The Latest

وحدت نیوز (انٹرویو) اقرار حسین ملک مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری روابط ہیں، اس کے علاوہ ایم ڈبلیو ایم کے سالانہ تنظیمی کنونشن کے چیئرمین بھی ہیں اور وہ اس وقت تنظیمی کنونشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں، بنیادی تعلق دینہ سے ہے۔ آئی ایس او راولپنڈی ڈویژن میں 1990ء میں بطور ممبر رہے ہیں، اس کے علاوہ  دو سال شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے زیرتربیت بھی رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی کی شہادت کے بعد سے ابتک ملی اور قومی سفر میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اقرار حسین ملک سے تنظیمی کنونشن کی تیاریوں اور ایم ڈبلیو ایم کے 6 سالہ تنظیمی سفر پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

سوال : ایم ڈبلیو ایم اپنی تاسیس کی باضابطہ طور پر دوسری ٹرم مکمل کرنے جا رہی ہے، کیا سمجھتے ہیں کہ اب مجلس وحدت مسلمین کہاں کھڑی ہے، متعین کردہ اہداف میں کامیابی کا گراف کیا رہا ہے۔؟

اقرار حسین ملک: میں بہت مشکور ہوں کہ اسلام ٹائمز نے مجھے اس موضوع پر لب کشائی کا موقع دیا۔ آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں، دیکھیں میں سمجھتا ہوں کہ قومیات چند سالوں یا برسوں کا نام نہیں ہے، قوم بنتے بنتے کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں، اس کیلئے کوئی ایک دو ٹرم کافی نہیں ہوتیں کہ آپ قوم کے تمام مسائل حل کرسکیں یا ہو جائیں، ہاں ہم نے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا اس سے کہیں آگے بڑھ گئے ہیں، کئی امور میں کامیابی سمیٹی ہیں۔ مجلس کی کارکردگی اور کامیابیوں کا تجزیہ کرنے سے قبل اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ اس کی تاسیس سے پہلے کیا صورتحال تھی، پاراچنار کا 3 سالہ محاصرہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ اور کراچی سمیت کوئٹہ کے حالات ایسے بن گئے تھے کہ یہ جماعت وجود میں آگئی، اس سے پہلے کوئی ایسی منظم سوچ موجود نہیں تھی کہ ہم نے کوئی جماعت بنانی ہے، تشیع کیخلاف ہونے والے مظالم کے خلاف جمع ہوئے، ریاست اور ریاستی اداروں کی چشم پوشی اور طالبان کو فری ہینڈ دینے کے خلاف ہم اکٹھے ہوئے، اس کے بعد سب اس نتیجے پر پہنچے کہ مکتب کی حفاظت اور اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے اجتماعی سفر ناگزیر ہے، تب جا کر مجلس کے قیام کا فیصلہ ہوا۔

آپ نے دیکھا کہ گلگت بلتستان کے غیور فرزندوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو اور سانحہ چلاس یا دوسرا سانحہ، اسی طرح ڈیرہ اسمعیل خان کے حالات ہوں یا پارہ چنار کی صورتحال، کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری کا قتل عام ہو یا پھر کراچی اور اندرون سندھ میں ہونے والے سانحات، ہر معاملے پر مجلس میدان میں نظر آئی ہے، مجلس نے سیاسی میدان میں آنے کا فیصلہ کیا تو عام الیکشن میں تجربات نہ ہونے کے باوجود ہم نے کوئٹہ سے ایک ایم پی اے کی نشست حاصل کی اور اس ممبر صوبائی اسمبلی کے کام دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک وزیر بھی اتنے کام نہیں کرسکتا، جتنے اس اکیلئے بندے نے کئے ہیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں الیکشن میں گئے، تمام حکومتی اور ریاستی مخالفت کے باوجود ہماری نمائندگی اسمبلی میں موجود ہے، اسی طرح مخدوم امین فہیم جہاں سے ہر بار جیتتے تھے اور ان کی رحلت کے بعد مجلس نے ضمنی الیکشن لڑا تو مخدوموں کو پہلی بار کسی جماعت سے پالا پڑا۔ ایم ڈبلیو ایم نے ضمنی الیکشن میں 17 ہزار ووٹ لیکر سب کو حیران کر دیا اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔

یہ یاد رکھیں کہ اس ضمنی الیکشن میں نون لیگ، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم سمیت کسی قوم پرست جماعت نے حصہ لینے کی جرات تک نہیں کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سفر جاری ہے اور مخلص رہنما اس فیلڈ میں آگے بڑھ رہے ہیں اور انشاءاللہ ایک دن ایک قوت بن کر دکھائیں گے۔ یاد رکھیں کہ جب مجلس کا قیام عمل میں آیا تھا تو ہمارے پیش نظر یہ تھا کہ قوم کو مایوسی سے نکالیں گے، اس کی دبی ہوئی آواز کو بلند کریں گے، اس قوم نے یہ صورت حال بھی دیکھی کہ چالیس پچاس جنازے اٹھے، لیکن کسی سیاسی جماعت نے تعزیت تک کرنا گوارہ نہ کی، کوئی ہمیں پوچھتا تک نہ تھا، حتیٰ میڈیا پاراچنار کے ایشو پر کوئی خبر چلاتا تھا تو اسے دوگرہوں کی لڑائی کرکے چلاتا تھا، کوئٹہ کے واقعات پر خبریں دبا دیتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے سب کچھ کر لیا ہے لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ بہت حد تک ہم نے ایسے کام کئے ہیں، جس کی بنیاد پر قوم میں امید کی کرن جاگی ہے۔ اس لحاظ سے آپ کامیابیوں کے گراف کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

سوال : ان چھ برسوں میں فلاحی اعتبار سے مجلس کہاں کھڑی ہے؟

اقرار حسین ملک: جی مجلس وحدت مسلمین نے اپنی تاسیس کے بعد خیرالعمل فاونڈیشن کا ادارہ بنایا ہے، جس نے ابتک اسپتالوں کے قیام، ڈسپنسریاں، سیلاب زدگان کیلئے گھروں کی تعمیر اور مساجد نیٹ ورک پر کام کیا ہے۔ الحمد اللہ یہ ادارہ اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہا ہے، اس وقت یہ ادارہ ایک اچھی خاصی رقم اپنے فلاحی منصوبوں پر صرف کرچکا ہے، ان منصوبوں پر ابتک کتنی رقم صرف ہوئی ہے، اس کے صحیح اعداد و شمار خیرالعمل فاونڈیشن سے مل سکتے ہیں۔

سوال : آپکی جماعت دعویٰ کرتی ہے کہ ہم شہید قائد کا علَم لیکر آگے بڑھ رہے ہیں، شہید کی فکر پر کتنا کام کیا ہے؟

اقرار حسین ملک: جی میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت تک ایم ڈبلیو ایم کی جتنی بھی فعالیت ہوئی ہے، اس کا رخ اور جہت شہید قائد کی فکر پر مشتمل ہے۔ شہید قائد نے مینار پاکستان پر قرآن و سنت کانفرنس کے موقع پر جو جہت دی تھی، ہم اسے لیکر آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنے سفر کی جانب گامزن ہیں، اہداف کا گراف کبھی اوپر تو کبھی نیچے ہوسکتا ہے، اس کی وجہ حکومتوں کی تبدیلی، سکیورٹی صورتحال اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ یقیناً یہ چیزیں آپ کی تنظیمی سرگرمیوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں، اس کے علاوہ شہید قائد نے اتحاد و وحدت کیلئے جو علَم بلند کیا تھا، اسی وجہ سے انہیں شہید وحدت بھی کہا جاتا ہے، ہم اس کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں، ہم جہاں اتحاد بین المومنین کیلئے کوشاں ہیں، وہیں ہم نے اتحاد بین المسلمین کیلئے بھی کام کیا ہے، ہم نے تمام مذہبی جماعتوں سے رابطے بڑھائے ہیں، پاکستان میں پہلی بار عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر شیعہ سنی مشترکہ اجتماعات کا انعقاد کیا گیا، ہماری طرف سے سنی بھائیوں کے استقبال کیلئے استقبالیہ کمیپ لگائے گئے اور یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان میں کوئی شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک مختصر تکفیری ٹولہ ہے، جو دونوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ سیاسی حوالے سے شہید نے قرآن و سنت کانفرنس میں ایک دستور دیا، ہم اس پر بھی گامزن ہیں۔

سوال : اس بار کنونشن کو کیا نام دیا گیا ہے اور اسکے کیا اہداف مقرر کئے گئے ہیں؟

اقرار حسین ملک: جی اس بار ہم نے کنونشن کو ’’پیام وحدت‘‘ کا عنوان دیا ہے، ہم نے یہ نام مقامی اور عالمی حالات کے تناظر میں دیا ہے اور یہی رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی فکر ہے اور ان کی تقاریر میں ملتا ہے، پیام وحدت سے مراد کہ اس ملک کے باسی ملکر رہنا چاہتے ہیں، ہم کسی تفرقے کے قائل ہیں اور نہ ہی کسی کو اجازت دینا چاہتے ہیں کہ اس ملک کے امن کو تہہ و بالا کر دے۔ ہماری جماعت کا نام بھی وحدت مسلمین ہے تو ہم وحدت کے داعی ہونے کے ناطے اس پر عمل پیرا ہیں۔ کنونشن میں فوکس داخلی وحدت کو کیا گیا ہے، اس حوالے سے تمام شیعہ جماعتوں کو مدعو کرنیکا سلسلہ جاری ہے۔ ہم نے تمام مدارس کو بھی اس حوالے سے مدعو کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کنونشن اتحاد و وحدت کیلئے اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

سوال: دعوتی عمل کہاں تک پہنچا ہے اور کونسی بڑی شخصیات کی شرکت متوقع ہے؟

اقرار حسین ملک: آئی ایس او، آئی او اور شیعہ علماء کونسل سمیت دیگر کئی جماعتوں کو دعوت دے رہے ہیں، اسی طرح شخصیات کی بات کریں تو شیخ محسن نجفی اور علامہ سید جواد نقوی صاحب ہیں۔ اسی طرح مدارس دینیہ سے تعلق رکھنے والے احباب ہیں، سب کو مدعو کر رہے ہیں، تقریباً 80 فیصد دعوتی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ باقی اسی ہفتہ تک مکمل کرلیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ تمام شیعہ اسٹیک ہولڈرز کو کنونشن میں لائیں اور انہیں مدعو کریں، اس سے اتحاد بین المومنین کے حوالے سے اچھا پیغام جائیگا اور یہی قوم کے ہر فرد کا مطالبہ ہے۔ یہ کنونشن 8، 9 اور 10 اپریل کو اسلام آباد میں منعقد ہوگا۔ اس کا پروگرام مکمل کر لیا گیا ہے اور انتطامات اپنی حتمی شکل کی طرف جا رہے ہیں۔

سوال : شیعہ علماء کونسل کو بھی دعوت دے دی ہے یا ابھی دینا باقی ہے؟

اقرار حسین ملک: جی ہماری شیعہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی صاحب سے دو مرتبہ ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے، آجکل میں انہیں باضابطہ طور پر کنونشن کی دعوت دیں گے، کیونکہ وہ لاہور میں جامعۃ المنتظر میں ہونے پروگرام میں شریک تھے، جیسے ہی راولپنڈی پہنچیں گے تو ہم وفد کی صورت میں انہیں اور ان کی جماعت کو دعوتی کارڈ دیں گے۔

سوال: کنونشن کا بڑا ایونٹ کیا ہے؟

اقرار حسین ملک: دیکھیں، بنیادی طور پر یہ ایک تنظیمی کنونشن ہے، جس میں ملک بھر کے تمام اضلاع سے مرکزی شوریٰ کے ارکان شرکت کریں گے، اس بار کنونشن کی خاص بات یہ ہے کہ نئے سیکرٹری جنرل کا انتخاب عل میں لایا جائیگا۔ تین روزہ کنونشن کے اختتام پر ہماری عمومی نشست ہوگی، جس میں ہم نے ’’پیام وحدت‘‘ کانفرنس رکھی ہے، جس میں تمام تنظیموں اور شخصیات کو مدعو کیا گیا ہے اور اسی نشست میں ہی نئے سیکرٹری جنرل کا باضابطہ طور پر اعلان کیا جائیگا۔

سوال: کیا اس بار مجلس وحدت مسلمین نئی قیادت یا نیا چہرہ سامنے لائے گی؟
اقرار حسین ملک: دیکھیں یہ ایک جمہوری عمل ہے، مجلس کے ادارے موجود ہیں، دستور موجود ہے، جس میں نئے سیکرٹری جنرل کے چناو کا مکمل طریقہ کار موجود ہے، تمام صوبوں سے اور مرکزی کابینہ سے نئے سیکرٹری جنرل کے لئے نام شوریٰ عالی کو بھجوا دیئے گئے ہیں، اب یہ شوریٰ عالی کا اختیار ہے کہ وہ ان ناموں میں سے دو اور اپنی طرف سے ایک نام شامل کرکے تین نام مرکزی شوریٰ کو پیش کرے، اس کے بعد یہ اختیار شوریٰ مرکزی کے پاس چلا جاتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے سیکرٹری جنرل کو چنیں۔ تو اس تمام صورتحال میں اس بارے میں کچھ بھی کہنا غلط اور قبل ازوقت ہوگا۔ ہم کہتے ہیں انتظار کیجئے اور دیکھیے کہ مجلس کے ادارے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے، اچھا فیصلہ کریں گے۔

وحدت نیوز(پشاور) امام بارگاہ لعل شاہ کے متولی سید رضی الحسن شاہ ایڈووکیٹ کو دن دیہاڑے مین بازار میں شہید کر دیا گیا۔ واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین صوبہ خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل علامہ سبطین حسینی نے کہا ہے کہ پاک فوج واقعہ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے دہشت گردوں کو خصوصی عدالتوں سے قرار واقعی سزائیں دلائے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ کافی عرصہ سے ڈی آئی خان شہر ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہے، گذشتہ تین ایام کے دوران دو شیعہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کرکے شہید کیا جا چکا ہے، جوان سال ستائیس سالہ امام بارگاہ کے متولی اور ایڈووکیٹ کی ٹارگٹ کلنگ، اداروں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ یوم القدس کے جلوس پر پابندی لگانے والی انتظامیہ جس نے اس جلوس کی پاداش میں ہمارے کارکنان پر پرچے کاٹے، دہشت گردوں کو گرفتار کرنے میں کیوں ناکام ہے۔ قاتل دندناتے پھرتے ہیں، فوج نے شہر کے امن کو بحال کیا تھا، اب دوبارہ فوج ایکشن لے، سول اور صوبائی حکومت سے کوئی امید نہیں ہے، یہ انصاف کے نام پر انصاف کا قتل کر رہے ہے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی کی انتھک کوششوں کہ نتیجے میں گذشتہ روز سندھ حکومت کی جانب سے مرکز سادات امروھہ میں منعقدہ ایک تقریب کہ دوران 85 خانوادہ شہداء ملت جعفریہ میں 17ملین روپے کے چیکس تقسیم کیے گئے ۔

تفصیلات کے مطابق کراچی کے خانوادہ شہداء میں امدادی رقوم کی تقسیم کی تقریب میں صوبائی وزیرخوراک سید ناصر حسین شاہ مہمان خصوصی تھے، جبکہ دیگرمہمانان گرامی میں مشیر وزیراعلی سندھ وقار مہدی و راشد ربانی، مجلس وحدت مسلمین کہ مرکزی رہنما علامہ سید  باقر عباس زیدی، علامہ سیداحمد اقبال رضوی شامل تھے،مذکورہ مہمانان گرامی سمیت سید علی حسین نقوی  ، مولانا احسان دانش، مولانا صادق جعفری، مبشرحسن،سجاد اکبر، احسن عباس رضوی، زین رضا نے خانوادہ شہداءمیں امدادی رقوم کے چیک تقسیم کرنے کی سعادت حاصل کی۔

واضح رہے کہ  یہ چیکس اُن شہداءکے خانوادگان کے درمیاں تقسیم کیئے گئے ہیں جو کراچی میں کالعدم تکفیری و سیاسی جماعت کے دہشتگردوں کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کے نتیجہ میں شہید ہوئے، ایم ڈبلیوا یم کے ترجمان نے بتایا کہ 85 شہدائے ملت جعفریہ کے خانوادوں میں 17ملین روپےکےامدادی چیکس صوبائی حکومت کی جانب سے تقسیم کئے گئے ہیں جسکا وعدہ انہوں نے مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کی جانب سے ڈیڑھ برس قبل سی ایم ہائوس کے باہر خانوادہ شہداءکے احتجاجی دھرنے کے اختتام پر کیا تھا۔

 شہداء کہ خانوادوں میں کئی سال سے معطل شدہ امدای رقوم کی تقسیم مجلس وحدت کراچی کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے اس سے ان شہداءکے خانوادوں کا مکمل قرض تو نہیں ادا ہوسکے گا تاہم معاشی مشکلات کے شکار وارثان شہداءکے دکھوں کاکچھ مداواممکن ہو سکے گا،تو ہمیں خوشی ہوگی،خانوادہ شہداءکی امدادی رقوم کی بحالی میں ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن کے رہنماسید رضا نقوی، علی حسین نقوی اورمیثم عابدی نے شب وروز کوششیں انجام دیں ، ایسا کہنا تھا ترجمان ایم ڈبلیو ایم آصف صفوی کا، انہوں نے مزید کہا کہ شہدائے ملت جعفریہ کے خانوادے ہماری عزت اور سروں کا تاج ہیں۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر جعفرطیاریونٹ کے تحت رہبر معظم امام خامنہ ای کے فرمان پر یوم پاکستان کے موقع پر ہفتہ شجر کاری کا آغازخطیب مرکزی مسجد علامہ نسیم حیدرزیدی نے مسجدکے باہر پودالگاکر کیا، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے مرکزی رہنما سیدعلی احمر زیدی، ضلعی سیکریٹری جنرل احسن عباس رضوی، ڈپٹی سیکریٹری جنرل جعفرطیاریونٹ عارف رضا زیدی ،مرتضیٰ جوہر، حامد حسین، کاظم نقوی،عماریاسر، مختارامام، رضا علی، فیاض علی سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ اس موقع پر حجت اسلام و المسلمین مولانا نسیم حیدرزیدی نے وحدت مسلمین کی جانب سے ہفتہ شجر کاری مہم کو سہرایا ان کا کہنا تھا کہ شجر کاری مہم سنت رسول ﷺہے ماہ گرماسے قبل ما حولیاتی آلودگی اور گرمی کے سابقہ بحران کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کی شجرکاری مہم لائق تحسین ہے علامہ نسیم حیدر زیدی نے اس موقع پر اجتماعی دعاء خیر کروائی اور کہا کہ ایم ڈبلیوایم کی جانب سے یہ کارخیر قابل ستائش ہے،عوام اس مہم میں بڑھ چڑھ کہ حصہ لیں، جبکہ مہم کے باقائدہ آغاز کے بعد جعفر طیار سوسائٹی کی مرکزی روڈ پر مختلف جگہوں پر وحدت مسلمین کے کارکنان اور شہدائے ملت جعفریہ کے لواحقین سمیت علاقے کے بزرگان نے شجر کاری مہم میں پودے لگائے جس پر اہلیان جعفر طیار سوسائٹی نے ایم ڈبلیو ایم کی اس کاوش کو نعمت قرار دیا اور اپنے بھر پور تعاون کی یقین دھانی کرائی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) 23مارچ یوم پاکستان کے حوالے سے اپنے پیغام میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ23مارچ اپنی مٹی سے وفاداری اورمحبت کی تجدیدعہدکا دن ہے، شیعہ سنی وحدت  پاک سرزمین کے امن اور خوشحالی ضمانت ہے،ہم مکتب اہل بیت ؑکے پیرکارہیں،اسلامی وحدت اخوت ہماراجزوایمان ہے،76برس قبل مینارپاکستان کے سائے تلے ہمارے اجداد نے جس آزادوخومختاراسلامی فلاحی ریاست کاخواب دیکھا تھااسے حقیقت کا رنگ دینے کی ضرورت ہے،سیاسی مفاد پرستوں نے قائداعظم کے پاکستان کو بحرانوں اور مسائل کے سوا کچھ نہیں دیا، دہشت گردی، انتہا پسندی، بجلی کی لوڈشیڈ نگ، مہنگائی اور بے روزگاری نے ملک کا دیوالیہ کر دیا اور غریب کی مشکلات بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں، اگر ملک کو دہشت گرد ی سمیت تمام مسائل سے نجات دلانا ہے تو ہمیں قائد اور اقبال کے افکار پر عمل کرنا ہو گا، دوسری جانب دشمنان دین ووطن داخلی ایجنٹوں کے ذریعے چیرہ دستیوں میں مشغول ہیں جس کا مقابلہ کرنے کیلئےحکمرانوں اور اہل وطن دونوں کو کمربستہ ہونا ہوگا۔

مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری پیغام میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ انگریزوں کی سازشوں اور ہندئوں کی بے لگام منافقتوں کے باوجود مسلمانان برصغیر نے چند سال کی محنت کے نتیجے میں کرہ ارض پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت قائم کرنے کا معجزہ کر دکھایا لیکن آج جب ہم تاریخ کے اوراق میں جھانکتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پاکستان قائم ہونے کے باوجود ان مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہوا، جو قیام پاکستان کے وقت پیش نظر تھے۔ آج ہمیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قائد اعظم، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے پیش نظر وہ کیا مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے اتنی طویل جدوجہد کی گئی، جس کے لیے ان گنت قربانیاں دی گئیں اور ہجرت کا ایک ایسا عظیم عمل وجود میں آیا، جس کی نظیر مشکل سے ملے گی، مگر قائداعظم کے بعد اقتدار میں آنیوالوں نے ملک کی تر قی و خوشحالی اور بھلائی کیلئے صرف باتیں کیں، عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ اگر آج بھی ہم قائد اعظم کے افکار پر عمل کر لیں تو ترقی پاکستان کا مقدر ہوگی اور ملک کو بحرانوں سے بھی نجات ملے گی۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹر ی جنرل علامہ ولایت حسین جعفری نے کہا ہے کہ اگر ہمیں ملک کو ترقی کی راہ میں چلتا دیکھنا ہے اور اگر ہم خوشحالی کے خواہاں ہیں تو ہمیں اجتماعی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح دینا ہوگی، جب کسی معاشرے کا ہر فرد خود غرضی اور مفاد پرستی میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس معاشرے کا انجام بربادی اور ترقی سے محرومیت کی صورت میں ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ آج ہمارے زوال کی بڑی وجہ ہماری خود غرضی اور مفاد پرستی ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی برائیاں موجود ہے جن میں خودغرضی ، بدعنوانی ، حرص و ہوس، مفاد پرستی، عیاری و چالاکی، بے علمی غرض اور دیگرتمام اخلاقی برائیاں شامل ہے ، اسکے علاوہ بدعنوانی اور رشوت ستانی ایک خطرناک بیماری ہے اور یہ تمام عناصر وطن عزیز میں جرائم کو جنم دے رہی ہیں۔ملک کا حال ایسا ہے کہ لوگ نہ سرکاری ہسپتالوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ سرکاری اداروں میں ، اگر انہیں کسی چیز میں دلچسپی ہے تو وہ سرکاری نوکری ہے اور کبھی کبھار اس کے حصول کیلئے بھاری رقم رشوت کی صورت میں دیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ فرد کی اخلاقی حالت کو سدھارے بغیر محض قانون سازی اور جمہوری اداروں کی بحالی اور بالا دستی سے ہم اپنی قومی اور اجتماعی حالت کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ ظلم و اتحصال اور طرح طرح کے زمینی و آسمانی مصائب اور آفات ایسے ہی معاشرے کا مقدر بنتے ہیں جہاں فرد کا کردار بگڑ جائے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار و صفات سے محروم ہوجائے۔ ہم دوسروں کا احتساب تو چاہتے ہیں لیکن خود اپنا احتساب کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر سوچنے اور فکر کرنے کو روک دیا جائے تو معاشرے کی عمومی صورتحال یہ ہو جاتی ہے کہ سب ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہراتے ہیں اور ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کردیں۔ اس ایثار و قربانی کے نتیجے میں رفتہ رفتہ معاشرے و ملک کی حالت دسدھرتی جائے گی۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے کہا کہ گلگت میں عوامی ایکشن کمیٹی کے سربراہ مولانا سلطان رئیس اور دیگر افراد کے خلاف ایف آئی آر عوامی حقوق کے لیے اٹھنے والی آواز کو دبانے کی حکومتی کوشش ہے، صوبائی حکومت وفاقی سیرت پر گامزن ہے اور انکے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ریاستی طاقت اور جبر کے ذریعے دبانا چاہتی ہے، صوبائی حکومت اپنے وفاقی آقاوں کو خوش کرنے کے لیے اس خطے کی تقدیر کے ساتھ گھناونا کھیل کھیل رہی ہے، انہیں وفاقی آقاوں سے زیادہ گلگت بلتستان کے تقدیر کی فکر ہونی چاہیئے۔

آغا علی رضوی نے کہا کہ مولانا سلطان رئیس کی اتحاد بین المسلمین اور عوامی حقوق کے سلسلے میں بڑی خدمات ہیں، انکے خلاف ایف آر کاٹ کر حکومت نے اپنی آمرانہ اور ظالمانہ سوچ کو واضح کردیا ہے۔ صوبائی حکومت کو معلوم ہو جانا چاہیئے کہ یہ تخت لاہور نہیں بلکہ گلگت بلتستان ہے جو کہ کسی میاں کی سرزمین نہیں بلکہ یہاں کے غیور عوام کی سرزمین ہے۔ وفاقی حکومتوں نے بدلنا ہے لیکن اس خطے کے عوام اس کی سلامتی اور حفاظت کے ضامن ہیں، اس عوام سے زیادہ کوئی شریف اس خطے کا نہ وفادار ہو سکتا ہے اور نہ اس خطے سے مخلص ہو سکتا ہے۔ انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ سلطان رئیس اور دیگر رہنماوں کے خلاف کاٹی گئی ایف آئی آر کو فوری طور پر واپس لیا جائے ورنہ صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے نئے شمسی سال ۱۳۹۵ کے آغاز کی مناسبت سے ایرانی ہم وطنوں، عید نوروز منانے والی اقوام ، خاص طور پر شہداء کے اہل خانہ کو عید نوروز اور نئے شمسی سال کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے اور شہیدوں اور امام بزرگوار رح کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے نئے سال کو " استقامتی معیشت، اقدام اور عمل" کا نام دیا ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے نئے شمسی سال ۱۳۹۵ کے ابتدائی اور اختتامی ایام، حضرت فاطمہ زہرا سلام الللہ علیہا کی ولادت کے ایام کے ہمراہ ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ سال، ملت ایران کے لئے مبارک سال ہوگا اور ان عظیم خاتون کی رہنمائی اور انکی زندگی سے درس حاصل کیا جانا چاہئے اور انکی معنویت سے بہرمند ہونا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے گذشتہ سال کا جائزہ لیتے ہوئے، گذرے ہوئے سال یعنی ۱۳۹۴ شمسی کو دوسرے سالوں کی مانند، تلخیوں اور شیرینیوں، فراز و فرود اور چیلنجز اور مواقع کا سال قراردیا اور فرمایا کہ منیٰ کے حادثے کی تلخی سے لے کر ۲۲ بہمن کی ریلی اور ۷ اسفند کے انتخابات اور اسی طرح مشترکہ ایٹمی پلان کا تجربہ اور وہ امیدیں جو روشن ہوئیں اور انکے ساتھ ساتھ جو پریشانیاں تھیں، یہ تمام سال ۹۴ شمسی کے واقعات تھے۔

آپ نے نئےسال میں درپیش امیدوں، مواقع اور چیلنجوں کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہنر یہ ہے کہ مواقع سے حقیقی معنی میں استفادہ کیا جانا چاہئے اور چیلنجز کو بھی مواقع میں تبدیل کر دینا چاہئے، اس انداز سے کہ جب سال کا اختتام ہو تو ملک میں تبدیلی کو محسوس کیا جائے لیکن امیدوں کے برآنے کے لئے جدوجہد، دن رات محنت اور بغیر وقفے کے سعی و کوشش کی جانی چاہئے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو میں ملت ایران کی مجموعی حرکت کے بارے میں بنیادی اور اصلی نکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کو چاہئے کہ وہ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو نقصان پہنچنے کی سطح سے باہر نکالے اور دشمن کی جانب سے نقصان پہنچنے کی شرح صفر فی صد ہو جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس کام کے لئے سب سے پہلا اور فوری قدم اقتصاد کو قرار دیا اور فرمایا کہ اگر ملت، حکومت اور تمام حکام معیشت کے مسئلے میں صحیح، بجا اور منطقی کام انجام دیں تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ کام اجتماعی مسائل اور مشکلات، اخلاقی اور ثقافتی مسائل سمیت دیگر مسائل میں بھی موثر واقع ہو سکتا ہے۔

آپ نے "ملکی پیداوار"، "روزگار کی فراہمی اور بے روزگاری کے خاتمے"، " اقتصادی رونق اور خوشحالی اور کساد بازاری سے مقابلے" کو بنیادی اقتصادی مسائل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ موارد عوام کے مبتلا بہ مسائل ہیں اور عوام انکو محسوس کرتے ہیں اور انکا تقاضہ کرتے ہیں اور رپورٹیں اور حکام کی اس سلسلے میں گفتگو بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عوام کا تقاضہ بجا اور درست ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے" استقامتی معیشت" کو اقتصادی مسائل اور مشکلات کو علاج اور عوام کے مطالبات کا جواب قرار دیا اور فرمایا کہ استقامتی معیشت کے زریعے بے روزگاری اور کساد بازاری کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، مہنگائی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، دشمنوں کی دھمکیوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی جا سکتی ہے اور ملک کے لئے بہت سارے مواقع فراہم کئے جا سکتے ہیں اور ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ان توفیقات کے حصول کی شرط  استقامتی اقتصاد کی بنیاد پرجدوجہد اور کوشش کو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ سرکاری اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں بہت وسیع پیمانے پر اقدامات کئے گئے ہیں لیکن یہ اقدامات، مقدماتی اور مختلف اداروں کی رپورٹوں اور احکامات پر ہی مشتمل ہیں۔

آپ نے استقامتی اقتصاد کے سلسلے میں عملی اقدامات انجام دینے کو حکام کا وظیفہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ لازم ہے کہ استقامتی اقتصاد کے پروگرام پر عملی اقدامات کا سلسلہ جاری رہے اور اسکے زمینی حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے " استقامتی معیشت، اقدام اور عمل" کو ایک سیدھا اور روشن راستہ قرار دیا کہ جو ملکی ضرورتوں کے پورا کر سکتا ہے اور اس سلسلے میں جدوجہد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ توقع نہیں کہ جا سکتی کہ یہ اقدامات اور ان پر عمل ایک سال کے اندر اندر مشکلات کو حل کر دیں گے لیکن اگر یہ اقدامات اور ان پر عمل صحیح پلاننگ کے ساتھ ہو تو یقیننا سال کے آخر تک اس کے آثار اور اثرات قابل مشاہدہ ہوں گے۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) ڈاکٹرعلامہ طاہرالقادری نے نئی دہلی میں انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینلسز میں Importance of Moderate Islam for south Asia کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ دنیا داعش اور دہشت گردی کے فتنے سے نمٹنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے، داعش عصر حاضر کا سب سے بڑا فتنہ اور اپنی نوعیت کے یہ بدترین دہشت گرد ہیں، ان کے مقابلہ اور خاتمہ کیلئے پوری دنیا بالخصوص او آئی سی اور مسلم ممالک کو فیصلہ کن جنگ کی تیاری کرنا ہوگی۔ انہوں نے لیکچر کے دوران بتایا کہ داعش پر میری ایک کتاب اگلے دو تین ماہ میں چھپ جائے گی۔ بین الاقوامی تنازعات جو زیادہ تر سیاسی نوعیت کے ہیں، ان کے حل میں عدم دلچسپی کے باعث انتہا پسندی، تشدد اور داعش جیسی برائیاں جنم لے رہی ہیں، غربت، تعلیم، صحت کی سہولتوں کے فقدان، دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے ناہموار سیاسی و سماجی رویے دہشت گردی اور داعش جیسے فتنوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حضرت محمدؐ نے آج سے 14 سو سال قبل ایسے فتنوں کی نشاندہی کر دی تھی اور اس کے خاتمے کیلئے بھرپور ریاستی طاقت بروئے کار لانے کی ہدایت کی تھی، داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ پیغمبر اسلام نے اسلام اور انسانیت کے ان دشمنوں کا حلیہ بتاتے ہوئے انہیں قتل کرنے کی ہدایت کی تھی، پیغمبر اسلام نے بتایا کہ انکے لباس اور پرچم سیاہ رنگ کے ہوں گے، انکے بال عورتوں کی طرح لمبے ہوں گے، انکی گردنیں اونٹ کی طرح لمبی ہوں گی، انکے نام بھی غیر مانوس اور ابو جیسے القابات سے شروع ہونگے، یہ بظاہر مسلمانوں جیسے آداب و اطوار اور عبادات اختیار کریں گے، لیکن یہ مسلمان تو کیا انسانی خصوصیات سے بھی عاری ہوں گے۔ پیغمبر اسلام نے کہا تھا کہ یہ لوٹ مار، حرام کاری، ریپ جیسی برائیوں کو قانونی تحفظ دیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے (IDSA) میں شریک ممتاز بھارتی شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور داعش کو اسلام سے نہ جوڑا جائے، اسلام تو ایسے فتنوں کو کچل دینے کا حکم دیتا ہے۔ پاکستان اور بھارت اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں اور انکے قلع قمع کیلئے ایک میز پر بیٹھیں۔

وحدت نیوز (سجاول) سجاول پریس کلب کے جنرل سیکریٹری اور جنگ اخبار کے نمائندے حافظ سعداللہ نے گذشتہ روز لبیک یا حسین ع (بیداری امت واستحکام پاکستان کانفرنس بھٹ شاھ) کے پوسٹر لگاتے ہوئے کمسن بچوں پر تشدد کیا اور پوسٹرز پھاڑ دئے،مجلس وحدت مسلمین کے وفدنے ضلعی سیکریٹری جنرل مختارعلی دایوکی سربراہی میں  پریس کلب سجاول پھنچ کر حافظ سعداللہ کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا،پریس کلب کے صدر نے یقین دھانی کرائی کے 2 روز کے اندر پریس کلب انتظامیہ کا  جنرل باڈی اجلاس طلب کرکے حافظ سعداللہ کو عہدے سے فارغ کیا دیاجائے گا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree