The Latest
بحرین میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی و دینی جماعت الوفاق الوطنی کا کہنا ہے کہ وہ یوم القدس کے دن کے آغاز کے پہلے ہی سکینڈ میں القدس کی ریلی کا آغاز کرینگےعربی زبان کے العالم نیوز چینل کے مطابق
الوفاق کا کہنا ہے کہ یوم القدس کی ریلی در حقیقت اسلام کی پکار پر لبیک کہنا ہے اور اس ریلی کا دوسرا مقصد امت اسلامیہ اور ملت عرب میں اتحاد اور بھائیاا چارگی کی مضبوطی ہے اور اس کا تیسرا مقصد امریکہ ، اسرائیل اور خطے میں ان کے حامیوں کی استعماری پالیسیوں کی نفی کرنا ہے
واضح رہے کہ بحرینی بادشاہت امریکہ کے ساتھ گہرے روابط کے سبب بحرین میں ہر اس پروگرام پر پابندی لگاتی رہی ہے جسے امریکہ مخالف سمجھا جائے بحرینی عوام گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے ہوا ہے مسلسل جمہوریت اور بنیادی حقوق جیسے آزادی اظہار ،حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں اب تک درجنوں کی تعداد میں عوام بحرینی فورسز کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہی
امریکی اخبار ترانپٹ نے مصر کے ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط کی خبردیتے ہوئے لکھا ہے مصر اور ایران کے بڑھتے ہوئے روابط اسرائیل کے لئے خطرناک پیغام اپنے اندر رکھتے ہیں
ترومپٹ نامی اخبارمیں ریچرڈبالمر کی جانب سے نشر ہونی والی رپوٹس کے مطابق جزیرہ نما سینا میں فوج کے ایک مرکز پر حملہ کا جواب جس انداز سے مصری حکومت نے دیا ہے وہ اسرائیل کے حق میں بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ مصری پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی اخوان المسلمین نے مصرفوجی مرکز پر حملے کے ذمہ دار اسرائیلوں کو ٹھرایا ہے ،اخوان المسلمین کی ویب سائیڈ میں لکھا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہو
اس رپورٹ کے مطابق اس دوران میں مصری صدر محمد مرسی ایران کی جانب تعلقات میں بہتری کے لئے بڑے بڑے قدم اٹھا رہا ہے
ایرانی نائب صدر حمید بقائی کی مصری صدر محمد مرسی کے ساتھ گذشتہ ملاقات کورپورٹ سیاسی تختہ الٹنے سے تعبیر کرتا ہے ۔
اولین گورڈن کہتا ہے کہ نیا مصر اسرائیل کے ساتھ روابط میں خاص دلچسپی نہیں رکھتا یہاں تک کہ اسرائیل مصر امن و امان کے حوالے سے جو معلومات فراہم کرتا ہے اسے مصری حکومت خاص اہمیت نہیں دی رہی
اگر مصر ی صدر ایران میں ۔۔۔میں شرکت کے لئے آتے ہیں تو پھر انقلاب اسلامی ایران کے بعد پہلے مصری صدر ہونگے جنہوں نے ایران کا سفر کیا ہے
لیکن چونکہ اس وقت تک آفیشلی طور پر مصری صدر کی جانب سے شرکت یا عدم شرکت کے بارے میں کچھ نہیں کہاگیا اس لئے اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا
اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس شہر قم میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی یاد میں ایم ڈبلیو ایم قم کی جانب سے عظیم الشان سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ سیمینار سے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری اورحجت الاسلام و المسلمین سید شفقت شیرازی سیکرٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے خطاب کیا۔ سیمنار میں علماء کرام اور حوزہ علمیہ قم میں موجود دینی طلاب کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پروگرام کے آغاز میں یکم جولائی قرآن و سنت کانفرنس کے حوالے سے ایک ویڈیو کلپ کی نمائش کی گئی۔ مجلس وحدت مسلمین قم نے پروگرام کے اختتام پر دینی
طلاب کے اعزاز میں افطار ڈنر کا اہتمام بھی کیا۔
سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری جو ان دنوں برسی قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی میں شرکت اور زیارات کی غرض سے ایران گئے ہوئے جب تہران ائرپورٹ پہنچے تو ایم ڈبلیو ایم قم المقدس کے عہدہ دران اور علمائے کرام نے آپ کا استقبال کیا اور آپ
تہران سے سرزمین علوم آل محمد قم المقدس چلے آئے اس عظیم الشان سمینار سے خطاب کرتے ہوئے ناصرملت نے کہا
شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) قوم کو کہا کرتے تھے کہ اپنے سیاسی کردار کو ادا کریں، دشمنوں نے آپ کو ہٹانے کیلئے اندرونی رکاوٹیں بھی کھڑی کیں، 80 کیلومیٹر پیدل چل کر امام علی علیہ السلام کی زیارت کیلئے جانے والے شخص یعنی علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کو مقصر کہا گیا، لیکن جب آپ نے تمام رکاوٹیں کو عبور کر لیں تو آپ کو شہید کر دیا گیا۔
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ خدا شہیدوں کا خون رائیگان نہیں جانے دیتا اور ان کی آرزوں کو برآوردہ کرتا ہے۔ آج مجلس وحدت مسلمین پاکستان شہداء کی وارث ہے۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی خواہش تھی کہ ملت میں اتحاد و اتفاق ہو، ماتمی اور تنظیمی ایک جگہ جمع ہوں اور ہم نے شہید کی اس خواہش کو شہید کی یاد میں اور ان کی قرآن و سنت کانفرنس کی یاد میں جولائی کے مہینے میں مینار پاکستان پر قرآن و سنت کانفرنس کو منعقد کیا اور ملی وحدت کا ثبوت دیا اور شہید کی اس آرزو کو پورا کیا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ہمیں بصیرت کے ساتھ آگے چلنا ہے، صبر کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا، ہم نے آپس میں نہیں الجھنا۔ انہوں نے کہا ہم کسی بھی شیعہ سے نہیں لڑنا چاہتے اور کوشش کریں گے کہ حتی کسی بھی داخلی مسئلہ کا گلہ بھی نہ کریں۔
شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی چوبیسویں برسی کی مناسبت سے منعقدہ اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری امور خارجہ حجت الاسلام سید شفقت شیرازی نے کہا کہ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی اپنی شہادت کے وقت بہت کم عمر تھے اور وہ عین جوانی کے عالم میں شہید ہوئے، لیکن آج تک پاکستان کی ملت تشیع آپ کو نہیں بھلا سکی اور اسکی سب سے بڑی وجہ آپ کا خلوص اور خدا کی خاطر کام کرنا تھا۔
ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری امور خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ آپ شجاع، نڈر اور مبارز انسان تھے۔ ایک وقت جب قبلہ مفتی جعفر حسین کے دور میں اسلام آباد مظاہرے کے دوران حالات بہت کشیدہ ہوگئے اور علماء کرام پریشان ہونے لگے کہ اگر پولیس اور فوج کی طرف سے کسی سخت اقدام کی صورت میں جوانوں کی شہادت ہوگئی تو ان کے خون کا ذمہ دار کون ہوگا اور اسی وجہ سے بعض بغیر مطالبات کے واپس پلٹ جانے کا فیصلہ رکھتے تھے تو آپ نے آگے بڑھ کر سب کو مخاطب کیا اور کہا کہ اگرچہ یہاں افراد کی موت کا مسئلہ ہے، لیکن اگر ہم بغیر مطالبات منوائے واپس پلٹ جائیں گے تو یہ نظریہ کی موت کا باعث بنے گا۔
علامہ شفقت شیرازی کا مزید کہنا تھا کہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی حفاظت خود کرنی ہے۔ آپ نے کہا کہ شہید کی ایک اور صفت معرفت ولایت، اطاعت ولایت، اور ربط با ولایت ہے۔ آپ ہمیشہ ولایت کے ساتھ مربوط رہے اور اس نظریہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔ آپ نے شہید کی زندگی کے پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ شہید عارف حسین الحسینی سارا دن فعالیت کرتے رہتے اور رات کو مصلٰی عبادت پر گذارتے تھے ایم ڈبلیو ایم قم کی جانب سے اس سیمنار کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے پینا فیلکسوں اور بینرز کے زریعے سمینار حال کو سجایا گیا تھا جبکہ قائد شھید کی بڑی بڑی تصاویر بھی آوازں تھیں ،جشن آزادی کی مناسبت سے طن عزیز کے جھنڈے اور مجلس وحدت کے جھنڈے جگہ جگہ نظر آرہے تھے سمینار میں اردو زبان سے تعلق رکھنے والے سیکنڑوں علمائے کرام اور طلاب نے شرکت کی اور شہید قائد کے حضور خراج عقیدت پیش کیا
سربراہ شوری عالی ایم ڈبلیو ایم علامہ شیخ حسن صلاح الدین نے اسلامی معاشرے کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حاکمیت الہی، قانون کی بالادستی، خیر و بھلائی میں تعاون، امرباالمعروف و نہی عن المنکر، وحدت، اخوت، عدل و انصاف اور تحرک اسلامی معاشرے کی خصوصیات ہیں
''اسلامی معاشرہ کے خدوخال اور قیام کے عملی تقاضے'' کے عنوان سے ماہانہ علمی و فکری سیمینار کا
انعقاد جامعہ الکوثر اسلام آباد میں کیا گیا۔ امامیہ آرگنائزیشن اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں معاشرے میں فعال افراد کی رہنمائی کے لئے سیمینارز کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ جامعہ الکوثر کے آڈیٹوریم میں منعقدہ اس سیمینار میں طلباء، سینئرز اور دیگر تنظیموں کے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس نشست کےمقرر سربراہ شوری عالی مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ شیخ حسن صلاح الدین نے اسلامی معاشرے کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حاکمیت الہی، قانون کی بالادستی، خیر و بھلائی میں تعاون،
ایم ڈبلیو ایم شوریٰ عالی کے چیئرمین علامہ شیخ صلاح الدین نے خطاب کیا۔ معاشرے کے خدوخال بیان کرتے ہوئے علامہ شیخ صلاح الدین کا کہنا تھا کہ اسلامی حکومت میں حاکمیت توحید کی ہوتی ہے اور معاشرہ فحش اور منکرات سے پاک، عدل و انصاف کا بول بالا اور خیر و بھلائی کا ماحول ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلامی معاشرے میں قانون کی بالادستی ہوتی ہے اور گروہ بندی، طرفداری، صوبائیت اور لسانیت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی معاشرہ متحد ہوتا ہے اور تمام امور میں اتحاد و وحدت اور نظم ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں انتشار و اختلافات اس کی اصل روح کو ختم کر دیتے ہیں اور وہ معاشرہ مردہ معاشرہ بن جاتا ہے۔ علامہ شیخ صلاح الدین کا کہنا تھا کہ اسلامی معاشرہ متحرک معاشرہ ہوتا ہے اور اس میں جمود نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اجتہاد معاشرے کو تحرک اور رہنمائی دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خدا کی راہ میں قتال کرنا اسلامی معاشرے کا خاصہ ہے، لیکن وہ مسلح قتال ہونا ضروری نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ اس کے خدوخال کو سمجھا جائے اور ٹھوس بنیادوں پر کام کیا جائے، اس کے لیے ضروری ہے کہ افراد کی تربیت کی جائے، کیونکہ فرد ہی معاشرے کی اکائی ہوتا ہے، اگر اکائی کمزور ہوگی تو مثالی معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
افراد سازی کے بغیر معاشرہ سازی نہیں ہوسکتی۔ اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ تک براہ راست رسائی حاصل کی جائے اور قانون سازی کے عمل میں کردار ادا کیا جائے اور اسلامی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مکتب کا نظام نظام امامت ہے اور امامت کے نفاذ کا راستہ صرف نظام ولایت فقیہ ہے۔
سیمینار کے اختتام پر علامہ حسن صلاح الدین نے شرکائے سیمینار کے پوچھے گئے سوالات کے سیر حاصل جواب دیئے۔ انہوں نے کہا کہ ملت تشیع کو اس وقت اتحاد و وحدت کی اشد ضرورت ہے۔ اسلامی معاشرے کے قیام بارے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلامی معاشرے کا قیام ہمارے تمام مسائل کے خاتمے کے لئے ضروری ہے
امرباالمعروف و نہی عن المنکر، وحدت، اخوت، عدل و انصاف اور تحرک اسلامی معاشرے کی خصوصیات ہیں۔
مصرکے صدر محمد مرسی نے فلیڈمارشل طنطاوی کو برطرف کردیا ٹی وی پر مصری عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد کسی فرد کو ہدف بنانا یا کسی خاص ادارے کو شرمندہ کرنا نہیں ہے
محمد مرسی کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ ملک کی فوجی قیادت کو اپنے عسکری کردار پر توجہ دینے کا موقع فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آج جو فیصلہ کیا اس کا مقصد مخصوص افراد کو نشانہ بنایا یا اداروں کو شرمندہ کرنا نہیں تھا اور نہ ہی میں آزادیاں سلب کرنا چاہتا ہوں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں کسی کو کوئی منفی پیغام نہیں دینا چاہتا بلکہ میرا مقصد صرف اس قوم اس کے عوام کا فائدہ ہے‘۔
صدارتی ترجمان یاسر علی کی جانب سے اتوار کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’فیلڈ مارشل طنطاوی کو آج سے ریٹائر کر دیا گیا ہے‘۔ ترجمان کے مطابق جنرل عبدالفتاح کو ملک کا نیا فوجی سربراہ اور وزیرِ دفاع مقرر کیا گیا ہے۔
ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر کے اختیارات کم کرنے کے آئینی حکم کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ادھر اس فیصلے کے سامنے آنے کے بعد ہزاروں افراد قاہرہ کے تحریر سکوائر میں جمع ہوگئے ہیں اور انہوں نے صدر کے فیصلے سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور فوج کے سربراہ کی طرفی پر خوشی منائی
"محمد مرسی جن کا تعلق اخوان المسلین سے ہے جو عوامی انقلاب کے بعدجون کے عام انتخابات میں صدر منتخب ہوئے تھے۔
فوجی سربراہ پر اس سے قبل بھی عوام کی جانب سے مختلف الزامات لگتے رہے ہیں جبکہ فوج اور اخوان المسلمین کے درمیان بھی ہمیشہ سے ایک تناو رہا ہے جس کی ایک وجہ فوج کی جانب سے ڈکٹیٹروں کی حمایت بھی بتائی جاتی ہے
اب یہ واضح نہیں ہے کہ مصری صدر کے پاس فوجی سربراہ کو ریٹائر کرنے کا اختیار ہے یا نہیں اور کیا چھہتر سالہ فیلڈ مارشل طنطاوی اس فیصلے کو قبول کریں گے یا نہیں
اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس شہر قم میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی یاد میں مجلس وحدت مسلمین قم کی جانب سے عظیم الشان سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ اس سیمینار سے حجت الاسلام و المسلمین سید شفقت شیرازی سیکریٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور مرکزی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان حجت الاسلام و المسلمین ناصر عباس جعفری نے خطاب کیا ۔ سیمنار میں بڑی تعداد میں علما اور حوزہ علمیہ قم میں موجود دینی طلاب نے شرکت کی۔ پروگرام کے آغاز میں یکم جولائی قرآن و سنت کانفرنس کے حوالے سے ایک ویڈیو کلپ کی نمائش کی گئی ۔ مجلس وحدت مسلمین قم نے پروگرام کے اختتام پر دینی طلاب کے اعزاز میں افطار اور کھانا دیا۔
شہید قائد کی چوبیسویں برسی سے خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام سید شفقت شیرازی نے کہا کہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی اپنی شہادت کے وقت بہت کم عمر تھے اور عین جوانی کے عالم میں شہید ہوئے لیکن آج تک پاکستان کی ملت تشیع آپ کو نہیں بھلا سکی اور اسکی وجہ آپ کا خلوص اور خدا کی خاطر کام کرنا تھا۔ سیکرٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے مزید کہا کہ : آپ شجاع، نڈر اور مبارز انسان تھے۔ ایک وقت جب قبلہ مفتی جعفر حسین کے دور میں اسلام آباد مظاہرے کے دوران حالات بہت کشیدہ ہو گئے اور علما پریشان ہونے لگے کہ اگر پولیس اور فوج کی طرف سے کسی سخت اقدام کی صورت میں جوانوں کی شہادت ہوگئی تو ان کے خون کا ذمہ دار کون ہوگا اور اسی وجہ سے بعض بغیر مطالبات کے واپس پلٹ جانے کا فیصلہ رکھتے تھے تو آپ نے آگے بڑھ کر سب کو مخاطب کیا اور کہا کہ اگر چہ یہاں افراد کی موت کا مسئلہ ہے لیکن اگر ہم بغیر مطالبات منوائے واپس پلٹ جائیں گے تو یہ نظریہ کی موت کا باعث بنے گا۔ شہید فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی حفاظت خود کرنی ہے۔ آپ نے کہا کہ شہید کی ایک اور صفت معرفت ولایت، اطاعت ولایت، اور ربط با ولایت ہے۔ آپ ہمیشہ ولایت کے ساتھ مربوط رہے اور اس نظریہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔ آپ نے شہید کی زندگی کے پہلووں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ : شہید عارف حسین الحسینی سارا دن فعالیت کرتے رہتے اور رات کو مصلی عبادت پر گذارتے۔
شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی برسی سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل حجت الاسلام و المسلمین علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا : کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ تاریخ گذرنے کے ساتھ ساتھ مذاہب اور مکاتیب فکری میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں جہاں دوسرے ادیان اور مذاہب میں تبدیلیاں آئی ہیں وہیں شیعہ مسلمانوں میں بھی تاریخ گذرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہی۔ ہم مذہب تشیع کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ کہیں زیدیہ فرقہ قیام میں آیا اور کہیں واقفیہ فرقہ وجود میں اور اسی طرح غیبت کبری کے بعد شیعہ اثنا عشریوں کے درمیان بھی بعض ایسے افراد نے جنم لیا کہ جنہوں نے علما اور فقہاء کے دامن کو چھوڑ دیا اور ان کی اس جدائی نے انہیں اخلاقی برائیوں اور بے راہ رویوں کی جانب گامزن کردیا۔ وہ علما اور فقہا اور تقلید سے دوری کی وجہ سے قرآن اور تعلیمات محمد و آل محمد سے بھی دور ہوگئے اور یہ بات ان کی فکری بے راہ روی کا سبب بنی۔ علامہ ناصر عباس جعفری نے مزید کہا: ایک اور اہم انحراف جو شیعہ اثنا عشری مسلمانوں کے درمیان وجود میں آیا وہ سیاست اور دین کی جدائی کا نظریہ تھا یعنی ولایت سے دوری۔ آپ نے کہا شیعہ اثنا عشری نے کبھی بھی سقیفہ کو قبول نہیں کیا، گویا ہم دین کو سیاست سے جدا نہیں کرسکتے ہم اس بات کے قائل نہیں ہوسکتے کہ سیاسی لیڈر تو اہل بیت کے علاوہ کوئی اور ہوں اور دینی رہبروں کی جگہ ہم اہل بیت کو قبول کریں۔ آپ نے فرمایا: ہمارے دینی اور سیاسی دونوں میدانوں میں رہنما اہل بیت اور آئمہ ہی ہیں۔ اگر سیاست کو دین سے جدا سمجھا جائے تو بقول اقبال یہ چنگیزیت ہوتی ہے اور یہی سیکولر فکر بعد میں یزیدیت کی پیدائش کا سبب بنتی ہے۔ آپ نے کہا یہ غلط فکر حوزات علمیہ میں بھی رواج پاگئی اور اسی کے سبب ہم حوزات میں صرف توضیح المسائل کے وجود کو دیکھتے ہیں جو فردی مسائل کا حل ہے لیکن دوسرے انسانی علوم اور معاشروں کے مسائل کے بارے میں علوم کو نہیں پاتے۔ آج ہم دینی فکر کو علما سے لیتے ہیں لیکن اقتصادی، اجتماعی اور معاشرتی فکروں کو آکسفورڈ اور کیمبرج سے حاصل کرتے ہیں کہ جو دین اور سیاست میں جدائی کا شاخسانہ ہے۔ آپ نے کہا یہی سوچ باعث بنی کہ آج معاشروں پر لبرل ڈیموکریٹک نظام رائج ہے یعنی عوام کی عوام پر حکومت جبکہ ہمارا دینی اور اسلامی نظریہ خدا کی عوام پر حکومت ہے۔ اس نظریہ کہ وجہ سے ملت تشیع کے جوان بھی اصل ہدف سے پیچھے رہ گئے آج معاشروں میں عزاداری تو موجود ہے لیکن یزیدیت کا تعاقب موجود نہیں ہے۔ اس نظریہ کے باعث اور غدیر سے دوری نے ہمیں امریکی اور یورپی نظاموں کا گرویدہ کر دیا۔ ہما را نعرہ ''اشھد ان علیا ولی اللہ'' ہے لیکن عملی طور پر ہم امریکہ اور یورپ کو اپنا سرپرست مانتے ہیں۔ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ: اب یہاں مصلحین کا کردار آتا ہے ، سب سے پہلی مصلح جناب سیدہ زہرا ''س'' کی ذات ہے، آپ نے انحراف کے خاتمے اور معاشرے میں اصلاح کی کوشش کی اور اس راہ میں اپنی جان بھی فدا کردی۔ آپ نے فرمایا ہمارے بارہ آئمہ میں سے گیارہ شہید ہیں اور انہوں نے معاشرے میں اصلاح کا کام انجام دیا۔ آپ نے کہا کہ آج کے زمانے میں اس انحراف کا مقابلہ امام خمینی ''رح'' نے انجام دیا اور معاشرے میں اصلاح کا کام کیا ۔ آپ نے سیاست اور دیانت کی جدائی کے نظریہ پر خط بطلان کھینچا اور ولایت کے فقیہ کے نظریہ کو متعارف کروایا۔ آپ نے مزید کہا کہ : ہم اپنے اہل سنت بھائیوں کی طرح یہ نظریہ قبول نہیں کرسکتے کہ غیبت کبری میں آئمہ ہمیں کوئی نظام نہیں دے کر گئے اور اپنے جانشین کے بارے میں ہمیں کوئی حکم نہیں دیا۔ لوگوں نے غیبت کبری میں بھٹو، نوازشریف اور شاہ جیسے حکمرانوں کو اپنا سیاسی پیشوا تسلیم کر لیا۔ نظام خلافت میں رہنے کے نتیجے میں امام علی علیہ السلام کے سامنے صفین میں اور امام حسین علیہ السلام کے سامنے کربلا میں تلواریں نکالی گئیں۔ پاکستان کی سرزمین پر اس نظریہ کی ترویج کرنے والی شخصیت کا نام شہید علامہ عارف حسین الحسینی ہے۔آپ نے کہا:جو لوگ شہید باقر الصدر اور شہید بہشتی کے قاتل تھے شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے بھی وہی قاتل تھے۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینی قوم کو کہا کرتے تھے کہ اپنے سیاسی کردار کو ادا کریں، دشمنوں نے آپ کو ہٹانے کیلئے اندرونی رکاوٹیں بھی کھڑی کیں، ۸۰ کیلومیٹر پیدل چل کر امام علی علیہ السلام کی زیارت کیلئے جانے والے شخص یعنی علامہ عارف حسین الحسینی کو مقصر کہا گیا، لیکن جب آپ نے تمام رکاوٹیں کو عبور کر لیں تو آپ کو شہید کر دیا گیا۔
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے مزید کہا کہ : خدا شہیدوں کا خون رائیگان نہیں جانے دیتا اور ان کو آرزوں کو برآوردہ کرتا ہے۔ آج مجلس وحدت مسلمین پاکستان شہدا کی وارث ہے۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی خواہش تھی کہ ملت میں اتحاد و اتفاق ہو ، ماتمی اور تنظیمی ایک جگہ جمع ہوں اور ہم نے شہید کی اس خواہش کو شہید کی یاد میں اور ان کی قرآن و سنت کانفرنس کی یاد میں جولائی کے مہینے میں مینار پاکستان پر قرآن و سنت کانفرنس کو منعقد کیا اور ملی وحدت ما ثبوت دیا اور شہید کی اس آرزو کو پورا کیا۔ ہمیں بصیرت کے ساتھ آگے چلنا ہے، صبر کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا، ہم نے آپس میں نہیں الجھنا۔ آپ نے کہا ہم کسی بھی شیعہ سے نہیں لڑنا چاہتے اور کوشش کریں گے کہ حتی کسی بھی داخلی مسئلہ کا گلہ بھی نہ کریں۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ملکی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ : کچھ عرصے بعد الیکشن آرہے ہیں ہم ان الیکشن میں بھر پور کردار ادا کریں گے۔ اس سلسلے میں قم کے علما ہماری مدد کریں۔ ہم نے جنگی بنیادوں پر قوم میں کام کرنا ہے۔ ہم نے قوم کوووٹ کی طاقت کی اہمیت بتانی ہے، ہم اس ووٹ کے ذریعے نظام کو بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ ہم ملت شیعہ کے کروڑوں جوانوں کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ اپنے کردار کو ادا کرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔
آج یوم آزادی ہے شاید ہمیں آزادی کی نعمت کا اتنا احساس نہ ہوں جتنا انہیں احساس ہے جو غلامی کی زندگی گذار رہے تھے جو عالمی استکبار اور ہندووں کے شکنجے میں تھے جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑا قربانیاں دیں جنکے گھر لٹے جنہوں نے ناموس کی قربانیاں دیں جولوٹے پھٹے اس پاک سرزمین پر آئے جتنا انہیں آزادی کی نعمت کا احساس ہوگا شاید ہمیں نہ ہو
آزادی اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت اور حق ہے جسے اللہ نے انسانوں کو دیا ہے کہ وہ آزادرہے
اظہار خیال اور بیان کی آزادی،عقیدے کی آزادی،لکھنے کی آزادی اس حد تک ہے کہ اس کی حدود کا تعین عدال کرتا ہے یعنی ایسی آزادی جو ظلم نہ بن جائے
چودہ اگست ہمارے لئے ایک عظیم دن ہے آج اللہ نے ایک نعمت برصغیر کے مسلمانوں کو عطاء کی اور اسلام و مسلمان کے نام پے یہ مملکت خداداد پاکستان ہمیں نصیب ہوئی
یہ مملکت اتحاد و وحدت اور ایک عظیم لیڈرشب کی وجہ سے ہم حاصل کرسکے، اگر آج بھی یہ اتحاد و وحدت باقی رہتا تو ہم بہت ترقی کرچکے ہوتے ۔
آج وطن کی ترقی کے لئے اتحاد ووحدت ،وطن دوستی کی ترویج،دینی اور قومی قدروں کی پاسداری اور شفاف جمہوری نظام کی اشد ضرورت ہے
ہماری دعا ہے کہ پاکستان اقوام عالم میں سربلند ہو اور ہر حوالے سے سب سے آگے نکلے ہماری دعا ہے کہ اس ملک میں امن ہو ترقی ہو بھائی چارگی ہو
(جشن آزادی چودہ اگست سن دو ہزار گیارہ کے خطاب سے اقتباس)
اسلام آباد ( وحدت نیوز) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ آزادی القدس کے حوالے سے ملت تشیع کی مسلسل جدو جہد کے نتیجے میں آج یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ شیعہ ہی اسلام اور عالم اسلام کے حقیقی ترجمان ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ آج اگر امام حسین ع موجود ہوتے تو ان کا اولین ہدف قبلہ اول کی آزادی ہوتی ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی دفتر میں ایم ڈبلیو ایم کے کارکنون ، عہدیداروں اور شیعہ تنظیموں کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر کے شرکا سے خطاب کے دوران کیا ، انہوں نے کہا کہ شہید مطہری کے بقول بیت المقدس کی موجودہ صورتحا ل پر اللہ کے رسول بھی تڑپ رہے ہوں گے علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ہم پر لازم ہے کہ اسی تڑپ کو محسوس کرتے ہوئے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار اور قبلہ اول کی آزاد ی کے لیے آواز بلند کریں انہوں نے کہا کہ آج مسلمان بیدارار اورآمادہ ہیں انہیں صرف ایک دعوت کے عمل سے آزادی قدس کی ریلی میں شریک کیا جا سکتا ہے ،انہون نے کارکنون پر زور دیا کہ وہ القدس ریلی کے شایان شان انعقاد کے لیے زیادہ سے زیادہ افراد کو شرکت کی دعوت دیں ۔ افطار ڈنر میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین، صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد اصغر عسکری ، راولپنڈی اسلام آباد کے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ فخر علوی کے علاوہ مرکزی اثنا عشری ٹرسٹ اسلام آباد، انجمن جانثاران اہلبیت ، مرکزی ماتمی دستہ اسلام آباد، کاروان عباس ، الصادق ٹرسٹ، فلسطین فاؤبڈیشن، آئی ایس او، آئی او، ماتمی دستہ خوشبوئے سکینہ۔ باب الحوائج ٹرسٹ ،ماتمی دستہ غلامان بتول، پاک حیدری سکاؤٹس ، گلگت بلتستاں یوتھ، یوتھ آف پارا چنار اور ایم ڈبلیو ایم راولپنڈی اسلام آباد کے تما م یونٹس کے نمائندگان شریک تھے
شب قدر میں انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے، جہالت کی بدولت انسان صدام حسین اور امام خمینی (رہ) میں تمیز نہیں کر پاتا، پاک و سلیم دل خدا کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان میں نمائندہ ولی فقیہ آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن، ناصران امام فاؤنڈیشن اور مدارس امامیہ کی جانب سے شب قدر کے موقع پر سولجر بازار کراچی کے کیتھولک گراؤنڈ میں منعقدہ معرفت ثقلین سیمینار اور اعمال شب ہائے قدر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی کے مترجم کے فرائض برادر مبشر زیدی نے انجام دیئے۔ اس موقع پر حجتہ السلام و المسلمین مولانا اصغر حسین شہیدی اور حجتہ السلام و المسلمین مولانا عقیل موسیٰ نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار کے آخر میں حجتہ السلام والمسلمین مولانا حیدر عباس عابدی کی اقتداء میں اعمال شب قدر ادا کئے گئے۔ اس موقع پر دوران اعمال نوحہ خوانی کے فرائض شجاع رضوی نے انجام دیئے۔
آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے شرکائے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے آپ کو پہچاننا ہے، اپنی نفسانی خواہشات کے آگے بند باندھنا ہے، اگر ہم نے ان خواہشوں کے آگے بند نہ باندھا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ خواہشات کی طغیانی ہمیں بہا کر لے جائے۔ خواہشات کے آگے باندھے جانے والا بند ہماری عقل ہے اور ہمیں اپنی عقل کو قوی کرکے اس کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک پاک و سلیم دل اچھے کاموں کا سرچشمہ ہوتا ہے، ہمیشہ خدا کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور انصاف پسند ہوتا ہے، لیکن جو دل پاک نہ ہو وہ فتنہ و فساد کا مرکز ہوتا ہے پس ہمیں اپنے دل کو پاک و طاہر رکھنا چاہیئے۔ اس ہی طرح پاک نیت بھی نیکیوں کا سرچشمہ ہے، کیونکہ جس کی نیت پاک ہوگی اس کا دل بھی اچھے کاموں کی طرف مائل رہے گا، اس لئے اپنی نیتوں کو شفاف رکھنا چاہیئے۔
نمائندہ ولی فقیہ نے کہا کہ اسلام کے اخلاقی احکام میں سب سے مشکل دوستی اور دشمنی کرنا ہے، ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ ہماری دوستی اور دشمنی صرف اور صرف خدا کے لئے ہو۔ جو لوگ بھی اجتماعی سطح پر کام کرتے ہیں، ان کے لئے لازم ہے کہ وہ دوستی اور دشمنی صرف خدا کے لئے کریں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو اجتماعی گناہ وجود میں آتے ہیں اور خدا کے نزدیک اجتماعی گناہ کی کوئی معافی نہیں ہے۔ انہوں نے جوانوں کو امام علی مرتضی (ع) کے بیٹوں کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا ارادہ اور فکر جدا نہیں ہے، آپ کے اندر دوسرے مومن بھائی سے بڑائی کا انگیزہ نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ یہ فتنہ و فساد کا مؤجب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احتمال دینا چاہیئے کہ شب قدر میں انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے، اسی لئے شب قدر اس کے لئے ہزار راتوں سے بہتر ہے کہ جو اپنے ارادے سے اپنے آپ کو خدا کی طرف مائل کرتے ہوئے اپنے نفس کو پاک کرے۔
آقائے بہاؤ الدینی نے مزید کہا کہ اجتماعی گناہوں کا جو زمینہ فراہم کرنے والے عوامل ہیں ان میں ایک جہالت ہے، جہالت ہی کی بدولت انسان صدام اور امام خمینی (رہ) میں تمیز نہیں کر پاتا، بس ہمیں چاہیئے کہ ایسے جاہلوں سے بچیں، کیونکہ یہ فتنوں میں ایک فتنہ ہیں، گو کہ ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان موجود ہیں، لیکن ان کے پاس عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اس کی سب سے بڑی مثال خوارج کی ہے، کہ جو اپنی جہالت کی بناء پر امام علی (ع) کے مقابلے پر آئے تھے۔ انہوں نے جاہل کی پہچان بتاتے ہوئے کہا کہ جاہل معتدل نہیں ہوتا، وہ یا تو افراط کرتا ہے یا تفریط، ہمیں ایسے جاہلوں سے بچنا چاہیئے
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت نے ایران کے شہر تبریز میں زلزے سے ہونے والے نقصانات پر اظہار افسوس کیا ایم ڈبلیو ایم سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پاکستانی عوام اپنے ہمسایہ اور اسلامی برادر ملک کی عوام کے اس دکھ میں برابر کے شریک ہیں
انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات تمام ملکوں کے لئے ایک چلینج کی شکل اختیار کر چکیں ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم اس دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور اللہ کے حضور دعاکرتے ہیں کہ اس قدرتی آفت میں جاں بحق ہونے والوں کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ عنایت کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عنایت کرے