وحدت نیوز(کراچی) مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کراچی کی جانب سے تمام اسیرانِ ملت بلخصوص اسیرِ ملت و فخرِ ملتِ تشیع  پاکستان برادر ناصر شیرازی کی جبری گمشدگی و گرفتاری سے جلد از جلد رہائی کے لئے دعائے توسل و مناجات کا اہتمام کیا گیا۔جسمیں مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کی مرکزی سیکرٹری جنرل محترمہ  زہرہ نقوی نے کراچی کے تمام اضلاع و یونٹس سے شرکت کرنے والی خواہرانِ وحدت کیساتھ ایک خصوصی ملاقات کی اور خطاب کیا، خصوصیت کیساتھ  ملتِ تشیع کے جوانوں کی جبری اسیری و گرفتاری بلخصوص برادر ناصر شیرازی کے حوالے سے گفتگو کی اور خواہرانِ وحدت کو آنے والے دنوں میں تحریکِ آزادی برائے اسیرانِ ملت کے لئے ہر طرح سے تیار رہنےاور ہر طرح کی قربانی کےلئے خود کو آمادہ کرنے کی  درخواست کی۔اسکے علاوہ آئندہ آنے والے دنوں میں برادر ناصر شیرازی و دیگر تمام اسیرانِ ملت کی جبری گرفتاری کے حوالے سے خواہرانِ وحدت کی جانب سے احتجاج کے حوالے سے پروگرام ترتیب دیئے گئےاور دیگر تنظیمی امور کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔

آخر میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی  کہ جنھوں نے اسیرانِ ملت کیساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے خاص طور پہ خود اپنی گرفتاری پیش کی،مولانا آغا احمد اقبال نے اسیرِ ملت و فخر تشعیو پاکستان برادر ناصر شیرازی اور دیگرِ اسیران کی گرفتاری اور موجودہ حالات و واقعات کی روشنی میں  خطاب کیا اور اس تحریک اور اسکے نتائج کے حوالے سے مفصل گفتگو کی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا بھر کا میڈیا جب سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کی خوشیاں منانے میں مصروف تھا عین اُسی وقت سعودی خاندان اور ریاست کے اندر انتہائی خفیہ اور پُراسرار طور پر اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ بحیرہ احمر کے کنارے شرعی قوانین اور صنفی اختلاط کی پابندی سے مبرا ’ریزورٹ منصوبے‘ کا اعلان بھی دنیا کے لیے حیران کن خبر تھی۔

ایک اور سرپرائز سعودی خواتین کو نئے سال کے آغاز پر اسٹیڈیم میں بیٹھ کر کھیلوں سے لطف اندوز ہونے کا اعلان تھا۔ اِن سب اقدامات کو سعودی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک آئی واش قرار دے رہے ہیں۔

4 نومبر کی رات، سعودی عرب میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے قائم ہونے والی اینٹی کرپشن کمیٹی نے شاہی خاندان کے 11 اہم ترین افراد سمیت درجنوں وزراء اور کاروباری شخصیات کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان بظاہر دنیا کے لیے ایک ’بریکنگ نیوز‘ تھی، لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ کئی شہزادے ایک سال سے زائد عرصہ سے نظربند تھے۔

سعودی شاہی خاندان کی اندرونی کشمکش سے بے خبر لوگ اِسے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائی قرار دے رہے ہیں، تاہم یہ کارروائی صرف اقتدار کی کشمکش نہیں بلکہ خطے میں اہم اسٹرٹیجک تبدیلیوں کی طرف اشارہ بھی ہے۔

اِس کارروائی کو ایران اور اسامہ بن لادن کے مبینہ تعلق کے حوالے سے سی آئی اے کی جاری کردہ تازہ دستاویزات، قطر بحران، لبنان کے تازہ سیاسی دھماکے، امریکا کے سعودی عرب سے گرم جوش ہوتے تعلقات، متحدہ عرب امارات کی خطے میں مرکزی کردار کی خواہش، سعودی عرب میں مصنوعی لبرل ازم، کمزور پڑتی سعودی معیشت جیسے اہم عناصر سے الگ رکھ کر دیکھنا ایک نظری مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی کشمکش اگرچہ شاہ سعود اور شاہ فیصل کے دور سے ہی جاری ہے لیکن میڈیا پر پابندیوں اور سوشل میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے کئی امور پر پردہ ڈالنا بہت آسان تھا جو اب ممکن نہیں رہا۔ سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی حالیہ کشمکش شاہ سلمان کے تخت نشین ہوتے ہی شروع ہوگئی تھی، کیونکہ جب شاہ سلمان نے جنوری 2015 میں تخت سنبھالا تو ریاست سے باہر شہزادہ محمد کو شاید ہی کوئی جانتا تھا۔

شاہ سلمان نے پہلے شاہی فرمان میں اپنے جانشینوں کا اعلان کیا۔ شہزادہ مقرن کو ہٹا کر شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد جبکہ اپنے صاحبزادے شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے نیا عہدہ تخلیق کیا اور اُنہیں ’نائب ولی عہد‘ بنادیا گیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد کے علاوہ نائب وزیراعظم، وزیردفاع، دربارِ شاہی کا انچارج اور سعودی تیل کمپنی آرامکو کے بورڈ کا چیئرمین بھی بنایا گیا۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ آرامکو کے چیئرمین کا عہدہ اِس سے پہلے شاہی خاندان سے ہٹ کر صرف ٹیکنوکریٹس کو ہی دیا جاتا تھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے شراکت اقتدار پاتے ہی پاؤں پھیلائے، یمن جنگ چھیڑی، سعودی عرب کا تیل سے انحصار ختم کرکے ریاست کو صنعت و کاروبار کی طرف لانے کے اعلانات کئے اور ساتھ ہی سفارتی سطح پر رابطے بڑھائے۔

مارچ 2017 میں نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں لنچ پر ملاقات کی، یہ ایک غیر معمولی ملاقات تھی، جس کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک معتمد نے میڈیا کو بتایا کہ ’یہ ملاقات امریکا سعودی عرب تعلقات میں ایک ٹرننگ پوائنٹ تھی۔‘

اِس ملاقات کے بعد سعودی شاہی خاندان کے اندر بھی بے چینی کی ایک لہر اُٹھی اور سب کو اندازہ ہوگیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان اقتدار کی کشمکش میں امریکا کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اِسی ملاقات میں ٹرمپ کا پہلا دورہِ سعودی عرب بھی طے پایا۔ پھر مارچ میں ہونے والی ملاقات کا نتیجہ 21 جون کو سامنے آیا، جب امریکا اور سابق صدر اوباما کے منظورِ نظر سمجھے جانے والے شہزادہ محمد بن نائف کو نہ صرف ولی عہد سے ہٹایا گیا بلکہ ریاست کے تمام عہدوں سے ہٹا کر محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کردیا گیا، اور نائب ولی عہد کا فرمائشی عہدہ بھی ختم کردیا گیا۔

اِس بڑے اور غیر معمولی فیصلے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اب اندرونی کشمکش بڑھ جائے گی جسے روکنے کے لیے سرکاری ٹی وی کو ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں محمد بن سلمان کو برطرف ولی عہد محمد بن نائف کے ہاتھوں کو چومتے دکھایا گیا جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دونوں کے درمیان کوئی چپقلش نہیں ہے۔ لیکن اِس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی یہ اطلاعات مستقل آتی رہیں کہ محمد بن نائف نظر بند ہیں اور کوئی اُن سے ملاقات نہیں کرسکتا۔

ولی عہد بنتے ہی محمد بن سلمان نے شاہ سلمان تک اہم افراد کی رسائی بھی محدود کردی اور بلاشرکت غیرے اقتدار کے مالک بن کر قطر کے خلاف محاذ کھولا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی اقتدار کی کشمکش پر جرمن خفیہ ادارہ بی این ڈی نے 2016 میں ہی خبردار کردیا تھا کہ محمد بن سلمان کی دیگر ریاستوں میں مداخلت مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر بگاڑ کے ساتھ سعودی ریاست کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔

سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر گرفتار تمام افراد اہم ہیں لیکن 2 شہزادوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ سب سے پہلے شہزادہ الولید بن طلال، جو شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ٹرمپ دونوں کے بڑے اور کھلے ناقد ہیں۔ شہزادہ الولید بن طلال، محمد بن سلمان کے وژن 2030 کی امریکی میڈیا میں کھل کر مخالفت کرتے رہے ہیں بالخصوص سعودی آرامکو کے حصص کی نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے فروخت کے عمل کی شہزادہ ولید نے کھل کر مخالفت کی۔

امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کاروباری تعلقات رکھنے والے شہزادہ ولید نے صدارتی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ کو امریکا کے لیے باعثِ شرمندگی قرار دیا تھا جس کا جواب ٹرمپ نے ٹویٹر پر دیتے ہوئے کہا کہ شہزادہ ولید باپ کی دولت کے بل پر امریکی سیاست میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مخاصمت کی تازہ مثال نیویارک کے سرمایہ کاروں کے وفد کی ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر سے ملاقات ہے، جس میں شہزادہ ولید بھی شامل تھے۔ شہزادہ ولید اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے درمیان اُس موقع پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ گرفتاریوں کے اعلان سے ایک ہفتہ ہی پہلے صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر سمیت وائٹ ہاؤس کے 3 اعلیٰ عہدیداروں نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا۔ نیویارک ٹائمز، بلومبرگ سمیت امریکی میڈیا نے اِن سب عوامل کو بھی شہزادہ ولید کی گرفتاری سے جوڑا ہے۔

اِسی طرح شہزادہ متعب کی گرفتاری بھی اقتدار کی کشمکش کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے کیونکہ شہزادہ متعب کو تخت کے جائز اُمیدواروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شہزادہ متعب سابق شاہ عبداللہ کے بیٹے ہیں، جنہیں شاہ عبداللہ نے خود نیشنل گارڈز کا سربراہ مقرر کیا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ شاہ عبداللہ اُنہیں مستقبل کی بڑی ذمہ داری کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ شہزادہ متعب سعود خاندان کی شمر شاخ کے بھی آخری فرد سمجھے جاتے ہیں اور آل سعود میں شمر قبیلہ حکمرانی کا سب سے پہلا حق دار ہوتا ہے۔

سعودی شہزادوں کی کرپشن کے نام پر گرفتاریوں کا جواز فراہم کرنے کے لیے سعودی سرکاری علماء سے فتویٰ بھی جاری کرایا گیا لیکن سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ شاہی خاندان کی دولت اور سرکاری خزانے کے استعمال میں آج تک کوئی فروق روا نہیں رکھا گیا۔ کرپشن کی تعریف ہی متعین نہیں کہ شہزادوں پر کون سا مال حلال ہے اور کون سا حرام؟

جرمن انٹیلی جنس ایجنسی کا انتباہ اپنی جگہ، مگر مئی 2017 میں محمد بن سلمان نے العربیہ ٹی وی اور سعودی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں خطرے کی گھنٹیاں بجائیں۔ اُس انٹرویو میں محمد بن سلمان نے ایران کے بارے میں فرقہ وارانہ انداز میں گفتگو کی اور کہا کہ ایران مکہ اور مدینہ پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس کے بعد وہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر شیعہ نظریات نافذ کرکے حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔

ایران کے عزائم پر شہزادہ محمد بن سلمان کا دعویٰ ایک طرف لیکن سعودی عرب خود خطے میں کس طرح کے عزائم رکھتا ہے، اِس کا اندازہ امریکی صدر کے دورہ ریاض اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے موقع پر ہونے والے معاہدوں سے ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے امریکا سے ایک عشرے کے لیے 350 ارب ڈالر کا دفاعی سامان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ کرکے سعودی عرب نے خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی حمایت کی قیمت ادا کی۔ ٹرمپ اِس معاہدے کو اپنے بڑی سفارتی کامیابی سمجھتے ہیں اور کسی قدر وہ حق بجانب بھی ہیں، کیونکہ صدر اوباما کے دور میں سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار رہے اور تناؤ کی وجہ ایران کے ایٹمی معاہدے پر سمجھوتہ تھا جسے اوباما اپنی بڑی سفارتی کامیابی گردانتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتے کو نہ صرف ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ ایران کے خلاف عسکری کارروائی کے موڈ میں بھی ہیں۔ جس کا واضح اشارہ یکم نومبر کو سی آئی اے کی طرف سے جاری کی گئی دستاویزات ہیں، جن میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن اور ایران کے مبینہ تعلقات کا ذکر ہے۔ اِن دستاویزات کے اجراء پر امریکی کانگریس کے ارکان نے بھی ایران کے خلاف جنگی مہم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ سی آئی اے کے سابق اعلیٰ عہدیدار بھی اِن دستاویزات کے اجراء کے پیچھے چھپے ارادوں پر تحفظات ظاہر کرچکے ہیں۔

ایرانی اثر و رسوخ کے توڑ کے لیے سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ عادل الجبیر سمیت اہم سعودی عہدیداروں نے عراق کے 3 دورے کئے اور اِن دوروں کے بعد عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کی جون میں ریاض جاکر سعودی شاہ سلمان سے ملاقات بھی خطے میں بنتے نئے اتحادوں کی طرف اہم اشارہ ہے۔ دو دن پہلے لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کا سعودی ٹی وی کے ذریعے ویڈیو بیان میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ بھی خطے میں کشمکش کا نکتہ عروج ہے، کیونکہ کوئی بھی سیاست دان اتنے بڑے منصب سے استعفیٰ کی وجوہات ہمیشہ سیاسی یا ذاتی بتاتا ہے، لیکن سعد الحریری نے لبنان میں حزب اللہ اور ایران کی سرگرمیوں، اپنے قتل کی سازش کو استعفیٰ کی بنیاد بنایا۔ سعد الحریری کا بیان بھی ایران کے لیے ایک چارج شیٹ ہے۔

سعودی شاہی خاندان کی کشمکش کے دوران اگر کوئی شہزادہ یا شہزادوں کا گروہ بغاوت پر اتر آیا تو محمد بن سلمان کے معاشی پروگرام کے تحت ملک میں بڑھتی بیروزگاری، سادگی کے نام پر مراعات کی واپسی کے اقدامات عوام میں بغاوت کی پذیرائی کا باعث بن سکتے ہیں، جن پر قابو پانا ہرگز آسان کام نہیں ہوگا۔

تحریر۔۔۔۔آصف شاہد(بشکریہ ڈان نیوز)

وحدت نیوز(اسلام آباد) آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد امجد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹیوٹر پراپنے ایک پیغام میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سیدناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ  کے لاہور سے سادہ لباس سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں اغواء کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، اپنے بیان میں انہوں نے ناصرشیرازی ایڈوکیٹ کے اغواءپر پنجاب حکومت کی خاموشی کو مجرمانہ فعل قرار دیا ، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ناصر شیرازی کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے تاکہ ان کے اہل خانہ اور جماعت کے اضطراب کا خاتمہ ہو۔

وحدت نیوز(ہری پور) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین خیبر پختون خوا نے جماعت کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی کی اغواء کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اغواء میں صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کی ایما پرصوبائی حکومت ملوث ہے جس کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کو انارکی کی طرف نہ لے کے جائے ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین خیبر پختون خوا کی صوبائی سیکرٹری جنرل راضیہ جعفری ایڈوکیٹ ،ڈپٹی سیکرٹری جنرل مسز روبینہ واجد او ر ضلعی جنرل سیکرٹری تصور نقوی نے اپنے مشترکہ بیان میں کیا۔

 ان کا کہناتھا کہ سید ناصر شیرازی نے پنجاب کے صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک کیس دائر کیا جس کی پاداش میں ناصر شیرازی کو بیوی بچوں کے ہمراہ سفر کے دوران وردی میں ملبوس افراد نے اغواء کیا جن کا اس کے بعد کوئی پتہ نہیں جو کہ انتہائی افسوس ناک اور شرم ناک بات ہے پنجاب حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر اوچھے ہتھکنڈوں اتر آئی ہے جس کی مذمت کرتے ہیں اورمطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور ملک کو انارکی کی طرف نہ لے کرجائے بصورت دیگر اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ان کا کہنا تھا کہ اگر ناصر شیرازی کو رہا نہ کیاگیا تو مرکزی قیادت کی کال پر خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ ہوں گی ۔

وحدت نیوز(مظفر آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی ایڈووکیٹ کے اغوا کے خلاف، شیعہ جوانوں کی ماورائے عدالت گرفتاریوں اور آزاد حکومت کی علامہ تصور جوادی کیس پر غفلت کے خلاف ریاست آزادکشمیر میں احتجاجی مظاہرے۔ بروز جمعہ یوم احتجاج کے طور پر منایا گیا۔ خطباء نے جمعہ کے خطبات میں احتجاج ریکارڈ کروایا۔ مرکزی احتجاجی مظاہرہ سینٹرل پریس کلب کے قریب برہان مظفر وانی چوک مظفرآباد میں ہوا، جس میں مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزادکشمیر ڈویژن کے رہنماؤں اور کارکنوں، علمائے کرام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی۔مظاہرین نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر ناصر شیرازی کے اغوا اور علامہ تصور جوادی کیس پر آزاد حکومت کی غفلت کے خلاف نعرے درج تھے۔ شرکا ء نے پنجاب اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ احتجاجی مظاہرہ سے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر مولانا سید طالب ہمدانی، ترجمان ایم ڈبلیو ایم آزادکشمیر مولانا حمید نقوی، نمائندہ آئی ایس او سید رضی عباس، رہنما ایم ڈبلیو ایم آزادکشمیر مولانا زاہد کاظمی، مولانا جواد سبزواری اور سید ممتاز حسین نقوی نے خطاب کیا۔

مقررین نے کہا مجلس وحدت مسلمین ایک ملک گیر سیاسی و مذہبی جماعت ہے اور جماعت کے مرکزی سینئر رہنما ناصر شیرازی ایڈوکیٹ کو اغوا کرکے حکومت پنجاب نے جس غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا ہے اور سیاسی و مسلکی انتقام کا مظاھرہ کیاجس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایم ڈبلیو ایم ایک پُرامن جماعت ہے جس کا ملکی استحکام، رواداری و بھائی چارے کے فروغ میں اہم کردار رہا ہے۔اس جماعت نے ہمیشہ ایسی قوتوں کی مخالفت کی ہے جو ملک میں نفاق کا بیج بو کر وطن عزیز کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔رانا ثنا اللہ اپنے بیانات کے ذریعے عدلیہ کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ اس کے خلاف ناصر شیرازی ایڈوکیٹ نے عدالت عالیہ میں پٹیشن دائر کر رکھی تھی جس پر انہیں انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے اغوا کرایا گیا ہے۔انہوں نے کہا ریاستی اداروں کو گھر کی لونڈی سمجھنے والے نا اہل حکمران اپنے انجام سے زیادہ دور نہیں ہیں۔مقررین نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ ایک ملک گیر مذہبی و سیاسی جماعت کے سینئر رہنما کے اغوا پرسوموٹو ایکشن لیتے ہوئے ذمہ دار اداروں کو طلب کیا جائے۔ انہوں نے کہا سیکورٹی اداروں کو دہشت کی علامت بنا کرعوام کو عدم تحفظ کا شکار کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ملک میں قانون و آئین کی بجائے طاقت و اختیارات کی حکمرانی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا گیا تو پھر قانون کے نام پر قانون شکنی کرنے والے عناصر کے حوصلوں کو تقویت ملتی رہے گی۔انہوں نے کہا کہ ناصر شیرازی پر کسی قسم کا کوئی مقدمہ یا الزام نہیں ہے،ان کی جبری گمشدگی پنجاب حکومت کی غنڈہ گردی اور انتقامی کاروائی ہے۔ وزیر اعظم اور وفاقی داخلہ سے بھی مطالبہ کیا کہ ناصر شیرازی کی فوری بازیابی کے احکامات صادر کیے جائیں۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاستی اداروں کو آئین و قانون کے تابع ہونا چاہیے مگر بدقسمتی سے ادارے نا اہل حکمرانوں کی اطاعت میں پیش پیش ہیں۔ ملت تشیع کے سینکڑوں نوجوان کئی سالوں سے جبری گمشدہ ہیں۔انہیں نہ تو عدالتوں میں پیش کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کے اہل خانہ کو ان کی خیریت سے آگاہ کیا جارہا ہے۔جو بنیادی انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔ملت تشیع کے تمام نوجوانوں کو فوری بازیاب کیا جائے۔ مقررین نے علامہ تصور جوادی پر حملہ کرنے والوں کی عدم گرفتاری پر بھی آزاد حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ نو ماہ گزر جانے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آزادکشمیر حکومت نا اہل ہے۔ ریاست کے امن کے ساتھ کھیلنے والوں کو گرفتار نہ کیا جانا باعث تشویش ہے۔ کیا یہ حکمران اسلم رئیسانی کا انجام بھول گئے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ علامہ جوادی پر حملہ کرنے والوں کو جلد از جلد گرفتار کرتے ہوئے سامنے لایا جائے بصورت دیگر شہری سڑکوں پر نکلنے اور تمہارے ایوانوں کا گھیراؤ کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

وحدت نیوز(پاراچنار) مجلس وحدت مسلمین پاراچنار کی جانب سے ناصر عباس شیرازی کے اغوا اور تفتان سرحد پر پھنسے زائرین کو درپیش مشکلات کے خلاف پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق ایم ڈبلیو ایم کیجانب سے ناصر عباس شیرازی کے اغوا اور تفتان سرحد پر پھنسے زائرین کو درپیش مشکلات کے خلاف پاراچنار پریس کلب میں احتجاجی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ایم ڈبلیو ایم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر عباس شیرازی کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔ پاراچنار پریس کلب میں پریس کانفرنس سے ایم ڈبلیو ایم کرم ایجنسی کے سیکرٹری جنرل شبیر ساجدی، مسرت حسین منتظر، علامہ باقر حیدری، علامہ مزمل اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر عباس شیرازی کے اغوا کو بزدلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں نے کہا کہ معزز شہریوں کا اغواء پنجاب حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور شہباز شریف و رانا ثناء اللہ اپنے جرائم چھپانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ شبیر ساجدی کا کہنا تھا کہ ناصر عباس شیرازی کو ملک بھر سے لاپتہ افراد کے حق میں بولنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت بیرونی اشاروں پر ناچنا بند کر دے اور ناصر عباس شیرازی کو فی الفور بازیاب کرایا جائے۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنما شبیر ساجدی نے تفتان بارڈر پر پھنسے زائرین کی مشکلات حل نہ کرنے پر بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت زائرین کے امیگریشن پراسس اور دیگر مسائل کے حل کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے، تاکہ زائرین چہلم شہدائے کربلا میں شرکت کے لئے بروقت کربلا معلٰی پہنچ سکیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree