وحدت نیوز(لاہور)  مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ سید مبارک علی موسوی نے گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے نفاذ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کسی بھی آرڈیننس کی جب تک اسمبلی سے منظوری نہ لی جاے اسے کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔ آرڈیننس کو جب تک قانونی شکل اور آئینی تحفظ نہیں دیا جائے گا اس کو کوئی حیثیت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس علاقےکے لوگوں کیساتھ مذاق ہے۔ پچھلے سترسالوں سے گلگت بلتستان کی عوام کو آرڈر آرڈیننس اور پیکیج کے نام پر اصل آئینی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ آئنی حقوق کے لیے گلگت بلتستان کے محب وطن عوام نے ستر سال انتظار کیا ہے، اب مزید ان کے صبر کا امتحان نہ لیا جائے۔جی بی کے عوام پیکیج اور آرڈیننس نہیں آئینی حقوق مانگ رہے ہیں۔

علامہ سید مبارک علی موسوی نے مزید بتایا کہ تقسیم پاکستان کے وقت تین چھوٹی ریاستیں بھی وجود میں آئی مقبوضہ کشمیر ، آزاد کشمیر اور گلگت ایجنسی،  تینوں ریا ستوں کو اقوام متحدہ نے کشمیر کے حتمی فیصلے تک الگ ریاست کی صورت میں چلانے کا حکم دیا ۔ جبکہ صرف دو ریاستیں اپنی خاص شناخت اور حقوق کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اب گلگت بلتستان کے عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر صوبہ بنانے میں قانونی پیچیدگیاں ہیں تو کشمیر طرز کا سیٹ اپ ہمارا آئینی قانونی حق ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مقتدر ادارے جی بی کو بنیادی آئینی حقوق دلانے میں اپنا فرائض منصبی ادا کریں۔ پاکستان اس وقت مشکل دور سے گذر رہاہے، اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

وحدت نیوز (لاہور)  مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ سید مبارک علی موسوی نے امریکی اسکول میں فائرنگ کے نتیجے میں شہید پاکستانی طالبہ سبیکا کی شہادت پر تعزیتی پیغام میں کہا کہ امریکہ میں اسکولوں میں فائرنگ کے بے تحاشہ واقعات قابل مذمت ہیں ۔ ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ کسی پاکستانی خاندان کو اس سانحے سے گزرنا پڑے گا۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ امریکی سوسائٹی زوال پذیر سوسائٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ مبصرین سمجھتے ہیں کہ وہاں لوگوں کو سوسائٹی کا تناؤ ذہنی مریض بنا رہا ہے۔لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں یہ واقعات ذہنی تناؤ نہیں بلکہ دہشتگردی کے واقعات ہیں ۔ خدانخواستہ ایسا سانحہ اگر کسی مسلم ملک میں ہو تو مغربی دنیا اسے دہشتگردی کا نام دیتی ہے، اور اپنے دہشتگردوں کو چھپانے کے لیے ایسے دہشتگردوں کو ذہنی مریض بنا کر پیش کیا جاتا ہے،

انہوں نے مزید کہاکہ امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک میں رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات اس امر کی دلیل ہیں کہ انتہا پسندانہ رجحانات کا تعلق کسی مذہب سے نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔جو اسلام دشمن قوتیں امت مسلمہ کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ان کے مقاصد کچھ اور ہیں،انہوں نے سبیکا کے والدین سے تعزیتی پیغام میں کہا کہ سبیکا بیٹی قوم کا سرمایہ تھی جس کی شہادت افسوسناک سانحہ ہے۔ علامہ مبارک علی موسوی نے شہید بیٹی کی مغفرت اور والدین کے صبر کے لیے خصوصی دعا بھی کی۔

وحدت نیوز (اسلام آباد)  مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا ماہ صیام تزکیہ نفس کا مہینہ ہے۔اس مقدس مہینہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں موقعہ عطا کرتا ہے کہ ہم صوم و صلوۃ اور عبادات کے ذریعے اپنی اندرونی کثافتیں دور کریں۔ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ اور اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی انعام ہے۔ محض جسمانی عبادات سے اس ماہ کی برکتوں کو مکمل طور پر نہیں سمیٹا جا سکتا بلکہ یہ مقدس مہینہ آپس کے معاملات میں صبرو تحمل رواداری، اخوت ،عجز و انکساری کا بھی تقاضہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا اس ماہ مبارک میں ہمیں ایثار و قربانی کے جذبات کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے۔سحری و افطاری کے اوقات میں عزیز و اقربا کی ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ جو لوگ رمضان کے دنوں میں چوربازاری اور خود ساختہ مہنگائی کرتے ہیں۔وہ روزداروں کی مشکلات میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔اس طرح کے اعمال روزہ کی قبولیت میں مانع ہیں۔ایسے لوگوں روزہ کے روحانی فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔روزہ محض بھوکا رہنے کا نام نہیں بلکہ اپنے تمام اعضا کو غیر شرعی امور سے دور رکھنے کا نام ہے۔

انہوں نے کہا کہ صبر، برداشت اور رواداری اس مقدس مہینے کے خصوصی انعام ہیں۔ روزے کا حقیقی لطف ان انعامات کے حصول میں ہے اور یہ تب ہی حاصل ہوتے ہیں جب نفس کے ساتھ جہاد میں ثابت قدمی اور استقامت اختیار کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کے دوران وطن عزیز کی ترقی و استحکام کے لیے بھی خصوصی طور پر دعا کی جائے۔

وحدت نیوز (لاہور)  مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ سید مبارک علی موسوی نے کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں 3 نوجوانوں کی شہادت پر انتہائی غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیز فائر معاہدے کے بعد رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشتگردی اور ظلم و بربریت قابل مذمت ہے۔ آئے روز کشمیری مظلوموں کو شہید اور زخمی کیا جاتاہے۔بھارتی ریاستی دہشت گردی سےخواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں، بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیرمیں سفاکیت اوردرندگی کی تمام حدیں پارکرلی ہیں اوربھارت کو ظلم اورستم ڈھانے کا یہ کھیل بند کرنا ہوگا۔

سید مبارک علی موسوی نے کہا کہ کشمیری عوام کو جبر اوراستبداد کے ذریعے حق خود ارادیت کے بنیادی حق سے زیادہ دیر محروم نہیں رکھا جاسکتا، کشمیری عوام اپنے قیمتی لہوسے آزادی کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں، عالمی برادری کے سوئے ہوئے ضمیر کو بھی جاگنا پڑے گا انہوں نے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ بھارت میں بیلٹ گن اور کیمیکل ویپنز کے استعمال پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کریں اور بھارتی مظالم بند کرائیں۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) ماہ مقدس رمضان میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈینگ نے عوام کو عذاب میں مبتلا کررکھا ہے ،ماہ رمضان المبارک کے دوران پورے ملک میں بجلی بلاتعطل فراہم کی جانی چاہئے تھی ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی میڈیا سیل سے جاری بیان میں کہی ان کا کہناتھا کہ حکومت واپڈہ حکام کو لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا پابند کرئے۔ شدید گرمی میں بجلی کی بندش عوام کے لیے سخت اذیت کا باعث ہے ۔ رمضان کے مقدس ماہ میں عوام کو اس اذیت سے دور رکھا جائے۔

 انہوں نے کہا ہے کہ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ماہ صیام تذکیہ نفس کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی انعام ہے۔ محض جسمانی عبادات سے اس ماہ کی برکتوں کو مکمل طور پر نہیں سمیٹا جا سکتا بلکہ یہ مقدس مہینہ آپس کے معاملات میں صبرو تحمل رواداری، اخوت ،عجز و انکساری کا بھی تقاضہ کرتا ہے۔روزہ جسمانی مشقت کانام نہیں ہے بلکہ نفس کی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔یہ ہمیں تمام اخلاقی و جسمانی برائیوں سے دور کرتا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ رمضان کی مناسبت سے دعائیہ محافل اور دیگر تقریبات میں وطن عزیز کے استحکام و ترقی کے لیے خصوصی دعائیں کی جائیں۔ ماہ رمضان کے دوران انتظامیہ گراں فروشوں پر  نظر رکھنے میں ناکام ہو چکی ہے ،عام آدمی کے لئے اشیائے خوردو نوش کا حصول دشوار ہوچکا ہے۔ناجائز منافع خوروں  کے اگے حکومت بے بس نظر آرہی ہے ۔ ناجائز منافع خوروں کے لیے فوری طور پر کڑی سزاؤں کا جگہ پر تعین کیا جائے تو عام گزر بسر کرنے والے افراد کو اس ماہ میں جن مشکلات کا سامنا رہتا ہے اس میں یقینی طور پر کمی واقعہ ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ امن و امان کے قیام کے ذمہ دار اداروں کو ملک دشمن عناصر پر بھی گہری نظر رکھنا ہو گی تاکہ وہ شر پسندانہ عزائم میں کامیاب نہ ہو سکیں۔مساجد ،امام بارگاہوں سمیت تمام مقدسات اور عبادت گاہوں کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔اس سلسلہ میں ذرا بھر غفلت کا مظاہرہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ماہ رمضان کے دوران ملک بھر میں سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔

انقلاب مگر کیسے!؟

وحدت نیوز (آرٹیکل)  انقلابیوں کو انقلاب ھرگز برا نہیں لگتا لیکن ناسمجھ ، جذباتی اور دو نمبر انقلابی بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ آج جن دہشتگردوں نے عراق وشام کو تباہ کیا سب کے سب انقلاب کے دعویدار تھے۔ امام کعبہ کی برکتوں سے بھی انقلابی لوگ میدان میں از سر نو فعال ہوئے ہیں ۔ اور شیخ صبحی طفیلی مزاج سپر انقلابی بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں ۔جو اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے انقلاب اور رھبران انقلاب وبانیان حکومت جمھوری اسلامی کے فرامین واقوال اور مواقف واقدامات کی تاویلیں اور توجیہات اپنی مرضی سے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اور دوسری طرف دشمنان مقاومت وبیداری اور استعماری واستکباری طاقتیں بیرونی واندرونی محاذوں پر حملہ آور ہیں۔ انقلاب ومقاومت کے دشمن کم علم اور  نا آگاہ عوام ، بالخصوص جذباتی نوجوانوں کے ذریعے  ہمارے راھبران مقاومت وانقلاب اور انقلابی شخصیات کی کردار کشی پر پوری توانائی صرف کر رہے ہیں۔ اور اسی طرح ایم آئی 6 کے ایجنٹ ہوں یا سی آئی اے کے آلہ کار یا موساد و را کے تنخواہ دار ان سب کا بھی  ہدف اور نشانہ فقط اور فقط پیروان ولایت وخط مقاومت وبیداری ہیں۔اس لئے خط ولایت ومقاومت وانقلاب کے پیروکاروں کو یہ حساس مسائل بڑی حکمت ودانشمندی کے ساتھ بیان کرنے ، ایک دوسرے کی تحقیر وتذلیل اور کردار کشی کی بجائے ایک دوسرے کو سمجھنے ، مشترکہ زبان تلاش کرنے اور  افہام وتفہیم سے مسائل کو سلجھانے اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔

کوئی بھی انقلابی اور رہبر کا پیرو نظام ولایت سے نہیں گھبراتا بلکہ وہ تو ہر قسم  کی قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے۔ لیکن اختلاف اسلوب اور موقف کو سمجھنے میں ہے۔ اور رھبریت کی  براہِ راست  راھنمائی سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔  لیکن ایک دوسرے کے متعلق شائستہ زبان اور مہذبانہ تعبیرات ہی ہمیں قریب رکھ سکتی ہیں۔ اور احترام متبادل افہام وتفہیم ایجاد کرنے کا پہلا زینہ ہے۔ جتنا بھی اختلاف نظر ہو اور فکری فاصلے پیدا ہو جائیں تب بھی مشترکہ راھیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔  اور شبھات کا ازالۃ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن تہمت  اور الزام تراشی ہمیشہ بند گلی کی طرف لے جانے والے راستے ہیں۔آئیے کچھ دیر کے لئے سوچتے ہیں کہ ہم پاکستان میں کس طرح کی تبدیلی اور انقلاب چاہتے ہیں۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ یہ بحث اپنی جگہ پر قائم ہے کہ پاکستان کا نظام کہ جس کے دستور  میں واضح بیان ہے کہ اسکے تمام تر قوانین قرآن وسنت کے مطابق ہو نگے  یا مخالف نہیں ہو نگے تو کیا ایسے نظام کو مطلقاً طاغوتی کہنا درست ہے یا نہیں ؟یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان اور شیعان  پاکستان کے وجود کے دشمن جو تاسیس پاکستان کی تحریک سے لیکر آج تک تکفیریت کا پرچار کرنے  والے ہیں  اور سیاسی لبادے میں انکے سہولت کار جو  پاکستان دشمن قوتوں کے ھاتھوں میں کھیل بھی رھے ہیں اور دوسری جانب اس نظام کے اسٹیک ہولڈرز بھی بنے ہوئے ہیں نیز ہمیں ہمیشہ غیر کا ایجنٹ ، غیر پرست ، پراکسی وار کا حصہ اور دشمن نظام ثابت کرنے کی کوشش کرتے رھتے ھیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ  جب ہم پاکستان کے نظام کو طاغوتی نظام کہتے ہیں تو دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور لوگوں کو تبدیلی اور حقیقی انقلاب سے مایوس کرکے پاکستان کی دشمنی پر ابھار رہے ہوتے ہیں۔

عام طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ موجودہ فاسد اور طاغوتی نظام کا حصہ بننا ملت پاکستان بالخصوص مظلوم ملت تشیع کے لئے راہ نجات ہے یا نہیں ؟اصل سوال یہ نہیں بنتا کہ  ہمیں موجودہ  نظام کا  حصہ بننا چاھیے یا نہیں  بلکہ یہ  ایک روشن سچائی ہے کہ جس نظام کو طاغوتی اور فاسد کہا جارہا ہے  وہ تو  اپنی جگہ پر قائم ہے  اور پورے ملک کے باشندے چاھتے ہوئے یا نہ چاھتے ہوئے اس کے تحت اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ کوئی نظام مصطفی کی بات کر رہا ہے اور کوئی شریعت کا نظام لانا چاہتا ہے اور کوئی خلافت قائم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ چنانچہ سوچنا یہ چاہیے کہ موجودہ صورتحال میں ہمارے لئے نجات کا راستہ کیا ہے؟1-آیا ہم شیعیانِ حیدر کرار  اس موجودہ  فاسد نظام کو  ہی مضبوط کریں؟ج - کوئی ہوشمند اور عاقل شیعہ ، ظلم وفساد کے نظام کی تقویت نہیں چاھتا۔ البتہ چند ایک نکات پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصا جس ملک میں شیعہ مسلمان (نظام امامت وولایت پر ایمان رکھنے والے) نسبتا اقلیت میں ہوں اور شیعہ مخالف مسلمان (جو نظام خلافت پر ایمان رکھتے ہوں) اور  انکی اکثریت ہو تو کیا عوام نظام خلافت چاہیں گے یا نظام امامت وولایت ؟نظام امامت و ولایت پر اعتقاد اور یقین رکھنا تو ضروریات دین میں سےہے لیکن عملی طور پر یہ نظام ولایت و امامت موجودہ  صورتحال میں کیسے نافذ ہو گا۔ ؟اس  نظام کے نفاذ کا کا روڈ میپ کیا ہو گا ؟ اقلیت کیسے اپنی مرضی کا نظام قائم کرے گی؟ یا پھر زبردستی اور طاقت کے ذریعے  یا کوئی اور معجزہ نما  راستہ  موجود ہے؟ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ ہمارے مذہب میں اور ہمارے مراجع کرام کے نزدیک  اپنے عقیدے کا نظام قائم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال جائز بھی ہے یا نہیں۔ ؟

یہ بھی قابلِ غور نکتہ ہے کہ اس ملک میں  لوگوں کو  نظام امامت کے لئے زبردستی  کرنے کے لئے اکسانا در اصل نظام خلافت کے حامیوں کو شہ دینے اور ابھارنے  کے مترادف تو نہیں!؟۔اسی طرح یہ   بھی شوچنا چاہیے کہ کیا اکثریت کو  اخلاقاً اور شرعاً یہ حق نہیں کہ وہ نظام خلافت قائم کرے۔؟پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا متروک شدہ  نظام خلافت سے بہتر نہیں کہ ایک جمھوری اسلامی نظام قائم کیا جائے۔ ؟مندرجہ بالا سوالوں اور اس ضمن میں ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے دیگر سوالوں کے مدلل اور عام فہم جوابات تفصیل کے ساتھ بیان کرنے اور اصلح نظام کے لئے عوام کو آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔2-دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم شیعیان پاکستان اس نظام کا مکمل بائیکاٹ کریں ، سول نافرمانی کریں ، مثلا ٹیکس ادا نہ کریں،قوانین کو ماننے سے انکار کر دیں، نوکریوں کو چھوڑ دیں، عدالتی فیصلے قبول نہ کریں،  اس نظام کے تحت اسکولوں اور کالجوں یونیورسٹیوں میں اپنے بچے نہ بھیجیں،وغیرہ وغیرہاس میدان میں اترنے کے بھی دو طریقے ہو سکتے ہیںا- مسلح جدوجہد کریں۔ اور اس نظام کے سقوط  تک جہاد کریں۔ اور زمام اپنے ھاتھ میں لے لیں۔  2- پر امن عوامی جدوجہد کریں اور اس نظام کو کمزور کریں تاکہ ظلم وفساد سے نجات حاصل ہواور اکثریتی عوامی حمایت سے اس کومرحلہ وار بدلنے پر کام کریں اور نعم البدل لائیں۔یعنی عوامی انقلاب لا کر یکسر نظام بدل دیں۔3-اب پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ جب تک عوامی انقلاب لانے کا مرحلہ طے نہیں ہوتا تو کیا اس وقت تک معاشرے وعوام اور نظام سے کٹ جائیں ؟ ۔  یا اس سوسائٹی کے اندر رہتے ہوئے اپنے آپ کو اجتماعی ومعاشی وفرھنگی وسیاسی لحاظ سے طاقتور بنائیں۔ ؟

تحریر۔۔۔۔حجۃ الاسلام ڈاکٹر سید شفقت شیراز ی

Page 64 of 266

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree