وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین سنٹرل پنجاب کے صوبائی کابینہ کا اجلاس ،اجلاس کی صدارت سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ مبارک موسوی اور چئیرمین مہدیؑ برحق کانفرنس ومرکزی سیکرٹری تعلیم نثار فیضی نے کی،اجلاس میں مرکزی سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین ،مرکزی رہنما علامہ اصغر عسکری کی خصوصی شرکت،اجلاس میں موجودہ ملکی صورت حال اور اسلام آباد میں 6 اگست کو منعقدہ مرکزی اجتماع،،مہدی برحق کانفرنس،، کے حوالے سے چئیرمین کانفرنس نثار فیضی نے صوبائی کابینہ کو تفصیلی بریفنگ دی،انہوں نے کہا کہ انشااللہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اگست میں برسی شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے موقع پراسلام آباد میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کریگی ،اس عظیم الشان جلسے میں ملکی سیاسی مذہبی جماعتوں کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی جارہی ہے،یہ اجتماع استحکام پاکستان ،ملک سے انتہا پسندی و دہشتگردی کے خاتمہ،کرپشن اورشاہانہ کرپٹ نظام کیخلاف سنگ میل ثابت ہوگی۔

نثار فیضی نے مزید کہا کہ ملک بھر میں اس مرکزی اجتماع کے لئے رابطہ مہم شروع کر دی ہے ،انشااللہ ہزاروں کی تعداد میں فرزندان اسلام وپاکستان چاروں صوبوں گلگت بلتستان سمیت آزاد جموں کشمیر سے شریک ہونگے،اس مرکزی اجتماع میں شرکت کے لئے مقبوضہ کشمیرمیں جد وجہد آزادی میں شریک حریت کانفرنس کے رہنماوں کو بھی دعوت دینگے،انہوں نے کہا کہ دہشتگردی ،کرپشن اور عوام پر مسلط کرپٹ نظام کیخلاف ہر باشعور اور محب وطن پاکستانی کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا،ہم قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کی تلاش میں ہے،دشمن ملک کو مسلک کے نام پر تقسیم کر کے کمزور کرنے کی سازش میں ہے،انشااللہ ہم اسے کامیاب نہیں ہونے دینگے،حصول پاکستان کے لئے ہمارے آباو اجداد نے جانی مالی قربانیاں دیں ہیں اور تحفظ پاکستان کے لئے ہم اپنے خون کے آکر قطرے تک جدو جہد جاری رکھیں گے۔

علامہ مبارک علی موسوی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پنجاب نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ سنٹرل پنجاب کے 24 اضلاع سے ایک ہزار سے زائد بسوں کا قافلہ اس مرکزی اجتماع میں شریک ہوگا،سنٹرل پنجاب کے سیکرٹری روابط رائے ناصر علی کی سربراہی میں قائم کو مذید شرکاء کی شرکت کو یقینی بنانے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس سرمایہ دارانہ کرپٹ نظام کیخلاف عملی جدو جہد کو ہم خیال جماعتوں کیساتھ مل کر تیز کر نا ہوگا،تاکہ مملکت خداداد پر مسلط پانامہ زدہ کرپٹ حکمرنوں سے عوام کو نجات ملے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) اس وقت عرب ریاستوں میں سب سے بڑا ملک سعودی عرب ہے۔یہ جزیرہ نمائے عرب کے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے ۔اس کا یہ  رقبہ  صحرا و نیم صحراہے اوریہاں کوئی بھی دریا ایسا نہیں جو پورا سال بہتا  ہوا،اسی طرح  یہاں بارشیں بھی بہت کم ہوتی ہیں لہذا  صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے ۔

80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق سعودی عرب میں  روزگار کے سلسلے میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن یہاں  مقیم ہیں۔

سعودی عرب میں سب سے زیادہ فٹ بال  کو پسند کیا جاتا ہے  ۔ ماجد عبداللہ، سامي الجابر اور ياسر القحطاني  سعودی عرب میں فٹبال  کے معروف     کھلاڑی ہیں۔سعودی عرب میں مقبول ترین رقص ارضیٰ ہے  جو قدیم بدوی روایات کا حصہ ہے ، سعودی عرب میں اس رقص کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ  کی ریاض  آمد کے موقع پر شاہ سلمان نے ضعیف العمری کے باوجود اسی رقص کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا تھا۔

نئی نسل کو گمراہی اور فحاشی سے بچانے کے لئے سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہم بعض علاقوں میں ایسے مراکز موجود ہیں جہاں  فلموں اور ڈراموں کے بجائے موسیقی اور  کچھ دیگر فنون پیش کئے جاتے ہیں البتہ امریکی فلموں کی وڈیوز اور ڈی وی ڈیز  کی خریدو فروخت  کی قانونی اجازت ہے اور ہر جگہ دستیاب ہیں۔

سعودی عرب کے  بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر ہمیشہ  پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولادہی  حکمرانی کرے گی لہذا ملک میں کسی سیاسی جماعت کے قیام  کا کوئی تصور نہیں۔ انتظامی لحاظ سے یہ ملک تیرہ صوبوں میں تقسیم ہے۔

۱۷۵۰ عیسوی میں ایک بادیہ نشین قبیلے کے سردار  محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب نے ایک  نئی حکومت بنانے پر اتفاق کیا۔ محمد بن سعود کے پاس قبیلے کے افراد اور خون تھا جبکہ محمد ابن عبدالوہاب کے پاس امام ابن تیمیہ کے  عقائد و  افکار تھے۔ اس کے بعد دونوں کے ملاپ سے ایک  نئی حکومت کی تحریک نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔

پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب برطانیہ و فرانس کو تیل کی طاقت کا ندازہ ہوا تو انہوں نے ۱۹۱۹ میں مشرق وسطی کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔اس تقسیم کے نتیجے میں عراق،اردن اور سعودی عرب سمیت کچھ ممالک برطانیہ کے جبکہ ایران،ترکی اور شمالی افریقہ، فرانس کے حصّے میں آئے۔

استعماری طاقتوں نے سعودی عرب میں آل سعود سے،کویت میں آل صباح سے،قطر میں آل ثانی سے،امارات میں آل نہیان سے اور بحرین میں آل خلیفہ سے یہ  معائدہ کیاکہ اگر انہیں حکومت دی جائے تو وہ خطے میں استعماری مفادات کا تحفظ کریں گئے۔

ان معاہدوں کی روشنی میں 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے ان پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔

اس سے پہلے۱۹۳۰ میں امریکہ نے سعودی عرب کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے  John Fillby ایک برطانوی جاسوس ” جان فیلبی” کو اپنے ایک کارندے ارنسٹ فیشر کے ذریعے خریدلیا۔ [1]

یہ شخص ۱۹۱۷ میں برطانیہ کی وزارت خارجہ میں ملازم ہواتھا اور تقریباً ۳۵ سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہاتھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نجد میں قدم رکھنے والا یہ پہلا یورپی باشندہ ہے۔یہ اپنے زمانے کا ایک بہترین لکھاری اور مصنف بھی تھا اور اس کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔

اسے مشرق وسطی کے بارے میں حکومت برطانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جب یہ اختلاف شدید ہوگیا تو ۱۹۳۰ میں اس نے برطانوی سفارت سے استعفی دے دیا۔اس کے استعفی دیتے ہی اس کی تاک میں بیٹھے امریکی کارندے نے اس گلے لگا لیا۔

اس نے ابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں۔ سعودی عرب کے برطانیہ کے بجائے امریکہ سے  تعلقات جان فیلبی کے مرہون منت ہیں۔

یاد رہے کہ سعودی عرب کو  مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے حرمین شریفین بھی کہا جاتا ہے۔  حرمین شریفین کی وجہ سے  جہان اسلام کے اصیل اور حقیقی تاریخی آثار بھی سعودی عرب میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ   آج سے تقریباً ٨٠ سال قبل یعنی ١٣٤٤ھ/ ١٩٢٦ء میں ۸ شوال کو  مدینہ منورہ  اور مکہ معظمہ میں پائے جانے والے مقبروں اور مزارات کو مسمار کر دیا گیا تھا۔

ان میں سے  اس وقت صرف حضور نبی اکرمﷺ کا گنبد ہی رہ گیا ہے۔ اسلامی آثار منہدم کرنے کی وجہ سے سعودی عرب کی ساکھ کو دھچکا لگا اور ہر سال آٹھ شول کو مسلمان یوم احتجاج اور یوم سوگ کے طور پر مناتے ہیں۔

سعودی عرب کے مخالفین کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کے گھروں اور مزارات کو مٹانے سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے اور ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ جبکہ سعودی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان آثار کو باقی رکھنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔

اسی طرح طالبان ، القاعدہ، داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کی تشکیل سے فائدہ تو امریکہ کو ہوا لیکن اس طرح کے اقدامات سے سعودی عرب کی مقبولیت پرشدید  منفی اثرات مرتب ہوئے۔

اس کے ساتھ ساتھ  سعودی حکومت کی طرف سے ہندوستانی وزیراعظم مودی کو سب سے بڑے سیویلین ایوارڈ کا دیا جانا ،مسئلہ کشمیر پرسعودی عرب کا  بھارتی پالیسی کے مطابق پاکستان پر دباو ڈالنا، پاکستان میں دہشت گردوں  کا  پاک فوج کو ناپاک فوج  کہنا ،پاکستانی فوجیوں کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلنا، قائداعظم کی ریذیڈنسی کو شرک کا مرکز کہہ کر تباہ کرنا، دیگرفرقوں اور مسالک کے مراکز اور پبلک مقامات کو نشانہ بنانا، اسی طرح فوج و پولیس کے ٹھکانوں نیز پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ  کرنا اور پاکستان کے آئین کو غیر اسلامی اور عوام کو واجب القتل کہنا اس سے  پاکستان کے اندر بھی عوام میں سعودی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا ہوئی ہے۔

اسی طرح قطر کے ساتھ قطع روابط اور حماس و الاخوان کو دہشت گرد قرار دینے نیز اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے فروغ نے بھی  سعودی عوام اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی  بہت سارے سوالات  اور شکوک و شبہات  پیدا کر دئیے ہیں۔

امریکی اداروں نے   سعودی عرب کے حکمرانوں کو یہ باور کروایا ہو ہے کہ ان پالیسیوں سے  ان کا ملک ترقی کر رہا ہے لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق  یہ پالیسیاں سعودی عرب کے مفاد میں نہیں ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ شہنشاہ ایران کی طرح  جس نے بھی امریکہ سے دوستی کی اور اس کے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد شروع کیا اس کا انجام بہت برا ہوا۔

دنیا میں امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کی  دشمنی کے بجائے اس کی دوستی نقصان دیتی ہے۔ چونکہ امریکی دوستی ایک ایسے بھنور کی مانند ہے جس  کا ظاہری حسن ،ملاح کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کی  اندرونی گردش  کشتی کو ڈبو دیتی ہے۔

 ہماری دعا ہے کہ خداوند عالم امریکہ کے شر سے تمام دنیا باالخصوص عالم اسلام کو نجات دے ۔ آمین


تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(اسلام آباد) کوئٹہ میں تنظیمی اور انتخابی صورت حال کا جائزہ لینےکیلئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کل کوئٹہ پہنچیں گے، جہاں ایم ڈبلیوایم کے کوئٹہ ڈویژن کے رہنمااور کارکنان سمیت رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا رضوی ان کا استقبال کریں گے، 8,9,10جولائی کو اپنے دورہ کوئٹہ کے دوران وہ اہم سیاسی ومذہبی شخصیات سے ملاقاتوں سمیت، مختلف عوامی اجتماعات اور تنظیمی اجلاسوں میں بھی شرکت کریں گے ، اس موقع پر مرکزی پولیٹیکل کونسل کے کوآرڈینیٹر آصف رضا ایڈووکیٹ بھی ان کے ہمراہ ہوں گے، علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کے دورے کا مقصد کوئٹہ شہر میں تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی اورترجیحی  انتخابی حلقوں میں فعالیت کی حکمت عملی کاجائزہ لینا ہے جس میں وہ مقامی عمائدین اور تنظیمی عہدیداران سے مشاورت بھی کریں گے۔

وحدت نیوز(گلگت) گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے کیپٹن محمد شفیع کو سٹینڈنگ کمیٹی سے برطرفی کے فیصلے کوعدالت کی جانب سے منسوخ کرنا آزاد عدلیہ کی دلیل ہے۔صوبائی حکومت کا انداز حکمرانی آمرانہ ہے جو اپوزیشن کو برداشت نہیں کرتے۔ رکن اسمبلی کیپٹن شفیع کو حق حاصل ہے کہ وہ حکومتی اقربا پروری اور کرپشن پر تنقید کرے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے  عدالت کی جانب سے ڈپٹی سپیکر قانون ساز اسمبلی کے نوٹیفکیشن کا منسوخ کرنا اور کیپٹن شفیع کو اپنے عہدے پر بحال رکھنے کو حق کی فتح اور جیت قرار دیا ہے۔مسلم لیگ ن آمریت کی پیداوار ہے ،جب ان کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو مطلق العنان بن جاتے ہیں۔کیپٹن شفیع کی جانب سے حکومتی کرپشن کو بے نقاب کرنے پر ان کو عہدے سے ہٹانا اسی مطلق العنانیت کی دلیل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اداروں نے حکومتی اقدامات پر چیک نہیں رکھا تو اقتدار کے ایوانوں میں براجمان افراد مطلق العنان بادشاہ بن جائینگے۔لیگی وزیر اعلیٰ اور اس کی ٹیم بظاہر میرٹ کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے اور درون خانہ کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے جارہے ہیں،کسی محکمے میں ملازمت حاصل کرنے کیلئے لازم ہے کہ امیدوار کو لازم ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ یا دیگر وزراء کے رشتہ دار ہوں اور محکمہ ورکس میں تمام ٹھیکے من پسند افراد میں بانٹ دیئے جاتے ہیں اور پری کوالیفکیشن کے نام پر ایسے ٹھیکداروں کو پری کیا جاتا ہے جو ان کے منظور نظر ہوتے ہیں۔انہوں نے اپوزیشن ممبران پر زوردیا کہ وہ میرٹ کے قتل عام پرخاموشی اور سکوت کو توڑکر حقدار کو حق دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بھارتی وزیر اعطم نریندر مودی کے دورہ اسرائیل پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ عالمی امن کو تباہ کرنے کی کڑی ہے،انہوں نے کہا کہ مودی کوتلیا چانکیاکا پیروکار ہے،بھارت اسلام اور انسانیت دشمنوں کیساتھ مل کر عالمی امن کو تباہ کرنے کے درپے ہے،بھارت کشمیر میں اور اسرائیل فلسطین میں مسلمانوں کے نسل کشی کے مجرم ہیں، خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی یہ بھارتی کوشش بھارت کی سالمیت و بقا کو خطرے میں ڈال دے گی۔پاکستان کو غیر مستحکم یا تنہا کرنے کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔پاکستان کو کمزور سمجھنے والے ذہنی عارضے کا شکار ہیں۔پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور کسی بھی دشمن کے دانت کٹھے کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔کشمیر ی عوام پر بھارتی مظالم اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر عالم اسلام کو سخت تشویش ہے،اسرائیل اور انڈیا کو مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کے خون ناحق کا حساب دینا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف اسرائیل کی طرف سے بھارت کی غیر مشروط مدد اور حمایت کا اعلان اسلام دشمنی کی بنیاد پر ہے۔بھارت،اسرائیل اور امریکہ وہ شیطانی قوتیں ہیں جو عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں،ان سے کسی نفع کی امید لگانا خام خیالی اور خود فریبی ہے،اسلام کے نام پر بننے والا فوجی اتحاد اسرائیل کی بقا و سلامتی کے لیے کام کر رہا ہے۔مودی کا حالیہ دورہ اور اسرائیل کے ساتھ آل سعود کا ہمدردانہ رویہ ایک ہی ایجنڈے کی کڑیاں ہیں،انہوں نے کہا دنیا کی باطل قوتیں تیزی سے مجتمع ہو رہی ہیں،امت مسلمہ کو اپنے دوست اور دشمنوں کی شناخت کرنا ہو گی،مودی کے قدامات پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے اضطراب کا باعث ہیں،پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ بھارت کے منافقانہ طرز عمل پر دوٹوک موقف اختیار کرے اور امت مسلمہ بھارت اور اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر کے غیرت ایمانی کا ثبوت دے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین نے حلقہ پی ایس 114 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علی حسین نقوی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے اپنے اپنے وفود کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ علی حسین نقوی نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم مثبت اور تعمیری سیاست پر یقین رکھتی ہے، ملک کی ترقی و استحکام اور امن و امان کا قیام ہماری اولین ترجیحات ہیں، جس کو حقیقی شکل دینے کے لئے تکفیری اور انتہاء پسند قوتوں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے، ہماری پولیٹیکل کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کا ساتھ محض بیانات تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ہم الیکشن مہم سے نتائج آنے تک اپنے کارکنوں کے ہمراہ میدان میں موجود رہیں گے۔

 پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں آپ کے تعاون کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جائے گا، ایم ڈبلیو ایم ملت تشیع کی نمائندہ جماعت ہے اور ہر قومی ایشو پر یہ جماعت میدان میں موجود رہی ہے، ان کی قومی خدمات لائق تحسین ہیں۔ انہوں نے سانحہ پارہ چنار سمیت دہشت گردی کے دیگر واقعات کی مذمت بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ اس حلقہ میں ایم ڈبلیو ایم کی طرف سے اعلان کے بعد ہماری فتح کو یقینی قرار دیا جا رہا ہے اور ہمیں پوری امید ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہم ہی مذکورہ حلقہ سے کامیاب ہوں گے۔ پریس کانفرنس میں ایم ڈبلیو ایم کے علامہ مبشر حسن، علامہ علی انور جعفری، میثم عابدی، میر تقی ظفر، آصف صفوی جب کہ پیپلز پارٹی کے وقار مہدی، راشد ربانی اور نجمی عالم بھی موجود تھے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree