک شفاعت کرنےوالوں سے شفاعت طلب کرنا ایک جائز کام ہے خواہ ان کی حیات میں ہو یا مرنےکے بعد۔ شفاعت دو طریقے سےطلب کی جا سکتی ہے :

پہلا طریقہ یہ ہے کہ انسان خدا وند متعال سے براہ راست پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرےافراد جنہیں شفاعت کا اختیار حاصل ہے  کے واسطے سے شفاعت طلب کرے مثلا یہ کہے :{اللہم شفع لی محمدؐ}خدایا !میرے حق میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے افراد سےشفاعت طلب کرے مثلاً کہے:{یامحمد ؐاشفع لی عند الله ، کن لی شفیعا عند الله}اے رسول !خدا کےحضور میرے حق میں شفاعت کیجئے ۔وہابی صرف پہلی صورت کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن ان کےنزدیک دوسرا طریقہ ناجائز اور شرک کاباعث بنتاہے ۔

شافعین سے شفاعت طلب کرنا حقیقت میں شفیع سےدعا طلب کرنا  ہے اور اس میں کوئی شک و تردید نہیں  ہےکہ غیرخدا سے دعا طلب کرنا نہ مطلقا حرام ہے اور نہ شرک کا باعث بنتا ہے ۔مسلمانوں سے مدد طلب کرنا ایک جائز کام ہے  اور مسلمانوں پر اپنی وسعت  کے مطابق  دوسرےمسلمان کی مدد کرنا واجب ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث ہے:{من سمع مناد ینادی یا للمسلمین و لم یجبہ فلیس بمسلم}جو شخص کسی محتاج کی آواز کو سنے جو مسلمانوں سےمدد طلب کر رہا ہو اور وہ اس کی مدد نہ کرے تووہ مسلمان نہیں ہے ۔اصولی طور پر اگرایک عمل کسی کے لئے جائز ہو تواس شخص سے اس عمل کی درخواست بھی جائز ہوگی ۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے شافعین  کے لئے قیامت  کے دن شفاعت کرنا جائز ہے پس ان افرادسے شفاعت طلب کرنا بھی جائز ہوگا۔

شفاعت سے مراد شفیع  کا  خدا کی بارگاہ میں شفاعت کی لیاقت رکھنے والے افراد کے حق میں دعا طلب کرنا ہے ۔نیشاپوری اس آیت{ مَّن يَشْفَعْ شَفَاعۃً حَسَنَۃً يَکُن لَّہُ نَصِيبٌ مِّنہْا  وَ مَن يَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَيِّئۃً يَکُن لَّہُ کِفْلٌ مِّنْہ}8{جوشخص اچھی بات کی حمایت اور سفارش کرتاہےوہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی حمایت اورسفارش کرتاہےوہ بھی اس میں سے کچھ حصہ پائے  گا }کی تفسیرمیں مقاتل سے نقل کرتے ہیں: خداوند متعال کی بارگاہ میں شفاعت طلب کرنے سے مراد مسلمانوں کے حق میں دعاکرنا ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ روایت نقل ہوئی ہے :{من دعالاخیہ المسلم بظہر الغیب استجیب لہ و قال لہ الملک:و لک مثل ذلک}جو شخص اپنےمسلمان بھائی کے حق میں اس کی غیرموجودگی میں دعا کرے  تواس کی دعا قبول ہوجائے گی اور فرشتہ اس سےکہے گا کہ تمہارے حق میں بھی ایسا ہو  ۔ لہذا مذکورہ آیت میں نصیب کا معنی وہی ہے جو اس حدیث میں آیاہے یعنی جو دعا انسان کسی دوسرے مسلمان کے حق میں کرتا ہے وہ اس کے حق میں بھی قبول ہوتی ہے ۔پس جس طرح انسان ہر مسلمان سے دعا طلب کرسکتا ہے  اسی طرح غیر خدا سےشفاعت بھی طلب کر سکتا ہے  لیکن فرق یہ ہے کہ صرف ان افراد سے شفاعت طلب کی جا سکتی ہے جو مقام شفاعت پر فائز ہوں جیسے انبیاء ،ائمہ اہل بیتعلیہم السلاممومنین اورفرشتے ۔

فخر الدین رازی نے فرشتوں کا مومنین کے حق میں استغفار9کرنے کو شفاعت سے تعبیر کیا ہے ۔وہ اس سلسلےمیں لکھتےہیں کہ اس آیت سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ فرشتوں کی شفاعت صرف گنہگار افراد سے مخصوص ہے اور اس بارےمیں معتزلہ کا نظریہ صحیح نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ فرشتوں کی شفاعت نیک افراد کے لئے ہے تاکہ ان  کے درجات میں اضافہ ہو سکے نہ گنہگار افراد کے گناہوں کی بخشش کے لئے ۔ابن عباس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےایک حدیث نقل کرتےہیں جس میں آپؐ فرماتےہیں:اگر کوئی مسلمان مر جائےاورچالیس مومن موٴحد اس کے جنازے پر نماز پڑھیں تو خدا ان کی شفاعت کو اس کے حق میں قبول کر تا ہے۔10نماز میت مومن کے حق میں دعا کے سوا اور کچھ  نہیں ہے ۔لہذادعاایک قسم کی شفاعت ہے اور مومنین سے دعا طلب کرنا اور یہ کہنا {ادع لی}کسی شک و شبہ کےبغیر جائز ہے ۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی سیرت اس کےجائز ہونے پر گواہ ہے ۔ جیسے ترمذی ، انس بن مالک سےنقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس کا بیان ہےکہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ قیامت کے دن میری شفاعت فرمائیں ۔11قرآن کریم میں چند موارد ذکر ہوئےہیں جو دوسروں سے دعا طلب کرنے کے جواز  پر دلالت کرتےہیں ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کےفرزندوں نے اپنے باپ سے درخواست کی کہ وہ خدا سے ان کی بخشش کی سفارش کریں۔12۔ قرآن کریم گنہگاروں کے لئے یہ نصیحت کرتا ہے کہ وہ خودبھی مغفرت طلب کریں اورپیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی درخواست کریں کہ آپ ؐبھی  ان کے حق میں دعا کریں ۔13

وہابی اورتکفیری گروہ  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ ؐ سے دعا طلب کرنے کو شرک قرار دیتے ہیں اگر یہی کام شرک ہو تو دونوں حالتوں میں شرک ہوگا یعنی اگر زندوں سے شفاعت طلب کرنا شرک نہیں ہے تو مردوں سے  شفاعت طلب کرنا بھی شرک نہیں ہے ۔علاوہ ازیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت آپ ؐ کے جسم کے ساتھ وابستہ ہے جبکہ آپؐ کی روح زندہ ہے اور دعا و شفاعت کی درخواست کو سننا اور ان کی اجابت کرنا روح سےمتعلق ہے نہ جسم سے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعد آپ ؐ پردرود وسلام بھیجنے  کے بارے میں نقل شدہ بہت ساری احادیث میں یہ بات صراحت  کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درود وسلام کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ۔14

پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیار ت کے آداب میں یہ بات نقل ہوئی ہےکہ زائر جب آپؐ کی قبرمبارک  کے پاس دعا کرتا ہے تو آپؐ سےمخاطب ہو کر اس طرح سےکہنا چاہیے:{جئنالقضاء حقک والاستشفاع بک فلیس لنایارسول الله شفیع غیرک فاستغفر لنا واشفع لنا}یا رسول اللہ:ہم آپؐ کے پاس اپنے حوائج کی برآوری اور شفاعت طلب کرنے  کے لئے آئے ہیں۔آپ ؐکےسوا ہمارا کوئی شفیع نہیں ہے۔آپؐ ہماری مغفرت کےلئے دعا کریں اور ہماری شفاعت کریں ۔اہل سنت کے بہت سارے علماءنے اپنےمناسک کی کتابوں میں یہ بات ذکرکیا ہے کہ  پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے وقت آپ ؐسے شفاعت طلب کرنا مستحب ہے ۔ 15قرآن کریم حق شفاعت کو خدا کے ساتھ منحصر کرنے کےعلاوہ  خدا کے اذن سے اسےانبیاء،اولیاء اور فرشتوں کے لئے بھی ثابت کرتاہے۔  لہذامقام شفاعت صرف خدا کا حق ہے لیکن شافعین کی شفاعت رضائے الہی پر منحصر ہے۔لہذا آیت کریمہ{ قُل لللہ الشَّفَاعَۃُ جَمِيعًا}{کہہ دیجئے:ساری شفاعت اللہ کےاختیار میں ہے}  نہ دوسرے شافعین کی شفاعت کی نفی کرتا ہے اور نہ ان افراد سے شفاعت طلب کرنے کی نفی کرتا ہےکیونکہ شفیع سے شفاعت طلب کرنے کا مطلب یہ ہےکہ وہ بارگاہ الہی میں ان کے گناہوں کی بخشش کے لئے دعاکریں نہ یہ کہ وہ اپنی طرف سے ان کےگناہوں کو بخش دیں ۔

زمحشری اس آیت{قُل لِّلَّہِ الشَّفَاعَۃ جَمِيعًا}“کہہ دیجئے:
سا ری شفا عت اللہ کے اختیار میں ہے اور کوئی کسی دوسرے کے بارے میں شفاعت نہیں کر سکتا مگر دو شرائط کے ساتھ :
1۔شفاعت ان کی ہوگی جو شفاعت کی لیاقت رکھتے ہوں۔2۔ شفیع کے لئے یہ مقام خدا کی طرف سے حاصل ہواہو یعنی خدا نے شفاعت کرنے کا اختیار انہیں عطا کی ہے جبکہ یہ دو شرائط مشرکین اور ان کے شافعین کے بارے میں موجود نہیں ہیں ۔16 بنابرین شفاعت خدا کی ربوبیت کا ایک جلوہ ہے اس لئے  ذاتا ًیہ حق اسی کےساتھ مخصوص ہے لیکن یہ مطلب انبیاء و اولیاء کے لئے مقام شفاعت کے قائل ہونےکےساتھ منافات بھی نہیں رکھتاہے کیونکہ ان افراد کی شفاعت مستقل نہیں ہے بلکہ ان افراد کی شفاعت اذن الہی پر منحصر ہے ۔


حوالہ جات:
1۔بقرۃ،255۔
2۔یونس،3۔
3۔یونس،18۔
4۔انبیاء،26،28۔
5۔نجم،26۔
6۔اسراء،79۔
7۔مجمع البیان،ج3،ص435۔تفسیر برہان،ج2،ص440۔
8۔نساء،85۔
9۔غافر،7۔
10۔صحیح مسلم،ج3،ص54۔
11۔صحیح ترمذی ،ج4،ص42۔
12۔یوسف،97۔
13۔نساء،64۔

14۔سنن ابوداود ،ج2،ص218۔کنز العمال،ج10،ص381۔طبقات الشافعیۃ،ج3،ص406۔
15۔کشف الارتیاب، ص320 میں احمد بن زینی دحلان کی کتاب خلاصۃ الکلام سےنقل ہوا ہے ۔
16۔تفسیر کشاف،ج4،ص30۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree