وحدت نیوز (کراچی) سانحہ عاشورہ کے حوالے سے تفتیشی رپورٹ میں ہونے والے انکشافات کے بعد سانحہ عاشورہ اور بولٹن مارکیٹ کے جلاو گھیراو کا مقدمہ آرمی کورٹ میں چلایا جائے، حکومت سانحہ عاشورہ میں ملوث دہشتگردوں کو فوری کیفر کردار تک پہچائے ، عدالتی رپورٹس کو جلد عوام کے سامنے لایا جائے اور ملت جعفریہ کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری جنرل سید رضانقوی نے سانحہ عاشورہ پرریاستی اداروں کی جانب سے ملزمان کی جی آئی ٹی رپورٹ میں ہونے والے انکشافات کے بعد کیا۔

رضا نقوی نے کہا کہ سانحہ عاشورہ کے حوالے سے ریاستی اداروں کی رپورٹ پر مجلس وحدت مسلمین سمیت ملت جعفریہ کو سنگین تشویش ہے جبکہ اس حوالے سے سیاسی جماعت بھی اپنے موقف کو واضح کرے،رضانقوی نے کہاکہ سانحہ عاشورہ کے بعد ایک منعظم سازش کے تحت ملت جعفریہ کے جوانوں کو بولٹن مارکیٹ کے جلاو گھیراو میں ملوث کرنے کی کوشیش کی تھی اور جھوٹے مقدمات درج کیے تھے ریاستی اداروں کی رپورٹ نے ان جھوٹے مقدمات اور ملت جعفریہ کو بدنام کرنے کی سازش پر پانی پھیر دیا ہے۔

رضا نقوی نے بتایا کہ 28دسمبر۲۰۰۹ یوم عاشور ہ کے روز لائٹ ہاوس کے قریب ہونے والے اس بم دھماکہ میں ۵۰ سے زائد عزادار شہید ہوئے تھے جبکہ۱۰۰ سے زائد شدید زخمی تھے،انہوں نے وفاقی و صوبائی حکومت سمیت ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ انصاف کے فوری حصول اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے سانحہ عاشورہ کے کیس کو ملٹری کورٹ میں بھیجا جائے، عدالتی رپورٹ کو بھی عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ملت جعفریہ کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے اور اسی سال چہلم امام حسین علیہ سلام کے موقع پر اربعین امام حسین کے جلوس میں شامل ہونے وانے والی بس کو نشانہ بنانے اور جناح اسپتال میں بم دھماکہ کرنے والے دہشتگردوں کے چہرے بھی بے نقاب کیئے جائیں،ایم ڈبلیو ایم صوبائی و کراچی کابینہ کا اجلاس طلب کر لیا ہے اور بہت جلد اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ مختارامامی نے صوبائی شوری ٰکے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایم ڈبلیوایم 27مارچ کو بھٹ شاہ میں عظیم الشان بیداری امت کانفرنس منعقد کرے گی سندھ بھر سے ہزاروں عاشقان محمد ﷺ شریک ہوں گے، بیداری امت کانفرنس ‘‘ میں سندھ بھرسے علماء، ماتمی انجمنوں، ذاکرین ، خطباء ، نوحہ خوانوں، منقبت خوانوں سمیت ملت جعفریہ کے تمام اہم اداروں اور عوام کی شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔جبکہ کانفرنس کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لئے مرکزی ، صوبائی اور ضلعی اراکین پر مشتمل چھ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے،اس سلسلے میں مختلف ذیلی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں گی جو جلسہ کے کامیاب انعقاد میں اپنا کردار ادا کریں گی اور اس حوالے سے بہت جلد دوسرا اجلاس صوبائی سیکرٹریت سولجربازار کراچی میں منعقد کیا جائے گا اجلاس میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل عالم کربلائی ،مولانا نشان حیدر ،شفقت لنگا،حیدر زیدی ،آصف صفوی ناصر حسینی اور امتاز شاہ بھی موجد تھے ان کا مزید کہنا تھا کہ بیداری امت کانفرنس ملک خداداد پاکستان کے استحکام میں سنگ میل ثابت ہوگی، جس میں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ملکی وبین الاقوامی صورت حال کے پیش نظر جماعت کی پالیسی بیان کریں گے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)سلیمان کتانی(Solomon Katani) کا نام تو آپ سب سے سنا ہوگا۔ یہ ایک مسیحی محقق ہیں۔ ان کی پیدائش امریکہ میں ہوئی اور دو سال کی عمر میں والدین سمیت لبنان آئے۔ بیس سال تک مختلف یونیورسٹیز اور مدارس میں تدریس سے منسلک رہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں حضرت محمدؐ پر ۹ جلدکتابیں تحریر کیں اور ان کی صاحبزادی پر ایک مستقل کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ  ان کے علم کے وارثو ں میں سے حضرت علی ؑ سے لیکر امام موسیٰ کاظم ؑ تک ہر امام پر کتاب تحریرکی۔ موصوف نے "فاطمة الزہرا، وتر فی غمد" میں پیغمبر خاتم (ص)کی لخت جگر کی مختلف خصوصیات پر قلم فرسائی کی۔﴿۱﴾
 
فاطمہ ؑ وہ باعظمت خاتون ہیں جو حس لطیف، پاک معدن، دریا دل اور نورانیت سے سرشار اور عقل﴿کامل﴾ کی حامل ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ ایسی شخصیت کے بارے میں کتاب لکھی جائے اور ان سے نمونہ اخذ کیا جائے۔ عرب دنیا ﴿دوسرے تمام تر مسائل و مشکلات کے ساتھ ساتھ﴾ اپنے گھریلو سسٹم کو بافضیلت بنانے کی طرف محتاج ہیں تاکہ اپنے معاشرے کی ساخت کو مضبوط بنا کر اپنی باشرافت تاریخ کو جاری و ساری رکھ سکیں۔ آپ ہی کے ذریعے وہ  اپنے ان تمام  اجتماعی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔﴿۲﴾
 
مسیحی دانشور سلیمان کتانی اپنی کتاب کی ابتدا میں لکھتے ہیں، حضرت فاطمة الزہراؑ کا مقام و رتبہ اس سے کہیں زیادہ  بلند و برتر ہے کہ جس کی طرف تاریخ و روایات اشارہ کرتی ہیں اور ان کی عزت و وقار اس سے کہیں زیادہ ہے جن کی طرف ان کے زندگی نامہ لکھنے والوں نے  قلم فرسائی کی ہے۔ حضرت زہراؑ کی مرکزیت کو بیان کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ کے والد گرامی محمدؐ، شوہر گرامی علیؑ اور آپ کے صاحبزادے حسنؑ و حسینؑ ہیں۔ آپ ساری کائنات کی خواتین کی پیشوا ہیں۔ اپنی کتاب کے آخر میں راقم یوں رقمطراز ہے، اے دختر مصطفٰی فاطمہ! اے وہ ذات جس نے زمین کو اپنے شانوں پر بلند کردیا۔ اپنی  پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ  آپ نے تبسم کیا۔ پہلی مرتبہ جب آپ بستر بیماری پر پڑی تھی تو جونہی ﴿آپ کے والد گرامی نے﴾  آپ کو یہ خوش خبری سنائی کہ مجھ سے سب سے پہلے آپ کی ملاقات ہوگی۔ دوسری مرتبہ اس وقت آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جب آپ اپنی جان کو جان آفرین کے حوالے کر رہی تھی۔ آپ نے ہمیشہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ الفت و محبت کی زندگی گزاری۔ آپ وہ پاکیزہ ترین ماں ہیں جو دو پھولوں کو دنیا میں لائیں اور ان کی پرورش کا فریضہ بھی نبھایا۔ آپ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس  فانی دنیا کا مذاق اڑا کر راہی ابد ہوگئیں۔ اے محمد مصطفٰی (ص) کی دختر گرامی! اے علی مرتضیٰ کی شریک حیات! اے حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی! اے پوری دنیا اور ہر زمانے کے خواتین کی سرور و سالار!(۳)
 
وہ اس کتاب میں رقمطراز ہے، بہادری یہ نہیں کہ جسمانی طاقت یا تخت و تاج کے سہارے کسی کا مقابلہ کیا جائے بلکہ حقیقت میں بہادری  یہ ہے کہ عقل و منطق اور فہم و فراست سے میدان مقابلہ میں اترے۔ ایسے میں اہداف مشخص ہو جاتے ہیں اور اس کے بارے میں پروگرامینگ  بھی کی جاسکتی ہے۔ حضرت زہراؑ کی بہادری بھی اسی صورت میں نمودار ہوگئی۔ آپ نے لوگوں کی ہدایت کے ہدف کو پانے کے لیے مؤثر طریقے اپنائے جبکہ آپ کے بازو نازک و کمزور اور آپ کے پہلو ضعیف تھے۔ ﴿۴﴾
 
سلیمان کتانی کا کہنا ہے کہ آپ نے دو ہستیوں  یعنی اپنے والد گرامی اور شوہر نامدار کے سایے میں زندگی گزاری۔ دو خوشبوؤں اور پیغمبر و امام کے دو بیٹوں حسن ؑ اور حسینؑ کو آپ نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا۔ دو لطافتوں یعنی لطافت جسمانی اور لطافت احساسی کو اپنے گود میں لیا۔ آپ نے دو عصروں یعنی عصرجاہلیت اور عصر بعثت کا مشاہدہ کیا۔ آپ نے اپنے والد گرامی کو دو طرح کی محبت فراہم کی یعنی بیٹی کی محبت اور ماں کی محبت۔ آپ دو طرح کی آگ میں جلتی رہیں یعنی محرومیت کی آگ اور فقدان کی آگ۔ آپ نے بہت سارے مصائب جھیلیں۔
 
اے فاطمہ! اے زیور عفت سے آراستہ زبان کی مالک! اے زیور کرامت سے سرشار گلوئے اطہر کی مالک! تیرا رشتہ کتنا پیارا ہے جس کی خوشبو دخت عمران تک پھیلی ہوئی ہے۔ اے مصطفٰی کی لخت جگر!
فاطمہؑ کو اللہ تعالی کے لطف و کرم سے جمال کے ساتھ ساتھ عقل کامل، باطنی پاکیزگی اور  قوہ جاذبہ بھی نصیب ہوئی۔
 
آپ نے ایک بہت ہی باعظمت باپ اور قطب ﴿عالم امکان﴾ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے والد گرامی کی نسل آپ ہی کے ذریعے جاری و ساری رہی۔ یہ بھی ایک ایسا ذخیرہ ہے جس سے یکے بعد دیگرے  ہر دور کے انسانی نسلیں بعنوان  ارث مستفید ہوتی رہیں گی۔ آپ کی نسلوں نے اتنی ترقی کی کہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ایک وقت میں فاطمہ کے نام سے مصر میں ایک حکومت تشکیل پائی اور انھوں نے اپنی توان کے مطابق آپ کے نام سے استفادہ کیا۔ مصر میں فاطمی حکومت اور جامعة الازہر دونوں آپ کے اسم سے متبرک ہوگئے۔ مسلمانوں نے بالخصوص شیعوں نے آپ کو اب بھی فراموش نہیں کیا ہے۔ کیونکہ آپ پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک سب سے زیادہ پیاری ہیں۔
 
حضرت فاطمہ ؑ نے فدک کا تقاضا اپنی ذاتی پراپرٹی بڑھانے کے لیے  نہیں کیا بلکہ آپ اس کے ذریعے اسلام کے استحکام اور پائیداری کے خواہاں تھیں۔ آپ اس کی پیداوار کو جزیرة العرب میں موجود تمام افراد تک پہنچانا چاہتی تھیں کیونکہ وہ سب فقر و تنگدستی میں مبتلا تھے۔ خصوصا فکری اور روحانی بھوک نے تو  ان کو اچک ہی لیا تھا۔ یہاں پر فاطمہ ؑ نے اپنے ارث کے حصول کے لیے قیام کیا۔ آپ  اس  تقاضے کے ذریعے اجتماعی حس جو مردہ ہوچکی تھی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتی تھیں۔
 
فرانس کے محقق لوئی ماسینیون Louis Massignon کا کہنا ہے، حضرت ابراہیم کی اولاد اور ان کی دعائیں بارہ ایسے نور کی خبر دیتی ہیں جو حضرت فاطمہ ؑ سے منشعب ہوں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی تورات حضرت محمدؐ اور ان کی دختر اور ان کے بارہ فرزندوں کی آمد کی خبر دیتی ہے۔ جیسے اسماعیل، اسحاق اور حسن و حسین علیھم السلام۔ حضرت عیسیؑ کی انجیل محمدؐ کی آمد کی خبر کے ساتھ ہی یہ بشارت بھی دیتی ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ کے ہاں ایک بابرکت صاحبزادی پیدا ہوگی جس سے دو صاحبزادے وجود میں آئیں گے۔
 
ڈائنا ڈی سوزا D.Disvza ہندوستان کی ایک مسیحی محقق ہیں۔ وہ فاطمہ زہرا ؑ کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرکے اس پر تبصرہ کرتی ہے۔ واقعہ یوں ہے، ایک  دن حضرت محمدؐ نے اپنی صاحبزادی فاطمہؑ سے فرمایا، کیا کوئی ایسی خاتون ہے جس کی دعا آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی مقام قبولیت تک پہنچ جائے؟ حضرت فاطمہؑ اپنے والد بزرگوار کے بیان کیے ہوئے اس معیار پر اترنے والی خاتون سے ملاقات کی آرزومند تھیں۔ ایک دن آپ ایک لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی خاطر ان کے ہاں گئیں۔ جونہی ان کے گھرکے سامنے پہنچی آپ نے اندر داخل ہونے کے لیے  اس سے اجازت طلب کی۔ اس خاتون نے یہ کہہ کر آپ سے معذرت خواہی کی کہ میرے شوہر ابھی یہاں نہیں ہیں اور میں نے ان سے آپ کو گھر لانے کی اجازت بھی نہیں لی ہے لہذٰا آپ واپس چلی جائیے اور کل تشریف لائیے تاکہ میں ان سے اس حوالے سے اجازت لے سکوں۔ حضرت فاطمہؑ واپس لوٹ آئیں۔ جب اس عورت کا شوہر رات کو گھر آیا تو اس نے حال چال دریافت  کیا۔ اتنے میں اس خاتون نے کہا کہ اگر پیغمبر اکرم ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؑ ہمارے ہاں آنا چاہے تو کیا ان کے لیے اجازت ہے؟ اس نے جوابا کہا، وہ آ سکتی ہیں۔ اگلے روز حضرت فاطمہؑ حضرت امام حسینؑ کو اپنے ہمراہ لیے دوبارہ اس کے پاس آئیں اور حسب سابق ان سے اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ اس خاتون نے دوبارہ یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں نے صرف آپ کے لیے میرے شوہر سے اجازت لی ہے لیکن آپ کے ساتھ اس وقت آپ کا صاحبزادہ بھی ہے لہذٰا میں اجازت نہیں دے سکتی ہوں۔ حضرت فاطمہ دوبارہ لوٹ آئی۔ رات کو جب اس عورت کا شوہر واپس لوٹ آیا  اور حال احوال دریافت کیا تو اس کی بیوی نے پوچھا: کیا پیغمبر اکرمؐ کے گھرانے سے کوئی ہمارے ہاں آئے تو اس کے لیے اجازت ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس طرح حضرت فاطمہ ؑ تیسری مرتبہ لوٹ آئیں اور اس لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی۔
 
اس داستان کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ عورت کو ہر وقت اپنے شوہر کا مطیع رہنا چاہیے۔ اسی عورت کے بارے میں حضرت محمدؐ نے فرمایا  یہ سب سے پہلے جنت جانے والی خاتون ہے۔ اگر ہم نے ایک قدرتمند خاتون بن کر رہنا ہے تو ہمیں شہامت، حضرت مریم ؑو حضرت فاطمہؑ سے لینا چاہیئے۔ ان کے شجاعانہ اقدامات کا احترام کرنا چاہیئے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی اس شہامت کو ہم اپنے بیٹے بیٹیوں، بہن بھائیوں، دوستوں اور رشتہ داروں تک منتقل کریں۔ ان کی سیرت کو ہم اپنی سیرت بنا لیں اور ہم اپنے ذریعے اپنی نسلوں تک منتقل کریں۔ صرف اسی صورت میں ہی ہم طاقتور بن کر رہ  سکتے ہیں اور صرف اسی صورت میں ہی ہم نے اپنی ماؤں کا احترام بجا لایا ہے۔﴿۵﴾


حوالہ جات:
۱:پائیگاہ علمی فرہنگی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمThis email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
2: نقد و بررسی شخصیت حضرت فاطمہ زہراؑ از نگاہ مستشرقان با رویکرد قرآنی،  محمد عسکری، ص ۹۹ تا ۱۱۳
۳: سلیمان کتانی، فاطمة الزہراء وتر فی غمد،ص۳۲۔۲، ناقل منزلت حضرت زہراؑ در احادیث، مکاتب علی،۱۴۸ تا ۱۵۶
۴:پائیگاہ علمی فرہنگی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.۵: نقد و بررسی شخصیت حضرت فاطمہ زہراؑ از نگاہ مستشرقان با رویکرد قرآنی،  محمد عسکری، ص۱۲۱تا۱۲۲۔ ۹۹ تا ۱۱۳

 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) صدیوں پرانی  بات ہے کہ  موجودہ عربستان میں ایک عظیم الشان  بادشاہ ہوا کرتاتھا ۔اس کی سلطنت   کی حدود  ،ایک یا دو ملکوں تک نہیں ، بلکہ پورے موجودہ عربستاں ، روم و فارس تک پھیلی ہوئیں تھیں ۔ مگر دنیا کے دیگرتمام سلطانوں  سے ہٹ کر اس بادشاہ  میں بہت ساری  خوبیاں و خصوصیات تھیں  کہ جس کے سبب یہ عظیم سلطان  موجودہ تمام بادشاہوں اور آئندہ آنیوالے تمام رہبروں و لیڈروں کےلیے ،ایک رول مڈل و نمونہ ِعمل کے طور پر باقی رہا اور رہے گا ۔کہ جن میں اس کا انتہائی  رحم دل ، خوش اخلاق ،سخی ، شجاع ،خوبصورت و باقی تمام کمالات عالیہ سے لبریز ہونا شامل تھا۔مشکل یہ تھی کہ جس قوم میں اس عظیم لیڈر نے آنکھ کھولی ،اس کی موجودہ صورت حال انتہائی آلودہ ، پست اور اندھیروں میں  ڈوبی ہوئی تھی ۔ ایسے وقت میں اس عظیم انسان نے اپنے کردار سے اس قوم کو ذلت و پستی کے گھپ اندھیروں سے باہر نکلا۔اس کی زوجہ یعنی ملکہ جو کہ ایک انتہائی مال دار خاتون تھی نے  بادشاہ ِوقت کی  تحریک میں  اس کا بھرپور ساتھ دیا ۔یہاں تک کہ اس نے اپنے مال کاذرّہ ذرّہ ،اپنے شوہر کے مِشن پر قربان کردیا۔زندگی کا پہیہ اسی طرح چلتا رہا  اور خداوند متعال نے ان کو بیٹوں سے نوازا ۔مگر افسوس کہ  سلطان کے تمام بیٹے بچپنے میں ہی انتقال کرگئے ۔اس پر بھی انہوں نے خداوند متعال کی  حمد و ثنا بجھا لائی اور کبھی بھی ان کی زبا ن پر شکوہ جاری نہیں ہوا۔چند   ہی عرصہ بعد اللہ تبارک وتعالیٰ  نے ان کو ایک پھول جیسی بیٹی عطا کی ۔جس پر سلطان نے بیٹی  کو اپنا سرمایہءِ زندگی سمجھتے ہوئےاس پر  فخر محسوس کیا  اور اس رحمت خداپر  دونوں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ۔ابھی وہ بچی تقریباً پانچ سال ہی کی تھی کہ وہ معصوم ،آغوش مادر سے محروم ہوگی ۔کہ جس پر اس کی پرورش کی ذمہ داری خود  اس کے والد بزرگوار نے اٹھائی ۔سلطان ِوقت نے اپنی  بیٹی کی تربیت کچھ اس طرح سے کی کہ بعد میں اسی بیٹی کا کردار زمانے کے لیے نمونہِ عمل قرار پایا۔یہاں قابل فکر نکتہ یہ  ہے کہ اسی  بیٹی کے جوان ہونے پر  ،اسی عربستاں ،روم وفارس کے سلطاں نے جب اپنی بیٹی کی شادی کی تو  انتہائی سادگی سے ،نہ  کہ آج ہماری طر ح کم از کم 8سے 10لاکھ لگا کر ۔اس کے باوجود کہ اس کے پاس شرق و غرب کی  سلطنت  تھی ،اس کی بیٹی کے جہیز پر نگاہ ڈالنے سے انسان حیرت کے سمندر میں طوطہ زن ہوجاتاہے ۔کہ جس میں فقط ایک پیراہن ،چار تکیے ،ایک چکی ،ایک تانبے کا طشت ،ایک چمڑے کا ظرف ،و چند مٹی کے برتن شامل تھے۔اور دوسری طرف وہی بیٹی ،جب ایک بیوی کے روپ میں  شوہر کے گھر جاتی ہے ،تو وہی سلطاں ِعالم کی بیٹی گھر کے سارے کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔جن  میں آٹا گوندھنا،روٹی بنانا ،چکی چلانا ، و جھاڑو دینے سے لے کر گھر کے دیگر تمام چھوٹے بڑے کام شامل تھے ۔وہ  تربیت ِیافتہ خاتون، بیٹی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی زوجہ  تھی کہ جس کی زندگی کے مطالعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کبھی بھی اپنے شوہر سے ایسی فرمائش نہیں کی، کہ جسے اس کا شوہر پورا نہ کرسکے ۔اپنے شوہر کے ساتھ انتہائی مہربان اور اس کی زندگی سچ سے لبریز تھی ۔جبکہ اسی خاتون کے تاریخی کردار کو اگر پردہ داری  کے لحاظ سے پرکھا  جائے تو  اس   کی پردہ داری کا اندازہ  اس واقعہ سے لگایا جاسکتاہے ، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اس خاتون کے گھر اس کے والد کے ساتھ ایک نابینا  شخص ان کےہاں آیا ۔تو فوراً ہی اس پاکیزہ خاتون نے اپنے آپ کو ایک چادر میں چھپا لیا ۔اس پر اس کے والد بزرگوار نے کہا کہ تم نے اپنے آپ  کو چادر میں کیوں چھپا لیاہے؟ جبکہ یہ شخص تو  نابینا  ہے ۔تو اس پر اس خاتون نے جواب دیا ،کہ  بے شک یہ نابینا ہے اور کچھ نہیں دیکھ سکتا مگر میں تو بینا ہوں اور میں تو اس کو دیکھ سکتی ہوں ۔لہذا میں نے اپنے آپ کو چھپایا ہے ۔اسی طرح جب کسی موقعہ پر اس خاتون  سےکہ جو ایک  اچھی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکردار زوجہ بھی تھی  سوال پوچھا کیا  گیاکہ ، آپ کی نظر میں  عورتوں کے لیے سب سے بہتر چیز کیاہے؟تو  اس پر اس خاتون نے اتنا خوبصورت جواب دیا کہ جسے تاریخ نے ہمیشہ کےلیے  اپنے سینے میں محفوظ کرلیا  ۔"کہا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو نہ دیکھیں اور کوئی غیر مرد اِن کو نہ دیکھے"۔اس شہزادی کی تربیت  اسقدر پاکیزہ تھی کہ جس اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔فقیروں و محتاجوں  کی حاجت  روائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ۔ایک دفعہ گھر کے باہر کسی محتاج  نے پرانے لباس کی درخواست کی ۔مگر ہوا یہ کہ اس خاتون نے اپنا نیا  شادی والا لباس محتاج کو عطا کیا اور خود پیوند شدہ لباس زیب ِتن کرلیا ۔الغرض یہ تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ جو تمام معنوی کمالات و صفات عالیہ سے پُر ہے  ۔اور یہ کردار آج بھی ہماری  ماؤں ،بہنوں و بیٹیوں کے  لیے مکمل نمونہِ عمل ہے ۔ ایک ایسی مشعل ِراہ ہے کہ جس کی روشنی میں    چلتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے بہترین لمحات کو طے کے سکتیں ہیں ۔اور یاد رہے کہ  یہ بیٹی کوئی اور نہیں بلکہ سید الانبیاء رسول گرامی ِ قدر  حضرت محمدمصطفیٰ(ص) کی دختر نیک اختر  سیدۃالنساء العالمین حضرت  فاطمۃ الزھراء(س) ہیں ۔یہ ایک بیٹی اور زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی ماں بھی ہیں کہ جس نے اپنی تربیت سے  زمانے کو حسنؑ و حسینؑ جیسے رہبران و لیڈر دیے۔بلاشبہ حضرت زھراء(س) آج اور آئندہ آنیوالی تمام انسانیت کے لیے اسوہ حسنہ ہیں ۔آپکؑی ولادت باسعادت جمعےکے دن 20 جمادی الثانی ،بعثت کے 5ویں سال سرزمین مکّہ میں ہوئی ۔آپکؑا اسم مبارک فاطمہ (س)جبکہ مشہور ترین القاب  میں سے  زھراء ،بتول ،صدیقہ الکبریٰ، عذرا،طاہرہ ،اور سیدۃالنساءالعالمین ہیں ۔آپکؑی والدہ ماجدہ  ملیکۃ العرب سیدہ خدیجہ الکبریٰؑ  ہیں ۔آپکؑی شہادت 11 ھجری  مدینہ منورہ  میں ،رحلت ِ رسول خداؐ  کے 75یا 95 دن بعد ہوئی۔آپکؑی وصیت کے مطابق آپکؑو شب ِ تاریخی  میں سپرد خاک کیا گیا اور قبر کے نشان کو مٹادیاگیا کہ جو آج تک مخفی ہے ۔آپکؑی  عظمت وفضیلت میں  رسول خداؐ کی مشہور حدیث کہ جس میں  آپؐ نے فرمایا کہ "فاطمہؑ  میرا  جگر کا ٹکڑا  اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،جس نےفاطمہؑ کو ناراض کیا اسنے مجھ محمدؐ کو ناراض کیا اور جس نے فاطمہ ؑ کو خوش کیا اس نے مجھ محمدؐ کو خوش کیا "[1]۔

لہذا آج معاشرے میں پھر سے جناب سیدہ ؑ کی زندگی کے تمام پہلو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ اس جامع کردار کے ذریعے آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں موجود جاہلانہ رسومات کو ان کی جڑ سمیت تہ تیغ کیا جاسکے۔

 

 

      

تحریر۔۔۔۔۔۔ساجد علی  گوندل

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسانی زندگی میں  تعلیم و تربیت کی ضرورت و اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ علم انسان کو انسانیت سکھاتا ہے،اخلاقیات کی تربیت دیتاہے ۔علم کے بغیر انسان جانوروں جیسا ہوجاتا ہے،جیسا کہ امام غزالی  فرماتے ہیں : "بے علم کو انسان اس لیے قرار نہیں دیا  جا سکتا کیونکہ جو صفت انسان کو تمام جانوروں سے ممتاز کرتی ہے ، وہ علم ہی ہے ، انسان کو مرتبہ ومقام علم ہی کی وجہ سے ملا ہے "۔تعليم کی  اہميت  ايک عام انسان کے خیال میں یہ ہے کہ تعليم اس ليے ضروری ہے کہ وہ ملازمت حاصل کرنے ميں مددگار ہوتی ہے- يہ صحيح ہے کہ تعليم آدمي کے ليے ملازمت  اور معاش ميں مددگار ہوتی ہے مگر تعليم کی اصل اہميت يہ ہے کہ تعليم آدمی کو باشعور بناتی ہے- تعليم آدمی کو اس قابل بناتي ہے کہ وہ باتوں کو اس کي گہرائي کے ساتھ سمجھے اور زيادہ نتيجہ خيز انداز ميں اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کر سکے-

 تعلیم و تربیت کی اہمیت سے انکار ممکن ہی  نہیں، انسانیت کیلئے  تعلیم و تربیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ پر اللہ کی طرف سے جس پہلی آیت کا نزول ہُوا اسکی ابتدا بھی ’’اقرا‘‘ یسے ہوئی۔  تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد معرفتِ ذات ہے یہ انسان اور اس کی ذات کے درمیان ایسا پُل ہے جس کے قائم ہونے سے انسان کی شخصیت کی تجدید اور نکھار کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور پھر انسان کی شخصیت روحانیت کی منازل طے کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب  تعلیم و تربیت کو خدا کے لیے اور معرفت حق کے لیے حاصل کریں لیکن اگر  تعلیم و تربیت کو صرف مادی ضروریات کی حصول کے لیے حاصل کریں تو معاشرے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔

  تعلیم و تربیت یافتہ افراد ہی مہذب معاشروں کو جنم دیتے ہیں اور پھر پڑھے لکھے معاشروں کے گلستان میں بڑے بڑے علمی شخصیتوں کے  پھول کھلتے ہیں۔ افراد ہی چونکہ زمانوں کے نمائندے ہوتے ہیں اس لئے جن معاشروں میں دانشور، محقق اور مدبر ابھر کر سامنے نہیں آتے وہ معاشرے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔

 تعلیم و تربیت یافتہ معاشروں میں افرادمقصدِ حیات، آخرت کی تیاری، حقوق اللہ ،حقوق العباد  اور آداب اسلامی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ ان چیزوں کا شعور  تعلیم و تربیت سے اُجاگر ہو تا لیکن  تعلیمی  اسناد کے حصول کے بعد بھی اگر کوئی انسان مقصدِ حیات کو سمجھنے سے قاصر رہے ، اپنے روحانی دریچوں کے اندر جھانکنے کی اہلیت سے عاری ہو،آداب اسلامی کو اہمیت نہ دے ،معاشرتی زندگی میں بڑوں کا احترام نہ کرے ،چھوٹوں سے شفقت کا مادہ نہ ہو  تو سمجھ لیں کہ اس نے تعلیمی ڈگری تو حاصل کی ہے لیکن اپنی تربیت نہیں کی۔

بدقسمتی سے پچھلے68 سالوں میں ہم نے  تعلیم کے ہمراہ  تربیت کو اہمیت بالکل نہیں دی اس لئے  تعلیم و تربیتی لحاظ سے گلگت بلتستان کا شمار دنیا کےدور افتادہ علاقوں  میں ہوتا رہا۔ ہمارے  تعلیم و تربیتی  نظام سیاسی نمائندوں کے سیاست کی نذر ہوگیا ہے ، اس وقت کرپشن کا سب سے بڑا منبع ہمارا محکمہ ایجوکیشن ہے ، ہمارے نظامِ  تعلیم میں استادوں کا  Skill Development کی طرف کوئی دھیان نہیں ۔ صرف بچوں کو سکول بھیجنا کافی سمجھ لیا گیاہے ۔

اگرچہ ہمارے بعض بزرگوں کے مطابق"  گلگت بلتستان میں  تعلیم و تربیتی انقلاب آگیا ہے " ان کی  بات  اس زاویے سے توبلکل صحیح ہے  کہ سکولوں میں بے حساب اضافہ ہوا ہے ،ہر کوئی اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں بھیجنے کی کوشش کررہا ہے ۔لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ  کیا یہی  تعلیم و تربیتی انقلاب ہے ؟
کیا  تعلیمی انقلاب سکولوں کے زیادہ ہونے کو کہتے ہیں ؟  کیا انقلاب کے لیے عمارتوں  کی بہتات کافی ہے یا کسی اور چیز کی بھی ضرورت ہے ؟
میرے خیال میں ہرگز ایسی بات نہیں ہے  ابھی انقلاب نہیں آیا بلکہ  تعلیم و تربیتی میدان میں انقلاب لانے کی ضرورت  اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ہے جب تک سرکاری اورپرائیوٹ سکولوں میں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور ہماے معاشرتی ضرورت کے مطابق نظام  تعلیم و تربیت رائج نہیں ہونگا ،جب تک  تعلیم و تربیت کو عام کر کے مساویانہ انداز میں فراہم نہیں کرینگے  اور جب تک  تعلیم و تربیت کو ذریعہ معاش بنانے والوں سے چھین کر حقیقی اور لائق و فائق افراد کے ہاتھوں میں سپرد نہیں کرینگے ،بچے میں خود اعتمادی، اپنی دلیل کیلئے الفاظ کے چناو کا ڈھنگ دوسروں سے اختلاف کرنے کے آداب اور  بزرگوں سے ملنے کے آداب  اور شائستگی  جو کہ مقصد  تعلیم و تربیت ہے نہیں سیکھائینگے انقلاب نہیں آسکتا ۔

موجودہ نظام  تعلیم ،عدمِ تربیت  کی وجہ  سے پہلے سے کہیں زیادہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے ۔ایسی ایسی برائیاں  جنم لے رہی ہیں کہ جن کاماضی میں نام و نشان تک نہیں تھا۔
ہمارے بزرگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت ہماری  تعلیم و تربیت Subject Based  پرہے Concept Based   نہیں یعنی ہم بچوں کو مضمون یاد کروا دیتے ہیں اس مضمون کے اندر پنہاں اسباق اور فلاسفی پر زور نہیں ۔

پورے پاکستان خصوصاً گلگت بلتستان کے معاشرے میں نام نہاد ترقی کی طلب اور دکھاوے کی ڈگریوں نے  معاشرتی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ ۔ بہر حال یہ ایک  حقیقت  ہے کہ  مختلف حکومتیں  تعلیم و تربیتی  اصلاحات کی پالیسی  بناتی رہی ہیں اور پھر یہ پالیسیاں بھی حکومتی مفادات کی نظر ہوتی چلی گئی ہیں۔ اگر ان پالیسیوں  کو سیاسی مفادات سے بالاتر رکھ گر اجرا کیاجائے تو امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔

تحریر۔۔۔۔۔۔سید قمر عباس حسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) فلسطین مظلومیت اور استقامت کی علامت ہے۔فلسطین کی طرح ایک مظلوم منطقہ پاکستان میں بھی ہے۔ گلگت  و بلتستان کا شمار جہاں ملک کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے  وہیں بدقسمت ترین مناطق میں بھی ہوتا ہے۔ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے اور بلندترین انسانی بستیوں کی تہذیب و تمدن سے آشنا ہونے کیلئے ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاح اس علاقے کا رخ کرتے  ہیں۔

 گلگت بلتستان بلند و بالا پہاڑوں ، سرسبزو شاداب وادیوں اور صاف شفاف پانی کے ندی نالوں، جھیلوں اور آبشاروں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے انتہائی پر کشش خطہ ہے۔ اسکردو کے سرد صحرا اور جھیلیں، استور کے سرسبز پہاڑ اور دیوسائی کا پھولوں سے بھرا وسیع ترین میدان کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کیلئے سہولیات نہ ہونےکے باوجود سیاح جوق در جوق یہاں آتے ہیں۔ گلگت بلتستان صرف اپنے برف پوش پہاڑوں، وادیوں اور خوبصورت جھیلوں کی ہی وجہ سے پر کشش نہیں ہے بلکہ بلندترین انسانی تہذیب و تمدن اور ثقافتی تہواروں کی وجہ سے بھی دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے کشش رکھتا ہے۔ ان پہاڑی بستیوں میں بسنے والے انسان صدیوں پرانی تہذیب کے امین ہے۔
 
یہاں کی آبادی 20  لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں کے اکثر لوگ دیہاتوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ جس طرح  یہ خطہ قدرتی طور پر صاف و شفاف ہے آلودگی یہاں پر نہ ہونے کے برابر ہے اسی طرح اس جنت نظیر خطے میں رہنے والے لوگ بھی کردار کے غازی، دل کے صاف و شفاف، محب وطن، مہمان نواز اور اپنے دین و مذہب سے بے حد پیار کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ بلند و بالا، آسمان کو چھونے والے برف پوش پہاڑوں کے درمیان قدرت کی بنائی ہوئی خوبصورت اور سرسبز وادیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کے لوگ محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ محب علم ہیں۔ خطے میں سکول کالجز نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کسی دیہات میں سکول ہے بھی تو وہ بھی پرائمری اور بعض دیہاتوں میں تو سرے سے سکول ہی نہیں چونکہ یہاں کے لوگ تعلیم سے محبت کرتے ہیں اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح سکول بھیج دیتے ہیں۔ یا تو بچے کو روزانہ ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے پیدل چل کر سکول جانا ہوتا ہے یا پھر سکول والے دیہات میں اگر کوئی رشتہ دار ہے تو اس کے ہاں تعلیم کی خاطر رہنا پڑتا ہے۔ جسکی وجہ سے بچے کو بہت ہی چھوٹی عمر میں اپنے والدین سے جدا ہونا پڑتا ہے۔
 
پچھلے 68 سالوں سے اس خطے کے عوام ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ جسکی وجہ سے یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ تعلیم یافتہ بلکہ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود زمینداری اور کشاورزی کرنے پر مجبور ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان پہاڑی علاقہ ہے یہاں پر کاشت کرنے کےلیے ہموار زمینیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہموار میدان موجود ہیں  بھی تو حکومتی اداروں کی عدم توجہ کی وجہ سے بنجر ہیں اور اگر عوام اپنی مدد آپ کے تحت ان کو آباد کرنا چاہیے تو حکومت کوئی نہ کو ایشو بنا کر اس پہ ناجائز قبضہ کر لیتی ہے جسکی زندہ مثال حراموش مقپون داس اور تھک داس دیامر ہیں۔ رات کی تاریکی میں پولیس، رینجرز اور فوج کا گلگت سکردو روڈ سیل کراکے حراموش مقپون داس میں پوری تیاری کے ساتھ آنا اور بلڈوزروں کے ذریعے مکانوں کو بڑی بے رحمی سے مسمار کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔ بلڈوزروں سے مکانات کو تباہ و برباد کر نا یہ تو اسرائیلی فوج کا سٹائل ہے جو کہ وہ فلسطین میں کئی سالوں سے کرتا آرہا ہے۔ اسرائیل تو ایک یہودی اسٹیٹ ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے وہ تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ملک خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان جسکی بنیاد لا الہ الا الله، محمد الرسول الله ہے،  اس کے اندر اپنے ہی لوگوں کے مکانات کو تباہ و برباد کروانا یہ نہ فقط اسلامی اقدار کے خلاف ہے بلکہ انسانی اقدار کے خلاف ہے۔ اور قابل ذکر بات یہاں پر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلمان ریاستی فورسز نے مسجد جوکہ خدا گھر اور قرآن کریم جو اللہ کی کتاب ہے غیر مسلم بھی ان کا احترام کرتا ہے، ان کی حرمت کا خیال نہیں رکھا اور گھروں سمیت مسجد کو بھی شھید کر دیا اور  گھروں سے قرآن مجید گھروں کو تباہ کرنے سے پہلے نہیں اٹھایا اور ابھی تک قرآن مجید گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
 
گلگت بلتستان کے اخبارات میں صوبائی وزیر اطلاعات کا یہ بیان کہ گلگت بلتستان کی انتظامیہ اور خاص طور پر وزیر اعلٰی حفیظ الرحمن صاحب کو پتہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی گھروں کو تباہ کیا گیا ہے بہت مضحکہ خیز ہے۔ جناب وزیر اطلاعات جھوٹ بولنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اگر وزیر اعلٰی حفیظ الرحمن صاحب کو پتہ نہیں ہے تو  پھر پولیس، رینجرز اور  آرمی کس کے حکم پر وہاں آئی ہوئی تھی۔ اور یہ کہنا کہ گھروں کو تباہ نہیں کیا گیا، بہت عجیب ہے۔ زیادہ دیر سفید جھوٹ نہیں چھپتا اب تو سب کچھ واضح ہو چکا ہے مزید جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔ مقپون داس میں تباہ شدہ 120گھروں اور مسجد کے کھنڈرات اور ملبے تلے دبے ہوئے قرآن مجید چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ نواز حکومت کروا رہی ہے۔
 
 حراموش  کے غیرت مند لوگوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں جن کے حوصلے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پست نہیں ہوئے ۔ان پر پتھر برسائے گئے، ان پر گولیاں چلائی گئیں ،ان پر پولیس لاٹھی چارج ہوا، ان کے گھر تباہ و برباد کر دیے گئے ان پر دہشت گردی کی دفعہ لگا کر جیل بھیج دیا گیا۔ تین دن سے بچوں اور خواتین سمیت حکومتی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف دھرنا دے کر اس سردی کے موسم میں روڈ پر بیٹھے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومت کوئی نوٹس لے! الٹا بیانات دے رہے ہیں کہ انتظامیہ کو پتہ نہیں ہے اور کوئی گھر تباہ نہیں کئے گئے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوگ اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں گے ،تھک جائیں گے، ڈر جائیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ نہ یہ کسی سے ڈرتے ہیں،نہ یہ لوگ تھک جائیں گے اور نہ ہی یہ لوگ کسی صورت میں اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں گے چونکہ یہ لوگ جانتے ہیں۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اور خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاشق حسین آئی آر

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree