وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی ابتر صورتحال نے عام شہریوں کو شدید ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ بلوچستان میں نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ شام پانچ بجے کے بعد بلوچستان کے اکثر علاقوں میں سڑکیں ویران ہو جاتی ہیں، اور ایف سی، لیویز و پولیس شہریوں کو روک کر کہتی ہے کہ اس وقت سفر کی اجازت نہیں، جس کے نتیجے میں مسافروں کو اپنا سفر جاری رکھنے کے لئے شام پانچ بجے سے صبح پانچ بجے تک 12 گھنٹے تک صبح کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بم دھماکے روز کا معمول بن چکے ہیں، دہشت گردی اور قتل و غارت نے عوام کا سکون چھین لیا ہے، جبکہ حکومت اور وزیر داخلہ کے بلند و بانگ دعوے محض زبانی جمع خرچ ثابت ہو چکے ہیں۔ بلوچستان میں حکومتی رٹ اور ریاستی کنٹرول مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ آئے روز سرمچار مین روڈ پر قبضہ کر کے لوگوں کی تلاشی لیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل حکومتی جماعت کے ایم پی اے کی تلاشی لے کر اس کے مسلح محافظوں سے سرعام اسلحہ چھینا۔
علامہ ڈومکی نے کہا کہ بلوچستان کے عوام اپنا پیٹ کاٹ کر اربوں روپے سیکیورٹی اداروں کو دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود آج بھی عوام کا مقدر بدامنی، دھماکے اور دہشت گردی ہے۔ ریاستی ادارے صرف دعوے کرتے ہیں، مگر بلوچستان میں عملاً امن نام کی کوئی چیز باقی نہیں۔ کوئلہ کان کے مالکان اپنا کاروبار جاری رکھنے کے لئے بہ یک وقت ایف سی اور بی ایل اے کو پیسے دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے نام پر بہت دعوے کیے گئے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں آج بھی کوئی شاہراہ دو رویہ یا موٹروے نہیں ہے۔ آئے روز کے ٹریفک حادثات، دہشت گردی سے زیادہ انسانی جانیں نگل رہے ہیں۔ مگر کسی کو فکر نہیں۔
علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ بلوچستان کے حالات کو سنوارنے کے بجائے انہیں مزید خراب کیا جا رہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ بلوچ عوام کے ساتھ مفاہمت کی جائے اور ناراض بلوچوں سے سنجیدہ مذاکرات کیے جائیں۔
انہوں نے جنرل مشرف کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت جنرل مشرف اور ریاستی ادارے کہتے تھے کہ پورا بلوچستان ہمارے کنٹرول میں ہے سوائے تین سرداروں کے۔ آج وہ تین سردار بھی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، مگر آج بلوچستان کے حالات پہلے سے زیادہ بدتر ہیں۔ تو اب مقتدر ادارے جواب دیں کہ آخر بلوچستان میں امن کیوں بحال نہیں ہو پا رہا؟
علامہ ڈومکی نے کہا کہ جب عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالا جائے، مقبول عوامی رہنماؤں کو جیل میں بند کیا جائے اور جعلی مینڈیٹ کے حامل خوشامدیوں کو اقتدار میں لایا جائے تو پھر ملک خصوصاً بلوچستان کے حالات کبھی بھی بہتر نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے حکومت اور مقتدر اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں، عوامی رائے کا احترام کریں، امن و انصاف کو یقینی بنائیں اور بلوچستان کو مزید محرومیوں کی طرف دھکیلنے سے گریز کریں۔